نومارکسیت :بنیادی مقدمات اور دائرہ کار

توصیف احمد ڈار، ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو ، کشمیر یونیورسٹی

فون :9622543998

                یوں تو اردو ادب کے اُفق پر ہر دور میں کوئی نہ کوئی تحریک ، رویہ ، میلان یا رجحان اُبھرتا اور ڈوبتا رہا ، اسی لیے کسی بھی دور کو کسی خاص رجحان ، میلان یا تحریک سے منسوب کرنے کی روایت بہت مستحکم ہے۔۱۹۶۰ء؁ کے آس پاس اردو کے ادبی منظر نامے پر ترقی پسندی کے ردِ عمل کے طور پر جدیدیت کا رجحان رونما ہوا۔اس رجحان نے ترقی پسندی کی خارجیت اور اجتماعیت سے یکسر انحراف کرتے ہوئے فرد کی ذات اور اس سے جڑے مسائل و میلانات کو اہم تصور کیا اور فنی و موضوعاتی سطح پر ادب کو متاثر کیا۔جدیدیت کے دور میں جو ادب تخلیق ہوا ، اس میں احساس ِ تنہائی ، اجنبیت ،انکار و بغاوت ، مایوسی و ناامیدی ،جلا وطنی ، تشکیک و تذبذب وغیرہ جیسے موضوعات کا اظہار ہوا۔با الفاظ دیگر جدیدیت سے وابستہ لکھنے والوں نے خارجی حالات و واقعات سے انحراف کرکے انتہائی داخلی و ذاتی موضوعات کو اپنایا اور تجریدی اور علامتی اظہار ِ بیان کو فروغ حاصل ہوا۔اس طرح شعر و ادب کی تفہیم کی جو روایت حالی ؔ سے ہوتے ہوئے ترقی پسند اور حلقہ ٔ ارباب ِ ذوق تک آتے آتے مختلف النواع پیمانے اختیار کرگئی تھی ، جدیدیت کے زیر ِ اثر کافی متاثر ہوئی ۔جدیدیت نے جس طرح فرد اور اس کی ذات کو اہمیت دی ، بالکل اسی طرح اس کے تحت سامنے آنے والے تنقیدی نظریات نے بھی شعر و ادب کے متن کو خود مختار و خود مکتفی قرار دیا ۔یعنی کسی ادب پارے کے تجزیے کے دوران خارجیت سے انحراف کرکے فنی اقدار پر اس کی قدر و قیمت کا تعین کیا جائے ۔اس ادبی رجحان کے زیرِ اثر جو تنقیدی نظریات سامنے آئے ان میں ہیئتی تنقید ، نئی تنقید اور ساختیاتی تنقید قابل ِ ذکر ہیں ۔۱۹۷۵ء؁ تک آتے آتے اس رجحان کا اثر کم ہوتا گیا ،یہ اپنی کشش اور تازگی سے محروم ہوتے ہوئے بالآخر دم توڑ گیا اور متحرک سماجی و ثقافتی تبدیلیوں اور تازہ تخلیقی و جمالیاتی تصورات اور رویوں کے زیر ِ اثر نئی کونپلیں پھونٹیں اور یوں نئی ادبی صورت ِحال بار پانے لگی جسے ادبی اصطلاح میں ’’مابعد جدیدیت ‘‘ کہتے ہیں۔ بقول ِ قدوس جاوید کے :

’’۱۹۸۰ء کے آس پاس ادب کے مرکز سے جدیدیت دور اور مابعد جدیدیت قریب ہونے لگتی ہے ۔یعنی جدیدیت کی مرکز گریزیت (Centrifugality) اور مابعد جدیدیت کی جوئیت (Centripetality) کا عمل تیز ہوجاتا ہے اس عرصہ میں جو ادب تخلیق ہورہا تھا اس کے ایک بڑے حصے میں جدیدیت کی لکیریں مدہم ہورہی تھیں اور مابعد جدیدیت کے نقطے مسلسل روشن ۔‘‘۱؎

                جدیدیت کے زوال کے بعد ادبی منظرنامے پر اُبھرنے والی نئی نسل نے گزشتہ تحریکات و رجحانات سے بے زاری اختیار کر کے اپنی تخلیقات پرکسی بھی ازم کی لیبل چسپاں ہونے پر شدید مخالفت کا مظاہرہ کیا۔ان کے مطابق کوئی بھی نظریہ خواہ وہ کتنا ہی عظیم اور کار آمد کیوں نہ ہو ،مطلق اور ہمیشہ قائم رہنے والا نہیں بلکہ ایک خاص وقت کے بعد معتوب اور مردود قرار دیا جاتا ہے ۔اس دور میں سامنے آنے والے ادباء کے اس نمایاں اور مختلف سوچ و فکر کے تحت جو ادب تخلیق ہوا ، مابعد جدید ادب کہلایا ۔قدوس جاوید مابعد جدیدادبی تصورات سے متعلق اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں :

’’مابعد جدید تصور ادب جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی اصطلاحوں کو وسیع اور ہمہ گیر معنوں میں برتتا ہے اور ’’ مابعد جدید صورت حال ‘‘ کے بنیادی پہلوؤں ، سائنسی ، برقیائی اور ایٹمی انقلاب انفارمیشن ٹیکنالوجی ، کثیر سرمایہ کاری ،گلو بلائزیشن اور صارفیت وغیرہ کے زائیدہ سماجی اور ثقافتی تصورات ، تکثیریت،لامرکزیت ، عارضیت اور مقامیت وغیرہ پر اصرار کرتے ہوئے زندگی کی معنی خیزی کو نئے امکانات بخشتا ہے ۔‘‘۲؎

