منشی پریم چند کے افسانہ “کفن: کا تنقیدی جائزہ
شہلا پروین، موضع: کھدیرمپلی، پوسٹ باگڈوگرا، ضلع : دارجلنگ، مغربی بنگال
Mobile- 9563801536
Salehaparween90@gmail.com
پریم چند سے قبل اردو افسانے کے نقوش انتہائی دھندلے ہیں۔ افسانہ بحیثت صنف ادب پریم چند کی دین ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اردو کے افسانوی ادب کا رشتہ زمین سے جوڑا اور ہندوستان کی دیہی زندگی کے مسائل کو افسانوں کا موضوع بنایا۔ وہ افسانوی ادب جو محض بادشاہوں، شہزادوں، مافوق الفطرت عناصر اور جادوگروں وغیرہ کے بیان تک محدود تھا، اس میں پہلی بار گاؤں کے مسائل، عام انسانوں کے دکھ، درد، غم اور خوشی کے منظر بھی دیکھنے کو ملے۔ “پوس کی رات” ہو یا “بوڑھی کاکی”” پنچایت” ہو یا “عیدگاہ” ” نمک کا داروغہ” ہو یا “بڑے گھر کی بیٹی” پریم چند نے کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ انہوں نے اردو کے افسانوی ادب کو صحیح معنوں میں نہ صرف عکس حیات بلکہ تنقید حیات کے درجے پر پہنچا دیا۔
کفن پریم چند کی زندگی کی آخری تخلیقات میں سے ایک ہے جس میں زندگی بھر کا علم، تجربہ اور شعور جھلک آیا ہے۔ پریم چند اپنی مختصر زندگی میں مختلف قسم کے حادثات وہ تجربات سے گزرے جس کی وجہ سے فکر و نظر کے حوالے سے بھی کئی موڑ اور پڑاؤ آئے۔ کفن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ یہ جذبہ اور فلسفہ باطنی سطح پرجھلکتا دکھائی دیتا ہے۔اس کےعلاوہ فنی سطح پر بھی جو پختگی اس افسانے میں دکھائی دیتی ہے وہ ان کے دیگر افسانوں میں کم نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفن صرف اردو کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے افسانوی ادب کے چند بڑے افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اردو کے بعض نقاد تو اسے دنیا کے بڑے افسانوں میں شمار کرتے ہیں۔
کفن پریم چند کا شاہکار افسانہ کہا جاتا ہے۔ مسلسل بھوک، استحصال اور سماجی جبر انسان سے کس طرح بنیادی انسانی اوصاف چھین لیتا ہے، اس کی عکاشی پریم چند کے افسانے میں کی گئی ہے۔ مادھو اور گھیسو صرف اس لیے دم توڑتی ہوئی بدھیا کے پاس نہیں جاتے کہ اگر ایک گیا تو دوسرا ان آلوؤں کو کھا جائے گا جو وہ کھیت سے کھود لائے تھے۔ بدھیا کے مرنے کے بعد ہاتھ آئے کفن کے پیسوں کو بھی وہ شراب وہ کباب میں خرچ کر دیتے ہیں اور پھر مختلف تاویلوں سے اپنے ضمیر کی آواز دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے مکارانہ طرز عمل سے خوش اور مطمئن ہے کیونکہ وہ ان کسانوں سے تو بہتر ہیں جو جی تور محنت کرتے ہیں اور دوسرے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور وہ بیچارے اپنی سادہ لوحی کے باعث ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں۔ اس طرح پریم چند کا یہ افسانہ پلاٹ، کردار نگاری، فطری مکالموں اور دیگر فنی خوبیوں کی بنا پر اردو کے اہم ترین افسانے کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔
اس افسانے کا پہلا اور بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ایک ایسے دو کرداروں کے ذریعہ شروع ہوتا ہے جن کی سماج میں کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ نااہل ہیں، کام چور ہیں اور بے حس بھی ہیں چوری چماری کرکے کسی طرح پیٹ بھرتے ہیں ان دونوں کرداروں کا پریم چند یوں تعارف کراتے ہیں۔
”چماروں کا کنبہ تھا اور سارے گاؤں میں بد نام۔ گھیسو ایک دن کام کرتا تو تین دن آرام۔ مادھو اتنا کام چور تھا کہ گھنٹہ بھر کام کرتا تو گھنٹہ بھر چلم پیتا۔ اس لئے انہیں کوئی رکھتا ہی نہیں تھا۔ گھر میں مٹھی بھر اناج ہو تو ان کے لئے کام کرنے کی قسم تھی…… گھر میں مٹی کے دو چار برتنوں کے سوا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔ پھٹے چیتھڑوں سے
اپنی عریانی ڈھانکے ہوئےدنیا کے مکروں سے آزاد قرض سے لدے ہوئےگالیاںبھی کھاتے تھےمگر کوئی غم نہیں…..
