پروفیسر سید حسن عسکری معاصرین کی نظر میں
محمد شمیم ، ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو
باباصاحب بھیم راو امبیڈکر بہار یونیورسیٹی،مظفرپور
حسن عسکری صرف ایک شخصیت کا نام نہیں ہے، بلکہ اپنے عہد کے ایک علمی،ادبی اور تہذیبی تحریک کا نام بھی ہے۔سید حسن عسکری کا بنیادی رشتہ تاریخ سے تھا۔وہ تاریخ کے بہترین استاد اور مستند و ایماندارمحقق تھے۔ وہ تاریخ کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کے سچے عاشق اور بے لوث خدمت گزار بھی رہے۔بالخصوص اردو ادب کی تحقیق وتنقید کے باب میں ان کے امتیاز ات روشن ہیں۔ جہاں انہوں نے تاریخ و اردو ادب کے مابین رشتے کی ایک نئی منطق دریافت کی ہے، وہیں تحقیق کے ابعاد عطا کئے۔ اردو ادب میں ان کی دین یہ ہے کہ انہوں نے ادب اور تاریخ کے مابین توازن اور ہم آہنگی کی شروعات کی۔ اور ان دونوں کے اشتراک کو ارتباط میں تبدیل کردیا ہے۔ انہوں نے ادبی اور تحقیقی دانشوری میں اپنی الگ شناخت قائم کی اوراردو تحقیق میں سنجیدہ،فکری و علمی روایت کی کامیاب کوشش کی اور تحقیق کونئی فضاؤں اورنئے آفاق سے ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
وہ ان عبقری شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے پوری زندگی خلوص اور نیک نیتی سے لوح و قلم کی پرورش کی۔ان کے مضامین نہ صرف معلومات کا بیش بہا خزانہ ہیں ، بلکہ اعتدال پسندی،اصلیت اور علمیت جیسی خصوصیات ان کی تحریروں کا لازمہ ہیں۔وسیع مطالعوں سے انکی تحریروں میں فکری پختگی، استدلالی قوت اور مناسب پیرایہ ء بیان کے خصائص پیدا ہوگئے تھے۔ وہ پورے ملک ہی نہیں بلکہ بر صغیر میں علمی، ادبی اور تاریخی منظر نامے پر چھائے رہے۔ عصر حاضر میں بھی مختلف شعبہ ہائے علمی و تہذیبی زندگی میں ان کے اثرات نمایاں ہیں۔
حسن عسکری بہار کے علمی،ادبی اور تہذیبی منظر نامے میں پہلے ایسے شخص ہیں، جنہوں نے اردو ادب کے مختلف موضوعات کو تاریخ کی چاشنی میں ڈبو کر قارئین کے سامنے پیش کیا۔ اردو میں لکھا ہوا ان کا شاید ہی کوئی ایسا مقالہ ملے گا جس میں تاریخ کا عکس نہ ہو۔
اردو میں ان کی خدمات زیادہ تر مقالات یا مضامین کی شکل میں رہی ہیں ۔ تقریباِّ پچاس مضامین مختلف قومی اور بین الاقوامی مجلوں اور جرائد میں شائع ہوئے۔اجاگر چند الفت کا اردو کلام ، ہندی فنون ولطیفہ اور چنداین کی چند تصویریں، دکنی ارو مخطوطات پر ایک نظر، ۔ اردو ہندی زبانیں، شمالی ہندوستان کے صوفیائے کرام کی ہندی دوستی، جائسی اور چند مسلمان ہندی شعرا کے کلام کا ایک ہندی نسخہ ، افسانہ بادشاہان یا تاریخ افغانی کا ایک کمیاب نسخہ، قرون وسطٰی کے بہار میں اسلامی تصوف کی تاریخی اہمیت، ۔بہار شریف میں قلمی نسخوں کے ذخیرے ، زین الدین کی طبقات بابری ، اولین مسلمان اور دیسی بھاشائیں، ۔ قاضی صاحب: عالم اور انسان جیسے عنوان پر ان کے مضامین خاصے مقبول ہوئے۔
