راہی معصوم رضا کا ناول ’’آدھا گائوں‘‘ پر ایک نظر
تحریر: جنّتی جہاں، ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
Mob. 9837877039
E-mail: jannatijahan53@gmail.com
راہی معصوم رضا کی پیدائش یکم ستمبر ۱۹۲۵ء کو غازی پور (اترپردیش) میں ہوئی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم غازی پور سے حاصل کی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی۔
راہی معصوم رضا نے عملی زندگی کی شروعات درس و تدریس کے عمل سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے کی۔ کئی سال تک انھوں نے اردو زبان و ادب کی تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد ممبئی کارخ کیا جہاں انھوں نے متعدد فلمیں اور کئی مشہور سیریلس تحریر کیے۔
راہی نے فلمی زندگی میں جانے کے بعد بھی زبان و ادب سے اپنی دلچسپی اور لگن کو برقرار رکھا اور ادبی تخلیقات بھی یکے بعد دیگرے منظر عام پر آتی رہیں۔ انھوں نے افسانے اور ناول تو لکھے ہی اس کے علاوہ انھوں نے شاعری بھی کی۔ یعنی ان کی شاعری اور کہانیوں نیز افسانوی نگارشات مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)آدھا گائوں (۲)ہمت جون پوری (۳)ٹوپی شکلا (۴)دل ایک سادہ کاغذ (۵)اداس کی بوند (۶)محبت کے سوا (اردو ناول) (۷)کڑابی ارزو (ہندی ناول) (۸)میں ایک پھیری والا ہوں (ہندی شاعری (۹)نیا سال (۱۰)موج گل (۱۱)موج صبا (۱۲)رقص مَے (۱۳)اجنبی شہر (۱۴) اجنبی راستے (اردو شعری مجموعے) (۱۵)اٹھارہ سو ستاون (ہندی اردو) (۱۶)چھوٹے آدمی کی بڑی کہانی (سوانح ہندی میں)۔
راہی معصوم رضا اردو کے علاوہ ہندی زبان و ادب میں بھی اپنی موجودگی درج کی ہے۔ ہندی والوں نے انھیں پہلے پہل اردو کے ایک معروف شاعر کی حیثیت سے جانا۔ واضح رہے کہ راہی اردو اور ہندی کا ایک غیررسمی تصور رکھتے تھے۔ فکشن نگار کی حیثیت سے وہ ہندی والوں میں مقبول و معروف ہوئے۔ مصنف نے اپنا ناول ’’آدھا گائوں‘‘ میں اجتماعی زندگی کے مسائل کو پیش کیا ہے۔ یہ ناول اپنی منفرد نوع کی جزئیات نگاری اور کردار نگاری کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔
’’آدھا گائوں‘‘ ۱۹۶۶ء میں ہندی میں شائع ہوا اور ایک سال بعد ہی ہندی میں اس ناول کا بھرپور استقبال کیا گیا۔ ’’آدھا گائوں‘‘ کو راہی نے فارسی رسم الخط میں لکھا ، بعد میں راہی کی مدد سے کنور پال سنگھ نے اس کو دیوناگری میں تبدیل کیا۔ اس کے بعد ’’آدھا گائوں‘‘ سب سے پہلے ہندی میں شائع ہوا۔
’’آدھا گائوں‘‘ کا ترجمہ ملک و بیرون ملک کی کئی زبانوں میں شائع ہوچکا ہے۔ انگریزی ترجمہ ۱۹۹۵ء میں پینگوئن سے شائع ہوا۔ راہی کی دلی تمنا تھی کہ ’’آدھا گائوں‘‘ اردو میں شائع ہو۔ راہی کی موت کے بارہ سال بعد ’’آدھا گائوں‘‘ اردو میں شائع ہوا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں راہی معصوم رضا بلند پائے کے فکشن نگار اور شاعر ہیں۔ انھوں نے ادب میں زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسائل کو پیش کیا ہے۔ سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ناول کی ہیئت میں اپنے نقطۂ نظر سے اجاگر کیا ہے۔
