آزادیٔ اظہاراوربین الاقوامی میڈیا
تحریر: ڈاکٹررئیسہ پروین، اسسٹنٹ پروفیسر، ستیہ وتی کالج، اشوک وہار، دہلی، دہلی یونیورسٹی
Mob.7982603115
دنیا میں جیسے جیسے ذرائع ترسیل کو فروغ حاصل ہوا ویسے ویسے حصولِ اطلاعات کا مطالبہ بھی زور پکڑتا گیا۔ دانشوروں، فنکاروں اور صحافیوں نے سائنسی ترقیات میں اضافے کے دوران محسوس کیا کہ اطلاعات حاصل کرنے کے ضمن میں لگائی جانے والی حکومتی پابندیاں غیر جمہوری ہیں فرد کو بغیر روک ٹوک اطلاعات حاصل کرنے کا بنیادی حق ملناچاہیے۔
اہل مصراورچین نے قبلِ مسیح میں ہی کاغذ اور دستی چھاپوں کی ایجاد کرلی تھی۔ لیکن جب پندرہویں صدی میں جرمنی میں گٹنؔ برگ نے، مشینی پریس ایجاد کیا اور پھر انگلینڈ میں کیکسٹن نے چھاپہ خانہ لگایا توطباعت ، اشاعت اور صحافت کے شعبوں میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ اس سے قبل اکثر علوم سینہ بہ سینہ چلتے تھے یا چمڑے کپڑے اور دھاتوں پر کچھ عبارتیں لکھی جاتی تھیں جن تک عوام کی رسائی نہ تھی۔چنانچہ طباعت کے ذریعے ترسیل وابلاغ کی رفتار تیز ہونے پر علوم وتحقیقات کو محفوظ رکھنا آسان ہوگیا۔
انگلینڈ میںشرحِ خواندگی کم ہونے کی بناپر مطبوعہ مواد کی توسیع کم ہی رہی۔ ابتدائی دورمیں طباعت واشاعت سے متعلق قوانین بھی نہیں تھے۔ لیکن نہری ہشتم نے ۱۵۳۴ء میں ایک اعلانیہ جاری کیا، جس کی رو سے مطبع قائم کرنے سے قبل سرکاری اجازت لازم قرار دی گئی ۔ حکومت نے ناپسندیدہ لٹریچر شائع کرنے والوں کو سزائیں دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ ۱۶۴۹ء میں کرآمویل کے اقتدار میں آنے سے اشاعت کاروں کو کچھ رعایتیں ملیں کیونکہ اس دورمیں حکومت اورتجارتی حلقوں کے مفادات کے درمیان رسہ کشی ہونے لگی تھی۔ ۱۶۶۵ء میں لندن سے ’گزٹ‘ نام کا سرکاری اخبار شائع ہونا شروع ہوا۔ اسی صدی کے اواخر میں امریکہ میں بھی اخبارات چھپنے لگے۔
مغربی ممالک میں آزادیٔ اظہار واشاعت کی تحریک کئی صدیوں تک چلتی رہی۔ امریکی جمہوریت کے بانی طامس جیفرسن کے مطابق پریس کا بنیادی فریضہ عوام کو باخبر رکھنا اورشخصی آزادیوں کا تحفظ ہے۔ جان اسٹوارٹ مل کانظریہ تھا کہ تمام انسانی اعمال کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ فلاح ہونا چاہیے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب فرد کو فکروعمل کی کامل آزادی میسر ہو۔ ان فلسفیانہ نظریات کوعملی شکل دینے کے لئے ۱۷۸۷ء میں امریکی آئین میں آزادیٔ صحافت Freedom of Press کوبنیادی آزادیوں کے زمرے میں شامل کیا گیا ۔ پھرآہستہ آہستہ قبل اشاعت اجازت کے قوانین بھی کالعدم ہونے لگے کیونکہ وہ آزادیٔ اظہار کے جمہوری تصورکے منافی تھے۔ ۱۸۰۰ء تک آتے آتے انگلینڈ اورامریکہ میں اخبارات کوسرکاری اقدامات کی تنقید کرنے کی آزادی دی گئی، جس کو اب تک ملک سے غداری تصور کیا جاتا تھا۔ ۱۷۷۱ء میں برٹش پارلیمان کی کارروائی کے دوران نامہ نگاروں کو داخلے کی اجازت بھی مل چکی تھی۔ عوامی نمائندوں کے احتساب کی راہ میں یہ ایک انقلابی فیصلہ تھا۔ تاہم صحافیوں کے سرپر سرکشی اورمجرمانہ اہانت قوانین کی تلوار لٹکی رہتی تھی۔ حکومت ِانگلستان سرکاری اہلکاروں کی تنقید کرنے والے اخبارات کے خلاف ان قوانین کو استعمال کرتی تھی۔ ۱۷۹۸ء میں امریکہ میں Aliensاور Sedetionایکٹ پاس ہوئے، جن کے تحت ناپسندیدہ غیرملکی صحافیوں کو ملک بدر کردیا جاتا تھا یا سزادی جاتی تھی۔ یہ قانون ۱۸۰۰ء میں واپس لیا گیا۔ ۱۷۸۹ء میں امریکی کانگریس میں اخباری نمائندوں کو داخلے او رکارروائی کے مشاہدہ کی اجازت دی گئی۔ لیکن آج اکثر کانگریس کمیٹیوں کی میٹنگوں میں نامہ نگاروں کو کارروائی کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح عدالتوں میں بھی نامہ نگارصرف جج کی اجازت سے ہی داخل ہوسکتے ہیں۔
