واجدہ تبسم:سماجی و جنسی حقیقت نگاری

ڈاکٹر ضمیراللہ ، شمشاد ما رکیٹ۔ علی گڑھ

خواتین افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام واجدہ تبسم کاہے۔وہ ’’امراوتی‘‘ میں پیدا ہوئیں ابھی بچی ہی تھیں کہ والدین کاانتقال ہوگیا۔ ۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں ان کاپورا خاندان حیدرآباد منتقل ہوگیا۔انھیں والدین کاپیارنصیب نہ ہوسکا۔ فرقہ وارانہ فسادات اور ملک کی تقسیم کی وجہ سے تباہی وخلفشار نے ان کی طفلانہ معصومیت کوبڑاصدمہ پہنچایا۔ جب شعور کو پہنچیں تو ان کی توجہ سیاسی، سماجی اورمعاشی مسائل کی طرف بڑھی۔ یوں توانھوںنے جاگیردارانہ ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں لیکن والدین کی وفات اورہندوستان کی سیاسی اورمعاشی تبدیلیوں نے پورے خاندان کومتوسط گھرانہ میں تبدیل کردیا تھا۔ جب اپنے بزرگوں سے ماضی کی باتیں سنتیں تو محض افسانہ معلوم ہوتی تھیں۔ گرچہ ان کاگھرانہ متوسط طبقہ میں تبدیل ہوچکا تھا لیکن ابھی بھی چندکردار ان کے یہاں ایسے باقی بچے تھے مثلاًنانی اماں کاتحکمانہ انداز، روایتی پن، بورژوا قدروں پرایمان وغیرہ جیسی باتوںنے ان کی شخصیت کی تعمیرمیں اہم رول اداکیا ہے۔ ان سب باتوں سے ان کے سوچنے ،سمجھنے کے ڈھنگ پراثر پڑا۔ انھوںنے اپنے اردگرد بکھری ہوئی بے انصافی ، ظلم و ناہمواری کابھی مشاہدہ کیا لیکن اس کی توجیہ پیش کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں کیونکہ وہ مصائب وآلام کوقسمت کے کرشمے سمجھتی تھیں۔

واجدہ کی پرورش نہایت پرآشوب دورمیں ہوئی۔ جاگیرداری نظام کواجڑتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ چونکہ جاگیردارگھرانے سے تعلق تھا ۔لہٰذا اس کے کھونے کاغم بھی لاحق ہوا اوروہ غم اتنا شدید تھا کہ جس کااظہار ان کی تحریروں میں جابجا نظرآتاہے۔ اس لیے واجدہ تبسم کے موضوع میں یک رنگی پائی جاتی ہے جو حیدرآباد کی جاگیردارانہ زندگی، تہذیب وتمدن کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں یکسانیت ہے لیکن پھربھی ان میں حقیقت نگاری جھلکتی ہے چونکہ ان میں مصنفہ کاذاتی تجربہ شامل ہے۔

شہرممنوع(۱۹۶۰ء) پہلاافسانوی مجموعہ ہے۔اس کے علاوہ توبہ توبہ، تہہ خانہ ،اترن(۱۹۷۷ء )،آیابسنت سکھی (۱۹۷۴) ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ ’’شعلے‘‘ کے نام سے ایک ناولٹ بھی لکھاہے۔ ان کی کہانیاں امریکہ کی شکاگو جیسی یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کی جاچکی ہیں۔ وہ ایک ماڈرن خیالات خاتون تھیں انھوںنے اپنے بارے میں لکھاہے کہ:

’’میںایسی نمازی بندی ہوں جوایک طرف توپورے روزے رکھ پوراسر ڈھانک کرہل ہل کرقرآن شریف پڑھتی ہوں اور ادھرمہینے میں دوایک بارلپ اسٹک لگاکر بڑے خلوص سے پکچر دیکھنے جاتی ہوں۔ پردے جھردے کی میں قائل نہیں ۔ ایسے اونٹ پٹانگ خیالات ہیں کہ پتہ نہیں دوزخ میں جلوں یا جنت میں موج اڑائوں۔ویسے صرف ایک ادا پر لگتاہے کہ اللہ میاں مجھے جنت سے نوازیںگے۔ وہ ہے اپنے میاں کی بے پناہ خدمت اورمحبت۔ ۔۔۔۔‘‘(۱)