’’آدھا گائوں‘‘ ان کا ایک ایسا ناول ہے جو سفاک حقیقت نگاری پر مبنی ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی تاریخ اور یہاں کی اجتماعی زندگی کے مسائل کو بھی بخوبی پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کے جو حالات تھے وہ سب راہی نے ناول میں پیش کیے ہیں۔ ناول پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ مصنف کو اپنے وطن سے بہت محبت تھی۔ ہونی بھی چاہیے، سبھی کو ہوتی ہے ان کو بھی تھی۔ انھوں نے ۱۹۴۷ء سے لے کر اپنی زندگی کے قابل ذکر واقعات کو اس ناول میں انھوں نے پیش کیا ہے۔
مسعود غازی، نورالدین شہید، ابوالقاسم، بدّن، بائی، تنّو بھائی، تس قیصر اختر اور گگے جو گنگولی گائوں کے تھے اب یہ لوگ پاکستان میں ہیں۔ بھنّن میاں، ابّو میاں، جھنگیابوا، مولوی بیدار، کوملا، بلرام چمار، حکیم علی، کبیر، گیا رہبر اور انوار الحسن راقی، گوری دادی نعیمہ، گنجن میاں عرف سیّد غضنفر حسین زیدی، زمرد نانی، حسن دادی، اطہر میاں، رابیہ، ٹامی طوائف ہے، شہلا، لطیفن بوا، علی مہدی، بشیر میاں، وزیر میاں، بشیر میاں،اگّو میاں، انوارالحسن راقی، وہابی ہیں، چندا بائی، گلابی جان، نعمت اللہ، غلام حسین خاں، سمیع الدین، غلام حسین خاں، شیعہ تھے۔ اشرف اللہ خاں، مفداد، سیفنیا نائن ہے سیدہ علی گڑھ میں پڑھ رہی ہے، کمو تنو فوجی ہے کلثوم بھنن کی رکھیل بن کر رہتی ہے جواد میاں بچھنیا جھنگٹیا کی بیٹی ہے۔ حکیم، علی، کبیر، ابّو میاں، سبطو میاں، پھسّو میاں، پرسورام جو ایم ایل اے بنا تھا، کانگریسی تھا۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے کردار ہیں جو گنگولی یونی ہندوستان میں ہیں، اس ناول کے اہم کردار ہیں۔
راہی معصوم رضا کا یہ ناول ایک اجتماعی زندگی کے مسئلوں پر مبنی ہے۔ اس ناول کے ذریعہ انھوں نے ہندوستان کی وہ تاریخ پیش کی ہے جو اپنے ساتھ ایک طوفان لے کر آئی تھی۔ ایک طرف ہمارا ملک آزاد ہوا تھا اور دوسری طرف ملک تقسیم ہورہا تھا۔ جب خوشی منانے کا وقت آیا تو غم میں مبتلا ہونا پڑا۔ ملک کی تقسیم ہمارے لیے تباہی اور بربادی کی سینکڑوں کہانیاں ساتھ لائی۔ نہ جانے کتنے لوگ مارے گئے۔ ہندو مسلم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے اور ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔ بہت سارے لوگ ایسے تھے جو ملک کی تقسیم کے حق میں نہیں تھے لیکن مسلم لیگ کا واحد مقصد ملک کا بٹوارہ تھا۔ ادھر کانگریس بھی بٹوارے کے لیے اپنا رول ادا کررہی تھی۔ کتنے بوڑھے اور جوان ایسے تھے جو اپنی زمینوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ ان کے اباواجداد کی نشانیاں تھیں۔ اس وقت جب زمینداری کا خاتمہ ہوا تب زمیندار کانگریس کے خلاف مورچے نکالنے لگے۔ جب سے انگریز گئے ایک ایسی چال چل گئے کہ اس کا اثر ہمارے ملک کے معصوم کسانوں، مزدوروں اور ہر طبقہ پر اس کا اثر مرتب ہوا۔ خوشی منانے کے بجائے لوگوں میں ماتم برپا ہوگیا۔ ہندو مسلم سب صدمے میں تھے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’حاجی صاحب غصے میں مسجد سے نکل آئے۔ ان کی سمجھ میں تقریر بالکل نہیں آئی تھی۔ ان کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آرہی تھی کہ مسلمانوں کو یہ ایک دم سے پناہ گاہ کی ضرورت کیوں آپڑی ہے اور انگریزوں کا وہ سایہ کہاں ہے جس کی بات لڑکوں نے اس دھوم دھام سے کی تھی۔ گنگولی میں تو اب تک کوئی انگریز دیکھا نہیں گیا تھا اور جب انگریز ہندوستان میں نہیں تھے تب آخر ہندوئوں نے مسلمانوں کو کیوں نہیں مار ڈالا؟ بنیادی سوال یہ تھا کہ زندگی، موت خدا کے ہاتھ میں ہے یا انگریزوں اور جناح صاحب کے ہاتھ میں۔‘‘ ۱؎
