اُردُو تنقید میں سلیم احمد کا مقام

دبیر عباس، اسسٹنٹ پروفیسر( اُردُو)،گورنمنٹ ڈگری کالج میانی(سرگودھا)۔پاکستان

Saleem Ahmed was an Urdu critic and rhetorcian, whom rhetorical figures and syntactical patterns not only produced a unique literary style but also contributed a lot to Urdu criticism. He made theoratical criticism as well as practical. His practical criticism covers a number of classic and modern poets and their work.           Saleem Ahmed’s resemblance and relevance with his mentor, renowned Urdu critic, Muhammad Hassan Askari has also been considered. In this article, Salim Ahmed’s criticism has been critically examined to evaluate his contribution to Urdu Crtiticism.

                کہا جاتا ہے کہ شاعری الگ چیز ہے اور تنقید الگ۔ ان دونوں کا ایک شخصیت میں یک جا ہونا مشکل ہے۔ بہت سے شعر کہنے والے ایسے ہیں جو اچھے اور برے شعر کی تمیز نہیں رکھتے اور بہت سے شعر کے ناقدین، ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکتے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کیوں کہ شعر کو پرکھنے کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہے، عام حالا ت میں وہ ایک شاعر میں نہیں ہوتیں۔ لیکن اِس کے باوجود اُردو ادب میں شعر کہنے والوں کی ایک خاصی تعداد ایسی گزری ہے جو شعر کے محاسن و معائب کا مذاق رکھنے کے ساتھ ساتھ شعر کا اچھے معیارات قائم کرکے اپنے تنقیدی شعور کا ثبوت دے گئی۔ مثلاً میرؔ، غالبؔ، حالیؔ اور اقبالؔ سے لے کر فراقؔ اور فیضؔ تک سب نے اچھے شعر بھی لکھے اور نثر بھی اور معیارِ تنقید قرار پائے۔ سلیم احمد بھی انھی میں سے تھے ۔ وہ بھی میرؔ و غالبؔ، حالیؔ و اقبالؔ اور فراقؔ و فیضؔ کی طرح شاعری بھی کرتے تھے اور تنقید بھی۔ اور جتنے اہم شاعر تھے، اتنے ہی اہم نقاد ۔

                سلیم احمد ایک جامع، مکمل، رنگا رنگ اور منفرد و نایاب شخصیت کے مالک تھے۔ مشاہداتی آنکھ اور تجزیاتی دماغ انھیں قدرت نے دیا اور وسیع بین العلوم مطالعے نے اُن کے مشاہدے اور تجزیّے کو چار چاند لگا دیے۔ بے لاگ شخصیت کے مالک اور فنِ گفتگو میں ماہر سلیم احمد ایک وقت میں شاعر، نقاد، کالم نگار، ڈراما نگار، مفکر اور ادیب سبھی کچھ تھے۔اُن کی صلاحیتیں اور قابلیتیں خصوصاً شاعری اور تنقید کے میدان میں کھل کر سامنے آئیں۔ اُن کی شاعری میں بڑا وزن اور تنوّع جب کہ تنقید میں بڑا وقار اور پھیلائو ہے۔ اُن کی تنقیدی تحریریں معانی و اُسلوب دونوں سطحوں پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ اُن کی تنقید میں نقطئہ نظر کا اچھوتا پن بھی ہے اور نظر کی گہرائی بھی۔ سلیم احمد کے تنقیدی موضوعات اور اُن کا اسالیبِ بیاں دُرست مگر اصل سوال یہ ہے کہ وہ تنقید لکھتے کیوں تھے؟

                سلیم احمد کے لیے تنقید کوئی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ یہ اُن کے لیے دل لگی کا سامان یا وقت گزاری کا بہانہ نہ تھی بلکہ زندگی، روح، سچائی، حُسن اور خیر کا نام تھی۔وہ لفظ نہیں لکھتے تھے بلکہ لفظ خود انھیں لکھواتے تھے۔ لکھنا اُن کے لیے عبادت تھا اور تنقید اُن کے لیے روزوشب کی تسبیح اور وظیفہ ٔحیات تھی۔ وہ یہ کہتے تھے کہ آدمی کو اپنے تخلیقی بہائو کا تمام تخلیقی امکانات سے بخوبی واقف ہونا چاہیے۔ ایک بار انھوں نے خواجہ رضی حیدر کو یوں نصیحت کی:

تنقید لکھنے پر توجہ دو ۔ شاعری ضروری ہے، لیکن اگر کوئی شاعر نثر بھی لکھتا ہے تو وہ نہ صرف اپنی ایک مخفی جہت کو دریافت کرتا ہے، بلکہ اُس میں دوسروں کی شاعری میں جھانکنے کی استعداد بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ تنقید کا فن آدمی میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔۱؎

                 سلیم احمد کی تخلیقی شخصیت میں بلا کا اعتماد تھا اور یہ اعتماد یقیناً اُن کے تنقیدی شعور کی وجہ سے اُن کی شخصیت میں پیدا ہوا تھا۔ اسی اعتماد کے باعث وہ بحیثیت ناقد اونچے مرتبے سے سوالات اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اُن کی فکر اور اُن کے خیال سے چاہے کوئی اختلاف ہی کیوں نہ کرے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جو سوالات وہ اپنی تحریروں میں اٹھاتے ہیں، وہ تنقید کی پیشہ ورانہ ضرورتوں سے نہیں اُن کی اپنی خود اعتمادی سے پیدا ہوتے ہیں۔ سلیم احمد نے اپنی اس خود اعتمادی کو اپنے مرشدِ معنوی پروفیسر محمد حسن عسکری سے منسوب کیا ہے اور لکھا ہے۔

میں عسکری صاحب پر کچھ کہتا ہوں تو اس کی وجہ صرف اتنی ہے کہ عسکری صاحب نے مجھ جیسے چھوٹے آدمی میں بھی وہ خود اعتمادی پیدا کی جس کے بغیر میں کچھ لکھنا لکھانا تو کیا زندہ بھی نہیں رہ سکتا تھا۔۲؎

                 سلیم احمد کو محمد حسن عسکری سے والہانہ عقیدت اور محبت تھی۔ وہ انھیں اپنا اُستاد اور مرشد ہی نہیں ، اپنا سب کچھ  مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میرے چاروں طرف اندھیرا ہو تو عسکری میرا روشن چراغ ہیں، میں زخم کھا کر بھاگتا ہوں تو انھی کی طرف کہ وہ میرے زخم کا مرہم ہیں، میں مایوس ہو کر پلٹتا ہوں تو انھی طر ف کہ وہ میر ی امید ہیں،میری روح کا اسرار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلیم احمد نے بھی عسکری کی طرح عام روش سے ہٹ کر اپنی تنقید میں مختلف تکنیکی اسالیب اختیار کیے ہیںجو اردو میں سوائے عسکری کے کہیں اور نظر نہیںآتے۔سلیم احمد اس بات کا اعتراف اپنی طویل نظم ـ” مشرق” میں یوں کرتے ہیں۔