واجدہ تبسم کے افسانے حیدرآباد کے مخصوص ماحول کی عکاسی کرتے ہیں وہ واحد افسانہ نگارہیں جنھوںنے حیدرآباد کے نوابوں کی جاگیردارانہ اورمٹتی ہوئی طرز معاشرت کانقشہ بڑی دلیری سے کھینچا ہے۔ چونکہ ان کاتعلق خودایک حیدرآباد کے خوش حال گھرانے سے تھا ۔والدین کی وفات کے بعد وہ بذات خود معاشی تنگی کاشکارہوئیں۔ لہٰذا جاگیرداری کے کھونے کاغم فطری تھا۔ انھوںنے جاگیردارانہ زندگی کی بدحالی کا نقشہ ’’گلستاں سے قبرستان تک‘‘ ،’’دیارحبیب‘‘اور’’ناگن‘‘ جیسے افسانوں میں نہایت خوبصورت انداز میں کھینچا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں ملنے والی آزادی کے بعد ملک سے جاگیرداری نظام کاخاتمہ ہوگیا۔ اس نظام میں سانس لے رہے انسانوں کونئے نظام،اسی طرح ملک کے اقتصادی بحران اورتقسیم وطن کی بدولت رونماہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے عوام کو توڑکر رکھ دیاتھا۔ جولوگ آزادی سے قبل جاگیردارانہ ماحول میں خوش حالی کی زندگی جی رہے تھے اچانک انھیں معاشی تنگ دستی کاسامناکرناپڑا۔ان سب حالات کاسامنا واجدہ تبسم کو بھی کرناپڑا۔ چونکہ وہ ایک ایسے شہرسے تعلق رکھتی تھیں جہاں نظام شاہی دربارقائم تھا۔ آزادی کے بعد وہ بھی وقت وحالات کے جبر کی زدمیں آیا۔ واجدہ تبسم نے حیدرآباد کی بنتی بگڑتی ہوئی تہذیب ومعاشرت کواپنا موضوع بنایا۔ حالانکہ ان پریہ الزام لگایاگیاکہ انھوںنے حیدرآباد کے جاگیرداروں اورنوابوں کی شان وشوکت کاتمسخراڑایاہے۔ نوابوںکے کردار پرانگلی اٹھاکر اپنی دلی تسکین پوری کی ہے۔ اسی طرح ان کے افسانوں کے بارے میں کہاگیا کہ ان کے افسانے شریف بہوبیٹیوں کے پڑھنے کے لائق نہیں ہیں۔ واجدہ نے ان سب باتوں کے جواب میں افسانوی مجموعہ ’’اترن‘‘ میں’’قوسِ خیال‘‘ کے عنوان سے یوں لکھتی ہیں :

’’میں اپناشمارانسانوں میں کرتی ہوںجوصرف حقیقیت کااظہار کرنا پسند کرتے ہیں ۔رسوائی کابھی مجھے کوئی ایساڈرنہیں لیکن الزامات کی فہرست جب ضرورت سے زیادہ لمبی ہوجائے توقلم اٹھاناضروری ہوجاتا ہے۔‘‘ (۲)

انھوںنے حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر سے حیدرآباد کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کواپنے افسانوں میں پیش کیا۔ ان کے تمام افسانوں میں حیدرآباد ی فضاچھائی ہوئی ہے۔ انھوںنے اپنے اردگرد کے ماحول کو جیسا دیکھا جیساپایااس کی ہوبہو تصویرکشی کی ہے۔ جس میں ان کاذاتی تجربہ بھی شامل ہے۔ وطن کی تقسیم سے نہ صرف دوملک وجود میں آئے بلکہ صدیوں کی مشترکہ تہذیب بکھرگئی اورجس کا اثراس وقت کے ہرذی حساس انسان پرپڑا۔ ایک ادیب وفن کار جو دوسروں کی بدولت زیادہ حساس ہوتاہے اس پران حالات کااثر پڑنالازمی ہے وہ لکھتی ہیں:

’’ہندوستان اور پاکستان دوٹکڑوں میں بٹے۔ لیکن میں کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ میرے دل اورذہن کے کچھ ٹکڑے تومیرے وطن امراوتی میں رہ گئے کچھ حیدرآباد دکن کو ہجرت کرگئے ۔میں نے حیدرآباد میں چودہ برس کابن باس جھیلا۔ یہ بن باس جنگلوں میں ملاہوتا توشاید سیتا پھل اور رام پھل کھاکر زندگی گزاردیتی لیکن یہ بن باس مجھے حیدرآباد دکن میں ودیعت کیاگیا تھا۔ جہاں میں ’’زہر پھل‘‘ کھاکھاکر خودکوزندہ پایا۔ بارہ برس کی گڑیاں کھیلنے اوربے فکری سے غل غپاڑے مچانے کی عمرمیںاچانک ہاتھوں میں ایسا جام جمشید تھمادیا جائے جس میں صرف روتے سسکتے آہیں بھرتے چہرے ہی نظرآتے ہوں تودنیا پھراتنی خوبصورت نظرنہیں آتی۔ ویسے زندگی نے پہلے بھی مجھ سے کوئی خوبصورت سلوک نہیں کیاتھا۔ ایک برس کی عمرمیں ماں اور تین برس کی عمرمیں باپ بھی ساتھ چھوڑ جائیں تو ایسی زندگی ۔زندگی کی تہمت سے زیادہ معنی نہیں رکھتی۔ لیکن حیدرآباد پہنچ کر جب میں نے انسانوں ہی کا انسانوں سے ایساناروا اورنامنصفانہ سلوک دیکھاتومیں اپنی جگہ سہم کررہ گئی ۔‘‘(۳)

مندرجہ بالااقتباس میں واجدہ نے اپنے بچپن کے واقعات کے ساتھ ساتھ ان محرکات کابھی ذکر کیا ہے جوان کے افسانوں کے سبب بنے ہیں۔ ان کے موضوعات زیادہ وسیع نہیں ہیں۔اس کاسبب یہ تھاکہ ان کی زندگی خودمحدود تھی۔ وہ امراوتی میں پیداہوئیںابھی بچی ہی تھیں کہ والدین دنیاسے چل بسے۔ ۱۹۴۷ء کے فرقہ وارانہ فسادات اورملک کی تقسیم کی وجہ سے تباہی ،خلفشار اورتفرقہ بازی نے ان کی طفلانہ معصومیت کوبڑا صدمہ پہنچایا۔

