بچوں کے ادب میں لوری کی اہمیت

برکت شاہ، سینئرسی ٹی گورنمنٹ شہید عمر حیات ہائیر سیکنڈ ری سکول نمر1 چارسدہ، پاکستان

ABSTRACT

Berceuse is one of the important emotional and lovely part of literature especially literature for kids. It is basically a quite song intended to lull a child to sleep and established where of the word in specific and particular form according language atmosphere and civilization. It is basically pray, love and emotional expressions of mother for infants which is a magical mechanism for their sleeping and rest. It contains short stories of legends, heroes and sometime of bold and brave soldiers. Berceuse is very famous in all languages of our country especially in Pashto, Urdu and Punjabi. The importance of berceuse is remarkable in kid’s literature because the infant also feels its effect of love, satisfaction and security, berceuse is the collections of all love, affection and peace which show the heart and soul wanted dreams and hopes of a mother for her kid.

اُردو خلاصہ

کوئی بھی گیت یا شاعرانہ جملے جنہیں عورتیں بچوں کو سُلانے یا روتے ہوئے بچے کو چُھپ کرانے کے لیے آہستہ آہستہ سُر میں گاتی ہے۔لوریاں بچوں کو پیار سے نیند کی وادی میں لے جاتی ہیں اور ان میں والدین کی مامتا اور شفقت اور دوسری رشتہ داروں کے بچوں کے بارے میں جذبات ، نیک خواہشات ، آبا واجداد اور بزرگوں کی بہادری کے کارنامے اور دُعائیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ گیت کوئی خاص وزن بحر ، تکنیک یا ہیٔت نہیں رکھتا مگر اس کی زبان اور بیان پڑھنے والے کو فوراً یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ لوک گیتوں کی صنف لوری پڑھ اور سن رہا ہے کیوں کہ اس گیت میں ماں کی مامتا کے ایسے جذبات کی خوشبو ہوتی ہے جو  پڑھنے اور سننے والوں کو مسحور کر دیتی ہے۔ ‘‘لوری’’ نہ صرف بچے کے لیے اچھی نیند لانےکا سبب بنتی ہے بلکہ بچے کے مستقبل کو بھی سنوارنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ماں کی لوری کے ذیر سایہ سونے والا بچہ خود کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہے جس کا اس کی جسمانی ، ذہنی ونفسیاتی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ جب بھی اپنی ماں کو رات کے وقت لوری گنگناتے ہوئے سُنتا ہے تو وہ نسبتاً زیادہ پُر سکون ہو کے سو جاتا ہے۔

کلیدی الفاظ:

                لوری، مامتا، نیند، مسحور، پر سکون ،جذبات ، احساسات، فوق الفطرت ، تمدن،

جذبات، احساسات، اظہار  اور تکلم وہ عناصر ہیں جن سے فطرتِ انسانی کا خمیر گوندھا گیا ہے۔یہ سچ ہے کہ ابتدا میں حضرتِ انسان نے اشاروں کنایوں کو اظہار کا وسیلہ بنایا لیکن جیسے جیسے وہ تمدنی زندگی میں داخل ہوتا گیا اس کے اظہار کا طریقہ بھی مختلف اور بامعنی ہوتا گیا۔ اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں چھوٹی بڑی مختلف زبانوں کی ایک کثیر تعداد بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ان میں سے ہر زبان کی اپنی ایک لسانی اور ادبی تاریخ موجود ہے جو اس زبان کے امکانات کو روشن کرتی ہے۔جہاں تک کسی زبان میں تخلیقی ادب اور اصنافِ ادب کا تعلق ہے تو اس کا معیار اور مقدار اس زبان کی توانائیوں پر منحصر ہے۔ ادب کے مقصد اور منصب کے سلسلے میں مختلف ادوار میں مختلف نظریات کا اظہار کیا گیا ہے مگر ان تمام خیالات کی تہ میں جو مفہوم ادب کے بارے ہمیں مشترک نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ ادب اور انسانی زندگی آپس میں اس قدر مربوط ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصّور ممکن نہیں۔ ادب نہ صر ف زندگی کا ترجمان اور ناقد ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ ہمارے رہن سہن کا ایک لازمی جزوبھی ہے۔ ادب سے شائستگی، تمیز، لحاظ، تہذیب اور علمِ زبان مراد لیا جاتا ہے۔ پروفیسر انور جمال کے مطابق:

”ادب کی اصطلاح فن  کے ایک مقبول تخلیقی شعبے سے متعلق ہے لیکن مجلسی آداب، مہمان نوازی، تعلیم و تعلم، صرف نحو اور زبان دانی کے مفاہیم بھی اس میں شامل ہیں۔“(۱)

