مسائلِ تصوف اور اصغرؔ گونڈوی

تحریر: ڈاکٹرآفتاب عالم آروی، جواہر نودیہ ودیالیہ، بہرایچ، یو  پی

ای میل     : aftabarwi@gmail.com

موبائل نمبر:  9161873515

                تصوف کی بنیاد روحانیت پر قائم ہے۔ لفظ تصوف اپنے دامن میں ایک ایسی صداقت اور حقیقت کو سمیٹے ہوئے ہے جس سے کسی طور علیحد گی ممکن نہیں۔ یہ ہر زمانے میں سر گرم عمل رہا ہے۔خاص کر ایسے وقتوں میں اس کی ضرورت زیادہ محسوس کی گئی جب انسان انسانیت کے جامے سے باہر نکل گیا۔ تصوف ایک ایسا صراتِ مستقیم ہے جس پر چل کر انسان دنیاوی جھمیلوں سے بے نیاز ہو کر اپنے رب سے لو لگاتا ہے اور اسے طمانیتِ قلب نصیب ہو جاتی ہے۔ اس کے ذریعہ خود آ گہی اور خدا شناسی کی منزل تک بہ آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ حیات اور کائنات کے تمام اسرار و رموز اسی علم کے ذریعہ کھلتے ہیں۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام زکریا انصاری کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ:

’’ تصوف ایک علم ہے جس سے نفوس کی پاکی ، اخلاق کی صفائی اور ظاہر و باطن کی آبادی و آراستگی کے احوال معلوم ہوتے ہیں اور اس کا مقصد ابدی سعادت کا حصول ہے۔ ‘‘

  ( شرح الرسالتہ القشیر یہ، جلد اول ، ص ۶۹)

علماء کے ان اقتباسات سے بھی تصوف کے رموز و نکات مزید افشاء ہوتے ہیں۔

’’ تصوف صفائی قلب، صفائی باطن و تعمیر ظاہر وباطن ہے۔‘‘

  حضرت امام قیشریؒ

 ’’ تصوف یہ ہے کہ حق تجھے تیرت وجود سے فنا کر کے اپنے ذریعہ سے بقا عطا فرمائے۔‘‘

  حضرت جنید بغدادیؒ

                ان مفروضات کی انفرادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تصوف کی جامع و منضبط تعریف ممکن نہیں۔ یہ ایک ذوق وجدانی شئے ہے جو کثیرالمعنویت سے عبارت ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء نے اپنے ذوق و وجدان کے مطابق اسے نئے نئے معنی پہنائے ہیں تاکہ تصوف کے اخفائے رموز ظاہر ہو سکیں۔

                اگر تصوف کے لغوی و اصطلاحی معنی یا اس کے مآخذ کی طرف غورکیا جائے تو یہاں بھی علماء متفق رائے نظر نہیں آتے۔ تحقیق کی رو سے تصوف کا مآخذ صفا، صوف، اہلِ صفّہ اور صف وغیرہ الفاظ لیے گئے ہیں۔ لیکن اکثر علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ تصوف کا لفظ’’ صوف‘‘ سے ماخوذہے۔ صوف عربی زبان کالفظ ہے۔ اس کے معنی بھیڑ یا بکری کے بال ہیں۔ کمبل یا اون کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔صوف کاایک مطلب بڑے بڑے بالوں والا بھی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صوفی منش زیادہ تر بڑے بڑے بالوں والے ہوتے ہیں۔صوف کو پشم بھی کہتے ہیں، پشم سے لفظ پشمینہ بنا ہے۔اس لئے پشمینہ پوش کو صوفی کہتے ہیں۔ دراصل پشمینہ پوشی سادگی اور پاکیزگی کی علامت ہے، یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام نے پشمینہ پوشی اختیار کی۔اس سلسلے کی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بعض علماء اس کا تعلق اصحابِ صفّہ سے بتاتے ہیں۔صوفہ کے معنی چبوترہ کے ہوتاہے۔ یہ وہ لوگ تھے جوحضور ؐ کے زمانے میں دنیا سے کنارہ کش ہوکر مسجدِ نبوی کے باہر ایک چبوترے پر ذکراللہ میں مشغول رہا کرتے تھے ، صرف ایک کپڑے میں زندگی بسر کرتے اور ایک ہی قسم کا کھانا کھاتے تھے۔انہیں اوصاف کی بنا پر صوفی کو اہلِ صفّہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