مٹر یا آلوکی فصل میں کھیتوں سے مٹر یا آلو اکھاڑلاتے اور بھون بھون کر کھاتے- ” ٢
افسانے کی ابتدا بھی آلو کھانے سے ہوتی ہے کہ دونوں باپ بیٹے جھونپڑے کے باہر الاؤ جلائے دوسرے کے کھیت سے چرائےہوئے آلو بھون کر کھا رہے ہیں اور جھونپڑے کے اندر گھیسو کی بہو اورمادھو کی بیوی بدھیا دردِ زہ سے تڑپ رہی ہے اس کی چیخ سن کر گھیسو مادھو سے کہتا ہے۔
”جا دیکھ تو آ”
لیکن مادھو جھنجھلا کر کہتا ہے
مرنا ہے تو جلدی مر کیوں نہیں جاتی۔ دیکھ کر کیا آؤں……” ٣
اور وہ اس لیےبھی اندر نہیں جاتا کہ اسے اندیشہ ہے کہ وہ اندر گیا تو اس کے حصے کا آلو اس کا باپ کھا جائے گا۔احساس کی یہ ستم ظریفی بے حسی ان انسانی و اخلاقی اقدار کی پامالی کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں غربت و افلاس اپنی انتہا پر پہنچ کر سارے اقتدار کو تہس نہس کر دیتی ہے۔ جہاں دو طرح کا احساس، اخلاق، شرافت، حمیت،غربت کا کوئی وجود نہیں رہ جاتا۔
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ پریم چند نے بدھیا کے کردار کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ جبکہ بدھیا پورے افسانے میں پس پردہ رہنے والی ایک غیر فعال کردار ہے۔ صرف اس کے وجود کا احساس ہوتا ہے لیکن افسانے کی پوری کہانی اسی کردار پر منحصر ہے۔ بدھا کا کردار ایک ایسی عورت کا کردار ہے جو بیوی ہے اور مادھو کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ ایک ایسےغریب گھر میں بیاہ کر آئی ہے جہاں غربت ہی غربت ہے لیکن اس کے باوجود اس عورت نے ایک خستہ حالی اور بے حسی کی دنیا میں ہلکی سی جان ڈال دی ہے۔وہ بے چاری دوسروں کے گھروں میں پسائی کر کے اور گھاس چھیل کر دونوں باپ بیٹے کا پیٹ بھرتی تھی۔ ذرا یہ جملے دیکھیے۔
”جب سے یہ عورت آئی تھی اس نے خاندان میں تمدن کی بنیاد ڈالی تھی۔ پسائی کر کے، گھاس چھیل کر وہ سیر بھر آٹے کا انتظام کرلیتی اور ان دونوں بے غیرتوں کا دوزخ بھرتی رہتی تھی۔ ” ٤
اس اقتباس کے پہلے جملے کو غور سے دیکھئے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے ہمارے گھر اس کے بعد ہمارے سماج کی تمدن و تہذیب کی بانی عورت ہوا کرتی ہے۔ عورت کے دم سے زندگی میں زینت ہے انتظام ہے۔ عورت کا اتنا بڑا احترام اردو کے افسانوی ادب میں کم دیکھنے کو ملتا ہے ورنہ زیادہ تر عورت محبوب و معشوق ہے اور اس کے حسن کے ہی چرچے ہیں۔
آج بدھیا صبح سے درِدزہ میں تڑپ تڑپ کر پچھاڑیں کھا رہی ہےلیکن بدھیا کے چیخ کا دونوں باپ بیٹے پر کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا۔ وہ تو بس چرائے ہوئے آلوؤں کو بھون کر کھانے میں مصروف ہیں۔ صبح جب مادھوبدھیا کو دیکھنے کوٹھری میں جاتا ہے تو بدھیا مری پڑی ہوتی ہے۔ اس منظر کو پریم چندنےیوں بیان کیا ہے:
”صبح کو مادھو نے کوٹھری میں جاکر دیکھا تو اس کی بیوی ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ اس کے منہ پر مکھیاں بھنک رہی تھیں۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں اوپر ٹنگی ہوئی تھیں۔ سارا جسم خاک میں لت پت ہو رہا تھا۔ اس کے پیٹ میں بچہ مر گیا تھا۔”٥