مجھے عسکری نے وہ نسخہ بتایا

اسے لکھ رہا ہوں اعادے کی خاطر

کہا چاہتے ہو کہ ٹالو بلا کو

یہ سانچہ تو ہے روح کا ایک زنداں

یہ ہوتا ہے پہلے تو نرم اور کچا

جتن کوئی کیجیے بدلتا نہیں ہے

کوئی طرزِ احساس چھوڑے تو ٹوٹے

مگر میں تمہیں ایک نسخہ بتا دوں

تم ایسے اس کم بخت سانچے کو توڑو

نئے لفظ لکھو جو اتنے کڑے ہوں

مجھے خوف تھا ہاتھ سے بات جائے

کہیں یہ نا ہو مفت بدنام ہو کر

جو تھوڑا بہت کام ہے بھول جائوں

مگر مجھ کو رہبر جو کامل ملا تھا

کبھی مجھ سے کہتے چمار آپ لکھیے

کوئی معترض ہو تو کہیے یہ فوراً

کہ میں تو فقط قافیے جوڑتا ہوں

کہ ردِ بلا کا وظیفہ سکھایا

نئے شاعروں کے افادے کی خاطر

جو ہے ذہن میں ایک تیار سانچہ

قیامت ہے گر اس میں پھنس جائے انساں

مگر بعد میں مثلِ فولاد پکا

کوئی اس میں پھنس کر نکلتا نہیں ہے

کہ یہ روح کو اپنی توڑے تو ٹوتے

اگر مان لو حل تو مشکل گرا دوں

نئے لفظ لکھو، گئے لفظ توڑو

کہ جیسے کہیں دل میں پنجے گڑے ہوں

کہیں مجھ سے پھر شعر ہو بھی نہ پائے

نیا تجربہ کر کے ناکام ہو کر

جو تھوڑا بہت نام ہے سو گنوائوں

تو آسان میرا ہر یک مرحلہ تھا

ایسے ہی لفظ دو چار آپ لکھیے

کہ معنی تو ہیں لفط میں اتفاقاً

یہ معنی کا کام آپ پہ چھوڑتا ہوں  ۳؎

                اس پورے اقتباس سے سلیم احمدکے ادبی منشور کی عکاسی ہوتی ہے جو یقیناً محمد حسن عسکری کے زیرِ اثرتشکیل پایا۔ سلیم احمد نے تمام عمر اپنے عمل سے بھی اور اپنی تنقیدی بصیرت سے بھی اس منشور پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی یوں ہوئے کہ تخلیق و تنقید کے حوالے سے اُس مقام و مرتبہ پر فائز ہو گئے کہ جہاں اُن کا کوئی ہم عصر دور نزدیک دکھائی نہیں دیتا۔ شہزاد منظر لکھتے ہیں:

محمد حسن عسکری ہمارے عہد کے اہم نقاد تھے۔ اتنے اہم کہ اُن کے نام سے ایک مکتبِ فکر موسوم ہو چکا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اُن کے مکتبِ فکر میں سوائے سلیم احمد کے کوئی دوسرا بڑا اور اہم نقاد نہیں۔ حتٰی کہ شمیم احمد بھی نہیں۔ یوں کہنے کے لیے سراج منیر اور جمال پانی پتی وغیرہ اس مکتبِ فکر کے ارکان تصور کیے جاتے ہیں، لیکن سلیم احمد کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا ناقد نہیں ہے جسے اُن کا صحیح وارث کہا جا سکے۔۴؎

                 شہزاد منظر نے یہ مضمون محمد حسن عسکری پر لکھا جس کا آغاز انھوں نے متذکرہ بالا پیرا گراف سے کیا۔ شہزاد منظر کے بقول تو سلیم احمد، حسن عسکری کے مکتبِ فکر کے حقیقی جانشین ٹھہرے مگر سراج منیر کے خیال میں ــ’عسکری مکتبِ فکر‘کی تشکیل میں جتنا حصہ عسکری کا ہے، اتنا ہی برابر حصہ سلیم احمد کا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’سلیم احمد اور عسکری کے مزاج میں قطبین کا فرق ہے۔ یہ دونوں ہر چیز میں اُلٹ ہیںاور اس لیے ان کا تعلق complimentaryہے۔سلیم احمد نے عسکری کو کس طرح متأثر کیا یہ ایک الگ مضمون کا موضوع ہے لیکن وہ چیز جسے ’عسکری مکتبِ فکر‘ کہا جاتا ہے وہ ان دونوں سے مل کر ہی ترتیب پاتا ہے۔۔۔۔سلیم احمد اور عسکری کے تعلق کوایک جامد استادی شاگردی کا تعلق نہ سمجھ لیا جائے۔ سلیم احمد کے دعوے کے باوجود جو عسکری صاحب کی وفات پر سلیم احمد نے کیا کہ میں عسکری کا آدھا شاگرد ہوں، میں تو خود کو اُن کا شاگرد کہتا تھا، وہ نہیں مانتے تھے۔ یہ بات بالکل دُرست ہے۔ یعنی آدھا شاگرد ہونے والی بات۔ سلیم احمد کی شخصیت کا ایک حصہ عسکری صاحب کا اثر سے باہر اپنے الگ اُصولِ نمو کا مطابق پھولا پھلا ہے۔یہ وہ حصہ ہے جہاں سوال پیدا ہوتے تھے اور عسکری سمتِ سفر متعین کرتے تھے۔۵؎

                سلیم احمد نے اپنی شاعری میں بھی اور اپنی تنقید میں بھی اس بات کا بارہا اعتراف کیا ہے کہ وہ عسکری کو اپنا روحانی اور معنوی مرشد مانتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ سلیم احمد کے یہاں بہت سے ایسے مباحث ملتے ہیں جن کی جانب اوّلین اشارے عسکری کی تنقید میں ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر تصورِ جدیدیت، تصورِ روایت، تصورِ تہذیب اور تصورِ شعر میں عسکری اور سلیم احمد کا تقابل کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ سلیم احمد نے نہ صرف عسکری کے تجزیات کو قبول کیا ہے بلکہ وسیع تر معنویت میں پیش بھی کیا ہے۔