واجدہ تبسم کی پرورش جاگیردارانہ ماحول میں ہوئی۔ ملک کی سیاست نے جاگیردارانہ ماحول کی خوشیاں چھین لیں جس کاغم انھیں بچپن سے لاحق ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے جاگیردارانہ معاشرے کے اردگرد گھومتے نظرآتے ہیں۔ کہانی’’گلستاںسے قبرستان تک‘‘ میں نوابوں کی زوال آفریں دور کی عکاسی ملتی ہے جوجاگیردارانہ زندگی کی خوش حالی سے نکل کرمعاشی بدحالیوں کاشکار ہے۔یہ کہانی ماضی اورحال کے درمیان کی کہانی ہے۔ ایک لڑکی جو تعلیم حاصل کرکے گلستاں جوکبھی ایک ایسی عالیشان عمارت ہواکرتی تھی جہاں دولت وثروت کی جگمگاہٹ تھی، میں داخل ہوتی ہے تواس کوخستہ حالت میں دیکھ کرافسردہ ہوجاتی ہے۔ اس کے والدین کاانتقال ہوچکاہے۔ صرف دادی اوردوچچاتھے ۔گلستاں اب کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مفلسی نے ڈیرے ایسے ڈالے کہ گھرتک بکنے لگا۔ پورے افسانے میں دادی ماں کاکردار ایک کڑی کی حیثیت رکھتاہے جوماضی اورحال دونوں کوجوڑتاہے۔ دادی ماں جنھوںنے ماضی کی شاندار زندگی گزار ی ہے اورجوحال کی محرومیوں سے حراساں ہیں۔ افسانے میں نفسیاتی اورجذباتی کشمکش کی تصویرکشی بھی کی گئی ہے کہ کس طرح زوال لوگوں کے ذہن ودل کوشکستہ کردیتاہے اورچھوٹی چھوٹی محرومیاں کس طرح ماضی کی یاد کوتازہ کرتی رہتی ہیں۔ پوراافسانہ دادی کی پوتی کی زبان سے اداکیاگیا ہے جوخون کے آنسو روتی رہتی ہے۔ مثلاً جب دادی گلستان کے بارے میں کہتی ہے کہ وہ رہن رکھا جاچکا ہے یہ سن کربچی رونے لگتی ہے اورسوچتی ہے:

’’یہ گھر۔یہ محل۔ یہ گلستاں۔ ہمارے اسلاف کابنایاہواپرشکوہ مکان۔ جس میں جانے ہماری کتنی پشتیں گزریں۔ اگرکوئی اینٹ بھی جھڑگئی توہم نے اپناخون پانی کردیا۔ اب اس حالت میں پڑا ہے کہ رہن ہے اور اینٹیں جھڑتی ہیں توچوناگارابھی نصیب نہیں ہوتا۔ آج رہن پڑا ہے کل نیلام  اٹھے گا اورہماری عزت برسوں کی محبت اوراس کے چپے چپے سے کیا ہوا بے لوچ پیار مٹ جائے گا۔ اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اورپھرکون جانے ہماراکیاحشرہوگا؟اوردادی اماں جنھیںبڑے چچا، منوچچا، پھوپھی سے بھی شایداتنی محبت نہ جتنی اس سے ۔اس محل سے جواب کھنڈر ہوتا جارہاتھا۔۔۔گلستان کو رہن رکھنے کی غرض وغایت جب مجھے معلوم ہوئی تو ایک لمحہ کو میں بھونچکی ہی رہ گئی ۔مکان رہن رکھ کرمکان کی مرمت کوپیسہ حاصل کرنااتنی مضحکہ خیزبات تومیںنے کبھی نہ سنی۔‘‘(۴)

واجدہ نے اس افسانے میںجاگیردارانہ تہذیب کابھرپورنقشہ کھینچا ہے اورپوری فضا کوغمناک بنا کر پیش کیاہے۔ اس میں حقیقت کی تلخیاں نمایاںہیں جواندوہناک بھی ہے اور عبرت خیز بھی۔ ان کرداروںسے ہمدردی سی محسوس ہوتی ہے جوزوال یافتہ تہذیب کے مارے ہوئے ہیں اور اپنی خواہشات میں ناکام رہتے ہیں۔ ان کے افسانے جن واقعات سے ترتیب پاتے ہیں وہ ان کے اردگرد پھیلاہوامعاشرہ ہے اورخود ان کے ماحول اورمزاج کی گہری چھاپ ان کے افسانوں میں موجود ہے۔

ان کے افسانے ’’کالے بادل‘‘،’’شہرممنوع‘‘ ،’’اے رودِ موسیٰ‘‘،’’کانچ کادل‘‘، ’’عیدی‘‘،’’تہہ خانہ‘‘،’’ساتواں شہزادہ‘‘،’’پاندان‘‘،’’نتھ کاغرور‘‘،’’گناہوں کی پاداش‘‘،’’آگ میںپھول‘‘میں حیدرآباد کامخصوص ماحول، جاگیردارانہ نظام ، نوابوں ،باندیوں، بیگمات اورکنیزوںکی زندگی وماحول کی صورت گری ملتی ہے۔ ان سب افسانوں میں بڑی المیہ فضاملتی ہے جنھیں پڑھ کر قاری شدید المیہ کے احساس میں ڈوبتا چلاجاتاہے۔

