آزادی کے بعد بنگال میں غزلیہ شاعری

تحریر: عبد الحلیم انصاری(محمد حلیم)، شعبہء اردو،  رانی گنج گرلس کالج،مغربی بنگال

  Mob:-9093949554

                اردو زبان و ادب میں بنگال کو لکھنو اور دلی کی طرح ایک دبستان کی حیثیت حاصل تو نہ ہو سکی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو زبان و ادب کے ارتقاء اور فروغ میں بنگال نے ایک اہم حصہ ادا کیا ہے۔ڈاکٹر فرحت آرا کہکشاں بنگال میں اردو زبان و ادب کے ارتقاء پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتی ہیں:

                ’’ بنگال میں اردو زبان سترویں صدی عیسوی میں رواج پا چکی تھی۔اسے ادبی حیثیت اٹھارویں صدی عیسوی میں ملی۔اٹھاروی صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل کوبنگال میں شعرو ادب کا ارتقائی دور کہا جا سکتا ہے۔‘‘

(بنگال کا اردو ادب :چند اہم گوشوں کی بازیافت،مرتبین ۔ڈاکٹر فرحت آرا کہکشاں،نکہت جہاں،ص۔۱۳،گرافک پرنٹ کلکتہ۔۲۰۰۹ء)

                کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کے قیام نے اردو شعر وادب کو مہمیز کیا ۔یہاں سے اردو شاعری اور نثر کی سینکڑوں کتابیں تصنیف و تالیف ہوئیں جن سے ریاست میںاردو شاعری و نثر کو کافی فروغ ہوا اور اردو شعر و ادب تیزی سے ارتقائی منزلیں طے کرنے لگا۔

                فورٹ ولیم کالج کے قیام سے پہلے اور برطانوی حکومت کے استحکام سے قبل مرشد آباد اٹھارویں صدی میں بنگال کا اہم شہر بن چکا تھا جہاں مرشد آباد کے راجائوں کی سر پرستی میں شعرو ادب کو فروغ ہو رہا تھا۔مرشد آباد اٹھارویں صدی کے نصف تک بنگال میں ادب و ثقافت کا مرکز بنا رہا۔اس زمانے میں مرشد آباد میں قدرت اللہ قدرتؔ،میر باقر مخلصؔ مرشد آبادی،انشاء اللہ خان انشاءؔ جیسے شعراء پیدا ہوئے جنہوں نے اردو غزل کو معیار عطا کیا اور انکی شہرت دور دور تک گئی۔انیسویں صدی میں بنگال میں نساخؔ،انسخؔ،رشید ؔالنبی،شمسؔ کلکتوی،صادق اخترؔ،اکرام صیغم جیسے کاملِ فن پیدا ہوئے جنہوں نے اردو غزل کووہ بلندی عطا کی کہ وہ دہلوی اور لکھنوی اسکول سے آنکھ ملانے لگی۔نساخؔ نے اپنی فکری بلندی اور فنی پختگی کی بدولت خود کو لکھنو کے شعراء ناسخؔ اور مصحفیؔکا ہم پلہ ثابت کر دیا ۔شمسؔ کلکتوی نے بھی غزل گوئی میں ایسا نام پیدا کیا کہ بنگال میں غزلیہ شاعری دہلوی شعراء کی غزلوں سے آنکھ ملانے لگی۔مرزا داغ ؔدہلوی کا ایک شعر ہے۔

بھنویں تنی ہیں،خنجر ہاتھ میں ہے،تن کے بیٹھے ہیں

کسی سے آج بگڑی ہے جو یوں بن کے بیٹھے ہیں

شمس ؔ کلکتوی نے کہا

جبیں پہ بل ہے غصہ آنکھوں میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

مری بگڑی ہوئی تقدیر گویا بن کے بیٹھے ہیں

                گویا انیسویں صدی ہی میں بنگال میں اردو غزل نے اپنے قدم جما لئے تھے اور یہاں کے شعراء نے اپنی قادرالکلامی کا ثبوت دے دیا تھا۔

