کرشن چندر کے افسانوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی جھلک

تحریر: ڈاکٹر اشوک کمار بیٹھا، آزاد لین، چودھری ٹولہ، سلطان گنج، پٹنہ-800006

                ۱۹۴۷ء میں آزادی مل گئی لیکن ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ اس کے گونا گوں اثرات دونوں ملکوں کی عوام پر پڑے۔ تقسیم کے نتیجے میں ایک نیا ملک قیام عمل میں آیا۔ بڑے پیمانے پر فسادات پھوٹ پڑے۔ تحریک آزادی کو ہندو مسلم دونوں نے مل کر آگے بڑھایا تھا۔ دونوں نے ایک ساتھ مل کر سامراجی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ دونوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں اور دونوں قوم کے لوگوں نے بے شمار جانیں گنوائی تھیں لیکن آزادی مل جانے اور تقسیم ملک کے بعد دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے ۔ بے شمار لوگ ترک وطن کرکے ایک دوسرے ملک میں پناہ گزریں اور مہاجر بنے۔ تقسیم اور اس کے بعد کے واقعات کے  نتیجے میں ہندو پاک کے لوگوں کی زندگی سیاسی، سماجی، جغرافیائی، مذہبی، تہذیبی، لسانی اور نفسیاتی طور سے بے حد متاثر ہوئی۔ لاکھوں زندگیوں پر تقسیم ملک کے اثرات پڑے۔ ادیب و فنکار بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے زیادہ تر افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے یہاں تقسیم کے گہرے اثرات نمایاں ہیں۔ تقسیم ملک اور اس کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کو اردو کے ادیب فنکار نے ایک اہم موضوع سمجھ کر اپنایا۔ اس حادثے کی گونج ہندو پاک دونوں ملکوں کے فکشن نگاروں کے یہاں یکساں سنائی دیتی ہے۔ قرۃ العین حیدر، حیات اللہ انصاری، عصمت چغتائی، کرشن چندراور رامانند ساگر وغیرہ نے اس المناک حادثے اور اس کی تباہ کاریوں کو پیش کیا ہے۔ زیادہ تر فنکاروں نے تقسیم کو ایک غیر فطری حادثہ قرار دیا اور دو قومی نظریئے کو ماننے سے انکار کیا ہے۔

                کرشن چندر نے اپنے ناول ’’غدار‘‘ اور راما نند نے اپنے ناول ’’اور انسان مرگیا‘‘ میں تقسیم کی ہولناکی اور انسانیت سوز واقعات پر ماتم کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو انسانیت کی موت سے تعبیر کیا ہے:

’’آج صدیوں کی غلامی کے بعد ہندوستان آزاد ہورہا تھا۔ اس آزادی کے لیے بہت سی قربانیاں دی گئی تھیں۔ بھارت ماتانے اپنے بہترین سپوت اور انسانی ہیرے اس آزادی کی دیوی پر قربان کردئے تھے۔ لیکن آج ان بے مثال انسان کے خون سے بھی زیادہ قیمتی شئے قربان کی جارہی تھی۔ہندوستان کو بھارت اور پاکستان نام کے دو ملکوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ ‘‘

                                (’’اور انسان مر گیا‘‘ راما نند ساگر۔ ہندپاکٹ بکس پرائیوٹ لمیٹیڈ، دہلی۔ ص:۲۱)

’’ہائے کیسے کہوں؟ وہ دیس میرا دیس نہیں ہے جس کی مٹی کا ایک ایک ذرہ میرے دل میں ہیرے کی طرح روشن ہے اور کیسے کہوں صرف یہی دیس میرا ہے جہاں میرے سارے احساسات اجنبی ہیں۔ مجھے تو راوی کے اس کنارے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ دریا کے دونوں کناروں پر ریت کے تودے ہیں اور دونوں کناروں پر لاشیں پڑی ہیں اور بیچ میں راوی کا وہی پانی بہہ رہا ہے جو اس دھرتی پر ہندئوں اور مسلمانوں کے آنے سے پہلے بہتا رہا۔ ‘‘ (’’غدار ‘‘(ناول) کرشن چندر، پبلشر کملا چوپرہ، دہلی۔ ۱۹۶۷ء، ص:۱۱)

