پاکستان میں اردو تحقیق کی روایت
عثمان غنی رعدؔ، استاد شعبئہ اردو،نمل،اسلام آباد
ughani@numl.edu.pk
+923324974997
Urdu research in Pakistan
In spite of all the strife and haste of the field of life, man has always been seeking improvement and has always tried his best to improve his condition.Improvement in all spheres of life is possible through faith and hard work. Therefore, it is necessary to examine the work and research to maintain the true identity of the work.Similarly, a field of research and subject was established to improve Urdu literature and maintain the original form of work.Which, by its rapid development, has added new chapters in Urdu literature and research has also facilitated criticism.This article also reviews the research work of key researchers in Pakistan.
شعبہ ہائے زندگی کی تمام کشمکش اور جلدی کے باوجود انسان ہمیشہ سے بہتری کا خواہاں رہا ہے اور اس نے ہمیشہ سے ہی اپنی بساط کے مطابق کام میں بہتری لانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں جہاں بہتری ایمان داری اور محنت سے ممکن ہے وہیں کام کا اصل تشخص برقرار رکھنے کے لیے کام کی جانچ پرکھ اور تحقیق بھی ضروری ہے بلکہ کام کے نکھار کے لیے تحقیق و جستجو لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیں اور سب سے بڑی بات کام کی تہہ تک پہنچنا اور چھپے ہوئے رازوں کو ڈھونڈ نکالنا اور اصلیت و حقائق کو سامنے لانا تو انسان کی سر شت میں شامل ہے ۔اسی طرح اردو ادب میں بہتری اور کام کی اصل شکل برقرار رکھنے کے لیے تحقیق کا شعبہ اور مضمون قائم کیا گیا جس نے روز افزوں اپنی ترقی سے اردو ادب میں نئے ابواب کا اضافہ کیا اور کھرا کھوٹا الگ کر دکھایا۔ تحقیق نے تنقید کی راہیں بھی آسان کر دیں۔
تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی فیروز اللغات کے مطابق ” درست، ٹھیک، صحیح، تصدیق، ثبوت، تسلیم کردہ، یقین، اعتبار، تلاش، چھان بین، کھوج ،پتا، دریافت، پوچھ گچھ، شناخت، جانچ، معتبر، پکی بات، تجربہ، امتحان” کے ہیں۔(1)
اوکسفرڈ اردو انگریزی لغت میں لفظ ” تحقیق” کے لیے درج ذیل الفاظ ملتے ہیں:
“Research, Verification, ascertaining the truth, Truth, exactness, fact” (2)
مندرجہ بالا تمام الفاظ کا مطلب تقریباً ایک ہی ہے اور سب سے معتبر اور زیادہ مستعمل لفظ Research ہی ہے۔ اس لفظ کو اگر ڈاکٹر جمیل جالبی کی مرتب کردہ قومی انگریزی اردو لغت میں دیکھا جائے تو:
” تحقیق؛ حقائق یا اصول کی تلاش میں پر مغز تفتیش/ کھوج؛ ایک تجرباتی تحقیق/چھان بین؛ تحقیقی علم؛ علمی تحقیق کرنا؛ پتا لگانا؛ کھوج کرنا؛ تفتیش کرنا”۔ (3)
مندرجہ بالا تمام الفاظ کا بھی جائزہ لیا جائے تو تحقیق سے مراد کھوج، تفتیش اور حقائق کی تلاش ہی ہے۔
تحقیق اور تفتیش زندگی میں ہر جگہ اور ہر پل استعمال ہوتی ہے غلط تحقیق انسانی وقار تک مجروح کر دیتی ہے اور اصل تحقیق گم شدہ وقار بھی بحال کر سکتی ہے ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ کے حوالے سے ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں:
” تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پر کھا جاتا ہے ۔ (4)
ڈاکٹر گیان چند ہی عبد الودود کی بات نقل کرتے ہیں:
” تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے”۔ (5)