                بیسویں صدی میںبنگا میں اردو غزل کو وحشتؔ،آرزوؔ لکھنوی،غواصؔ قریشی،آرزو ؔسہارنپوری،جرم محمد آبادی،جمیل ؔ مظہری،مائل لکھنوی،قمر صدیقی،پرویز شاہدیؔ،شاکر ؔکلکتوی،رضاؔ مظہری،ابراہیم ہوشؔ جیسے مستند و معتبر شعراء ملے۔ان شعراء نے بیسویں صدی میں اردو غزل میں بدلتے ہوئے سماجی وسیاسی اقدار سے اثر قبول کرتے ہوئے اور عالمی اور قومی سطح پرادبی رجحانات اور نظریات سے متاثر ہو کر نئے نئے موضوعات اور خیالات کو پیش کیا اور غزل کو انیسویں صدی کے جاگیر دارانہ ماحول اور پر تصنع

 اسلوب کے حصار سے نکال کر حقیقت پسندانہ اور جمہوری مزاج عطا کیا۔ وحشت ؔ کلکتوی نے اردو غزل میں غالبؔ کے اسلوب کو اپنایا اور غالب دوراں کہلائے۔انکے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

تیرے انداز سے ہے یہ ظاہر وحشتؔ

کہ مقدور ہے ترا غالبؔ دوراں ہونا

کہتے ہیں کیوں ساحر بنگالہ وحشتؔ مجھکو لوگ

کچھ تو طرز غالبؔ جادو بیاں رکھتا ہوں میں

                آزادی کے بعد بنگال کی اردو غزل بھی ملک کے دوسرے حصوں کی غزلوں کی طرح بدلتے ہوئے سماجی،سیاسی حالات سے اور عالمی ادبی نظریات سے متاثر ہوئی۔آزادی کے بعد بنگال میں اردو غزل جن دو نظریات و میلانات سے بہت زیادہ متاثر ہوئی وہ ہیںجدیدیت اور ما بعد جدیدیت ۔جدیدیت اردو غزل میں مغرب سے آئی،دو عالمی جنگوں اور صنعتی ترقی کے نتیجے میں مغرب میں جو سماجی اور ذہنی انتشار،سماجی و معاشی تباہی اور اخلاقی اقدار پر زوال آیا اس نے وہاں کی شاعری کو کو بہت زیادہ متاثر کیا۔اس کے نتیجے میں وہاں جو ادب تخلیق ہوا اسے جدید ادب کہا گیا۔کم و بیش وہی سماجی اور سیاسی انتشار آزادی کے بعد بر صغیر میں دیکھا گیا۔تقسیم ہند کے نتیجے میں جو خونریز فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اس نے یہاں کی سماجی زندگی کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔معاشی اور سیاسی عدم استحکام اور مذہبی منافرت نے فرد کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔وہ تشکیک،خدا بیزاری،ما بوسی اور اخلاقی تنزلی میں مبتلا ہو گیا۔ترقی پسندی کے زوال نے ادب میں فردیت اور داخلیت کو فروغ دیااور اس کا ا ثر غزل پر بھی پڑا۔اس دور کی غزلوں میں کلاسیکی غزل کی روایت سے بغاوت اور نئی علامتوں اور پیکروں کے استعمال پر زور دیا گیا۔غزل میں فنی اور اسلوبیاتی تبدیلیاں رو نما ں ہوئیں۔اس دور میں بنگال میں جدید غزل کے چار نمایاں نام دیکھنے کو ملتے ہیں۔اعزاز اؔفضل،علقمہؔ شبلی،قیصرؔ شمیم اور رونقؔ نعیم۔ ان چاروں کے یہاں جدید غزل کا تیور نمایاں ہے۔ان کی غزلوں میںاسلوب کا نیا پن ،عصری آگہی اور نئے دور کے انسانوں کا کرب جھلکتا ہے۔