                مابعد جدیدیت جن فلسفیانہ نظریات سے عبارت ہے ،انھیں پیش کرنے میں سوسئیر ، لیوے اسٹراس ، رومن جیکب سن ،لاکاں ، آلتھیوسے ،رولاں بارتھ ،ژاک دریدا ،مثل فوکو ، جولیا کرسٹوا،لیوتار اور بیسوں مشرقی و مغربی فلسفی ہیں ۔ان فلسفیوں کے فلسفیانہ نظریات نے ادب کی نوعیت اور ماہیت پر از سر ِ نو غور و فکر کی طرح ڈالی، جس کے نتیجے میں ادبی تنقید کی روایت میں ایک فکر انگیز انقلاب آیا جو ’’ مابعد جدید تھیوری ‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔اس طرح نہ صرف مصنف ، متن اور قاری بلکہ زمانہ ، زندگی ، قرأت ، معنی ، زبان ، موضوع ، اسلوب اور ثقافت جیسے پہلوؤں کی تشریح ، تفہیم و تعبیر متنوع فلسفیانہ نظریات کی روشنی میں ہونے لگی اور کئی تنقیدی نظریات کا وجود ہوا ۔ جن میں پس ساختیاتی تنقید ، بین المتونی تنقید ، تانیثی تنقید ، امتزاجی تنقید ، اکتشافی تنقید ، نئی تاریخیت ، مابعد نوآبادیاتی تنقید اور نومارکسی تنقیدوغیرہ شامل ہیں ۔

                ’’نو مارکسیت ‘‘بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں ادبی بحث و مباحثہ کا حصہ بنی جس کا بنیادی سروکار اگرچہ مارکسیت سے ہی ہے لیکن اس کے دائرہ کار میں غیر معمولی طور پر وسعت اور تنوع ہے ۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مارکسیت سے متعلق اجمالاً روشنی ڈالی جائے تاکہ نومارکسیت کے دائرہ کاراور بنیادی مقدمات کی تفہیم میں قدرے آسانی ہو ۔کارل مارکس نے انسانی شعور کے برعکس ’’ مادّہ ‘‘ کی اوّلیت اور اہمیت کا فلسفہ پیش کیا ۔ان کے مطابق کائنات میں سارے عوامل کی حرکت و حرارت اسی ’’ مادّے ‘‘ کی مرہون ِ منت ہے ۔مارکس اور اینگلز کے فلسفیانہ افکار کی روشنی میں فلسفے کی مابعد الطبیعات اور تصوراتی روایتوں سے انحراف کیا گیا اور کائنات کی تعبیر و تشریح اور سماج کی تعمیر و ترقی مادّی نقطہ ٔ  نظر سے کی گئی ۔مارکس معاشرے کے معاشی ڈھانچے کومعاشرے کے’’ انفر اسٹرکچر ‘‘(Infrastructure)کا نام دیتے ہیں اور سیاست ، تعلیم ، فنون ، تہذیب ، مذہب وغیرہ کو وہ معاشرے کے ’’ سپر سٹرکچر ‘‘ (Super Sturcture)کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔مارکس کا ماننا ہے کہ انفراسٹرکچر اپنی سرشت میں اقتصادی ہے جو پیداواری رشتوں سے تشکیل پاتا ہے ۔ معاشرے کا سپر اسٹرکچر اسی (انفرا سٹرکچر ) کے تابع ہے ۔ جب اقتصادی نظام (پیداواری رشتوں یا ذرائع پیداوار ) میں کوئی تغیر و تبدل ہوتا ہے تو ذہنی سرگرمیاں اور اعمال بھی اس تغیر و تبدل کے ذد میں آتی ہیں جس کے تحت ثقافتی ، علمی اور آئیڈ یولوجکل سرگرمیاں واقع ہوتی ہیں ۔انھوں نے مزدوروں کے لئے ’’ پرولیتاری ‘‘(Proletaraite)اور سرمایہ داروں کے لئے بورژوازی (Bourgesis)جیسی اصطلاحیں وضع کیں اور دونوں کے مابین کشمکش کو واضح کرنے کی کوشش کی ۔’’ مارکسیت ‘‘ کے لئے متبادل اصطلاح ’’ اشتراکیت ‘‘ (Communism)کا رواج ہوا۔سماجی ارتقا کی وضاحت کے لئے مارکس نے جدّلیاتی طریق سے کام لیا ۔جدّلیات کو مارکس (اور ہیگل ، جس سے مارکس نے جدّلیات کو مستعار لیا اور اپنی فکر سے اس کے دائرہ کار کو وسعت عطا کی )کے فلسفے میں خاص اہمیت حاصل ہے کہ اسے فطرت ، معاشرہ اور خیال کا بنیادی ارتقائی اصول تسلیم کرکے ہمہ گیر حقیقت سمجھا گیا ۔جدّلیاتی مادّیت (Dialectical Materialism)اور تاریخی مادّیت (Historical Materialism)مارکسی فلسفے کی دو اہم اصطلاحیں ہیں ۔مارکس کے مطابق تاریخ کے ہر دور میں مادّی کشمکش جاری رہی ہے جس کا نتیجہ مزدور و محنت کش طبقہ اور سرمایہ دار طبقہ کی آپسی رنجش ہے ۔جدلیاتی مادّیت کے ذریعے مارکس نے مختلف ادوار میں مادّی تحصیل اور طبقاتی کشمکش کو سمجھاتے ہوئے اپنا فلسفہ (ہر چند کہ وہ اپنے افکار کو فلسفہ کہنے کے لئے تیار نہیں تھے )علمی اور منطقی انداز میں پیش کردیا ۔جدلیاتی مادّیت کائنات کے تغیر و تبدل کی تشریح کرتا ہے ۔مارکسی جدلیت اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ ارتقا ہمیشہ پست سے بلندی کی جانب ہوتا ہے۔جدلیاتی مادّیت اور تاریخی مادّیت کے مابین فرق کے حوالے سے ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں :

’’جدلیاتی مادّیت کے اصولوں کا سماجی زندگی اور سماجی ترقی پر اطلاق کرنے کے نتیجے میں تاریخی مادّیت کے نظریے کا ظہور ہوا۔۔۔دونوں میں ایک لطیف سا فرق بھی ہے کہ جدلیاتی مادّیت مادّی ارتقاکے اصولوں کے مطلق اور اٹل ہونے اور ایک طرف سے فلسفہ جبر میں یقین رکھتی ہے،جب کہ تاریخی مادّیت ، تاریخی عمل میں انسانی ارادے کی شرکت کی وجہ سے اضافیت پسند اور فلسفۂ قدر کی امین ہے ۔تاریخی مادّیت سے نسبت کی وجہ سے مارکسیت خالص جبریت کا فلسفہ نہیں رہتی ۔‘‘۳؎

                مارکس بورژوا طبقے کی برتری کے سخت مخالف تھے کیوں یہ برتری انھیں پیداواری اور تقسیم کے نظام میں حاصل تھی ۔پرولیتاری طبقے کے ساتھ ہورہی ناانصافیوں کا قلع قمع ان کی ترجیحات میں شامل تھا ۔مارکس ’’ ذاتی ملکیت کے خاتمے ‘‘ اور ’’ سماجی ملکیت کے نظام ‘‘ کے خواہاں تھے ۔اس لیے ان کے افکار و نظریات سے اُن لوگوں کو روشن مستقبل کی نوید سنائی دی جنھیں سماج کے مختلف طبقات میں ہورہی ناانصافیوں نے متاثر کیا تھا۔نتیجے کے طور پر دیکھتے ہی دیکھتے زندگی اور علم کے ہر شعبے (سیاسی ، سماجی ، تاریخی ، اقتصادی ، تہذیبی وغیرہ)پر مارکسیت کے اثرات پڑگئے۔مارکس مانتے ہیں کہ مغلوب اور مظلوم طبقہ (پرولیتاری) غالب اور ظالم طبقے (بورژوازی) کی آئیڈیولوجی کے سامنے بے بس و لاچار ہے ۔ یہ غالب طبقہ اپنے مفادات کی پاسداری کے لئے اپنی آئیڈیولوجی کو کام میں لاتا ہے ۔ مارکس کے مطابق معاشرے کا ’’سپر اسٹرکچر ‘‘بورژوازی طبقے کی اس آئیڈیولوجی کی تشہیر میں ایک اہم اور کارگر آلے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ادب بھی اس کی ایک اہم شاخ ہے۔عتیق اللہ اپنی تصنیف ’’ تنقید کی جمالیات ‘‘ کے جلد چہارم میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ :

’’ آجر طبقہ کی آئیڈیولوجی کو استوار کرنے اور قائم رکھنے میں جو تہذیبی اوضاع کام آتے ہیں ان میں ایک تخلیقی فن بھی ہے۔ایک لحاظ سے فن اور ادب مقتدر طبقہ ہی کی آئیڈیولوجی کو سماج میں پھیلاتے ہیں۔اس طرح ادبی متون جن روایات و اقدار کو معیار کے طور پر اخذ کرتے ہیں وہ اصلاً آجر طبقے ہی کی روایات و اقدار ہوتی ہیں ۔مارکسی تنقید ، متن میں کارفرما ان آئیڈیولوجیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور اس کے تحت المتن کو اُجاگر کرتی ہے جو بوجوہ دبا چھپا رہ گیا تھا ۔‘‘۴؎

                کلاسیکی مارکسیت ، جیسا کہ نام سے ہی معلوم ہوتا ہے ، مارکسی نظریات و افکار کی علمبردار ہے ۔اس کے تحت مارکسی نظریات کا من و عن اطلاق ادب پر کیا گیا اور مارکس کے تصور تاریخ ، طبقاتی کشمکش اور پیداواری رشتوں اور ذرائع کی روشنی میں ادب کا مطالعہ کیا گیا ۔اس دوران یہ نقطہ نظر انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ معاشرے کی بنیاد (Base)یعنی معاشی ڈھانچہ (جو پیداواری رشتوں سے تشکیل پاتا ہے)اور بالائی ساخت) (Super Structureیعنی سیاست ، تعلیم ، مذہب ، فن وغیرہ کے مابین براہ راست رشتہ ہے اور بالائی ساخت کا ارتقا ، معاشی ڈھانچہ میں تبدیلی کے براہ راست تابع ہے لیکن مارکسیت کے اس بنیادی اصول کی قطعیت پر مارکس نے ہی خط تنسیخ کھینچا:

’’ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مارکس اور اینگلز نے بعض ادب پاروں کا مطالعہ کیا اورتجزیاتی نتائج پیش کیے(یعنی تجربی انداز ِ فکر اختیار کیا )تو انھیں اعتراف کرنا پڑا کہ آرٹ کی ترقی اور معاشی صورت حال میں کوئی سیدھا سادااور براہ راست تعلق نہیں ہے ۔۱۸۵۷ء میں مارکس نے کارل تاؤتسکی کی کتاب “Zurukritik der poliischen okonomie”کے پیش لفظ ’’ جو مصنف کی وفات کے بعد ۱۹۰۳ء میں چھپا )میں واضح طور پر لکھا کہ سپر اسٹرکچر کا ارتقا ء معاشی بنیادوں میں تبدیلی کے براہ راست متناسب نہیں ہے  ۔‘‘۵؎

