’’اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ کا فکری و فنی جائزہ
تحریر: ڈاکٹرمہر محمد اعجاز صابر، ایسوسی ایٹ پروفیسر ؍ وائس پرنسپل اورصدر شعبۂ اُردو، بلوچستان ریذیڈنشیل کالج،خضدار، پاکستان
mmejazsabir@gmail.com
Abstract:
Dr Farman Fathepuri (1926-2013) , a prominent research Scholar and Urdu Prose Writer is very well known in all over the world, as a researcher,critic,linguist and a teacher of Urdu.He spent his life for the progress of Urdu language and literature. He was familiar to the importance of Urdu literature and did the Scholarly work for the promotion of Urdu language and left arround sixty two books behind him.”Urdu Shuraa kay Tazkray aur Tazkra Nigari” is his resaech work on which from University of Karachi awarded him degree of D.Lit .In this article the analyticl study of this resarch work is presented.
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ’’اُردو شعراء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘ ‘ کے موضوع پر تحقیقی کام ماہ نامہ نگارِ پاکستان کے سالنامے کے اجراء کے لیے علّامہ نیاز فتح پوری کی تحریک اور اصرار پر کیا۔ اُن کے اس کام کو علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور جامعہ کراچی نے اس کام کی اہمیت کے پیش نظر اُنھیں اُن کے اس تحقیقی کا م پر ڈی۔لٹ کی سند سے نوازا۔اس مقالے میں اس تحقیقی کام کا فکری و فنی جائزہ لیا جائے گا۔
اُردو ادبی تنقید ی سرمائے میں تذکروں کی اہمیت مسلّمہ ہے۔ان تذکروں کے ذریعے اُس دَور کی معاشرت اور زندگی کا نقشہ نظروں کے سامنے آنے کے ساتھ اُس زمانے کے معیار اخلاق و طرز معاشرت اور تذکرہ نگاروں کے تحقیقی و تنقیدی شعور کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ان تذکروں کے مطالعے سے اُس زمانے کے علمی و ادبی حلقوں کی مصروفیات،رقابتوں، کش مکش، وضع داریوں ،باہمی سلوک ،روابط اورپسند و ناپسند کے معیارات کی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ ۱؎ یہ کہنا درست ہے کہ اُردو میں ادبی تنقید اور مباحث کا سلسلہ تذکروں کے ذریعے آگے بڑھا اوراگر یہ تذکرے سامنے نہ آتے،تو اُردو زبان و ادب کا قدیم ورثہ آنکھوں سے اوجھل رہتا۔۲؎ بقول ڈاکٹر معین الدین عقیل ’’تاریخ، تحقیق اور تنقید کا باہمی امتزاج اور اشتراک ہمیں ابتداً تذکرہ نگاری میں نظر آتا ہے،جس میں تذکرہ نگاروں کا تنقیدی شعور بھی شامل ہے کہ جس کے زیر اثر وہ شعرا کا کلام منتخب کرتے رہے اور کہیں کہیں اُن کے کلام اور اُن کی شخصیت ،اُن کے ذوق و فکر کی جانب بھی اشارہ کرتے رہے ۔پھر ان میں گاہے تحقیقی اور تاریخی شعور بھی نظر آتا ہے۔‘‘۳؎
اُردو میں تذکرہ نگاری کی روایت فارسی سے داخل ہوئی اور یہ تذکرے نہ صرف فارسی کے تذکروں کو معیار بناکر لکھے گئے ،بلکہ فارسی زبان ہی میں لکھے گئے۔ ان تذکروں میں شعرا کے مختصر تعارف کے بعد اُن کے کلام پر تھوڑی بہت رائے دی جاتی تھی یا محض اُن کے کلام کا نمو نہ دے دیا جاتا تھا۔ڈاکٹر عبادت بریلوی کی رائے درست ہے کہ عام طور پر ان تذکروں میں تین چیزیں دکھائی دیتی ہیں ۔اوّل شاعر کے مختصر حالات ، دوم اُس کے کلام پر مختصر تبصرہ اور سوم اُس کے کلام کا انتخاب ۔ ۴؎ اُردو شعرا کا پہلا باقاعدہ تذکرہ میرتقی میرؔ کا ’’ نکات الشعرا ‘‘ ہے ،جس میں مختلف شعراکے مختصر حالات زندگی کے ساتھ اُن کے کلام پر مختصر تبصرہ ملتا ہے۔ ۵؎
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے ۷۵۸ صفحات پر محیط مقالے ’’اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘میں تذکرہ نگاری کے مفہوم، فارسی تذکروں کی قدامت، ان کی نوعیت و اہمیت، اُردو شعرا کے قدیم تذکروں، ان کی ابتدا ،تذکرہ نگاری کے محرکات، ان کی تعداد اور پرانی فہرستوں، ان سے متعلق تحقیقات، ان تذکروں کی نوعیت اور ان کی معنوی حیثیت و اہمیت سے متعارف کرانے کے ساتھ اُردو شعرا سے متعلق پہلے تذکرے سے آزاد ؔکے ’’آب حیات‘‘ تک کے ۶۸ تذکروں کا تلاش و جستجو کے بعد تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔مقالے کے ماخذ میں اُردو اور فارسی کی کتابوں ابطال الباطل، آثا ر البلاد، آثار الصنادید، آرایش محفل، اُردوئے معلی، ارشاد العارفین، اشعار نساخ(دیوان)، اندر سبھا، اندوختہ گریبان، باغ و بہار، بوستان سعدی، بھگت مالا، حدایق البلاغہ، دربار اکبری، دریائے لطافت، ذکر میر، سخن دان فارس، عبدالغفور نساخ(قلمی نسخہ)، غریب گلزار ، کاشف الحقائق اور مختلف تذکروں وغیر ہم جیسی نادر اور کلاسیکل کتابیں شامل ہیں۔
مقالے کے آغاز میں تذکرہ نگاری کے مفہوم کی وضاحت کرنے کے بعد ،فارسی تذکروں کی قدامت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس سلسلے میںفارسی شعرا کے تذکروں کو زیر بحث لاتے ہوئے فارسی شعرا کے پہلے تذکرے اور اس کے بارے میں مختلف آراء کو سامنے لایا گیا ہے۔ان مباحث کی روشنی میں مکمل شواہد اور دلائل کے ساتھ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ فارسی شعرا کا پہلا تذکرہ نور الدین محمد عوفی کا ’’لباب الالباب‘‘ ہے ،جو ۱۶۱۷ ھ اور ۱۶۱۸ھ کے درمیانی عرصے میں تکمیل کو پہنچا۔ ۶ ؎ فارسی شعرا کے اس پہلے تذکرے کے علاوہ فارسی شعرا کے چونتیس تذکروں کی فہرست نقل کرنے کے بعد فارسی تذکروں کی نوعیت و اہمیت پر ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، عبدالوہاب قزوینی اور مظہر مصفا کی آرا ء کو زیر بحث لاتے ہوئے تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعداُردو شعرا سے متعلق فارسی میں لکھے گئے تذکروں کے آغاز کو زیر بحث لایا گیا ہے،جن کا آغاز اٹھارویں صدی کے وسط سے ہو ا۔ اٹھارویںصدی کے وسط سے اُنیسویں صدی کے رُبع اوّل تک اُردو شعرا کے بارے میں لکھے گئے تمام تذکرے بہ استثنائے ’’ گلشن ہند‘‘ اور ’’ گلدستۂ اُردو‘‘ سب کے سب فارسی زبان میں تحریر کیے گئے۔ ۷؎