استعاروں نے بھی گردن ڈال دی

جو کہا اس نے بجا کہنا پڑا

زمین کی طرح مبتلا ہیں سب اپنے اندر کے زلزلے میں

پہاڑ کے دل میں جا چھپو گے تو اس میں بھی تھر تھری ملیگی

سوئے تو برف گھلتی رہی پور پور میں

جاگے تو سارا جسم پسینے سے تر ملا

                اعزاز افضل ؔ نے بنگال کی اردو غزل کو نیا تیور عطا کیا اور انسان اور اس کے مسائل کو نئے استعاروں اور علامتوں کے ذریعہ تہہ داری اور معنویت کے ساتھ پیش کیا۔وہ جدید غزلوں میں ترقی پسندانہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔وہ ترقی پسندی اور اشتراکیت سے متاثر رہے مگر ان کا لب و لہجہ اور اسلوب جدید ہے۔

                علقمہ شبلیؔ بھی ترقی پسندی کے دور کی پیداوار ہیں مگر انہوں نے جدیدیت کے دور میں اپنے فن اور اپنی فکر کو نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔وہ ترقی پسندی اور اشتراکیت سے متاثر رہے۔مگر نئے دور کے مسائل اور جدید انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو اپنی غزلوں میں خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں ۔

ایک سر بھی تو نہ پہنچا بہر سجدہ دیکھئے

اب وہ کس در پہ اپنا آستاں لے جائیگا

دل کے دروازے پہ دستک کی صدا کوئی نہیں

یہ وہ زنداں ہے جس میں راستہ کائی نہیں

                 قیصرؔ شمیم بھی جدیدیت کے دور میں ایک شاعر کی حیثیت سے ابھرے مگر وہ اشتراکیت سے باضابطہ وابستہ رہے اس لئے انکے کلام میں بھی ترقی پسندانہ خیالات و افکار ملتے ہیں مگر ان کا لب و لہجہ نیا ہے۔لہذا، ترقی پسندانہ طرز فکر اور جدید اسلوب اور پیرایہء اظہار نے ملکرایک منفرد شعری فضا کی تشکیل کی ہے۔

کھلے دریچے کے باہر ہے کون سا موسم

کہ آگ بھرنے لگی سرد لہر آنکھوں میں

نگل رہی ہے یہاں ریت دم بہ دم ہم کو

یہ ریگ زاد خطر در خطر کہاں کا ہے

ہمارے جسموں کو موجیں نگل گئیں قیصرؔ

کہ ساعتوں کا سمندر بڑے جلال میں تھا

                رونق نعیمؔ بنگال میں جدید غزل کی ایک توانا آواز ہیں۔انہوں نے جدید غزل میں فطرت کے مناظر اور اجزاء کو علامتوں کے طور پر استعمال کیاہے۔وہ فارسی ترکیبوں اور الفاظ کا استعمال کم کرتے ہیں اور اردو کے عام فہم الفاظ سے اپنے مفہوم کو بخوبی ادا کر تے ہیں۔کبھی کبھی وہ ہندیکے الفاظ بھی موقع کے لحاظ سے استعمال کر لیتے ہیں۔انکی غزلوں میں بنگال کی مٹی کی خوشبو ملتی ہے۔وہ سماجی و سیاسی موضوعات کو علامتوں اور استعاروں کی مدد سے پیش کرتے ہیں اس لئے ان پر نعرے بازی کا الزام نہیں لگا۔حالانکہ وہ ترقی پسندی سے متاثر رہے۔

کہیں نہ مجھ پہ ہو نازل سمندروں کا عتاب

ندی ہوں خواب میں دریا دکھائی دیتا ہے

رونق ؔ کوئی نہ لیگا کسی ندی کا نام

پیاسے گھڑے کا خواب اگر ٹوٹ جائیگا

بندھے ہوئے تھے گٹھائوں کے پائوں میں گھنگھرو

کسے خبر تھی کہ سیلاب آنے والا تھا

                ان شعراء کے علاوہ آزادی کے بعد جدید غزلیہ شاعری میں اپنی پہچان بنانے والوں میں ناظمؔ سلطانپوری،خالقؔ عبداللہ،احمدؔ رئیس،شہود عالم آفاقی،فاروق شفق، وحید عرشیؔ ،حبیب ہاشمی،محبوبؔ انور،شبیر ابر وی،حشم الرمضان کے نام قابل ذکر ہیں۔انکی غزلوں میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور جدید معاشرے کے جذبات و مسائل کی ترجمانی بھی۔ان کا اسلوب اور انکی لفظیات میں جدت اور جدیدیت کا رچائو بھی ہے۔