واجدہ تبسم نے اپنے افسانوں کے لیے ایسے موضوع کاانتخاب کیاجن پر خوب اعتراض کیاگیا۔ آزادی کے بعد خواتین افسانہ نگاروں میں اگرکسی نے عصمت اورمنٹوکی روش کوشدت سے اپنایاتو وہ واجدہ تبسم ہیں۔ جنس کے مسئلے پر عصمت اورمنٹو نے جب آواز اٹھائی توانھیں لعنت وملامت کیاگیا ،فحش نگار کہاگیا یہاں تک کہ ان پرمقدمے بھی چلے۔ بھلا اس موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے کوئی دوسرافسانہ نگار کیوںکر بچ سکتاتھا کہ اس کوبرا بھلا نہ کہاجائے۔ لہٰذا واجدہ تبسم کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب ان کاپہلاافسانوی مجموعہ ’’شہرممنوع‘‘ منظر عام پر آیاتوان پر حیدرآبادی نوابوں کی شان میں گستاخی کاالزام عائد کیاگیا کیونکہ انھوںنے نوابوں اور جاگیرداروں کی عیاشانہ اورمریضانہ ذہنیت کی قلعی کھول کررکھ دی تھی مثلاً افسانہ’’ تین جنازے‘‘ میں مصنفہ نے ایک عیاش رئیس گھرانے کانقشہ کھینچا ہے۔ جن میں تین جوان لڑکیوں کی شادی کامسئلہ معاشرتی اورجنسی کشمکش کے پس منظرمیں بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاگیا ہے۔ جسے پڑھ کر مٹتی ہوئی تہذیب کی کھوکھلی قدریں نمایاں ہوتی ہیں۔ اس افسانہ میں نوابوں کی عیاشیوں کی قلعی کھولی گئی ہے کہ وہ عیش وعشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں اورگھرکی ملازمائوں کے ساتھ کیاکیاسلوک کرتے ہیں۔ ان کی راتیں ایک نئی لڑکی کے ساتھ گزرتی ہیں۔ کسی لڑکی کی ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ نواب پرکیچڑ اچھال سکے۔ اس کہانی میں نواب حیدرصاحب ہیں جن کی تین جوان بیٹیاں ہیں۔ نواب صاحب کبھی رئیس ہواکرتے تھے لیکن اب ان کی حالت بگڑچکی ہے۔ لڑکیاں شادی کی عمر کوپہنچ چکی ہیں۔ معقول رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہوپارہی ہے۔ نواب صاحب کی تین تین بیٹیاں گھرپرپڑی ہیں لیکن نواب صاحب خود نوابی شان میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔انھوںنے گیندانام کی ایک لڑکی کوجب اپنی ہوس کاشکار بنایاتواس نے دل بھر کرگالیاں دیں۔ نواب صاحب کومعلوم ہے کہ انھوں نے گینداکے ساتھ غلط کیا۔ جب وہ ان کے خلاف آواز اٹھاتی ہے تونواب صاحب جوجواب دیتے ہیں ملاحظہ ہو:

’’مگربوم ہونے ہی کیوں لگی؟ کیاڈیوڑھی والوں کے لیے یہ نئی بات ہے؟ مگرتمہارا یقین بھی کون کرے گا۔ سینکڑوں حرامی حلالی گھرمیں بھرے پڑے ہیں انھیں چھوڑ کر کون میرانام لے گا۔

’’تمہارانہیں بگڑے گاتوتمہاری اولاد کے آگے آئے گا۔ بھری جمعرات کوجب چاروں شامیں ملتی ہیں کھلے آسمان کے نیچے کھڑے ہوکرہاتھ اٹھا اٹھاکر کوسنے دوں گی کہ خدایا جیسا مجھے ستایا ہے ویساہی بھرے۔‘‘ (۵)

اس اقتباس میں ایک طرف یہ دکھایاگیاہے کہ نواب صاحب غلطی کرنے کے باوجود مطمئن ہیں کہ سماج ان کی غلطیوں کوقبول نہیں کرے گادوسری طرف گیندا کا احتجاج ہے جونوابوں کی قلعی کھولتا ہے ایک عورت کا نوابوںکوبرابھلا کہناجیساکہ گینداکہتی ہے کہ تمہاری اولاد تمہارے کیے کامزہ چکھے گی ،یہی وجہ ہے کہ واجدہ تبسم کونشانہ بنایاگیا اورکہاگیا کہ انھوںنے نوابوں کی شان وشوکت کامزاق اڑایا ہے۔ دراصل انھوںنے گیندا کی زبانی اصلیت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس افسانے میں واجدہ نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ برائی کاانجام براہوتاہے۔ نواب حیدرکی بیٹیوں کی شادی ہونہیں رہی ہے کیونکہ کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا ہے۔ نواب صاحب پریشان ہیں۔ پاس پڑوس کے لوگ اوررشتہ دار احساس دلاکر غم میں اوراضافہ کررہے ہیں۔ لڑکیاںبھی افسردہ رہتی ہیں۔ بڑی بیٹی نادرہ ایک دن سفید بالوں کودکھاکراپنی ماںسے کہتی ہے کہ اب وہ صابرہ کی فکرکریں اس کی فکرکرنا چھوڑدیں یہ سن کر نواب صاحب اور غمگین ہوگئے۔ ایک دن نواب صاحب کی بیٹی صابرہ کنویں میں چھلانگ لگاکر جان دے دیتی ہے کیونکہ اس نے گیندا کے بچے کی پیدائش پر سوہرگالیاتھا جس کی وجہ سے اسے ملامت کیاگیا تھا۔ نواب صاحب اس صدمہ کی وجہ سے بیمار پڑگئے۔ چھوٹی بیٹی حمیرہ کی شادی ہوتے ہی ٹوٹ جاتی ہے ۔ اس طر ح پوری کہانی دردوغم میں ڈوبی ہوئی ہے۔ نواب صاحب ہمیشہ دردو غم میں ڈوبے رہتے ہیں اورگیندا کی عزت کے ساتھ جو کھلواڑ انھوںنے کیا تھااس کاغم انھیں اندرہی اندر کھائے جارہاہے۔ واجدہ نے نواب صاحب کو عبرت ناک سزادی ہے اوراس حقیقت کاانکشاف کیا ہے کہ جولوگ اب بھی ایسا کرتے ہیں وہ بازآجائیں۔ کیونکہ کسی کی عزت سے کھیلناایک گناہ عظیم ہے۔ عزت سبھی کی پیاری ہوتی ہے چاہے وہ نواب کی ہویاملازمہ کی اس لیے ایساکرنا مناسب نہیں ہے۔