مذکورہ اقتباس کی روشنی میں دیکھا جائے تو کسی بھی زبان اور معاشرے کے ادب کو اس کی بنیاد سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں ہمیں کسی خاص تہذیب اور معاشرت کی مجموعی نفسیات کا پتا چلتا ہے۔ گویا یہ کہنا درست ہوگا کہ ادب کا مطالعہ زندگی کی کسی یک رخی تصویر کا مشاہدہ نہیں بلکہ اس میں ہمیں انفرادیت سے اجتماعیت تک وہ نیرنگیاں نظر آتی ہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ حیاتِ انسانی کا احاطہ کرتی ہیں۔اس ضمن میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی درج ذیل رائے کو محلِ نظر رکھا جائے تو یہ بات مزید واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘ادب، زندگی کے اظہار کا نام ہے۔ ادب چونکہ لفظوں کی ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے اور ان لفظوں میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبے، احساس یا فکر و خیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔’’(۲)

درج بالا تعریف کی رو سے ہر وہ بات ہم ادب میں شامل کر سکتے ہیں جس سے کسی جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ادب میں لفظوں کی ترتیب اور تاثیر کی اپنی مسلّمہ اہمیت ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ہر زبان کے ادب کو مختلف اصناف میں تقسیم کیا جاتا ہے ان میں سے ہر صنف اپنے خاص سانچے اور قواعد و ضوابط کے ساتھ اپنا ارتقائی سفر طے کرتی ہے۔  دنیا کی کسی بھی بڑی زبان میں تخلیقِ ادب کو ہم دو بڑی سطحوں پر دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ ایک بچوں کے لیے لکھا گیا ادب دوسرا بڑوں کے لیے لکھا گیا ادب۔ اب ظاہر ہے جس طرح یہاں دو درجے قائم کیے گئے ہیں اسی طرح ان دونوں قسموں کے لیے معیار کی درجہ بندی بھی مختلف ہو گی۔ یعنی جو معیار اور تقاضے بڑو ں کے ادب سے وابستہ ہیں ان پیمانوں کو سامنے رکھ کر ہم بچوں کا ادب تخلیق نہیں کر سکتے۔ دونوں کے لیے تخلیقی اور تنقیدی معیارات کے پیمانے کبھی ایک ہو ہی نہیں سکتے اس لیے ایک بچہ اور ایک بالغ دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔ بچہ نشو ونما کے مختلف مدارج طے کرتا ہوا تبدیلیوں اور ترقیوں کی منزلوں سے گزرتا ہے تو یہ ایک سست رفتار عمل ہوتاہے جس میں ہر لحظہ زندگی ایک نئے ذائقے سے روشنا س ہوتی ہے اسی لیے بچوں کا ادب ذہنی، لسانی اور عمر کے اعتبار سے بڑوں کے ادب سے مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔

‘‘چونکہ اس عمر میں بچے کو وزن اور عروض کا احساس ہونے لگتا ہے اس لیے وہ منظوم ادب میں زیادہ دل چسپی لیتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی آسان نظمیں گاتا اور گنگناتا ہے۔ کیوں کہ منظوم ادب پر کشش بھی ہوتا ہے اور دل چسپ بھی۔ بچے میں تُک بندی کا شوق بھی اُجاگر ہو جاتا  ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچے تُک بندی خوب کرتے ہیں جب کہ انہیں اوزان کا قطعی احساس نہیں ہوتا۔ بچے کی ذہنی  صلاحیت اس عمر میں ہی واضح ہوتی ہے، اس کی قوت متخیّلہ میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے، اس کا ذہن تیزی سے خیالی دنیا میں پرواز کرتا ہے۔ اسی سبب نظم کے بعد بچہ اگر کسی چیز میں دل چسپی لیتا ہے تو وہ خیالی کہانیاں ہیں’’۔(۳)

 بچوں کے ادب میں اس بات کا بطورِ خاص التزام کیا جاتا ہے کہ طرزِ بیاں اور موضوع کو بچے کی مناسبت سے رکھا جائے۔لیکن امر لازم ہے کہ جس طرح بڑوں کا ادب زندگی سے عبارت ہوتا ہے اسی طرح بچوں کا اد ب بھی ان کی روزمرہ زندگی، کیفیات اور نفسیات کے قریب تر ہونا چاہیے۔

بچہ باہری دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے وہ جن چیزوںکو دیکھتا ہے اور استعمال کرتا ہے ان سب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کو بے تاب رہتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بچے اپنے بڑوں کی زندگی، تجربات، خوف، حیرت اور انکشافات کو جانے کے لیے بھی خواہش مند ہوتے ہیں۔ اپنے آس پاس کی چیزوں اور اشخاص وغیرہ کے بارے میں جاننے کی یہ خواہش اتنی شدید ہوتی ہے کہ سکول کی کتابیں بچوں کو خاطر خواہ معلومات نہیں دے پاتیں کیوں کہ کتابیں تعلیمی نقطۂ نظر سے تیار کی جاتی ہیں اور ان میں فراہم کردہ معلومات کا دائرہ محدود ہوتا ہے۔ وہ بچوں کو تفریح، ذہنی سکون مہیا کرنے اور ان کی  حیرت اور استعجاب کو آسودہ کرنے میں ناکام ہیں۔ اس لیے بچوں کے لیے ایسی کتب کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں تفریح، ذہنی سکون اور زبان کی پختگی عطا کریں اور ہر چیز کے بارے میں ایسے انداز میں معلومات فراہم کریں کہ جن سے بچے کی دلچسپی برقرار رہے۔ نیز  ان کی صلاحیتیں بیدار ہو کر فروغ پا سکیں۔ چنانچہ ایسی ہی کتب بچوں کا ادب کہلائے جانے کی مستحق سمجھی جاتی ہیں جو ان کی نشوونما میں معاون ثابت ہوں۔