امریکی Film Industry نے ۱۹۲۲ء میں خودسنسرSelf Censorship کے اصول پرمبنی ایک ضابطۂ عمل تشکیل دیا تھا۔ اس سے قبل سرکاری ادارے فلموں کا محدود ماقبل سنسرPre-Censorshipکرتے تھے۔ امریکہ کا Federal Communication Commissionآج نجی ریڈیواسٹیشنوں کو لائسنس جاری کرتا ہے، جوبد احتیاطی کی صورت میں منسوخ ہوسکتا ہے۔ وہاں پرائیویٹ اسٹیشن ۱۹۱۲ء سے قائم ہونے لگے تھے۔ نجی ریڈیو اوروژن نشریاتی اداروں کو خوداحتسابی سے کام لینا پڑتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران کچھ جنگ مخالف سوشلسٹ اخبارات کو ڈاک کی سہولیت سے محروم کردیا گیاتھا۔ جب کہ جنگ عظیم دوم میں کچھ فاشزم حامی اخباروں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ انقلاب روس کے دوران امریکی فوجی مداخلت کے خلاف لکھنے والے صحافیوں کو امریکہ میں سزائیں دی گئیں۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں بھی Mc Carthyمہم کے تحت اشتراکی نظریات کے پیروکار صحافیوں ، فنکاروں او ردانشوروں کوسزائیں دی گئیں وہراساں کیا گیا تھا، حالانکہ یہ مہم غیر قانونی تھی۔
۷۵۔۱۹۵۰ء کے دورمیں تقریباً ہرامریکی ریاست میں ایسے قوانین تشکیل پاچکے تھے ، جن کی رو سے منتخب عوامی نمائندوں کو خفیہ میٹنگیں کرنے کا اختیار نہیں رہاتھا۔البتہ انھیں عام سرکاری کاغذات تک رسائی کا قانونی حق دے دیا گیا تھا۔ ۱۹۶۶ء میں صحافیوں کے مطالبے کے نتیجے میں Freedom of Information Actپاس کیا گیا، جس کے تحت امریکی وفاقی اداروں کے ریکارڈ جانچنے کا حق عام شہریوں کو بھی حاصل ہوگا۔ ۱۹۷۴ء میں واٹر گیٹ اسکینڈل کی پردہ پوشی کرنے کے جرم میں رچرڈنکسن کو صدارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا اور تفتیشی صحافیوں نے دوسال تک محنت کرنے کے بعد حقائق کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ ویت نام کے مائی لائی قتل عام اور واٹر گیٹ انکشافات نے ساری دنیا میں آزادی ٔ اظہار کی مہم کو تقویت پہنچائی اور تفتیشی صحافت کو وقار حاصل ہوا۔
آزادیٔ اظہار واشاعت وحصولِ اطلاعات کے موضوع پر قرار دادِ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے بین الاقوامی اعلانیہ کی دفعہ ۱۹میں کہا گیا ہے کہ ’’ہرانسان کو نظریہ اور اظہار کی آزادی ہے۔ اس حق میں بغیرکسی پابندی کے اپنے نظریات پرکاربند رہنا اوربغیر کسی سرحد کو مدنظررکھتے ہوئے نظریات واطلاعات کا ہرممکن ذریعۂ ترسیل کی مددسے حصول اور ان کی ترویج بھی شامل ہیں۔‘‘
