فیض احمد فیض کی شاعری: ایک مختصر جائزہ
محمد ناظم ہاشمی، میر شکار ٹولہ، بیگو سرائے ، بہار۔موبائل: 9534870746
اس روئے زمین پر کچھ ایسی جگہیں ہیں جہاں کی مٹی نے ایک سے بڑھ کر ایک لعل و گوہر پیدا کئے۔ سیالکوٹ بھی انہیں میں سے ایک ہے جہاں سے ایک سے ایک بڑی ہستیاں جن میں ادباء ، شعراء اور ماہرین فن پیداہوئے۔ فیض احمد فیضؔ کی جائے پیدائش یہیں ہے ان کی ولادت 13فروری 1911ء میں اسی سرزمین پر ہوئی۔ والد کا نام سلطان احمد خان تھا جو شہر کے رئیسوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ گھر کا ماحول نہایت ہی ادبی و علمی تھا۔ جس سے فیض ؔ کو ابتدائی تعلیم حاصل کرنے میں کہیں کسی طرح کی دشواری نہیں ہوئی۔ والد محترم کی طرف سے تعلیم حاصل کرنے لئے پوری طرح اجازت تھی۔ جس سے فیض کے اندر علم حاصل کرنے کی چاہت شب و روز بڑھتی چلی گئی۔
فیضؔ نے عربی اور انگلش میں ایم ۔ اے کیا۔ کچھ دنوں تک برطانوی فوج میں ملازمت بھی کی۔ پروفیسر کے عہدے پر 1930ء میں ایم۔ اے ۔ او کالج امرتسر میں فائز رہے۔ 19نومبر 1984ء کو فیض ؔ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ فیض احمد فیضؔ جب تک زندہ رہے لکھتے پڑھتے رہے۔ اپنی شاعری کو یہ عوام کی بہتر رہنمائی کا ذریعہ سمجھتے تھے اس لئے اس فن کی باریکیوں کو بہت پہلے سے ہی محسوس کرکے اسے انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے بہتر ذرائع تسلیم کر لئے تھے جس کے سبب ان کے تخلیقی کارنامے ان کی الگ پہچان قائم کردیتی ہیں اور اردو زبان و ادب کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ فیضؔ نے ہر طرح کی شاعری کی لیکن ان کی پہچان ترقی پسند شاعر کے حوالے سے زیادہ ہے اس تحریک سے وابسطہ ہونے کے بعد ان کے کلام میں انقلاب جوش اور بلند خیال کو دیکھا جاسکتا ہے۔ فیضؔ نے زندگی کے ہر رنگ کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ سماج کی بدحالی ، نا انصافی، ظلم ، غلامی، انگریزوں کے مظالم سرمایہ دارانہ نظام کی غلط پالیسی ، کسانوں مزدوروں کا استحصال وغیرہ سب کچھ نے ان کے ذہن کو حد درجہ متاثر کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کے کلام کی بنیادی موضوعات میں ان تمام برائیوں کو بخوبی ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ابتدائی کلام کے مطالعے سے ان کے یہاں روایتی شاعری کی بہت حد تک خصوصیات و موضوعات کو دیکھتے ہیں جن میں خاص طور سے عشق مجازی کی بات کی جاتی ہے یعنی وہی محبت کے ترانے، عشق کے فسانے ہجر کی باتیں وصال کی لذتیں وغیرہ حتیٰ کہ محبوب کی ادائوں سے لے کر ان کی جفائوں تک کا بھی ذکر بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ دلکش انداز، نرم نازک الفاظ اور نغمگی سے بھری ہوئی یہ غزل فیض کی جمالیات اور حسن کی ادائوں اور اظہار خیال کا ندرت بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔ ملاحظہ کریں ؎
گلوں میں رنگ بھرے بادہ نو بہار چلے
چلے بھی ا ٓئو کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
مقام ، فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
یا پھر اس غزل کا انداز اور حسن دیکھیں ؎
کئی بار اس کا دامن بھر دیا حسنِ دو عالم سے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی
کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چھیڑا
مگر یہ چشم حیراں جس کی حیرانی نہیں جاتی