برٹنیکا جونیئر انسائیکلو پیڈیا میں بچوں کی کتب کے بارے میں لکھا ہے:

“It is at all surprising that books suitable for boys and girls began to appear only about two hundred years ago, yet stories which children enjoyed, were told by words of mouth for countless generation”.  (۴)

اُردو میں بچوں کے ادب پر تحقیق کا سلسلہ بہت زیادہ پرانا نہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب عالمی بہبود کی تنظیموں نے بچوں کی پرداخت اور تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی اور ان مقاصد کی آفاق گیر تشہیر کی تو ہمارے ادبی ذہن بھی متاثر ہوئے۔ پھر جدید تعلیم میں نفسیات اطفال اور تعلیم الصغریٰ کو ایک نئی اور اساسی حیثیت دی گئی۔ تعلیم کی اس نئی منصوبہ بندی نے ہماری زبان کو بھی متوجہ کیا۔ اس طرح نئے زمانے میں بچوں کے ادب نے ایک نئی جگہ بنائی اور یوں بچوں کا ادب ایک مستقل موضوع قرار پایا۔ ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۵ء تک اس موضوع پر باقاعدہ تحقیق کی گئی اور برصغیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

لوری:

لوری، لار سے پیدا ہوئی ہے جو لاڈ کی ایک شکل ہے۔بچوں کی تعلیم کے ابتدائی مرحلوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ بچوں کے جھولنوں کا تذکرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ لوریاں اور جھولنے بالواسطہ نصاب سے متعلق تو نہیں لیکن ان کا مدعا کسی قدر نصاب کے مدعا سے ضرور ملتا جلتا ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں میں بچوں کے لیے اس قسم کا ذخیرہ موجود ہے جسے ہم لوریاں یا جھولنے کہتے ہیں۔ ہمارے ادب میں ‘‘لوری’’ کو ‘‘لولی’’ اور ‘‘جھولنہ’’ کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ لوری یا لولی ان بولوں کو کہتے ہیں جو مائیں اپنے بچوں کو سلانے کے  لیے تھپک تھپک کر سناتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوریوں کا اثر پڑھنے والے پر زیادہ پڑتا ہے یا سننے والے پر؟ اگر کہا جائے کہ سننے والے پر تو یہ بعید معلوم ہوتا ہے۔ کیوں کہ سننے والے میں اتنا شعور نہیں ہوتا جو ان لوریوں کی لطافت، معانی یا انداز سخن پر غور کر سکے۔ یہ تو ان لوریوں کی ردم (Rhythm) ہے جو پڑھنے والے کی آواز سے پیدا ہوتی ہے۔ بچے کے حواس کو متاثر کرتی ہے یہاں تک کہ بچے کے ہوش اس آواز کے ترنم میں ڈوب جاتے ہیں اور وہ بے سُدھ ہو کر سو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صوتی آہنگ اور ترنم کا اثر اُس شخص پر زیادہ ہوتا ہے جو لوری سنارہا ہے نسبتاً اُس کے جو لوری سن رہا ہے۔

لوری، ایک ایسا لوک گیت ہے جو کہ پاکستانی زبانوں کے ہر لوک ادب میں موجود ہے اور یہ وہ پہلا لوک گیت ہے جو کہ بہت زیادہ زبانوں میں صنفی اشتراک رکھتا ہے۔ بعض زبانوں میں تو اس کا نام تک بھی نہیں بدلتا اور بعض زبانیں ایسی ہیں جو کہ کہیں کہیں ہیئت میں بھی مماثلت اختیار کر لیتی ہیں۔ یوں لوری ایک ایسا اجتماعی لوک گیت بن جاتا ہے جو کہ پاکستانی معاشرے کی اپنی تخلیق اور یہاں کے لوگوں، خاص طو رپر ماؤں کا وہ گیت ہے جو کہ وہ اپنے بچوں کو سلانے، بہلانے اور کھلانے کے لیے گاتی ہیں۔ یہ گیت کوئی خاص وزن، بحر، تکنیک یا ہیئت نہیں رکھتا مگر اس کی زبان و بیان پڑھنے والے کو فوراً یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ لوک گیتوں کی صنف لوری پڑھ اور سن رہا ہے۔ کیونکہ اس گیت میں ماں کی مامتا کے ایسے جذبات کی خوشبو ہوتی ہے جو کہ پڑھنے سننے والوں کو مسحور کر دیتی ہے۔

