اردو نظموں میں قومی یکجہتی اور حُب الوطنی
ڈاکٹر سیّد احمد قادری، نیو کریم گنج، گیا، بہار
اس وقت ہمارے ملک میں جس طرح فرقہ واریت ، مذہبی جنون،عدم رواداری اور منافرت کا زہر پھیل رہاہے ۔ وہ ہمارے ملک کی برسہا برس سے چلی آ رہی گنگا جمنی تہذیب ، رواداری ،روایات ،معاشرت ، قدروں اور یکجہتی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارا ملک ہندوستان ہمیشہ سے باہمی یگانگت، اتحاد و اتفاق اخوت و محبت اور دوستی و یکجہتی کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں کی تمام تہذیبیں مل کر ایک تہذیب ہو گئی، جسے ہندوستانی تہذیب کا نام دیا گیا، نہ کہ مختلف خانوں میں منقسم کیا گیا۔ اس سلسلے میں اردو کے مشہورشاعر رگھو پتی سہائے فراق گورکھپوری نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ—
’’جب ہم ہندوستانی تہذیب اور کلچر کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ تہذیب صرف ہندوستانی ہوا کرتی ہے نہ کہ ہندو یا مسلم ہوتی ہے‘‘—
یہی وجہ ہے کہ ایک طرف جہاں مسلم شعراء ہندو کلچر سے متاثر نظر آتے ہیں تو وہیں دوسری جانب ہمارے بہت سارے ہندو شعراء مسلم تہذیب و تمدن کی عقیدت و احترام کا اظہاراپنی تخلیقات میںکرتے آئے ہیں۔ اردو شاعری اور فکشن میں ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں۔اردو زبان اور اس کا ادب، ایک مشترکہ تہذیب، آپسی میل محبت باہمی رشتہ، دوستی، رواداری اور یکجہتی سے مالا مال ہے۔
اردو شاعری پر ایک نظر ڈالیں، تو ہم دیکھیں گے کہ امیر خسرو نے جس تہذیبی اور یکجہتی کے احساسات و جذبات کا اظہار اپنے فن پاروںمیں کیا، اسے ہر دور میں فروغ ملا۔ ایک طرف رحیمؔ ، رس خان اور جائیسی وغیرہ جیسے مسلم شعرأ ہندی زبان میں ہندوستانی تہذیب و تمدن کو موضوع شاعری بناتے ہیں، تو وہیں دوسری جانب تلوک چندمحروم ،پنڈت برج نرائن چکبت، ڈاکٹر منو ہر سہائے انور، آنند نرائن ملا، رگھو پتی سہائے فراق، جگن ناتھ آزاد، دیا شنکر دوبے نسیمؔ، درشن سنگھ دُگل، کرشن موہن،سوہن راہی، کرشن بہاری نور، پر تپال سنگھ بیتاب، جینت پرمار، ش کاف نظام، جو ہر بجنوری، روشن لال روشن، حقیر آستانی، دھرم پال عاقل، راج نرائن رازؔ، رشمی کانت راہی، ساحر ہوشیار پوری، شباب للت، کرشن کمار طور، کمار پاشی، منوہر لعل ہادی، پرکاش تیواری، آزاد ،گلاٹی، پرکاش ناتھ پرویز، پریم کمار نظر، پریم واربر ٹنی، جمنا پرساد راہی، کرشن مراری، کنور مہندر سنگھ سحر، ستیہ پال آنند ، ودیا ساگر آنند ، چمن لال چمن وغیرہ جیسے ہندو شعراء نے اردو نظموں میں اپنی تہذیبی، مذہبی روا داری، باہمی یگانگت، بھائی چارگی اور دوستی کے فکر و احساس کے اظہار بیان سے اعلیٰ نمونۂ ادب بنا کرپیش کیا ہے۔
مسلم شعراء نے بھی اپنے ہندو بھائیوں کے تیو ہاروں، ان کے مذہبی رسومات اور کردار کو بڑی عقیدت سے اپنے فن پاروں میں جگہ دی ہے۔