                تصوف کے آغاز کے سلسلے میں علماء و صوفیاء اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا آغاز آنحضرت صلعم کی ذاتِ با برکت سے ہوا۔آپؐ  کو صوفیِ اعظم کہا جاتا ہے ،کیوںکہ آپ کی زندگی مکمل طورپر قرآنِ کریم کی تعلیمات پر مبنی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ  کی ذاتِ گرامی تصوف کی تعلیمات کی بنیادی کلید ہے۔  آپؐ  کی ذاتِ اقدس عبادت و ریاضت ، ایثار و قناعت، زہد و تقوی ، عفوو درگزر، صبر و تحمّل ، فقر و فاقہ، عجزو انکسار اور ترکِ دنیا جیسے اوصاف کا مجموعہ ہے۔ آپؐ کے بعد خلفائے راشدین ، تابعین، تبع تابعین اور متاخرین کی زندگی بھی تصوف کی روشنی سے منورو مجلّہ تھیں۔

                صوفیا ئے کرام کا اہم مقصد معرفت اللہ ہے۔ جب صوفیاء ہندوستان آئے اس وقت یہاں کرم کانڈ کا رواج تھا اوراس کے ذریعہ لوگوں کو مذہبی تعلیم دی جا رہی تھی۔صوفیاء نے اپنی باتوں کو عوام تک پہنچانے کے لئے شاعری کا سہارا لیا۔اپنی شاعری کے لئے انھوں نے مقامی بھاشا کا استعمال کیاتاکہ عوام تک اپنی بات بہ آسانی پہنچائی جا سکے اور جسے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ہندوستان میں یہ سلسلہ دسویں صدی عیسوی سے لے کر آج تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے۔ویسے توہندوستان میں صوفیائے کرام کئی سلسلوں سے وابستہ رہے لیکن ان میں چار سلسلوں کو خاص طور سے اہمیت حاصل ہے۔ وہ ہیں چشتیہ ، سہروردیہ، قادریہ اور نقشبندیہ سلسلہ۔اصغرؔ گونڈوی کا تعلق چشتیہ سلسلے سے ہے جس کا خاص اصولِ فلسفہ ــ’’ وحدت الوجود‘‘ ہے۔اس لئے اصغرؔ گونڈوی کے یہاں فطری طور پر مسئلہ وحدت الوجود کے اشعار کثرت سے ملتے ہیں۔مثلاً یہ اشعار  ؎

جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے

پردے پہ مصوّر ہی تنہا نظر آتا ہے

لو شمع حقیقت کی اپنی ہی جگہ پر ہے

فانوس کی گردش سے کیا کیا نظر آتا ہے

                اُردومیں شاعری کے آغاز سے ہی تصوف کی جھلک واضح طور پر نظر آنے لگتی ہیں۔اُردو کی بیشتر اصنافِ سخن مثلاً غزل، قصیدہ، مثنوی اور رُباعی وغیرہ فارسی کے اثر سے اُردو میں آئی ہیں۔لہٰذا اُردو شاعری میں ان تمام موضوعات کی بازگشت سنائی دیتی ہیں جو فارسی شاعری کے لئے مخصوص ہیں۔اس دور میں جن مشہور صوفیائے کرام نے اردو شاعری کی غیر شعوری طور پر آبیاری کی یا جن کے شعری نمونے اردو شاعری کی ابتدائی ترویج و ترقی میں بے حد اہمیت رکھتے ہیں ان میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ، فریدالدین گنج شکرؒ ، امیر خسرو، شیخ شرف الدین یحیٰ منیریؒ ، بندہ نواز گیسودراز، شیخ بہاؤالدین باجن، عبدالقدوس گنگوہیؒ، شمس العشاق شاہ میراں جی، شاہ برہان الدین جانم، شاہ امین الدین عالی اور سیّد میراں حسینی وغیرہ کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