اب دونوں باپ بیٹوں کو اس کے کفن دفن کی فکر ہوتی ہے۔ چنانچہ انتہائی ڈرامائی انداز میں دونوں آہ و زاری کرنے لگتے ہیں کچھ اس طرح کے باوجود یہ کہ گاؤں والے دونوں کو کام چور اور نااہل سمجھتے ہیں پھر بھی رسم قدیم کے مطابق ان کی تشفی کرتے ہیں اور مدد کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ نا کافی مدد کو دیکھتے ہوئے دونوں باپ بیٹے گاؤں کے زمیندار کے پاس جاتے ہیں۔ زمیندار بھی ان نااہلوں سے نفرت کرنے کے باوجود ان کی مدد کرتا ہے۔ ایک گھنٹے میں ہی جب پانچ روپئے کی معقول رقم جمع ہو جاتی ہے تو یہ دونوں کفن خریدنے کے غرض سے بازار جاتے ہیں۔
٦”کیسا برا روا ج ہے کہ جسے جیتے جی تن ڈھانکنے کو چیتھڑا بھی نہ ملے اسے مرنے پر نیا کپھن چاہئے۔”
یہ الفاظ اپنے اندر بے شمار تکلیفوں کا احساس لئے ہوئے ہیں جس کے سہارے وہ سسکتے ہوئے عوام کی تصویر کشی کرتے ہیں ،سماج کے کٹھور پن کو دکھاتے ہیں اور ہمیں غیر شعوری طور پر احساس بھی دلاتے ہیں کہ ہم رسم و رواج کے کتنے سخت بندھنوں میں جکڑے ہیں۔ جب مادھو اپنے باپ سے کہتا ہے کہ:
”کپھن لاس کے ساتھ جل ہی تو جا تا ہے-“
تو گھیسو جواب دیتا ہے:
”اور کیا رکھا ہے یہی پانچ روپے پہلے ملتے تو کچھ دوا دارو کے کام آتے۔” ٧
اس طرح کی گفتگو کرتے کرتے دونوں شراب خانے تک پہنچ جاتے ہیں۔ پوریاں اور گوشت کھاتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں، مرنے والی کو دعائیں دیتے ہیں کہ اس کے مرنے کے بعد ہی یہ عیش ملا ۔ گویا ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوگئی۔ نشے کی حالت میں گھیسو کہنے لگا:
”کفن لگانے سے کیا ملتا ہے۔ آکھر جل ہی تو جاتا ہے۔ کچھ بہو کے ساتھ تو نہ جاتا۔”
اور جب اس پر بھی تشفی نہیں ہوئی تواپنی خوداطمنانی کا جواز یہ کہہ کر فراہم کرتا ہے :
”بڑے آدمیوں کے پاس دھن ہے، پھونکیں۔ ہمارے پاس پھونکنے کو کیا ہے؟” ٨
کفن دفن کی مذہبی ،اخلاقی،اور انسانی رسومات کو پشت ڈالتے ہوئے دونو باپ بیٹے کھانا کھانے اور شراب پینے کے بعد بد مست ہو کر مے خانے کے سامنے بے ہوش ہو جاتے ہیں -بدھیا کی بے کفن لاش ،کفن کے انتظار میں کوٹھری مے ہی پڑی رہتی ہے –
لیکن مادھو بہر حال جو ان ہے اور نادان بھی۔ شراب کے نشے میں بھی اس کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے۔
”جو وہاں ہم لوگوں سےوہ پوچھے گی کہ تم نے ہمیں کپھن کیوں نہیں دیا تو کیا کہو گے۔تو گھیسو بڑے اعتماد سے جواب دیتا ہے-
”تو کیسے جانتا ہےکہ اسے کپھن نہ ملے گا۔ تو مجھے ایسا گدھا سمجھتا ہے۔ میں ساٹھ سال دنیا میں کیا گھاس کھودتا رہا ہوں۔ اس کو کفن ملے گا اور اس سے بہت اچھا ملے گا جو ہم دیتے ہیں وہی لوگ دیں گے جنہوں نے اب کی دیا ہے۔ ” ٩