اب تک اُردو شعرا کے قدیم ترین تذکروں کے سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور میرتقی میرؔ کے ’’ نکات الشعرا‘‘ ، حمید اورنگ آبادی کے ’’ گلشن گفتار‘‘ ، افضل بیگ قاقشال کے ’’ تحفۃ الشعرا‘‘ ، فتح علی حسینی گردیزی کے ’’ ریختہ گویاں ‘‘ اور قیام الدین قائم کے ’’مخزن ِ نکات‘‘ کو اُردو شعرا کے قدیم تذکروں میں شمار کیا جا تا ہے۔ڈاکٹر فرمان نے مولوی عبدالحق،محی الدین قادری زور، حبیب الرحمان خان شروانی،گارسیں دتاسی،حافظ محمود شیرانی،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سیّد محمد ایم۔اے،کلیم شمس اللہ قادری اور قاضی عبدالودود کی آراء کے حوالے سے بحث کی ہے،جس کے مطابق میرؔ کے تذکرے ’’ نکات الشعرا‘‘ کو اُردو شعرا کا پہلا تذکرہ کہا گیا ہے۔۸؎ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اسے تسلیم کرنے میں تامل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تحقیقی نقطۂ نظر سے نکات الشعرا کی تقدیم سمجھ سے باہر ہے کیوں کہ نکات الشعرا، گلشن گفتار اور تحفۃ الشعراتینوں تذکرے ۱۱۶۵ء میں مکمل ہوئے۔ اُنھوں نے سوال اُٹھایا ہے کہ تینوں کا سن تصنیف ۱۱۶۵ء ہے ،تو پھر نکات الشعرا کو باقی دو سے کیسے مقدم سمجھا جائے۔۹؎ بعض حضرات کی جانب سے میرؔ کے تذکرے کو فتح علی حسینی کے تذکرے ’’ ریختہ گویاں ‘‘ اور قائم کے تذکرے ’’مخزن ِ نکات‘‘ سے مقدم خیال کیے جانے کو تحقیق طلب قرار دیے جانے کے حوالے سے مباحث کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔اس حوالے سے مباحث کو سامنے لاتے ہوئے اتفاق کیا گیا ہے کہ میرؔ ،گردیزی اور قائم ؔ تینوں نے ایک دوسرے کی معلومات سے استفادہ کرنے کے باوجود معاصرانہ چشمک یا اخلاقی جرأت کی کمی کے باعث ایک دوسرے کے تذکرے کا نام نہیں لیا۔۱۰؎ ڈاکٹرفرمان کا کہنا ہے کہ مولانا امتیاز علی خاں عرشی کی تحقیقات کے مطابق ’’ریختہ گویاں‘‘ کا آغاز ۱۱۵۶ھ، ’’مخزن نکات‘‘ کا ۱۱۵۷ھ او ر ’’ نکات الشعرا‘‘ کا ۱۱۶۱ ھ میں ہوا او ر سا ل آغاز کے لحاظ سے تاریخی ترتیب قائم کرنے سے پہلا تذکرہ ’’ ریختہ گویاں‘‘ ، دوسرا ’’ مخزن نکات‘‘ اور تیسرا ’’نکات الشعرا‘‘ قرار پاتا ہے ،لیکن چوں کہ کتابوں کا سال تصنیف ان کا سال آغاز نہیں ،بلکہ سال اختتام شمار ہوتا ہے اس لیے عرشی صاحب ہی کی تحقیق کے مطابق ’’ نکات الشعرا‘‘ ۱۱۶۵ھ، ’’ ریختہ گویاں‘‘ ۱۱۶۶ھ اور ’’ مخزن نکات‘‘ ۱۱۶۸ھ میں پایۂ تکمیل کو پہنچا۔اس لحاظ سے میرؔ کا تذکرہ’’ نکات الشعرا‘‘ گر دیزی اور قائم کے تذکروں سے مقدم ہو جاتا ہے۔۱۱؎ اس بارے میں عطا کاکوی لکھتے ہیں کہ :
’’ میرؔ اُردو شعرا کے تذکرے کی تالیف میں اوّلیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور تماشا یہ ہے کہ قائم بھی اوّلیت کے مدعی ہیں ۔دونوں ہم سن بھی تھے اور ہم سایہ بھی۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں تک تذکرہ نگاری کا تعلق ہے ایک دوسرے سے ناواقف نظر آتے ہیں ۔اسی زمانہ میں دکن میں گلشن گفتار اور تذکرہ قاقشال کی تالیف کا سراغ ملتا ہے۔ممکن ہے کہ دوری کے باعث میرؔ کو اطلاع نہ ہو۔ساری بحث کا خُلاصہ یہ ہے کہ شمالی ہند میں نکات کو اب تک اوّلیت کا شرف حاصل ہے۔‘‘۱۲؎
پروفیسر ڈاکٹر احمد لاری کے مطابق مولوی عبدالحق نے ’’تذکرۂ ریختہ گویاں‘‘ کے مقدمے میں نکات الشعرا، تحفت الشعرا اورگلشن گفتار سے قبل لکھے گئے ناپید تذکروں ،تذکرۂ سیّد امام الدین خان بعہد محمد شاہ، تذکرۂ خان آرزو، تذکرۂ سودا اور معشوق چہل سالہ خود نوشتہ خاکسار کا ذکر کیا ہے۔۱۳؎ ان تذکروں کا ذکر ’’ اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ‘‘ میں نہیں ملتا۔
تذکرہ نگاری کے رحجان کے پیچھے کار فرما عوامل اور محرکات پر بحث کی گئی ہے ۔تذکرہ نگاری کے پیچھے کارفرما عوامل و محرکات میں شعرا کا اپنی یادگار چھوڑنے کے فطری جذبے ، بیاض نگاری او ر انتخاب اشعار کے شوق، شعرا کی معاصرانہ چشمک ، مشاعروں کے رواج اور اُردو شاعری کی مقبولیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ڈاکٹر محمد یعقوب عامرتذکرہ نگاری کے فروغ میں دو نمایاں عوامل کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’اُردو میں تذکرہ نگاری کا کام اگرچہ علمی اور تحقیقی کام تھا مگر اس کو فروغ دینے میں دو چیزیں نمایاں طور پر کار فرما نظر آتی ہیں۔ (۱) کچھ لوگوں نے علاقائی تعصب ،گروہ بندی اور معاصرانہ چشمک کے زیر اثر تذکروں کی تصنیف و تالیف کرکے اپنے حریفوں کو قصداً غیر اہم اور ہیچ و پوچ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ (۲) کچھ لوگوں کی تحریر کا مقصد یہ رہا کہ وہ اپنے استاد اور ان کے دوستوں یا اپنے استاد بھائیوں یا دوست شاعروں کو منظر عام پر لائیں اور اس مقصد کے لیے انھوں نے ان کی حمایت اور طرفداری میں بے جا مبالغوں سے کام لیا۔ چناچہ ہر دو صورت میں کسی نہ کسی شاعر کے ساتھ ناانصافی ضرور ہوتی تھی اور اس ناانصافی کے خلاف ایک نیا تذکرہ وجود میں آتا تھا، جس کے ذریعہ مذمت اور احتجاج کیا جاتا ۔ میر کے نکات الشعرا سے لے کر آب حیات تک بلکہ اس کے بعد کے تذکروں میں بھی کہیں تیز اور کہیں خفیف یہ جذبہ موجود رہا ہے۔‘‘ ۱۴؎
ڈاکٹر حنیف نقوی تذکرہ نگاری کے پیچھے کارفرما جن محرکات کو زیر بحث لائے ہیں ،ان میں بقائے نام کی آرزو، ارباب کمال کی قدر شناسی، ادبی و تحقیقی ذوق کی تسکین ، تاریخی شعور، رقابت اور معاصرانہ چشمکیں، ادبی گروہ بندی، احباب و اعزہ کی فرمائشیں، سر پرستوں کی خوشنودی، مشاعروں کی گرم بازاری، اور پسندیدہ کلام کو باقاعدہ نظم و ترتیب کے ساتھ جمع کرنے کا شوق شامل ہیں ۔۱۵؎