‘‘لوری وہ سبق ہے جو چاند سے چہرے والےلڑکے اور دراز زلفوں  والی لڑکیاں  ماؤں کی پیار بھری گود میں آدھی راتوں کو شیر خواری سے لے کر ساتھ سالہ عمر تک سُنتے ہیں۔ ان لوریوں میں نہ صرف ماں کی ممتا ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے دودھ پیتےبچوں کو ان کے ذریعے ماضی ، حال اور مستقبل کا درس بھی دیتی ہیں۔’’(۵)

پاکستانی زبانوں کے لوک ادب میں لوری کی صنف اپنی پوری تابندگی اورخوبصورتی کے ساتھ اپنا جوبن دکھا رہی ہے کیوں کہ ہر ماں اپنے بچے کو لوری دیتی ہے، پیار کرتی ہے، اسے میٹھی نیند سلانے کے جتن کرتی ہے، ان سارے کاموں میں لوری ایک ایسا کام ہے جو کہ ماں اور بچے کو سکون دیتا ہے۔ ماں، لوری کے گیتوں میں اپنے بچے کو دعائیں دے رہی ہوتی ہے۔ اسے شجاعت و بہادری اور عزم و ہمت کا درس دے رہی ہوتی ہے۔ لوری کے بولوں کے ذریعے ماں اپنے بچے کے رگ و پے میں جذبۂ حب الوطنی کا نشہ اتار رہی ہوتی ہے۔لوری کے ذریعے ماں اپنے بچے کو جہاں اپنے ماضی سے روشناس کراتی ہے ۔ وہاں اسے اچھے مستقبل کی دعائیں بھی دیتی ہے۔ اس گیت میں ماؤں کی بے بسی کی تصویریں بھی دکھائی دیتی ہیں اور مذہبی عقائد بھی نظر آتے ہیں۔ پاکستانی زبانوں کی ہر لوری میں جو چیز وحدت پیدا کرتی ہے وہ ان لوریوں کی ”میٹھی سر” ہے ان کا دھیما لہجہ اور خدائے وحدہ لا شریک کا با برکت نام ہے جس کے ذریعے ماں اپنے بچے کو بلاؤں سے محفوظ رکھتی نظر آتی ہے۔ ان کو اس طریقے سے گایا جاتا ہے کہ سر اور تال کے یکجا ہونے سے ایک مٹھاس سی ذہن و دل میں اُتر جائے جس کو سن کر روتے ہوئے بچے سونے لگ جائیں۔

بعض اوقات ہمیں ان زبانوں میں ایسی لوریاں بھی ملتی ہیں جو کہ ایک دو مصرعوں ہی کی ہوتی ہیں مگر جب مائیں ان کو بار بار پڑھتی ہیں تو وہ بھی ایک سماں باندھ دیتی ہیں۔ لوریوں کے بول بے مقصد اور فضول نہیں ہوتے۔ ان کے الفاظ بڑے سادہ اور عام فہم ہوتے ہیں۔

پنجابی زبان میں اسے ”لوری” اور پشتو میں “اللہ ہو” کہا جاتا ہے۔ پشتو میں اسے “اللہ ہو” اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس گیت کے آخر میں وہ “اللہ ہُوشہہ ” کے الفاظ لاتے ہیں جس کے معنی سوجا کے ہی ہیں، اسی طرح پنجابی زبان میں ماں اپنی لوریوں میں اللہ کا لفظ بار بار لاتی ہے۔ سندھی، بلوچی اور براہوی زبانوں میں بھی اسی انداز سے لوری دی جاتی ہے ان کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان میں بھی لوری کا یہی انداز رائج ہے۔

پاکستانی زبانوں کی لوریوں میں لمبی لمبی کہانیاں بیان نہیں کی جاتیں بلکہ ان میں بڑے مختصر انداز سے ماں اپنے بچے کو اپنے خالق و مالک کے سپرد کرتی ہے۔ پشتو زبانوں میں لوری کے ساتھ “اللہ ہو” کے الفاظ لگا کر بچے کو سلایا جاتا ہے۔

ہیئت کے لحاظ سے اللہ ہو، اے للے للو، للے للو، للے للو، کی تکرار کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مقفّٰی جملے یا مصرعے ان کلمات کے ساتھ لگا دیے جاتے ہیں .