’’جن مسلمان بچیوں نے بچپن میں ان کی گود میں پیشاب کیا ہے ان کے ساتھ زنا کیوں اور کیسے کیا جائے؟ ان کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا تھا کہ جن مسلمانوں کے ساتھ وہ صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں ان کے مکانوں میں آگ کیوں اور کیسے لگا دی جائے؟ اس ملّا جی کو کوئی کیسے مارے جو نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتے وقت ہندو مسلمان بچوں کو پھونکتے ہیں……‘‘ ۲؎
مذکورہ بالا اقتباس میں بیانیے میں لگاتار سوالات قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دراصل ان اقتباسات میں مشترکہ تہذیب کے زوال کا نوحہ بیان ہوا ہے۔
زیادہ تر لوگ ملک کی تقسیم کے خلاف تھے۔ مصنف نے ناول کے ذریعہ اس وقت کے حالات کا تجزیہ کیا ہے اور ایک ایسا آئینہ دکھایا ہے آج جو لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان ہندوئوں کا ہے مسلمان پاکستان جائو وہ کیونکر سیاست کے ہاتھوں جانور بن گئے ہیں۔ ہندو مسلمان دونوں ہندوستان کی پیداوار ہیں۔ مسلمان آج بھی یہی سوچتا ہے ہندوستان ہمارا ہے ہم ہندوستان میں ہی رہیں گے۔ ہندو مسلم آپس میں بھائی بھائی ہیں جو کبھی تھے اور رہیں گے۔
تقسیم کا درد اس ناول کا موضوع ہے۔ ناول نگار نے نے جذبات، احساسات و خیالات کو بہت ہی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ پہلے بھی سیاست داں لڑائی جھگڑا کراتے تھے اور آج بھی۔ عصر حاضر میں دیکھا جائے تو یہ آج بھی پالٹیکس والے بھولی بھالی عوام کو بیوقوف بنا کر آپس میں لڑائی جھگڑا کراتے ہیں اور اپنا الّو سیدھا کرتے ہیں۔ نہ جانے رات و دن کتنے معصوموں کی جانیں اس سیاست کے کھیل میں جاتی ہیں۔ ہندوستانی سیاست نے ہندو مسلم بھائی چارہ ختم کرادیا۔ یہ کسی ایک زمانے کی کہانی نہیں۔ یہ کھیل تو ۱۹۴۷ء سے لے کر آج تک جاری ہے۔ یہ پارٹیوں کے غنڈے موالی بھولی بھالی عوام کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ اب تو ملک کی حالت اور بھی نازک ہوتی جارہی ہے۔ نہ جانے کب تک یہ خون کی ہولیاں کھیلی جائیں گی۔
اس ناول میں اس زمانے کے مسائل کو بھی پیش کیا گیا ہے جیسے کیونکر اس وقت عورتیں صرف گھروں میں ہی رہتی تھیں۔ اس زمانے میں عورتیں پیشاب پخانہ کھیتوں میں کرنے جایا کرتی تھیں اور وہاں ساسوں کی برائیاں اور بیوقوفی کی باتیں کرتی تھیں۔ لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ چلنا آگیا ہے، اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے ان کے پاس اب ان کا پلیٹ فارم ہے۔ وہ زمانہ ایسا تھا کہ اگر کسی عورت کے لڑکی ہوجاتی تو اس کو گالیاں دی جاتیں، اس کو کوسا جاتا۔ ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو لڑکوں کو اچھا سمجھتے ہیں اور لڑکیوں کو برا۔ زمانے میں بس تھوڑا بدلائو ہے زیادہ نہیں۔ ابھی بھی کچھ گائوں اور شہر ایسے ہیں جو لڑکیوں کی پیدائش پر ماتم کرتے ہیں۔ انہیں برائیوں کو اس ناول میں پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کا مندرجہ ذہل اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’سید انیوں کے علاوہ تمام عورتیں غول بنا کر لوٹے لے کر کھیتوں میں جاتی تھیں اور وہاں پاس پاس بیٹھ کر ساسوں کی شکایتیں کرتی تھیں۔ یا سرگوشیوں میں اپنے خوابوں اور محرومیوں کی باتیں کرتی تھیں۔‘‘ ۳؎