فیضؔ کی غزلوں میں تہہ داری ، کلاسیکی رنگ اور دلفریبی کے ساتھ پیکر تراشی ہے جو قاری کو دیرپا اپنی گرفت میں لئے رہتا ہے۔ عام لب و لہجے میں قارئین کے دلوں پر دستک دینا ، فکر میں ولولہ و حیرت میں ڈال دینا فیضؔ کا کارنامہ ہے جس کے سبب ان کے کلام کی مقبولیت اور شاعرانہ عظمت دوبالا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ تہذیب و تمدن کے بہترین عکاسی بھی ان کے کلام کو عظمت و وقار عطا کرتے ہیں ۔ شیرینی و لطافت کی اگر بات کریں تو یہاں بھی فیضؔ کے مقابل اس دور میں کوئی دوسرا شاعر نہیں دکھائی پڑتا ہے۔ فیضؔ کی شاعری کے متعلق اور اس میں تہذیب و جمالیات کے مد نظر شکیل الرحمن کا قول ملاحظہ کریں :
’’ فیض احمد فیض بر صغیر کی تہذیب کی جمالیات سے رشتہ رکھتے ہیں جس کی جڑیں اس زمین کی گہرائیوں میں پیوست اور دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ فیض کی شخصیت کا ارتقا اسی تہذیب میں ہوا ہے۔ ان کی شاعری اسی تہذیب کی جمالیات کے مختلف پہلوئوں کو پیش کرتی ہے۔ ان پہلوئوں اور جہتوں کو ’’ہیومنزم‘‘ کے جمالیاتی مظاہر سے تعبیر کرنا مناسب ہوگا ‘‘۔
(مرتب شاہد ماہلی: فیض احمد فیض، عکس اور جہتیں 1987، ص 141)
فیض احمد فیضؔ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے روایتی انداز و فکر کے سنہرے دام میں زیادہ دنوں تک مقید نہیں رہے۔ بلکہ فوراً ہی یہ انسانی واردات و کیفیات کی عکاسی میں دلچسپی لینے لگے ۔ چونکہ ترقی پسند تحریک اور اس کے زیر اثر ہونے والی تبدیلیاں اردو ادب کے لئے نئی کروٹ بدلنے کے مترادف تھیں۔ ایسے میں فنی و فکری نقطہ نظر سے ہر طرف سے تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ فیضؔ بھی اس تحریک کے صف اوّل کے شاعروں میں شمار ہوتے تھے۔ لہٰذا آپ نے بھی صنف شاعری کو عوام کی رہنمائی اور رہبری کے لئے ضرور سمجھا۔ ادب برائے زندگی کا جو نظریہ (Concept) تھا وہ عام ہو چکا تھا۔ بہت سارے شاعروں کو فکری اور تخلیقی اعتبار سے دشواریاں بھی ہوئیں لیکن فیضؔ چونکہ ابتدا سے ہی سماج اور فرد کے درمیان شدت سے وابستہ رہے اسی تہذیب و تمدن میں ان کی پرورش ہوئی اور اسی معاشرے میں انہوں نے اپنے فن کی بنیاد رکھی۔ ظاہر ہے یہ سماج کو بہت قریب سے جانتے تھے۔ اس لئے شدت احساس ان کے یہاں بڑے وسیع پیمانے پر ملتا ہے ۔ جب یہ کہتے ہیںتو گمان ہوتا ہے کوئی مظلوم اپنی کہانی سنا رہا ہو۔ حوصلے اور ہمت و امید کی ایک ایسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں جو پل بھر کے لئے سارے غموں سے نجات دلاکر زندگی میں ہلچل پیدا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ملاحظہ کریں ؎
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول زبان اب تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کے جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہنگ کی دکاں میں
تند ہیں شعلے ، سرح ہے آہن
کھلنے لگے فصلوں کے دہانے
پھیلا ہر ایک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زبان کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہو کہہ لے
رومان سے حقیقت کی طرف سے سفرنے فیضؔ کو ایک انقلابی شاعر بنادیا۔ اور اس کے لئے انہوں نے اردو نظم کو بہتر ذریعہ سمجھا۔ زمانے کے دکھ درد کو نظم کے پیرائے میں بیان کرنے کا جو انہوں نے تجربہ کیا ہے وہ پوری طرح کامیاب ہے۔ زورِ بیان، انوکھا انداز اور آہستہ آہستہ جگانے کا جو ملا جلا شاعرانہ نظام آپ نے تیار کیا وہ قابل تعریف ہے۔ اس کے علاوہ اپنے محبوب سے مخاطب ہونے کا انداز اور ماحول سے آگاہ کرنے کی کوشش نے انہیں ایک عظیم نظم نگار کی حیثیت سے مشہور کردیا۔ جب یہ کہتے ہیں ؎
مجھ سے پہلی سے محبت مرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تودرخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غم دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
تو جو مل جائے تو تقدیر نگوں ہوجائے