                 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سلیم احمد کی تنقیدعسکری صاحب کے تصورات کی توضیح و تشریح ہی ہے تو اُردو تنقید میں اُن کا مقام کیا ہے۔اس سوال کا جواب ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب یوں دیتے ہیں:

اُردو تنقید میں سلیم احمد کی اہمیت کیا ہے؟ میرے خیال میں نکتہ آفرینی، فکر افروزی، نظریہ سازی،غیر معمولی تجزیہ کاری اور اُسلوب کی تازہ کاری سلیم احمد کی وہ خصوصیات ہیں جن کے باعث وہ اُردوتنقید میں اہم مقام کے حامل ہیں۔۶؎؎

                اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ سلیم احمد کی شخصیت کی تشکیل میں عسکری صاحب ایک بڑے معتبر اثر کی حیثیت رکھتے ہیںمگر سلیم کو عسکری کی مصدقہ کاپی یا عکس نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں عسکری اور سلیم کے تقابلی جائزے کے لیے دونوں کا صرف ایک ایک جملہ پیش کیا جاتا ہے۔

 ـاس جدیدیت کا آغاز تھا مروّجہ اقدار سے انحرافـ”۔             (میر اور نئی غزل ۔  حسن عسکری)

 ـجدیدیت کی رُوح یہ اُصول ہے کہ کِسی بات کو اس بنا پر نہ تسلیم کیا جائے کہ وہ ہم سے پہلے چلی آ رہی ہیـ”۔

                                                                                                                (ادھوری جدیدیت  ۔ سلیم احمد)

                جدیدیت کی تعریف میں ایک دوسرے سے متفق ہونے کے باوجود جب وہ اس کا اطلاق میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ پر کرتے ہیں تو دونوں کا اختلاف ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس لیے کہ عسکری صاحب غالبؔ کی جدیدیت کو نفی سے اثبات تک نہ پہنچ سکنے کی بنا پر ادھوری جدیدیت قرار دیتے ہوئے اسے جدیدیت کے منفی عمل کا پہلا شاعر قرار دیتے ہیں جب کہ میرؔ کو نفی کے عمل کی پہلی منزل سے آگے جانے والے جدیدیت کے مثبت عمل کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ یعنی میرؔ کو غالب سے زیادہ جدید قرار دیتے ہیں۔ اس کے بر عکس سلیم احمد میرؔ کے حوالے سے جدیدیت کا سوال اٹھاتے ہی نہیں،کیوں کہ ان کی نظر میں وہ روایتی معاشرے کی روایتی شاعری کرنے والا شاعر ہے جب کہ وہ غالبؔ کو جدیدیت کے حوالے سے اردو کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا شاعر قرار دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ غالبؔ کے بعد بھی کوئی ایسا شاعر پیدا نہیں ہوا جس کی ذاتِ واحد میں جدیدیت کی اتنی خصوصیات جمع ہوں۔گویا اس صدی کا پہلا  جدید شاعر ہی غالبؔ نہیں بلکہ آخری شاعر بھی غالبؔ ہے۔

                سلیم احمد نے عسکری صاحب سے اُن کی زندگی میں بھی اُن کے متعدد خیالات سے اتفاق نہیں کیا کیوں کہ وہ خیالات اور نظریات کو ذاتی تجربات کی بھٹی میں دہکاتے تھے۔ اگر تو اُن کی مٹی سچی اور سُچی ہوتی تو پک کر اینٹ بنتے جنھیں وہ قبول کر لیتے، اور اگر بے کار ہوتی تو نا قابلِ استعمال پتھرجنہیں وہ رد کر دیتے ۔سلیم احمد نے اپنے اس تنقیدی نقطۂ نظر کا اظہار ایک بارآصف فرخی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا:

خیالات لوگوں کو اُن کے پیش روؤں سے منتقل ہوتے ہیں اور عموماً معاشرہ اور اس کے افراد جو ہیں وہ اُن کو جوں کا توں قبول کر لیتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے ان میںگویا confirmity پیدا ہوتی ہے اور وہ accepted thought یا طے شدہ خیالات کے اوپر زندہ رہتے ہیں۔ لوگ ان میں محصور ہو جاتے ہیں، ان کے غلام ہو جاتے ہیں۔ تو میں ہمیشہ ۔۔۔۔۔ کوئی خیال میرے لیے پہلے سے طے شدہ نہیں۔ میں اُس کی ابتدا، اُس کی خیال کی تنقید، اُس پر تشکیک اور اُس پر سوال کرنے سے ابتدا کرتا ہوں۔۷؎

                 سلیم احمد کی تنقید کا انداز یہ تھا کہ وہ جب بھی کسی شخصیت، فکر، رجحان یا نظریے پر قلم اُٹھاتے تو سب سے پہلے اُس کا مرکزی مسئلہ ڈھونڈتے یعنی ایک بنیادی مفروضے کا تعین کرتے۔ جب مرکزی مسئلے کا تعین ہو جاتا تو پھر اُس کی تصدیق و توثیق میں شواہد اور مثالیں اکٹھی کرتے۔ دلائل و براہین اور شواہد وامثال کی روشنی میں نکلنے والا نتیجہ اُن کا بنیادی مفروضہ ہی ہوتا۔ یہی اُن کی طریقِ تنقید کی خوبی تھی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حسن عسکری کا طریقِ تنقید بھی یہی تھا۔جیسا کہ انھوں نے بھی میر اور حالی پر بحث انُ کا مرکزی مسئلہ ڈھونڈنے کے بعد شروع کی۔ محمد حسن عسکری کے مطابق میر کا مرکزی مسئلہ ’دنیا‘ جب کہ حالیؔ کا ’دنیاداری‘ تھا۔اسی انداز میں اگر یہ سوال اُٹھایا جائے کہ سلیم احمد کی تنقید کا بنیادی مسئلہ کیا ہے تو بلا توقف کہا جا سکتا ہے کہ سلیم احمد کے ہاں پورے آدمی اور کسری آدمی کا مسئلہ اُن کی تنقید کا بنیادی اور مرکزی مسئلہ ہے۔انھوں نے پورے آدمی کے تصور کو معیار بنا کر اردو ادب میں کسریت کی مختلف شکلوں کی نشان دہی کی اور اس حوالے سے انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اُس گم شدہ اکائی کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو عہدِ جدید نے کسریت کے انتشار میں کہیں گم کر دی۔

                پورے آدمی اور کسری آدمی کی بحث بنیادی طور پروہی بحث ہے جو عسکری صاحب نے انسان اور آدمی کے نام پر اٹھائی۔ ناموں کے لحاظ سے فرق یہ ہے کہ سلیم احمد انسان کو ’پورے آدمی‘ اور آدمی کو ’ادھورے آدمی‘ کے تقابل میں رکھ کر دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ فرق محض ناموں کا فرق نہیں بلکہ فکر اور تجزیے کا بھی فرق ہے۔ عسکری کے ’مسئلہ انسان اور آدمی‘ پر سلیم احمد کو اعتراض یہ ہے:

وہ(محمد حسن عسکری) آدمی کو انسان سے بالکل الگ کر دیتے ہیں۔ انسان کو مطلق و مجرد تصور کہ دیتے ہیں اور آدمی کو ٹھوس چیز سمجھتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ خالص آدمی بھی خالص انسان کی طرح ایک مجرد اور مطلق تصور ہے۔ یہ بھی آدمی نہیں، آدمی کا سایہ ہے، اور خالص انسان کی طرح کہیں نہیں پایا جاتا۔ ورنہ جس آدمی سے ہم دنیا میں عملاً دو چار ہوتے ہیں وہ تو آدمی اور انسان دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔۸؎

                ڈاکٹر تحسین فراقی سلیم احمد کی تنقید کے مرکزی مسئلے کو کُلّیت کی تلاش سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اردو تنقید میں کلّیت کی اس تلاش کا آغاز تو عسکری ہی نے کیا جنھوں نے میر کی شاعری میں پوری زندی کی نشان دہی کی جو اپنے تنوّع اور تضاد، رفعتوں اور پستیوں، قوّتوں اور مجبوریوں کے ساتھ ایک کُلّیت میں ڈھلتی ہے، لیکں کُلّیت کا یہ تصور سلیم احمد کے ہاں شیشے کی طرح صاف دکھائی دیتا ہے۔

                متذکرہ بالا تفصیلی بحث سے سراج منیر کا یہ بیان سچ ثابت ہوتا ہے کہ ’عسکری مکتبِ فکر‘ اِن دونوں (محمد حسن عسکری اور سلیم احمد) سے مل کر ترتیب پاتا ہے۔ نظیر صدیقی اس مکتبِ فکر کو ’دبستانِ فراق‘ کا نام دیتے ہیں۔اُن کی نظر میں یہ دبستان غیر معمولی ذہانت اور بصیرت کا حامل دبستان ہیں ۔ اپنے مضمون ’کچھ مضامین کے بارے میں‘ میں یوں رقم طراز ہیں:

سلیم احمد اردو تنقید کے اُس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔۔۔ فراقؔ گورکھپوری، محمد حسن عسکری، سلیم احمد اور انتظار حسین۔ ممکن ہے بعض حضرات اس فہرست میں دو ایک نام اور بڑھانا چاہیں لیکن ظاہر ہے فراقؔ یا عسکری کی بھونڈی نقالی کرنے والوں کو اس فہرست میں کوئی جگہ نہیں دی جا سکتی۔ اس فہرست میں جگہ پانے کے لیے غیر معمولی طور پر ذہین اور حسّاس نقاد اور صاحبِ طرز نثر نگار ہونا ضروری ہے۔ اگر اردو تنقید میں اس خاندان کو دبستانِ فراق سے تعبیر کیا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔ عسکری کے ذہن و ذوق کی تشکیل میں فراقؔ کو خاصا دخل ہے، ’اندازے‘ والے فراقؔ سے زیادہ ’اردو کی عشقیہ شاعری‘ والے فراقؔ کو، اسی طرح سلیم احمد اور انتظار حسین کی تعمیر میں فراقؔ اور عسکری کے اثرات نمایاں ہیں۔۹؎

                نظیر صدیقی کے مطابق اس دبستان کو ’دبستانِ فراقؔ‘ کہا جائے یاسراج منیر کے مطابق’ دبستانِ عسکری‘ ۔اصل بات یہ ہے کہ دبستان کی تشکیل میں سلیم احمد کا حصّہ فراقؔ اور عسکری سے کسی صورت بھی کم نہیں۔یہ تینوں ایک دوسرے سے بڑی حد تک مختلف اور واضح طور پر منفرد ہیں۔ اس اختلاف اور انفرادیت کے باوجود ان میں کوئی قدرِ مشترک ضرور ہے۔

                کہتے ہیں ادب نام ہے تفسیرِ حیات کا اور تفسیر تنقید کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس لیے فنِ تنقید نگاری بجائے خود، ادب بھی تنقید ہے۔چوں کہ سلیم احمد ایک اہم نقاد کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ادیب بھی تھے لہٰذا اُن کی تنقیدی بصیرت کا زاویہ قائمہ ہے یعنی مکمل، نہ منفرجہ نہ حادہ۔ سلیم احمد کے خیال میں ہر وہ تحریر، ادب کے زمرے میں آتی ہے جو انسانی زندگی کی متعدد حالتوں میں سے کسی کی بھی خبر دیتی ہو۔ زندگی مسلسل ارتقا کا نام ہے۔ انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمیشہ سر گرداں رہتا ہے اور اسی سرگردانی کے سبب آئے روز تہذیب اپنے دامن میں نیرنگیاں سمیٹتی نظر آتی ہے۔ ادب، تہذیب و تمدن کا آئینہ دار ہونے کے سبب نت نئی تبدیلیاں لیے رونما ہوتا ہے۔ ہر زمانے میں شاعروں اور ادیبوںنے نئے انداز اور طریقوں سے کشتِ ادب کی آبیاری کی ہے۔ اپنے اپنے عہد میں شاعروں، ادیبوں کی منفرد اور مخصوص حیثیت اور اہمیت رہی ہے ۔ لیکن سلیم احمد کا ایمان تھا کہ جب تک معاشرے میں اچھے ادب کے ساتھ ساتھ تنقیدی زاویہ نگاہ پیدا نہیں ہوتا، وہ معاشرہ شکست و ریخت کا شکار رہتا ہے۔ تنقید سے خالی معاشرے کبھی ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سلیم احمد نے اپنی رُوح کے اضطراب کو اپنی تحریروں میں سمو کر معاشرے کو در پیش انتشار کے خطرے سے بچانے کی بھر پور سعی کی۔ یہ سعی اُن کی شاعری میں اور اُن کی تنقید دونوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سلیم احمد کہا کرتے تھے “آرٹ کا مقصد تہذیب اور انسان کواسی خطرے سے بچانا ہے۔”۱۰؎

