مرحوم کی یاد میں‘ او ر ’مرزا کی یاد میں ‘ ایک فنی مطالعہ
تحریر:
ڈاکٹر شوکت احمد ملک، سویبگ بڈگام جموں و کشمیر
9149460488
shadabshowkat786@gmail.com
کاروانِ طنزو مزاح میں پطرس بخاری اوائل دورکے سپہ سالار تھے جب کہ مجتبیٰ حسین عہد حاضر کے مردِ میدان ہیں۔پطرس بخاری نے کم لکھا ہے لیکن اپنے نوک قلم سے ایسے موتی بکھیر دئیے ہیں جن کی چمک سے ظرافت کا میدان جگمگا اٹھا۔ان کے مضامین کے متعلق احمد جمال پاشا لکھتے ہیں:
’’پطرس نے بہت کم لکھا ہے لیکن جو کچھ لکھا وہ ظرافت کے بڑے بڑے کارناموں پر بھاری ہے۔اتنا مختصر رختِ سفر لے کر بقائے دوام کی منزل تک پہنچنا بڑی ہمت کی بات ہے۔‘‘
(مجتبیٰ حسین :فکرو فن،ص۶۶)
مجتبیٰ حسین ایک ایسے قلم کارتھے جنھوں نے طنزیہ و مزاحیہ ادب میں عہد حاضر میں اپنے نام کو فہرست اول میں شامل کیا ہے۔ان کے اسلوب ،شگفتہ بیانی اور زبان و بیان کے برتنے کے انداز کے متعلق جدیدیت کے علمبردار شمس الرحمن فاروقی یوں رقمطراز ہیں:
’’ہنسی پیدا کرنے والے توہما شما سب نکال لیتے ہیں لیکن زبان کو اس طرح برتنا کہ تضاد ،تناسب ،توازن کے ذریعہ ہنسی والی بات بن جائے ہر ایک کا کام نہیں۔مجتبیٰ حسین ان تینوں طریقوں کو بہت خوبی سے برتتے ہیں۔‘‘
(شگوفا،مجتبیٰ حسین نمبر،نومبر۱۹۸۷ء،ص۴۲)
’’مرحوم کی یاد میں ‘‘ پطرس بخاری کا لکھا ہوا مقبول مضمون ہے جب کہ ’’ مرزا کی یاد میں ‘‘ مجتبیٰ حسین کا لکھا ہوا دلکش و مشہور مضمون ہے۔اس مضمون میں ان دونوں مضامین پر نظر دوڑائی جائے گی اور ان مضامین کی خصوصیات پر حتی الامکان بات کی جائے گی۔
پطرس بخاری کے مضامین میں خالص اور بھرپور مزاح سے کام لیاگیا ہے جب کہ طنز کی طرف ان کا جھکائو بہت ہی کم تھا۔ان کامزاح بالکل صاف و شستہ ہے۔وہ جس قصہ یا واقعہ کو پیش کرتے ہیں اس کی منظر کشی اس انداز سے کرتے ہیں کہ پورا نقشہ قاری کے سامنے جلوہ گر ہوجاتاہے۔’مرحوم کی یاد میں‘ اسی قبیلے کا مضمون ہے جس میں مرزا کے سائیکل کا قصہ بڑے ہی مزاحیہ لہجے میں بیان کیا گیا ہے اورقاری پڑھتے پڑھتے محسوس کرتا ہے کہ وہ خود اس سائیکل پر سوار ہوکر سیر کو نکلا ہے۔مضمون کا یہ اقتباس آپ کی نظر ہے:
’’آخر کا ر بائیسکل پر سوار ہوا ، پہلا ہی پائوں چلایا تو معلوم ہوا کہ جیسے کوئی مردہ ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہو۔۔۔۔گھر سے نکلتے ہی کچھ تھوڑی سی اترائی تھی ، اس پر بائیسکل خود بخود چلنے لگی ،لیکن اس رفتار سے کہ جیسے کہ تارکول زمین پر بہتا ہے اور ساتھ ہی مختلف حصوں سے طرح طرح کی آوازیں برآمد ہونا شروع ہوئیں ۔ان آوازوں کے مختلف گروہ تھے۔چیں چاں، چوں کی قسم کی آوازیں زیادہ تر گدی کے نیچے اور پیچھے پہیوں سے نکلتی تھی۔۔۔۔کھٹ ،کھڑ ،کھرڑ کھرڑ کے قبیلے کی آوازیں مڈگارڈوں سے آتی تھیں۔چر،چرخ قسم کے سر زنجیر اور پیڈل سے نکلتے تھے، زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی ۔