’’انھیں سکینہ کی بدصورتی سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ بیویوں کے لیے خوبصورت ہونا بالکل ضروری نہیں ہے۔ خوبصورتی رنڈیوں کے لیے ضروری ہے۔ انھیں شکایت یہ تھی کہ سکینہ کے یہاں تابڑ توڑ سات لڑکیاں ہوچکی تھیں اور پھسّو میاں ایک بیٹے کے ارمان میں مرے جارہے تھے۔ جب لڑکی پیدا ہوتی تو پھسّو منتیں ونتیں مان کر اور گنڈے تعویز میں جکڑ کر پھر کوشش میں لگ جاتے۔ یہاں تک کہ سکینہ کو متلی ہونے لگی او روہ کورے برتن میں کھانے لگتی۔ یہ دن پھسّو بڑی بے چینی سے گزارتے۔ یہاں تک کہ پھر لڑکی ہوجاتی اور پھسّو کا منہ لٹک جاتا اور بتن بی ہاتھ اٹھا کر سکینہ کو کوسنے لگتیں۔ ’’لڑکیئے لڑکی پیداتا کیے جارہی ہو۔ باقی گھر میںروکڑ نا دھررہے۔‘‘
سکینہ ان کوسنوں کو پی جاتی تنہا ہوتی تو روتی اور اپنے کو بددعا دیتی۔ ۴؎
اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مصنف نے ہمارے سماج کی ان چھوٹی چھوٹی برائیوں کو ناول کا موضوع بنایا ہے جو آج بھی معاشرے میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ اسی طرح سے اس وقت کے ایسے حالات جو عورتیں بیوہ ہوجاتیں تو ان کی دوسری شادی کرنا منع تھا۔ ان عورتوں کو اچھوت سمجھا جاتا تھا۔ ان کو ہنسنا بولنا یا کسی شادی میں شریک ہونا ان کے لیے جرم تھا۔ وہ صرف گھرکی چاردیواری کے اندر سفید کپڑے پہن کر اپنی زندگی گزارتی تھیں۔ اس وقت عورتوں پر کتنا ظلم ہوتا تھا اور وہ بے چاری سب سہن کرتی تھیں۔
’’کئی بیوہ سیّدانیاں دل مسوس کر رہ گئیں کہ کیا وہ بچھنیا سے بھی گئی گزری ہیں۔ حسین علی میاں کی بہن امّ الجیہ تو کوئی بیس سال سے سفید کپڑے پہن رہی تھی۔ شادی کے تیسرے دن وہ بیوہ ہوگئی تھی۔ اس کی اور آسیہ کی شادی میں تین دن کا ہیر پھیر تھا۔ اب آسیہ ماشااللہ سے چھ بچوں کی ماں تھی اور امّ الجیہ شادی بیاہ کے موقعوں پر اچھوت ہوجاتی تھی۔ قندوری کے فرش پر اس کی پرچھائیں نہیں پڑسکتی تھی۔ دلہن کے کپڑوں کو وہ چھو نہیں سکتی تھی۔‘‘ ۵؎
راہی معصوم رضا نے ’’آدھا گائوں‘‘ میں زمینداری کے خاتمہ، عورت کے مسائل، ملک کے تقسیم ہونے کے مسائل، ہندو مسلم فساد کی کریہہ صورتوں کو مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ قاری ناول پڑھتے وقت اس لیے بھی خود کو اس میں منہمک ہو جاتا ہے کیونکہ یہ صرف مصنف یا کرداروں کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر اس ہندوستانی شہری کا مسئلہ ہے جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں یقین رکھتا ہے۔۔ انھوں نے اس ناول میں بہت سے کردار پیش کیے ہیں جو سب اپنے اپنے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔
ناول میں مصنف نے شہر کو اونگھتا شہر کہا ہے۔ یعنی مجاز مرسل کا استعمال کیا ہے۔ دراصل یہ ہندوستان کے بے حس اور اپنے آپ میں مگن شہریوں پر طنز ہے۔ ناول اجتماعی زندگی کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں قاری اپنے ماضی اور حال کو دیکھ سکتا ہے۔
حواشی
۱۔ آدھا گائوں، راہی معصوم رضا، شری رامانند سرسوتی پستکالیہ، اعظم گڑھ، ۲۰۰۳ء، ص۲۱۲
۲۔ ایضاً، راہی معصوم رضا، ص ۲۴۱
۳۔ ایضاً، راہی معصوم رضا، ص ۹۰
۴۔ ایضاً، راہی معصوم رضا، ص ۹۳
۵۔ ایضاً، راہی معصوم رضا، ص ۱۰۰
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!