                اصغرؔ گونڈوی (اصغر حسین) کا سلسلۂ تصوف چشت سے تعلق رکھتا ہے۔ چشت خراسان کے ایک شہر کا نام ہے جو عہدِ قدیم میں روحانیت کا زبردست مرکز رہا ہے۔اس سلسلے کے پہلے بزرگ حضرت خواجہ ابو اسحاق شامیؒ تھے۔شہر چشت میں حضرت خواجہ اسحاق نے جو دینی تبلیغ کی اس وجہ سے اس مسلک کا نام سلسلۂ چشت پڑ گیا۔سلسلۂ چشتیہ در اصل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے شروع ہو کر حضرت شیخ نصیرالدین محمد چراغ دہلوی تک مانا جاتا ہے۔لیکن اس کے بعد بھی ہندوستان کے مختلف صوبوں میں چشتیہ مسلک قائم رہا۔اصغرؔ ، قاضی سیّد محمد اسماعیل منگوری کے فرزند حضرت قاضی عبدالغنی منگوری کے مرید تھے جو ایک مشہور صوفی منش گزرے ہیں۔ شاہ عبدالغنی کی صحبت نے ان کو ایسا صوفیانہ رنگ میں رنگ دیا کہ ان کے کلام میں تصوف کا رنگ ابھر آیا۔ تصوف اصغرؔ کے کلام کی جان ہے۔ وہ تصوف کے نہاں خانوں میں بیٹھ کر بات کی گہرائی و گیرائی تک پہنچتے ہیں اور اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔اصغرؔ رسمی نہیں بلکہ باقاعدہ صوفی تھے۔وہ تصوف میں معرفتِ حالی سے بہرور تھے۔ انھوں نے تصوف کی راہیں بذاتِ خود طے کیں۔ اپنے تقدس، خلوص، عبادت اور صفائیِ قلب کی بنا پر انھوں نے وادئی تصوف میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کر لیا۔

                اصغرؔ فارسی شعراء سے بہت زیادو متاثر تھے۔ ان کے کلام میں شعرائے فارسی کے کلام کی جھلک با آسانی تلاش کی جا سکتی ہے۔ فارسی شعراء میں خاص طور سے وہ عمر خیّامؔ ، رومیؔ اور حا فظؔ سے زیادہ متاثر ہیں۔ ان کے کلام میں عمر خیام ؔکا فلسفہ لا ادریت بھی موجود ہے۔ مثلاً رُباعی کے اس بند میں عمر خیامؔ نے کہا ہے کہ اسرارِ فلک کا جاننا بہت مشکل ہے ؎

کس مشکلِ اسرارِ فلک را نکشاد

کس یک قدم از نہاد بیروں نہ نہاد

چوں بنگرم از مبتدی تا استاد

عجز است بدست ہر کہ از ما در زاد

                عمر خیامؔکی یہ رُباعی فلسفۂ لا ادریت پر مکمل طور سے روشنی ڈالتی ہے۔اس قسم کا فلسفۂ لاادریت اصغرؔ کے یہاں بھی ملتا ہے۔ مثلاً ان کا یہ شعر ـ  ؎

تمام دفترِ حکمت الٹ گیا ہوں میں

مگر کھلا نہ ابھی تک کہاں ہوں کیا ہوں میں

                اصغرؔ نے اپنی غزلوں میں جہاں فطرت اور شراب کے مضامین کو موضوعِ بحث بنایا ہے وہاں مولانا رومؔ کا اثر بہت نمایاں ہے۔ مثلاً مولانا روم ؔ کے دیوان میں بہت سے صوفیانہ خیالات کا اظہار شراب کے ذریعہ کیا گیا ہے۔مثال کے طورپران کا یہ شعر  ؎

من خُمش کردم و لیکن از پَیِ دفعِ خمار

ساقیا سر مست گرداں نرگسِ خمّارہ را

 اس قسم کے شراب معرفت کے اشعار اصغرؔ نے بھی کہے ہیں۔  ؎

ساقیا جام بکف پھر ہو ذرا گرم نوا

حسن یوسف، دم عیسیٰ ید بیضا دیکھیں

غرق ہیں سب علم و حکمت دین و ایماں دیکھئے

کس طرح اٹھا ہے اک ساغر سے طوفاں دیکھئے

                مولانا رومؔ نے اپنے متصوفانہ خیال کی عکاسی کے لئے فطرت سے مدد لی ہے۔ انھوں نے جا بجا فطرت کے مختلف عناصر کو اپنے اشعار میں جگہ دی ہے۔ اصغرؔ نے بھی اپنی غزلوں میں اس طرح کا مضمون باندھا ہے۔ اشعار دیکھئے  ؎

موسمِ گل کیا ہے اک جوشِ شبابِ کائنات

پھوٹ نکلا شاخِ گل سے حسنِ عریاں دیکھئے

لالہ و گل تم نہیں ہو، ماہ و انجم تم نہیں

رنگ محفل بن کے لیکن کون اس محفل میں ہے

اسی طرح عشق حقیقی، محبوبِ فطرت ، فنا و بقا الغرض مولانا رومؔ کی غزلیات میں جو صوفیانہ مضامین ملتے ہیں، اس قسم کے مضامین اصغرؔ کی غزلوں میں بھی منوّر ہیں۔

