حرف آغاز
پچھلے دنوں پرتھم بکس اور دہلی اردو اکادمی کے اشتراک سے بچوں کے ادب پر منعقد ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا۔ ورکشاپ میں ایک بات کھل کرسامنے آئی کہ ہمارے یہاں بچوں کا ادب بہت کم لکھا جارہا ہے۔ ہمارے یہاں جو تھوڑا بہت ادب بچوں کے نام پر ہے بھی تو وہ غیر تشفی بخش اور روکھا پھیکا ہے۔ یہ کتابیں بچوں کی توجہ اپنی جانب کھینچنے میں ناکام ثابت ہورہی ہیں۔ اردو میں کئی رسائل ایک عرصہ سے بچوں کا ادب پیش کررہے ہیں۔ ان میں سے کچھ بند ہوگئے لیکن کئی رسائل اب بھی نوخیزوں کی تربیت کا کام کررہے ہیں۔ ان رسائل میں ’پیام تعلیم‘ ، ‘ہلال’، “نور” اور ’امنگ‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ نئے زمانے اور اس کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کہ وجہ سے ان کی چمک ماند پڑتی نظر آرہی ہے۔ آج کا سماج بدل گیا ہے۔ اب بیسویں صدی یا انیسویں صدی کے بچے سے ہمارا واسطہ نہیں ہے۔ آج کے بچوں کے پاس معلومات حاصل کرنے کے وسائل ہیں۔ وہ اب بہت کچھ جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی کے بچوں کے لیے ادب لکھنا زیادہ مشکل ہے ۔ اکیسویں صدی کے بچوں کا ادب کس طرح لکھا جائے اس کے لیے ادارہ پرتھم بکس برابر کوشش کررہا ہے۔ قارئین کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ اس غیر منفعت بخش ادارے نے اردو میں بچوں کے ادب پر تقریباً دو سو کتابیں شائع کی ہیں۔ یہ لوگ صرف کتابیں شائع کر کے گھر نہیں بیٹھ گیے، انہوں نے ہندوستان کے دور دراز کے گاؤ ں جاکر بچوں تک کتابیں پہنچائی ہیں، ہزاروں گاؤں گود لیا ہے۔ یہ سب کچھ بہت خاموشی کے ساتھ کیا۔ ہمارے روایتی اردو اداروں کی طرح شور شرابہ کیے بغیر یہ کام کیا ہے۔ اردو ہی میں نہیں پرتھم بکس نے ہندوستان کی تقریبا سبھی زبانوں میں کتابیں شائع کی ہیں۔ عام طور پر اردو کو مسلمانوں سے جوڑدیا جاتا ہے۔ اردو کا نام آتے ہی مسلمانوں کی صورتحال پرگفتگو ہونے لگتی ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اس ورکشاپ میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پرتھم بکس کی طرف سے ٹریننگ دینے والے یہاں تک کہ اردو اکسپرٹ بھی غیر مسلم تھے۔ محترمہ پونم کی تقریر سن کر ہمیں اپنی اردو پھیکی اور بدمزہ لگنے لگی۔ یہ دکھ کر ہمیں خوشی ہوئی کہ پرتھم بکس کی ٹیم اردو کی ترقی کے لیے کام کررہی ہے۔ وہ اردو ادب اور لٹریچر کو دوسری ترقی یافتہ زبانوں کے ادب کے معیار پر لے جانا چاہتے ہیں۔ راقم الحروف کے علم میں اب تک کسی بھی اردو پبلشر نے اس قسم کا ورکشاپ نہیں کیا ہے جس میں بچوں کے لیے لکھنے والے نئے اور پرانے قلماروں کو بلاکر ان سے کہانیاں لکھوائی گئی ہوں۔ ان پر کھلے عام گفتگو ہو ئی ہواور پھر ہر عمر کے بچوں کے لیے کہانیاں کس طرح لکھی جائیں اس کا طریقہ بتایا گیا ہو۔ حالانکہ ہمارے یہاں اس قسم کے ورکشاپ کی شدید ضرورت ہے۔ اس سے نئے قلم کاروں کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ یاد رکھیں اگر ہم اپنی ادبی وراثت کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا چاہتے ہیں تو نئے قلم کاروں کی تربیت ضروری ہے۔ میں پرتھیم بکس اور اردو اکادمی دہلی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ دونوں ادارے مستقبل میں بھی اس قسم کے ورکشاپ کرتے رہیں گے۔
اردو ریسرچ جرنل کا یہ پانچواں شمارہ ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ جرنل سے ریسرچ اسکالر اور اساتذہ جڑ رہے ہیں۔ مضامین کی کثرت کی وجہ سے ہمارے لیے ہر مقالہ کو شامل کرنا مشکل ہوتا ہے اس وجہ سے ان سبھی احباب سے معذرت خواہ ہوں جن کے مقالے اس شمارے میں شائع نہیں ہوسکے۔ ان شاء اﷲ اگلے شمارے میں انہیں شامل کیا جائے گا۔ اس شمارے میں ہندوپاک کے قلمکاروں کے کئی اہم مقالے شائع کیے جارہے ہیں۔ جن میں محمد رؤوف صاحب کا مقالہ’اردو ادب کے روایتی کردار، نوآبادیاتی تناظر میں‘ ، جناب مہر محمد اعجاز صاحب کا ’اردو ڈکشنری بورڈ کی اردو لغت نویسی کے حوالے تحقیقی خدمات‘ اور ڈیومیتھیوز کا تحقیقی مقالہ اردو ان انڈیا کا اردو ترجمہخاص طورپر قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ اس شمارے میں آپ ڈاکٹر مشتاق صدف ، ڈاکٹر جعفر احراری، نوید حسن ملک، ڈاکٹر مشتاق حیدر اور شہاب ظفر اعظمی کے گرانقدر مضامین پڑھیں گے۔ شہاب ظفر اعظمی صاحب کا مقالہ ہم عصر اردو افسانہ کے فکری سروکار بہت معلوماتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابجد اور سہیل میں شائع ہونے کے باوجود ہم اس کو شائع کررہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان مقالات سے ہمارے ریسرچ اسکالر س کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ اردو ریسرچ جرنل کی طرف سے ہم ان قلم کاروں کا اور جرنل میں شامل دوسرے مقالہ نگاروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں بھی ہمارے ساتھ اسی طرح تعاون کرتے رہیں گے۔
کسی بھی رسالے کی کامیابی کے لیے قارئین کا ردعمل کی بہت اہم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہم اپنے تمام قارئین سے التماس کرتے ہیں کہ وہ رسالے پر اپنی رائے ضرور دیں تاکہ ہم اس کی روشنی میں رسالہ کو بہتر سے بہتر بناسکیں۔
Leave a Reply
3 Comments on "حرف آغاز"
[…] حرف آغاز← […]