اسی طرح افسانہ ’’سہاگن‘‘ ہے اس میں ان نوابوں کا تمسخر اڑایا ہے جوخاندان کی ناک اونچی کرنے میں اپنی بیٹی کوجان سے ماردیتے ہیں لیکن اپنے سے کم حیثیت کے لڑکے سے شادی کرنے پرراضی نہیں ہوتے۔ اس افسانے کادوسراپہلو یہ ہے کہ سماج ایسی لڑکیوں کومنحوس قراردیتا ہے جس کامنگیتر مرگیا ہو۔ اس افسانہ کی ’’اختر‘‘ بھی ایک ایسی بدنصیب لڑکی ہے ۔ اس کی منگنی بچپن میں خالہ زاد بھائی سلمان سے طے تھی۔ سلمان کو تیراکی کابہت شوق تھا اتفاقاً ایک دن وہ تیراکی میں ڈوب جاتاہے۔ اس واقعہ کے بعد اختر کوہرطرف منحوس سمجھاجاتا ہے ۔چندعرصے بعد ایک جگہ اختر کی نسبت طے ہوگئی بڑی دھوم سے منگنی ہوئی۔ منگنی کے بعد جب سسرال والوں کواخترکے منگیترکی موت کاعلم ہوتاہے تو وہ منگنی توڑ دیتے ہیں اور اختر کے گھرایک خط لکھ کربھیجتے ہیں  جس میں لکھاتھاکہ :

’’ہم توبیٹی کی پیاری شکل دیکھ کر تبھی چونکے تھے کہ ضروردال میں کالا ہے۔ مگرآپ نے بات کی تہہ تک جانے نہ دیا۔ وہ توبھلاہواکہ ہمیں پتہ چل گیاکہ صاحبزادی منحوس ماری ہیں۔ اپنے منگیتر کوکھائے بیٹھی ہیں۔ ورنہ جانے ہمارے گھر کاکیاحشر ہوتا۔ بہن اختر آپ کے دل میں بھی دیا،محبت تو ہوگی ہی۔ پھرآپ نے اپنی اولاد کے لیے دوسرے کی اولادکابرا کیوں چاہتی ہیں؟ آپ کے رویہ سے ہمیں سخت تکلیف پہنچی ہے وہ تو اللہ بھلاکرے ان بیچاروں کاجنھوںنے ہماری معلومات میں اضافہ کیااورصورت حال سے مطلع کیاورنہ ہمارے گھر بھی الّو بول جاتا۔ ہمیں سب کچھ پتہ چل گیا۔‘‘(۶)

اس خط کااثریہ ہواکہ اخترکے باپ نے دنیاچھوڑدی اورماں بیمارپڑگئیں۔ بھائی کوبہن کی فکر نہیں۔ بھابھی کارویہ اخترکے ساتھ بہت براتھا۔ بہت چھان بین کے بعد ایک لڑکا ملابھی توبھائی کوپسند نہ آیاکہ وہ بہن کا رشتہ کردے حالانکہ ماں کورشتہ پسند تھا۔ ماں کوروز بروز اخترکی شادی کی فکرکھائے جارہی تھی ایک دن وہ  اخترکوصبح ہونے سے پہلے جگاکر مزار پرلے گئیں۔ مزارکافی اونچائی پرتھا اور نیچے ندی بہہ رہی تھی۔ ماں نے اخترکوندی میں ڈھکیل دیا بدنصیب اختر دوتین قلابازی لگاکرپانی میں ڈوب گئی اور ماں نہایت سکون سے اتر آئی اورخوفناک قہقہہ لگانے لگیں۔ اس افسانہ کاانجام نہایت الم انگیز ہے پورے افسانے کی فضا غم آلود مایوسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ خوبصورت انداز بیان اوردلچسپ موضوع افسانے کی تاثیر میں اضافہ کرتے ہیںجن میں صداقت ہے، سچائی ہے، تجربہ کی صداقت قاری کومتاثرکرتی ہے۔

