رشید امجد کے افسانوں میں مزاحمتی عناصر

ڈاکٹر طاہر عباس طیب، اسسٹنٹ پروفیسر اردو، جی سی ویمن یونیورسٹی ، سیالکوٹ، پاکستان

Rasheed Amjad started writing short stories after 1960 and shortly came into mainstream. Initially he portrayed real life in his works then got cognise as a symbolic writer.The main theme of Rasheed Amjad’s fiction is seeking one’s identity in this era of hypocrisy and coercion. He asks various questions through contemporary references. People have lost their identity due to political coercion and violence. Such people suffer from insecurity and crave freedom and seek their identity in society. The will to live is still, however, present in them. He (Amjad) gave a place in his fiction to the social and mental chaos of his era. All these factors are symbolic of the social, economic and political coercion of the present era.

Rasheed Amjad openly opposed the solitude, coercion and insecurity of his era in his fiction. He tried to unveil the distorted faces in society. He seeks in himself the act of breaking and disintegration of the human being.. in which the feeling of losing direction is very prominent. These stories engulf the social, economic and political history of Pakistan. He is representative of a struggling attitude. He bestowed fiction with a whole new colour. The history of modern Urdu fiction is incomplete without a mention of his name.

مزاحمتی ادب  سے مرادکسی  فکر، نظام یا نظریے سے انکار ہے ۔کسی فنکار کا اپنےخوابوں، خیالوں اورخواہشوں کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ ، مزاحمت کو جنم دیتی ہے ۔مزاحمت طے شدہ رویوں، رسم و رواج، رائج اقدار اور ظلم وجبر کے خلاف بغاوت کا دوسرانام ہے۔ مزاحمت ہر دور میں رائج رہی ہے کہیں پوشید ہ اور کہیں ظاہر۔ادب کی یہ مزاحمتی صنف اپنے تمام تر خواص کے ساتھ دنیا بھر کے فنون لطیفہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ادب میں نظم اور نثر دونوں حوالوں سے مزاحمتی عناصر اوررویے موجودہیں۔ ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں۔

“عمومی معنوں میں ادب ہوتاہی مزاحمتی ہے کہ ادیب موجود ہ صورتحال، اس کے جبراور استحصال  کے خلاف آواز بلند کرتا ہے،اس حوالے سے اردو ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو شمالی ہند میں شاعری کا آغاز ہی مزاحمتی رویے سے ہوا۔”1

یہ حقیقت ہےکہ مزاحمت ہمارے ادب کے خمیر میں رچی بسی ہوئی ہے۔ البتہ  مزاحمتی ادب میں،   فی زمانہ موضوعات کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے  کیونکہ یہ   بڑی حد تک حالات، واقعات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں ادیبوں نے جبر کے فکری اور نظریاتی نظاموں کے خلاف آواز بلندکی۔  ادبی مزاحمت میں فنکاروں نے اپنے قلم  سے کئی خوبصورت فن پارے تخلیق  کیے۔ مزاحمت نے  نئی فکری تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ایک الگ راہ اختیار کی۔

اردو افسانہ میں مزاحمتی عناصر اور رویوں کا فکری اور تخلیقی سطح پر گہرا  اثر نظرآتا ہےجس سے ایک نئی سوچ اور فکر پروان چڑھی۔ اس حوالے سے  انتظار حسین کا افسانہ ” صبح کے خوش نصیب “،انور سجاد کا افسانہ “رات  کا سفرنامہ”،اسدمحمد خان کا افسانہ “سوروں کے حق میں ایک  کہا نی”، خالدہ حسین کا افسانہ ” مکڑی”، احمد جاوید کا افسانہ” پیادے”، اکرام اللہ کا افسانہ ”  سیاہ آسمان”،احمد داؤدکا افسانہ ، شہید، اعجاز راہی کا  افسانہ “سہیم ظلمات”، سمیع آہو جہ کا افسانہ “رات ، بےخواب”،سلیم اختر کاافسانہ” عذاب میں گرفتار بستی “،مظہرالسلام کا افسانہ “کندھے پر بیٹھا ہوا کبوتر، “حامد بیگ کا افسانہ “رہائی “اور رشید امجد کا افسانہ ” بنجرلہو منظر “قابل ذکر ہیں۔