وہ بھی اک طوفان کا پالا ہوا انسان تھے

کشتیاں اپنی جلا کر میر ساحل بن گیا

                                                                                                                                                (احمدؔ رئیس)

سیاہ بادل گرج رہے ہیںلہو کی بارش ضرور ہوگی

اب آپ کی کھوکھلی پناہیں حضور لیکر بھی کیا کریں گے

                                                                                                                                                (خالقؔ عبداللہ)

سلگ رہا ہوں ستاروں کی چھائوں میں تنہا

جواز ڈھونڈ رہا ہوںتری جدائی کا

                                                                                                                                                (ناظمؔ سلطانپوری)

روشن چراغ کرنا غریبوں کے خون سے

کوئی خطا نہیں ہے خطائوں کی شہر میں

                                                                                                                                                ( شہود عالم آفاقیؔ)

بے تکلف ہو کے دونوں آج مدت پر ملے

اس کی الجھن کم ہوئی میری پریشانی گئی

                                                                                                                                                (فاروق شفقؔ)

غمِ حیات کی کیلیں تھیں دست دیا میں جڑی

تما عمر رہے ہم صلیب پر لٹکے

                                                                                                                                                ( وحید عرشیؔ )

                اس دور میں منورؔ رانا نے تیزی سے غزل گوئی میں اپنا مقام بنایا۔انہوں نے شعری اظہار کے بندھے ٹکے پیمانوں کو توڑا اور اظہار کے نئے پیمانے وضع کئے۔انہوں نے غزلوں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو عوام کی زبان میں پیش کر کے غزل کی مقبولیت میں اضافہ کر دیا۔گائوں کی زندگی اور اس کی سادگی اور شہری زندگی کے تصنع،تعفن،مکر و فریب،ریا اور اخلاقی پستی کوانہوںنے اپنے غزلوں میں سمویا۔غربت و افلاس،بیروزگاری اور موقع پرستی کو بھی انہوں نے اپنے غزلوں میں پیش کر کے غزل کو عوام کے جذبات کا ترجمان بنا دیا۔انہوں نے ماں کو اردو غزل میں اعلی ٰ مقام پر فائز کر کے ایک نئی روایت قائم کی۔