مندرجہ بالا دونوں تعریفوں سے بھی حقائق کی تلاش یا حق کی طرف پھیرنا ہی تحقیق کا مقصد اولٰی نظر آرہا ہے ۔گیان چند نے اپنی کتاب ” تحقیق کا فن” میں تحقیق کی کئی محققین اور نقادوں کے مطابق تعریفیں نقل کی ہیں جو پر مغز معنویت سے بھری ہوئی ہیں اور ان سب تعریفوں کے بعد ڈاکٹر گیان چند جو اردو تحقیق کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں وہی یہاں لکھ دینا مناسب معلوم ہوتی ہے:
” جہاں تک اردو کی ادبی تحقیق کا تعلق ہے اس کا بھی یہی مقصد ہے کہ جن مصنفین ، جن ادوار، جن علاقوں، جن کتابوں اور متفرق تخلیقات کے بارے میں کم معلوم ہے ان کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جائیں ان کے بارے میں اب تک جو کچھ معلوم ہے اس کی جانچ پڑتال کر کے اس کی غلط بیانیوں کی تصحیح کر دی جائے تاکہ غلط مواد کی بنا پر غلط فیصلے صاد رنہ کر دیے جائیں۔ (6)
قیام پاکستان سے قبل بھی اردو تحقیق کا کام جاری تھا جن میں حافظ محمود شیرانی اور مولوی عبد الحق کا نام بڑے فخر سے لیا جاسکتا ہے مگر قیام پاکستان کے بعد جن محققین نے اردو ادب اور تحقیق پر کام کیا ان میں مولوی محمد شفیع، قاضی عبد الودود، ڈاکٹر عبد الستار صدیقی، ڈاکٹر عند لیب شادانی، ڈاکٹر سید عبد اللہ، ڈاکٹر محی الدین قادری زور اور سید نصیر الدین ہاشمی کے نام سر فہرست ہیں۔
اس کے علاوہ بہت سے سرکاری و نجی اداروں نے بھی اردو ادب اور تحقیق کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں جن میں اقبال اکیڈمی کراچی، بزم اقبال لاہور، انجمن ترقی اردو کراچی، مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کراچی، پاکستان ہسٹا ریکل سوسائٹی کراچی، ترقی اردو بورڈ کراچی، مجلس ترقی ادب لاہور، ادارہ تحقیقات پاکستان لاہور، مرکزی اردو بورڈ لاہور،پنجاب ادبی اکیڈمی لاہور، پشتو اکیڈمی پشاور، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، سندھی ادبی بورڈ حید ر آباد اور بلوچی اکیڈمی کوئٹہ، اکادمی آف لیٹرز اسلام آباد اور ادارہ فروغ قومی زبان (مقتدرہ) پاکستان اسلام آباد زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔(7)
اب ہم پاکستان میں اردو تحقیق کا جائزہ پیش کرتے ہیں اور صرف اہم اور بڑے ناموں پر اکتفا کیا جائے گا۔
حافظ محمود شیرانی:
حافظ محمود شیرانی 1880ء کو پیدا ہوئے اگرچہ یہ قیام پاکستان سے قبل 1946ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے مگر جدید اردو تحقیق کا آغاز انھوں نے ہی کیا اس لیے ان کے ذکر کے بغیر تحقیقی کام ہمیشہ ادھورا رہے گا۔شیرانی کو تقریباً آٹھ سال انگلستان میں رہنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے لائبر یر یوں سے بھر پور استفادہ کیا اور تحقیق و تنقید کے جدید نظریات پڑھے جو انھوں نے بعد ازاں اپنی اردو و فارسی تحقیق میں استعمال کیے۔شیرانی کی سب سے معتبر تحقیق ” پنجاب میں اردو” ہے جو 1928ء کو منظر عام پر آئی جس نے اردو ادب اور اردو زبان کے ابتدا کے نظریات میں انقلاب بر پا کر دیا اور بعد کے محققین کے لیے تحقیق کے نئے دروا کیے۔
اردو کا اہم تذکرہ ” مجموعہء نغز” بھی ان کی ایک گراں قدر تصنیف ہے جس میں انھوں نے بڑی جانفشانی اور جاں کا ہی سے تحقیق کی ہے۔ حافظ محمود شیرانی کے مقالات مظہر محمود شیرانی نے مرتب کیے ہیں۔ حافظ محمود شیرانی ہر کام سند، حوالے اور چھان پھٹک کے بعد درج کرتے تھے۔ انھوں نے اردو تحقیق کے معیار کو اتنا بلند کیا کہ مغربی تحقیقی معیاروں کے ہم پلہ کر دیا۔
مولوی عبد الحق:
بابائے اردو مولوی عبد الحق 1870ء کو پیدا ہوئے آپ نے اردو تحقیق میں بہت زیادہ کام کیا تدوین میں بھی اپنی خدمات پیش کیں اسی بنا پر آپ کو بابائے اردو کا لقب دیا گیا ۔ آپ نے اردو زبان سے لگاؤ کی بنا پر لسانیات میں بھی خاطر خواہ کام کیا اور اس کے علاوہ قواعدِ اردوبھی مرتب کیے اور لغت نویسی پر بھی کام کیا۔ ان کے مکتوبات، مقدمات اور دیباچہ داستان رانی کیتکی پر تحقیقی کام دیکھا جاسکتا ہے مولوی صاحب کے مقدات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ مولوی صاحب کے مقالات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مولوی صاحب کا اہم ترین کارنامہ جو شاید رہتی دنیا تک قائم رہے گا وہ ادرارہ انجمن ترقیِ اردو ہے ۔جو پہلے انڈیا میں تھا جسے بعد میں پاکستان منتقل کیا گیا۔”مرحوم دہلی کالج” بھی ان کی شہرہ آفاق تصنیف ہے جس میں انھوں نے اردو کے ارتقا اور نمود پر کافی بحث کی ہے آپ نے 1961ء کو وفات پائی۔
مولانا غلام رسول مہر:
مولانا غلام رسول مہر 13 اپریل 1893ء کو پیدا ہوئے۔ مولانا بنیادی طور پر صحافی تھے انھوں نے تاریخ اور ادبیات پر بھی بہت تحقیقی کام کیا ہے ان کی تاریخ پر مبنی کتابوں میں “سید احمد شہید” سرگز شت مجاہدین، جماعت مجاہدین، 1857ء کے مجاہد، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ادبی تحقیقی کام میں غالب، خطوط غالب (ترتیب و تدوین)، دیوان غالب (ترتیب و تدوین)، قصائد و مثنویات فارسی (غالب) ا ن کی اہم اور مشہور تصانیف ہیں۔غالب شناسی کے ساتھ ساتھ مولانا اقبال شناس بھی تھے اور انھوں نے اقبال کی تین اردو کتابوں کی شرح بھی لکھی ہے جن میں بانگِ درا، بالِ جبریل اور ضرب ِکلیم شامل ہیں۔اس کے ساتھ اقبال کی فارسی مثنویوں اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی پر بھی شرحیں لکھی ہیں۔آپ نے 16 نومبر 1971ء کو وفات پائی۔ آپ غالب شناسی اور اقبال شناسی کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
پروفیسر حمید احمد خان:
پروفیسر حمید احمد خان 1903 ء میں پیدا ہوئے ۔ پروفیسر صاحب نے عمر بھر درس و تدریس سے تعلق رکھا اور جب بھی تحقیقی و تنقیدی لکھا تو مستند حوالوں سے سوچ سمجھ کر لکھا۔تحقیق میں ان کا سب سے اہم کام غالب کے دیوان کی تدوین و ترتیب ہے جو انھی کے نام سے “نسخہ حمید یہ” کہلاتا ہے پہلے سے موجود تمام دیواوینِ غالب کو اکٹھا کر کے یہ نسخہ مدون کیا گیا اور یہ نسخہ 1969ء کو غالب کی صد سالہ تقریب میں پیش کیا گیا اور غالب کے متون کے حوالے سے یہ بڑا اہم کام ہے ۔ آپ نے 1974ء میں وفات پائی۔
امتیاز علی عرشی:
امتیاز علی عرشی 1904ء میں پیدا ہوئے ۔آپ کی تحقیقات کا بھی زیادہ تر مرکز غالب ہی رہا انھوں نے غالب کے تمام خطوط، مخطوطات اور مطبوعہ دواین کی ر وشنی میں دیوان ِ غالب کو از سر ِ نو مدون کیا اور اس نسخے کا نام نسخۂ عرشیہ رکھا ۔غالب کی تحقیق کے سلسلے میں عرشی صاحب کا یہ ایک اہم کارنامہ ہے اس کے علاوہ ان کا اہم کام ” اردو میں پشتو کا حصہ” بھی ہے ۔ یہ ایک محنت طلب اور دقیق نظری کا تحقیقی کا م ہے جو عرشی صاحب نے کیا ۔ آپ نے 1981ء میں وفات پائی۔
شیخ محمد اکرام:
شیخ محمد اکرام 10 ستمبر 1908ء کو چک جھمرہ فیصل آباد میں پیدا ہوئے آپ آئی سی ایس آفیسر تھے ۔ جس وجہ سے قیام پاکستان کے بعد کئی اعلی عہدوں پر بھی متمکن رہے۔ اپنے فرائض منصبی کے علاوہ انھوں نے ثقافتی، تہذیبی، ادبی اور تاریخی تحقیق پر بھی کافی کام کیا ہے۔ ان کی برصغیر کی اسلامی ہند کی ثقافتی تہذیبی کتاب جو تین جلدوں پر مشتمل ہے جن کے نام ” آبِ کوثر، موجِ کوثر اور رودِ کوثر” ہیں۔ یہ برصغیر کی تاریخ پر اہم اور معروف کتاب ہے۔اس کے علاوہ یہ غالب شناس بھی تھے اور انھوں نے غالب کی سوانح اور ان کے کلام کی تاریخی ترتیب کے لحاظ سے بہت اہم کام انجام دیا ہے جو ” حیاتِ غالب” کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ “غالب نام”، آثار ِ غالب اور ” حکیمِ فرزانہ” اپنی نوعیت کے لحاظ سے تحقیق و تنقید میں معتبر ترین کتابیں ہیں اور “ارمغانِ غالب” بھی انھی کی تصنیف ہے انھوں نے 1973ء میں وفات پائی۔