بچوں کو  بہلانے کے لیے جو لوریاں اور لوک گیت وجود میں آئے وہ بچوں کا ادب ہے۔ دراصل بچوں کے ادب کا آغاز ماؤں کی ان لوریوں سے ہوتا ہے جنہیں بچہ اُس وقت سے سننے لگتا ہے جب وہ پہلی بار اس دنیا میں آکر ماں کی گود میں آنکھ کھولتا ہے۔ یہ لوریاں اور گیت صدیوں سے رائج  ہیں جنہیں ہم اپنے بڑے بوڑھوں کی زبانی سنتے چلے آئے ہیں۔:

‘‘لوری سے مراد وہ پیارے اور سریلے الفاظ ہیں جو بچوں کے سلانے کے واسطے گیت کے طور پر دھیمے دھیمے سروں میں عورتیں گاتی ہیں’’۔(۶)

برصغیر میں ننھے بچوں کو لوریاں سنانے کی روایت بہت پرانی ہے لیکن جب دنیا میں لوری کی تاریخ کو کھنگالا گیا تو پتہ چلا کہ اس کا آغاز تقریباً چار ہزار سال قبل عراق میں بابل کی تہذیب میں ہوا تھا۔ماہرین کے مطابق دنیا میں پہلی بار لوری بچوں کو سلانے کے لیے ہی گائی گئی تھی اور دو ہزار قبل مسیح میں یہ لوری مٹی کے ایک چھوٹے ٹکڑے پر تحریر کی گئی تھی جو کھدائی کے دوران ملا ہے۔اس ٹکڑے کو لندن کے برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔اس لوری کو جہاں تک پڑھا جا سکا ہے اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جب ایک بچہ روتا ہے تو گھروں کا خدا ناراض ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خطرناک ہوتا ہےیعنی اس تحریر سے واضح ہے کہ آج جہاں لوریاں بچوں کے لیے محبت اور ان کی پرسکون نیند سے جڑی ہیں وہیں دنیا کی پہلی لوری میں محبت سے زیادہ خوف کا عنصر تھا۔ مغربی کینیا کے قبائل میں ایک لوری کافی استعمال ہوتی ہے جس میں بچوں سے کہا جاتا ہے کہ جو بچہ نہیں سوئےگا، اسے لگڑبھگا کھا جائے گا۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں مائیں جو ‘‘راک اے بائے بےبی’’ نامی لوری اکثر گنگناتی ہیں اس میں بھی خوف کے کچھ الفاظ ملتے ہیں۔اس لوری میں بہت ہی خوبصورت اور ہلکے پھلکے طریقے سے بچے کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

لولی یا لوری کے لیے بامعنی ہونا ضروری نہیں۔ہیّت کے حوالے سے ان لوریوں میں ایک عنصر یہ بھی ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے اشعار اور بندوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ یہ نظمیں مکمل طور پر لوازم شعری کی پابند بھی نہیں ہوتیں بلکہ ان میں زیادہ تر تک بندی سے کام لیا جاتا ہے۔ ان میں قافیہ اور ردیف کی قید بھی لازم اور ضروری نہیں سمجھی جاتی اور ان کی صدیوں پرانا ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں بلکہ ان میں سے اکثر شاید زبان کے پیدا ہونے سے بھی پہلے وجود میں آئی ہوں گی۔ ان جھولنوں، لولیوں اور لوریوں سے زبان سیکھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان منظومات کے ذریعے باقاعدہ زبان سیکھنے سے پہلے کے الفاظ کا ایک اچھا خاصہ ذخیرہ ہمارے لاشعور میں محفوظ ہو جاتا ہے جس سے علم اور تحصیل زبان میں کافی حد تک مدد ملتی ہے۔ لوریوں کو ادب میں باضابطہ طور پر کبھی شامل نہیں کیا گیا اس لیے ان کی اشاعت کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔

ہمارے ادب پر عقائد کا گہرا اثر ہے جب دوسرے اصناف اُردو اس تاثر سے بچ نہیں سکیں تو یہ لوریاں اور لولیاں بھلا کس طرح اس کے اثر سے آزاد رہ سکتی تھیں۔ ان لوریوں اور لولیوں پر ہمارے عقائد دینیہ کی سب سے گہری چھاپ ہے۔ ان کو عموماً دعائیہ انداز میں لکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی نعتیہ ہیں۔ منقبت اہل بیت بھی ان لوریوں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں اولیاء اللہ اور دوسرے بزرگان دین سے بچے کو منسلک کرنے کے لیے جگہ جگہ دعائیں دی گئی ہیں جن میں نیک تمناؤں اور سچے جذبات محبت کا اظہار کیا گیا ہے جو بے پناہ خلوص سے بھرپور ہیں ۔انیسویں صدی کے آغاز میں قدیم اور مروجہ لوریوں کو مدون کیا گیا۔ ان میں ‘‘لولی نامہ احمدی منشی’’ اور ‘‘چرخ پربہار’’ مشہور ہیں۔ ملاحظہ ہو احمدی منشی کی لولی ناموں کی چند جھلکیاں:

 اے میرے دلبر ماہِ منور                         واروں میں تجھ پر گوہر واختر

شاہِ نجف کا سایہ ہو سر پر                     حامی ہوں تیری خاتونِ محشر

آؤ سہاگن جھولا جھلانے نورِ نظر کو اپنے منانے

اللہ نبیؐ کے جاؤں میں واری                   لعلوں سے میں نے جھولا سنواری

جھولے گی میری بیگما پیاری                آنکھوں میں اس کی آئی خماری

آؤ سہاگن جھولا جھلانے نورِ نظر کو اپنے منانے(۷)

لولیوں میں عموماً ‘‘لولو’’ کے لفظ کا التزام ہوتا ہے اس لیے ان معنوں میں ہم اسے ‘‘لولی’’ بھی کہہ سکتے ہیں۔ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ جہاں ہماری تہذیب اور ثقافت کے بیشتر نشانات مٹ گئے، وہاں لوریاں بھی ہیں۔ اب وہ مائیں ہی نہ رہیں جو بچوں کی اس طرز سے پرورش کریں جن میں لوریاں سنائی جاتی ہوں۔ اب ہماری سماج کی وہ فضا ہی نہ رہی جس میں لوریاں یا جھولنوں کی افادیت تھی۔ نتیجے کے طور پر یہ اصناف ِادب آہستہ آہستہ معدوم ہو گئیں۔

دنیا بھر میں کئی ایسی لورياں ہیں جن کا لفظی مطلب نہیں نکالا جا سکتا، زیادہ تر لوريوں میں محبت اور تحفظ کی باتیں ہی ہوتی ہیں جبکہ کئی لوريوں میں ملک کی تاریخ کو دہرایا جاتا ہے۔مختلف ممالک کے معاشروں میں تنوع کے باوجود ان کی لوریوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔دنیا میں آپ جہاں بھی چلے جائیں مائیں ایک ہی دھن استعمال کرتی ہیں اور ایک ہی طریقے سے اپنے بچوں کے لیے گاتی ہیں۔ بہت سی لوریاں چند ہی الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں جنہیں بار بار دہرایا جاتا ہے۔

 ہر چند کہ لوریاں بچوں کے پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں سنانے کے لیے لکھی جاتی ہیں پھر بھی ہر زبان کے ادبِ اطفال کا اہم جزو سمجھی جاتی ہیں اور بچے کی پیدائش سے لے کر چار پانچ برس کی عمر تک مائیں اور خاندان کی دیگر عورتیں بچوں کو انہیں لوریوں کے ذریعے بہلاتی اور سلاتی ہیں۔ ان میں سے بعض لوریاں بے حد مقبول ہیں لیکن امتداد زمانہ کے ہاتھوں ان کی تخلیق کار پردۂ گمنامی میں چلے گئے ہیں۔

ماں اور بچے کے درمیان بات چیت اور لوريوں کی پرانی تاریخ ہے اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بچوں میں تال اور لے کو سمجھنے کی انوکھی صلاحیت ہوتی ہے۔ ماں اگر لوری نہیں بھی گا رہی ہوتی ہےتو بچے سے اپنے انداز میں بات ضرور کرتی ہے، دھیمے دھیمے لہجے میں پیار سے بولتی ہیں جو بچوں کے لیے سمجھنا آسان ہوتا ہے اور بچہ اس آواز پر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ آج بھی لوری اپنا سفر کر رہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے زیادہ تر حصّوں میں بچوں کو جو لورياں سنائی جاتی ہیں ان میں چاند یا چندا ماما کا ذکر ہوتا ہے اور ‘‘چندا ماما دور کے’’ ایک مقبول لوری ہے۔چند سطریں ملاحظہ ہوں:

چندہ ماما دور کے                   کھوئے پکائیں دودھ کے

آپ کھائیں تھالی میں                               منے کو دیں پیالی میں

پیالی گئی ٹوٹ                         منا گیا روٹھ

نئی پیالی لائیں گے                  منے کو منائیں گے

                چندہ  ماما  دور  کے (۸)

اگرچہ اس لوری کی تخلیق کار کا نام پردۂ خفا میں ہے لیکن اس کی غنائیت صوتی آہنگ اور معنویت نسائی آوازوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر جو طلسمی کیفیت پیدا کرتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوری یقیناً کسی بڑے ذہن کی تخلیق ہے جسے شیر خوار بچوں کی نفسیات سے بھی واقفیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ افسر میرٹھی، عبرت گورکھپوری اورمحبوب راہی کے نام لوریوں کے حوالے سے مشہور ہیں۔ علاوہ ازیں مشہور ترقی پسند شاعر ڈاکٹر خاطر غزنوی کا نام بھی اس ضمن میں آتا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ بچوں کے ادب کی شروعات اُن لوریوں ہی سے ہوتی ہے جو صدیوں سے مائیں اپنے بچوں کو سلانے کے لیے گاتی چلی آئی ہیں۔ ان لوریوں میں ترنم بھی ہوتا ہے، ماں کی آواز کا تاثر بھی اور ماں کے سامنے بچے کے بہتر مستقبل کا تصور بھی ہوتا ہے۔