پروفیسر حسن عسکری نے تاریخ کے ساتھ اردو زبان و ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں، ان کے کارناموں اور اردو خدمات کا اعتراف عہد حسن عسکری کے نامور مورخین اور ناقدین و محققین نے بھی کیا ہے۔ حسن عسکری کا دور بڑا سنہرادور تھا ۔ان کے زمانے میں پروفیسر قیام الدین،پروفیسر امتیاز احمد، پروفیسر امام الدین، منیر الحق،پروفیسر قمرالدین،پروفیسراملندردوبے، پروفیسر جگدیش نارائن سرکار، جناب تاراچند اور جناب جادو ناتھ سرکار جیسے اہم مورخین کی طوطی بول رہی تھی۔ اسی طرح ادیبوں ، دانشوروں اور ناقدین و محققین میں قاضی عبدالودود، ڈاکٹر نذیر احمد،ڈاکٹر امیر حسن عابدی، عطا کریم برق، ڈاکٹر نبی ہادی، ڈاکٹرآل احمد سرور،احتشام حسین اور کلیم الدین احمد جیسےعبقری شخصیات سے ان کے گہرے روابط تھے۔سب ان کا احترام کرتے ۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہر سیمینار میں کوئی نہ کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیا کرتے تھے جو تمام مندوبین کو سوچنے پر مجبور کر دیا کرتا تھا۔
شعبہ تاریخ سے تعلق رکھنے کے باوجود اردو ادب، تہذیب و ثقافت اور مذہب کا بھی بلند وبالیدہ عرفان رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انگریزی کے علاوہ فارسی زبان و ادب پربھی گہری نظر رکھتے تھے۔ بالخصوص فارسی اور اردو مخطوطات اور ان کی تدوین و تحقیق کے میدان میں بھی بہتوں پرانہیں سبقت حاصل تھیں ۔ فارسی مخطوطات کے انگریزی تراجم میں انہیں مہارت بھی حاصل تھی۔ ان کی تحقیقی فتوحات و عظمت ان کی علمی و ادبی حیثیت پر غالب رہی۔ اس لئے اردو ادب کے حوالے سے ان کی انفرادیت، ناقدانہ حیثیت اور ادبی خدمات کو زیادہ تر نظر انداز کیا گیا۔ بلاشبہ ان کے انگریزی اور اردو مقالوں کے مجموعے تو شائع کیے گئے ہیں۔لیکن ان کے اردو مقالات کا مناسب طور پر نہ تو تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور نہ ہی تجزیاتی مطالعہ کیا گیا شاید اس کی ایک وجہہ یہ رہی ہو کہ وہ اردو زبان و ادب سے بالواسطہ منسلک نہیں تھے۔
حسن عسکری کے مقالات کئی جلدوں میں ملتے ہیں ۔ ان مقالات میں جن موضوعات و مسائل پر بحث کی گئی ہیں، ان میں حیرت انگیز تنوع ملتا ہے۔بیسویں صدی کے اوائل حصے کی بنجر ذہنی فضا اور مسموم علمی و ادبی ماحول میں سید حسن عسکری کی ذہنی دلچسپیاں کتنی جامع،وسیع اور متنوع تھیں ان کا پتہ ان کے مقالات سے چلتا ہے۔وسیع مطالعے نے ان میں یہ شعور پختہ کر دیا تھا کہ علمی و ادبی حقائق اور تحقیقات کی صداقتیں کسی کی جاگیر نہیں بلکہ یہ علمی و ادبی تحقیق سے مشروط ہے۔
یوں توحسن عسکری کی شہرت و شناخت مورخ کی حیثیت سے ہے، لیکن ان کی تحقیقی تحریروں کو جو انہوں نے صفحہء قرطاس پر بکھیرے ہیں ، ان کی علمی حیثیت بھی ہے اور ادبی و تاریخی بھی۔ ان کے مقالوں اور دیگر تحریروں کی جو بھی قدروقیمت ہو،اپنے اطمینان قلب کے لئے یہی کافی ہے کہ یہ ضائع نہیں ہوئے ۔