                تقسیم ہند کے بعد ایک اجتماعی جنون کے تحت مختلف فرقوں کی حرکات و سکنات ان کے قابو میں نہ رہیں۔ انسانیت کی دھجیاں اڑنے لگیں۔ ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ ایسے میں ادیبوں نے اپنے ضمیر کی آواز کو انسانیت کی حمایت میں بلند کیا۔ بربریت کے خلاف آواز اٹھائی۔ ادیبوں کی اس فہرست میں راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر دونوں آگے آگے نظر آتے ہیں۔ تقسیم ملک اور اس کے بعد کے حالات نے دونوں افسانہ نگاروں کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب بھی اس تقسیم سے تباہ ہوکر رہ گئی تھی۔ دونوں فنکاروں نے اس سانحے کے مختلف پہلوئوں پر افسانے لکھے۔ راجندر سنگھ بیدی نے تقسیم ملک اور فسادات پر بہت کم افسانے لکھے لیکن اس بربریت کے زیر اثر متاثر ہونے والی ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی تباہی، نئی تہذیب کی ابتدا، زمیندار اور اعلیٰ عہدے دار طبقے کے مختلف پہلوئوں ، عورتوں کے مسائل اور نچلے اور متوسط طبقے کی زبوں حالی کو اپنے افسانے کاموضوع بنایا۔

                کرشن چندر نے اس افسانے میں ہندو پاک کے مختلف اسٹیشنوں کا ذکر کیا ہے جہاں جہاں ٹرین رکی یارو کی گئی اور وہاں انسانیت کا ننگا ناچ دکھایا گیا۔ ٹکشیلا اسٹیشن کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ گاڑی کو بہت دیر تک اس لیے روکا گیا کہ آس پاس کے گائوں سے ہندو پناہ گزیں گاڑی میں سوار ہونے کے لئے آرہے تھے۔ جب وہ گاڑی میں سوار ہونے کے لئے آئے تو انہیں دیکھ کر اس کی روح کانپ اٹھی۔ اس لیے یہ وہ زندہ انسان نہ تھے بلکہ وہ ہندئوں کی لاشیں تھیں جو مسلمان اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے انہیں بلوچی دستے کے حوالے کیں اور ٹرین سے دو سو زندہ انسانوں کو یہ کہتے ہوئے اتار لیا کہ ان دو سو لوگوں کے چلے جانے کے بعد ان کا گائوں خالی اور سونا سونا ہوگیا ہے۔ پھر انہیں بھی مار دیا گیا۔

’’مجمع کے سرغنے نے ہندو پناہ گزینوں سے کہا کہ دو سو آدمیوں کے چلے جانے سے ان کے گائوں ویران ہوجائیں گے اور ان کی تجارت تباہ ہوجائے گی اس لئے وہ اس گاڑی میں سے دو سو آدمی اتار کر اپنے گائوں لے جائیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہو۔ وہ ملک کو یوں برباد ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ ‘‘

                                                (بحوالہ ’’ہم وحشی ہیں‘‘ کرشن چندر ، ص:۹۸،۹۹)

                کرشن چندر نے راولپنڈی اسٹیشن اور اس سے آگے کے دلدوز واقعات پیش کئے ہیں۔  لاہور اسٹیشن پر امرتسر سے آنے والی ٹرین سے سینکڑوں لوگوں کو اتار کر انہیں مار ڈالا گیا۔ کرشن چندر نے لکھا ہے کہ جب پشاور اکسپریس ہندوستان کی سرحد میں داخل ہوئی ۔ مغل پورہ سے بلوچی سپاہیوں کی جگہ ہندو اور سکھ سپاہی سوار ہوگئے او روہاں سے ٹرین کی فضا بالکل بدل گئی۔ ایک جگہ جنگل میں ٹرین روک دی گئی اور وہاں چھپے ہوئے مہاجرین کو ختم کر ڈالا۔ پھر جالندھر سے تھوڑی دور گاڑی روک کر اس گائوں کی پوری پٹھان آبادی کو نست و نابود کر دیا۔ ایک نوجوان لڑکی کو جو مسلم ڈپٹی کمشنر کی بیٹی تھی کو پکڑ کر کچھ لوگ مار دینا چاہتے تھے تو کچھ لوگ اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ مصنف اس واقعہ کو اس طرح پیش کرتے ہیں:

’’یہاں یہ کانفرنس شروع ہوئی کہ لڑکی کوچھوڑ دیا جائے یا مار دیا جائے۔ لڑکی نے کہا مجھے مارتے کیوں ہو؟ مجھے ہندو کرلو۔ میں تمہارے مذہب میں داخل ہوئی جاتی ہوں۔ تم میں سے کوئی ایک مجھ سے بیاہ کرلے۔

میری جان لینے سے فائدہ!