اردو ادب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اردو ادب کی جتنی بھی اصناف ہیں، ہر صنف میں قومی یکجہتی کے نقوش بہت نمایاں ہیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اردو زبان ہمیشہ سے پیار و محبت کی زبان رہی ہے ۔ اس زبان میں جو شیرینی اور اثر انگیزی ہے،وہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے ۔ اردو کے ابتدائی دور میں ہی نظیر اکبر آبادی 1735-1830) )نے اپنی نظموں میں قومی یکجہتی کی ایسی نادر مثالیں پیش کی ہیں ، جنھیں آج بھی ہم بھُلا نہیں پائے ہیں۔ ویسے اردو نظموں کے ابتدائی نمونے ہمیں قلی قطب شاہ کے یہاں بھی موجود نظر آتی ہیں ۔ بعد کے ادوار میں محمد حسین آزاد ( 1830-1910 ) اور الطاف حسین حالی نے اردو نظموں کو فروغ دیا۔ اس کے بعد جیسے جیسے یہ کارواں آگے بڑھا، اردو نظموں میں متنو ع موضوعات میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس دور کی اردو نظموں میں مغربی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ جس سے اردو نظموں کے اسلوب، ہیئت ،فکر و معنویت اور حسن و معیار کو بھی وسعت ملی ۔ علّامہ اقبال (1877-1938)کا دور آتے آتے اردو نظموں میں قومی یکجہتی کے افکار واظہار میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ علّامہ اقبال کے بعد اپنی نظموں سے ایک خاص پہچان والے شعرأ میں جمیل مظہری، سیماب اکبر آبادی،افسر میرٹھی،جوش ملیح آبادی،احسان دانش،اختر شیرانی، ساغر نظامی ،ن م راشد، حفیظ جالندھری وغیرہ سامنے آئے اور ان لوگوں نے اپنی بے حد خوبصورت اور معیاری نظموں کی سحر انگیزی سے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں اردو نظموں کو خوب فروغ حاصل ہوا اور بتدریج اس کے حسن ومعیار میں نکھار آتا چلا گیا۔ یہ نظموں کی مقبولیت ہی تھی کہ اس صنف میں کئی تجربے کئی گئے۔یوں تو عام طور پر پابند نظموں، جن میں بحر اور قافیے کی پابندی ضروری ہوتی ہے ، جنھیں ربط و تسلسل کے ساتھ پڑھنے اور سننے میں ایک خاص لطف آتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہوتی ہے کہ نظم کے تمام اشعار ایک دوسرے میں پیوست ہوتے ہیں ۔جس کے باعث معنویت کے بہاو میں قاری بہتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ترقی پسند تحریک کے بعد مغربی شاعری کے اثرات قبول کرتے ہوئے جدیدیت کی تحریک کے دوران بحر اور قافیئے سے آزاد نظمیں بھی مقبول ہوئیں۔ ن م راشد،ضیا جالندھری،مجید امجد،تصدق حسین وغیرہ نے اس دور میں بہت پیاری نظمیں لکھیں اور کافی مقبول ہوئے۔ اب جہاں تک نظموں کے تعلق سے تجربوں کا سوال ہے تو تجربوں میں طویل نظم،معرأنظم، آزاد نظم، نثری نظم کہنے والے بھی بہت سارے شعرأ سامنے آئے ۔ان تجرباتی نظموں میں نت نئے موضوعات کو سمونے کی کوششیں ہوئیں ،جن میں قومی یکجہتی اور حُب اوطنی کے نقوش بھی بہت نمایاں ہیں ۔