ڈاکٹر فرمان اُردو شعرا کے تذکروں کی تعداد کے بارے میں معلومات سامنے لائے ہیں۔اس حوالے سے اشپرنگر کے ’’یاد گار شعرا‘‘،مؤلفہ ۱۸۵۰ء،مترجمہ طفیل احمد اور گارسیں دتاسی کے ’’ خطبات گارسیں دتاسی ( ۱۸۵۰ء ۔ ۱۸۶۹ء )‘‘ مطبوعہ انجمن ترقی اُردو ،اورنگ آباد، ۱۹۳۵ء ، مقدمہ خطبات گارسیں دتاسی از مولوی عبدالحق مطبوعہ انجمن ترقی اُردو ،۱۹۳۵ء ، گارسیں کی تالیف ’’ہندوستانی مصنفین‘‘ اوررسالہ تذکرات،مؤلفہ گارسیں دتاسی،مترجمہ ذکاء اللہ ،مرتبہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی کو زیر بحث لایا گیا ہے۔اس بحث کے مطابق اشپرنگر کے یادگا ر میں بیس تذکروں کی فہرست ملتی ہے،جن میں سے ’’گلدستہ نشاط‘‘ اور ’’ چمن بے نظیر‘‘ کو ڈاکٹر فرمان نے تذکروں کی بجائے اُردو فارسی اشعار کے مجموعے قرار دیا ہے ۔ گارسیں دتاسی کے رسالہ تذکرات کو تذکروں کے حوالے سے خاصا معلوماتی قرا ر دیا گیا ہے او ر کہا گیا ہے کہ کسی قدیم تذکرے میں اس سے زیادہ تفصیلات نہیں پائی جاتی ہیں ۔ تا ہم اس میں شامل ساٹھ کتابوں کے ناموں کی فہرست دینے کے بعد ان میں سے اُنتالیس کتابوں کے بارے میں ڈاکٹر فرمان کا کہنا ہے کہ ان کتابوں کو تذکروں کی فہرست سے خارج سمجھنا چاہیے، کیوں کہ یہ تذکروں کی ذیل میں نہیں آتیں۔ گارسیں دتاسی کی فہرست میں کتابوں کی نوعیت کی نشان دہی نہ کرنے کا ذمہ دار رسالہ تذکرات کے مترجمین کو ٹھہرایا گیا ہے۔ قاضی عبدالودود کے بعض بیانات کو موضوع بحث بناتے ہوئے اس سے اختلاف کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیںکہ:’’قاضی عبدالودود صاحب بھی اس سلسلے میں بعض باتیں غیر ذمہ درانہ کہہ گئے ہیں ۔ مثلاً محمد محفوظ الحق صاحب کے مذکورہ بالا مضمون پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ۱۔ گلستان سخن کے متعلق دہلی کے معتبر اصحاب کا بیان ہے کہ یہ دراصل صہبائی کی تالیف ہے۔ ۲۔ کسی تذکرے میں مجھے سیّد ابو القاسم دہلوی کا نام نہ ملا۔ دہلی کے مشہور حکیم قدرت اللہ قاسم نے البتہ تذکرہ لکھا تھا۔ ۳۔ صحف ابراہیم اور گلزار ابراہیم میری رائے میں ایک ہی تذکرے کے دو نام ہیں۔ ‘‘۱۶؎ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رائے ہے کہ:’’ یہ تینوں باتیں محل نظر ہیں ۔گلستان سخن ، صہبائی کا نہیں قادر بخش صابر ہی کی تصنیف ہے۔اس کی تفصیل گلستان سخن کے ذکر میں آئے گی۔ابوالقاسم دراصل قدرت اللہ ہی کے نام کا جزو ہے اور مجموعہ نغز انھیں کی تالیف ہے ۔صحف ابراہیم اور گلزار ابراہیم ایک ہی تذکرے کے دو نام نہیں بلکہ دو مختلف تذکرے ہیں ۔پہلا فارسی شعرا سے متعلق ہے اور دوسرا ریختہ گو شعرا سے۔‘‘ ۱۷؎ حکیم شمس اللہ قادری کے مضمون ،افسر امرہوی کے مضمون ،ڈاکٹر سیّد عبداللہ کے مقالے ’’ شعرائے اُردو کے تذکرے‘‘،امتیاز علی عرشی کے’’دستور الفصاحت ‘‘کے مقدمے اور ایم ۔کے ۔فاطمی کے مضامین کے حوالے سے بھی اُردو شعرا کے تذکروں کی تعداد پر بحث کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ ان میں سے کسی میں بھی بیس پچیس قدیم تذکروں سے زیادہ کا ذکر نہیں آیا۔۱۸؎ ماہ نامہ’’ نگار پاکستان‘‘ ،کراچی کے ۱۹۶۴ء کے سالنامے کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر فرمان کا کہنا ہے کہ اس میں ۱۱۶۵ھ / سے ۱۲۹۷ھ /۱۸۸۰ء تک اُردو شعرا کے ۵۴ تذکروں کا تعارف کرایا گیاتھا۔ڈاکٹرفرمان لکھتے ہیں کہ:
’’مجھے اعتراف ہے کہ نگار کے سالنامے میں بہت سی کمزوریاں تھیں ۔اس کے باوجود یہ چونکہ اُردو فارسی میں تذکرہ نگاری کے متعلق اپنی نوعیت کا پہلا تفصیلی کام تھا اس لیے اسے سارے علمی و ادبی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا او ر اس کی اشاعت کا نتیجہ وہی نکلا جو میں چاہتا تھا ۔یعنی ہمارے محققین و ناقدین نے اُردو کے اُس قیمتی ذخیرے کی جانب توجہ کی جو کتب خانوں میں پڑے پڑے ضائع ہو رہا تھا ۔نگار کے سالنامے سے پہلے عموماً لوگوں کو یہ بھی خبر نہ تھی کہ اُردو شعرا کے تذکرے تقریباً کتنے ہیں ،کہاں کہاں ہیں ،ان کی نوعیت کیا ہے ،کون کون سے فارسی میں ہیں اور کون کون سے اُردو میں ،کتنے شائع ہو چکے ہیں اور کتنے غیر مطبوعہ ہیں؟ نگار کے ذریعے جب یہ اطلاعات ان کے سامنے آئیں تو یہی تذکرے جن پر گفتگو کرنا اور کچھ لکھنا غیر ضروری سمجھا جاتا تھا تحقیق و تنقید کا اہم موضوع بن گئے ۔جتنا کام تذکروں کے متعلق ہوا ہے کسی اور موضوع پر نہیں ہوا۔ادارے اور افراد سبھی نے تذکروں سے دلچسپی کا اظہار کیا اور متعدد قلمی و نایاب تذکرے زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آگئے ۔‘‘۱۹؎
ڈاکٹر خلیق انجم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ڈاکٹر فرمان کے مرتب کردہ نگار کے ’’ تذکرہ نمبر‘‘ کی اشاعت کے بعد بہت سے اہل قلم تذکروں کی طرف متوجہ ہوئے اور جو کام ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے کیا تھا اور آزادی کے بعد رُک گیا تھا، اُسے ڈاکٹر فرمان نے پھر شروع کیا۔۲۰؎ مقالے میںاُن مقالوں اور کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے ،جو نگا ر پاکستان ،کراچی کے اس سالنامے کے بعد شائع ہوئیں۔’’نگار‘‘ کے سالنامے ’’تذکروں کے تذکرہ نمبر‘‘ میں ۵۴ تذکروں کا ذکر تھا ،جب کہ اس کے بعد ’’ اُردو شعرا کے تذکرے او ر تذکرہ نگاری‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوکر سامنے آنے پر اس مقالے میں ۶۸ تذکرے شامل ہیں۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں کہ:
’’ اس کتاب میں ۶۷ تذکروں پر مفصل مضامین شامل ہیں ۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نکات الشعرا سے لے کر آب حیات تک اُردو شعرا کے تذکروں کی تعداد یہی ہے ۔میری رسائی صرف ۶۸ تذکروں تک ہو سکی ہے۔ کچھ اور تذکرے منظر عام پر آئیں گے اس لیے کہ متعدد تذکروں کے نام مختلف جگہ ملتے ہیں اور بعض نے تو ان کا ذکر اس طرح کیا ہے گویا وہ ان کی نظر سے گزرے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ جن تذکروں کو ہم گم شدہ خیال کرتے ہیں وہ کسی گوشے میں پڑے ہوں اور کسی وقت دستیاب ہو جائیں۔‘‘۲۱؎