وہ تو لکھا کے لائی ہے قسمت میں جاگنا

ماں کیسے سو سکے گی کہ بیٹا سفر میں ہے

سوجاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھا تے

کچی سڑکوں سے لپٹ کر بیل گاڑی رو پڑی

غالباً پر دیس کو گائوں والے جائیں گے

ہمارے ساتھ چل کر دیکھ لیں یہ بھی چمن والے

یہاں اب کوئلہ چنتے ہیں پھولوں سے بدن والے

                ۱۹۸۰ء کے بعد اردو غزل میں با بعد جدیدیت کا دور شروع ہوتا ہے۔مابعد جدیدیت کوئی ادبی تحریک نہیں تھی بلکہ نظریات اور سیاسی و سماجی تحریکوں سے آزاد شاعری کا منظر نامہ تھا۔اس دور کا شاعرانہ ترقی پسندی سے نظریاتی وابستگی رکھتا تھا اور نہ ہی جدیدیت کو فیشن کے طور پر استعمال کرنے کا قائل تھا۔اس دور کے شاعر نے اپنے ضمیر،اپنے ذہنی میلان اور اپنے مشاہدے کو رہنمابنایا اور سماجی آگہی سے پر ُاور تہذیبی و ثقافتی زندگی کی ترجمانی غزلوں میں کی۔انکے یہاں روایت اور جدّت کا امتزاج ہے۔اس کے باو جود ہر شاعر نے غزلوں میں اپنی انفرادیت قائم کرنے کی کوشش کی۔ان شاعروں میں اکبر حسین اکبرؔ،احمد کمال حشمی،تسلیمؔ نیازی،ف س اعجاز،اشہر ہاشمی،یوسف تقی ،کلیم حاذق، بیدل ؔ مرشد آبادی،احسان ثاقب،ؔ،حلیمؔ صابر،محسن باعشن حسرتؔ،عالم انجمؔ،نصراللہ نصرؔ،عمران راقمؔؔ،احسن شفیق،ندیم ؔاحمد،فیروز اخترؔ،فصیح احمد ساحرؔ،شمیم انجمؔ وارثی،عاصمؔ شہنواز شبلی،صدفؔ جعفری،ضمیرؔ یو سف،نسیمؔ عزیزی،فراغؔ روہوی،نوشادؔ مومن،سہیلؔ ؔارشد،وقیع منظرؔ،معراج احمد معراجؔ وغیرہ نے بنگال کی جدید غزل کی فکری اور فنی پرورش کی ہے۔ان کے یہاں اظہارکے نئے نئے پیرائے اور کبھی کبھی تجربے بھی ملتے ہیں۔اور اس طرح غزل کے دو مصرعوں میں معنی کے ایک جہان کو قید کرنے کا مشکل کام انجام دیتے ہیں۔ ذیل میں ان کے اشعارنمائندہ اشعار درج کئے جاتے ہیں۔

بوڑھے پیڑ یہ کب تک گنگا جل دیں گے

ننھے پودوں کو سینچیں یہ پھل دیں گے

                                                                                                                                                (اکبر حسین اکبرؔ)

لفظ تو مفہوم کی ترسیل میں ناکام ہے

اور اس پر خامشی لے گئی تو کیا بچا

                                                                                                                                                (احمد کمال حشمیؔ)

زبان لکھتی ہے آنکھوں کے منافی

منافق ہو گیا ہے یہ صحافی

                                                                                                                                                (تسلیمؔ نیازی)

روز اٹھتا ہوں تو یہ دیکھنا پڑتا ہے مجھے

کل جو موجود تھا وہ آج بھی ہے بھی کہ نہیں

                                                                                                                                                (ندیمؔ احمد)

جمود ٹوٹے یہاں کوئی انتشار تو ہو

برس بھی جائے کہ مو سم کا اعتبار تو ہو

                                                (فیروزاخترؔ)

مٹی کے کھلونوں کی طرح ٹوٹ گئے ہیں

وہ لوگ جو جذبات پہ قابو نہیں رکھتے

                                                                                                                                                (شمییم انجمؔ)

اپنوں کے طرفدار رہے میر ؔبھی ہم بھی

اپنوں سے بیزار رہے میر ؔ بھی ہم بھی

                                                                                                                                                (عاصمؔ شہنواز شبلی)

گزرے ہوئے خزاں کا زمانہ گزر گیا

ویرانیوں کا عکس ابھی منظروں میں ہے

                                                                                                                                                (ضمیر یوسفؔ)

عجیب شخص ہے شیشے سجا رہا ہے یہاں

وہ جانتا نہیں یہ شہر پتھروں کا ہے

                                                                                                                                                (فصیح احمد ساحرؔ)

زخم خوردہ چہرہ چہرہ شہر کا

اس پہ امن و آستی کے دستخط

                                                                                                                                                (نسیمؔ عزیزی)

اس سے بہتر ہے کہ خود ہی طے کریں ہر راستہ

کس طرف لے جائیں گے یہ رہنما معلوم ہے

                                                                                                                                                (فراغؔ روہوی)

وطن کے واسطے قربانیاں کچھ کم نہ تھیں اپنی

فکر اب بھی ہمیں خوں سے نہانا روز ہوتا ہے

                                                                                                                                                (نوشاد ؔ مومن)

ہماری سخت جانی پر فرات و کربلا حیراں

رہیں نہ ہاتھ تو دانتوں سے مشکیزہ اٹھاتے ہیں

                                                                                                                                                (سہیلؔ ارشد)