اردو نظموں میں قومی یکجہتی اور حُب الوطنی جیسے اہم موضوع پر یوں تو کئی کتابیں اور مضامین منظر عام پر آ چکے ہیں ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایسا موضوع ہے جو وقت اور حالات کے تقاضوں کے تحت ہی عام طور پر لکھا جاتا ہے تو ایسے ہی وقت اور حالات کے مطالبات کے لئے بار بار دہرانے اور دہراتے رہنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ہر نسل اور ہرمذہب وملّت کے نوجوانوں کے دل و دماغ میں یہ بات پوری طرح سما ئی رہے کہ ملک کے اند رکے اتحاد و اتفاق،یکجہتی اور آپسی میل محبت ہی ملک کو عظیم بناتا ہے اور اس کے لئے یہ سب بہت ضروری ہے۔علّامہ اقبال نے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ؎
کہتا ہوں میں ہندو مسلمانوں سے یہی ٭ اپنی اپنی روش پر تم نیک رہو
لاٹھی ہے ہوائے دہر پانی بن جاؤ ٭ موجوں کی طرح لڑو ،مگر ایک رہو
اس مختصر تمہید کے بعد ہم اردو نظموں میں پیش کی جانے والی قومی یکجہتی اور حُب الوطنی کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ الطاف حسین حالی نے اپنی بیشتر نظموں میں ہندوستان کی معاشرتی زندگی ،یہاں کی روایات اورشاندارقدروں پر خاص توجہ دی ہے۔ یہ حالی ہی تھے ،جنھوں نے اپنے اس ملک کو مادر وطن سے تعبیر کیا تھا ۔ انھوں نے وطنی محبت کو اپنی مشہور نظم ’’ حُب وطن‘‘ میں اس خوبصورتی اور دلاآویزی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ان کے اس انداز سے نہ صرف ان کے معاصرین شعرأ بلکہ بعد کی نسل شاعروں کو ایک راہ دکھائی ۔ مرزا غالب نے بھی اپنی شاعری میں اپنے عہد کی بھرپور نمائندگی کی ہے۔ ان کے یہاں یکجہتی، دوستی، محبت ، انسانیت کے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ حب ا لوطنی کی ایسی حسین تصویر پیش کی ہے ،جو ہندوستان کے تہذیبی اقدار کو پوری طرح واضح کرتا ہے۔یہ شعر دیکھئے ؎
ہم موحّد ہیں ،ہمارا کیش ہے ترک اسلام ٭ ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایمان ہو گئیں
اس دور کے بعد اردو نظموں میں قومی یکجہتی اور حُب الوطنی کا سلسلہ دراز ہوتے ہوتے علّامہ اقبال تک پہنچ کر یہ دور بلا شبہ سنہری دور میں بدل جاتا ہے۔علّامہ اقبال کے مجموعہ ’’بانگ درا‘‘ کی پہلی نظم ‘‘ہمالہ‘‘ کے بعد اسی ’بانگ درا‘ میں شامل مشہور زمانہ ’ ترانۂ ہندی‘ نے تو پورے غیر منقسم ہندوستان کے بچہ بچہ میں وطن پرستی اور یکجہتی کی قندیلیں روشن کر دیں اور ایسی سرشاری پیدا کر دی کہ عصر حاضر میں اس نظم کوفراموش کرنے کی منصوبہ بند کوششوں کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ یہ پوری نظم آج بھی زبان زد خاص وعام ہے۔ اس تاریخی نظم کے بعد میری نگاہ بے اختیار اقبال کی نظم ’رام‘ پر مرکوز ہوتی ہے جس میں انھوں نے رام کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ا تھا ؎ اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت ٭ مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز ٭ اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند
علّامہ اقبال کی ایک بہت اہم نظم ’’تصویر درد ‘‘ ہے ۔ جو کہ ۶۹ اشعار اور ۸ بند پر مشتمل ہے۔ اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نظم اب سے سو سال قبل کہی گئی تھی اور جو باتیں اس نظم میں کہی گئی ہیں وہ ساری باتیں پیشن گوئی بن کر آج ہمارے سامنے موجودہے۔ عہد حاضر کے ہندوستان کے حالات کو سامنے رکھئے اور پھر اس نظم کا ذرا انھماک سے مطالعہ کیجئے تو ایسا محسوس ہوگا کہ علّامہ اقبال نے اپنی اس نظم جن اندیشوں کا پوری حکمت کے ساتھ اظہار کیا تھا ۔وہ سارے اندیشے ،آج حقیقت بن کر سامنے کھڑے ہیں۔ علّامہ اقبال نے آپسی اتحاد ،یکجہتی، رواداری اور انسانی اقدار پر قائم رہنے کی ہمیشہ تلقین کی ہے اور ان سے انحراف کئے جانے کی صورت میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ؎ نہ سمجھوگے تو مٹ جاوگے ائے ہندوستاں والو ۔ اس بہت اہم اور تاریخی نظم کے چند اشعار دیکھئے اور علّامہ اقبال کی دوربینی اور دور اندیشی کی داد دیجئے۔ علّامہ اقبال نے کہا تھا ؎
وطن کی فکر کر ناداں، مصیبت آنے والی ہے ٭ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
ذرا دیکھ اس کو ، جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے ٭ دھرا کیا ہے بھلا عہد کہن کی داستانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو ٭ تمہاری داستاں تک نہ بھی نہ ہوگی داستانوں میں
نہ جانے کیوں لو گ ایسے وقت میں، جبکہ علّامہ اقبال کی کہی گئی باتیں سچ بن کر سامنے آرہی ہیں ، اس نظم کوبھول گئے ہیں ۔
عصر حاضر کی پراگندگی اورمذہبی اختلافات کے بڑھتے ماحول میں چندر پرکاش جوہر کی بھی ایک نظم ’’ مذہب کا اختلاف مٹانے کی بات کر‘‘ کی یاد آتی ہے ۔ جس میں انھوں نے کہا تھا ؎
جوہر مٹا کے مذہب و ملت کا اختلاف ٭ نفرت کی آگ دل سے بجھانے کی بات کر
مذہب ذات اور زبان کے اختلافات کو دور کر آپسی محبت اور رواداری کی بات کرنے والے علّامہ اقبال اور ان کے عہد کے کئی شعرأکے بعد جوشؔ و فراق ؔکا دور آتا ہے۔ اس دور میںچکبست،ساغر نظامی، حسرت موہانی، آنند نرائن ملّا،جمیل مظہری،سیماب اکبر آبادی،تلوک چند محروم، افسر میرٹھی، گوپی ناتھ امن، سردار جعفری، اعجاز صدیقی، سلام مچھلی شہری، مخدوم محی الدین،الطاف مشہدی، جگن ناتھ آزاد، وامق جونپوری، خلیل الرحمٰن اعظمی،، ابن انشأ،وامق جونپوری، جاںنثار اختر،،غلام ربّانی تاباں، مخمور جالندھری، حرمت الکرام وغیرہ جیسے مشاہیر شعرأ کرام نے اپنی نظموں میں وطن پرستی کی شاندار مثالیں قائم کرنے کے ساتھ ہی اردو نظموں میں گرانقدر اضافہ کیا ہے۔ ان تمام شعرأ کی ایسی بے مثال نظموں کو نقل کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ۔ پھر بھی چند شعرأ کی ایسی نظموں کے کچھ اشعار مثال کے طور پر پیش خدمت ہیں ۔
فراق گورکھپوری نے اپنی شاعری سے یقینی طور پر ایک دنیا آباد کی ہے۔ ان کے یہاں وطن پرستی اور حب الوطنی کے نادر نمونے ملتے ہیں ۔ ان کی مشہور نظم ’’ ہنڈولے‘‘ اس وقت بے اختیار یاد آتی ہے ۔ جس میں فراق نے ہندوستانی تہذیب اور معاشرت کی جس حسین پیرایہ میں عکاسی کی ہے ۔وہ بلا مبالغہ آفاقیت عطا کرتی ہے۔ یہ پوری نظم ہندوستان کی شاندار روایت اور گنگا جمنی تہذیب کی خوشبو سے معطر ہے ۔ اس کے چند بند دیکھئے۔۔۔۔ ؎
