فلمی گیتوں میں سہرا اور رخصتی کا عکس
تحریر:محمد راشد، ریسرچ اسکالرگورمنٹ کالج ٹونک، راجستھان
M.N. 9252571014, 8118810481
mohdrashid1318@gmail.com
مختلف شعری کتابوں اور تاریخِ شعر و ادب کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اردو شاعری کا پہلا نام ’’ریختہ‘‘ تھا۔ دراصل ریختہ موسیقی کی ایک اصطلاح ہے اور اردو شاعری کی اولین شکل بھی ریختہ ہے۔اردو شاعری کی ہیت اور اصناف کی تشکیل اور تعمیر میں قافیہ، ردیف اور بحر و وزن کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔صنف اور ہیت شعری اصطلاحات ہیںجن میں معنوی اور فطری وسعت شامل ہیںلیکن ہییتوں اور صنفوں کے نمونے کے لئے بعض مخصوص بحروں اور اوزان کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہے۔ جن کی بنیاد پر الگ الگ اصنافِ سخن کے نام متعین کئے گئے ہیں۔
جب اردو شاعری کی اصناف کا تذکرہ کیا جائے گا تو بات گیت تک ضرور پہنچے گی۔ کیوں کہ گیت ہی اردو شاعری کی اولین صنف ہے۔ شاعری میں گیت کی ابتداء دکن سے ہوئی۔ صنفِ گیت کا تذکرہ شیخ ابوالحسن ہجویری اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے کیا۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ گیت لکھنے کی ابتداء گیارہویں صدی میں ہوئی۔ اولیاء اللہ، صوفیوں اور درویشوں نے گیتوں کی تخلیق کی۔ ان صوفیوں اور درویشوں میں قابلِ ذکر بندہ نواز گیسو دراز، حضرت امیر خسرو، مولانا دائود، حضرت عبدالقدوس گنگوہی، شاہ علی، قاضی محمود اور شیخ باجن ایسے شعراء ہیں جنھوں نے گیتوں کے رنگ و روپ سنوارے ہیں اور اپنی رواداری، خوش اخلاقی، اصلاحِ معاشرہ، تصوف اور قلبی ریاضت و سکون کے لئے گیت کو جلابخشی اور اظہار کا ذریعہ بنایا۔
ان صوفی حضرات کے علاوہ جنوبی ہند کے شعراء کی غزلیں ہیت اور صنف کے اعتبار سے ایرانی ہیں مگر ان کا مزاج، الفاظ اور لہجہ خاص ہندوستانی ہے اور وہ گیت کی روایت کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
اردو میں فلمی گیت کی فضا ہندی ادب سے مستعار ہے اور فلموں میں گیت نگاری ہندی گیت کی روایت اور اثر سے ہی داخل ہوئی ہے۔ گیت انسان کے بے اختیار اور شدید جذبات کا اظہار ہوتے ہیں۔ یہ جذبات کی زبان ہیںاور ان میں شخصی جذبات اور کیفیات ہی جگہ پاتے ہیں۔ لیکن یہاں میرا موضوع اردو گیت نہیں بلکہ فلمی گیت ہیں جو فلمی کرداروں کے جذبات اور کیفیات کے آئینہ دار ہوتے ہیںمگر منظرنامے کو سامنے رکھ کر لکھے جاتے ہیں۔ فلمی گیتوں میں سہرا، سہاگ، بابل اور رخصتی کا عکس تلاش کرنا میرا مقصد اور منشا ہے۔
اردو شاعروں کا دامن شعری ہیتوں اور صنعتوں کے اعتبار سے بہت وسیع ہے۔ اس کا دامن گلہائے رنگا رنگ سے مہک رہا ہے۔ اس کے شعری دامن میں کہیں فارسی روایت کے زیرِ اثر اصناف جگمگا رہی ہیں تو کہیں ہندی روایت سے متعلق صنفیں گنگنا رہی ہیں اور کہیں غیر ملکی اثرات کو نمایاں کرنے والی صنفیں نظر آتی ہیں۔ لیکن ان صفحات میں انھیں اصناف کا ذکر کیا جائے گا جو زیادہ اہم ہیں اور فلمی گیتوں میںہیں۔