جب کبھی میں پیڈل پرزور ڈالتا تھا زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوجاتی تھی جس سے وہ تن جاتی تھی اور چڑ چڑا کر بولنے لگتی تھی اورپھر ڈھیلی ہوجاتی تھی۔پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا تھا، یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا ، اور اس کے علاوہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کو بھی حرکت کرتا تھا۔چنانچہ سڑک پر جو بھی نشان بن جاتا تھااس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کر نکل گیا ہے۔
(پطرس کے مضامین،ص۸۷،۸۶)
پطرس نے اپنے مضامین میں عام فہم زبان استعمال کی ہے۔ان کی تحریروں نے مزاح نگاری میں نئی روح پھونک دی ہے ۔انھوں نے زیادہ تر بیانیہ اسلوب اور واقعہ نگاری کے ذریعے مزاح تخلیق کیا ہے۔ان کے مزاح میں آورد کے بجائے آمد ہی آمد ہے۔وہ کوشش کرکے مزاح پیدا نہیں کرتے بلکہ ان کی تحریر سے مزاح خود بخود ابھر کر سامنے آتا ہے۔’مرحوم کی یا د میں‘ میں بھی یہ خوبی قابل دید ہے:
’’اگلے پہیّے کے ٹائر میں ایک بڑا سا پیوند لگا تھا، جس کی وجہ سے پہیّہ ہر چکر میں ایک دفعہ اوپر کو اٹھ جاتا تھا۔اور میرا سر یوں جھٹکے کھارہا تھا جیسے کوئی متواتر ٹھوڑی کے نیچے مکّے مار ے جارہا ہو۔پچھلے اور اگلے پہیّے کو ملاکر چوں چوں پھٹ پھٹ چوں چوں کی صدا نکل رہی تھی۔جب اتار پر سائیکل ذرا تیز ہوئی تو فضا میں ایک بھونچال سا آگیا اور بائیسکل کے کئی پرزے جو اب تک سورہے تھے بیدار ہوکر گویا ہوئے ۔ادھر ادھر کے لوگ چونکے ، مائوں نے اپنے بچوں کو سنیوں سے لگالیا ۔کھرڑ کھرڑ کے بیچ میں پہیوں کی آواز جدا سنائی دے رہی تھی۔لیکن چونکہ بائیسکل اب پہلے سے زیادہ تیز تھی اس لیے چوں چوں پھٹ پھٹ چوں چوں پھٹ پھٹ کی آواز نے اب چچوں پھٹ چچوں پھٹ کی صورت اختیار کرلی۔تما م بائیسکل کسی ادق افریقی کی زبان کی گردانیں دہرارہی تھی۔
(پطرس کے مضامین،ص۸۸۔۸۷)
پطرس کے اکثر مضامین کے عنوانات عام طور سے ناقابل تو جہ لگتے ہیں لیکن ان کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ غیر اہم موضوعات بھی قابل توجہ اور اہمیت کے حامل ہیں۔’مرحوم کی یاد میں‘ میں انھوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔انھوں نے جس طرح مزاح سے کام لیا ہے ان سے پہلے شاید ہی کسی نے اس طریقے سے مزاح کو برتا ہے۔ ان کی ہر تحریر کو پڑھ کر سنجیدہ قسم کی طبیعت کا انسان بھی قہقہہ مارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔مذکورہ مضمون میں بھی اس طرح کے کئی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:
’’دس قدم بھی نہ چلنے پایا تھا کہ ہینڈل یک لخت نیچا ہوگیا ، اتنا کہ گدّی اب ہینڈل سے فٹ بھر اونچی تھی، میرا تمام جسم آگے کو جھکا ہوا تھا، تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے ہوئے برابر جھٹکے کھارہے تھے۔ آپ میری حالت کو تصوّر کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں دور سے ایسا معلوم ہورہا تھاجیسے کوئی عورت آٹا گوندھ رہی ہو۔‘‘