اُردو تذکروں کی تقسیم ، اٹھارویں صدی کے تذکروں کی نوعیت ، اُنیسویں صدی کے تذکرے اور مغرب کے اثرات،اُردو تذکروں کی معنوی حیثیت و اہمیت ،تذکروں کی کمزوریوں ،ان کی افادیت، ان میں موجود تنقید کی نوعیت ،ان کی سوانحی اہمیت اور ادبی تاریخ کے مواد کی موجودگی کے لحاظ سے بحث کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ہر تذکرے سے اس کے عہد کی شاعرانہ فضا اُبھر کر سامنے آتی ہے اور اس وقت کے ادبی ذوق کی عکاسی ہوتی ہے ۔۲۲؎ اس تحقیقی مقالے میں اُردو شعرا کے تذکروں کے حوالے سے ڈٖاکٹر فرمان فتح پوری کا تحقیقی و تجزیاتی طریق کا ر اس طرح نظر آتا ہے کہ ’’نکات الشعرا‘‘ سے’’آب حیات ‘‘کے تذکروں کی تلاش و بسیار کے بعد انھیں اُردو ادب کے قارئین کے سامنے لایا گیا ہے۔ہر تذکرے کے مؤلف کے حالات زندگی ، مطبوعہ و غیر مطبوعہ نسخے ، اس کے سال تصنیف و طباعت ، اس کے بارے میں مختلف آراء اور اس میں پائی جانے والی خوبیاں و خامیاں زیر بحث لائی گئی ہیں۔تذکروں کا باہمی تقابلی موازنہ کیا گیا ہے اور ہر تذکرے کی خصوصیات ،اس کے ماخذ اور اس سے استفادہ حاصل کرنے والے تذکروں کو دلائل و شواہد کی روشنی میں سامنے لانے کے لیے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
ڈٖاکٹر فرمان فتح پوری کسی بھی تذکرے کو زیر بحث لاتے ہوئے سب سے پہلے تذکرہ نگار کی سوانح حیات کے حوالے سے معلومات کو سامنے لاتے ہیں۔کس تذکرہ نگار کی سوانح حیات کے بارے میں کتنی معلومات دستیاب ہیں اور کہاں سے دستیاب ہوئی ہیں، اس کی تفصیلات حوالوں کے ساتھ دیتے ہیں ۔مثلاً’’گلستان ِ سخن‘‘ کے مصنف مرزا قادر بخش دہلوی کے بارے میں اس طرح تفصیلات دی گئی ہیں:
’’ صابر کے مختصر حالات عبدالغفور نسّاخ کے ’’سخن شعرا‘‘، اشپرنگر کے ’’یادگار شعرا‘‘ ، سید علی حسن خاں کے ’’ بزم سخن‘‘، سیّد نورالحسن خان کے ’’طور کلیم‘‘، قطب الدین باطن کے ’’گلستان بے خزاں‘‘ ، گارسین دتاسی کی ’’تاریخ ادب ہندوستانی‘‘، کریم الدین وفیلن کے ’’طبقات الشعرا‘‘ اور لالہ سری رام کے ’’خمخانہ ٔ جاوید‘‘ میں ملتے ہیں۔ صابر کے دیوان’’ ریاض صابر‘‘ کے مرتّب سیّد محمد سلطان عاقل دہلوی اور گلستان سخن کے مرتّب خلیل الرحمن داؤدی نے بھی صابر کے حالات ِ زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔خود صابر نے بھی اپنا ذکر گلستان سخن میں دو جگہ کیا ہے؛ ایک دیباچے میں اور دوسرے شاعر کی حیثیت سے اپنے ترجمے میں۔‘‘۲۳؎
اس امر کا خیال رکھا گیا ہے کہ اگر کسی تذکرہ نگار کی سوانح کے بارے میں معلومات بآسانی دوسری جگہوں پر موجود ہیں ،تو ایسے تذکرہ نگار کی سوانح میں نہایت ضروری تعارف تک محدود رہتے ہیں۔جیسے میرؔ کے ’’نکات الشعرا‘‘ کی مثال سامنے ہے، لکھتے ہیںکہ:’’ اوّل تو خود میر تقی میر نے اپنے حالات زندگی پوری تفصیل سے لکھ دیے ہیں ،دوسرے یہ کہ اُردو کے تقریبا ً سارے قدیم و جدید تذکروں میں ان کے حالات ملتے ہیں ۔علاوہ ازیں پچھلے پچیس تیس سال میں ان کی زندگی اور فن پر مقالات و کتب کی صورت میں اتنا تخلیقی و تنقیدی کام ہو چکا ہے کہ اس جگہ ان کے حالات میں کچھ لکھنا غیر ضروری ہے۔‘‘۲۴؎ جس تذکرہ نگار کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں مل سکیں، اس کا واضح اعتراف کر کے ،اس بارے میں تحقیق کے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں۔ مثلاً ’’تذکرہ ٔ ابن طوفان‘‘ ملاحظہ ہو،جس کے مصنف کی بابت رقم طراز ہیں کہ:
’’ تذکرے کے مصنف کا اصل نام معلوم نہ ہوسکا۔وجہ یہ ہے کہ مصنف نے تذکرے میں اپنا ذکر نہیں کیا۔بعض تراجم سے یہ ضرور لگتا ہے کہ مصنف کے والد کا نام امین اللہ طوفان تھا اور اسی لیے اس تذکرے کو ’’ تذکرۂ ابن طوفان‘‘ سے موسوم کیا گیا۔امین اللہ طوفان کے ذکر میں مصنف نے لکھا ہے کہ : ’’ جناب والد ماجد خودم امین اللہ نام و طوفان تخلص دارند بگوش من ارادت نیوش از غزل دو شعر است رنگ تسطیر می ریزم اگرچہ گہ گاہ فکر می فرمایند لیکن سحر حلال می نمایند۔‘‘ اس سے زیادہ امین اللہ طوفان کے حالات نہیں ملتے۔’’ یاد گار ضیغم‘‘ مؤلفہ عبداللہ خاں مطبوعہ۱۳۰۲ھ اور ’’آب حیات‘‘ مصنفہ آزاد کے دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ امین اللہ طوفان ناسخ کے دوستوں میں تھے اور ان کے بیٹے کا نام عظیم اللہ رغمی تھا ۔ہو سکتا ہے یہ تذکرہ عظیم اللہ رغمی ہی کا لکھا ہوا ہو لیکن قاضی عبدالودود صاحب کا خیال ہے کہ یہ ان کے کسی بھائی کے رشحات ِ قلم سے ہے۔البتہ قاضی صاحب نے اپنے خیال کے ثبوت میں کوئی استدلال پیش نہیں کیا۔‘‘ ۲۵؎
اسی طرح مفتی صدرالدین خاں آزردہ کے ’’تذکرۂ آزردہ‘‘ کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ افسوس اس تذکرے کے تراجم تک اُن کی رسائی نہیں ہو سکی،جس کی وجہ سے اس کا ذکر تشنہ رہا۔ ۲۶؎ تذکروں کی اہمیت ،انفرادیت اور خوبیوں و خامیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔میرؔ کے نکات الشعرا کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : ’’نکات الشعرا ، تنقید اور سوانح دونوں لحاظ سے اُردو شعر و ادب کی تاریخ میں بہت اہم ہے۔اس کے ذریعہ میر اور اُن کے معاصرین اور ماحول کے متعلق بہت سی ایسی باتیں سامنے آتی ہیں ،جو کسی اور ذریعہ سے ممکن نہیں تھیں۔‘‘ ۲۷؎ حمید اورنگ آبادی کے ’’ گلشن گفتار‘‘ کے تجزیے میں لکھتے ہیں کہ: ’’ بعض شعرا کے متعلق بعض نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں مثلاً حمید کاوی کو اورنگ آبادی کے بجائے احمد آبادی لکھنا ، برہان پور میں ولی کے قیام اور سیّد معالی سے عشق کا تذکرہ کرنا ،رضی اور اشرف کو ولی کا شاگرد بتانا ، نصرتی کے ذکر میں مد مالتی کے قصّے کو نظم کرنے اور ملک الشعرا کا خطاب پانے کا ذکر کرنا، ایسی باتیں ہیں جو پہلی بار گلشن گفتار کے ذریعے ہمارے سامنے آتی ہیں۔