شوکت سبزواری:
شوکت سبزواری 1904ء میں پیدا ہوئے۔ڈاکٹر صاحب تنقید و تحقیق دونوں لحاظ سے اہم ہیں۔ مگر ان کی تحقیقات کا زیادہ تر محورلسانیات رہا اور وہ ماہرِ لسانیات کے طور پر ہی جانے گئے اور اس لحاظ سے ان کی اہم کتابیں “اردو زبان کا ارتقا، داستانِ زبانِ اردو، اردو لسانیات اور لسانی مسائل” ہیں۔اس کے علاوہ ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں “فلسفہء کلام غالب” اور” غالب فکر و فن” اہم کتابیں۔ اردو ڈکشنری بورڈ، کراچی کے مدیر ِاعلی بھی رہے اور اسی ادارت کی بدولت انھوں نے “اردو لغات” کی پہلی آٹھ جلدیں بھی مرتب کیں۔ ڈاکٹر صاحب اردو ، انگریزی، عربی ، فارسی، سنسکرت اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے اسی لیے ان کا قواعدِ زبان اور لسانیات پر کام اہم سمجھا جاتا ہے۔
ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خان:
ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خان 23 ستمبر 1912ء کو پیدا ہوئے۔عمر کا زیادہ حصہ سندھ، حید آباد میں گزرا۔ان کا سب سے اہم کارنامہ ادبی و تحقیقی وہ “اقبال اور قرآن” ہے جس پر انھیں صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا اس کے علاوہ ان کا معتبر ترین کام “اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات” ہے ا س کے علاوہ حالی کا ذہنی ارتقا، ادبی جائزے،تحقیقی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، قواعد ِاردو، عملی نقوش اور بہت سے مضامین بھی لکھے۔اس کے علاوہ ان کی اردو تحقیق میں سید حسن غزنوی (حیات اور ادبی کارنامے)، ثقافتی اردو شامل ہیں ان کو ستارہ امتیاز اور اقبال ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ آپ نے 25 ستمبر 2005ء کو وفات پائی۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی:
ڈاکٹر عبادت بریلوی نے کافی تحقیقی و تنقیدی کتابیں لکھیں۔ ان کی اہم ترین تحقیقی کتاب ” اردو و تنقید کا ارتقاء” ہے اس کے علاوہ غزل اور مطالعہ غزل، غالب کا فن، غالب اور مطالعہ غالب، اس کے ساتھ ساتھ اقبال احوال و آثار، اقبال کی اردو نثر، جدید شاعری، شاعری اور شاعری کی تنقید اور شاعری کیا ہے؟ اور یادِ عہدِ رفتہ، اہم ترین تحقیقی کتابیں ہیں اس کے علاوہ مشاہیرِ ادب کی سوانح اور ادبی خدمات پر بھی انھوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار:
ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار 1924ء میں پیدا ہوئے آپ نے تاریخ ، سیاسیات اور اردو ادب کے موضوعات پر کافی تحقیقی کام کیا ان کا اہم ترین تحقیقی کارنامہ اردو شاعری کا سیاسی اور سماجی پس منظر ہے اس کے علاوہ ان کا تحقیقی و تدوینی کام “دیوان زادہ” جو حاتم کی کتاب ہے اس کے علاوہ “مولانا ظفر علی خان: حیات ، خدمات و آثار”، اہم تحقیقی کتاب ہے بلکہ یہ ایک مکمل سوانحی کتاب ہے۔”بزم ِاکبر”، کے نام سے اکبر کے منتخب اشعار کا تجزیاتی و تحقیقی مطالعہ پیش کیا ہے آپ نے 2007ء میں وفات پائی۔
ڈاکٹر وحید احمد قریشی:
ڈاکٹر وحید احمد قریشی 1925ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا میلان تنقید کی طرف تھا مگر آپ نے تحقیقی کام بھی اچھی تعداد میں چھوڑا ہے۔ آپ کا شاہکار تحقیقی کام ” میر حسن اور ان کا زمانہ” ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مضامین پر مشتمل کتاب ” کلاسیکی ادب کا تحقیقی مطالعہ” میں بھی اچھے تحقیقی مضامین شامل ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے تدوین میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جس میں “مقدمہء شعر و شاعری” کی تدوین اہمیت کا درجہ رکھتی ہے ۔مثنویات ِمیر حسن اور دیوان جہاں دار شاہ کی بھی آپ نے تدوین کی۔ آپ نے 2009ء میں وفا ت پائی۔
ڈاکٹر جمیل جالبی:
جمیل جالبی پاکستان کی تحقیقی و تنقیدی لحاظ سے اہم شخصیت ہیں آپ 1929ء میں پیدا ہوئے اور اپریل 2019ء میں فوت ہوئے۔مثنوی ” کدم راؤ پدم راؤ” آپ کا اہم تدوینی کام ہے ان کا سب سے اہم تحقیقی کام ” تاریخ ادبِ اردو” ہے جس کی اب تک چار جلدیں منظرِ عام پر آچکی ہیں اور یہ تاریخ ابتدا سے انیسویں صدی کے اختتام تک لکھی جا چکی ہیں اور اس میں جس جاں فشانی اور عرق ریزی کا مظاہرہ ملتا ہے وہ ہماری پوری ادبی تاریخ کی روایت میں ناپید تھا۔پرانے اردو کے الفاظ کی جمع آوری بھی جو بعنوان ” قدیم اردو کی لغت”مرتب کی ایک اہم تحقیقی کام ہے۔ دیوانِ حسن شوقی اور کلام ِنصرتی بھی نہایت دلچسپی اور محنت سے مرتب کیے۔
ان کا ایک اور تحقیقی کام “قومی انگریزی اردو لغت” ہے جو مقتدرہ نے شائع کی۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے متعدد تحقیقی، تنقیدی کتابوں کے تراجم بھی کیے جن میں “ارسطو سے ایلیٹ تک” آپ کی شہرہ آفاق کتاب ہے۔
نور الحسن نقوی:
نور الحسن نقوی 1933ء میں پیدا ہوئے آپ نے تحقیق کے میدان میں خود کو کلیات ِمصحؔفی کی تدوین کر کے منوایا ہے جس کی نو جلدیں مجلسِ ترقیِ ادب لاہور نے شائع کی ہیں۔
اس کے علاوہ انھوں نے کلیات ِجرؔات کی تدوین میں بھی اپنی تحقیق اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔
ڈاکٹر مشفق خواجہ:
ڈاکٹر مشفق خواجہ 1935ء میں پیدا ہوئے ۔آپ نے اپنی تحقیق کا لوہا ” تذکرہ خوش معرکہء زیبا”، کی تدوین کر کے منوایا۔ یہ سعادت خان ناصر کا لکھا ہو تذکرہ ہے۔ان کا ایک اور اہم تحقیقی کام ” جائزہ مخطو طات ِاردو” ہے اس کے علاوہ غالب اور صغیر بلگرامی ان کے اہم تحقیقی کام شمار ہوتے ہیں۔آپ نے کلیاتِ یگاؔنہ کی تدوین بھی فرمائی۔ آپ 2005ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
ابواللیث صدیقی:
ابواللیث صدیقی 15 جون 1916 ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے ۔آپ نے نقاد ماہرِ لسان اور محقق کے طور پر شہرت سمیٹی۔ آپ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر رہے آپ نے اردو لغت بورڈ کی ادارت بھی سنبھالی۔ آپ نے ایم اے ، پی ایچ ڈی کی ڈگری مسلم علی گڑھ یونیورسٹی سے حاصل کی آپ کے اہم تحقیقی کاموں میں “آج کا اردو ادب”، “اقبال اور مسلکِ تصوف” اور “اردو کی ادبی تاریخ کا خاکہ” زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔آپ جیسے مایاناز محقق کے شاگردوں نے بھی بہت نام کمایا ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر معین الدین عقیل اور اسلم فرخی آپ کے شاگردوں میں سے اہم ہیں۔ آپ نے 7 ستمبر 1994ء کو کراچی میں وفات پائی۔
افسر امر و ہوی:
افسر امر و ہوی کا تحقیقی کام بھی لائق ِتحسین ہے آپ نے مصحؔفی پر تحقیقی کام پیش کیا جن میں ” مصحؔفی حیات و کلام” اور ” تلامذہء مصحؔفی” اہم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کا ایک اور تحقیقی کام “سرمایہء تغزل” ہے جس میں آپ نے اپنی انتھک محنت اور عرق ریزی سے اپنا ہی شعری سرمایہ مع مقدمے کے پیش کیا۔