گیت دراصل ہندوستانی کلچر کی تصویر اورہمارا قیمتی ورثہ ہے۔ فلمی گیت منظر نامے کو دیکھ کر موسیقی کے اصولوں کے مطابق لکھے اور گائے جاتے ہیں۔ اگر ہم فلمی گیتوں کا سنجیدگی سے مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اکثر فلمی گیتوں میں اردو گیت کی ہیت، انداز اور طرز ملتا ہے۔
سہرا، سہاگ اور بابل: اردو ادب کی شعری کتابوں میں یہ کمی پائی جاتی ہے کہ مشہور اصنافِ سخن یا جدید شعری ہئیتوں کا ذکر تو ملتا ہے لیکن سہرا، سہاگ، رخصتی اور بابل وغیرہ جیسی اصنافِ شعری کا تذکرہ نہیں ملتا۔ جبکہ سینکڑوں سالوں سے یہ اصنافِ شعری استعمال کی جا رہی ہیں۔ سہرا، سہاگ اور بابل
صنفی ہئیت اور شعری اصطلاح ہیں۔ ان میں معنوی اور فکری وسعت بھی شامل ہے۔ ادبی، شعری اور ذہنی اختلاف کے باوجود یہ اصناف قابلِ قبول رہی ہیں۔ مگر شعراء نے انھیں اپنے مجموعہ ہائے کلام کی زینت نہیں بنایا۔ مخصوص حالات، مقامی رنگ اور شادی بیاہ کی تقاریب میں ہی ان کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اپنے مخصوص مزاج، رنگ اور موضوع کے اعتبار سے ان کی ہیتی اور صنفی حیثیت ضرور ہے اور ان کا دامنِ شعری بھی وسیع ہے۔ مگر ایک عوامی روایت یا لوک گیت سے زیادہ ان کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی ہے۔ اسی سبب اقسامِ شعر یا اقسامِ نظم میں ان کو شامل نہیں کیا گیا۔
سہرا، سہاگ، بابل اور رخصتی یہ اصنافِ سخن ہندی روایت سے متعلق ایک دوسرے سے مربوط اور گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقاریب اور محفلوں میںدولہا دلہن کے لئے ان کا استعمال ہوتا ہے۔صدیوں سے ہندوستانی عورتیں ڈھولک پر گاتی چلی آرہی ہیںاور اپنے اپنے جذبات اور خیالات کا خوبصورت انداز میں اظہار بھی کرتی رہی ہیں۔جہاں تک ان اصناف کی تعریف ، توصیف اور تفصیل کا تعلق ہے تو سہرا دولہا اور دلہن دونوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مگر سہاگ اور بابل صرف دلہن ہی کے لئے کہے جاتے ہیں۔
یہاں میں اپنی بات دہرانا چاہوں گا کہ اردو شعر و ادب کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس میں اْنھیں اصنافِ سخن کا تذکرہ ملتا ہے جو اصناف الرجال کہی جاتی ہیںاور جن میں شعراء کرام نے اپنے ذوق و شوق کا اظہار کیا ہے۔ ہندی روایات سے متعلق چند اچھوتی اصنافِ سخن جیسے دوہا، گیت، ماہیا وغیرہ کا ذکر کہیں کہیں خال خال مل بھی جاتا ہے مگر کئی اصنافِ سخن جیسے سہرا، سہاگ اور بابل وغیرہ کو ادبی مورخوں اور نقادوںنے خورِ اعتنا نہیں سمجھا ہے۔سہرا، سہاگ اور بابل ہندوستانی سماج میں عام طور پر مستعمل ہے اور کافی شعراء نے اس میں طبع آزمائی بھی کی ہے مگر انھیں کسی بھی دانشور یا اسکالر نے تاریخ و تحقیق کا موضوع نہیں بنایا اور نہ ہی باقاعدہ طور پر انھیں ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے تسلیم کیا۔
واضح ہو کہ عرب اور عجم میں ان کا رواج نہیں ملتا اور نہ اب ہے اس لئے عربی اور فارسی لغات میں ان اصناف کے لفظ بربنائے معنی بھی نہیں ملتے۔ البتہ نور اللغات میں لفظ ِسہرا ضرور ہے۔ اسے ہندی کا لفظ بتایا گیا ہے اور اس کے معنی ’’وہ پھولوں کی لڑیاں ہیں جو دولہا اور دلہن کے سر سے منھ پر لٹکائی جاتی ہیں‘‘تحریر کئے ہیں۔ ہندی کی تاریخی کتابوں میں درج ہے کہ ہندوئوں میں سہرا باندھنے کی رسم سورج بنسی خاندان کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ مسلمانوں نے اسی رسم کی تقلید کی ہے۔