۱۹۴۸ء میں مجلسِ اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس میں آزادیٔ حصولِ اطلاعات Freedom of Informationکو ایک بنیادی آزادی قرار دیا گیا تھا اوراعلان کیا گیا تھا کہ مکمل اطلاعات کا آزادانہ حصول، اقوام متحدہ کی تاسیس کے ضمن میں تسلیم شدہ تمام شہر ی آزادیوں کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ کے آزادی ٔحصولِ اطلاعات کے اعلانیہ کے مطابق ’’ہرملک کوایسی پالیسیوں پرعمل کرنا چایہے جن کے تحت ممالک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر اطلاعات کی آزادانہ ترویج واشاعت ممکن ہوسکے۔ اطلاعات کے حصول وترسیل کی آزادی کی ضمانت سبھی شہریوں کو بلا تفریق دستیاب کی جانی چاہیے۔ تاکہ شہر ی، حقائق کی تصدیق کرسکیں اور واقعات کی اصلیت سے باخبررہیں۔‘‘
۱۹۸۱ء میں امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چارلس ایوانس ہیوزنے کہا تھا۔(ترجمہ)
’’ایک آزاد مملکت کے لئے پریس کی آزادی بنیادی ہوتی ہے۔ یہ آزادی کسی طرح کے مواد کی اشاعت پر قبل اشاعت پابندی کی غیرموجودگی سے آشکار ہوتی ہے، نہ کہ اشاعت کے بعد ممکنہ سزا سے تحفظ کی گارنٹی میں۔ ہرآزاد شہری کو عوام کے سامنے اپنے افکار کے اظہار کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ اس اختیار پر پابندی ،آزادیٔ صحافت کو کچلنے کے مترادف ہے۔ تاہم اگرکوئی شہر ی کسی قسم کا ناجائز، قانون مخالف اوراشتعال انگیز مواد شائع کرتا ہے تواس بداحتیاطی کے نتائج بھگتنے کے لئے اسے تیار رہنا چاہیے۔‘‘(۱)
اس اقتباس میں آزادیٔ اظہار واشاعت کی تعریف کے پہلو بہ پہلو اظہار کی راہ میں مطلوبہ ذمہ داریوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ کوئی بھی بنیادی حق، حقِ مطلق نہیں ہوتا بلکہ اپنے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اورپابندیاں بھی لاتاہے۔ اگرکوئی تحریر یا تقریر سماج میں انتشار یا منافرت پھیلانے کا سبب بنتی ہے تواس کا سدباب ضروری ہے۔ لیکن یہ سدباب دائرۂ قانون میں ہی ہونا چاہیے۔ شخصی نظریات وترجیحات مخالفت کو کچلنے کے ہتھیار کے طورپر مستعمل نہیں ہونے چاہیے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ آزادیٔ اظہار کو محدود کرنے والے قوانین واضح،جمہوری اور آئینی ہوں۔
ہندوستانی آئین کی دفعہ (۹)(۱) ۱۹ کے تحت ملک کے تمام شہریوں کو آزادیٔ اظہار وتقریر بطور ایک بنیادی حق کے دی گئی ہے۔ آئین کے مطابق (ترجمہ)
دفعہ(۱)۱۹ سبھی شہریوں کو حق
( a)اظہار وتقریر حاصل ہوگا۔
(۲) دفعہ (a)(۱) ۱۹ کے باوجود حکومت کو محوّلہ بالاحق ِ اظہار وتقریر پر ’مفید پابندیاں عائد کرنے کے ضمن میں کسی موجودقانون کو لاگو کرنے یا نئے قوانین بنانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ تاہم یہ پابندیاں اوران کی تعمیل کرنے والے قوانین، ریاست کے تحفظ، غیرملکی ریاستوں سے دوستانہ تعلقات کی خوشگواری،امنِ عامہ،شائستگی یا اخلاق کے تحفظ، عدالتوں کی اہانت کے تحفظ،ازالۂ حیثیت عرفی کے سدِباب اورکسی جرم کے اشتعال کوروکنے کے نقطۂ نظر سے بنائے جائیں اور لاگوکئے جانے چاہئیں۔(۱)
ہندوستان کا آزادی کے بعد صحافت کے شعبے میں بتدریج ترقیات رونما ہوئیں ۔ آئین کے تحت دی گئی آزادیٔ اظہار واشاعت سے جڑی جمہوریت بھی مستحکم ہوئی۔ تاہم اس آزادی کے پہلو بہ پہلو کچھ ایسے قوانین بھی تشکیل پاگئے۔جن کا غیرمحتاط استعمال صحافتی آزادیوںکومجروح کرتاہے۔ تعزیراتِ ہندکی دفعات124(A)جو سماج میں شرانگیزی سے متعلق ہے، دفعہ 153 (A)جو مختلف فرقوں یا جماعتوںکے درمیان منافرت کے پر چار سے متعلق ہے، دفعات 292اور 293جو فحش مواد چھاپنے اور تقسیم کرنے سے متعلق ہیں، دفعہ 295 (A)جوکسی فرد یا فرقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے تعلق رکھتی ہے، دفعات 501,500اور 502جوکسی شہری یا جماعت کی اہانت سے متعلق ہیں اوردفعہ 505جوپبلک میں شرارت انگیزی سے متعلق ہے، یہ وہ ہندوستانی قوانین ہیں جو ملک میں اخبارات وجرائد کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں۔ بڑے اخبارات اور بڑے شہروں کے صحافی ومالکان توعموماً ان قوانین کانشانہ نہیں بنتے، لیکن قصبات اور چھوٹے شہروں کے اخبارات اکثر ان قوانین کی آڑ میں پریشان کئے جاتے ہیں تاہم یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جہانِ سوئم کے اکثر ممالک کی بہ نسبت ،ہندوستانی صحافیوں کو کافی آزادیاں ومراعات حاصل ہیں، گوکہ کچھ افراد ان کا ناجائز فائدہ بھی اٹھالیتے ہیں۔
ان مباحث سے یہ نتیجہ برآمد ہوتاہے کہ آج کسی ایسی جمہوریت کاتصورنہیں کیا جاسکتا جہاں خبروں اور اطلاعات کے حصول اوراشاعت وطباعت کو آئینی آزادی میسرنہ ہو۔اس لئے مغرب میں پریس کو منصبِ چہارم Fourth Estateکہاگیاہے۔ یعنی قرونِ وسطیٰ کے تین منصب: اشراف، کلیسااور عوام کے بعد چوتھے ستون کا اضافہ ہے۔ کسی غیرجمہوری یانیم جمہوری ریاست میں سرکاری ذرائع ترسیل وابلاغ، حکمراں طبقے کا تشہیری محکمہ بن جاتے ہیں۔ ہٹلر کے جرمنی، سابق سوویت یونین اوراکثر عرب ممالک میں یہی صورتحال موجود تھی یا ہے۔خبروںکومسخ کرنے اورجھوٹ کو سچ بنانے کے مقصد کے تحت ہٹلر کے معتمد گوٹیلزنے ’بڑے جھوٹ‘ کا نظریہ قائم کیا، جس کے مطابق چھوٹے جھوٹ کی بہ نسبت بڑے جھوٹ کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے!نازی حکومت نے صحافیوں کے لئے اپنی ایک تنظیم Reich Press Chamberکی رکنیت لازمی کردی تھی ، جس کا بنیادی کام ہی سرکاری پروپیگنڈے کی اشاعت تھا۔ بہت سے افریقی عرب اورایشیائی ممالک میں کچھ اسی قسم کی صورتحال اب بھی جاری ہے۔
سوویت یونین سے آزاد ہونے والی وسط ایشیائی مملکتوں میں بھی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کو مغرب جیسی آزادیاں ابھی تک نصیب نہیں ہوئی ہیں۔ ہندوستان میں ایمرجنسی ۷۷۔۱۹۷۵ء کا دور آزادی ٔ اظہار واشاعت پر غیر قانونی وغیرآئینی قدغنوں کا دورتھا، لیکن بعدمیں جمہوریت بحال ہونے سے صورتحال بہترہوئی۔ پچھلی صدی کی نویں دہائی میں پرائیویٹ چینلوں کے منظرعام پر آنے سے انفارمیشن بازار، میں نہایت بنیادی قسم کی تبدیلیاں رونماہوئیں۔ آج ملک میں صورتحال یہ ہے کہ خبروں کے استناد ، واقعات کے تجزیے اورتفتیشی رپورٹنگ کے شعبوں میں نجی چینل ، سرکاری الیکٹرانک میڈیا کوبہت پیچھے چھوڑ دیاہے۔ پاکستان میں موجودکم آزادیوں کے باوجود پرائیویٹ میڈیا اپنے دائرۂ کارکو وسعت دے رہاہے۔ البتہ دوسرے پڑوسی ممالک ،چین،نیپال، برما اور بھوٹان وغیرہ میں میڈیا ہنوزآزادی کی منزل سے دور ہے۔
جدید دورمیں جسے Information Explosionکادور کہا جاتاہے ، ذرائع ترسیل وابلاغ بالخصوص ٹیلی وژن کو اس قدر قوت حاصل ہوگئی ہے کہ کوئی بھی حکومت ماس میڈیا کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔ دراصل جمہوری اور غیرجمہوری حکومتوں کے درمیان تخصیص ہی میڈیا کی آزادی کی حدود کے ذریعے کی جاتی ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!