                ادب با لخصوص معیاری ادب اُن کے نزدیک بہت اہمیت رکھتا تھا۔ درجہ بندی کا پیمانہ اُن کے خیال میں تخلیق کی وُقعت ہوا کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی تخلیقی روّیے پر تنقید کرتے ہوئے وہ ہمیشہ اُس روّیے کے اوّل درجے کے تخلیق کار افراد سے امثال پیش کرتے۔ مثلاً اگر وہ ترقی پسند شعرا کے تنقیدی روّیے پر لکھ رہے ہوتے یا گفتگو کر رہے ہوتے تو کبھی فارغ بخاری، کیفی اعظمی یا محسن بھوپالی کے اشعار بطور سند پیش نہ کرتے بلکہ فیضؔ، مجازؔ یا ساحرؔ لدھیانوی کو ہی موضوعِ تنقید بناتے۔ اسی طرح جب بھی کبھی جدید غزل کے روّیے پر بات کرتے تو حفیظؔ ہوشیار پوری،احمد ندیم قاسمیؔ، ناصرؔ کاظمی، مینرؔ نیازی اور جون ایلیا کے اشعار کے حوالے دیتے نہ کہ ادیب سہارن پوری، اسد شاہ جہاں پوری ، انور دہلوی ،جمیل نظر یا ہادی مچھلی شہری کے۔خواجہ رضی حیدر کہتے ہیں کہ ایک بار اِس صورتِ حال کی جانب میں نے اِشارہ کیا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا:

خواجہ!تلوار سے گاجر مولی یا سبزیاں نہیں کاٹی جاتیں۔ تنقید کے لیے ہمیشہ معیاری تخلیقات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔۱۱؎

                سلیم احمد نے دیگر علوم کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے چند لوگوں کو معیار بنا رکھا تھا۔ وہ جن کی شخصیت کو مثال سمجھتے اور جن کی تحریروں کو نہ صرف وہ بار بار پڑھتے بلکہ تاثیر بھی حاصل کرتے تھے۔ آصف فرخی کوانٹرویو دیتے ہوئے سلیم احمد نے اُن چند لوگوں کے نام گنوائے ہیں۔ کہتے ہیں:

میں جن لوگوں کو خوشی سے پڑھتا ہوں تنقید میں، وہ تمہیں معلوم ہے کہ وہ چار آدمی ہیں، عسکری صاحب، فراقؔ صاحب، کلیم الدین احمد،اور ایک اور صاحب تھے، ڈاکٹر خورسید الاسلام۔ ان چار آدمیوں کی کسی تحریر کو میں چھوڑنا نہیں چاہتا اور ان چاروں کی کیفیت یہ ہے کہ میں ہر چھٹے مہینے یہ چاہتا ہوں یا ہر چوتھے مہینے کہ اِن کو پھر سے پڑھوں۔ فکشن میں مجھ کو منٹو بے انتہا پسند تھے۔ ان کے مرنے کے بعد میں نے فکشن پڑھنا بہت کم کر دیا۔ قرۃالعین حیدر مجھے بہت پسند ہیں۔ انتظار حسین مجھے پسند ہیں۔۔۔۔ شاعروں میں یہ ہے کہ فیضؔ صاحب کا مجھے بڑا مخالف سمجھا جاتا ہے، اُن سے میرا نظریاتی اختلاف تھا اور میں نے اُن پر تنقید کی بھی سخت ہے لیکن اس کا کیا علاج ہے کہ میں فیضؔ صاحب کو پاکستان کا سب سے بڑا شاعر سمجھتا ہوں، سب سے اچھا شاعر بھی۔۔۔۔مجھے منیر نیازی اچھا لگتا ہے، مجھے ناصر کاظمی اچھا لگتا ہے، مجھے ظفر اقبال اچھا لگتا ہے، مجھے احمد مشتاق اچھا لگتا ہے، مجھے کشور ناہید اچھی لگتی ہے اور پروین شاکر بھی۔۱۲؎

                ان سب لوگوں کو پڑھنے کا سبب یہ تھا کہ ان سب کی تحریروں میں پھیلائو بھی ہے اور تنوّع بھی۔یہی پھیلائو سلیم احمد کی شخصیت میں بھی تھا اور یہی تنوّع اور وسعت اُن کی شاعری کا بھی خاصہ ہے اور تنقید کا بھی۔اُن کی تحریروں میں ایک اثر آفرینی تھی۔ لفظوں میں ایک روشنی تھی۔

                سلیم احمد نے بار بار یہ بات کہی ہے کہ اُردو تنقید سچ بولنے کو گناہ تصّور کرتی ہے لہٰذا سچی تنقید کوہمیشہ نا پسندیدگی سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن سلیم احمد نے کبھی خُفیہ وار نہیں کیا۔ ہمیشہ کھل کر بات کی۔ انھوں نے زندگی اور ادب کے ہر پہلو اور ہر نقطے پر نہ صرف مخلصانہ غور کیا بلکہ بحیثیت ایک سچے ادیب کے انھوں نے اپنی تحریروں میں اپنے تجزیاتی نتائج کا اظہاربرملا اور بلا خوفِ تردید کیا۔ حتیٰ کہ اُن کے بعض دوستوں نے ان پر ذاتی حملے بھی کیے اور انھیں دھمکیاں بھی دیں، لیکن وہ استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے۔ لہٰذا اُن کی تحریروں میں صداقتِ تفہیم کی موجزن نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد عزمی لکھتے ہیں:

سلیم احمد جب تک لکھتے رہے، پورے احساسِ فرض اور اخلاصِ نیّت کے ساتھ لکھتے رہے۔ یوں لکھنے کو انہوں نے ہزاروں صفحات لکھ ڈالے لیکن وہ صرف اپنی ادبی تحریروں کوown کرتے تھے ۔ باقی سب تحریریں اُن کے نزدین ’سیٹھ کا مال‘ یا ’کمرشل تحریریں‘ تھیں۔ اُن کی تحریروں میں تنقیدی مضامین زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔۱۳؎

                سلیم احمد کا ایک شعر ہے

حیات سب کے لیے اک سوال لاتی ہے

تمام  عمر اُسی  کا  جواب  لکھتے  ہیں

                سلیم احمد کا یہ شعر اُن کی تنقیدی جہت کے لیے بہت موزوں ہے بلکہ مکمل عکاسی کرتا ہے۔ چوں کہ سلیم احمد حقیقت کے متلاشی نقاد تھے لہٰذا حیات کے لائے گئے سوال کے جواب تک رسائی حاصل کرنے کے لیے انھوں نے اپنا سفر آخری سانس تک جاری رکھا اور برابر جستجو کی منزلیں طے کرتے رہے۔ بقول اسلم فرخی”سلیم احمدہمارے ادب میں ارتقائے مسلسل اور ہمہ جہتی کی خوشگوار علامت ہیں۔”۱۴؎