ترس کھا کر پرندے کو شکاری چھوڑ دیتا ہے

مگر غنڈہ کہاں لیکر سپاری چھوڑ دیتا ہے

                                                                                                                                                (وقیع منظرؔ)

اس کی بیٹی قتل کر دی گئی سسرال میں

اور خبر شائع ہوئی خود کشی کے نام سے

                                                                                                                                                (معراج احمد معراجؔ)

                اس دور میں کئی شاعرات نے بھی بنگال کی غزل میں اپنا نام روشن کیا ہے۔انہوں نے نسائی جذبات اور احساسات کو اشعار کے قالب میں ڈھال کر صنفِ غزل کی دلکشی و رعنائی میں اضافی کیا۔ان شاعرات میں شہنازؔ نبی،صدف جعفری،ریحانہؔ نواب،زرینہ زریں،شگفتہ یاسمین غزلؔ،ممتاز صنمؔ،کوثر پروین کوثرؔ،نغمہؔ نور،نادرہ نازؔ اورصابرہ خاتون حناؔ کے نام قابل ذکر ہیں۔ذیل میں انکے نمائندہ اشعار پیش ہیں۔

کیاری کیاری یاد تمہاری خوشبو بن کے پھیلے گی

نرم بہت ہے دل کی مٹی بس آن بیچ جاتے جائو

                                                                                                                                                (شہناز ؔ نبی)

چشم حیرت کی زبوں حالی بتائوں کیا تمہیں

کل کبوتر جب لئے بیٹھا تھا تیور باز کے

                                                                                                                                                (صدف جعفری)

میں عشق کے اس موڑ پہ پہنچی ہوں ریحانہؔ

جس موڑ پہ امید کا سایہ بھی نہیں ہے

                                                                                                                                                (ریحانہؔنواب)

مخملی جو خواب تھے سب ریزہ ریزہ ہوگئے

جب چبھیں خوابوں کی کرچیں،وہ گھڑی اچھی لگی

                                                                                                                                                (زرینہ زریں)

سب کھلونوں کو نہ یوں ہی ایک ہی الماری میں رکھ

فرق تو کچھ دشمنی اور دلداری میں رکھ

                                                                                                                                                (شگفتہ یاسمین غزل)

لمحوں میں زندگی کو تو وہ بانٹتا رہا

قسطوں میں جی رہی تھی یہ میرا شعور تھا

                                                                                                                                                (ممتاز صنمؔ)

ہزار پردے میں اے چھپ کے بیٹھنے والے

یہ روشنی سی مرے دل کے چار سو کیا ہے

                                                                                                                                                (کوثر پروین کوثر)

تمہارا ذکر ہونٹوں پر تلاوت سے ذرا کم ہے

محبت سے زیادہ  ہے عبادت سے کم ہے

                                                                                                                                                (نغمہ نورؔ)

آبلہ پا ہوں میں،منزل پہ نظررکھتی ہوں

سخت راہوں پہ بھی چلنے کا ہنر رکھتی ہوں

                                                                                                                                                (نادرہ نازؔ)

کارِ جہاں دراز ہے عمر رواں ہے کم

دو دن کی اس حیات میں صدیاں بسائوں میں

                                                                                                                                                (صابرہ خاتون حناؔ)

                ان شعراء و شاعرات کے علاوہ بنگال کے جدید غزل کے منظر نامے میں اور بھی نام ہیں جن کی غزلوں میں فکر و فن کے جگنو چمکتے ہیں۔ان شاعروں کے یہاں زندگی اور فن کو برتنے کا اپنااپنا سلیقہ ہے۔ان شاعروں میں شفیق الدین شایاں،ہمدم نعمانی،ارشاد آرزو،شگفتہ طلعت سیما،بانو ناز،شہناز رحمت،مہ ناز واثی،سلمیٰ سحر،بشریٰ سحر،مسرت حسین عازم،افضال عاقل،زاہد امر،فہیم انور،ممتاز انور،شمس افتخاری،،نسیم فائقؔ،احمد معراج، ؔ،ندیم ؔشعبانی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.