افسانہ ’’کالے بادل‘‘ میں غریب طبقہ کی بے بس زندگی کوپیش کیا ہے ۔اس میں شکور اور حمیدہ کی غربت کو دکھایا ہے ۔شکور نہایت غریب ہے۔ قبرمیں لیٹ کرتماشادکھاتاہے جس کی وجہ سے اس کاگھر چلتا ہے۔ حمیدہ کو یہ پسند نہیں ہے ۔حمیدہ پیٹ سے ہے اورشوہر کومنع کرتی ہے کہ وہ قبرمیں نہ لیٹیں ۔جس دن بچہ پیدا ہوتاہے اس دن بھی شکورقبر میں لیٹ کر تماشا دکھانے گیا ہواہے۔ ادھر حمیدہ اپنی مامتا کاگلا گھونٹ کرپیسے کی خاطر اپنے نوزائیدہ بچے کوبیچ ڈالتی ہے تاکہ اس کے شوہر کو قبرمیں نہ لیٹنا پڑے۔ جب حمیدہ ڈاکٹر نی کے ہاتھوں اپنے بچے کو پانچ روپیہ میں بیچ کرلوٹ رہی ہوتی ہے تواسے اطلاع ملتی ہے کہ اس کاشوہر قبرمیں کرتب دکھا تے ہوئے موت کی نیند سوگیا ہے یہ سن کرحمیدہ سکتے میں آجاتی ہے۔ اس المناک کہانی کے ذریعے واجدہ نے غریبوں کی بے بسی ولاچاری کودکھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ کس طر ح پیٹ کی خاطر اپنی جان پرکھیلتے ہیں یہاں تک کہ اپنی اولاد کابھی سوداکرنے پرمجبور ہیںجیساکہ اس کہانی میں حمیدہ نے کیا۔

واجدہ تبسم نے حیدرآبادی تہذیب کواپنی تحریروں میں کثرت سے پیش کیاجس کی وجہ سے ان پریہ الزام عائد کیاگیا کہ وہ صرف اورصرف حیدرآبادی نوابوں اور وہاں کی جاگیردارانہ نظام کے خلاف لکھ کر دراصل دلی تسکین حاصل کرناچاہتی ہیں۔ چونکہ ان کی پرورش اسی ماحول میں ہوئی تھی اوران کاتعلق جاگیردارانہ نظام سے تھا۔ لیکن ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کی حالت خستہ ہوگئی اور وہ متوسط طبقہ میں جینے پر مجبور ہوگئیں۔ لہٰذا بچپن میں بنے گئے خواب کوانھوںنے اس تہذیب ونظام کاتمسخر اڑاکر حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کاپہلاافسانوی مجموعہ ’’شہرممنوع‘ ‘جس کی بیشتر کہانیاں حیدرآباد کی شہری زندگی پر ہے ۔ جن میں نوابوں اورجاگیرداروں کی عیاش پرست زندگی کاپردہ فاش کیاگیا ہے۔ لہٰذا ان کی حقیقت پسندانہ سوچ وفکر اوربے باکانہ طرزاظہار کے صلے میں ان پرطرح طرح کے الزامات لگائے گئے جس کااظہار انھوں نے اپنے افسانوی مجموعہ ’’اترن‘‘ کے دیباچے میں کیا ہے اورانھوںنے ان اعتراضات کامعقول جواب بھی دیا ہے۔

یہ سچ ہے کہ انھوںنے اپنی سوچ وفکر کے دائرے کوایک خاص تہذیب ومعاشرت اورایک طرززندگی تک محدود رکھا ہے لیکن ان کی خوبی یہ ہے کہ ان کی تحریروں میں سچائی ودیانت داری پائی جاتی ہے ۔انھوںنے اپنے آس پاس کی بے رحم زندگی کی سچائی کوکھل کر موضوع بنایا ہے۔ انھوںنے اپنے افسانوں کے لیے ایسے موضوع کومنتخب کیا جومعترضانہ اورقابل ملامت تھا۔ مثلاً ان کادوسرااہم موضوع جنسی حقیقت نگاری ہے۔ اس موضوع پر جن جن لوگوں نے قلم اٹھایا ہے ان کولعنت وملامت کیاگیا ہے ان سے قبل منٹو اورعصمت جیسے حقیقت پسندوں کوطرح طرح کے القاب وآداب سے نوازاجاچکاتھا لہٰذا واجدہ تبسم کے ساتھ یہ ہوناہی تھا کہ ان پرانگشت نمائی کی جائے۔ جب انھوںنے اس موضوع کواپنایا جس کوبیان کرنے کی جرأت مردوں میں نہ تھی ۔ایک عورت کے قلم سے نکلی ہوئی جنسی صداقت نے ادبی دنیاکوجھنجھوڑ کررکھ دیا۔ مگرموضوع کو پیش کرنے والی افسانہ نگار نے نہایت جرأت وبے باکی سے لوگوں کی انگشت نمائی ونکتہ چینیوں کی پرواہ کیے بغیرمسلسل لکھتی رہی اورجنس پر بے شمار کہانیاں لکھیں۔ مثلاً اترن، نولکھاہار، تین جنازے، آگ میںپھول، جھوٹن، ذرا ہور اوپر، ناگن، ٹھکانا، نصیب والی جیسی کہانیاں جنسی موضوعا ت پر ہیں۔ ان افسانوں میں حیدرآباد کی زندگی، حیدرآباد کے نوابوں اورجاگیرداروں کی ہوس پرستی کاشکار متوسط اورنچلے طبقے کی حسین کنیزوں، داشتائوں کی زندگی کو پیش کیاگیا ہے ۔ان کے بارے میں ترنم ریاض لکھتی ہیں:

’’واجدہ تبسم کے ناول اورافسانے گوکہ ایک مخصوص تہذیبی اور معاشرتی پس منظرمیں لکھے گئے ہیں، تاہم موضوعات اورزبان وبیان کے اعتبار سے خواتین اردوادب میں ایک منفرد اوربے باک رجحان کا اعلان کرتے ہوئے منظرعام پرآئے۔ ان کی تحریروں میں سماجی اورمعاشی دبائو میں کچلی ہوئی عورتوں کی نفسیات، ذہنی رجحانات اورذاتی ردعمل (Individual Response)کی مکمل عکاسی نظرآتی ہے۔ ‘(۷)

واجدہ تبسم نے اپنے افسانوں میں نوابوں اورجاگیرداروں کی عیاشی وبے راہ روی کے ساتھ ساتھ یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ نچلے متوسط طبقے کی عورتوں کی بدتر زندگی کی اصل وجہ وہاں کاعیش پرست معاشرہ ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں جنسی ہوس پرستی کوجائز سمجھاجاتاہے۔ نام نہاد شریف لوگ اپنے سے کمتر حیثیت رکھنے والوں کی بہوبیٹیوں کی عزت سے کھلواڑ جائز سمجھتے ہیں اورخود کی بیٹیوں کی شادیاں محض اپنی جھوٹی شان کی خاطر اپنے سے کمتردرجے کے لڑکوںسے کرنے کو تیارنہیں جس کی وجہ سے ان کی بہوبیٹیاں خود کشی کرنے پر مجبورہیں۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ ایسے معاشرے میں کنیزوں اورملازمائوں کوغیر سے جنسی تعلق پرگناہ کا احساس نہیں ہوتابلکہ انھیں اس سے مسرت ہوتی ہے ۔انھیں اس طرح کے تعلقات پرفتح اور کامرانی کااحساس ہوتاہے۔ جس کی نمایاں مثال ان کامشہور افسانہ ’’اترن‘‘ ہے ۔ اترن ایک ایسی دبی کچلی ملازمہ کی کہانی ہے جس کانام چمکی ہے۔ چمکی کی ماں شہزادی پاشا کو دودھ پلانے کے لیے رکھی گئی ہے۔ چمکی اور شہزادی پاشادونوں بچپن کی سہیلی ہیں ایک شہزادی ہے اورایک نوکرانی کی بیٹی ہے۔ چمکی کوشہزادی کی اتاری ہوئی تمام چیزیں میسر ہیں۔ چمکی اپنی دوست اپنی مالکن پاشاسے اس بناپر حسدکرنے لگتی ہے کہ اسے پاشا کی استعمال کی ہوئی چیزیں دی جاتی ہیں اور جب وہ سوال کرتی ہے کہ اسے پاشاکی طرح بغیراستعمال شدہ چیزیں کیوںنہیں میسر ہیں تو اسے باربار نوکرانی ہونے کااحساس دلایاجاتاہے۔ چمکی سوچتی ہے کہ پاشااور وہ دونوں جب لڑکی ہیں تو پھر دونوں ایک جیسی چیزیں کیوں استعمال نہیں کرسکتیں۔ جب وہ پاشا کی اترن پہنتی ہے توپاشا اس کی اترن کیوں نہیں پہن سکتی؟ مثلاً چمکی اپنی ماںسے کہتی ہے:

’’امی میں توبی پاشاسے بھی زیادہ خوبصورت ہوںنا؟پھرتوانوں میری اترن پہنانا؟‘؎(۸)

اس کہانی میں واجدہ تبسم نے ایک نوکرانی کی بچی اور ایک شہزادی کی بچپن کی معصومیت کے توسط سے اونچ نیچ کی کھائی کومٹانے کی بھی کوشش کی ہے۔ اونچ نیچ کی اسی کھائی کی وجہ سے بچپن کی دوست چمکی اپنی مالکن پاشاسے بڑی ہوکرانتقام لیتی ہے کیونکہ یہ تفریق اس کے ذہن میں بچپن سے پل رہی ہوتی ہے۔ دونوں بچپن کی دوست گفتگو کرتی ہیں ۔چمکی کہتی ہے:

’’پاشامیں سوچ رئی تھی کہ کبھی آپ ہورمیں’’اوڑھنی بدل بہنا گئے تو آپ کے کپڑے میں بھی پہن لے سکتی نا؟‘‘

میرے کپڑے؟ تیرامطلب ہے وہ سارے کپڑے جومیرے صدوخاں بھربھر کر رکھے پڑے ہیں؟

جواب میں چمکی نے ذراڈرکر سرہلایا۔

شہزادی پاشاہنستے ہنستے دہرہوگئی۔’’ایوکتنی بے خوف چھوکری ہے!اگے توتونوکرانی ہے۔ توتومیری اتن پہنتی ہے ،ہورعمربھر اترن ہی پہنے گی۔