موجودہ دور میں رشید امجد اردو افسانے  کی قد آور شخصیت   جنھیں بلاشبہ  اردو افسانے میں ایک منفرد اور نمایاں مقام حاصل ہے۔وہ ساٹھ کی  دہائی سے مسلسل افسانے لکھ رہے ہیں اور بارہ سے زائد افسانوی مجموعوں کے خالق ہیں۔انہوں نے  ہمارے معاشرے  میں بڑھتے ہوئے انتشار ، جبر اور خوف کو   اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ ان کے افسانے عام آدمی کے خوابوں اور آدرشوں کی داستان ہے۔ وہ اپنے اردگردمیں  جومحسوس کرتے ہیں ان کو بڑیخوبصورتی کے ساتھ اپنے افسانوں میں بیان کرتے  ہیں۔ان کے افسانے مسلسل ارتقا کی طرف گامزن ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغاکے مطابق :”رشید امجد نے حال کے نقطے پر کھڑے ہوکر ماضی اور مستقبل دونوں سے رابطہ  قائم کیا۔”2

رشید امجد اپنے دور کے ناقد بھی ہیں اور ناظربھی ، انہوں نے اپنے عہد کی سفاکی  ، جبری کیفیات، خوف وکرب  اور بے حسی کی مختلف صورتوں کو قریب سے دیکھا ۔ انسانی جذبات و احساسات کو جو ٹھیس اس معاشرے کی بے حسی کی وجہ سےپہنچی ہے، اس کو رشید امجد نے اپنی گرفت میں لےکر کہانی کی صورت میں پیش کیا ۔ ان کے افسانے عصر حاضر کے سیاق و سباق سے ابھرتے ہیں۔افسانے  لکھنے کے حوالے سے ڈاکٹر رشیدامجد  بتاتے ہیں۔

”میں اس لیے لکھتا ہوں کہ اپنا اظہار چاہتا ہوں۔ اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں  میں زندہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک آدرش کی تکمیل چاہتا ہوں کہ کبھی تو وہ غیر طبقاتی آئیڈیل معاشرہ وجودمیں آئے گاجہاں میں اور مجھ جیسے سب سر اٹھا کر چل سکیں گے ہمیں کوئی فتح کرنے والا نہیں ہوگا،ہماری رائے کی اہمیت ہوگی ۔ یہ خواب سہی، میری بات تمنائیں سہی لیکن میری تحریروں کا اثاثہ یہی خواب اور یہی تمنائیں ہیں۔”3

رشید امجد کی  افسانہ نگاری کا آغاز ایوب خان کےمارشل لاء کے دور سے ہوتاہے۔ جس کے اثرات ان کے ابتدائی افسانوی مجموعوں میں نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔جب انہوں نے فکری پختگی کی نئی منزلوں کا سفر طے کیاتو دوسرا مارشل لاء جمہوریت کی بساط لپیٹ چکا تھا۔ یہ افسانے جبر کےدور میں لکھے گئے۔اگرچہ اس دور کو معروف معنوں  میں  علامتی و تجریدی نام دیا گیا، لیکن اس  تکنیک میں    سادہ لفظوں میں پوشیدہ  معنی  کےجہانآباد ہیں ۔ ڈاکٹر انور سدید کے نزدیک:

رشید امجد کا شعری لہجہ، علامتی اظہار اور تجریدی ڈھانچہ سب مل کر اس کےفن کی ایک نمائندہ جہت اور اس  کا منفرد تشخص قائم کرتے ہیں۔اس نے ٹھوس کہانی کو گرفت میں لینے اور سماج کی اصلاحی خدمت سر انجام دینے کے بجائے    اس تاثر کو پکڑنے کی سعی کی جوتجربے کے مرکزمیں سیال صورت میں موجود  ہوتا ہے اوراکثر شعری انداز میں افسانہ نگار کی طرف سفر کرتا ہے۔4