                ناصر عباس نیّر کے نزدیک یہ عجیب بات ہے کہ مارکسی نقادوں نے مارکس کے معاشی فلسفے کو جمالیاتی پیراہن مہیا کرنے میں خوب سرگرمی دکھائی لیکن آرٹ سے متعلق مارکس کے خیالات سے صرف ِ نظر کیا ۔روایتی مارکسی مفکرین جن میں لیون ٹراسٹکی ، لینن ، جارج پلینخوف اور کرسٹوفر کاڈویل کے نام اہمیت کے حامل ہیں ، نے مارکسی نظریات کو مارکسی فکر کے ڈھانچے ہی میں سمجھنے ، سمجھانے اور ان کے اطلاق کی کوششیں کیں ۔دوسری طرف اینٹیوگرامچی ، جارج لوکاچ ، ارنسٹ فشر ،اور وازکیز نے تاریخ ، سماج اور اقتصادی معاملات سے متعلق مارکس کے تصورات کا تجزیہ’’ نئی توضیحات اور نئی تعبیرات کے ساتھ کیا اور ادب و فن پر اطلاق میں تھوڑی بہت گنجائشوں کے لئے بھی راہ نکالنے کی کوشش کی ۔‘‘۶؎

                طبقاتی کشمکش ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے جس کے نتیجے میں سماج کے ایک مخصوص طبقے کو کارل مارکس کے پیش کردہ افکار و نظریات برابر متاثر کرتے آئے ہیں ۔عصر ِ حاضر میں بھی ، جب کہ دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے اور سائنس اورانفارمیشن ٹکنالوجی نے زندگی کے تقریباً ہر شعبے کو متاثر کیا ہے ، کارل مارکس کے فلسفے میں کئی سوالات کے جواب پوشیدہ ہیں ، لیکن اس کی تفہیم و تعبیر اور تشریح و توضیح روایتی طرز کے بجائے عصر ِ حاضر کے ثقافتی صورت حال کی متقاضی ہے ۔ترقی یافتہ ممالک ترقی پزیر ممالک کے مقابلے میں زندگی کی دوڑ میں آگے ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک کی نالج ترقی پذیر ممالک کی سرحدوں کی غلام نہیں ہے بلکہ ہوا کے دوش پر آکر کے Invade  کرتی ہے۔ایسے میں فاصلے سمٹ گئے ہیں اور کثیر اقوامی کمپنیوں (Multi-national companies)کا جال پھیل چکا ہے ۔اگرچہ بظاہر یہ خوش حالی اور ترقی کی علامت نظر آتی ہے لیکن ان کمپنیوں کے دائرہ عمل کو دیکھتے ہوئے ایک عام انسان بھی ان کے نو آبادیاتی طرز عمل کو کسی نہ کسی صورت میں محسوس کرتا ہے ۔ترقی پذیز ممالک کے پیداواری نظام کو متزلزل اور اپنے لئے روز گار کے وسائل تک پہنچنے کی راہوں پر کڑی پابندیاں عائد ہوتے ہوئے دیکھتا ہے ۔ایسے میں کارل مارکس کے افکار و نظریات کو استرداد فراہم نہیں ہوا بلکہ عصر ِ حاضر کی ثقافتی صورت حال کے تناظر میں ان کی ازسر ِ نو تفہیم کا مطالبہ سنجیدہ علمی اور ادبی حلقوں میںسامنے آیا اور نتیجتاً کارل مارکس کے افکار و نظریات کی دانشورانہ ، بصیرت افروز اور لچکدار تشریح و توضیح شروع ہوئی جو ’’ نومارکسیت ‘‘ کہلائی ۔ہرچند کہ اس کا قبلہ مارکسیت ہے لیکن مارکس کے افکار و خیالات کی یہ تشریح و تفسیر تکثیری مزاج اور آزادانہ مطالعے کی حامل ہے ۔اس طرح نو مارکسیت ، کلاسیکی مارکسیت کے متعدد معروضات سے تعرض کرتے ہوئے معاصر صورت ِحال کے تناظر میں کارل مارکس کے افکار کی تحسین کاری پر زور دیتی ہے ۔مابعد جدیدیت تکثیری مزاج کی حامل ہے ، یہ کسی حتمیت اور جبریت کو راہ نہیں دیتی اس لئے اس کے تحت برگ و بار لانے والی ’’ نو مارکسیت ‘‘ کے تفاعل اور مارکسیت سے اس کی وابستگی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ناصر عباس نیّر مارکسیت اور نو مارکسیت کے مابین فرق کو نمایاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

’’ ’’ نومارکسی تنقید اور آرتھوڈاکس مارکسی تنقید کا اختلاف مارکسیت کے سلسلے میں دونوں کے زاویۂ نظر کا اختلاف ہے ۔ ہر چند دونوں کا نظریاتی قبلہ مارکسیت ہے ، مگر دونوں نے مختلف زاویوں سے اور مختلف صورت حال میں اس کی تفہیم کی ہے ۔ ایک نے سیاسی قوت کے تحت اور دوسری نے منطق کی رو سے مارکسیت کی تعبیر کی ہے ۔ چناں چہ آرتھوڈاکس مارکسی تنقید میں عملیت ، افادیت ، حتمیت اور جبریت کے عناصر ہیں ، جب کہ نومارکسی تنقید مارکسیت کو ایک بصیرت افروز فلسفہ گردانتی ہے ، جس میں نئی تھیوری کی تشکیل کے امکانات بالقوہ موجود ہیں ۔ اس لیے یہ مارکسیت کا مطالعہ آزادانہ طور پر کرتی ہے ۔ اس کے بعض امکانات سے اختلاف اور انحراف کو روا سمجھتی ہے ۔‘‘۷؎