’’پھرشہزادی پاشانے بے حدمحبت سے جس میں غرور اورفخر زیادہ اور خلوص کم تھا۔اپناابھی ابھی کانہانے کے لیے اتارا ہواجوڑا اٹھاکر چمکی کی طرف اچھال دیا۔

’’یہ لے اترن پہن لے۔ میرے پاس توبہوت کپڑے ہیں۔‘‘

چمکی کوغصہ آگیا’’میں کائے پہنوں، آپ پہنونا میرایہ جوڑا۔‘‘

اس نے اپنے میلے جوڑے کی طرف اشارہ کیا۔

’’شہزادی پاشاغصے سے بنکاری ’’انّابی انّابی‘‘۔(۹)؎

دونوں کی بچپن کی توتومیں میں آگے چل کر حسد میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ایک دبی کچلی نوکرانی جوبھر پور جوان ہونے کے باوجود اپنی مالکہ سے اس لیے حسدکاجذبہ رکھتی ہے کہ سدااسے مالکہ کی اترن پہنائی گئی اور اس کو مالکہ کے مقابلہ میں کمترسمجھاگیا ۔چمکی پاشاکے کپڑے پہنتے پہنتے احساس کمتری کاشکار ہے۔ اور جب پاشا کادولہا اسے ملتاہے تو چمکی اپنا سب کچھ اس کے حوالے کرکے احساس انتقام کے تحت شہزادی پاشا کو اپنا اترن دے دیتی ہے۔ ترنم ریاض اس افسانے کے بارے میں لکھتی ہیں:

’’افسانے ’’اترن‘‘ میں تاریخی، سماجی اورمعاشی جبرکی شکار ایک الھڑ، نازک لڑکی کی نفسیات اورجبر کے خلاف اس کارد عمل پوری طرح سامنے آتا ہے۔ یہ افسانہ تاریخی، سماجی، ثقافتی، اورنفسیاتی اعتبارسے نہایت اہم ہے۔ یہ افسانہ نوابین کی نجی زندگیوں ، ان کی اپنی پرور دہ قدروں اور سماج کے مجبور طبقوں پران کے استبداد کی تصویر کشی کرتاہے۔ یہ تصویرکشی واجدہ تبسم کی تحریروں کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔‘‘(۱۰)

واجدہ تبسم کایہ افسانہ جنس کے حوالے سے سماج کی اس کڑوی سچائیوں کوپیش کرتاہے ۔جس میں متوسط طبقہ کی عورتیں ،کنیزیں، ملازمائیں زندگی کوبہتربنانے کے خواب آنکھوںمیں سجائے ہوئے اپنی عزت ناموس تک کی پرواہ نہیں کرتی ہیں اورنتیجے میں انھیں رسوائی وبدنامی کے سواکچھ نہیں ملتا ہے۔ جنسی موضوعات پرلکھے گئے ان کے بیشترافسانے اس کڑوی سچائی کوبیان کرتے ہیں۔ اس طرح کے افسانوں میں خاص طور پر حیدرآباد کے مخصوص ماحول کوموضوع بنایا ہے جہاں نوابوں اورجاگیرداروں کی دولت کی فراوانیوں اور ذہنوں کی بے اعتدالیوں کے باعث معاشرہ اس طرح بن گیا ہے جہاں عورت کی پہچان اس کاجسم ہوتاہے اور وہ صرف جنسی تسکین کاذریعہ محض بن گئی ہے۔ ان کے افسانوں میں معاشرے کی زوال پذیر صورت حال اور دم توڑتی اخلاقی قدروں کی تصویریں نمایاں ہیں۔ ان کے افسانے کالے بادل، نتھ کاغرور، شہرممنوع،اے رودِ موسیٰ، کانچ کادل، عیدی، گناہوں کی پاداش، آگ میں پھول،میں بڑی گہری المیہ فضاملتی ہے۔ مصنفہ نے ان تمام افسانوں میں درد وکرب اورغم والم کو اس طرح جذب کردیاہے کہ قاری ایک شدید المیہ احساس میں ڈوبتا چلاجاتاہے۔

حواشی۔

۱۔            شاعر،بمبئی، ناولٹ نمبر، ۱۹۷۱ء،ص۲۷

۲۔            قوسِ خیال، واجدہ تبسم، افسانوی مجموعہ ’’اترن‘‘ اورسیزبک سینٹر،بمبئی ،طبع اول، ۱۹۷۷ء ،ص۶

۳۔            ایضاً،ص۷۔۶

۴۔            گلستاں سے قبرستان تک، شہرممنوع(افسانوی مجموعہ)،واجدہ تبسم،ص۲۱۱

۵۔            افسانہ ’’تین جنازے‘‘ مجموعہ ’’شہرممنوع‘‘ ،واجدہ تبسم، ص۳۴۴

۶۔            افسانہ ’’سہاگن‘‘،مشمولہ:’’شہرممنوع‘‘ ،واجدہ تبسم،ص۲۶۰

۷۔            بیسویںصدی میں خواتین کااردوادب، ترنم ریاض، ساہتیہ اکادمی، دہلی،۲۰۰۴ء، ص۴۲

۸۔            افسانہ ’’اترن‘‘ مجموعہ’’ اترن‘‘،واجدہ تبسم،ص۹۲

۹۔            ایضاً،ص۹۰۔۸۹

۱۰۔          بیسویںصدی میں خواتین کااردوادب، ترنم ریاض، ص۲۵۔۲۴

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.