رشید امجد  کے افسانوں میں معاشرےکی  انفرادی و اجتماعی سطح کے لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ ، کرب اور بے چینی  کی مختلف  کیفیات دکھائی دیتی ہیں۔وہ اپنے پہلے مجموعے  ”بیزار آدم کے بیٹے “ میں  لکھتے ہیں۔

”اس بے شباہت دور کی منافقت نے چیزوں کو اس طرح بے تو قیر اور بے حرمت کر دیا ہے کہ تنہائی ، جس کو کھ سے کبھی کشف ،گیان اور عظمت کے چشمے پھوٹتےتھےاب ہولناک سناٹے کا روپ دھار چکی ہےکہ تنہائی میں سےایک کربناک مسخ چہرےوالی بے خواب و یرانی نے جنم لیا ہے، جس کا تصور آتے ہی بانجھ پن آنکھ میں ناچنے لگتا ہے اور اذیت جسموں پر دستک دینے لگتی ہے۔۔۔۔۔میں محض نظریاتی نعرے بازی کو ادب نہیں سمجھتا کہ تخلیقی عمل سے گزرے بغیر کوئی چیز ادب نہیں بنتی۔”5

رشید امجدنے  عام انسان کے جذبات و احساسات حالات و واقعات اور  معاملات  زندگی کو ایک وسیع کینوس میں دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔انہوں نے انسانی تضاد کے احساس کو نئی وحدت کے طور پر برتا،اس کی بہترین مثال ان کا افسانہ” بگل والا “ہے۔جہاں انسان کی عزت اس کے عہدے اور مرتبے کو دیکھ کی جاتی ہے۔ان کے افسانے معاشرتی، سیاسی ، اخلاقی  ناہمواریاں  کے زوال کی داستان ہیں ۔ جن میں  کہیں فرد کے ذاتی کرب اور پریشان کا احساس نمایاں ہے ۔فرد کا تعلق اجتماعی زندگی سے رہتا ہےاوروہ معا شرےکے  اثرات سے براہ راست متا ثر ہوتاہے۔ ان کے کردار اسی معاشرے کے حقیقی باسی ہیں۔رشید امجد کے افسانوں کے کردار اپنی ذات کی تلاش  میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کردار عدم تحفظ کا شکار ہیں۔جو اپنے ہونے نہ ہونے  کی کیفیت میں مبتلا  ہو کر مزاحمت کرتےدکھائی دیتے ہیں۔رشید امجد اپنے کرداروں کی تلاش کے ضمن میں رقم طراز ہیں ۔

”میں نے کرداروں کو باہر تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر ڈھونڈنا شروع کر دیاکہ مجھ پر منکشف ہوا ہے کہ میرے اندر جو جہان ہے وہ باہر کی دنیا سے کہیں بڑاپر اسرار اور عظیم ہے۔“6

رشید امجد کا دوسرا افسانوی مجموعہ  ”ریت پر گرفت“کے افسانوں میں بھی افسردگی ، خوف ، تنہائی اور شک کی فضا ابھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔افسانہ ”گملے میں اُگا ہوا شہر “میں جنازہ گم ہو جاتا ہےاور سارا شہر اسے تلاش کرتا ہے لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا قبر کھودنے والے حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اب ہم دفن کسے کریں گے۔ قبر ایک دفعہ کھد جائے تو وہ مردہ مانگتی  ہے۔ یہ افسانہ مارشل لاء کے خلاف مزاحمتی افسانہ ہے۔ اس میں خوف اور گھٹن کی فضا ہے۔افسانہ “سناٹا بولتاہے”میں چالیس سال سے لوگوں کی آنکھیں ایک دوسرے کو دیکھنے ، شناخت  کرنے اور ایک دوسرے کی گواہی  دینےکے انتظار میں  پتھر ا گئیں۔معاشرتی بے حسی کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں فرد کو اپنی شناخت کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔لفظ بے معنی اور آوازیں کھوکھلی دکھائی دیتی ہیں۔افسانہ “پت جھڑ میں خودکلامی”میں “وہ “ اور“میں “کا احساس  نمایاں ہے ۔قبرستان میں پت جھڑ کےموسم میں خوابوں ، چاہتوں اور جذبوں  کا ذکر ملتا ہے۔ان کے افسانوں سے چند اقتباسات لاحظہ:۔

