خلیل جبران کی حکایت میں مقصدیت
عثمان غنی رعد، استاد شعبہ اردو،نمل، اسلام آباد، پاکستان
ughani@numl.edu.pk
امتدادِزمانہ اور مرورِ ایّام کے تغیرات پر اک نظر ڈالیں تو تاریخ کے اوراق پڑھنے سے اندازا ہوتا ہے کہ دنیا میں کتنے کتنے عظیم المرتبت ،عالی ذہن،نابغئہ روزگار، دُرّ نایاب اور جوہر شناس شخص ہو گزرے ہیں جن کی شخصیت ہشت پہلو ہے اور ہر جہت پہ مکمل احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔ ان لوگوں نے جس طرح ماضی کے ٹھاٹھیں مارتے تموج ِطوفانی علم کو خود میں سمو کر حال کے لوگوں کو متاثر کیا اور وہیں جامع العلوم شخصیت ہو کر آنے والے زمانوں پر بھی اپنے علم کی دھاک چھوڑ گئےاور ایسے عالِم کہلائے جنھوں نے عالَم کو متاثر کیا۔ ایسے ہی لوگوں کی صف میں شامل ایک عظیم فلسفی، مفکر،دانشور اور حکیم و بصیر شخص خلیل جبران بھی ہے۔ جنوری۱۸۸۳ ء کو خلیل جبران لبنان میں ایک چھوٹی سی وادی قادشیا میں پیدا ہوا جہاں کے لوگوں کےلیے یہاں صرف چھوٹی سے بل کھاتی ہوئی پگڈنڈی ہوا کرتی تھی مگر بعد میں یہاں ایک پختہ راستہ بنوا دیا گیا۔ جو اب ایک خوبصورت سڑک کی حالت میں موجود ہے۔ یہ وادی خوبصورت درختوں ،لالہ زار اور فطرت کے حسین نظاروں سمیت ایک پہاڑی سلسلے پر بھی مشتمل ہے۔ جو شخص بھی اس وادی کو دیکھے اسی کے طلسم اور سحر میں مقید اور مسحور و محصور ہو کے رہ جائے۔جبران کی ایک دوست اور سوانح نگار اس وادی کے متعلق لکھتی ہے:
”وادی قادشیا کی سیر کرتے وقت یُوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان عصر جدید کو پیچھے چھوڑ کر جسم و روح سمیت ایک طلسمی ماحول میں پہنچ گیا ہو۔ جہاں وقت اور تہذیب دونوں چلتے چلتے رک گئے ہوں۔ اس میں وحشی شوریدہ اور بے لگام حُسن کا ایک انوکھا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔ جو دیکھنے والوں کے قلب و نظر پر مدتوں چھا یا رہتا ہے۔“(1)
خلیل جبران نے مختلف ناموں سے شہرت حاصل کی جن میں جبران،خلیل جبران اور جبران خلیل جبران زیادہ معتبر حوالے ہیں۔خلیل جبران کا بچپن تو اس نا معلوم اور دور افتادہ وادی میں گزرا مگر اس نے زیادہ تخلیقی کام امریکا میں کیا اور اس کی جوانی واخیر عمری کے دن نیو یارک کی سر بفلک عمارتوں کے درمیان گزرے۔اگرچہ اس کی ماں کا تعلق ایک اعلیٰ مذہبی گھرانے سے تھالیکن جبران کا قبیلہ چھوٹا سا تھا اور غیر اہم بھی۔ خاندان کی غربت اور مفلسی کی وجہ سےجبران رسمی تعلیم حاصل نہ کر سکا۔تاہم پادری اکثر اس کے پاس آتے اور بائبل کے ساتھ ساتھ شامی اور عربی زبانیں بھی سکھاتے رہے۔شایداس کی وجہ اس کی ماں کا اعلیٰ مذہبی ہونا تھا .جب جبران کا باپ فراڈ اور چوری کے کیس میں جیل گیا تو عثمانی حکام نے خاندانی جائیداد ضبط کرلی۔ باپ ۱۸۹۴ء میں رہا تو ہو گیا مگر اپنا گھر کھو چکا تھا۔جبران کی ماں کاملہ نے اپنے دیور کی پیروی میں امریکا ہجرت کر جانے کا سوچا مگر باپ لبنان میں ہی رہا۔ جبران اپنی ماں اور دو بہنوں ماریانا اور سلطانا اور سویتلے بھائی پیٹرکے ہمراہ۱۸۹۵ ء میں نیو یارک آگیا۔ ڈرائینگ اور پینٹنگ جیسی فطرتی صلاحیت تو جبران میں پیدائش کے دن سے موجود تھی اور اسی وجہ سے یہاں جبران کی ڈرائنگ نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی۔ اور یہیں اس کا تعارف بوسٹن کے ایک اہم آرٹسٹ، فوٹو گرافر اور پبلشر فریڈ ہالینڈے سے ہوا۔ اور اسی نے جبران کی مصوراتی خوبیوںکو ہوا دی۔ اس طرح پبلشر نے جبران کی تصویروں کے مختلف کتابوں پر سرورق آویزاں کیے اور حوصلہ مندی کے ساتھ جبران نے ۱۹۰۴ ء کو اپنے آرٹ کی پہلی نمائش منعقد کی۔ نمائش کے دوران ہی جبران کی ملاقات ایلزبتھ ہیسکل سے ہوئی جو جبران سے دس سال عمر میں بڑی تھی۔مگر دونوں کی دوستی جبران کی موت پر منتج ہوئی۔ یہی وہ عورت ہے جس نے جبران کے نجی معاملات اور کیرئیر پر بہت گہرے اثرات چھوڑے۔جبران ۱۰ اپریل۱۹۳۱ ء کو نیو یارک سٹی میں فوت ہوا۔ اس کی آخری خواہش تھی کہ مجھے لبنان میں دفن کیا جائے۔ مگر یہ خواہش ایک سال بعد پوری ہوئی۔ جب اس کی بہن ماریانہ اور محبوبہ میری ہیکل نے لبنان میں ایک خانقاہ خریدی(۲)
اس کی تحریریں پڑھ کر مختلف لوگوں نےاسے مختلف القابات سے نوازا۔ کسی نے اسے بدعتی کہا، کسی نے متانت کا پتلا،کسی نے باغی، کسی نے سر کش،کسی نے مذہب پرست اور کسی نے اسے صوفی اور مفکر کہا۔خلیل جبران کی تصانیف دورِ جدید میں بھی اتنی ہی مقبول ہیں جتنی کہ اس کے اپنے دور میں تھیں۔ خلیل جبران کی مقبولیت کا اندازا اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق شیکسپئر اور لاؤز کے بعد سب سے زیادہ کتابیں خلیل جبران ہی کی فروخت ہوتی ہیں۔(3)چونکہ خلیل جبران نے متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنے فکر و فلسفہ کو شعر،نظم، افسانے،ناول،حکایات اور نقل وغیرہ کے وسیلے اور ذریعے پیش کیا ہے اور حکایت تو خاص لوگوں کو نصیحت اور سمجھانے کا موزوں طریقہ ہے۔ اس میں مختصر کہانی،فلسفہ اور جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ اس لیے ہم حکایت کے متعلق مختلف محقق،نقاد اور فلسفیوں کی تعریفیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
حکایت:
حکایت عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کےمطالب”بات، کہانی“ کے ہیں۔(4)اس کے علاوہ اوکسفرڈ اردو انگریزی لغت کے مطابق “Tale, Fable، “Story جیسے الفاظ ملتے ہیں۔(5)اور جمیل جالبی کی مرتبہ قومی انگریزی اردو لغت کے مطابق اگر دیکھیں تو Story اور Tale کے مختلف معانی میں سے کوئی بھی ”حکایت“ کا معنی لکھا ہوا نہیں ملتا۔ اس لیے حکایت کیلئے جو بہتر لفظ انگریزی میں مستعمل ملتا ہے۔وہ “Fable” ہے۔ اور جمیل جالبی کے مطابق “Fable” کے معانی دیکھتے ہیں۔
”افسانہ،قصہ؛حکایت ؛اخلاقی حکایت؛ کوئی داستان یا کہانی، خصوصاَمختصر سی کہانی جس میں عموماَجانوروں یا بے جان چیزوں کے مُنھ سے باتیں کہلوائی جاتی ہیں یا اداکاری کروائی جاتی ہے۔ اور جس سے کوئی سبق دینا مقصود ہوتا ہے؛ لوک کہانی یا دیو مالا؛ من گھڑت “(6)
