مونوگراف ”جوش ملسیانی‘‘ تحقیق و تنقید کے میزان پر
تحریر: ڈاکٹر محمد سراج اللہ، معاون ایڈیٹر رو زنامہ قومی تنظیم ، پٹنہ
موبائل نمبر: 9199726661
پنڈت لبھورام جوش ملسیانی ہندستانی ادب کے معماروں میں سے ایک ہیں۔ شعر وادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کی جو خدمات کی ہیں ،وہ ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی قابلیت، علمیت اور شاعرانہ صلاحیت مسلّم ہے، بالخصوص غزل میں ان کو جو مقام حاصل ہے وہ اس دور کے دوسرے بہت کم شعراء کے حصے میں آیاہے۔ فن عروض میں بھی ان کی مہارت کو دنیا سلام کرتی ہے۔ ہندستان اور پاکستان کے بڑے بڑے اساتذہ علم فن نے اس امر کو تسلیم کیاہے کہ علم عروض اور فن شاعری میں جوش ملسیانی کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی او رکو نہیں۔ جوش کی اس عظمت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کے شاگرد رشید بھوپندر عزیز پریہار نے ان کی سوانح عمری ’’جوش ملسیانی‘‘ کے نام سے تصنیف کی ہے جو ۹۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ ساہتیہ اکادمی نے آر کے آفسیٹ پروسس، دہلی۔۳۲ سے شائع کیاہے، جس کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۷ء میں منظر عام پر آیا۔
جوش ملسیانی جس طرح ہندستانی ادب کی مقتدر ہستیوں میں سے ہیں ،اسی طرح ان کے شاگرد رشید اور سوانح نگار بھوپندر عزیز پریہار بھی بلندپایہ قلمکاروں میں سے ہیں۔ اس کے باوجود وہ کتاب کے ’’پیش لفظ‘‘ میں اعتراف کرتے ہیں کہ ایک شاعر کی سوانح اس انداز سے قلمبند کرنا کہ اس کا دور اور معاشرے پر اس کے اثرات بھی واضح ہوجائیں، امر محال ہے۔ پنڈت لبھورام جوش ملسیانی جیسے شاعر (۱۹۷۶۔۱۸۸۲) کے حالات قلمبند کرنا او ربھی زیادہ مشکل ہے۔ انیسویں صدی کا آخری دور اور بالخصوص ۱۹۸۰ء تک ہندستان کی تاریخ کا وہ دور ہے جو سیاسی، تہذیبی اور ادبی اعتبار سے ناقابل فراموش واقعات اور حادثات کا حامل ہے۔ جوش ملسیانی کی ادبی قدر وقیمت متعین کرنے کے لئے تاریخی شعور کی اشد ضرورت ہے۔
پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی کی پیدائش ایک برہمن خاندان میں ۱۸۸۲ء میں ہوئی۔ آپ ’’ملسیان‘‘ میں پیدا ہوئے جو پنجاب کے ضلع جالندھر کا ایک چھوٹا قصبہ تھا۔ یہ قصبہ علمی تو نہیں تھا لیکن فن دستکاری میں دور دور تک شہرت رکھتاتھا۔ ۱۹۴۷ء کے جنگی تھپیڑوں میں پورا قصبہ تباہ وبرباد اور ویران ہوگیا۔ اس سلسلے میں مصنف جوش ملسیانی کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ملسیان اجڑی ہوئی بستی تھی جس کی آبادی اقتصادی بدحالی کا شکار تھی۔ اور نہ وہاں کوئی ادبی ماحول تھا۔ میرے ملنے جلنے والوں کا خیال تھا کہ میرا ایسا کہنا غیر مناسب بات ہے لیکن یہ حقیقت تھی اورپاکستان بننے کے بعد حالات اورناگفتہ بہ ہوگئے‘‘۔(۱)
آگے لکھتے ہیں:
’’ملسیان اچھا خاصا بڑا قصبہ ہے۔ یہاں کی آبادی چار ہزار سے زیادہ ہے۔ میرے والدین اور رشتہ دار ان پڑھ تھے۔ وہ چھپر کے گھروں میں رہتے تھے۔ پکی اینٹوں کے گھر بہت کم تھے۔ گلیاں خستہ حال او رگندی تھیں۔ صفائی کا کوئی خیال ہی نہیں تھا۔ ٹریننگ سینٹر کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ میں محرومی کے تاریک سائے میں پیدا ہوا تھا۔ میرے والد اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ع