سید حسن عسکری بھی تاریخ عہد وسطی کے پروفیسر اور خلیق احمد نظامی بھی اسی شعبے کے پروفیسر تھے۔دونوں میں بڑی قربت تھی۔ پروفیسر موصوف کو عسکری صاحب لفظ ’’مشفقی‘‘ سے یاد کرتے تھے۔
پروفیسر سید حسنین نے ’’ مقالات سید حسن عسکری‘‘ ترتیب دیا تو ” پیش لفظ” خلیق احمد نظامی سے لکھوایا، حسن عسکری کی شخصیت سے متعلق پروفیسر خلیق احمد نظامی نے اس طرح اظہار خیال کیا ہے۔
“عسکری صاحب کی ذات بہار ہی کے لئے نہیں بلکہ پورے بر صغیر کے لئے سرمایہء افتخار ہے ۔انہوں نے منصب و منفعت دونوں سے بالاتر ہو کر برس ہا برس صرف تاریخ و ادب کی خدمت کی ہیں۔وہ عرفی کی زبان میں کہہ سکتے ہیں ۔ ؎
ملال عالمیاں دم بدم دگر گوں است منم کہ مدت عمرم بہ یک ملال گذشت
خدا بخش لائبریری سے کتنے ہی تشنگان علم نے استفادہ کیا ہوگا لیکن اس کے در و دیوار نےعسکری صاحب جیسا علم کا شیدائ شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔وہ برسوں “کرم کتابی” کی طرح مخطوطات سے چپکے رہے ہیں۔بلکہ کتابوں کو ہی اپنا نشیمن بنا لیا ہے۔تحقیق اور تلاش کا جو جذبہ انکے نحیف ونزار جسم میں، جو بیماریوں سے خستہ جان ہو چکا ہے کروٹیں لیتا نطر آتا ہے،وہ انکے بعد شایدہی کبھی دیکھنے کو ملے ۔وقت کی کوئ رفتار ہو ۔حالات مساعد ہوں یا نہ ہوں ان کے علمی معمولات میں کبھی کوئ فرق نہیں آتا ۔مخطوطات کی تلاش میں انہوں نے میلوںسا ئیکل پر سفر کئے ہیں اوربےپناہ محنت ومشقت سے حاصل کئے ہوئے علمی فوائد کو اپنے شاگردوں پر اس طرح عام کر دیا ہے ،کہ خود فیاضی اور وسیع القلبی کو ان پر رشک آ جائے ۔علم ان کی نظر میں خود ایک قدر ہے جسکو کسی دوسری قدر کے تابع نہیں کیا جا سکتا ۔مبالغہ نہ ہوگا اگریہ کہا جائے کہ وہ تلاش کتب میں صوفیوں کے طرز کی ریاضت کرتے ہیں اور اس محنت کے نتائج قلندرانہ انداز میں صرف کر دیتے ہیں “
پروفیسر سید حسنین نے” مقالات سید حسن عسکری “میں حسن عسکری کی شخصیت پر اس طرح روشنی ڈالی ہے ۔
“کسی فردمیں وسیلہ،معاش اور استطاعت طبعی اگر جان اور تن والی بات ہو جائے تو منصب اور معاش کا یا اتحاد، کاروان رو براہ کے لئے ستارہ ٔ سمت ہو جاتا ہے ۔یہ انضباط، انضمام، نہ صرف فرد کی پیشہ ورانہ کامیابی ہے بلکہ اسکے اولوالعزمی کی بامرادی بھی ۔تدریس و تعلیم اور مطالعہ پروفیسر عسکری کا محض پیشہ نہ تھا ۔ ایک شوق بے پناہ تھا۔مطالعہ ، بالخصوص نایاب و قدیم مطبوعات اور مخطوطات کا مطالعہ انکے معمولات کا فر يضہ تھا ۔ علم تاریخ سے انکی بے پایاں دلچسپی، عمر کے ساتھ ساتھ اس طرح بڑھتی گئ کہ اسکی رفتار باروش پر زمانہ اور حالات کے وقتی ناسازگار تقاضے بھی اثرانداز نہ ہوتے۔وہ طبعاً ایک صادق معلم تھے، مزاجاً خادم علم اور عملاً ایک صوفی ۔ حصول علم اور علم بخشی ان کا شعار و کردار تھا اور اسی احساس وخمار کے ساتھ وہ تا حیات تیز قدم اور ثابت قدم رہے ۔