ہندوئوں میں عوامی شاعروں کی ایک ایسی جماعت زمانئہ قدیم سے چلی آرہی ہے جسے ’’بھاٹ‘‘ کہتے ہیں۔یہ لوگ عام طور پر امراء اور رئوساء کی تعریفیں کرکے پیٹ پالتے تھے اورشادی بیاہ کا پیام ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے اور دولہا دلہن کی مداحی میں زمین و آسمان کے قلابے ملایا کرتے تھے۔ چنانچہ اسی طرز پر اس روش کو مسلمان میراثی اور نائیوں نے اپنایا اور رفتہ رفتہ مدحیہ کلمات سے گزر کر سہرا وجود میں آیا۔ سہرا کا وجود تو اردو شاعری میں پھر بھی ملتا ہے مگر سہاگ اور بابل تو دور دور تک نظر نہیں آتے۔ بس شادی کی تقریبوں میں سننے کو ضرور مل جاتے ہیں۔
اردو میں سہرا کو ردیف قرار دے کر سب سے اولیں سہرا غالباََ غالبؔ نے تحریر کیاہے۔ بہادر شاہ طفر کی بیگم نواب زینت محل کے فرزند مرزا جواں بخت کی شادی خانہ آبادی کا مسرت بخش موقع آیا تو بیگم کی فرمائش پر مرزا غالبؔ نے شاہزادے کا بہترین سہرا لکھ کر پیش کیا۔ جس کا مطلع اس طرح ہے:
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
اس سہرے میں غالبؔ نے اچھے شعر نکالے تھے مگر مقطع میں اپنی انانیت کے اظہار کو نہ روک سکے:
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرف دار نہیں دیکھیں اس سہرے سے کہدے کوئی بڑھ کر سہرا
بادشاہ کو یہ بات ناگوارگزری ۔ اشارہ پاکر استاد ذوقؔ نے سہرا لکھا اور آخر میں راست طور پر غالبؔ کے دعوائی سخن دانی پر چوٹ کی:
جن کو دعوٰی ہو سخن کا یہ سنادو اْن کو دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
اس طرح سہرا دولہا دلہن کے چہرے سے شاعری میں آیا اور غالبؔ اور ذوقؔ جیسے استاد شعراء نے گلے لگایا پھر بھی یہ وقارِ شاعری نہ بن سکا اور شعراء نے اسے اپنے کلام میں جگہ نہیں دی۔ اگر تلاش و تجسس سے کام لیا جائے تو کافی شعراء کے سہرے دستیاب ہو سکتے ہیںاور ان میں مضامین کی ندرت و فکر کی جولانی دیکھی جا سکتی ہے۔ ضیافتِ طبع کے لئے چند شعراء کے سہروں کے ایک دو اشعار بطورِ نمونہ پیش کئے جاتے ہیں۔ ملاحضہ ہوں:
دھوم مچ جائے بزمِ نوشہ میں شور اْٹھے خوب ہی کہا سہرا
ریاضؔ خیرآبادی
زلفِ مشکیں پہ ہے تیری یہ گہر کا سہرا یا سرِ شام پہ باندھا ہے سحر کا سہرا
شفیقؔ جونپوری
سہرا کو ایک ردیف قرار دینے میں ایک قباحت یہ ہے کہ مضامین میں تنوع کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ اس لئے بہت سے شعراء نے ندرتِ فکر کے اظہار کے لئے مختلف انداز سے سہرے کہے ہیں اور دولہا دلہن کو نئے نئے ڈھنگ سے اپنی عقیدتوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
دیکھئے سہرے کی جانب اور پیہم دیکھئے اشتیاقِ دید ہے ایسا کہ ہر دم دیکھئے
نہ کچھ تو بات ہے نواب سہرے میں ضرور دل جو سب کا چاہتا ہے اس کو ہر دم دیکھئے
نوابؔ دہلوی
سہرے کے ہر گلاب میں پلتی ہے روشنی سانچے ہیں رنگ و نور کے ڈھلتی ہے روشنی
ساغرؔ لکھنوی
دے کے تفسیرِ کتاب زندگی سہرے کے پھول بن گئے ہیں آج عنوانِ خوشی سہرے کے پھول