آج کے لئے جیو، کل خود اپنی جگہ بنالے گا ‘‘۔(۲)
کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جوش ملسیانی کے والد پنڈت موتی رام بغرض تجارت پشاور میں رہاکرتے تھے جبکہ والدہ ملسیان میں رہتی تھیں۔ ان کے والد اپنی اہلیہ سے لاپروائی برتتے تھے۔ گھر او ردیگر ضروریات و اخراجات کی تکمیل کے لئے کوئی خاص رویئے پیسے بھی نہیں دیتے تھے۔ مجبوراً والدہ کو معاش کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا تھا۔ اپنے والد کی اس حرکت سے جوش ملسیانی بڑے نالاں تھے۔ اپنی ناراضگی کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیاہے:
’’جب ان کا جی چاہتا، وہ گھر روپیہ بھیج دیتے تھے۔ اکثر خبر نہیں لیتے تھے۔ بحیثیت برہمن کے وہ غالباً یہ سوچتے تھے کہ میرا خاندان خیرات پر زندہ ہے اور یہ سوچ کر وہ مطمئن بھی ہوجاتے تھے لیکن دراصل ایسا نہیں تھا۔ میری والدہ کو گھر چلانے کے لئے کچھ نہ کچھ کام کرنا پڑتا تھا۔ میرے چچا بھی بطور امداد کچھ روپیہ بھیج دیتے تھے لیکن وہ رقم بہت ناکافی ہوتی تھی۔ وہ ہماری زندگی کا بے حد مشکلات کا دور تھا۔جیسے تیسے پیٹ بھرتا تھا۔ جو کچھ میسر ہوا کھالیا۔ ہمارا گھر بہت چھوٹا تھا۔ ایک تنگ کمرہ اور ایک تنگ صحن جس سے ایک اور گھر کا راستہ جاتاتھا۔ مجھے تعجب ہوتا تھا کہ اس چھوٹے سے گھر میں شادی بیاہ کی تقریبات کیسے ہوتی تھیں۔ کہاں مہمان ٹھہرتے تھے اور کسی کی موت واقع ہونے پر تعزیت کے لئے آنے والے لوگ کہاں بیٹھتے تھے۔ یہ سب کچھ میں نے اپنے بچپن میں دیکھا‘‘۔(۳)
لاہور میں ٹیچرس ٹریننگ کرنے کے بعد جوش ملسیانی جالندھر کے ایک اسکول میں اردو اور فارسی کے مدرس مقرر ہوئے۔ وہ بہتر کام کی تلاش میں پنجاب میں مختلف جگہوں پر رہے۔ آخر کار ۱۹۱۳ء میں انہوں نے نکودر ضلع جالندھر میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں اپنی زندگی گزاردی۔جب وہ چودہ برس کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ انہوںنے کوئی اثاثہ نہیں چھوڑا جو خاندان کی کفالت کرسکے۔ حالات پر قابو پانا بہت مشکل تھا۔ اس عمر میں ان پر پورے خاندان کی ذمہ داری آگئی۔ انہیں شدید نامساعد حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں جوش ملسیانی کی شادی ہوئی۔ شادی کے بعد جلد ہی ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ بائیس سال کی عمر میں ان کی دوسری شادی ہوئی۔ دوسری بیوی سے ان کی تین لڑکیاں او رایک لڑکا تھا۔ ان کا بیٹا عرش ملسیانی اپنے باپ کی طرح اپنے زمانے میں مشہور شاعر تھا اور ایک طویل عرصے تک ’’آج کل‘‘ جیسے معیاری رسالے کا ایڈیٹر رہا۔
جوش ملسیانی نے اپنی خود نوشت سوانح ’’غبار کارواں‘‘ میں اپنی زندگی کی ابتدائی جدوجہد کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے ان کی بے بسی وبے کسی اجاگر ہوتی ہے اور قاری کے اندر ان کے تئیں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مصنف موصوف نے خود نوشت سے اقتباس نقل کرکے یہاں بھی قاری کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتباس اس طرح ہے:
’’جب میرے والد کا انتقال ہوا، میری عمر ۱۴ سال تھی۔ مجھے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔ مستقبل کا خوف دامن گیر تھا۔ میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ روٹی کا تھا اور یہ مسئلہ اس وقت تک رہا جب تک میں بیس سال کا نہیں ہوگیا۔ اگر شاعری سے میری دلچسپی باطل ہوتی تو میرے مصائب کے دور میں اس کا قلع قمع ہوچکا ہوتا۔ لیکن میری شدید خواہش نے میری شاعری کے ذوق کو زندہ رکھا۔ میرے باطل میں کوئی تھا جو مجھ سے کہتا تھا کہ اپنا سفر جاری رکھو‘‘ ع
وہ نقش ہوں کہ زمانہ جسے مٹانہ سکے (۴)
مصنف نے جوش ملسیانی کی شاعرانہ عظمت کو ’’بحیثیت شاعر: روایت، عصری آگہی او رذہانت ’’عنوان کے تحت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس عنوان کی ابتدا ان الفاظ میں کی ہے:
’’جوش ملسیانی نے ایک طویل عمرپائی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سیاست، قومیت، ادب اور سماج میں تحریکوں اور نظریات کو تغیر پذیر ہوتے دیکھا۔ انہیں اردو زبان کا ورثہ تعلیم کی بدولت ملا او رانہوں نے اردو زبان کو حسن شناسی کی لطافت اور حصول علم کے لئے استعمال کیا اور اپنی ادبی ذہانت کو عقائد کے اظہار اور فلاح انسانیت کا وسیلہ بنایا۔ ان کے نظریات کی شناخت کے لئے بھی پیچھے مڑ کر حالی (۱۹۱۴۔۱۸۳۸)، محمد حسین آزاد (۱۹۱۰۔۱۸۳۳) اور شعرا کے اس قبیلہ کو دیکھنا ہوگا جو نیچرل اور قومی شاعری کررہے تھے۔ جوش ملسیانی کا کسی سیاسی نظریے سے تعلق نہیں تھا۔ اس لئے ان کے عقائد، شاعری اور شخصیت میں کٹرپن نہیں ہے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ ایک شاعر کا منصب حسن شناسی کی لطافت کے ساتھ سماج کو علم سے بہرہ ور کرنا ہے۔ ان کی شاعری کا لہجہ دھیما ہے اور اظہار خیال میں خوش گوار توازن ہے‘‘۔(۵)
جوش ملسیانی کے زمانے میں ملک کے حالات ناگفتہ بہ تھے۔ انگریزوں نے یہاں کے باشندوں کا جینا دوبھر کررکھا تھا۔ ایسے میں جوش قومی بیداری تحریک کا حصہ بن کر قوم کو اپنی پرجوش شاعری سے بیدار کرنے میں اہم کردار نبھا رہے تھے۔ اس سلسلے میں بھوپندر عزیز پریہار لکھتے ہیں:
’’برطانوی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندستان کو آزاد کردیا جائے گا مگر یہ وعدہ وفا نہیںکیاگیا۔ شعراء کرام ہوم رول، سول نافرمانی اور مکمل آزادی کے مطالبات سے واقف تھے۔ حسرت موہانی، تلوک چند محروم، محمد علی جوہر، پنڈت برج نارائن چکبست، اقبال، حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی اور بہت سے شعراء انقلابی نظمیں لکھ رہے تھے۔ جوش ملسیانی قومی بیداری کی تحریک کا ایک حصہ تھے۔ انہوں نے جدوجہد آزادی ’انقلاب اور نو آبادیاتی حکمرانوں کی ہندستانیوں سے وعدہ خلافی سے متاثر ہوکر نظمیں کہیں۔ ’’انقلاب زمانہ‘‘ ،’’وطن اور شام بہار‘‘، ’’وطن‘‘، ’’یوم آزادی‘‘، ’’مہاتما گاندھی کی عظمت‘‘ اور ’’ مفلس کی عید‘‘ وغیرہ ان کی نمائندہ نظمیں ہیں‘‘۔(۶)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’دنیا کے لئے دوسری جنگ عظیم ایک چیلنج تھی۔ بنگال کے قحط اور ملک میں روز افزوں غریبی نے آزادی کی خواہش کو اور شدید کردیا او ران حالات او رماحول کے زیر اثر جوش صاحب نے قومی نظمیں کہیں۔ مثلا: ’’موتی لال نہرو کا نعرئہ حق‘‘، ’’جمہوریت‘‘، ’’فرقہ وارانہ فسادات‘‘، ’’قومی پرچم‘‘، ’’جشن آزادی منانے کی خواہش‘’، ’’ایشیا کی زبوں حالی‘‘ اور ’’ایک نیا کشمیر‘‘ یہ وہ موضوعات ہیں جو ان کی شاعری میں آئے اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب بھی ملک نامساعد حالات سے گذرا، ان کی شاعری متائثر ہوئی۔ آخر کار ہندستان کو آزادی مل گئی‘‘۔(۷)