گھیسو کا یہ غیر معمولی اعتماد رحم دل لوگوں اور خوف رکھنے والوں پر غیر معمولی طنز کرتا ہے۔ دونوں کفن خرید کر پورے سماج پر گہری چوٹ کرتے ہیں۔ انہیں سماج کی اور بالخصوص امیر طبقے کی کمزوریوں کا احساس ہی نہیں عرفان ہے اسی لیے تمام تکالیف کے باوجود انہیں ہر طرح کا اعتماد اور اطمینان ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں کرداروں بالخصوص تجربہ کار گھیسوہ کا یہ جملہ مخصوص قسم کے معاشرتی طنز میں ڈوبا ہوا ملتا ہے۔
بھوک اس افسانے کا بنیادی استعارہ ہے پریم چند نے بھوک کی شدت کو اس طرح پیش کیا ہے کہ خون کے رشتے، معاشرتی روایات اور مذہبی رسوم کی اہمیت ثانوی ہو کر رہ جاتی ہے۔ کفن ہر مردے کے لئے ضروری ہے لیکن افسانہ ‘کفنئےمیں اس کی ضرورت کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ جس کو جیتے جی ایک معمولی چیتھڑا نصیب نہ ہوا اس کے لیے کفن کیوں لازمی ہے اس طرح کے بیانات گھیسو اور مادھو کے مکالمات کے ذریعے سامنے آتے ہیں۔ بھوک کی شدت اور اس شدت کے پیش نظر غیر انسانی صورتحال پیش کرنے میں پریم چند نے ‘کفن میں سطحی اور وضاحتی اظہار سے احتجاج کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پریم چند نے گھیسو اور مادھو مردہ بدھیا کے لیے کفن خریدنے کے بجائے انہیں ان روپیوں سے پوریاں کھا کر اور شراب پی کر حیوانوں کی طرح بد مست ہوتے دیکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انتہائی مفلسی اور شدید بھوک کی وجہ سے انسان کی انسانیت کس طرح مر جاتی ہے۔
افسانے کا مرکزی خیال دراصل وہ معاشرتی نظام ہیں جہاں سب کچھ بے ترتیب اور بے مقصد ہیں جس کی وجہ سے ایک بڑے اور کمزور طبقے کا مسلسل استحصال ہوتا رہتا ہے اور استحصال کے نتیجے میں یہ طبقہ اور بڑا ہوتا جا رہا ہے جو نہ صرف بے بس اور کمزور ہے بلکہ جس کا کوئی یار و مددگار بھی نہیں۔
پریم چند نے افسانہ ‘کفنمیں دیہات کی اسی زندگی کا خاکا پیش کیا ہے، جہاں غربت ہے، افلاس ہے، بدحالی ہے، زمیندارانہ ماحول اور استحصال ہے۔ محنت کرنے کے بعد بھی تنگ دستی اور فاقہ کشی ہے۔ اس مخصوص معاشرے اور سیاسی نظام میں پرورش پانے والے ماحول میں چماروں کے کنبے کی کیا حیثیت ہو سکتی تھی کہ کام کاج کے باوجود انہیں محنت کا صلہ نہیں ملتا تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ گھیسو اور مادھو کس قدر کا ہل، سست، کام چور اور لاپرواہ ہو گئے تھے۔ ‘کفنکے تناظر میں پریم چند نے طبقاتی کشمکش کی جانب بھی بعض مقامات پر نہایت واضح اور معنی خیز اشارے کیے ہیں۔ پریم چند گھیسو اور مادھو کی حالت زار کا موازنہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