‘‘۲۸؎ مرزا افضل بیگ قاقشال کے ’’ تحفت الشعراء‘‘ کے متعلق لکھتے ہیںکہ : ’’ اس میں ریختہ گو اور فارسی گو شعرا دونوں شامل ہیں اور بعض ایسے شعرا کے حالات اس میں مل جاتے ہیں ،جو کسی اور قدیم تذکرے میں مذکور نہیں ہیں۔‘‘۲۹؎ سیّد فتح علی حسینی گردیزی کا شمار میرؔ کے اوّلین معترضین میں ہوتا ہے ،جنھوں نے میرؔ کے تذکرے کی مخالفت یا جواب میں ’’تذکرہ ریختہ گویاں‘‘ تحریر کیا ۔۳۰؎ ریختہ تذکرہ گویاں کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’ گردیزی نے اپنا تذکرہ میرؔ کے حریف کی حیثیت سے اُن کے تذکرے کے جواب میں لکھاہے ،لیکن گردیزی کا تذکرہ سوانح و تنقید کسی لحاظ سے بھی میرؔ کے تذکرے کو نہیں پہنچتا۔دیباچے میں گردیزی نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اپنے تذکرے میں شعرا کے تراجم ، نکات الشعرا کی بہ نسبت تفصیل سے لکھیں گے اور ناقدانہ تبصروں کے ذریعے حق و انصاف کے ساتھ ہر شاعر کا درجہ متعّین کریں گے ،لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ ‘‘۳۱؎
محمد قیام الدین قائم کے ’’ مخزن نکات‘‘ کے حوالے سے رقم طراز ہیں کہ: ’’ ہر چند کہ قائم نے شعرا کے تراجم میں سنین یا تاریخ وفات کے درج کرنے کو ضروری نہیں سمجھا ،پھر بھی مضمون ،ثاقب ، عاصی، محتشم علی، حشمت، محمد علی خان نادر اور گردیزی وغیرہ کے تراجم میں ایسے فقرے موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ قائم تاریخی شعور سے بیگانہ نہ تھے ۔کہیں کہیں سیاسی و سماجی حالات کی عکاسی اور سیرت و سوانح نگاری کی بعض خصوصیات کی ترجمانی بھی مخزن نکات میں ملتی ہے۔‘‘۳۲؎ رائے لچھمی نرائن شفیق کے ’’چمنستان شعرا‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ چمنستان شعرا ،متقدمین شعرا کے سلسلے میں ایک اہم مآخذ ہے اور اس میں متعدد ایسے شاعر مذکور ہیں جن کے متعلق معلومات کا ذریعہ اس تذکرے کے سوا ہمارے پاس کوئی نہیں ہے ۔ اس تذکرے میں یوں کہ شمالی ہند اور دکن دونوں علاقوں کے شعرا کے تراجم پر یکساں توجہ دی گئی ہے اس لیے اسے دونوں کا سنگم اور تاریخ ادب کی گم شدہ کڑیوں کو ملانے والا پہلا سلسلہ خیال کرنا چاہیے۔‘‘۳۳؎ ڈاکٹر فرمان کے پیش نظر تذکرہ ’’چمنستان شعرا ‘‘، مرتبہ مولوی عبدالحق ،مطبوعہ انجمن ترقی اُردو ،طبع اوّل ، ۱۹۲۸ء رہا۔عطا کاکوی نے اس کا اُردو ترجمہ ،عطا منزل ،سلطان گنج، پٹنہ سے ۱۹۶۸ء میں شائع کیا۔اس کے پہلے نسخے کے بارے میں عطا کاکوی لکھتے ہیں کہ :
’’ اب مطبوعہ نسخے بازار میں مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں ،اس لیے مناسب خیال کیا گیا کہ اس کو پھر منظر عام پر لایا جائے ۔دور حاضر کے مذاق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو اُردو کا جامہ پہنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔بیجا ضخامت کو کم کرنے کے خیال سے اشعار حذف کر دیے گئے ۔صرف ان کی تعداد ہر شاعر کے ترجمہ کے بعد بتا دی گئی ہے۔جہاں غیر ضروری باتیں ملیں ان کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ورنہ اور کسی قسم کی کوئی ترمیم روا نہیں رکھی گئی،ہاں ترتیب میں ایک ترمیم ضرور کر دی گئی ہے ۔چمنستان کی ترتیب میں شفیق نے اپنی ایک اپج رکھی تھی یعنی اس میں شعرا کے نام حروف تہجی کے لحاظ سے نہیں بلکہ حروف جمل (ابجد) کے اصول پر تھے ۔ایسی صورت میں کسی فارسی شاعر کے حالات دیکھنے میں مشکل پیش آتی تھی ،میں نے ترتیب عام تذکروں کی طرح حروف تہجی کے اصول پر کر دی ہے تاکہ تراجم کی تلاش میں ذہن پر بار نہ پڑے اور آسانی سے مطلوب شاعر کے حالات مل سکیں۔‘‘۳۴؎
قدرت اللہ شوق کے ’’طبقات الشعرا‘‘ کا تجزیہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے:’’اس تذکرے سے شعرا کے متعلق بعض ایسی تفصیلات ملتی ہیں جو سوانحی نقطۂ نگاہ سے اس تذکرے کو خاصا اہم بنا دیتی ہیں۔شعرا کی تاریخ پیدائش اور سال وفات کی صراحت کا اہتمام تو اس تذکرے میں بھی نہیں ہے،پھر بھی بعض شعرا کے تراجم سے ان کی عمر اور عہد کا صاف اندازہ ہوجاتا ہے۔اس لیے اس کی تاریخی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘۳۵؎ مرزا علی خان لطف کا ’’ گلشن ہند‘‘ ،جو اُردو شعراسے متعلق اُردو زبان میں لکھا جانے والا پہلا تذکرہ ہے، کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’ زبان کی طرح شعرا کے سوانح اور تاریخی حالات کے متعلق بھی اس تذکرے سے بعض نئی باتیں معلوم ہوتی ہیں مثلاً یہ انکشاف کہ میر تقی میر فورٹ ولیم کالج میں بغرض تالیف و تصنیف برائے ملازمت کرنیل اسکاٹ کے روبرو پیش ہوئے ،لیکن پیرانہ سالی کے سبب وہ منتخب نہ ہو سکے۔ اوّل اوّل اسی تذکرے سے ہوا ہے۔اسی طرح شاہ عالم آفتاب ،ابوالحسن تانا شاہ ، آصف الدولہ ، امیر خاں انجام ،قزلبا ش خاں امید اور سراج الدین خاں آرزو کے حالات مرزا علی لطف نے بڑی تفصیل سے لکھے ہیں اور اس تفصیل میں بعض ایسی باتیں ملتی ہیں ،جو اس سے پہلے کے تذکروں میں نہیں ہیں۔‘‘۳۶؎
میر محمد خان سرور کے ’’ عمدۂ منتخبہ‘‘ کی بابت رقم طرازہیں کہ:
’’ عمدۂ منتخبہ‘‘ میں چوں کہ شعرا کے منتخبات خاصے طویل ہیں اس لیے اس سے ایک فائدہ یہ پہنچتا ہے کہ بعض شعرا کے بعض ایسے اشعار ہمارے سامنے آجاتے ہیں ،جو ان کی کلیات یا دواوین میں نظر نہیں آتے ۔اس کی اہم مثال مرزا نوشہ غالب کا ترجمہ ہے ۔اس ترجمے کے آخر میں سرور نے غالب کے ۴۵ اشعار نقل کیے ہیں ۔ان میں بعض اشعار ایسے ہیں ،جو نسخۂ عرشی اور مالک رام کے سوا غالب کے کسی متداول دیوان حتیٰ کہ نسخۂ حمیدیہ میں بھی نہیں ہیں اور صرف عمدۂ منتخبہ کے ذریعے ہمارے سامنے آئے ہیں ۔ ‘‘۳۷؎