آزادی کے بعد ہندستان ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ ہندستان پر چین اور پاکستان نے حملے کئے۔ شعرا کے لئے پھر موقع آیا کہ عوام سے براہ راست مخاطب ہوں۔ جوش ملسیانی نے پھر حب الوطنی کے رنگ میں ڈوبی ہوئی نظمیں لکھیں۔ انہوں نے اپنی نظم ’’وطن کے سپاہی‘‘ میں قوم کے سپاہی کی تعریف وتوصیف کی۔ اس حقیقت کو اجاگر کرنے کے بعد مصنف نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جوش کے نزدیک غزل نرم ونازک احساسات کا ہی ذریعہ اظہار نہیں تھی بلکہ انہوں نے اپنی غزلوں میں زندگی کے کرخت حقائق کو موضوع سخن بنایا۔ مثال کے طور پر چند اشعار پیش ہیں:
مرنے واے کے لئے کون بہائے آنسو
جینے والوں کو تو جینے کا ہی رونا ابھی
آج کل گرمی کی ہے رفتار گرم
ہر طرف ہے حشر کا بازار گرم
دوستوں کی سرد مہری دیکھ کر
اشک ٹپکے آنکھ سے دو چار گرم
بھوپندر عزیز پریہار نے جوش ملسیانی کی شاعری کی خوبیوں کو جگہ جگہ اجاگر کیا ہے او رایک ہی بات کو مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے جو تکرار ہے او ربلاغت وفصاحت کے خلاف بھی۔ مثلا: صفحہ ۲۲پر لکھتے ہیں:
’’انہوں نے تقریباً تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، مگر غزل پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ ان کی غزل کی خوبی ہے سادہ اور سلیس انداز بیان، ایجاز، اختصار او ربول چال کا لب ولہجہ، ان کا خیال تھا کہ شاعری کی زبان عام فہم ہونی چاہئے‘‘۔
صفحہ ۲۳ پر اسی بات کو الفاظ بدل کر یوں لکھتے ہیں:
’’جوش صاحب اپنے کلام میں صحت الفاظ پر بہت زور دیتے تھے۔ ان کے یہاں لفظوں کو برتنے کا ایک سلیقہ تھا اور بیان میں لطافت۔ اس زمانے میں خیالات میں انتہا پسندی ایک فیشن بن گئی تھی۔ جوش صاحب نے اعتدال پسندی کو اپنایا اور اپنی عام فہم غزلوں، نظموں، رباعیوں اور نثری تحریروں میں بھی سہل پسندی کو روا رکھا‘‘۔
صفحہ ۲۳ پر ہی انہیں باتوں کو مزید ان الفاظ میں لکھتے ہیں:
’’روز مرہ بولی جانے والی زبان کے استعمال او رپیچیدہ اور ادق زبان سے گریز کے باعث جوش ملسیانی اپنے زمانے کے مشہور شاعر تھے۔ ان کے اشعار بے حد پسند کئے جاتے تھے‘‘۔
اسی صفحہ پر مزید تکرار کے ساتھ اس طرح لکھتے ہیں:
’’جوش صاحب الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط تھے اور وہ الفاظ کو بیش قیمت موتی کی طرح استعمال کرتے تھے‘‘۔
صفحہ ۲۲ پر لکھتے ہیں:
’’جوش ملسیانی کی تخلیقیت کا زمانہ پیچیدہ نہیں تھا۔ اسلوب اور طرز بیان پر زور دیاجاتا تھا۔ ان کے زمانے کو استدلال کا دور کہاجاتا تھا‘‘
اسی بات کو الفاظ میں تبدیلی کے ساتھ صفحہ ۲۷ پر یوں لکھتے ہیں:
’’جوش ملسیانی کے زمانے میں کلاسیکی طرز سخن کا رواج تھا‘‘۔