وہ مزید لکھتے ہیں :

’’ دوسرے لفظوں میں آرتھوڈاکس مارکسی تنقید روس کی کیمونسٹ پارٹی کے سرکاری نقطۂ نظر کی ترجمان ہے اور پارٹی کے سوشلسٹ مقاصد کے حصول میں معاون ہے تو نومارکسی تنقید مارکسیت کے ساتھ ایک علمی مکالمے کی دین ہے ۔ لہذا اس میں انقلابیت اور لازمی سیاسی وابستگی کی انتہا پسندی نہیں ہے ۔ نو مارکسی تنقید (جسے حقیقی مارکسی تنقید بھی کہا گیا ہے )کی تشکیل روس سے باہر ایک آزادانہ علمی ماحول میں ہوئی ہے ۔‘‘ ۸؎

یعنی یہ کہ نو مارکسیت ، مارکسیت سے پرے کوئی ماورائی فلسفہ نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادیں مارکسی افکار و نظریات پر ہی قائم ہیں لیکن اس کی اہمیت کا رازاس بات میں مضمر ہے کہ یہ مارکسیت کی انتہا پسندی کو نشان زدّ کردیتی ہے اور معاصر تناظر میں اس کی فکری و علمی بنیادوں کو مزید وسعت و استحکام بخشتے ہوئے اسے نئی تھیوری کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور معاصر ثقافتی صورت حال سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے ۔نو مارکسی مفکرین و ناقدین میں لیوئی آلتھیوسے ، پیرے ماشیرے ، ٹیری ایگلٹن ، جیمی سن ،بریخت ، تھیوڈ اڈورنو ، میکس ہورخی مر ، ہر برٹ مارکیز ، والٹر بنجامن اور لوشین گولڈ مان کے نام قابل ِ ذکر ہیں۔ان مفکرین کا روایتی مارکسزم کی نکتہ چینی یا تنقید کرنے ، مارکسی نظریے کی طرف راجع ہونے اور مابعد جدیدیت کے تحت مارکسزم کی نئی تعبیرات کا سلسلہ شروع کرنے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں ؟آئیے ان سوالات کے جوابات اردو کے معروف نقاد پروفیسر عتیق اللہ کی دانشورانہ کاوشوں میں تلاش  کرنے کی کوشش کرتے ہیں :

’’لوشین گولڈمن ، لوئی آلتھیوسے ، پیرے ماشیرے ، ای پی تھامپسن ، ریمنڈ ولیمز ، فریڈرک جیمسن ، ٹیری ایگلٹن اور والٹر بنجامن وغیرہ کے دور تک پہنچتے پہنچتے عالمی سیاسی ، اقتصادی ، تہذیبی اور تکنیکی منظر نامہ اس قدر تبدیل ہوجاتا ہے کہ کوئی ملک اپنے طور پر ایک ایسے علیٰحدہ نظام عمل کو بروئے کار نہیں لاسکتا جس سے وہ ایک جداگانہ وجود کے طور پر خود کوشی اور خودکفالت کا دعویٰ کرسکے ۔عالمی سماج میں ساری عدم مرکزیتوں کے باوجود طاقت Powerکی مرکزیت قائم ہے ۔صارفیت کے اندھا دھند فروغ ، دوغلی سیاست ، ذرائع ابلاغ کے صحیح اور غلط استعمال ، نئی عالمی منڈی کے تصورات کی تہہ میں استحصال کی قطعاً نئی بہروپی صورتیں ، صارفوں کی رغبتوں اور خواہشوں سے ساز باز وغیرہ وہ امورہیں جنھوں نے ردّ و قبولیت کے معیاروں ہی کی کایا پلٹ کردی ہے۔‘‘۹؎

                تھیوڈ اڈورنو نو مارکسی مفکرین میں ایک اہم نام ہے ۔اڈورنوکے نزدیک ادب سماجی زندگی کا ایک خود مختار شعبہ ہے جسے ادبی اصولوں کے تحت ہی سمجھا اور پرکھا جاسکتا ہے ۔ان کے نزدیک جس طرح الفاظ ادبی متن سے باہر اپنی ترسیل کرتے ہیں ادبی متن میں اس طرح نہیں کرتے ۔ان کا کہنا ہے کہ ’’لفطوں کے معنی ایک ادبی متن میں ویسے نہیں ہوتے ، جیسے ادبی متن سے باہر ہوتے ہیں ۔‘‘اڈورنو، لوکاچ سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ادب کا حقیقت کے ساتھ بلاواسطہ (Direct)رشتہ نہیں ہوتا بلکہ ادب درمیان میں ایک دوری قائم رکھتا ہے اور اس دوری سے حقیقت ہمیشہ ایک فاصلے پر رہتی ہے ۔ جب ادبی متن میں داخل ہوتے ہی لفظ کا سماجی سیاق بدل جاتا ہے تو ادبی متن سے سماجی حقیقت نگاری کا اس کی اصل شکل میں تلاش کرنا یقیناً بے سود و بے معنی ہے :

’’چوں کہ ادب کا تخلیقی عمل مواد اور لفظ کے سماجی تناظر اور معاشرتی مدلولات کی کایا کلپ کردیتا ہے ، اس لئے سماجی حقیقت کو اس کی ’’حقیقی شکل ‘‘ میں ادب میں تلاش کرنا عبث بھی ہے اور اصولی طور پر غلط بھی ۔کہ ایسا کرنا ادب کے جمالیاتی ، تخلیقی تفاعل سے عدم واقفیت ظاہر کرتا ہے ۔اسی خیال کی وضاحت میں اڈورنو نے یہ موقف اختیار کیا کہ ادب اور حقیقت میں براہ ِ راست رشتہ نہیں ہے ۔‘‘۱۰؎