یہ مقبول ترین نظم نقشِ فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم ہے اور اس لحاظ سے خاص ہے کہ نقش فریادی ایک ایسی کتاب تسلیم کی گئی ہے جس نے فیض احمد فیضؔ کی ادبی شناخت کو ایک غیر معمولی پختگی عطا کی۔ ان کی شاعری میں خاص طور سے نظموں میں جو فکر و احتجاج کا سنگم نظر آتا ہے اس کا آغاز اسی نظم سے ہوا ۔
غرض کہ فیض احمد فیضؔ کی شاعری ترقی پسند تحریک کا وہ عہد نامہ ہے جس کی فکری و فنی رعنائیوں سے انحراف ممکن نہیں۔ ’’نقش فریادی‘‘ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ہے جہاں رومان کی آنچ تیز ہے ۔ اس کے بعد فیضؔ کا سیاسی اور انقلابی شعور پختہ ہوجاتا ہے۔ فیضؔ نے نظم اور غزل دونوں اصناف میں فکر کی سطح پر اردو کو نئے آداب سے روشناس کرایا۔بقول ڈاکٹر محمد حسن :
’’فیض کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ان کی داخلیت وسیع اور خودگاہ (Self englinghtened) ہے اور انہوں نے غزل میں تشبیہ اور استعارہ کے استعمال میں جدت سے کام لیا ہے‘‘۔
فیضؔ کی شاعری کو ہم دو ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا دور وہ جس میں انہوں نے رومانی نظمیں اور عشقیہ اشعار خوب کہے ہیں اس دور میں فیض نے زیادہ تر تخیلی دنیا میں دن گزارے ہیں۔ عشق کی تلخ مزاجی، غموں کے شب و روز اور محبوب کی ستم ظریفی کے واقعات ملتے ہیں۔
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگے تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سوگئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزر
اجنبی خاک نے دھند دھلادیئے قدموں کے چراغ
گل کر و شمعیں بڑھادو مئے و مینا و ریاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
فیض احمد فیضؔ کی شاعری کا دوسرا دور وہ ہے جس میں یہ زندگی کا مشاہدہ و تجربہ کرتے ہیں معاشرے کے مسائل کا مطالعہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے کلام میں پیش کرتے ہیں۔ زمانے کے دکھ درد کو شدت سے محسوس کرکے عشق کے حسین خواب سے باہر نکلنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔مزدوروں کے درد کو محسوس کرکے ان سے محبت ، خلوص اور ہمدردی کی جو مثال پیش کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔ نظم ’’مرے ہمدم مرے دوست ‘‘میں انہیں حوصلہ ضرور دیتے ہیں ۔ ان کے دکھوں کا علاج بھی بتاتے ہیں مگر ساتھ ہی انہیں خود حالات سے آنکھ ملانے کی بات کرتے ہیں ؎
تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایت کہوں
یوں ہی گاتا رہوں ، گاتا رہوں تیری خاطر
پر مرے گیت، مرے دکھ کا مداوا ہی نہیں
نغمہ جراح نہیں مونس و غم خوار سہی
گیت نشتر تو نہیں ، مرہم آزار سہی
تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا، تیرے ، تیرے سوا
فیض احمد فیضؔ نے اپنے کلام سے ہر طبقے کی اصلاح کی۔ سب کے دلوں کی بات کو غزل اور نظم میںبیان کیا۔ اور ہر ممکن یہ کوشش کی کہ اپنی شاعری سے سوئے لوگوں کو جگا سکے۔ انقلاب کی دھیمی دھیمی صدائوں سے ان کے جذبات کو جھنجھوڑ سکے اور اس عمل میںیہ کامیاب ہوتے ہیں۔
فیضؔ نے نظموں کے علاوہ غزلیں بھی کہی ہیں۔ا ن کی غزلوں کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ تمام پہلو اپنی جگہ جامع اور مکمل ہیں۔ ان تمام مختلف پہلوؤں سے مجموعی طور پر ایک خاص تاثر پیدا ہوتا ہے اور دراصل یہی خاص تاثر فیضؔ کی غزلوں کا امتیازی وصف ہے اور اسی امتیازی وصف کی بنا پر ان کی غزلوں کے مخصوص آہنگ اور منفرد لب و لہجہ کی شناخت کی جا سکتی ہے۔