صفحہ ۲۶ پر لکھتے ہیں:
’’جوش ملسیانی کی غزل کلاسیکی ساخت کی حامل ہے۔ ان کی زبان سلیس اور بامحاورہ ہے۔ ذوق اور داغ جیسے شعراء ان کے مثالی شاعر تھے، جنہوں نے سادہ اور بات چیت کی زبان استعمال کی ہے او رجن کے بیان میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ انہیں خصوصیات کی چھاپ جوش ملسیانی کی غزل پر ہے او ریہ ان کی عظمت کی دلیل ہے‘‘۔
مصنف نے جوش ملسیانی کی غزلوں، رباعیوں، نظموں او رمرثیوں پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کی نثری خدمات کو بھی بڑی عقیدت کے ساتھ اجاگر کیاہے۔ لکھتے ہیں:
’’جوش ملسیانی کی نثر کا انداز رواں دواں اور واضح ہے۔ ان کی نثر انتہائی رسمی انداز کی ہے۔ اس کی ساخت قابل تعریف ہے، تصنع اور زیبائش الفاظ سے پاک ہے۔اس میں گٹھائو اور توازن ہے، اس کا سمجھنا بہت آسان ہے‘‘۔(۸)
جوش ملسیانی کی متعدد نثری تصانیف ہیں۔ ان میں ’’منشورات جوش ملسیانی‘‘،’’ لوح وقلم‘‘،’’ شرح دیوان غالب‘‘، ’’آئینۂ اصلاح، ’’دستور القواعد‘‘ (فارسی )اور ’’اقبال کی خامیاں‘‘ قابل ذکر ہیں۔ سوانح نگار بھوپندر عزیز پریہار نے کتاب میں ’’بحیثیت نثر نگار–– اہم نثری تصانیف‘‘ عنوان کے تحت صفحہ ۴۳ سے صفحہ ۵۸ تک ان سبھی کتابوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے او رانہیں جوش کی اہم نثری تصانیف قرار دیا ہے۔ صفحہ ۶۴ سے صفحہ ۷۸ تک جوش کی نظموں، غزلوں او رابیات سے منتخبہ کلام کو جگہ دی ہے۔ ناقدین او رارباب ادب کی نگاہ میں جوش ملسیانی کا کیا مقام ومرتبہ تھا، اس کو مصنف نے اپنے الفاظ میں اجاگر نہیں کیا ہے بلکہ صفحہ۷۹ پر ’’جوش ملسیانی ناقدین کی نظر میں ’’قائم کیا ہے اور صفحہ ۹۲ تک پروفیسر آل احمد سرور،پروفیسر گوپی چند نارنگ، پروفیسر اسلوب احمد انصاری، منوہر سہائے انور، مالک رام، جوش ملیح آبادی، کالی داس گپتا، مرزا یگانہ چنگیزی، دل شاہجہاں پوری، گوپی ناتھ امن، بیخود دہلوی، فراق گور کھپوری، برج موہن دتاشریہ کیفی، جگر مرا دآبادی، رشید احمد صدیقی، نیاز فتحپوری، ریاض خیری آبادی، سید عابد حسین، پروفیسر عنوان چشتی، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی، پروفیسر آزاد گلاٹی، ڈاکٹر شارب ردولوی، میلارام وفا، سید محی الدین زور، ابرارحسن گنوری، حامد علی خان، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، پروفیسر احتشام حسین، متقی عتیق الرحمان، ڈاکٹر رام بابو سکسینہ، مولاناعبد الماجد دریاآبادی، پروفیسر تلوک چند محروم اور پروفیسر جگن ناتھ آزاد جیسے نقاد اور ارباب ادب کی ان تحریروں کو شامل کتاب کیا ہے، جنہیں ان سب نے جوش ملسیانی کی شاعرانہ عظمت اور فضل وکمال کے اعتراف میں قلمبند کئے تھے۔
حواشی :
(۱) بھوپندر عزیزپریہار ، جوش ملسیانی ، ص: 11
(۲) بھوپندر عزیزپریہار ، جوش ملسیانی ، ص: 12
(۳) بھوپندر عزیزپریہار ، جوش ملسیانی ، ص: 12
(۴) بھوپندر عزیزپریہار ، جوش ملسیانی ، ص: 15
(۵) بھوپندر عزیزپریہار ، جوش ملسیانی ، ص: 16
(۶) بھوپندر عزیزپریہار ، جوش ملسیانی ، ص: 18-19
(۷) بھوپندر عزیزپریہار ، جوش ملسیانی ، ص: 19
(۸) بھوپندر عزیزپریہار ، جوش ملسیانی ، ص: 29
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!