اڈورنومغربی جدیدیوں کی اس بنا پر حمایت کرتے ہیں کہ جدیدیوں نے مانوس اور مروجہ ہیئتیں (جو طاقت کے مراکز اور مسلمہ حقیقت کو منعکس کرکے انہیں استحکام عطا کرتی ہیں ) کے برعکس روایت اور تجربے کے درمیان عدم تسلسل کی بات کی اور ہئیتی ، اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر نئے نئے تجربات کو راہ دی جو اڈورنو کے نزدیک امتنائی اور جبری آئیڈیولوجی کے خلاف ایک موثر احتجاج کی حیثیت رکھتے ہیں کیوں کہ ہر نیا اور اجنبی تجربہ طاقت کے مراکز سے انحراف کرتا ہے ۔

                نو مارکسی مفکرین میں دوسرا اہم نام ’’ والٹر بنجامن ‘‘ کا ہے ۔بنجامن نے موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کے بڑھتے زور و شور اور تخلیق کار ، تخلیق اور تخلیقی عمل پر اس کے پڑنے والے اثرات کے حوالے سے اپنا موقف پیش کیا ۔ان کا ماننا ہے کہ ذرائع ابلاغ نے تخلیقی متون کو ایک نئی دنیا کی سیر کرائی ۔ اس سے قبل ادبی تخلیق ایک مخصوص طبقے کی آئیڈیولوجی کی تشہیر و تعمیر کا پروردہ ہوا کرتی تھی لیکن ذرائع ابلاغ کے جدید آلات نے اسے کسی مخصوص طبقے کے برعکس عوام کے وسیع تر حلقے تک آپہنچایا ۔پہلے پہل ادب ایک خاص طبقے (جہاں پر اس کی تخلیق سامنے آتی تھی ) کی خواہشات کے مطابق ایک مخصوص کلچر کی عکاسی کرتا تھا مگر اب ادب عوام کے وسیع حلقے تک پہنچ گیا ہے اور نتیجتاً عوامی کلچر (ماس کلچر ) کی عکاسی کرتا ہے جو دراصل سیاسی آزادی کی علامت ہے ۔بقول ِ عتیق اللہ :

’’ اس کا ’’ بنجامن ‘‘ کا کہنا ہے کہ میڈیا حقیقت کے ساتھ گہرا رشتہ قائم کرکے ادب اور فن کے سللسے میں رواجی اور بورژوازی Eliteکو جڑ سے اکھاڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ نیز اسے ایک قسم کی سیاسی آزادی بھی مرحمت کرتا ہے ۔‘ ۱۱؎

                بنجامن نے کسی بھی فن پارے کی اصل شکل کو ( جب وہ یا تو غیر مطبوعہ ہوتا ہے یا تخلیق کار کی زبان سے ادا ) AURAکا نام دیا ہے ۔اس اصل شکل میں ادب پارے کے گرد ایک خاص فضا ہوتی ہے ۔ اس پر ایک مخصوص زماں و مکاں کی چھاپ قائم ہوتی ہے ۔لیکن جب ذرائع ابلاغ کی وساطت سے یہی ادب پارہ اس مخصوص فضا سے بالا تر ہوکر ایک وسیع تر حلقے تک پہنچ جاتا ہے تو اس کی اصل صورت باقی نہیں رہتی بلکہ یہ مصنف کی گرفت سے آزاد ہوکر خود کفیل اور خود مختار اکائی کے طور پر اپنا وجود منوانے لگتا ہے ۔گویا اب تک ادب ایک مخصوص سماج یا طبقے کی وراثت کا درجہ رکھتا تھا لیکن اب جدیدذرائع ابلاغ (ریڈیو ، ٹی وی ، سینما ، کمپوٹر وغیرہ )نے نہ صرف فنی تخلیق کے تصور کو بدل دیا ہے بلکہ فن پارے کو طبقہ ٔ خاص سے طبقہ ٔ عام تک لاکر اس کے تفاعل کو بھی متاثر کیا ہے ۔

                ساختیاتی مارکسیت کی بنیاد رکھ کر نو مارکسی تنقید میں ایک نئی جہت کی نشاندہی کرنے والے ’’لوشین گولڈمان ‘‘ نومارکسی فکر و فلسفے میں ایک ناقابل ِ فراموش نام ہے ۔گولڈمان نے ساختیات کی روشنی میں مارکسیت کی تفہیم اور تعبیر کی کوشش کی ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ ادبی متن اور سماجی اقتصادی ساخت اور ادبی فینومینا کے بیچ ایک براہ راست رشتہ ہوتا ہے جس میں اجتماعی لاشعور کی ثالثی یا وساطت کا کوئی رول نہیں ہوتا ۔وہ اپنا موقف ایک حیاتیاتی اصطلاح Homology، جس سے مُراد مختلف النوع ساختی مشابہتیں ہے، کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرتا ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ جس طرح مچھلی کے پروں ، پرندوں اور ممالیہ جانوروں کے اگلے بازوؤں کی ہڈیوں کی ساخت ایک جیسی ہے بالکل اسی مناسبت سے ادب ، سماجی گروہوں اور نظریات میں بھی ساختیاتی مشابہتیں ہیں ۔وہ ادبی تخلیق کو انفرادی کوششوں کے نتیجے کے برعکس بین انفرادی ذہنی ساختو ں Trans individual mental structureکا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔جو خود مختار و خود کفیل نہیں بلکہ کسی خاص ، چھوٹے یا بڑے سماجی گروہ یا طبقے سے متعلق ہوتا ہے ۔ ان ساختو ں میں کارفرما آئیڈیاز کو غیر معمولی اور اہم ادیب دریافت کرتے اور پھر انھیں اپنے فن پاروں میں از سر ِ نو خلق کرتے ہیں ۔گولڈمان نے ادب ، فلسفے ، مذہب اور سماجی گروہ کا آپس میں تقابلی مطالعہ پیش کیا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ ان سب کے عقب میں ایک یکساں ذہنی ساخت کارفر ما ہے ۔ناصر عباس نیّر لکھتے ہیں کہ :