مندرجہ بالا تعریفوں کو مدِ نظر رکھیں تو اندازا ہوتا ہے کہ سب سے بہترین معنوی تعریف ڈاکٹر جمیل جالبی نے لکھی ہے۔ اب حکایت(Fable) کیلے ابو الااعجاز حفیظ صدیقی کے مطابق اصطلاحی تعریف دیکھتے ہیں:
”ایسی مختصر منظوم یامنثور کہانی حکایت کہلاتی ہے جو فرضی کرداروں اور فرضی واقعات کی مدد سے انسانی رہنمائی کیلئے کوئی اصول پیش کرے،حکایت کے کردار انسان بھی ہو سکتے ہیں اور حیوان بھی، فرشتے بھی اور بے جان اشیا بھی۔ کیوں کہ مقصود تو وہ بصیرت ہے جو ان کرداروں کے عمل اور واقعات سے حاصل ہوتی ہے۔“(7)
مندرجہ بالا تمام معنوی اور اصطلاحی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ہم حکایت کی تعریف یوں کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی کہانی جس میں انسانوں کو نصیحت کرنے کیلئے جانوروں، انسانوں اور مختلف بے جان چیزوں سے پلاٹ تیار کر کے کوئی عبرت یا اخلاقی سبق اخذ کیا جائے۔اس لیے ضروری ہے کہ حکایت میں انسانی اخلاق اور عبرت کے لیے مقصدیت موجود ہو جس میں خلیل جبران کافی حد تک کامیاب ہوتے نظر آتے ہیں۔ چند ایک حکایات کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ فلسفی اور خاکروب
ایک فلسفی نے سڑک کے خاکروب سے کہا۔ مجھے تجھ پر ترس آتا ہے ۔اس لیے کہ تیرا ذریعہ معاش بہت تنگ اور گندا ہے۔ خاکروب نے جواب دیا۔”جناب کا بہت بہت شکریہ! لیکن ذرا یہ تو بتائیے کہ آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟فلسفی نے بڑے فخر سے کہا:”میں لوگوں کو انسانی اخلاق و فطرت کا درس دیتا ہوں اور ان کے افعال و اعمال ،رجحانات ومیلانات پر اقتصادی نظر ڈالتا ہوں۔“
خاکروب ہنس پڑا اور جھاڑو سنبھالتے ہوئے بولا:”آہ غریب فلسفی!آہ بیچارہ فلسفی“(8)
مندرجہ بالا حکایت کے تجزیے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ فلسفیاتی بات کی گرہیں ہمیشہ سننے اور پڑھنے والے شخص کے اپنے علم اور ذہن پر مبنی ہیں کہ وہ اسے کس حد تک کھول کر سنتا ہے اور سمجھ سکتا ہے۔اس حکایت میں دو کردار ہیں۔
1۔ فلسفی
2۔ خاکروب
فلسفی خاکروب پر طنز کرتا ہے کہ تُو ادنیٰ اور غریب ہے کہ چھوٹا موٹا کام کر کے چند پیسے کماکرا پنا گزارہ انتہائی کس مپرسی کی حالت میں کر رہے ہو۔خاکروب نے جب یہ بات سنی تو پوچھا کہ تم کون سا کام کرتے ہو؟ تو جب فلسفی نے بتایا کہ وہ فلسفی ہے اور لوگوں کو اخلاقیات اور انسانیت کا درس دیتا ہے تو خاکروب نے ٹھنڈی آہ بھری اور اس فلسفی کو بے چارہ اور کم ظرف قرار دیا۔ کیوں کہ خاکروب نے یہ سمجھا کہ یہ صاحب(فلسفی)اخلاقیات کا درس دیتا ہے مگر اس کو اتنا معلوم نہیں کہ دنیا کاکوئی بھی کام چھوٹا نہیں ہوتا ۔بلکہ انسان چھوٹا یا بڑا ہوتا ہے۔دوسرا یہ کہ اخلاقیات کا درس دینے والا شخص ایک کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔تیسرا یہ کہ خود صرف باتیں کرتا ہے اور خود کو عظیم سمجھتا ہے۔ جبکہ ایک کام کرنے والے کو کم تر اور ادنیٰ سمجھ رہا ہے جبکہ یہ سراسر زیادتی ہے۔ چوتھا یہ کہ آدمی صرف زیادہ پیسے کما کر ہی امیر نہیں بنتا بلکہ عزت،احترام اور ملک و قوم کی خدمت کا تمغہ بھی سینے پہ سجا کر امیر بنا جاسکتا ہے۔ جو کہ وہ خاکروب کر رہا ہے۔پانچواں یہ کہ ہمارے معاشرے کا مجموعی طور پر یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو طنز کرتے ہیں اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر ترقی نہیں کر سکا۔
جبران بجاطور پر اپنی اس حکایت میں اپنا مقصدبیان کرنے میں کامیاب نظر آرہا ہے۔ دو کرداروں کے ذریعے کس طرح پورے معاشرے کی مجموعی صورتِ حال کو بیان کر دیا ہے جو جبران ہی کا خاصا ہے۔
2۔ مشاہدہ
ایک دن آنکھ نے کہا: مجھے ان وادیوں کے پرے دھند سے ڈھکے ہوئے پہاڑ نظر آرہے ہیں۔ کیا وہ خوبصورت نہیں۔ کان نے اس بات کو سنا اور تھوڑی دیر تک غور کرنے کے بعد بولا:لیکن پہاڑ کیا ہے مجھے تو اس کی آواز نہیں سنائی دیتی۔ہاتھ نے کان کی تائید کی۔یہاں کوئی پہاڑ نہیں ہے میں اسے چھونے اور محسوس کرنے کی کوشش کر چکا ہوں۔لیکن یہاں کوئی پہاڑ نہیں،ناک کہنے لگی:یہاں کوئی پہاڑ نہیں، میں اس کی بُو نہیں سونگھ سکتی۔آنکھ یہ سن کر دوسری طرف متوجہ ہو گئی۔ باقی تینوں کان،ناک اور ہاتھ آنکھ کی کم عقلی کا ماتم کرنے لگے۔انھوں نے کہا:بے چاری آنکھ دیوانی ہو گئی ہے۔“(9)
یہ بڑی دلچسپ کہاوت ہے جس میں حسیات کی بدولت زندگی اور اس کے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔آنکھ کی بصیرت اور دوراندیشی کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ آنکھ ہر وہ چیز محسوس کر لیتی ہے جو دوردراز بھی ہو مگر نظر آجائے جبکہ ہاتھ ،ناک اور کان جب تک چھو،سونگھ یا سُن نہیں لیتے اتنی دیر تک اعتبار نہیں کرتے۔اس کے علاوہ اس حکایت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض اعلیٰ ظرف اور صاحب بصیرت اشخاص دور اندیشیوں کے جویا ہوتے ہیں مگر کم ظرف اور بصیرت سے نا آشنا لوگ ہمیشہ ان کی پیش گوئیوں سے انکار کرتے ہیں اور ان کی بصارت و بصیرت کے منکر رہتے ہیں مگر جب وقت ان کی باتوں کو سچ ثابت کر دیتا ہے تو پھر یہی لوگ پچھتاتے ہیں جبکہ وہ شخص ان لوگوں سے بہت دور جا چکا ہوتا ہے۔اس حکایت میں بھی جبران نے بڑے عمدہ انداز میں ہمارے معاشرے کے نام نہاد فلسفیوں اور بڑے لوگوں سے ہراساں کم ظرفوں پہ تنقید کی ہے۔جو ہمیشہ ہی عظیم لوگوں کے بڑے کارناموں سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ کہیں ان کی باتوں کی سلطنت ڈھے نہ جائے۔ اس حکایت میں بھی بڑی عمدگی سے جبران اپنی مقصدیت کے پرچار میں کامیاب ہوا ہے۔ واقعی میں جو مشاہدے کی طاقت ہے وہ ہر ایک کے پاس نہیں ہو سکتی۔
3۔عقل مند کُتا