”جس سماج میں رات دن محنت کرنےوالوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی، اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھےوہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیداہو جانکوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم تو کہیں گے گھسو کسانوں کے مقابلے میں زیادہ باریک بین تھا۔ اور کسانوں کی تہی دماغجمعیت میں شامل ہونے کے بدلے شاطروں کی فتنہ پرداز جماعت میں شامل ہو گیا تھا۔ ہاں اس میں یہ صلاحیت نہ تھی کہ شاطروں کے آئین و آداب کی پابندی بھی کرتا۔ اس لئے جہاں اس کی جماعت کے اور لوگ گاؤں کے سرغنہ اور مکھیا بنے ہوئے تھےاس پر سارا گاؤں انگشت نمائی کر تا تھا۔ پھر بھی اسے یہ تسکین تو تھی ہی کہ اگر وہ خستہ حال ہے تو کم سے کم اسے کسانوں کی سی جگر توڑ محنت تو نہیں کرنی پڑتیاور اس کی سادگی اور بے زبانی سے دوسرے بےجا فائدہ تو نہیں اٹھاتے” ١٠
پریم چند کے دیہاتی کردار ہندوستانی مشترکہ تہذیب، اخلاقی اقدار اور قومی یکجہتی کے امین و علمبردار ہیں بلاشبہ اردو افسانوی ادب کی تاریخ میں پریم چند کے کردار نہ صرف ایک اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ اردو افسانوی ادب کے خزینے میں گوہر بے بہا کے مترادف ہیں۔ بقول علی جوادزیدی:
”پریم چند کے یہاں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں حیثیت رکھتی ہے وہ دیہاتی زندگی کی صحیح اور ہوبہو مرقع کشی ہے۔ ان کے افسانوں کو پڑھتے وقت یہ چونکا دینے والا احساس ہوتا ہے کہ ہم انہی لوگوں کے حرکات و سکنات کا زندگی بھر مطالعہ کرتے رہے جو ہمیں میں سے ہیں۔ ان کو آئے دن ہم سے سابقہ پڑا کرتا ہے۔ مگرجس زندگی میں اب تک ہمارے لئے کشش یا دلکشی کا کوئی سامان نہیں تھا وہی پریم چند کے قلم کی ادنیٰ سی جنبش کی بدولت اتنی لطیف اور پر کیف بن جاتی ہے کہ ہم ایک لذت محسوس کرنے لگتے ہیں ۔اپنے پن کی لذت اور پھر یہ لذت ایک جذبۂ غم بھی بہت پہلو بہ پہلو پیدا کرتی ہے۔ کسانوں کی زبوں حالی اور زمینداروں، پولیس والوں اور سرمایہ داروں کی چیرہ دستیوں کا حال پڑھ کر آنکھیں ہمدردی اور
احساس عمل کے آنسوؤں سے بھیگ جاتی ہے۔ ” ١١
بقول عبدالماجد دریا بادی : ” شہر کی زندگی کی نقاشی تو بہتوں نے کی ہے پر کھیت کے مینڑوں پر کوئی کم ہی چلا ہے۔ دیہات کی چوپالوں اور جھونپڑیوں میں کم ہی کسی کے قدم گئے ہیں۔ پریم چند کے قلم کا اصل جوہر یہی ہے کہ فن کے دوسرے لوازم میں تو ان کی نظیر مل بھی جائے گی لیکن جہاں تک ہندوستانی عناصر اور دیہی زندگی کی مصوری کا تعلق ہے، پریم چند کے جوڑ پر کوئی نظر نہیں پڑا۔ دیہات کے جس جس منظر کاسماں دکھلاتے ہیں دور سے بتلاتے نہیں گویا اٹھا کر پہنچا دیتے ہیں۔” ١٢
پریم چند کی کردار انسانی زندگی کے تلخ حقائق اور بطور خاص دیہاتی زندگی کے مسائل اور ہندوستانی دہی معاشرت و عناصر کا جیتا جاگتا مرقع کہے جانے کے مترادف ہیں۔ اردو افسانوی ادب کی تاریخ میں پریم چند کی یہ کردار حق گوئی وحق بیانی، حقیقت پسندی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور صداقت بیانی کے زندہ جاوید پیکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بقول پروفیسراحتشام حسین :