(پطرس کے مضامین،ص۸۸)
عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ جب انسانوں اور حیوانوں میں فرق کی بات کی جاتی ہے تو سبھی ایک ہی زبان بولتے ہیں کہ انسان کواس کی عقل کی وجہ سے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے جب کہ حیوان اس عقل سے عاری ہیں۔’مرحوم کی یاد میں‘میں مصنف اپنے دوست مرزا سے یہی سوال پوچھتا ہے کہ ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے۔اس سوال کے جواب میں اس کے بجائے مصنّف خود ایک دلچسپ اور اچھوتے انداز میں جواب دیتے ہیں۔اس اقتباس کو پڑھ کر خود بھی محظوظ ہوجائیے:
’’میں نے کہاکوئی فرق نہیں۔۔۔۔سنتے ہو مرزا کوئی فرق نہیں ،ہم میں اور حیوانوںمیں، کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں فرق نہیں۔۔۔۔ہاں ہاں ، میں جانتا ہوں کہ تم میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو، کہہ دو گے حیوان جگالی کرتے ہیں تم نہیں کرتے ، ان کے دم ہوتی ہے تمہارے نہیں ہوتی۔۔۔لیکن ان باتوں سے کیا ہوتا ہے؟ ان سے تو صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں۔لیکن ایک بات میںمیں اور وہ بالکل برابر ہیں، وہ بھی پیدل چلتے ہیں میں بھی پیدل چلتا ہوں۔‘‘
(پطرس کے مضامین،ص۷۷)
پطرس بخاری کے مضامین مزاحیہ ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان مضامین میں پطرس نے ایسے نقوش مرتب کیے ہیں جو مزاحیہ ادب میں اگر چہ ملنے محال نہیں ہیں لیکن مشکل ضرور ہیں۔ان کے مزاج میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے اپنے قلم کو حرکت دی تو مزاحیہ ادب کو ہی ملحوظِ خاطر رکھا۔
مجتبیٰ حسین کے مضامین کے کئی مجموعے اشاعت کے مراحل سے گذر چکے ہیں جن میں الغرض، بہرحال،آخرکار اور تکلّف برطرف وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان مجموعوں میں درجنوں مضامین شامل ہیں۔سارے مضامین ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔’مرزاکی یا د میں‘ ان کا ایسا مضمون ہے جو ان کے صف اول کے مضامین میں شامل ہیں۔اس مضمون میں مجتبیٰ حسین کا فن نکھر کر سامنے آیا ہے۔ان کا اسلوب بالکل سادہ ، سلیس اور رواںہے۔ان کی تحریریں دل کو موہ لینے والی ہیں۔مذکورہ مضمون میں بھی یہ خوبی اپنے حد درجہ کمال کو پہنچی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’مرزا زندگی بھر تھرو پراپر چینل کے چکر میں پھنسے رہے اور اس حدتک پھنسے رہے کہ اگراس کے گھر میں ان کا سب سے چھوٹا بچہ شرارت کرتا تو اسے تھرو پراپر چینل مارنے کے لیے وہ پہلے اپنی بیوی کو پیٹتے پھربڑے لڑکے کو اور علی الترتیب اپنی ساری اولادوں کے گالوں پر طمانچے رسید کرتے ہوئے اپنے چھوٹے بچے کے گال تک پہنچتے تھے۔‘‘