دیار ہند گہوارہ یاد ہے ہمدم ٭ بہت زمانہ ہوا کس کے کس کے بچپن کا
اسی زمین پہ کھیلا ہے رام کا بچپن ٭ اسی زمین پہ ننھے ننھے ہاتھوں نے
کسی سمئے دھنش بان کو سنبھالا تھا ٭ اسی دیار نے دیکھی کرشن کی لیلا
اسی زمین سے اٹھے تان سین اور اکبر ٭ رحیم و نانک و چیتنیہ اور چشتی
انھیں فضاؤں میں بچپن کے دن گزارے تھے ٭ اہلیا بائیؔ،دمن، پدمنیؔ و رضیہؔ نے
یہیں کے پیڑوں کی شاخوں پہ ڈالے تھے جھولے ٭ اسی فضا میں بڑھائی تھی پینگ بچپن کی
انھیں فضاوں میں گونجی تھی توتلی بولی ٭ کبیر داسؔ ،تکا رامؔ،سورؔ و میراؔ کی
اسی ہنڈولے میں ودیا پتیؔ کا کنٹھ کھلا ٭ اسی زمین کے تھے لال میر و غالبؔ ؔ
یہیں سے اُٹھے تھے تہذیب ہند کے معمار ٭ اسی زمین نے دیکھا تھا بالپن ان کا
فراقؔ کی اس نظم میں بقول خود فراق ہندوستانی تہذیب کی رنگا رنگا ی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ایسی نظمیں اردو شاعری کے خزانے کا بہت اہم اور قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اردو نظموں کے خزانے میں جمیل مظہری کی بھی ایسی کئی نظمیں اپنی موجودگی کا احساس کراتی ہیں ۔ جمیل مظہری کی نظمیں فکری،فنّی اور معنویت کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں ۔ ویسے تو ان کی کئی نظمیں ایسی ہیں،جن میں وطن پرستی کے احساسات و جزبات موجزن ہیں ۔لیکن ان کی ایک نظم ’بھارت ماتا‘‘ میں اپنے وطن کے تئیں جس طرح سے تقدس اور یکجہتی کا والہانہ پن اور وابستگی ہے۔ وہ بے اختیار اپنی جانب توجہ مبذول کراتی ہے۔اس خوبصورت نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں ۔ ؎
ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی ٭ تیری گود میں بھائی بھائی
چھیٹوں میں تیرے بادل کے ٭ سایہ میں تیرے آنچل کے
مسجد ، گرجا ، او ر شوالا ٭ لنکا سے تا کوہ ہمالہ
گنگا اور جمنا کی روانی ٭ کہتی ہے ماتا تیری کہانی
حُب الوطنی کے گیت سنانے والوں میں ایک اہم نام برج نرائن چکبتؔ کا بھی ہے ۔ہندو، مسلم کے اتحاد و اتفاق کے وہ بھی علمبرداروں میں تھے۔ گنگا جمنی تہذیب کے وہ بھی عاشق تھے۔ اپنے اس عشق کا اظہار انھوں نے اپنی پہلی نظم ’’حُب قومی ‘‘ کے عنوان سے 1894ء میں کیا تھا اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ حُب الوطنی کے جذبات سے بھری ان کی مشہور نظوں میں خاک ہندد، وطن کا راگ،فریاد قوم،ہمارا وطن دل سے پیارا وطن،وطن کو ہم وطن کو مبارک وغیرہ ہیں ۔ جن میں ان کی وطن اور ہم وطنوںکے تئیں محبت اور عظمت کا خوبصورت اظہار دیکھنے کو ملتا ہے۔ در حقیقت چکبست کی شاعری میں وطن پرستی کا عنصر ہی ان کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ نظم ’’فریاد قوم ‘‘ کا ایک آخری بند دیکھئے، جس میں وہ کہتے ہیں ؎
لُٹا جو نام تو دولت کی جستجو کیا ہے ٭ نثار ہو نہ ہو وطن پر تو آبرو کیا ہے