”ایک دن عقل مند کتا بلیوں کی اِک ٹولی کے پاس سے گزرا جب وہ ان کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ اس سے منھ موڑے بیٹھی ہیں۔ اس کے آنے کی کسی کو پروا نہیں، اسے بڑا تعجب ہوا اور وہ اپنے قدم روک کران کے متعلق سوچنے لگا۔ وہ انھیں تک رہا تھا کہ ان میں سے ایک موٹی تازی بلی اٹھی جس کے چہرے پر وقار اور جلال کے آثار تھے اور اپنی سہیلیوں کی طرف دیکھ کر بولی۔ دین دار بہنو: دعا کرو، میں تم سے سچ کہتی ہوں کہ اگر تم نے دعا مانگی اور ایمان کی حرارت کے ساتھ بار بار اس کا اعادہ کیا تو تمھاری التجا قبول ہو گی۔ اور اسی وقت آسمان سے چوہے برسنے لگیں گے۔عقل مند کتے نے جب یہ بلیغ و عظ سنا تو دل ہی دل میں ان پر ہنسا اور اپنے آپ سے یہ کہتا ہوا واپس ہو گیا۔ کتنی جاہل ہیں یہ بلیاں اور کتنی اندھی ہیں ان کی بصیرتیں، کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کے ادراک سے کیا لکھا ہوا نہیں؟ بلکہ کیا میں نے خود نہیں پڑھا اور میرے بزرگوں نے مجھے نہیں بتایا کہ دعاؤں اور التجاؤں کے قبول ہونے پر آسمان سے چوہے نہیں ہڈیاں برستی ہیں۔“(10)
اس حکایت میں بڑے دلچسپ انداز میں انسانی وحیوانی جبلت و سرشت کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ہر انسان ہمیشہ کسی بھی بات کو اپنے فائدے کے مطابق پرکھتا ہے اور دوسری اہم بات کہ جب دوسروں کے مطلب ان کے اپنے مطابق نکلنا شروع ہوتے ہیں تو ہم پھر بھی انھیں ان کے فوائد میں سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ جیسے بلیوں کیلئے اگر چوہے ناول ہوں گے تو یہ بھی دعا کا ثمر ہے۔ اس کا اجر ہے۔ مگر کتا اس اجر کو تب مانے گا جب آسمان سے دعا کے بدلے چوہے نہیں بلکہ ہڈیاں نازل ہوں گی۔ کیوں کہ ہڈیاں کتے کے فائدےکی اشیا ہیں۔انسانی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے ہی جبران نے کتے کو عقل مند کہا ہے کیوں کہ اس نے اپنے فائدے کا سوچا نہ کہ دوسروں کا۔اس حکایت کی مقصدیت بھی کھل کر واضح ہو جاتی ہے۔
3۔انقلاب
”کسی شہر میں دو عالم رہتے تھے۔ دونوں بہت ہی قابل اور تجربہ کار اور ذی شعور تھے۔ لیکن نظریاتی اختلافات کے باعث وہ دونوں آپس میں جھگڑتے رہتے تھے۔ ان میں سے ایک خدا پرست تھا اور دوسرا خداکامنکر۔
ایک دن بازار میں دونوں کی ملاقات ہوئی وہاں دونوں کے معتقدین بھی موجود تھے۔ دونوں کے درمیان وہاں خدا کے وجود اور عدم پر بحث ہونے لگی۔ گھنٹوں تک بحث کرنے کے بعد وہ ہار جیت کا فیصلہ کیے بغیر ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔(خدا کا منکر) عالم وہاں سے سیدھا عبادت خانہ آگیا اور سجدے میں گر کر خدا سے اپنے عقائد کی معافی مانگنے لگا۔خدا پرست عالم نے گھر پہنچ کر اپنی کتابیں جلا دیں کیوں کہ وہ اب (خدا کا منکر)بن چکا تھا۔“(11)
اس حکایت کے بعد اکبر الہ آبادیؔ کا شعر یاد آتا ہے۔
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اورسِرا ملتا نہیں(12)
اس کے علاوہ اکبر ؔ ہی کا ایک اور شعر ہے۔