ملک، زمانہ، تعلیم، رسم و رواج، تہذیب و تمدن اور نفسیات کے اعتبار سے انسان میں بے پناہ تبدیلیاں آتی ہیں لیکن بچہ ہزاروں سال پہلے جیسا تھا آج بھی ویسا ہی ہے۔ وہی لگاتار پرانے زمانے سے چلے آنے والے طور طریقے پر انسان کے گھر میں ‘‘بچہ’’ کی شکل لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اگرچہ جب سے دنیا بنی ہے تب ہی سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے، مگر پھر بھی بچہ یوم ازل سے جتنا خوبصورت، بھولا بھالا اور پیارا تھا، آج بھی ویسا ہی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ خدا کی دین ہے اور اس کی فطرت میں کوئی کھوٹ شامل نہیں ہے۔ جب کہ بڑا آدمی کئی اعتبار سے معاشرے اور انسان کے ہاتھ کی تخلیق بن جاتا ہے۔

عہد قدیم میں انسان زندگی سے متعلق حادثات،  تجربات و واقعات کہانی اور قصوں کی شکل میں ایک دوسرے کو سناتا پھرتا تھا،  ایسی کہانیاں بہادری، جوش اور قوم کی برتری کی کہانیاں ہوتی تھیں۔ بالغ اور بچے دونوں ہی عشق و محبت اور جنگ و جدل کی کہانیاں سننے میں دل چسپی لیتے تھے۔خاص طور پر منظوم قصّوں اور کہانیوں میں بچوں کی دلچسپی اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔ کیوں کہ بچے ایسی کہانیوں کو آسانی سے یاد کر لیتے ہیں۔اور انہیں گنگناتے رہتے ہیں۔۔ خاندان کے بزرگ اپنے چھوٹوں کو ایسی کہانیاں جو زندگی اور دنیا کے عجائبات، واقعات اور حادثات جو ان کے خاندان سے متعلق ہوتے تھے، سناتے چلے آئے ہیں۔ جاڑے کی لمبی سیاہ رات، جنگ اور جنگلی جانوروں اور مافوق الفطرت واقعات سے متعلق کہانیوں کو سن کر گزار دی جاتی۔ مگر تعجب کی بات یہ ہے کہ اس غیر مہذب، غیر متمدن اور غیر ترقی یافتہ دور میں بھی دنیا کے مختلف حصّوں میں جو کہانیاں سنائی جاتیں، ان میں ایک خاص مماثلت پائی جاتی۔ ان کہانیوں میں زندگی کے ایسے واقعات، تجربات اور حادثات بیان کیے جاتے اور ان کا طرز بیان ایسے ہوتا جن میں یکسانیت ملتی یہی بات لوریوں اور لولیوں میں بھی ہے ۔ لوریوں اور لولیوں کے ذریعے مائیں اپنے بچوں کو سُلاتے وقت اپنے بزرگوں کی بہادری کے کارنامے نیک خواہشات کے ساتھ سُناتی ہیں۔

کیف احمد صدیقی نے عام روایتی لوری میں بیان کردہ ‘‘چندہ ماما’’ کی جگہ بچے کو خواب میں پریوں سے ملایا ہے اور اس کی زبانی دلکش ترانے سُنائے ہیں:

سو جا میرے دل کے ٹکڑے سو جا میری جان

تو ہے مجھ کو جان سے پیارا تجھ پر میں قربان

                                                                سپنوں کی نگری میں بُلائے تجھ کو نندیا رانی

                                                                چاند دیس میں جا کر تجھ کو کرتی ہے مہمانی

ساری رات تجھے ہونا ہے پریوں کا مہمان

سو جا میرے دل کے ٹکڑے سو جا میری جان(۹)

اوپر کی لوری میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک ماں کے دل میں اپنے بچے کے لیے پیار کے جذبات ہوتے ہیں اور کس طرح اس کے بہتر مستقبل کے سپنے دیکھ رہی ہے۔اسی طرح ذیل کی  لوری جوکہ نعتیہ طرز میں ہے،  میں حضور نبی کریم ﷺکی آخری نبی ہونے کے بارے میں باتیں کی گئی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ آخری نبی ہیں اور وہ دونوں جہانوں کا بادشاہ ہے یہ کہ ایک بندہ جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ جس نے ہمیں حضور نبی کریمﷺ کی اُمت میں پیدا کیا، وہ کم ہے کیوں کہ اس اُمت کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ یہ  کل کائنات اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضورنبی کریمﷺ کے طفیل پیدا فرمایا، اگر اللہ تعالیٰ حضورﷺ کے پیدا کرنے کا ارادہ نہ فرماتا تو یہ کل کائنات بھی پیدا نہ کرتا۔ اس لیے تمام انبیائے کرام بھی آپ ﷺ  پر فخر کرتے ہیں کیوں کہ آپﷺ انبیاء کے سردار ہیں۔ اگرچہ ان لوریوں اور لولیوں کو جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، عموماً دعائیہ انداز میں لکھا گیا ہے، بہت سی نعتیہ بھی ہیں، منقبت اہل بیت بھی ان لوریوں/ لولیوں میں بکثرت پائی جاتی ہے اس کے علاوہ ان میں نیک تمناؤں اور سچے جذبات محبت کا اظہار بھی کیا گیا ہے:

لامکاں کے تم ہو بے شک بادشاہ                            دو جہاں میں تم ہو فخر انبیاء

کون کر سکتا ہے حضرت کی ثناء                         تیری اُمت کا کسے رُتبہ ملا

بول کر جھجو سلاؤں آپ کو

بول کر جھجو سلاؤں آپ کو

آپﷺ  کی خاطر کیا حق دو جہاں

گھر نہ ہوتے آپ ﷺسب ہوتے کہاں                        عرش و کرسی بے شبہ اور آسماں

تم  ہو  تاجِ فخر کل پیغمبراں

بول کر جھجو سلاؤں آپ کو

بول کر جھجو سلاؤں آپ کو(۱۰)

تمام دنیا میں بچوں کو سلانے کے لیے کسی نہ کسی طرح کی لے اور گنگناہٹ کا استعمال مائیں کرتی ہیں۔ اس گنگناہٹ کو کچھ الفاظ سے آمیز کر دیا جاتا ہے۔ اس لیے لوریاں مختصر ہوتی ہیں ۔جن الفاظ کا استعمال ان لوریوں میں ہوتا ہے وہ بچوں کی سمجھ میں نہیں آتے لیکن ماں کے جذبات ممتا سے مملو ہوتے ہیں اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لوری ماں کا گیت ہے۔ بچوں  کے لیےان لوریوں میں عام طور پر ابتدا میں بچے کی تعریف پھر اس کے بہتر مستقبل کی تمنا اور آخر میں نیند سے متعلق جملے ہوتے ہیں تاکہ بچے اس کا تصّور کرکے سو جائیں۔ اگر دیکھا جائے تو چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی لوری کے ترنم سے محظوظ ہوتا ہے۔ لوریاں سن کر خوش ہوتا ہے، یہ خوشی اس کو اُسی وقت سے حاصل ہونے لگتی ہے جب وہ الفاظ کو سمجھ یا بول بھی نہیں سکتا۔ اس طرح بچوں کے ادب میں لوری کی حیثیت بنیادی کی سی ہے جس پر آگے چل کر عظیم الشان عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔

حوالہ جات

۱۔            انور جمال ، پروفیسر ، نیشنل بُک فاونڈیشن اسلام آباد ، اشاعت چہارم، مارچ، ۲۰۱۷ء ص ۳۴

۲۔            جمیل جالبی ، ڈاکٹر ‘‘ ادب کلچر اور مسائل ’’، مرتب :خاور جمیل، ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس دہلی، ۱۹۸۸ء، ص ۱۴

۳۔            پروفیسر مسعود حسین ،‘‘ بچوں کا ادب’’، بموقع سیمینار ‘‘ اُردومیں بچوں کا ادب’’، جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی، ۲۵ فروری ۱۹۷۶ ء، ص ۴۰۳

۴۔            Britannica Junior Encyclopedia (for girls & boys) vol. C1980, Page 249

۵۔            بلوچ، مری، میر شیر محمد، ‘‘بلوچی زبان اور ادب کی تاریخ’’، کوئٹہ ، بلوچی اکیڈمی، ص: ۴۹

۶۔            سید احمد دہلوی، مولوی، فرہنگ آصفیہ، جلد سوم ، ترقی اُردو بیورو نئی دہلی ، دوسرا ایڈیشن ۱۹۰۸ء، ص ۲۲۸

۷۔            اسد اریب ، ڈاکٹر ‘‘بچوں کا ادب’’ (تاریخ و تنقید) ، بحوالہ: احمد منشی، ‘‘لولی نامہ احمدی’’،

کاروان ادب ملتان، ۱۹۸۲ء ، ص ۲۱

۸۔            خوشحال زیدی، ڈاکٹر، ‘‘اُردو میں بچوں کا ادب ’’ ، نصرت پبلشرز امین آباد  لکھنو، مارچ ۱۹۸۹ء، ص ۲۸۵

۹۔            کیف احمد صدیقی ‘‘ اُردو میں بچوں کا ادب ’’ ، نصرت پبلشرز امین آباد لکھنو، مارچ ۱۹۸۹، ص: ۲۸۷

۱۰۔          اسد اریب ، ڈاکٹر ‘‘بچوں کا ادب’’ (تاریخ و تنقید) ، بحوالہ: احمد منشی، ‘‘لولی نامہ احمدی’’،

کاروان ادب ملتان، ۱۹۸۲ء ، ص ۲۲

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.