ٹھیک تو کہتی ہے۔ ایک بولا۔

میرے خیال میں ۔ دوسرے سے قطع کلام کرتے ہوئے اور لڑکی کے پیٹ میں چھرا بھونکتے ہوئے کہا۔ میرے خیال میں اسے ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔ ‘‘

                                                                (ہم وحشی ہیں۔ کرشن چندر، ص:۱۰۸)

                اسی طرح کرشن چندر نے ’’امرتسر آزادی سے پہلے‘‘ اور ’’امرتسر آزادی کے بعد‘‘ میں ان حالات واقعات کا نقشہ کھینچا ہے جو ملک کی آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کے تھے۔ آزادی سے پہلے کے واقعہ ہندو مسلم یکجہتی کو پیش کرتے ہوئے جلیاں والا باغ کا واقعہ پیش کیا ہے کہ کسی طرح دونوں قومیں ایک ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف صف آرا ہوگئے تھے۔ اتنا ہی نہیں ایک دوسرے کے جان بچانے کے لیے اپنی جان دائو پر لگادیتے تھے:

’’جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اس مجموع میں ہندو بھی تھے سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی۔ ہندو مسلمانوں سے اورمسلمان سکھوں سے الگ صاف پہچانے جاسکتے تھے۔ صورتیں الگ تھیں مزاج الگ تھے۔ تہذیبیں الگ تھیں۔ مذہب الگ تھے۔ لیکن آج یہ سب لوگ جلیان والا باغ میں ایک ہی دل لے کے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔اور جب گولی لگی تو پہلے اوم پرکاش کو لگی کندھے کے پاس اور وہ زمین پر گر گیا۔ صدیقی اسے دیکھنے کے لئے جھکا تو گولی اس کی ٹانگ کو چھیدتی ہوئی پار ہوگئی۔۔۔ صدیق اوم پرکاش پر اور بھی جھک گیا۔ اس نے اپنے جسم کو اوم پرکاش کے لئے ڈھال بنالیا۔‘‘

                                (ہم وحشی ہیں، کرشن چندر، ص:۶۹۔۷۰)

                کرشن چندر نے دکھایا ہے کہ تقسیم ملک سے قبل ہندو، مسلم اور سکھ تینوں بہ لحاظ ملت و مذہب، تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا۔ یہ لوگ ایک ساتھ آزادی کے جنگ میں لڑے مرے مگر اف تک نہ کی لیکن تقسیم کے بعد یہی لوگ ایک دوسرے کے خون کی ہولی کھیلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ قومی یکجہتی ، ہم آہنگی اور امن و آشتی کی روایات کو بھلاکر ایک دوسرے کے خلاف اپنی محاذ آرائی شروع کردی، بربریت اور وحشی پن کے ایسے ننگے ناچ کئے جن سے انسان کی روح تک کانپ گئی:

’’گلی میں آٹھ دس گھر تھے جو جلے پڑے تھے۔ ان کے ٹوٹے ہوئے دروازے اور کھڑکیاں سب کھلی پڑی تھیں۔ گلی کے فرش پر عورتوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ ہر طرف ہوکا عالم تھا۔‘‘

                                                                                                (امرتسر)

                ’’اندھے‘‘ ، ’’لال باغ‘‘ ، ’’ایک طوائف کا حق‘‘ اور ’’جیکشن‘‘ وغیرہ فساد کو موضوع بناکر لکھے گئے ایسے افسانے ہیں جنہیں پڑھ کر قاری لرز اٹھتا ہے۔

                مختصر یہ کہ آزادی کے بعد فسادات کے زمانے میں وحشت ، درندگی اور بدی کے جو ننگے ناچ ہوئے ۔ کرشن چند نے اپنے افسانوں کے ذریعے انہیں بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی کہ نیکی کی قوتوں کو بدی کی قوتوں نے کس طرح کچل کر دکھ دیا۔ انسان کی سفاکی کتنی بڑھ گئی کہ پوری انسانیت مجروح اور شرمسار ہوکر رہ گئی۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.