”یہ پریم چند کا ہی کام تھا کہ انہوں نے محنت کش عوام کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا ہیرو بنایا۔ اور اس دنیا کی تصویر کھینچی جو سب سے زیادہ جاندار ،سب سے زیادہ حقیقی اور سب سے زیادہ انسان دوستی کی مظہر تھی۔ پریم چند پہلے ادیب ہیں جنہوں نے شعوری طور پر ادب کے ذریعے بطور خاص ہندوستانی عوام کے مسائل کو سمجھنے میں انسان دوستی کی طرف اپنا قدبڑھایا –”١٣
پریم چند جب تک گاندھیائی اثرات کے تحت رہے، ایسی ناانصافیوں کا ذکر ضرور کرتے رہے لیکن ایک مخصوص شرافت و تہذیب کے ساتھ لیکن اشتراکیت سے متاثر ہونے کے بعد ان کے قلم میں دھار آجاتی ہے۔ کفن کے مکالموں میں دھار ہے۔ یہ افسانہ صرف ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ دنیا کے سماجی نظام کے کھوکھلے پن کو پیش کرتا ہے۔ گھیسو اور مادھو صرف ہندوستانی کردار نہیں ہے بلکہ آفاقی ہیں۔ اس لئے اس افسانے میں جو بے لاگ اور بے رحم حقیقت نگاری آگئی ہے وہ ان کے کم افسانوں میں نظر آتی ہے۔بقول وقار اعظیم:
”کردار نگاری میں شعور کی رو کا استعمال پریم چند نے اس چابکدستی سے اپنے کسی اور افسانے میں نہیں کیا۔ اشاروں ہی اشاروں میں انہوں نے ماضی اور حال کے واقعات کے درمیان ایک ایسا ربط پیدا کیا ہے کہ پڑھنے والا ذرا سی دیر کو بھی اپنے ذہن کو افسانے کے بنیادی خیال کے اثر سے الگ نہیں کر سکتا۔” ١٤
(نیا افسانہ ص 65 )
اردو کے روایتی سانچوں میں ڈھل گے افسانوں کے مقابلے میں کفن نہ صرف جدید فن افسانہ نگاری کی اعلی ترین مثال ہے بلکہ اس کا پلاٹ، کردار سب کچھ اس قدر فنکارانہ انداز میں پیش کیے گئے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ افسانہ نہ صرف پریم چند کا شاہکار ہے بلکہ اس افسانے سے جدید افسانے کے فن کا آغاز بھی ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
والہ جات :
١. پریم چند کے اسلوب کا ایک پہلو، امکان ممبئی١٩٨٠ ،صفحہ- ١٧٥
٢. پریم چند کے بہترین افسانے؛ خواجہ محمّد زکریا ١٩٧٥ ،صفحہ-٢٢١ -٢٢٢
٣. پریم چند کے نمائندہ افسانے،مرتبہ،ڈاکٹر قمررئیس،ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ،١٩٨٦،صفحہ -٢٢٤
٤. پریم چند کے بہترین افسانے؛ خواجہ محمّد زکریا ١٩٧٥ ،صفحہ-٢٢٣
٥. پریم چند کے بہترین افسانے؛ خواجہ محمّد زکریا ١٩٧٥ ،صفحہ-٢٢٦
٦. پریم چند کے بہترین افسانے؛ خواجہ محمّد زکریا ١٩٧٥ ،صفحہ-٢٢٨
٧. پریم چند کے نمائندہ افسانے،مرتبہ،ڈاکٹر قمررئیس،ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ،١٩٨٦،صفحہ -٢٣٠
٨. پریم چند کے نمائندہ افسانے،مرتبہ،ڈاکٹر قمررئیس،ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ،١٩٨٦،صفحہ -٢٣٠
٩. پریم چند کے نمائندہ افسانے،مرتبہ،ڈاکٹر قمررئیس،ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ،١٩٨٦،صفحہ – ٢٣١-٢٣٢
١٠. پریم چند کے بہترین افسانے؛ خواجہ محمّد زکریا ١٩٧٥ ،صفحہ-٢٢٤
١١. بحوالہ-زمانہ:پریم چند نمبر ،
١٢. بحوالہ-زمانہ:پریم چند نمبر ،
١٣. بحوالہ-پریم چندہنس راج رہبر ، صفحہ -١٣
١٤. نیا افسانہ، صفحہ – ٦٥
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!