” جب ظلم سہنے میں لذت آنے لگے تو کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔”7

“ہاں میں جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ جنہوں نے اپنی آوازیں بیچ ڈالی ہیں وہ بند کمروں میں چیختے ہیں۔”8

“یہ بھی عجیب بات ہے۔ اس نے سوچا  ’’زمین پر تھا تو اُڑنے کی خواہش بے چین رکھتی تھی، اُڑا ہوں تو زمین کھینچ لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب کسی کی تعریف کرتے جھجک نہ آئے اور مخالفت کرتے دیر تک ملال رہے تو سمجھ تم زندہ ہو، کیونکہ ذات صفات کے پردے ہی میں اپنا اظہار کرتی ہے۔”9

اپنے ہونے کا احساس نہ رہا تو پھر جاننا اور نہ جاننا بے معنی ہے۔‘‘10

وقت اور موت کبھی مکالمہ نہیں کرتے۔”   11

رشید امجد کے افسانوں میں  عدم اطمینان اور تبدیلی کی شدید خواہش موجود رہتی ہے۔افسانوی مجموعے ”سہ پہر کی خزاں “ میں مزاحمتی عناصر کو واضح طور پر دیکھا جا سکتاہے۔اس افسانے میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم اپنا چہرہ خود تو بنا لیتے ہیں مگر اس کی شناخت دوسرے کرتےہیں۔ڈاکٹر صوفیہ خشک لکھتی  ہیں۔

“ان کے افسانوں میں داخلی اور خارجی تعلق سے ایک نئی سمت کا پتا ملتا ہے ۔وہ عہد حاضر کے فرد کےوجود اور تشخص کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ان کی کہانی کا فرد اپنے ماحول سے بیزار ہے  اس ماحول میں خارج کے جبر کا رنگ نمایاں ہوتاہے جس میں وہ اس حقیقت سے آشنا ہے کہ اس کا وجود معاشرتی سطح پر تشدد جھیلنے پر مجبور ہے۔”12

افسانہ “دھوپ میں سیاہ لکیر” میں  ان چاہے رستوں پر چلنے کی مجبوری، بند آنکھوں میں دھندلے  خواب اور ان میں دور ہوتی ہوئی آوازیں ،سننے کو ملتی ہیں۔افسانہ بانجھ ریت اورشام ” میںموت کے  خوف کے عکس کو دکھایا گیا ہے۔جبکہ افسانہ “طناب ٹوٹا خیمہ “میں شہر کی پر اسراریت کاذکر ہے۔شمیم حنفی رشید امجد کی کہانی کے بارے میں لکھتے  ہیں۔

رشید امجد گنتی کے ان لوگوں میں سے ہیں جو کہانی کی بنیاد بننےوالی سچائی سے لےکر کہانی کے وجود میں آنے تک سارے مرحلوں سے گزرتے ہیں اسی لیے ان کی کہانی صرف ان کا ہی نہیں ہمارا تجربہ بھی بنتی ہے۔تجربے کی تنظیم پر، بیان اور اسلوب پر، اپنے معنی ، جذباتی ، ذہنی اور لسانی ردعمل پر رشید امجد کی گرفت غیر معمولی ہے۔“13

افسانہ ”کوڑا گھر میںتازہ ہوا کی خواہش” میں یہ  احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر لفظ باسی  ہو جا ئیں تو بو دینے لگ جاتے ہیں اور کہیں مجسم صورتیں نظر آنے لگتی ہیں۔افسانہ ”بھاگے ہیں بیاباں مجھ سے” میں باطنی کشمکش ، وجود اور عدم وجود کی کیفیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ افسانہ  ”پھول تمنا کا ویران سفر “ اس کہانی میں وقت کی بے رحمی اورحالات کی ستم ظریفی کو پیش کیا گیا ہے۔  ڈاکٹر شفیق انجم لکھتے ہیں :۔