لگا دے آگ نہ دل میں تو آرزو کیا ہے ٭ نہ جوش کھائے جو غیرت سے وہ لہو کیا ہے
فدا وطن پہ جو ہو آدمی دلیر ہے وہ
جو یہ نہیں تو فقط ہڈیوں کا ڈھیر ہے
چکبستؔ کی ایک نظم ’’کرشن کنھیا‘‘ بھی ایک شاندار نظم ہے ۔ جس میں انھوں نے کرشن کی بانسری کی مدھر آواز میں مایوسیوںسے بھری زندگی میں بہار محسوس کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ؎
بانسری لے کے نیا گیت سنا دے کوئی ٭ سو رہا ہے دل مایوس جگا دے
اسی طرح افسر میرٹھی کی حُب الوطنی سے بھری شاعری میں ایک الگ شان جھلکتی ہے۔ ان کی شاعری ، وطنیت کے جذبے سے بھری پڑی ہے۔ ’ ’جیسا میرا دیش ہے افسر ایسا کوئی دیش نہیں‘‘جیسی نظم کے ساتھ ساتھ انھوں نے ’’ وطن کا راگ‘‘ جیسی بے حد دل کو چھو لینے والی نظم میں اپنی وطن دوستی سے بھرے موجوں کو روانی دیتے ہوئے اس طرح مخاطب کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ؎
یہ ہندوستان ہے ہمارا وطن ٭ چمن زار جنّت ہے سارا وطن
ہے دکھ سکھ میں دل کا سہارا وطن ٭ ہے آنکھوں میں آنکھوں کا تارا وطن
ہمارا وطن دل سے پیارا وطن
وطن سے جنون کی حد تک عشق میں حفیظ جالندھری بھی گرفتار رہے۔ اپنے وطن کی مٹّی ،ندیاں ،پربت، باغ، پھول سے والہانہ لگاؤان کے عشق کابے حد خوبصورت اظہار ہے ۔ حُب الوطنی پر مبنی ان کی بہت ساری نظمیں ہیں ، جن میںنیرنگ فرہنگ،اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے، میر جوانی، خون کے چراغ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں، جو آج بھی لوگ بھول نہیں پائے ہیں اور جب کبھی حُب اوطنی میں ڈوبی نظموں کا ذکر آتا ہے ۔ ان کی ان نظموں کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ان میں سے اپنے وقت کی بے حد مشہور اور مقبول ایک نظم ’’ اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے‘‘ کا کچھ حصّہ دیکھئے اور انھیں داد دیں۔۔۔۔۔۔۔ ؎
اپنے وطن میں سب کچھ ہے پیارے
اپنے وطن میں دن رات پیارے
وہ چاند سورج نوری غبارے
وہ ندیاں ہیں امرت کے دھارے
دنیا سے اونچے پربت ہمارے
باغ اور آکاش پھول اور تارے
سب منتظر ہیں ہمارے تمہارے
اپنے وطن مین سب کچھ ہے پیارے
قومی یکجہتی اور حُب الوطنی سے سرشار نظم نگاری میں پرویز شاہدی بھی عروج پر نظر آتے ہیں ۔ ان کی نظمیں بنت ہمالہ،ساز مستقبل،ضیافت، گلچیں، رجز انقلاب،خوش آمدید وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو قومی ہمدردی، انسانیت اور جذبۂ آزادی کا سر چشمہ ہے۔ یہ سب اپنے وقت کی بے حد مشہور اور مقبول نظمیں ہیں ۔ جو آج بھی اپنی معنویت، سلاست اور غنائیت کے باعث متاثر کرتی ہیں ۔ ایسی ہی انفرادیت اور جزباتیت ظفر علی خاں کی نظموں میں بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ آزادی ہند، فانوس ہندکا شعلہ وغیرہ جیسی مشہور نظمیں ظفر علی خاں کی خاص پہچان ہیں۔ آل احمد سرور اپنی نظم ’’ دیوالی‘‘ میں دیوالی کے روشن چراغوں سے دکھوں اور غموںکے اندھیروں کو دور کرنے کی معنویت تلاش کرتے ہیں ؎