ڈاکٹر سہیل بخاری:
ڈاکٹر سہیل بخاری کا اصل نام سید محمود نقوی تھا آپ 6 دسمبر 1914ء کو یوپی میں پیدا ہوئے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔ 1946 ء میں آپ نے آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا اور پھر 1950ء میں ناگ پور یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی پھر آپ پاکستان چلے آئے اور یہاں آکے پی اے ایف اسٹیشن کالج لاہور میں پرنسپل مقرر ہوئے۔پنجاب یونیورسٹی سے 1963ء میں آپ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور آپ کا تحقیقی مقالہ “اردو داستان” پر تھا جسے بعد میں مقتدر ہ قومی زبان نے کتابی شکل میں شائع بھی کیا۔آپ نے تقریباً 30 کتابیں لکھیں جن میں آدھی تقریباً لسانیات پر مبنی ہیں۔ آپ کے اہم تحقیقی کاموں میں “اردو کا روپ”، “اردو کی کہانی” تشریحی لسانیات، اردو اور دکنی زبان کا تقابلی مطالعہ اور اردو زبان کا صوتی نظام، شامل ہیں اردو گرامر پر آپ کی تحقیقی کتاب” نظامیاتِ اردو” اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔
اس کے علاوہ آپ کے تحقیقی کاموں میں ” ناول نگاری” ” سب رس پر ایک نظر” اور ” باغ و بہار پر ایک نظر” بھی اپنی الگ اہمیت رکھتی ہیں۔آپ ماہرِ لسانیات، محقق اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ غالب شناس اور اقبال شناس بھی تھے آپ کا غالب پر کام ” غالب کے سات رنگ” بہت اہم تحقیقی کام ہے اور اقبال پر کام ” اقبال مجدد ِعصر” اہم تحقیقی کام ہے اور “اقبال ایک صوفی شاعر” اہم ہیں۔
اس کے علاوہ آپ کی تحقیق کے دائرے میں ” ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ” نہایت اہم تحقیقی کام ہے۔ آپ کے “لسانی مقالات” پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ” اردو رسم الخط کے بنیادی مباحث” بھی ایک اہم تحقیقی تصنیف ہے۔
آپ نے تحقیق میں ایک اہم اور بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے 29 جنوری 1990ء کو آپ اس جہان ِ فانی سے کوچ کر گئے۔
محمد عبد اللہ قریشی:
محمد عبد اللہ قریشی نے بھی تحقیق میں اپنا ایک الگ مقام بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے انھوں نے اپنی تحقیق کی بدولت اقبال شناس ہونے کا ثبوت بہم پہنچایا ہے اور اپنی تحقیق کی بدولت “حیاتِ اقبال کی گمشدہ کڑیاں”، ” اقبال بنام شاد” اور “معاصرین اقبا ل کی نظر میں” پیش کیں۔یہ تینوں کتابیں اقبال پر اہم تحقیقی تصانیف ہیں اور اس سے ایک اہم اور خاص محقق کے اوصاف سامنے آتے ہیں۔
مظہر محمود شیرانی:
مظہر،حافظ محمود شیرانی کے پوتے اور اختر شیرانی کے بیٹے تھے انھوں نے اپنی تحقیق کا آغاز اپنے دادا حافظ محمود شیرانی کے مقالات کو مرتب کر کے کیا اس کے بعد تحقیق کی بدولت” حافظ محمود شیرانی اور ان کی علمی و ادبی خدمات” کے عنوان سے دو جلدوں میں یہ کتاب مکمل کی اور اعلی پائے کیتحقیق کا ثبوت دیا اس کے علاوہ ” حافظ محمود شیرانی” کے عنوان سے بھی کتاب مرتب کی جو مقتدرہ قومی زبان نےشائع کی۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب ” کہاں سے لاؤں انھیں” بھی اہم کتاب ہے۔
معین الدین عقیل:
پروفیسر معین الدین عقیل 25 جون 1946ء کو انڈیا میں پیدا ہوئے۔آپ اردو ادب میں تحقیق کا ایک مستند اور اعلٰی نام ہیں۔آپ نے 1969 کو ایم اے اور 1975 کو پی ایچ ڈی بعنوان:”تحریکِ آزادی میں اردو کاحصہ“مقالہ لکھ کر مکمل کی۔2003 میں کراچی یونی ورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔کراچی یونیورسٹی سے ہی پروفیسر اور صدرِ شعبئہ اردو کے طور پر سبک دوش ہوئے۔آپ کے تحقیقی کاموں کی ایک طویل فہرست ہے۔جن میں چندا یک درج ذیل ہیں:
پاکستانی ادب: مسائل اور مناظر،کلماتِ آبدار،بیاضِ رنجور،نوادراتِ اردو،امیر خسرو:فرد اورتاریخ،پاکستان میں اردو ادب،پاکستان میں اردو تحقیق: موضوعات اور معیار،پاکستان میں اردو غزل،اشاریہء کلامِ فیضؔ،وغیرہ اہم تحقیق کام ہیں۔
آپ ابھی بقیدِ حیات ہیں اور کراچی میں علمی و عملی کاموں میں مشغول ہیں۔
اسلم فرخی:
اسلم فرخی 23 اکتوبر 1933 کو لکھنو میں پیدا ہوئے آپ نے اردو محقق، نقاد اور ماہر ِلسانیات کے حوالوں سے شہرت سمیٹی۔ اس کے علاوہ آپ بچوں کے ادیب کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں آپ یونیورسٹی آف کراچی کے صدر شعبہء اردو بھی رہے۔آپ کی اہم تحقیقی تصانیف میں ” محمد حسین آزؔاد: حیات و تصانیف”، گلدستہء احباب”، ” دبستان ِنظام”، ” بچوں کے سلطان جی” اور ” بچوں کے رنگا رنگ امیر خسرو” شامل ہیں۔آپ 15 جون 2016ء کو کراچی میں اللہ کو پیارے ہوئے۔
خلیل الرحمن داؤدی:
خلیل الرحمن داؤدی نے بھی تحقیقی میں اپنا نام بنانے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب ہوتے بھی نظر آتے ہیں ان کی تحقیقی کتاب “اردو کی قدیم منظوم داستانیں” نہایت اہم تحقیقی کتاب ہے یہ کتاب مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کی ہے اس کے علاوہ ” قصہء اگر گل” کی تدوین و تحقیق بھی ان کا اہم کارنامہ ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری:
ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا اصل نام سید دلدار ولی تھا۔ آپ 26 جنوری 1926ء کو فتح پور یوپی میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے فتح پوری کہلائے۔ آپ نے اپنی شناخت ماہرِ لسانیات، محقق، نقاد اور لکھاری کے طور پر بنائی۔آپ نے 1950 کو آگرہ یونیورسٹی سے گریجو ایٹ کیا اور پھر اسی سال پاکستان ہجرت کر کے آگئے اور کراچی میں مقیم ہوئے آپ نے پھر کراچی یونیورسٹی سے اپنا ماسٹر مکمل کیا اور ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔آپ نے 1965ء کو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی آپ نے 1974ء کو ڈل لٹ کی ڈگری حاصل کی اور پہلے پاکستانی ڈاکٹر آف لیٹرز (D. Litt) کہلائے۔ (8)آپ اردو لغت بورڈ کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ ان کی تحقیقی کاوشوں میں “اردو رباعی ، تدریس ِاردو، اردو کی منظوم داستان، تحقیق و تنقید، نیا اور پرانا ادب، نواب مرزا شوق کی مثنوی، زبان اور اردو زبان، اردو املا اور رسم الخط، اردو کی نعتیہ شاعری، تاویل و تدبیر، اقبال سب کے لیے، فنِ تاریخ گوئی، اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، میر انیس : حیات اور شاعری، غالب : شاعر امروز و فردا، دریائے عشق اور بحر المحبت کا تقابلی مطالعہ، اردو افسانہ اور افسانہ نگاری، ہندی اردو تنازع، نیاز فتح پوری: دیدہ وشنیدہ، عورت اور فنون لطیفہ، غزلیات ِغالب:شرح و متن، اردو شاعری اور پاکستانی معاشرہ، ان کی اہم تحقیقی و تنقیدی کتابیں ہیں۔
آپ کو آپ کے تحقیقی کام کی بدولت حکومت ِپاکستان کی طرف سے ستارہ ءامتیاز بھی دیا گیا آپ نے 3 اگست 2013ء کو کراچی میں وفات پائی۔پاکستان کے یہ اہم ترین محققین ہیں جنھوں نے اپنی اپنی جگہ پر تحقیق و تنقید کے لحاظ سے اردو ادب کو سیراب کیا ہے۔