”رشید امجد  عام آدمی کودرپیش صورتحال کی محض تصویریں  نہیں اتارتےنہ کسی ایک واقعے  یا ایک زوایے میں مقید ہو کراسے فوکس کرتے ہیں بلکہ مختلف سطحوں  اور زمانی و مکانی علائق میں زاویےبدل بدل کرحقائق کو نقش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے ان کے افسانےیک رخے  ، عام اور سادہ نہیں ، بلکہ کثیر جہتی، متنوع اور معنویت سے پر ہیں۔ تاریخ، تہذیب اور عصری منظر نامہ یہاں ایک جان ہوتا اور پھیلاؤ کرتا نظرآتا ہے”۔14

”کاغذ کی فصیل “میں ستم خوردہ  اور محروم معاشرے کی کہانی ہے۔افسانہ ” ہوا کے پیچھے پیچھے میں” معاشرے میں طبقاتی تقسیم کی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے۔ان میں حیرت اور گمشدگی کا احساس نظر آتا ہے ۔ان افسانوں میں  اندھیرے اوردھند کے  گہرے بادل چھائے  ہوئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ  آواز  اندھیرے میں گم ہو چکی ہے۔موجودہ دور   میں  عدم اطمینان اور تبدیلی کی آواز سننے کو ملتی ہے۔ہر کسی نے  ملمع کاری کو اپنا یا ہوا ہے۔ظاہر اور باطن میں فرق ہے ،اسے ہم اپنے آپ سے چھپنے کا شوق یا بیماری بھی  کہہ سکتے ہی ۔افسانہ ”میلہ جو تالاب میں ڈوب گیا“میں اپنے عہد کے جبر کی بھرپور عکاسی اورمزاحمت ملتی  ہے۔اس افسانے میں ایک ایسے شہر کا ذکر ہے جو تالا ب پر بنا ہو ا ہے۔یہ شہر ٹوٹ پھو ٹ کا شکار ہے ۔لوگ اس شہر میں ، مرنے سے پہلے مرنے کا تجربہ  چاہتےہیں، آوازیں بہت  سی سنائی دیتی ہیں، مگر جسم دکھائی نہیں دیتا۔ اس عہد کے لوگوں کو تاریخ بنانے کی فکر ہے لیکن جغرافیہ ان کا روزبروز سمٹیتا جا رہے ۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے نزدیک:۔

”رشیدامجد کا فن احساس کی ان سطحوں کو چھو نے کی جانب سرگرم ہے۔جو آسانی سےدسترس میں نہیں آ سکتیں۔ وہ ان مسئلوں اور الجھنوں کے بارے میں سوال اُٹھاتےہیں جنہیں آج کے انسان نے نئے عہد کا  موڑ مڑتے ہی اچانک سامنے پایا ہے ۔ وہ عام معنی سے پرے دیکھنے کے متلاشی اسی لیے ہیں کہ نہ آج کے مسئلے سیدھے سادھے ہیں نہ ان  کا جواب اظہار کی سطح سے ممکن ہے۔ رشید امجد کے ہاں استعارہ ہے اور یہی وہ دعوت فکر ہے جو وہ اپنے قاری کو دیتے ہیں۔“15

رشید امجد کے ہاں جملے تیز دھار آلے  سے زندگی کی نا آسودگیوں پر وار کرتے ہیں۔افسانہ “ڈوبتی پہچان “میں فرد وسوسےاور خوف  کا شکار دکھائی دیتا ہے۔اس نے ماں کی قبر کو پختہ کرانے کے چکر میں پورا قبرستان ہی پکاکرا دیا ، مگروسوسوں نے پیچھا نہ چھوڑا اور یہ خیال گردش کرنے لگا کہ پتا نہیں ماں کی قبر اس قبرستان  میں ہے بھی یا نہیں۔افسانہ “لیمپ پوسٹ میں” جسم کا سایہ اور زندگی کی سڑک  کے درمیان سماجی اور معاشی زندگی کی پراسراریت کا ذکر ہے۔افسانہ “سمندر قطرہ سمندر میں “دو زمانوں میں سانس لیتا شخص دکھائی دیتاہے۔ افسانہ “یاہوکی نئی تعبیر “میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان ظاہری طور پرسائنسی  ترقی کی سمت سفر کرتا جا رہا ہے لیکن  مادی قدروں نے انسان کو اس کی روح سے جد اکر دیا ہےاوروہ انسانیت کے مرتبے سے گر کر تنزلی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر اعجاز راہی لکھتے ہیں۔