                اردو ادب میں جدیدیت کا آغاز و ارتقا کے حوالے سے ادیبوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے اس کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ایک گروہ کے مطابق جدیدیت اضافی شے ہے اس کا کوئی معین نظام نہیں کیوں کہ یہ ہر دور کے طرزِ احساس اور تقاضوں کے مطابق وجود میں آتی ہے ۔ اس کے بر عکس دوسرا گروہ جدیدیت کو نئی چیز تصور کرتا ہے جو نئے فکری رجحانات کے تناظر میں وجود میں آتا ہے ۔ان کے علاوہ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو جدیدیت کو ماضی قریب کی روایات میں دیکھتا ہے۔

                سلیم احمد کا خیال ہے کہ جدیدیت نے انسانی وحدت اور کلّیت کو ریزہ ریزہ کر کے تجریدیت میں بدل دیا اور یوں اس اذیت ناک عمل کی بنا پر فرد اور معاشرے میں بُعد آخری حد تک بڑھ گیا۔سلیم احمد اس تجریدیت کو ادھوری جدیدیت کا نام دیتے ہیں۔ وہ اس ادھوری جدیدیت کو نا پسند کرتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ایک مربوط نظام اور اخلاقی زندگی کے قائل تھے۔ایسا نظامِ اقدار اور اخلاقی زندگی جس کی ضرورت کی تصدیق ان کا ذاتی تجربہ بھی کر رہا ہو۔ ادھوری جدیدیت کی یہی نا پسندیدگی ان کے قاری کو پھر پھرا کر روایت کی طرف لے جاتی ہے اور اُس تہذیب کی طرف لے جاتی ہے جس میں ادھورا پن نہیں تھا، جو ایک مربوط اور منظم تہذیب تھی۔سلیم احمد کے نزدیک ہماری پرانی تہذیب دنیا کی ساری مستند اور مکمل تہذیبوں کی طرح ایک مذہبی تہذیب تھی جب کہ جدید تہذیب کسریت کا شکار ایک بکھری ہوئی تہذیب ہے۔

                در اصل سلیم احمد نے یہ نکتہ دریافت کر لیا تھاکہ کسریٰ آدمی ۱۸۵۷ء کے غدر کے بعد پیدا ہوا اور اس نے اس تہذیبی اکائی کو توڑ دیا، جو صدیوں سے ہند اسلامی تہذیب کی نمائندہ تھی اور ایک وحدت کی صورت میں تخلیقی ادب میں ظہور کر رہی تھی۔ سلیم احمد کو یقین تھا کہ ۱۹۳۶ء کی ترقی پسند تحریک نے معاشرے اور ادب میں کسریٰ آدمی کو نہ صرف تقویت پہنچائی، بلکہ اسے معیار کے طور پر پیش کیا، جب کہ یہ کسری آدمی کائنات کی سب سے مضحکہ خیز مخلوق ہوتا ہے۔سلیم احمد کہتے تھے:

آدمی ہمیشہ پورا پیدا ہوتا ہے۔ پون آدمی، آدھا آدمی، چوتھائی آدمی نہیں ہوتا۔۔۔۔ آدمی کسی بھی رتبے، حیثیت، طبقے اور پیشے کا ہو سکتا ہے مگر اسے ضرب تقسیم کے ذریعے کسر بنانا ایک نا معقول بات ہے۔ ہم سب اپنی ماں کے پیٹ سے پورے پیدا ہوتے ہیں، پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم لوئر ڈویژن کلرک کی حیثیت سے کچھ اور بن جاتے ہیں، اور شوہر یا عاشق کی حیثیت سے کچھ اور۔ آپ کہیں گے کہ یہ صرف تقسیم کار کی حیثیتیں ہیں۔ بالکل ٹھک ہے۔ مگر بہت سے لوگوں میں اسی تقسیم کار سے آدمی کے دو ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ سیاسی آدمی، اخلاقی آدمی، مذہبی آدمی، انقلابی آدمیاسی قسم کے ٹکڑوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ میں انھیں کسری آدمی کہتا ہوں۔۱۵؎

                سلیم احمد کا خیال ہے کہ کسریٰ آدمی کی یہ تہذیب مغربی تہذیب کے زیرِ اثر پنپ رہی ہے اور مذہب دشمن تہذیب بنتی جا رہی ہے۔ احمد ہمدانی نے بہت خوب صورت الفاظ میں سلیم احمد کے کرب کی عکاسی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

وہ (سلیم احمد) روایت کی پناہ گاہ اور جدیدیت کی رزم گاہ کے درمیان کھڑا ہے۔ رزم گاہ سے آنے والے تیر اُسے برابر زخمی کر رہے ہیں اور اُس کی پناہ گاہ اُس کی دسترس سے باہر ہے۔ وہ لوگوں کو اپنے زخم دکھاتا ہے اور کہتا ہے کہ لوگو، یہ تیر مجھے ہی نہیں تمہیں بھی ہلاک کر رہے ہیں۔ دیکھو تمہاری رزم گاہ کے پیچھے ایک ایسی وادی ہے جس کی گھنیری چھائوں میں انسانیت زندگی کی تمازت سے جھلس کر سستانے کا طویل تجربہ رکھتی ہے۔ آج ایئر کنڈیشنڈ میں بیٹھ کر تمہیں اس گھنیری چھائوں کی ضرورت نہ سہی، مگر ادھر سے آنے والی ٹھنڈی ہوائوں سے بیزاری کیوں؟۱۶؎

                جمال پانی پتی نے لکھا ہے کہ سلیم احمد کا مسئلہ عہدِ حاضر کے کسریت زدہ ماحول میں کسریت سے لڑنے اور اکائی کی مختلف منزلوںکو طے کرنے کی کوششوں سے عبارت ہے۔یہ بات بالکل دُرست ہے کیوں کہ سلیم احمد کے نزدیک سب سے بڑا اور اہم ترین سوال انسان کی بنیادی شناخت تک رسائی یا اُس کی دریافت تھااور اس سوال کے جواب کی تلاش میں وہ اپنی تخلیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کی بنا پر آگے بڑھتے رہے۔ انہوں نے تاریخ اور انسانی نفسیات کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کر رکھا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اگر انسان کے رُوحانی اعمال و وظائف محض کہانی ہیں، تو وہ تمام کرداری روایات جو انسان نے اپنے شرف کو سہارا دینے کے لیے تشکیل دی ہیں لا یعنی ہو جاتی ہیں، کیوں کہ در حقیقت انسان کائنات کی سب سے بڑی قوّت ہے اور ایک روحانی ہستی ہے اور روحانی وظائف اپنی تمام تر شائستگی کے ساتھ انسان کی زندگی اور اعمال کے ایک زیادہ بڑے حصّے پر محیط ہیں۔ انسان جب ان روحانی وظائف کا دائرہ توڑے گا تو کسری آدمی اس کے وجود پر حاوی آ جائے گا اورتجرید و تخریب اسے اپنی گرفت میں لے لے گی۔