برگؔ رنگ و بو کا عالم دیدنی ہے بزم میں دے گئے ہیں ایک جامِ بے خودی سہرے کے پھول
برگؔ لکھنوی
المختصر سہرا مختلف ادوار میں شاعری کا اہم عنصر رہا ہے اور غالبؔ و ذوقؔ جیسے استادانِ سخن نے اسے اپنا کر سرخ روئی بخشی ہے۔ مگر اہلِ ذوق و نقادانِ سخن نے اس صنفِ شاعری پر کوئی خصوصی توجہ نہیں کی اور سہرا آج بھی اردو ادب کا حصہ نہیں بن سکا ہے۔
فلمی گیت نگاروں نے جہاں فلمی گیتوں کو نئے افق و نئے جہان بخشے ہیں وہاں انھوں نے سہرا، سہاگ اور بابل کو فلموں میں پیش کرکے اردو شاعری اور فلمی شاعری کو ایک نئی راہ، نئی سوچ اور ایک نئی تاریخ دی ہے۔ شکیلؔ بدایونی سے لے کر ورماؔ ملک تک فلمی گیت نگاروںکی ایک طویل فہرست ہے۔ یہ سب اردو کے باشعورفنکار ہیں۔ انھوں نے کم کم ہی گیت لکھے مگر ان کے ذہنوں میں سہاگ اور بابل گیتوں کا واضح تصور تھا۔ ان کے گیتوں میں نہ ابہام ہے اور نہ اشارے کنائے بلکہ بڑی سادگی اور صفائی سے دلی جذبات کی ترجمانی ملتی ہے۔ انھوں نے سہرا، سہاگ، رخصتی اور بابل کو ایک نیا روپ، نیا نکھار، نیا رنگ اور نئی کیفیت بخشی ہے۔ اور ان گیت نگاروں نے اس فن میں بھی رنگ، نور اور نغمگی کی تثلیث کواپنے خونِ جگر سے خوشبو عطا کی اور اس فن کو وہی آبرو بخشی ہے جو اس معصوم فن کا تقاضہ ہے۔
آرزو لکھنوی، تنویر نقوی، شکیل بدایونی، مجروح سلطانپوری، ساحر لدھیانوی، حسرت جے پوری ، کیفی اعظمی، راجندر کرشن، ورما ملک، کیف بھوپالی اور حکیم شجاع نے فلموں میں سہرے، سہاگ اور بابل لکھے ہیں۔ جو گیت نگاری کی دنیا میں ایک خوبصورت اور معیاری تجربہ ہے۔ خاص طور سے تو پرانی فلموں
میں یہ تجربے اور بھی دلکش اور کامیاب رہے ہیں۔لیکن ایک دقت یہ ہے کہ ان ہزارہا گیتوں میںسہرے، سہاگ، رخصتی اور بابل کا دستیاب ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ کیوں کہ ہمارے یہاں ایسا کوئی ادارہ بھی نہیں ہے جہاں یہ سب گیت مل جائیں۔ ہِز ماسٹر آف وائس (H.M.V.) کے پرانے رکارڈ بھی نایاب ہیںاور فلمی گیتوں کی کاپیاں بھی جو دو دو چار چار آنے میں ملتی تھیںوہ بھی اب شائع نہیں ہوتیں۔ ایسی صورت میں کسی فلم ، اس کے گیتوں کے لئے لکھنا یا کچھ کہنا سخت دشوار ہے۔پھر بھی جہاں تک ہو سکا کوشش کرکے گیت تلاش کئے ہیں وہ پیش کئے جاتے ہیں۔
دستیاب ان فلمی گیتوں کے لئے اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان گیتوں کے شعراء نے اپنا معیار قائم رکھا ہے اور تمام شاعرانہ خصوصیات سے گیتوں کو سنوارا ہے۔ ہر گیت فکر و فن، منظر نامے، زبان و بیان اور شعری خوبیوں سے مزید، دلکش اور خوبصورت ہے۔
ہرچند کے فلموں میں سہرے کم لکھے گئے ہیں مگر جتنے بھی سہرے لکھے گئے ہیںان میں شاعرانہ فضاء ہے۔ فلموں میں سب سے پہلا سہرا چار چوی نے فلم زندگی اور طوفان میں پیش کیا جس کے بول ہیں:
ہم اپنے دل کے ٹکڑوں کا سجا کر لائے ہیں سہرا
ان کے بعد ساحرؔ لدھیانوی اور کیفؔ بھوپالی نے اس فن کو آگے بڑھایا۔ ساحرؔ لدھیانوی کا یہ سہرا ایک دنیائے رنگ و نور لئے ہوئے ہے اور شاعری کے تمام حسن اور خوبصورتی سے سجا ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو:۔
رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کروں یہ مرادوں کی حسیں رات کسے پیش کروں
میں نے جذبات نبھائے ہیں اصولوں کی جگہ اپنے ارمان پرو لایا ہوں پھولوں کی جگہ
تیرے سہرے کی سوغات کسے پیش کروں
سرخ جوڑے کی تب و تاب مبارک ہو تجھے تیری آنکھوں کا نیا خواب مبارک ہو تجھے
میں یہ خواہش یہ خیالات کسے پیش کروں
کون کہتا ہے کہ چاہت پے سبھی کا حق ہے تو جسے چاہے تیرا پیار اسی کا حق ہے
مجھ سے کہدے میں تیرا ہاتھ کسے پیش کروں
فلم=غزل، موسیقی=روشن، آواز=محمد رفیع
دوسرے سہرا نگار کیفؔ بھوپالی ہیں۔ ان کا شاعرانہ انداز سب سے الگ ہے۔ فلم رضیہ سلطان کا یہ سہرا قابلِ ملاحظہ ہے۔ موسیقی خیام اور آواز بھوپندر کی ہے۔ سہرے کا ایک ایک بند بتا رہا ہے کہ میں ان سب سے الگ ہوں، سب سے نرالا ہوں۔ ملاحظہ ہو:
اے خدا شکر تیرا، شکر تیرا شکر تیرا یہ میرا یار چلا باندھ کے سر پر سہرا
ٹانک کر لائے گئے چاند ستارے اس میں اور گوندھے گئے جنت کے نظارے اس میں
چن دئیے پھول گلستان کے سارے اس میں پھول کیا دل بھی پروئے ہیں ہمارے اس میں
جانے کن ہاتھوں سے آیا ہے یہ بن کر سہرا
گل رخوں کی نظر آتی ہیں ادائیں اس میں ہیں مہکتی ہوئی زلفوں کی گھٹائیں اس میں
ہیں سبھی درد کے ماروں کی دوائیں اس میں سارے دل والوں کی شامل ہیں دعائیں اس میں
بات تو یہ ہے کہ دلبر کا ہے دلبر سہرا
سہرے کے مقابلے میں سہاگ اور بابل فلموں میں زیادہ لکھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زیادہ تر فلمیں عورت کے آس پاس گھومتی ہیں۔عورت ہی ان فلموں کا مرکزی کردار ہوتی ہے۔ اسی سبب بابل اور سہاگ فلموں میں زیادہ ملیں گے۔ فلموں میں سب سے پہلے بابل شکیلؔ بدایونی نے فلم ’’بابل‘‘ میں پیش کیا۔ یہ بابل گیت اردو صنفِ سخن مستزاد کی ہئیت میں ہے۔ اس فلم کی موسیقی نوشاد نے دی اور آواز شمشاد بیگم کی ہے۔ ملاحظہ ہو:
چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر آج جانا پڑا
سنگ سکھیوں کے جیون بتاتی تھی میں بیاہ گڑیوں کا ہنس ہنس کے رچاتی تھی میں
یاد کرکے یہ گھر ، کیا بتائوں کدھر آج جانا پڑا
یاد میکہ کی دل سے بھلائے چلی پیت ساجن کی من میں سجائے چلی
سب سے منھ موڑ کر روئے آنکھیں مگر مسکرانا پڑا
پہن الفت کا گہنا دلہن میں بنی ڈولا آیا پیا کا سکھی میں چلی
یہ تھا جھوٹا نگر اس لئے چھوڑ کر موہے جانا پڑا
کیفی اعظمی کاصنفِ مستزاد میں یہ لکھا ہوایہ سہاگ فلم انوپما کا ہے۔ موسیقی ہیمنت کمار اور آواز لتا منگیشکر کی ہے۔ یہ سہاگ کہانی اور منظرنامے کے مطابق ہے۔بڑی بات یہ کے کہ یہ سہاگ دلہن نے خود اپنے لئے گایا ہے۔ زبان اور بیان دونوں سادہ اور دلکش ہیں۔اس سہاگ کا ہر بند فلم کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوا ہے اور دلہن کے جذبات کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔روشنیوں اور پھولوں سے گھر سجا ہوا ہے بارات کے آنے کا انتظار ہے:
دھیرے دھیرے مچل اے دلِ بے قرار کوئی آتا ہے
یوں تڑپ کے نہ تڑپا مجھے بار بار کوئی آتا ہے
اس کے دامن کی خوشبو ہوائوں میں ہے اس کے قدموں کی آہٹ فضائوں میں ہے
مجھ کو کرنے دے سولہ سنگھار کوئی آتا ہے
مجھ کو چھونے لگیں اس کی پرچھائیاں دل کے نذدیک بجتی ہیں شہنائیاں