ان میں حوصلہ تھا ،حرص نہ تھی۔درویشی تھی، جاہ طلبی نہ تھی۔وہ کام پسند تھے،نام پسند نہ تھے۔ان میں چاہ اور نباہ کا وہ مساوی رویہ تھا جو ہر کا ظرف نہیں . تلاش پروفیسر عسکری کی شہرت کا جوہر ہے ،والہانہ اور بے تابانہ تلاش۔ ان میں تلاش وتجسس اور دیددریافت کی یہ خلش یا خواہش، مطبوعات ہوں یا مخطوطات ، اشخاص ہوں، یا عمارات ہوہر جگہ بلا کم وکاست سر گرم عمل رہی ہے ۔تاریخی صداقت کی تحقیق و تفتیش کی خاطراس” قیس الادب”نے سرزمین بہار کو روند ڈالا تھا ۔ کہاں کہاں اور کس کس جتن سے وہ ایسے دفینے اور دستاویز ڈھونڈ نکال لیتے، جسکی دستیابی کسی دوسرےسے ممکن نہ تھی۔بہار کا یہ مردنحیف و حنیف اپنی تاریخی سر گرمیوں اور قلمی فتوحات کے بموجب اپنے عہد کا کولمبس تھا اور سکندر بھی۔”
کلیم الدین احمد نے عسکری کی تحریروں کے بارے میںیوں رقم کیا ہے۔
“عسکری صاحب اشارات سے، مخففات سے ، ہندسوں سے کام نہیں لیتے ہیں ۔وہ ہر بات تفصیل سے کہتے ہیں اور اس تفصیل کے بعد بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں پوری تشفی نہیں ہوتی ہے ۔انکے جملے طویل اور کبھی کبھار الجھے ہوئے ہوتے ہیں ۔قاضی صاحب کی طرح چھوٹے،سلجھے ہوئے نہیں ہوتے ہیں لیکن یہ بات ابھرتی ہے کہ جس موضوع پر لکھتے ہیں اس سے ان کو شغف ہے اور اسے وہ چھوڑنا نہیں چاہتے۔میں نے دیکھا ہے کہ اکثر انکے مضامین کی کتابت ہو جاتی ہے اور کاپیاں ان کے تصحیح کے لئے بھیجی جاتی ہیں ، تو وہ صرف تصحیح ہی نہیں کرتے بلکہ نفس مضمون میں اضافہ کر دیتے ہیں اور صرف آخر ہی میں نہیں ،جس جگہ کوئ نئ بات خیال میں آ گئ، کاتبوں کو اس سے دشواری ہوتی ہے اورمیں یہ بھی لکھ دوں کہ عسکری صاحب اپنا لکھا شاید خود بھی نہیں پڑھ سکتے ۔عسکری صاحب تفصیل سے لکھتے ہیں۔ ان کے جملے لمبے اور کبھی کبھار الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے لکھنے کا طریقہ سانٹفک بالکل نہیں ۔ اور پھر یہ بھی وہ لکھتے ہیں تو اپنے موضوع سے علحدہ ہو کر نہیں۔ اس لئے اکثر وہ موضوع کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں ۔ اور اسپیسل پلیڈنگ کرنے لگتے ہیں۔ “
ڈاکٹر (فادر) پال جیکسن اسلامی تصوف کے مستشرق کی حیثیت سے عالمی شہرت کے حامل تھے۔انہیں پروفیسر سید حسن عسکری کی نگرانی میں مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحیی ٰمنیری کی حیات وتعلیمات پر ۱۹۸۰ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے پی ایچ،ڈی کی ڈگری ملی۔فادر پال جیکسن ایک نامور محقق تھے۔ پروفیسرعسکری کے متعلق ان کے تاثرات ذیل میں قلمبند کئے جاتے ہیں :