قدرت اللہ قاسم کے ’’ مجموعۂ نغز‘‘ کو ایسا تذکرہ قرار دیا گیا ہے ،جس کے مطالعے سے اُس دَور کے کی ادبی اور سماجی فضا پر روشنی پڑتی ہے۔ ۳۸؎ سیّد احمد علی یکتا کے تذکرے ’’ دستور الفصاحت ‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ دستور الفصاحت میں خاص بات یہ ہے کہ اس میں جن شاعروں کا ذکر آیا ہے قدرے تفصیل سے آیا ہے۔بیاض کے انداز پر حالات زندگی ایک دو سطروں میں نہیں بلکہ وضاحت سے لکھے گئے ہیں ۔شاعر کا اصل نام کیا ہے ، کیا تخلص کرتا ہے ،کس کا شاگرد یا استاد ہے؟ عمر کیا ہے، کہاں کا رہنے والا ہے ؟ کن کن زبانوں ،میں شعر کہتا ہے ، پیشہ کیا ہے ؟ علمی و ادبی رتبہ کیا ہے؟ مزاجاً کیسا واقع ہوا ہے ؟ اس کے عہد کی ادبی فضا کیا تھی ؟ کلام میں کیا خاص بات ہے؟ شخصیت میں کیا کیا خوبیاں اور کمزوریاں ہیں ؟ کلام کی کیا نوعیت ہے ، کس صنف سخن سے دل چسپی ہے اور کلام کا رنگ کیا ہے؟ کس کا رنگ کس اُردو یا فارسی شاعر سے ملتا ہے ؟ معاصرین میں کس سے قربت یا تعلق رکھتا ہے ؟ اس قسم کے سوالوں کے جوابا ت اس کتاب میں اکثر جگہ مل جاتے ہیں اور اسی لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سوانح اور تنقید دونوں لحاظ سے یہ تذکرہ اپنے عہد کے تذکروں میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ‘ ‘ ۳۹؎
محمد مصطفی خاں شیفتہ کے ’’گلشن بے خار‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے اس تذکرے کو ایسا تذکرہ قرار دیتے ہیں، جس میں صرف شعرا کے کلام کے انتخاب کو ہی ضروری نہیں سمجھا گیا، بلکہ شعرا سے متعلق تنقیدی رائیں بھی ملتی ہیں ۔شیفتہ کے تنقیدی شعور اور اُس وقت کی شعری و ادبی فضا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔۴۰؎ عنایت حسین خاں مہجور کے تذکرے ’’مدایع الشعراء‘‘ کو زیر بحث لاتے ہوئے اسے ایک ایسا تذکرہ قرار دیتے ہیں ،جس میں کسی شاعر کے بارے میں کسی کار آمد بات کا پتا نہیں چلتا،کیوں کہ مہجور کا اصل مقصد بعض شعرا کے کلام کی تضمین کرنا تھا۔۴۱؎ گارسیں دتاسی کے تذکرے ’’تاریخ ادب ہندوستانی‘‘ کو ایسا تذکرہ قرار دیتے ہیں، جو اُردو زبان و ادب کی تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہے اور اس سے اُردو کے بہت سے قدیم شعرا و مصنّفین اور اُن کی تالیفات و سوانح حیات سامنے آئی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اس میں پائی جانے والی بعض خامیوں کی نشان دہی مثالوں کے ساتھ کی گئی ہے ۔
قائم کے تذکرے ’’ مخزن نکات‘‘ اور میر حسن کے ’’تذکرۂ شعرائے اُردو‘‘ کا محاکمہ ایسے تذکروں کی حیثیت سے بھی کیا گیا ہے ،جن میں شعرا کا ذکر اُس زمانے میں رائج عمومی طریقے کی بجائے خاص طریقے سے کیا گیا ہے ۔ مخزن نکات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ: ’’ قائم کا تذکرہ اپنی ہیت و معنویت دونوں لحاظ سے میر کے تذکرے سے بہت مختلف ہے ۔قائم کے یہاں شعرا کا ذکر میر و گردیزی کے برعکس حروف تہجی کی بجائے مندرجہ ذیل تین طبقوں میں بلحاظ زمانہ کیا گیا ہے: (۱)۔ طبقۂ اوّل: در بیان اشعار شعرائے متقدمین (۲)۔ طبقۂ دوم : در ذکر کلام سخن ورانِ متوسطین (۳)۔طبقۂ سوم : دربیان اشعار و احوال سخن طرازان متاخرین ۴۲؎ ’’تذکرۂ شعرائے اُردو‘‘ کے بیان میں لکھتے ہیں: ’’ اس تذکرے میں بھی اگر چہ شعرا کے تخلص بلفظ حروف تہجی دیے گئے ہیں ، لیکن تذکروں کی عام روش سے الگ اس میں ادوار بھی قائم کیے گئے ہیں ۔ ‘‘ ۴۳؎ ڈاکٹر معین الدین عقیل کی رائے بھی یہی ہے کہ: ’’ ابتدائی تذکرہ نگاروں میں قائم (مخزن نکات) اور میر حسن (تذکرۂ شعرائے اُردو)اُس وقت وہ تذکرہ نگار تھے،جنھوں نے اپنے تذکروں میں شعرا کو اُس وقت کے عام رواج کے مطابق حروف تہجی یا کسی بے ترتیبی کے بجائے متقدمین ،متوسطین اور متاخرین (یا معاصرین) جیسے ادوار میں تقسیم کر کے اپنے نیم پختہ سے تاریخی شعور کا اظہار کیا ہے ۔قدرت اللہ شوق کا تذکرہ طبقات الشعرا اس شعور میں کچھ اضافے کا پتا دیتا ہے۔‘‘۴۴؎
ڈاکٹر عبدالقیوم رقم طراز ہیں کہ:’’یوں تواُردو شعرا نے بہت سے تذکرے لکھے ہیں لیکن یہ تذکرے یا تو جواب الجواب کی حیثیت رکھتے ہیں یا محض خانہ پری کے لیے لکھے گئے ہیں ۔ان کی ایک حیثیت نجی بھی ہے ،یعنی کسی شاعر نے اپنے ذوق کی تسکین کے طور پر ان کو ترتیب دیا۔ یہ ایک طرح سے بیاضوں اور گلدستوں کی حیثیت رکھتے ہیں مگر بعض تذکرے آج بھی مفید ہیں اور ان میں میر کے نکات الشعرا کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔‘‘۴۵؎ ڈاکٹر خلیق انجم لکھتے ہیں کہ:’’ سات سو پچاس صفحات پر مشتمل اس کتاب[اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری] کے ذریعے ایک طرف تو تقریباً تمام مطبوعہ،غیر مطبوعہ تذکروں کی نشان دہی ہوگئی اور دوسری طرف یہ کتاب تخصیص کی اعلیٰ ترین اور قابل تقلید نمونہ بن گئی۔‘‘ ۴۶؎ اُن کا کہنا ہے کہ:’’ ہندوستان کی بیشتر لائبریریوں میں یہ تمام تذکرے موجود ہیں ۔اگر فرمان صاحب ہندوستان میں ہوتے تو یہ کام بہت زیادہ مشکل نہ ہوتا۔لیکن پاکستان میں اس وقت تک لائبریریوں میں یہ تمام تذکرے موجود نہیں تھے ،ان کے لیے تلاش و جستجو اور بھاگ دوڑ جان لیوا تھی۔‘‘۴۷؎ ڈاکٹر خلیق انجم مزید لکھتے ہیں کہ:
’’بیش تر تذکروں کے مخطوطے ہماری ذاتی یا پبلک لائبریریوں کی الماریوں کی زینت تھے۔ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے پہلی بار اس طرف اہل علم کی توجہ مبذول کرائی ۔اُنھوں نے خود کئی تذکرے مرتب کیے اور بعض لوگوں کو اس کام کی طرف متوجہ کیا۔اٹھارویں صدی کے جن شاعروں کے ناموں سے ہم واقف نہیں تھے ،ان کے تفصیلی حالات ان تذکروں کے ذریعے ہم تک پہنچے ۔مولوی عبدالحق صاحب کا ہم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اٹھارویں صدی او ر انیسویں صدی کی معلومات مولوی عبدالحق کی وجہ سے ہم تک پہنچی ہیں۔فرمان صاحب کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے بیش تر تذکروں کی تفصیلات بیان کر کے مولوی عبدالحق کے کام کو بہت آگے بڑھایا ہے۔‘‘ ۴۸؎
ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش لکھتی ہیں کہ :
’’ قیام پاکستان سے قبل محمود احمد شیرانی ،مولوی عبدالحق ، حبیب الرحمن خان شیروانی ، ڈاکٹر زور ، پروفیسر سیّد محمد ،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے تذکرہ نگاری پر کام کیے ہیں ۔قیام پاکستان کے بعد تذکروں کی اہمیت کا قابل ذکر احساس ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مرتبہ ’’ نگار‘‘ کے ’’تذکروں کے تذکرہ نمبر‘‘ میں نظر آتا ہے۔اس نمبر کی اشاعت نے اُردو تذکرہ نگاری، اُردو تذکروں کے جائزے، ان کی تحقیق اور تحقیق میں ان سے استفادے کی جانب تمام لوگوں کو بھی متوجہ کیا ۔ڈاکٹر صاحب نے اس کام میں مثالی دلچسپی لی اور تذکروں کی تحقیق کے کام کو مستقل مزاجی سے جاری رکھا۔اُن کی مبسوط اور ضخیم تصنیف ’’اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ (لاہور، ۱۹۷۲ء) اس موضوع پر بلا شبہ اب تک سب سے وقیع اور جامع کام ہے۔‘‘ ۴۹؎
ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ :
’’ تذکروں پر ڈاکٹر سیّد عبداللہ کی ایک مختصر تالیف کے علاوہ ہمارے ہاں کوئی باضابطہ اور مفصل کتاب نہیں ملتی۔اس لیے یہ ضخیم کتاب [اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری] اس موضوع پر ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چند ہم تذکروں کو جدید اُصولوں کی روشنی میں تنقید کی کتاب نہ بھی تسلیم کریں پھر بھی ان معاصرشعرا کے بارے میں جو سوانحی ،ادبی اور تاریخی معلومات ملتی ہیں ،ان کی بنا پر تذکروں سے دلچسپی بڑھتی رہے گی۔‘‘ ۵۰؎
ڈاکٹر گیان چند نے ایک خط میں ڈاکٹر فرمان کو لکھا کہ :’’ مجھے آپ کی کتاب ’’ گراں قدر‘‘ مقالہ اُردو شعرا کے تذکر ے اور تذکرہ نگاری، کی اکثر ضرورت پٖڑتی رہتی ہے۔مختلف تذکروں کے زمانے اور دیگر تفصیلات کے حوالے دینے ہوتے ہیں۔‘‘۵۱؎ مرزا ادیب اس مقالے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ’’ اُ ردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ،ان کتابوں میں شامل ہے ،جو سالہا سال کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہوتی ہیں اور جس زبان میں لکھی جاتی ہیں ،اس کی آبرو ہوتی ہیں ۔‘‘ ۵۲؎ ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ :
’’ کئی دلچسپ عنوانات جو زیر بحث آئے ہیں ،اُن میں تذکرہ نگاری کے محرکات ، تذکروں سے متعلق کام کا جائزہ،مشاعرے اور ان کی افادیت ، تذکروں کی معنوی اہمیت اور اُردو شعرا کے تذکروں کی تقسیم وغیرہ بے حد اہم ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ تذکروں پر ڈاکٹر سیّد عبداللہ ، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ، ڈاکٹر اسلم فرخی اور مشفق خواجہ وغیرہ نے عمدہ کام کیا ہے ،لیکن مجموعی اعتبار سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے سب سے زیادہ تذکروں کا کھوج لگایا ہے اور اُن کی تاریخی و ادبی حیثیت پر ایک غیر جانبدار نقاد کی نظر ڈالی ہے ۔‘‘۵۳؎
بعض تذکروں کی خاص خصوصیات کا ذکر نہیں ملتا،جیسے علی ابراہیم کے تذکرے ’’گلزار ابراہیم ‘‘ کے بیان میں اس تذکرے کی یہ امتیازی خصوصیات ،جن کی نشان دہی ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے ان الفاظ میں کی ہے کہ:’’ اس وقت تک اُردو میں مرثیہ گوئی کو خاص ترقی ہو چکی تھی۔اس امر کے جس قدر ثبوت گلزار ابراہیم سے حاصل ہوتے ہیں اُس زمانے کے شاید ہی کسی اور تذکرے سے مل سکیں۔‘‘۵۴؎ مزید لکھتے ہیںکہ: ’’ گلزار ابراہیم کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس وقت تک اودھ کے مغرب میں اُردو شعر و شاعری نے جو ترقی حاصل کی تھی اس کا یہ کم و بیش ایک مکمل تذکرہ ہے۔‘‘۵۵؎ غلام ہمدانی مصحفی ؔ کے ’’ تذکرۂ ہندی گویاں ‘‘ کے بیان میں مصحفی ؔ کے تین تذکروں ’’عقد ثریا‘‘ ، ’’تذکرۂ ہندی‘‘ اور ’’ ریاض الفصحا‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ’’ تذکرۂ ہندی‘‘ اور ’’ ریاض الفصحا‘‘ کو مقالے میں شامل کیا گیا ہے ،جب کہ ’’عقد ثریا‘‘ کے بارے میں ایک ہی جملہ لکھا گیا ہے کہ:’’ عقد ثریا : فارسی شعرا کا تذکرہ ہے اور ۱۱۹۹ھ؍ ۱۷۸۴ء میں لکھا گیا ہے۔‘‘۵۶؎ ’’عقد ثریا ‘‘ کا مطالعہ بھی اُردو شعرا کے حوالے سے اس لیے اہم ہے کہ اس میں شامل شعرا میں ایسے شعرا بھی شامل ہیں،جنھوں نے فارسی اور اُردو دونوں زبانوں میں کلام کہا۔ ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب کے مطابق ’’عقد ثریا‘‘ میں ایسے شعرا کا ذکر ہے،جن کا کلام فارسی اور اُردو دونوں زبانوں میں ہے۔ ۵۷؎ مرزا کلب حسین خاں نادر کے تذکرے ’’تذکرۂ نادری‘‘ کا مآخذ نادر کے مخمسات کے مجموعے ’’دیوان غریب ‘‘ کو قرار دیا گیا ہے ۔۵۸؎ کاظم علی خاں (۱۹۳۸ء ۔۲۰۱۳ء) ’’تذکرۂ نادرؔ کی بعض غزلیں ‘‘ کے عنوان سے مضمون میں لکھتے ہیں کہ تذکرۂ نادر کا اصل مآخذ یقینی طور پر دیوانِ غریب ہے،لیکن اُنھیں اس تذکرے کا ایک اور اہم ماخذ ملا ہے ،جو دیوان ِ غریب کا بھی ماخذ ہوسکتا ہے ۔یہ ایک پندرہ روزہ قدیم ادبی جریدہ ہے ،جو گلدستہ ٔ شعرا ‘‘ کے نام سے ۱۸۹۰ء میں لکھنؤ سے شائع ہوتا تھا۔ ۵۹؎
بعض جگہوں پرسنین لکھنے میں احتیاط نہیں برتی گئی مثلاً’’گلشن ہمیشہ بہار‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انجمن ترقی اُردو کراچی نے ۱۲۶۷ھ میں اسے دوبارہ ڈاکٹر اسلم فرخی کے مقدمے کے ساتھ شائع کیا اور یہی دستیاب ہے۔ ۶۰؎ یہاں درست سن ۱۹۶۷ء ہے۔