میرے سپنوں گاتا ہے پیار کوئی آتا ہے
روٹھ کر پہلے جی بھر ستائوں گی میں جب منائیں گے وہ مان جائوں گی میں
دل پہ رہتا ہے کب اختیار کوئی آتا ہے
فلم ’مدر انڈیا‘ جو اپنے وقت کی مشہور اور کامیاب فلم تھی۔ نوشاد کی موسیقی میں شکیلؔ بدایونی نے گیت تحریر کئے تھے۔ اس کا ایک گیت سہاگ گیت کی صورت میں ہے جسے شمشاد بیگم نے گایا ہے۔ ملاحظہ ہو:
پی کے گھر آج پیاری دلہنیا چلی روئیں ماتا پتا ان کی دنیا چلی
بھیا بہنوں کے دل کو لگی ٹھیس رے تیری قسمت میں جانا تھا پردیس رے
چھوڑ کر اپنے بابل کا انگنا چلی پی کے گھر آج پیاری دلہنیا چلی
میا باوا نے سکھ موہے سارے دئے میرے گونے میں چاند اور ستارے دئے
ساتھ لے کے میں سارا گگنوا چلی پی کے گھر آج پیاری دلہنیا چلی
کوئی گن ڈھنگ مجھ میں نہ کوئی بات ہے موری چوڑیوں کی لاج اب تیرے ہاتھ ہے
تورے سنگ میں جیون کو سجنوا چلی پی کے گھر آج پیاری دلہنیا چلی
کیفؔ بھوپالی اردو شاعری کے ایک انوکھے شاعر تھے۔ ہرچند کہ آپ نے فلمی گیت کم لکھے ہیں لیکن جتنے بھی گیت تحریر کئے ہیںوہ فلمی دنیا اور گیتوں کی دنیا میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔فلم’ ’شنکر حسین‘‘ کا یہ بابل گیت آپ اپنی مثال ہے۔ آواز لتا منگیشکر کی اور موسیقی سے سجایا ہے خیام نے۔ آج بھی جب یہ گیت سنا جاتا ہے تولوگوں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ اس گیت میں وہ درد اور کسک ہے کہ بتائے نہیں بنتی:
پیارے بابل تمہاری دہائی آج میں ہو رہی ہوں پرائی
ہائے اب چھوٹتا ہے یہ آنگن مجھ کو لے نے آئے ہیں ساجن
اب نہ سکھیوں میں بیتے گا بچپن اب نہ بھیا سے ہوگی لڑائی
پیارے بابل تمہاری دہائی
بھینی بھینی کھلے گی چمیلی مجھ کو ڈھونڈے گی میری سہیلی
میری گڑیاں رہیں گی اکیلی مجھ سے بچھڑے بہن اور بھائی
پیارے بابل تمہاری دہائی
میری جامن نہ انبوا ہے میرا میرے بھیا یہ سب کچھ ہے تیرا
دو ہی دن کا تھا میرا بسیرا چار دن بھی میں رہنے نہ پائی
پیارے بابل تمہاری دہائی
کوئی بھی کرے حیلہ بہانا میری ماں مجھ کو جلدی بلانا
یاد آئے گا سارا گھرانہ کیسے آئوں گی میں بن بلائی
پیارے بابل تمہاری دہائی
آج میں ہو رہی ہوں پرائی
فلمی گیت نگاروں نے سہرے، سہاگ اور بابل پیش کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ گیت نگارہی میں اپنا ایک اعلٰی مقام رکھتے ہیں۔ ان گیت نگاروں کے بابل اور سہاگ کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہ گیت داخلیت کے مختلف حیاتی سرچشموں سے پھوٹتے ہیں۔ زبان کی سادگی اور مٹھاس کے ساتھ ساتھ وہ تمام احساسات اور جذبات، وہ تمام درد و غم کی میٹھی میٹھی کسک، روح کی وہ تمام لطافتیں اور کیفیات اور وہ نغمگی و جھنکار ہے جو کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔ہر چند کہ موضوع کے اعتبار سے ان میں تنوع نہیں مگر ہلکا درد ہے، کسک ہے اور وہ غمگین فضاجو دلوں پر بھرپور نقش چھوڑ جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی دلوں کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھیگتی چلی جاتی ہیں۔
*****
Leave a Reply
Be the First to Comment!