یہ بام و در، یہ چراغاں، یہ قمقموں کی قطار ٭ سپاہ نور سیاہی سے بر سر پیکار
یہ زرد چہروں پہ سرخی ،فرسودہ نظروں میں رنگ ٭ بجھے بجھے سے دلوں کو اجالتی سی امنگ
’’دیوالی‘‘ ہی عنوان کی اپنی نظم میں غلام ربّانی تاباں جنگ و جدال کی ہولناکیوں پر امن و امان کی جیت کی تمنّا کرتے نظر آتے ہیں ۔اثر لکھنوی اپنی نظم ’’درس اتحاد‘‘ میں دلوں میں کینہ نہیں رکھنے بلکہ اپنی زندگی میں اتحاد و اتفاق اور یکجہتی بسانے کا درس دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اردو شاعری حُب اوطنی اور قومی یکجہتی کے احساسات و جذبات سے بھری پڑی ہے اور میرا یہ یقین ہے کہ اردو زبان کا ہر چھوٹا بڑاشاعر اپنے اپنے انداز میں وطن پرستی کے گیت ضرور پیش کرتا ہے۔ خاص طور پر جب کبھی ملک پر کسی نے نظر اٹھا دیکھنے کی کوشش کی ہو ، ایسے وقت میں ہمیشہ اردو کے نظم نگاروں میں ایک طوفان سا اٹھتا نظر آیا ہے۔ 1962 ء میں جب چین نے ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا ۔ اس وقت اردو کے بیشتر شعرأ نے حُب الوطنی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نظموں میں اپنے ملک کی حفاظت میں لگے جوانوں کو دشمن کے خلاف جوش و جنون سے بھرے الفاظ میں للکارتے نظر آتے ہیں اور وطن پرستوں کو ملک کی حفاظت کے لئے تیار رہنے کا حوصلہ، ہمّت اور جرأ ت کے شرارے بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساحر لدھیانوی کی نظم ’’وطن کی آبرو خطرے میں ہے تیار ہو جاؤ‘‘، جانثار اختر کی نظم ’’میرے قلم کا لہو‘‘، وسیم بریلوی کی نظم’’ آندھی کا بہاؤ‘‘منظر سلیم کی نظم ’’تاریخ ہے شاہد‘‘ آنند نرائن ملّا کی نظم’’ لہو کا ٹیکا‘‘ فضا ابن فیضی کی نظم ’’ہندوستان‘‘شمیم کرہانی کی نظم’’ میرے وطن ائے میرے وطن ‘‘ اجمل اجملی کی نظم ’’پھول زخمی ہیں‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ایسے دور میں علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی کی بھی کئی نظمیں مقبول ہیں۔ ان تمام نظموں میں جس طرح سے وطن دوستی، محبت ،یکجہتی، رواداری کے احساسات و جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ، وہ آج بھی پوری طرح ہمارے دلوں میں محفوظ ہیں۔
اردو نظموں میں قومی یکجہتی اور حُب الوطنی کے خوبصورت اور معنویت سے بھرپور اظہار کا سلسلہ ہر دور کے شعرأ میں جاری ہے اور یہ
فہرست اتنی لمبی اور تفصیل طلب ہے کہ اس مختصر مضمون میں ممکن ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے جدید نظم نگار پابند نظموں کے پابند نہیں رہے اور آزادیٔ اظہار کے لئے آزاد نظموں کا زیادہ سہارا لیا ہے۔ ایسی نظموں کو پڑھنے کے بعد ان نظموں میں معنویت کا ٹھاٹیں مارتا سمندر تو ہوتا ہے ،لیکن وہ روانی ،سلاست اور غنائیت نہیں ہوتی ، جو پابند نظموں کو آفاقیت بختی ہیں۔ عہد حاضر کے حالات کے پیش نظر ایسی نظموں کی اہمیت اور افادیت میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!