(آج کل اور طنز و مزاح ،ص۱۰۱)
’مرزا کی یاد میں ‘ میں مجتبیٰ حسین نے اپنے دوست یعنی مرزا کو اس طرح سے قاری کے سامنے پیش کیا ہے کہ مرزا ایک چلتی پھرتی تصویر معلوم ہوتی ہے۔مرزا کو سرکاری ملازم قرار دے کر بڑے ہی دلنشین انداز سے آج کے سرکاری ملازم کو ہدف طنز بنایا ہے اور شگفتگی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا ہے۔ان کے طنز کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ طنز کا وار کتنا ہی تیکھا کیوں نہ ہولیکن ان کے انداز بیان اور روانئی الفاظ کی بدولت ان کے طنز میں ایک مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔مضمون کا یہ اقتباس آپ کی نظر ہے:
’’مرزا کا شمار ان سرکاری ملازمین میں ہوتا تھا جو بہت زیادہ سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔میں تو کہتا ہوں کہ وہ پیدائشی سرکاری ملازم تھے کیوں کہ بچپن ہی سے وہ ہر کام کو پینڈنگ رکھنے میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔جب طالب علم تھے تو نہ صرف ان کا ہوم ورک پینڈنگ رہتا تھا بلکہ اسکول فیس بھی پینڈنگ رہا کرتی تھی۔سوائے شادی کے انھوں نے اپنی زندگی کا ہر کام پینڈنگ رکھا۔
(آج کل اور طنز و مزاح، ص۱۰۱۔۱۰۰)
اس اقتباس کو پڑھ کر آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح سے ایک سرکاری ملازم کی ڈیوٹی پر چوٹ کی گئی ہے لیکن مصنّف نے ایسی ہنر مندی کا ثبوت فراہم کیا ہے کہ مزاح کا لبادہ اوڑھ کر قاری کو ہنسنے پر بھی مجبور کرتا ہے اور ساتھ ہی فکر کو جنجھوڑ تا بھی ہے۔یعنی:
’’ تلوار کرجائے کام اپنا اور پتہ بھی نہ چلے‘‘
جب ہم اپنے سماج میں دفتروں کی حالت دیکھتے ہیں تو من و عن یہی نظر آجاتا ہے جس کی وجہ سے کوئی بھی کام صحیح طور انجام کو نہیں پہنچ پاتا ہے۔یہ طنز دراصل طنزیہ مزاح کی ایک عمدہ مثال ہے۔
مجتبیٰ حسین کی انفرادیت اس بات میں مضمر ہے کہ انھوں نے اپنی راہ آپ نکالی ۔وہ ہر بات کو اپنے منفرد انداز اور اسلوب میں قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔وہ قاری کو ہنسانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان کی تحریر کو پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ وہ سنجیدہ بات بھی اس لہجے میں ادا کردیتے ہیں کہ قاری خود بخود ہنسنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ان کے مضامین میں طنز اورمزاح اس طرح شیر و شکرہوجاتے ہیں کہ دونوں کو الگ الگ کرنا سہل نہیں ۔یہ خوبی مذکورہ مضمون میں بھی بدرجئہ اتم پائی جاتی ہے۔مثال ملاحظہ ہو:
’’میں نے ایک دن ان سے پوچھا’’ بھئی جب تم کوئی کام کرتے ہی نہیں ہو تو پھر رجسٹر حاضری میں دستخط کرنے کا تکلف کیوں کرتے ہو ؟‘‘