                حافظؔ اور اصغرؔ کی متصوفانہ شاعری میں ایک چیز جو بالکل مشترک ہے وہ ہے ان کا طربیہ انداز۔ جس طرح حافظؔکی غزل طربیہ ہے اسی طرح اصغرؔ کی غزل بھی طربیہ ہے۔حافظؔ کے یہاں غم و اندوہ کی بدلیاں بہت کم نظر آتی ہیں، ونہیں اصغرؔ کے گلشن میں بھی رنج و غم کی ظلمت بہت کم دکھائی دیتی ہے۔دونوں کے یہاں خوشی و شادمانی کی لہریں رقصاں ہیں۔اس طرح مخصوص لب و لہجہ، خاص طرزِ بیان اورمنفردرنگ و آہنگ کے لحاظ سے حافظؔ اور اصغرؔ کی غزلوں میں بہت حد تک مماثلت دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً ؎

اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقان ریزد

من و ساقی بہم سازیم و بنیادش بر اندازیم

                حافظؔ

شعر میں رنگینیٔ جوشِ تخیّل چاہئے

مجھ کو اصغر کم ہے عادت نالہ و فریاد کا

                اصغرؔ

                اصغرؔ نے اپنے تصوف کے اظہار کے لیے بادہ و ساغر کا سہارا لیا ہے۔ ہمیں یہی رجحان حافظ ؔ کے یہاں بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار  ؎

ما در پیالہ عکس رخِ یار دیدہ ایم

اے بے خبر ز لذّتِ شربِ مُدامِ ما

                حافظؔ

مجھ پہ نگاہ ڈال دی اس نے ذرا سرور میں

صاف ڈبو دیا مجھے موجِ مے و ظہور میں

ساقی تیری نگاہ کو پہچانتا ہوں میں

مجھ سے فریب ساغر و مینا نہ چاہئے

                اصغرؔ

                حافظؔ کی شاعری میں مناظرِ قدرت، حرکت و عمل، محبوب کے حسن اور صحرانوردی غرض کہ جس قسم کے صوفیانہ رموز و نکات موجودہیں، اصغرؔ کے کلام میں بھی اس کا عکس نمایاں ہے۔اصغرؔ کے کلام پر مولانا رومؔ اور حافظ ؔ کے اثر کو جلیل قدوانی کے اس بیان سے بھی تقویت ملتی ہے ۔

’’ وہ مولانا رومؔ اورحافظؔ سے بہت متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں رنگینی اور سرمستی کے ساتھ ساتھ غیر ایرانی تصوف یعنی خودی اور خودداری نیز حرکت و عمل کی بہترین عکاسی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری قال نہیںحال ہے۔ انھوں نے درد کی طرح تصوف کے مسائل نہیں بیان کئے بلکہ وارداتِ قلب کے جیتے جاگتے عشقیہ مرقعے پیش کئے ہیں۔‘‘

                جہاں تک اردو شاعری اور خاص کر اردو غزل میں اصغرؔ کی انفرادیت و اہمیت کا سوال ہے تو ان کا تعلق اس عہد سے ہے جسے اردو غزل کا روشن و جدید دور کہا جاتا ہے۔ جدید غزل کے معماروں میں حسرت ؔ، فانیؔ اور جگرؔ کے ساتھ اصغرؔ کا نام بھی خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔اصغرؔ نے تصوف اور فلسفۂ جمال کے ذریعے اردو غزل کو ایک نئے آہنگ سے روشناس کرایا۔ شاعری میں اصغرؔ کا لہجہ بہت نرم و نازک ہے۔ ان کی شاعری کیفیت و احساسات کا سر چشمہ ہے، خیالات میں جو حسن ہے وہ ہمیں لطف اندوز کرتا ہے۔ ان کے یہاں تصوف کے مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں، ان کا اندازِ بیان شاعرانہ و متصوفانہ ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہئے کہ اصغرؔ نے فارسی شعراء کی تقلید تو کی لیکن یہ کورانہ تقلید نہیں تھی بلکہ ان کی ندرت پسند طبیعت نے تصوف کے لیے اپنی راہ  خود تلاش کی ہے۔

  *****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.