” بہار کی مردم خیز سرزمین نے جہاں مختلف مذاہب کے رہنماؤں ، مفکروں ، صوفیوں اور سنتوں کو جنم دیا۔ وہیں مختلف علوم و فنون اور سائنس کے ایسے قد آور سائنسدانوں ، عالموں ، مفکروں ، مورخوں ، محققوں اور ادیبوں کو بھی کتم عدم سے عالم وجود میں لایا ہے، جنہوں نے ہندوستان ہی نہیں ساری دنیا کو اپنے کارناموں سے روشنی بخشی ہے۔ ایسی ہی جلیل القدر شخصیتوں میں علم و عمل کے پیکر ، رفتار، گفتار اور کردار میں یکتائے روزگار، سادگی ، انکساری اور خاکساری میں بے مثال ، صالح فکر اور انسانی قدروں کے علم بردار ، تاریخ و تحقیق میں نابغہ ٔ روزگار، بے نفس عالم اور مورخ پروفیسر سید حسن عسکری مرحوم کی ذات والا صفات تھی جو اپنی زندی ہی میں اساطیری کردار بن چکے تھے۔ انہوں نے صلہ اور شہرت سے بلند ہو کر نہایت خاموشی سے اپنی علمی اور تحقیقی کاموں کو انجام دیا۔”
اردو زبان و ادب کے نامور ادیب و محقق پروفیسر احمد سجاد نہ صرف ان کی عالمانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہیں بلکہ ان کی خاکساری کا بھی خاص طور سے ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
“اصل میں عسکری صاحب فنا فی التاریخ و مخطوطات تھے اس لیے انہیں اپنے جسم و جان اور لباس و پوشاک اور وضع داری کا زیادہ خیال نہیں رہتا تھا۔ مشہور تھا کہ ان کی سائیکل کے کیرئیر پر ان کی بکری کے لیے گھاس اور پتے کی کوئی نہ کوئی گٹھری ضرور رہتی۔ سچ تو یہ ہے کہ سج دھج سے اسی بے نیازی نے انہیں علم وادب اور تاریخ کے ان بیش بہا گوشوں کو بے نقاب ہونے کا موقع دیا۔ جو شاید دوسروں کے بس کا نہ تھا۔ ان کے بعض تحقیقی مقالوں نے اردو کے سینئر اساتذہ کو اپنی پی ایچ۔ ڈی اور ڈی ۔لٹ ڈگری کے حصول کا ذریعہ بنا دیا۔ اردو میں پہلی بار ” مثنوی گوہر جوہری” کا انکشاف پروفیسر حسن عسکری صاحب ہی نے اپنے ایک مقالہ میں کیا تھا۔ جس کی بنیاد پر پروفیسر صدر الدین ،صدر شعبہء اردو پٹنہ یونیورسٹی نے اپنی ڈی ۔لٹ ڈگری کا تحقیقی مقالہ مکمل کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ آج ایسے عالم باعمل اور فنافی العلم و تاریخ دنیا میں شاید ناپید ہیں۔”
شعبہ تاریخ سے وابستہ ہونے کے باوجود پروفیسر حسن عسکری نے اردو زبان و ادب کے میدان بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ ان کے کارہائے نمایاں کا اعتراف مورخین کے علاوہ اردو کے ناقدین و دانشوران بھی کرتے ہیں، اردو دنیا میں حسن عسکری کا نام بہت ہی احترام سے لیا جاتا ہے، ان کے کارنامے اعتبار و استناد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ راقم الحروف کا یہ مقالہ پروفیسر سید حسن عسکری کے لئے اظہار عقیدت ہے۔
مآخذ:
- اوراق پارینہ ، پروفیسر انوار الحق تبسم، پٹنہ
- معاصر کا توضیحی اشاریہ ، ص-182، خدا بخش جرنل- ش- 130،
- بہار کی بہار عظیم آباد۔ بیسویں صدی میں (ج اول )، اعجاز علی ارشد، پٹنہ،
- ہندوستان کے عہد وسطیٰ پر مقالات، پروفیسر سید حسن عسکری،
- سہ ماہی زبان و ادب ، بہار اردق اکادمی ۔ پٹنہ مارچ۸۲
- سہ ماہی زبان و ادب ، پٹنہ ۹۸۲ ۱ ء
- پروفیسر سید حسن عسکری :یادوں کے آینے میں ۔ عقیلہ، پٹنہ
Leave a Reply
Be the First to Comment!