’’ گولڈمان معاشی نظام کو بھی ایک ساخت ، رشتوں کا ایک نظام کہتا ہے ، یہی ساخت ادب کی ساخت کا تعیّن کرتی ہے ۔یعنی ادب سماجی شعور کے بجائے معاشی ساخت پر منحصر ہے ۔ ظاہر ہے گولڈمان اس موقف میں ساختیات اور علم بیانیہ دونوں سے استفادہ کررہا ہے ۔ یوں گولڈمان نے ہی ساختیاتی مارکسیت کی بنیاد رکھی اور نو مارکسی تنقید میں ایک نئی جہت کی نشان دہی کی ۔‘‘ ۱۲؎

                آلتھیوسے، پیرے ماشیرے اور ٹیری ایگلٹن نومارکسی نظریہ ٔ  نقد کے سلسلے میں اہم اور بنیادی نام ہیں جنھوں نے مارکسیت کی مخصوص حدبندیوں سے پرے اٹھ کر بعض نئے تصورات کی گنجائش بھی نکالنے کی سعی کی ۔آلتھیوسے کی ساختیاتی مارکسیت میں مرکزی حیثیت اس کے تصور ِ آئیڈیولوجی کو حاصل ہے ۔آلتھیوسے کے مطابق ’’ آئیڈیولوجی محض تجریدی تصورات کا مجموعہ نہیں بلکہ ڈسکورس ، امچز اور متھ کی نمائندگیوں کا وہ نظام ہے جو ان حقیقی رشتوں سے متعلق ہے ، جن میں لوگ زندگی بسر کرتے ہیں ۔‘‘آلتھیوسے بعض مارکسیوں ( جو یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اقتصادی بنیاد کی نوعیت ہی بالائی ساخت (Superstructure)کا تعین کرتی ہے )کو تنقید کا نشانہ بنا کر یہ موقف پیش کرتے ہیں کہ ، چوں کہ سماجی تشکیل میں مختلف سطحوں میں باہمی وحدت نہیں ہوتی ، بلکہ وہ اپنے اپنے عمل میں بڑی حد تک خودمختار ہوتی ہیں ۔آلتھیوسے کا خیال ہے کہ کلچر اور اقتصادیات میں ایک تعلق ہونے کے باوجود فن یا ادب اقتصادی اجبار سے کسی حد تک آزاد ہوتا ہے نیز وہ اس امر کے بھی قائل ہیں کہ ادبی تخلیق اپنے آپ کو فوری اور پوری طور منکشف نہیں کردیتی بلکہ اس کی تشکیل میں ایسے نشانات اور علامتیں بھی بارپالیتی ہیں جو قاری سے گہری توجہ کی متقاضی ہوتی ہیں ۔ یعنی یہ کہ ایک ادبی تخلیق قاری سے ان نشانات اور علامات کو دریافت کرنے کا تقاضا کرتی ہے جن کی بدولت ایک قاری تخلیق کار کے بنیادی مقصد کو حاصل کرسکے ۔ ان نشانات اور علامات کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہوسکتا ہے نہ کہ کسی مخصوص سیاسی ، سماجی ، تہذیبی یا اقتصادی مسائل و معاملات سے ۔ پیرے ماشیرے ، ٹیری ایگلٹن اور فریڈرک جیمی سن وغیرہ نے آلتھیوسے سے اثر قبول کیا ہے اور وہ آلتھیوسے کی مارکسی تھیوری کو ہی آگے بڑھاتے ہیں ۔

                نومارکسیوں نے آرتھوڈکس مارکسیوں کے برعکس کسی نہ کسی حد تک ادب کی ادبیت اور اس کی خود مختاری کو قبول کیا نہ کہ اسے خالص سماجی شعور کا مرہون ِ منت قرار دیا ۔انھیں ادب کے ہئیتی اور جمالیاتی خصائص کا پاس و لحاظ تھا ، اس لئے معاشی سماجی نظریے کے تحت انھوں نے انتہا پسندی کو ان خصائص پر مسلط نہیں ہونے دیا ۔بریخت کے مطابق حقیقت کی تفہیم میں فارمولا سازی کا رول نہیں بنتا کہ حقیقت جامد نہ ہوکر ایک مسلسل حرکت اور تبدیلی سے عبارت ہے اور یوں ہر سطح پر اضافی ہے ۔آرٹ کو بھی اس حقیقت کے ساتھ بدل جانا چاہیے جس کی وہ نمائندگی کرتا ہے ۔ناصر عباس نیّر کے مطابق :