                سلیم احمد کبھی معاشرے سے اُلجھے تو کبھی مملکت سے ، کبھی شاعروں سے ناراض ہوئے توکبھی ادیبوں سے ،کبھی مشرق و مغرب سے بر سرِ پیکار ہوئے تو کبھی حالیؔ و سر سیّد سے نبرد آزما ہوئے، کبھی جدیدیت سے لڑے تو کبھی غالبؔ و اقبال سے۔غرض سلیم احمد اپنی تحریروں میں لڑتے ہی ر ہے۔ حالاں کہ اصل لڑائی تو اُن کی اپنی ذات کے ساتھ تھی۔شعر و تنقید میں انھوں نے تو اپنے وجود کا حال لکھا۔نظیر صدیقی کے نام لکھے گئے اپنے ایک خط میںانھوں نے اپنے اس اندرونی کرب کا اظہار یوں کیا:

میں اپنی رُوح کی گہرائیوں میں جانتا ہوں کہ میں عہدِ جدید سے نا خوش ہوں۔۔۔۔۔ میں حالیؔ سے لڑا، میں ترقی پسندوں سے لڑا مگر میںکسی سے نہیں لڑا، میں تو اپنے آپ سے لڑنے میں مصروف ہوں۔۱۷؎

                ادب سلیم احمد کا طرزِ اظہار تھا اورمعاشرتی و تہذیبی رویّوں کووہ اپنا سرمایہ حیات سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنا بیشترادبی سفر بہتی رو کی مخالف سمت میں کیا۔ اُن کے اس سفر کا ایک ہی مقصد تھا ’حقیقت و صداقت کی تلاش‘۔جہاں اُن کی شخصیت میںمحبت، شفقت، اخلاص اور دل جوئی کا عنصر کارفرما ہے وہاں ان کی تحریر میںسچائی، بے باکی اور تلاش و جستجو کا سمندر موجزن ہے۔

                مختلف ناقدین کی نظر میں سلیم احمد کی تنقید کی اہمیت کیا ہے؟ چند آرا ء دیکھیے۔

                جمال پانی پتی کہتے ہیں:

اردو ادب کی تنقیدی تاریخ میں اُن کے غیر معمولی کام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اُن کی فکر اور اُن کے خیال سے چاہے کوئی اختلاف ہی کیوں نہ کرے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جو سوالات وہ اپنی تحریروں میں اٹھاتے ہیں، وہ تنقید کی پیشہ ورانہ ضرورتوں سے نہیں، اُن کے اپنے اعماقِ وجود سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سوالات ہمارے عہد کے بنیادی فکری سوالات ہیں۔۔۔۔ جدید اردو ادب کی تاریخ میں سلیم احمد وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے اپنے عہد کی ادبی فضا کو تنقید اور تخلیقی دونوں سطحوں پر سب سے زیادہ متاثر کیا۔ اس معاملے میں اُن کے اُستاد محمد حسن عسکری بھی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔۱۸؎

                شمیم احمد کا خیال ہے:

اردوکے سب سے پہلے مداری کا نام الطاف حسین حالیؔ ہے اور آخری اطلاع آنے تک سلیم احمد یہ جگہ سنبھال چکے ہیں۔۔۔۔مداری بننا کوئی آسان کام نہیں اس میں جس ذہانت، مشاقی، قوتِ ارادی اور جس نکتہ بیں نظر کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے ہمارا معاشرہ تہی ہوتا جا رہا ہے۔۱۹؎

                ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں:

سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔۲۰؎؎

                ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے:

محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے ، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔۲۱؎

                ڈاکٹر انور سدید کے مطابق:

سلیم احمد حقیقی معنوں میں نزاعی نقاد تھے کہ اُن کی تنقید نے مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا تو اس کے لیے ٹھوس اور با معنی دلیل بھی فراہم کی اور اس عمل میں ذاتیات کو قریب پھٹکنے کی اجازت نہ دی۔ اُن کے ہاں بلا شبہ ایک مخصوص عصبیّت موجود تھی لیکن وہ اس عصبیّت کو موضوع کو کھنگالنے اور حقیقت کے نئے گوشے آشکار کرنے میں صرف کرتے۔۲۲؎

                متذکرہ بالا شہادتوں کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ سلیم احمد کا تنقیدی نظریہ و اُسلوب اردو ادب کے دیگر نقادوں سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ فکر انگیز اور یقیں افروز بھی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ بہت سے لوگ محنت کے نتیجے میں پسینہ پسینہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سلیم احمد کی محنت اس نوعیت کی نہیں تھی۔ ادب اور زندگی کے نت نئے مسائل پر قلم اٹھاکر اپنی تحریر کو جمود سے بچایا۔دنیا کاکون سا وہ موضوع ہے جس پر انھوں نے نہ لکھا ہو۔ ادب کی بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ یہ عمل طبیعت آزمانے کی حد تک ہی نہیں تھا بلکہ انھوں نے جس صنف کو چھوا، اس میں کئی یادگار تحریریں چھوڑیں ۔

                 اردو تنقید میں وقت کے ساتھ ساتھ متعدد رجحانات نے جنم لیا اور بعض رجحان آ گے چل کر باقاعدہ دبستان کی صُورت اختیار کر گئے۔ اِن تمام دبستانوں میں سب سے منفرد اور ممتاز دبستان، جس نے نہ صرف روایتی موضوعات سے ہٹ کر نئے موضوعات کا انتخاب کیا بلکہ مروّجہ روکھے اور پھیکے اُسلوب کے پیمانوں کو ترک کر کے تنقیدی تحریروں کے لیے ایک دلچسپ فکری اور اُسلوبیاتی نصب العین کی بنیاد رکھی، یہی دبستان ہے جس سے سلیم احمد کا تعلق تھا۔ کُچھ لوگ اسے ـ”دبستانِ عسکریـ” کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق اِس روِش کا آغاز اردو تنقید میں حسن عسکری سے ہوتا ہے ۔ یہ بات کہنے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگرہمارے مطالعے کے مطابق اِس تنقیدی روِش کے نقشِ اوّل حسن عسکری نہیں،  فراقؔ گورکھ پوری ہیں۔ جس طرح سلیم احمد کی فکر حسن عسکری کے زیرِ اثر تشکیل پاتی ہے، اسی طرح حسن عسکری کی فکر پر فراقؔ صاحب کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔

                اُردو تنقید کی یہ روِش، جس کا آغاز فراقؔ گورکھ پوری سے ہوتا ہے، سلیم احمد پر پہنچ کر ختم نہیں ہوتی بلکہ بعد کے نقّادوں میں بھی نظر آتی ہے۔ ایسے ناقدین میں شمیم احمد، سراج منیر، جمال پانی پتی، سہیل عمر اور تحسین فراقی کے نام قابلِ ذکر ہیں جنھوں نے اس اندازِ نقد کو نہ صرف اپنایا بلکہ فکری اور فنی حوالے سے تقویّت بھی بخشی۔ اس تنقیدی روایت کے اکابر ناقدین کے فکری اور اُسلوبیاتی اشتراکات پر تحقیقی و تنقیدی کام ُاردو ادب کی گراں قدر خدمت ہو گی۔

                سلیم احمد وہ نقّاد ہیںجن کی فکر اور اُسلوب میں، اِس دبستان سے منسوب خاصیّت و اصلیّت، اپنے متقدمین اور متاخرین کی نسبت زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ وہ اُردو تنقید  میں اِسی سبب تا دیر زندہ رہیں گے اوراُن کی تحریریں اِس روِش پر چلنے والے راہروؤں کی راہ کو اپنی روشنی سے منوّر کرتی رہیں گی۔آخر میں سلیم احمد کا ایک شعر :

اِک پتنگے نے یہ اپنے رقصِ آخر میں کہا

روشنی کے ساتھ رہیے روشنی بن جائیے ۲۴؎

حوالہ جات

۱۔            خواجہ رضی حیدر؛ سلیم احمد۔مشاہدے،مطالعے اور تاثرات کی روشنی میں، کراچی: ایوانِ محدثّ سُورتی، نشرح فائونڈیشن، ۲۰۱۲ء، ص۱۹۶

۲۔            سلیم احمد؛ مضامینِ سلیم احمد، مرتبہ؛ جمال پانی پتی، کراچی: اکادمی بازیافت،۲۰۰۹ء، ص۱۳

۳۔            سلیم احمد؛طویل نظم ـ”مشرق”،لندن؛ اردو مرکز /کراچی:مکتبہ نیا ادب، ۱۹۸۹ء، ص ۲۴۱۔۲۴۲

۴۔            شہزاد منظر؛ محمد حسن عسکری، مشمولہ محمد حسن عسکری۔ ایک عہد آفریں نقاد، مرتبہ؛ اشتیاق احمد، لاہور:بیت الحکمت، ۲۰۰۵ ء، ص ۲۲۱

۵۔            خواجہ رضی حیدر؛ سلیم احمد۔مشاہدے،مطالعے اور تاثرات کی روشنی میں، محولہ بالا۱، ص ۱۹۲

۶۔            تحسین فراقی، ڈاکٹر؛معاصر اُردو ادب ۔ نثری مطالعات، لاہور: کلیہ علومِ اسلامیہ و شرقیہ، پنجاب یونیورسٹی، ،۲۰۰۰ء، ص ۴۰

۷۔            آصف فرخی؛ انٹرویو بعنوان چشمِ طوفان۔سلیم احمد،مشمولہ روایت نمبر ۳( سلیم احمد نمبر)، لاہور: مکتبۂ روایت، ۱۹۸۶ء، ص ۳۲۶

۸۔            سلیم احمد؛ مضامینِ سلیم احمد، مرتبہ؛ جمال پانی پتی، محولہ بالا ۲، ص۱۵

۹۔            نظیر صدیقی؛ کچھ ’مضامین‘ کے بارے میں،مشمولہ روایت نمبر ۳( سلیم احمد نمبر)، محولہ بالا ۷، ص ۴۷۸

۱۰۔          سلیم احمد؛ مضامینِ سلیم احمد، مرتبہ؛ جمال پانی پتی، محولہ بالا ۲، ص۱۹۳

۱۱۔          خواجہ رضی حیدر؛ سلیم احمد۔مشاہدے،مطالعے اور تاثرات کی روشنی میں، محولہ بالا۱، ص ۱۶۳

۱۲۔          آصف فرخی؛ انٹرویو بعنوان چشمِ طوفان۔سلیم احمد،مشمولہ روایت نمبر ۳( سلیم احمد نمبر)، محولہ بالا ۷، ص ۳۴۴

۱۳۔          مختار احمد عزمی، ڈاکٹر؛ سلیم احمد۔ شخصیت اور فن، غیر مطبوعہ مقالہ برائے پی ایچ ڈی ،بہاول پور: اسلامیہ یونیورسٹی، ۱۹۹۴، ص۲۳۸

۱۴۔          اسلم فرخی؛ٹوٹی ہوئی اکائی، مشمولہ روایت نمبر ۳( سلیم احمد نمبر)، محولہ بالا ۷، ص ۱۴۳

۱۵۔          سلیم احمد، مضامینِ سلیم احمد، مرتبہ؛ جمال پانی پتی، محولا بالا، ص۲۵

۱۶۔          احمد ہمدانی؛ ادھوری جدیدیت اور سلیم احمد،مشمولہ روایت نمبر ۴(سلیم احمد نمبر)، لاہور: مکتبۂ روایت، ۱۹۸۷ء، ص ۴۸۶

۱۷۔          مصطفیٰ راہی؛ مرتب، سلیم احمد بنام نظیر صدیقی، نامے جو مرے نام آئے،راولپنڈی: ۱۹۸۴ء،

۱۸۔          سلیم احمد؛ مضامینِ سلیم احمد، مرتبہ؛ جمال پانی پتی، محولہ بالا ۲، ص۱۱

۱۹۔          شمیم احمد؛ ۲+۲=۵، مستونگ(بلوچستان):قلات پبلشرز، ۱۹۷۷ء، ص ۶۲

۲۰۔          سہیل احمد خاں، ڈاکٹر؛طرفیں، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۸ء،ص ۱۶۴۔۱۶۵

۲۱۔          تحسین فراقی، ڈاکٹر؛معاصر اُردو ادب ۔ نثری مطالعات، محولہ بالا ۶، ص ۲۲

۲۲۔          انور سدید، ڈاکٹر؛ سلیم احمد ۔ خطوط کے آئینے میں، مشمولہ روایت نمبر ۳( سلیم احمد نمبر)، محولہ بالا ۷، ص ۲۳۶

۲۳۔          خواجہ رضی حیدر؛ سلیم احمد۔مشاہدے،مطالعے اور تاثرات کی روشنی میں، محولہ بالا۱، ص۱۷۱

۲۴۔          سلیم احمد کا یہ شعر اُن کی لوحِ مزار پر کندہ ہے۔

****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.