معاشرہ جس طرح مذہبی ، اخلاقی، تہذیبی اور انسانی قدروں کو پامال کرکے انسانی بے توقیری  کی روا قائم کرتا ہے اور اس سے جو اجتماعی کرب ابھرتاہے ۔ رشید امجد کے افسانے اس کی باز گشت ہیں۔”16

رشید امجد کا افسانہ ” بنجرلہو منظر “میں مارشل لاء کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے ۔ جس میں کنڑول روم  کے  ایک بٹن سے  ریڈ یو ، ٹی وی ، اخباروں اور رسالوں میں گونجتی آوازیں ، تصویریں اور خبریں سب غائب ہو جاتی ہیں۔ جو شہر تھا اب ویرانی کا منظر پیش کر رہا  ہے۔ اب دوسروں کی حکومت ہے،چہرے گم ہو جاتے ہیں اور اس کی جگہ نئے چہرے آجاتے ہیں۔چبوترے پر ہاتھ بندھے شخص کو لایا جاتا ہے، فرد ِجرم پڑھی جاتی ہے کہ یہ شخص سر اٹھا کر چلتا ہے۔اس افسانے میں جبر کےخلاف  بھرپور مزاحمت  پائی جاتی ہے۔ڈاکٹرناصر عباس نیرکے مطابق:منٹو اور رشید امجد کے یہاں قلب مائیت پس منظر میں رہتی ہے۔اس کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہمارے اند ان توقعات کو ابھارتی ہے  جو انسانیت کی بقاکے سلسلے میں ہمارے اند ر کہیں مضمر ہیں۔”17

رشید امجد کے افسانوں کا بنیادی موضو ع  جستجوہے ۔، وہ اپنے عصری حوالوں سے مختلف سوال کرتے ہیں۔ جبراور منافقت کے اس دور میں اپنے تشخص کی جستجو کرتے ہیں ۔ سیاسی جبرو تشدد کے ذریعے لوگ معاشرے میں اپنی شناخت گم کر بیٹھےہیں۔ یہ لوگ معاشرے میںآزادی کے خواہش مند ، اپنی شناخت کے طلبگار اور عدم تحفط کا شکار ہیں۔ البتہ  ان کے اندر جینے کی آرزو موجود ہے۔انہوں نے اپنے دور کے سماجی اور ذہنی انتشار کو افسانہ میں جگہ دی۔یہ تما م چیزیں موجودہ عہد کی معاشی ، سیاسی اور معاشرتی جبر کی علامتیں ہیں   شمس الرحمن فاروقی کی رائے میں:

ْْرشید امجد نےنئے افسانے کو جن نئی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔ ان میں سب سے قابل ذکر طرز اظہار کی ایک شگفتہ پیچیدگی ہےجس کے پیچھے تخلیقی کشمکش کی ایک پوری دنیا آباد ہے۔ “18

رشید امجد نے افسانوں میں  اپنے عہد کے جبر ، عدم تحفظ ، تنہائی اور اجنبیت کی کیفیات کےخلاف کھل کر مزاحمت کی۔ انہوں نے معاشرے کی مسخ شدہ چہروں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ انسانی وجود کے ٹوٹنے  اور بکھرنے کے عمل کو وہ  اپنی ذات میں تلاش کرتے ہیں جس میں سمت کے گم ہو جانےکا احساس بہت نمایاں ہے۔ان کہانیوں میں پاکستان کی  سماجی ، سیاسی  اورمعاشی تاریخ کا احاطہ  ملتا ہے۔وہ عصری صورتحال کو سامنے لانے کے با وصف مزاحمتی رویوں کے نمائند ہ  ہیں۔انہوں نے  افسانے کو ایک نیا  رنگ اور آہنگ عطا کیا ہے۔ جدید اردو افسانے کی تاریخ ان کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