’’تبدیلی اور حرکت کا تصور تو روایتی مارکسیت میں بھی ہے ، مگر یہ ایسی حرکت ہے جو ’’ مستقیم ‘‘ ہے مگر بریخت قریبا ً ’’قوسی حرکت ‘‘کی نشاندہی کرتا ہے ، جس کے بارے میں کوئی سائنس اور قطعی پیش گوئی ممکن نہیں ۔ اس لئے پہلے سے آرٹ کے بارے میں حتمی ضابطوں کو مقرر کرنا قرین ِ انصاف نہیں ۔اسی بنا پر بریخت جدید ادب کے ان اسلوبی اور تکنیکی تجربات کی قدر کرتا تھا جنھیں لوکاچ نے سختی سے ردّ کیا تھا ۔‘‘ ۱۳؎

                مجموعی طور پر یہ کہ نو مارکسیت مابعد جدید تنقیدی پیراڈائم کا ایک پہلو ہے جو آرتھوڈکس مارکسیت کی شدت پسندی اور سیاسی اجبار کے تابع ہونے سے انکار کرتی ہے بلکہ مارکسیت کے عالمی اور دانشورانہ مکالمے پر اصرار کرتی ہے ۔اس نظریے کے ماننے والے نقاد مارکسیت کی حد بندیوں اور خامیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں اور آزاد علمی ماحول میں ان پر بحث و مباحثہ قائم کرتے ہیں ۔ اگر مارکسیت ادب کو سماجی اور سیاسی حالات و واقعات کی پیداوار قرار دیتے ہیں تو نو مارکسیت اس کے سیاسی اور سماجی پس ِ منظر کے ساتھ ساتھ اس کے لسانی اور جمالیاتی خصائص پر بھی یکساں توجہ کرتی ہے ۔

                اردو ادب میں نومارکسیت کونظریاتی طور پر متعارف کرانے والوں میں پروفیسر گوپی چند نارنگ (ساختیات ، پس ساختیات اور مشرقی شعریات )، پروفیسر عتیق اللہ(تنقید کا نیا محاورہ ، تنقید کی جمالیات ،جلد چہارم )، ناصر عباس نیّر (جدید اور مابعد جدید تنقید ۔ مغربی اور اردو تناظر میں )اور ابوالکلام قاسمی (مارکسیت ، نومارکسیت اور ترقی پسندی )وغیرہ جیسے نام شامل ہیں ۔جہاں تک اس کے اطلاقی امکانات کا تعلق ہے تو آج تک اس حوالے سے کوئی جامع کام سامنے نہیں آیا ہے ۔ہاں البتہ ریاست جموں و کشمیر سے ابھرتے ہوئے ایک جواں سال نقاد ڈاکٹر الطاف انجمؔ نے ’’ کرشن چندر کی مارکسیت سے نو مارکسی مطالعہ ‘‘ اور ’’ مارکسیت ، نومارکسیت اور علی سردار جعفری کی تنقید نگاری ‘‘کے عنوان سے دو اہم مضامین اردو ادب کو تفویض کیے ہیں ، جو اس ضمن میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں ۔

حوالہ جات

۱۔قدوس جاوید ’’ متن ، معنی اور تھیوری ‘‘ ۲۰۱۵ء ۔ص ۳۲۱

۲۔قدوس جاوید ’’ متن ، معنی اور تھیوری ‘‘ ۲۰۱۵ء ۔ص ۳۴۲

۳۔ناصر عباس نیّر ۔جدید اور مابعد جدید تنقید ۔ مغربی اور اردو تناطر میں ۔ ۲۰۰۴ء ۔ ص ۱۳۲۔۱۳۱

۴۔عیتق اللہ ۔ تنقید کی جمالیات ۔ جلد چہارم ، مارکسیت ، نو مارکسیت اور ترقی پسندی ۔ ۲۰۱۴۔ ص ۱۰

۵۔ناصر عباس نیّر ۔جدید اور مابعد جدید تنقید ۔ مغربی اور اردو تناطر میں ۔ ۲۰۰۴ء ۔ ص ۱۳۳

۶۔ عتق اللہ ۔ تنقید کی جمالیات ۔ جلد چہارم ، مارکسیت ، نو مارکسیت اور ترقی پسندی ۔ ۲۰۱۴۔ ص ۔۱۱۔۱۰

۷۔ ناصر عباس نیّر ، ’’ جدید اور مابعد جدید تنقید : مغربی اور اردو تناظر میں ‘‘ ، انجمن ترقی اردو ، پاکستان ۲۰۰۴ ء ، ص۱۴۱۔۱۴۰

 ۸۔ ناصر عباس نیّر ، ’’ جدید اور مابعد جدید تنقید : مغربی اور اردو تناظر میں ‘‘ ، انجمن ترقی اردو ، پاکستان ۲۰۰۴ ء ، ص۱۴۱۔۱۴۰

۹۔عتیق اللہ ۔ تنقید کی جمالیات ۔ جلد چہارم ، مارکسیت ، نو مارکسیت اور ترقی پسندی ۔ ۲۰۱۴۔ ص ۔۱۱۔۱۰

۱۰۔بحوالہ :ناصر عباس نیّر ، ’’ جدید اور مابعد جدید تنقید : مغربی اور اردو تناظر میں ‘‘ ، انجمن ترقی اردو ، پاکستان ۲۰۰۴ ء ، ص۱۴۲

۱۱۔عتیق اللہ ، بیانات ۔ ۲۰۱۱۔ص ۱۹۹

۱۲۔ناصر عباس نیّر ، ’’ جدید اور مابعد جدید تنقید : مغربی اور اردو تناظر میں ‘‘ ، انجمن ترقی اردو ، پاکستان ۲۰۰۴ ء ، ص۱۴۵

۱۳۔ناصر عباس نیّر ، ’’ جدید اور مابعد جدید تنقید : مغربی اور اردو تناظر میں ‘‘ ، انجمن ترقی اردو ، پاکستان ۲۰۰۴ ء ، ص۱۴۲

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.