ڈاکٹر فرمان کایہ مقالہ پاکستان کے اُردو ادب میں موضوع اور مواد کے اعتبار سے اوّلیت کی حیثیت رکھتا ہے اور اس حوالے سے ادبی ، نصابی اور تحقیقی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔
———-
حوالے ؍ حواشی :
۱۔ ڈاکٹر سیّد عبداللہ: ’’ شعرائے اردو کے تذکرے اور تذکرہ نگاری کا فن ‘ ‘ ، طبع ثانی ،لاہور،مکتبۂ خیابان ادب،۱۹۶۸ء،ص :و۔ز۔
۲۔ ڈاکٹر محمد امین خاور، راناخضر سلطان : ’’اُردو شاعری کی داستان ‘‘، لاہور، بک ٹاک، ۲۰۱۳ء ،ص:۱۲ ۔
۳۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل ، ’’ ادبی تاریخ نویسی : صورتحال اور تقاضے ‘‘ ، مشمولہ ’’ ادبی تاریخ نویسی ‘‘ ،مرتبین ،ڈاکٹر سیّد عامر سہیل ، نسیم عباس احمر، پاکستان رائٹرز کو آپریٹو سوسائٹی ، لاہور، ۲۰۱۰ء ، ص: ۱۱۷۔
۴۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی، ’’ اُردو تنقید کا ارتقاء‘‘، طبع پنجم ، انجمن ترقی اُردو پاکستان، کراچی، ۲۰۰۱ء ، ص: ۱۰۳۔
۵۔ ڈاکٹر انور سدید، ’’ اُردو ادب کی مختصر تاریخ ‘‘ ، طبع پنجم، عزیز بک ڈپو، لاہور، ۲۰۰۶ء ، ص: ۱۷۳۔
۶۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری: ’’اُردو شعرا ء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ ،کراچی،انجمن ترقی اُردوپاکستان ، ۱۹۹۸ء ،ص:۱۷۔
۷۔ایضاً،ص:۲۵۔
۸۔ایضاً،ص:۲۶۔
۹۔ایضاً،ص: ۲۶۔
۱۰۔ایضاً،ص:۳۰۔
۱۱۔ایضاً،ص: ۳۱۔
۱۲۔ سیّد شاہ عطاء الرحمن عطاؔ کاکوی:مرتب ’’ تین تذکرے‘‘ ، پٹنہ، عظیم الشان بک ڈپو، ۱۹۶۸ء، ص:۴۔
۱۳۔پروفیسر ڈاکٹر احمد لاری: ’’ حسرت موہانی کا نظریۂ تذکرہ نگاری‘‘ ، مشمولہ ’’ مولانا حسرت موہانی کی تذکرہ نگاری‘‘ ، مرتبہ سیّد محمد اصغر کاظمی ، کراچی، حسرت موہانی میموریل لائبریری،۲۰۰۸ء، ص: ۲۲
۱۴۔ڈاکٹر محمد یعقوب عامر: ’’ اُردو کے ابتدائی ادبی معرکے ‘‘ ، نئی دہلی، قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، ۱۹۹۱ء ، ص: ۲۲۔
۱۵۔ ڈاکٹر حنیف نقوی:’’ شعرائے اُردو کے تذکرے‘‘،بنارس، نسیم بک ڈپو، ۱۹۷۶ء ، ص: ۳۵۔ ۳۰۔
۱۶۔’’ اُردو کے ابتدائی ادبی معرکے ‘‘ ،ص:۵۶۔
۱۷۔ایضاً،ص:۵۶۔
۱۸۔ایضاً،ص:۶۱۔
۱۹۔ ایضاً،ص:۶۱۔
۲۰۔ ڈاکٹر خلیق انجم:’’ فرمان فتح پوری ،تحقیق و تنقید کے شہسوار‘‘ ، مشمولہ ’’ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،ایک ہمہ جہت صاحب قلم‘‘، مرتبہ سیّد محمد اصغر کاظمی، لاہور، الوقا ر پبلی کیشنز،۲۰۱۲ء،ص:۲۱۸۔
۲۱۔ ’’اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘،ص:۶۵۔
۲۲۔ ایضاً،ص: ۹۳۔
۲۳۔ ایضاً،ص:۴۰۷۔
۲۴۔ایضاً،ص:۹۴۔۹۳۔
ّ۲۵۔ایضاً،ص:۲۷۶۔
۲۶۔ایضاً ،ص:۲۵۱۔
۲۷۔ایضاً،ص: ۱۰۰۔
۲۸۔ایضاً،ص: ۱۰۸۔
۲۹۔ایضاً،ص:۱۱۱۔
۳۰۔ڈاکٹر شارب ردولوی : ’’ جدید اُردو تنقید ،اُصول و نظریات‘‘ ، طبع چہارم ، اُتر پردیش اُردو اکادمی، لکھنؤ ،۱۹۸۷ء ، ص:۱۵۱۔
۳۱۔اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری،،ص:۱۱۹۔
۳۲۔ایضاً،ص:۱۳۰۔
۳۳۔ایضاً،ص:۱۴۱۔
۳۴۔سیّد عطا الرحمن عطا کاکوی، مرتبہ ، ’’چمنستان شعرا‘‘ از لچھمی نرائن شفیق ، عظیم الشان بک ڈپو ،سلطان گنج ،پٹنہ، ۱۹۶۸ء ، ص:۶۔
۳۵۔اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری،ص:۱۴۸۔
۳۶۔ایضاً،ص:۲۱۲۔
۳۷۔ایضاً،ص:۲۱۹۔
۳۸۔ایضاً،ص:۲۳۸۔
۳۹۔ایضاً،ص:۲۸۷۔
۴۰۔ایضاً،ص: ۲۹۲۔
۴۱۔ایضاً،ص:۳۰۲۔
۴۲۔ایضاً،ص:۱۲۹۔
۴۳۔ایضاً،ص:۱۵۶۔
۴۴۔ڈاکٹر معین الدین عقیل : ’’ ادبی تاریخ نویسی ،صورت حال اور تقاضے ‘‘ ، مشمولہ ، ’’ادبی تاریخ نویسی ‘‘ ،مرتبین ، ڈاکٹر سیّد عامر سہیل ، نسیم عباس احمر ، پاکستان رائٹر ز کو آپریٹو سوسائٹی ،لاہور ،۲۰۱۰ء ، ص: ۱۱۷۔
۴۵۔ڈاکٹر عبدالقیوم: ’’حالی کی اُردو کی نثر نگاری‘‘، طبع دوم، لاہور، مجلس ترقی ادب، ۲۰۱۲ء ،ص: ۲۳۰۔
۴۶۔ ڈاکٹر خلیق انجم:’’ فرمان فتح پوری ،تحقیق و تنقید کے شہسوار‘‘ ، مشمولہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،ایک ہمہ جہت صاحب قلم‘‘،ص:۲۲۰۔
۴۷۔ ایضاً،ص:۲۱۷۔
۴۸۔’’اُردو شعرا ء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘، ص :۲۱۸۔
۴۹۔ ڈاکٹر ایم سلطانہ بخش، اُردو میں اُصول تحقیق، جلد دوم ، ص: ۲۹۸۔
۵۰۔ ڈاکٹر سلیم اختر : تبصرہ ، ’’ اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ ،مشمولہ ’’ ڈاکٹر فرمان فتح پوری (تصنیفات و تالیفا ت کے آئینے میں )‘‘ ، مرتبہ سیّد محمد اصغر کاظمی ، لاہور، الوقار پبلی کیشنز، ۲۰۱۲ء ، ص: ۴۵۔
۵۱۔ مکتوب ،ڈاکٹر گیان چندبنام ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،مرقومہ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۸۳ء مشمولہ’’ نصف الملاقات‘‘، ص: ۲۷۰۔
۵۲۔مرزا ادیب : تبصرہ ، ’’ اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ ،مشمولہ ’’ ڈاکٹر فرمان فتح پوری (تصنیفات و تالیفات کے آئینے میں )‘‘ ، ص:۵۴۔
۵۳۔ ڈاکٹر انور سدید : تبصرہ ’’ اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ‘‘ ، مشمولہ ’’ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،تصنیفات و تالیفات کے آئینے میں ‘‘ ، ص: ۴۹۔
۵۴۔ڈاکٹر سیّد محی الدین قادری زور: ’’ تذکرہ گلزارِ ابراہیم ‘‘ اورنگ آباد دکن، انجمن ترقی اُردو، ۱۹۳۴ء،ص:۳۹۔
۵۵۔ایضاً،ص:۴۰۔
۵۶۔’’اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ ،ص:۱۹۷۔
۵۷۔ڈاکٹر شازیہ عنبرین : ’’ گلام ہمدانی مصحفی کے تذکرے (اوّلین ترتیب، اشاعت اور اعتراضات) ‘‘ ، مشمولہ ’’تحقیق‘‘ ،ادبی مجلّہ ، سندھ یونیورسٹی ،جام شورو، شمارہ ،۱۶، ۲۰۰۸ء، ص:۶۵۸۔
۵۸۔اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ، ص: ۴۶۶۔
۵۹۔ کاظم علی خاں ’’تذکرۂ نادرؔ کی بعض غزلیں ‘‘ مشمولہ سہ ماہی مجلہ ’ ’غالب نامہ ، جلد نمبر ۱، شمارہ نمبر ،۴۔۳،غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی ،ص: ۱۱۶۔
۶۰۔اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری ،ص:۳۴۸۔
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!