حکومت پاکستان نے بھی تحقیقی معیار کو بہتر کرنے کے لیے کچھ ادارے قائم کیے جن کے بارے میں معین الدین عقیل لکھتے ہیں:
” قیام پاکستان کے بعد کئی ادارے قائم کیے گئے اور نئے نئے منصوبے شروع کیے گئے انجمن ترقی اردو، کراچی ” پاکستان ہسٹاریکل سو سائٹی، کراچی، مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کراچی، ترقی اردو بورڈ، اب “اردو سائنس بورڈ لاہور”، لاہور، مجلس ترقی ادب لاہور اب ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد، قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت اسلام آباد، قومی کمیشن برائے تحقیق تاریخ و ثقافت اسلام آباد اور ان کے علاوہ علاقائی زبانوں کی اکادمیاں، پنجابی ادبی اکادمی لاہور، پشتو اکیڈمی پشاور، سندھی ادبی بورڈ، کراچی ، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ، یہ وہ ادارے ہیں جو حکومت کی مالی اعانت سے علم و ادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ (09)
پاکستان میں ان اداروں کے علاوہ بھی کچھ اردو اکیڈمیاں اور علاقائی اکیڈمیاں بھی شدہ شدہ اردو ادب کی خدمات کر رہی ہیں ان اکیڈمیوں نے اپنے علاقائی شاعروں، ادیبوں کی کتابیں شائع کر کے انھیں اردو کے منظر نامے میں لایا ہے اور علاقائی لسانی تحقیق کو اردو کی لسانی تحقیق سے وابستہ کر دیا ہے۔پاکستانی جامعات میں بھی تحقیق کا اعلیٰ حوالہ ہیں اور ان جامعات نے قیام پاکستان سے تا حال تحقیق کا اعلیٰ معیار پیش کیا ہے۔کچھ یونیورسٹیوں میں ایم اے کی سطح کے مقالے ملتے ہیں اور کچھ میں پی ایچ ڈی کے مگر اب تو کچھ سالوں سے ایم فل کی سطح کے بھی بڑے اچھے علمی و تحقیقی مقالے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
جامعات کی تحقیق کے متعلق ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:
” تحقیق کا ایک اور مستقل ادارہ پاکستان کی یونیورسٹیاں ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی، سندھ یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی میں تحقیق کا کام ایک اچھی مقدار میں ہوا ہے۔ بعض یونیورسٹیوں میں ایم اے سطح پر اردو کے بکثرت مقالات لکھے جاتے ہیں اور بعض یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کے مقالے بھی تیار ہوتے ہیں۔( 10)
پاکستان میں اردو تحقیق کی روایت میں سرکاری، نجی اداروں کے ساتھ ساتھ جامعات نے بھی بھر پور حصہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ غیر سندی طور پر محققین نے نہایت اعلی پائے کی تحقیق کا ثبوت بہم پہنچا کر اردو کی تحقیق کو عالمی سطح پر پہنچا دیا ہے۔
حوالہ جات
1۔ فیروز الدین ، مولوی، فیروز اللغات، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، س ن ، ص 328
2۔ رؤف پاریکھ، اوکسفرڈ اردو انگریزی لغت، اوکسفرڈ پریس، کراچی، 2013ء، ص340
3۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، قومی انگر یزی ارد ولغت، مقتدرہ قومی زبان پاکستان اسلام آباد، 1991ء،ص 1679
4۔ گیان چند، ڈاکٹر، تحقیق کا فن، ادارہ فروغِ قومی زبان، پاکستان، اسلام آباد، 2016ء، ص 9
5۔ ایضا ً، ص9
6۔ ایضاً،ص 13
7۔ معین الدین عقیل ڈاکٹر، اردو تحقیق، مقتدرہ قومی زبان، پاکستان، اسلام آباد، 2008ء، ص1
8۔https:llen.wikipedia.org/wiki/Farman-Fatehpuri وقت: 9:00 A.M، 24 مئی 2018ء
9۔ معین الدین عقیل، ڈاکٹر، پاکستانی زبان و ادب ، الوقار پبلشنز، لاہور ، 1999ء،ص 398
10۔ معین الدن عقیل، ڈاکٹر، اردو تحقیق، مقتدرہ قومی زبان پاکستان، اسلام آباد، 2008ء، ص3
٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!