حوالہ جات:

1۔ رشید امجد، ڈاکٹر ، مزاحمتی ادب: ایک جائزہ، مشمولہ”مزاحمتی ادب (2007-1999) مرتب،رشید امجد، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد،2009،ص 17

2۔ وزیر آغا، ڈاکٹر ، رشید امجد کے افسانے ، روشنائی، کراچی،2002،ص 206

3۔ رشید امجد ،  ” تمنا بے تاب “ فیض السلام  پرنٹنگ پریس، راولپنڈی ، ستمبر 2001ء ص267

4۔  انور سدید ، ڈاکٹر،مختصر اردو افسانہ ،عہد بہ عہد، مقبول اکیڈمی، لاہور،س۔ن،ص62

5۔ رشید امجد ،تنہائی کی باتیں ، مشمولہ “بیزار ،آدم کے بیٹے “،رشید امجد،دستاویز پبلیشرز ، راولپنڈی، 1974ص 9،10

6۔۔رشید امجد ، میں اور میرے کردار “مشمولہ ” ایک عام آدمی کا خواب “، رشیدامجد،حرف اکادمی راولپنڈی 2006 ء ص 137

7۔رشید امجد ، عام آدمی کا خواب۔2 ،مشمولہ ،”گملے میں اُگا ہوا شہر “(رشید امجد کے منتخب افسانے )، نیشنل بک فاونڈیشن، اسلام آباد ، 2015،ص218

8۔رشید امجد،ہابیل اور قابیل کے درمیان ایک طویل مکالمہ، مشمولہ ، بیزار آدم کے بیٹے  ،دستاویز پبلیشرز، راولپنڈی1974،ص160

9۔رشید امجد،شبِ مراقبہ کے اعترافات کی کہانیاں، مشمولہ ، عام آدمی کے خواب ،حرف اکادمی، راولپنڈی، 2006،ص24

10۔ ایضآ،ص29

11۔رشید امجد،لاشئیت کا آشوب ،مشمولہ ،”پت جھڑ میں خود کلامی” ، اثبات پبلی کیشنز، راولپنڈی، 1984،ص34

12۔ صوفیہ خشک، ڈاکٹر اردو افسانہ اور معاشرتی تعمیر نو(رشید امجدکے حوالے سے )مشمولہ “الماس تحقیقی مجلہ17 شعبہ اردو شاہ عبد الطیف یونیورسٹی ، خیر پور، سندھ، پاکستان ، 2016-2015 ،ص435

13۔ شمیم حنفی ، ، فلیپ ،گملے میں اُگا ہوا شہر (رشید امجد کے منتخب افسانے )رشید امجد، نیشنل بک فاونڈیشن، اسلام آباد ، 2015

14۔شفیق انجم، ڈاکٹر،عام آدمی کا صورت گر۔۔۔۔ رشید امجد، مشمولہ،مکالمہ،ہم عصراردو افسانہ -2،شمارہ 17، اکادمی بازیافت ،کراچی، جولائی 2008 تا جولائی 2009،ص 92

15۔ گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر  ، فلیپ ،گملے میں اُگا ہوا شہر (رشید امجد کے منتخب افسانے )، نیشنل بک فاونڈیشن، اسلام آباد ، 2015

  16۔ اعجاز راہی، ڈاکٹر،اردو افسانے میں علامت نگاری ، ریز پبلی کیشنز، راولپنڈی،2002، ص271

17۔ناصر عباس نیر،ڈاکٹر،”عام آدمی کی کہانی (رشید امجد کے افسانوں کا مطالعہ )”،مشمولہ ،”عالمگیریت اور اردو اور دیگر مضامین”،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،2015،ص299

18۔شمس الرحمن فاروقی ، فلیپ ،گملے میں اُ گا ہوا شہر (رشید امجد کے منتخب افسانے )رشید امجد، نیشنل بک فاونڈیشن، اسلام آباد ، 2015

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.