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں(13)
مندرجہ بالا حکایت سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ لفظوں،دلیلوں، منطقوں اور باتوں سے خدا کا وجود اور عدم ثابت نہیں کیا جاسکتا اور اگر کوئی ایسا اقدام کرے گا تو سوائے افسردگی اور بے چارگی کےاس کےہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔اس کے علاوہ اس حکایت میں یہ درس بھی دیا گیا ہے کہ اگر کوئی خدا کو ماننے والا، دہریے سے بحث کرے گا تو اپنا ایمان بھی خراب کرے گا۔اور کوئی دہریہ اگر خدا کے ماننے والے سے بحث کرے گا تو اپنے عقائد کو بھی وہ متزلزل کر دے گا۔ اور دونوں میں انقلاب کی سی تبدیلی آجائے گی اور ان کے عقائد کی جڑیں بالکل کھوکھلی ہو جائیں گی۔اس کے ساتھ ساتھ اس حکایت سے ایک اور بھی مقصدیت نکالی جا سکتی ہے اور وہ ہے خدا ایک متھ(Myth) ہے۔ جس کے عدم اور وجود پہ بحث کرنا بذاتِ خود عبث ہے۔
4۔ مہمان نواز
”ایک مہمان بھیڑئیے نے غریب بکری کے بچے سے کہا: کیا آپ میرے غریب خانہ کو اپنی تشریف آوری سے عزت بخشیں گے،بکری کے بچے نے جواب دیا۔جناب کی ملاقات میرے لیے بڑے فخرو ناز کا سبب ہوتی اگر آپ کا دولت خانہ آپ کا معدہ نہ ہوتا ۔“(14)
اس حکایت میں خلیل جبران نے چپڑی میٹھی باتیں کرنے والے اور خوشامد کرنے والے شخص سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ اور ہمیشہ خوشامدی شخص کی کسی بھی دعوت سے پرہیز کرنی چاہیئے،نہیں توآپ کیلئے نقصان ثابت ہو سکتا ہےاور بعد میں وہ آپ سے کسی کام کا مطالبا بھی کر سکتا ہے۔اس حکایت میں بھی جبران پوری طرح اپنی مقصدیت بیان کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
خلیل جبران اپنے اسلوب اور حکایت کے پلاٹ کی بُنت کی وجہ سے بڑی آسانی سے اپنا مقصد بیان کر جاتا ہےاور یہی بات کسی بھی مصنف کو عظیم بناتی ہے۔
حوالہ جات
1۔ آصف حسن، ”خلیل جبران (پیش لفظ)“مشمولہ جبرانیات،سٹی بک پوائنٹ،کراچی،س ن،ص۷
2۔ یاسر جواد، ایڈیٹر،انسائیکلوپیڈیا ادبیاتِ عالم، اکادمی ادبیاتِ پاکستان، اسلام آباد،۲۰۱۳، ص۱۶۷
3 ۔ https://en.m.wikipedia.org/Khalil-gibran Time 16:27
4۔ محمد امین بھٹی، الحاج،اظہر للّغات، اطہر پبلشرز، لاہور، س ن،ص۳۱
5۔ روف پاریکھ،اوکسفرڈ اردو انگریزی لُغت،اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس کراچی،۲۰۱۳،ص۵۲۸
6۔ جمیل جالبی،ڈاکٹر،قومی اردو انگریزی لغت، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، اسلام آباد، ۱۹۹۱ ،ص ۷۱۶
7۔ حفیظ صدیقی، ابوالااعجاز، ادبی اصطلاحات کا تعارف، ناشر:اسلوب،لاہور ۲۰۱۵ ء،ص۲۰۷
8۔ آصف حسن، جبرانیات،سٹی بک پوائنٹ، کراچی،س ن ،ص۱۲
9۔ ایضاََ،ص۱۳
10۔ ایضاََ،ص۱۶۷
11۔ ایضاََ،ص۲۰
12۔اکبر الہ آبادی، کلیاتِ اکبر،کتابستان، کراچی ،1948،ص۱۷
13۔ ایضاََ،ص۱۶۰
14۔ آصف حسن، جبرانیات،سٹی بک پوائنٹ، کراچی،س ن ،ص۳۸
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!