وہ بولے ’’ یار میں کام کرنے کے لیے رجسٹر حاضری میں دستخط نہیں کرتا بلکہ دستخط کرنے کو ہی سب سے بڑا کام سمجھتا ہوں۔میں تو رجسٹر میں دستخط صرف اس لیے کرتا ہوں کہ اس طرح دنیا میں میرے موجود رہنے کا کوئی ثبوت تو باقی رہے۔ورنہ تاریخ کے اتنے بڑے دھارے میں اور اتنی بڑی کائنات میں کون یہ دیکھتا ہے کہ مجھ جیساادنیٰ کلرک زندہ بھی ہے یا مر گیا۔میںتو صرف اپنے زندہ رہنے کی حاضری ڈلواتا ہوں۔یوں بھی حکومت جو تنخواہ مجھے دیتی ہے اس میں آدمی صرف دستخط ہی کرسکتا ہے۔اس سے زیادہ کچھ کرنے کا معاوضہ الگ ہوتا ہے جو حکومت مجھے نہیں دیتی۔‘‘
(آج کل اور طنزو مزاح ،ص۱۰۲)
’مرزاکی یاد میں‘ میں مصنف نے مزاحیہ فن کے انمول نمونے پیش کیے ہیں ۔ہر لفظ اور ہر جملے میں مزاح کوٹ کوٹ کر بھر اہو ا ہے۔مصنف نے مرزا کے عادات و اطوار کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی کی تفصیل اس مضمون کے بین السطور میں بکھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔کردار کو ان کے اپنے مزاج اور سیرت کے امتیاز کے ساتھ پیش کرنے میں انھیں قدرتِ کاملہ حاصل ہے۔مرزا کا کردار مجتبیٰ حسین کے تخلیق کردہ کرداروں میں نمایاں مقام کا حامل ہے۔
’مرزا کی یاد میں ‘مجتبیٰ حسین کا ایسا مضمون ہے جس میں انھوں نے بیانیہ اسلوب کو برتا ہے۔اس اسلوب میں مزاح کے ساتھ ساتھ طنز کی دھیمی لہر بھی چلتی دکھائی دیتی ہے۔ایک تلخ حقیقت کو شگفتہ لہجے میں بیان کرکے ندرت پیدا کی ہے۔یہ چند سطور آپ کی نظر ہیں:
’’ حضور والا! فدوی نے اپنے بعض خانگی امور کے لیے دو مہینوں کی رخصت حاصل کی تھی لیکن اسی اثنا میں فدوی کی صحت کافی خراب ہوگئی ہے۔ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ فدوی مکمل آرام کرے ورنہ جان کا خطرہ ہے لہذاہذا استدعا ہے کہ فدوی کی رخصت کو منسوخ فرماتے ہوئے آج ہی سے رجوع بکار ہونے کی منظوری دی جائے۔ڈاکٹر کا طبی صداقت نامہ بہ ملاحظئہ عالی پیش ہے۔‘‘
(آج کل اور طنز ومزاح،ص۱۰۴)
مجتبیٰ حسین لفظوں کے پارکھ تھے۔ظرافت ان کے مزاج میں رچی بسی تھی۔ان کے ہر جملے سے مزاح ابھر کر آتا ہے۔اس پورے مضمون میں انھوں نے مزاح کے گل بھوٹے کھلائے ہیں لیکن ان کے مزاح میں پھکڑپن اور لفظی بناوٹ کے بجائے شگفتگی و شائستگی بدرجئہ اتم موجود ہے۔
مجموعی طور پر کہاجاسکتا ہے کہ’ مرحوم کی یا د میں ‘مزاح سے بھر پور مضمون ہے جب کہ ’مرزا کی یا د میں ‘مصنف نے طنزو مزاح کے ملے جلے امتزاج سے کام لیا ہے۔سادگی ، عام فہم زبان کا استعمال اورآمد دونوں مضامین میں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ’مرحوم کی یاد میں‘ میں پطرس بخاری نے سائیکل کی حالت زار بیان کی ہے جب کہ ’ مرزا کی یا د میں ‘ میں مجتبیٰ حسین نے اپنے دوست مرزا کی روداد بیان کی ہے۔ان مضامین کو پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں مصنفین بیانیہ اسلوب اور واقعاتی مزاح پیدا کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔
****
Leave a Reply
Be the First to Comment!