فیضؔ کی غزلوں کے ان مختلف پہلوؤں میں عشقیہ موضوعات سیاسی اور سماجی حالات کا شعور، سو زو گداز، شدت احساس، کلا سیکیت، رجائیت، علامتیں اور اشارے، رمزیت اور ایمائیت غزل مسلسل ، طنز یہ امکانات اور تغزل کے پہلو خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سب مختلف پہلو مل کر فیض کی غزلوں میں زندگی آمیز رنگ بھر دیتے ہیں اور اس طرح ان کی غزلیں عہد حاضر کی ترجمان بن جاتی ہیں۔
غزل کا بنیادی اور مرکزی موضوع عشق ہے۔ فیضؔ کی غزلوں میں بھی عشق ایک مرکزی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے مگر ان کا تصور عشق ان معنوں میں قدر ے مختلف ہے کہ وہ اپنے عہد کی صورت حال کے عین مطابق ہے۔ اس میں اس دور کے سیاسی اور سماجی مسائل کا احساس کا ر فرما ہے۔ زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا شعور بھی ان کے تصور عشق کا لازمی حصہ ہے ؎
اپنی تکمیل کر رہاہوں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں
دنیا نے تری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
یہ تصور عشق، غزل کے قدیم تصورِ عشق سے کافی حد تک بدلا ہوا ہے۔ پہلے شعر میں عشق کو ذات سے وابستہ کیا گیا ہے جبکہ دوسرے شعر میں دلفریبی غم روزگار کو محبوب کی ذات سے زیادہ بالاتر ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ فیضؔ کا عشق خیالی عشق نہیں ہے بلکہ اس میں انسان کے جذباتی اور جسمانی رشتوں کا بھرپور احساس انگڑائیاں لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
فیضؔ کے یہاں عشق ایک جذبۂ عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اس میں واضح طور پر ایک انقلابی آہنگ ملتا ہے۔ ان کی غزلوں میں بے شمار ایسے اشعار ملتے ہیں جن کا موضوع بظاہر عشق نظر آتا ہے لیکن ان کی بنیاد حقیقتاً کچھ اور باتوں پر ہوتی ہے ۔ ان میں ایک بھرپور انقلابی شعور کے ساتھ غلامی سے نفرت، نئے آدرش کی طرف رغبت، نئے سماج اوور نئے ماحول کا ذکر اور تبدیلی کا جذبہ پنہاں ہوتا ہے ؎
گربازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دوڑ کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی بازی مات نہیں
—
کرو کج جبیں پہ سر کیں مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن پس مرگ ہم نے بھلا دیا
—
سر فروشی کے انداز بدلے گئے دعوت قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آ گیا
لا د کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا
ان اشعار میں بدلے ہوئے تصور عشق کے ساتھ ساتھ انقلاب شعور اور جدو جہد کا تاثر نمایاں ہے۔ عشق کی بازی میں بات ہو جانے کو مات تسلیم نہ کرنا۔ پس مرگ غرور عشق کے بانکپن کا خیال رکھنا، سرفروشی کے بدلے ہوئے انداز کا احساس ان کے انقلابی طرز فکر اور جدید تصور عشق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ انقلابی طرز فکر اور یہ جدید تصویر عشق ہی تو ان سے کہلواتا ہے کہ ؎
گلوئے عشق کو دارو رسن پہنچ نہ سکے
تو لوٹ آے ترے سر بلند کیا کرتے
ہماری شاعری میں اب تک عشق و بغاوت کی معراج دار ردسن تک محدود تھی لیکن فیضؔ نے اس روایت کو بدل دیا۔ اب دارورسن کی منزل عشق کی آخری منزل نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بھی کئی سخت جاں کے مقامات ہیں جہاں سے سرخ رو ہو کر نکلنا پڑتا ہے۔
فیضؔ کی غزلوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں سیاسی اور سماجی حالات کی ترجمانی کا واضح شعور نظرآتا ہے۔ حقیقت ہے کہ انہوں نے ایک ترقی پسند غزل گو شاعر کی حیثیت سے اپنے منصب کو بڑی اچھی طرح پہچانا ہے۔ انہوں نے غزل کے عشقیہ اشعار میں سیاسی اور سماجی حالت کی ترجمانی بڑی خوبصورتی کے ساتھ کی ہے۔
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرم سخن سے پہلے
—
نہ سوالِ وصل نہ عرض غم نہ حکایتیں نہ شکا یتیں
ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ اشعار اپنے اندر ایک خاص سیاسی مفہوم رکھتے ہیں لیکن ان کی اہمیت کو فقط سیاسی اشعار کہکر رد نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ ان میں غزل کی تمام روایات سموئی ہیں۔ ان میں تغزل کی چاشنی رقصاں ہے اور انصاف کی بات تو یہ ہے کہ سیاسی مضامین کو تغزل کے خوشنما جامے میں لپیٹ کر پیش کرنے کی روش فیضؔ ہی نے کی ہے ۔فیضؔ کی چلائی ہوئی اس روش پر آگے بڑھنے کی کوشش اس دور کے بیشتر شعراء نے کی ہے۔ فیضؔ کی غزلیں ان سب کے لئے منزل نما کی حیثیت رکھتے ہیں:۔
فیضؔ کی غزلوں عشقیہ جذبات و احساسات اور سیاسی و سماجی شعور کی ترجمانی کے علاوہ سوز و گداز کی ایک ہلکی اور مدھم سی لے بھی نظرآتی ہے۔ فیضؔ کی غزلوں کو جب ہم اس زاویے سے دیکھتے ہیں تو ہمیں مایوس نہیں ہوتی۔ ان کی غزلوں میں ہمیں درد بھری اور آنسو ؤں میں ڈوبی ہوئی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں:۔
’’غزل کا یہ سوز و گداز اگرچہ بذات خود ایک طرح کی عمومیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ لیکن فیضؔ کے یہاں صرف یہ عمومیت ہی نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ان کے اپنے جذبات و احساسات کی کارفرمائیوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ ان کی مقبولیت کی ایک وجہہ یہ بھی ہے کہ ان کی لے میں ذاتی درد و غم اور رنج والم کی کسک پائی جاتی ہے۔‘‘
چند اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
ترے غم کو جاناں کی تلاش کرتے ہیں غم گسار چلے گئے
تری راہ میں کرتے تھے سر طلب سرِ رہگذر چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شب انتظار چلی گئی
مرے عرض حال سے روٹھ کر مرے غمگسار چلے گئے
—
نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ گنوادیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تن داغ داغ لٹا دیا
اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
فیضؔ کی غزلوں میں شدت احساس کی آنچ بھی ہے۔ یہ شدت احساس ہی داخلیت کو جنم دیتی ہے۔ اپنے آپ میں ڈوب کر بات کہنے کی وجہہ سے ایک خاص قسم کی کیفیت پیدا ہو جاتی ے۔ درون بینی کی یہ کیفیت ہی اصل میں معیاری غزل کی نمایاں خصوصیت ہے۔ فیضؔ کی غزلوں میں شدت احساس اور حد درجہ داخلیت کی وجہہ سے درون بینی کا وصف نمایاں ہے ؎
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کس بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
—
ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن
یادوں سے معطرآتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے
—
جب تجھے یاد کر لیا ، صبح مہک مہک اُٹھی
جب تراغم جگا لیا ، رات مچل گئی
جہاں فیضؔکی غزلوں میں رمزیہ انداز کے پائے جانے کے سلسلے میں آل احمد سرور کی یہ رائے اہمیت کی حامل ہے کہ ’’فیضؔ کی شاعری Directاور Obligue زیادہ ہے۔ وہ صراحت کے نہیں رمز کے شاعر ہیں:۔
فیضؔ کی شاعری کا یہ رمزیہ پہلوان کی عشقیہ شاعری اور سیاسی شاعری کی جان ہے ؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
—
رت بدلنے لگی رنگ دل دیکھنا
رنگ گلشن سے اب کھلتا نہیں
—
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گل کھلا
اشک امڑے کہ ابر بہار آگیا
مختصر یہ کہ سیاسی مضامین کے بیان کے سلسلے میں انہوں نے تغزل کا جوراستہ نکالا وہ بہت زیادہ پُر کشش تھا۔ اگر فیضؔ کی سیاسی شاعری میں تغزل کی سرمستی وسحرکاری نہ ہوتی تو شاید وہ اس قدر دلکش اور مسحور کن نہ ہوتی۔ تغزل کے اس عظیم سرمائے نے اس کی غزلوں کو اردو غزل میں ایک خاص مقام دلوادیا۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!