گلشنِ ہندحیدری ‘مرتّبہ پروفیسر مختارالدین احمد : ایک تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر عقیل احمد، گیسٹ فیکلٹی،شعبۂ اردو،اے۔پی۔ایس۔ایم ۔کالج،برونی۔بہار

Mob.No:9897531644

Email Id:aqueel.a99@gmail.com

پروفیسرمختارالدین احمد(متوفی ۲۰۱۰ء) کا شمار دورِحاضر کے نامورمحقق، مخطوطہ شناس اورقدیم متون کی ترتیب و تدوین کے ماہرین میں ہوتا ہے۔ عربی زبان و ادب کے علاوہ آپ اردو ادب سے بھی وابستہ رہے اور اپنے زمانۂ حیات میں مختلف علمی وتحقیقی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۴۹ء میں آپ نے علی گڑھ میگزین ’’غالب نمبر‘‘ شائع کیا،جو علمی حلقوں میں کافی مقبول ہوا۔ اس کے علاوہ آپ نے غالبیات سے متعلق متعدد مضامین بھی تحریر کیے جن سے مرزاغالب کی شخصیت سے متعلق اہم معلومات فراہم ہوتی ہیں۔

آپ نے مختلف موضوعات پر علمی، ادبی اورتحقیقی مقالات بھی سپردِ قلم کیے جو مختلف اوقات میں مختلف جرائد و رسائل میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے۔

اس کے علاوہ تین اہم اور نادر مخطوطات؛ کربل کتھا، گلشنِ ہند اور تذکرۂ آزردہ کی تلاش و دریافت اور ان کی ترتیب و تدوین کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ ان میں سب سے اہم فضلی کی کربل کتھا کی بازیافت ہے۔

اردو  میںتدوینِ متن کی روایت کااگر جائزہ لیا جائے تو اس روایتِ تدوین میں پروفیسر مختارالدین احمد کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔انھوںنے اپنے قیام یوروپ کے زمانے میںتین اہم اورنادرمخطوطات یوروپ کے مختلف کتب خانوں سے حاصل کیے، ان مخطوطات کے نام یہ ہیں: کربل کتھا (از فضلی) گلشن ہند(از حیدری) اور تذکرۂ آزردہ (از مفتی صدرالدین آزردہ) ان میں سے گلشن ہند اور تذکرۂ آزردہ شعرا کے تذکروںپرمشتمل ہے۔ کربل کتھا کی نوعیت الگ ہے۔ اب تک کی دریافت کے مطابق یہ شمالی ہند میں دستیاب قدیم ترین نثری تصنیف ہے۔زیرِ نظر مضمون گلشن ہند حیدری سے متعلق ہے۔

 گلشنِ ہند،مصنفہ حیدربخش حیدری شعراے اردو کا تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ حیدربخش حیدری کی متفرق تحریرات نظم ونثر، مجموعۂ گلدستۂ حیدری میں شامل تھا۔

گلدستۂ حیدری مختارالدین احمد کو زمانۂ قیام یوروپ میںباڈلین لائبریری میں مشرقی مخطوطات ومطبوعات کے نگراں Dr.A.F.L.Beeston کی کوششوں سے کئی ماہ کے جستجو کے بعد ۱۹۵۳ء میں دستیاب ہوا تھا۔

مختارالدین احمد نے ۱۹۵۵ء میںاپنے قلم سے اس کا مبیّضہ تیار کیا۔ اس کاایک نسخہ برٹش میوزیم لندن میں تھا۔ چنانچہ آپ نے لندن جاکر اس نسخے سے اس کا مقابلہ و موازنہ کیا۔ مرتب کے مطابق برٹش میوزیم لندن کا نسخہ ناقص الآخر ہے،یعنی میرسوزؔ کے احوال تک ہے۔

یوروپ سے واپسی پر اس تذکرے کی نقل پروفیسر آل احمد سرور کو دکھائی تو انھوںنے اسے مرتب کرنے کامشورہ دیا۔ چنانچہ آپ نے اسے مرتب کیا، پہلی بار آپ کا مرتبہ ’’گلشن ہند‘‘ رسالہ اردو ادب، شمارہ:۳،۱۹۶۶ء میں چھپا۔ ضخامت کے پیشِ نظر تمہید کا آخری حصہ جس میں تذکرے پر گفتگو کی گئی تھی، نیز بعض حواشی قطع کردیے، بعض حواشی کو مختصر کردیا۔

گیان چند جین ۱؎  کے مطابق مالک رام نے سرورؔ صاحب کی اجازت سے اپنے خرچ پررسالے کی ۲۵۰ کاپیاں زائد نکلوالی تھی، جسے ۱۹۶۷ء میں جلد اور گردوپوش کے ساتھ علمی مجلس(دلی) کی جانب سے شائع کردیا۔

کتاب کاانتساب مالک رام کے نام ہے۔اس کے بعد تذکرے میں شامل ۲۸۹ شعرا کے ناموں کی فہرست ہے، یہ فہرست چار صفحات پر مشتمل ہے۔

فہرست کے بعد مرتب کا ایک مبسوط مقدمہ ہے،جس کا عنوان تمہید ہے، یہ دس صفحات پر محیط ہے۔

مقدمے کے آغاز میںمرتب نے سیدحیدر بخش حیدری سے متعلق دیگر تذکروں کے اقتباسات نقل کیے ہیں۔ ان تذکروں کے نام درج ذیل ہیں:

۱-تذکرۂ ریاض الوفاق از ذوالفقار علی مستؔ۔

۲-تذکرۂ جہاں از بینی نرائن۔

۳-فہرستِ کتب خانہ شاہانِ اودھ از اشپرنگر۔

۴-سخن شعرا از عبدالغفور نساخ۔

۵-طبقاتِ شعراے ہند ازمولوی کریم الدین۔

اس کے بعدمرتب نے حیدری کے سوانح حیات سے متعلق تحقیقی گفتگو کی ہے۔ یہ حصہ ۳ ؍صفحات پر مشتمل ہے، اس ضمن میں امورِ ذیل کی وضاحت کی گئی ہے:

۱-نام، ۲-تخلص، ۳-سکونت، ۴-آبا و اجداد سے متعلق تفصیلات، ۵-حیدری کی تعلیم، ۶-استاد کا نام، ۷-حیدری کا قیام کلکتہ، ۸-گلکرسٹ سے ملاقات، ۹-فورٹ ولیم کالج (کلکتہ) میں ملازمت ۱۰-کلکتہ سے واپسی، ۱۱-قیام بنارس، ۱۲-شواہد و قرائن، ۱۳-استخراجِ نتائج، ۱۴-سال وفات وغیرہ۔

حیدربخش حیدری متعدد کتابوں کے مصنف و مولف ہیں،لہٰذا مرتب نے تحقیق کرکے اپنی معلومات کی حد تک ان تمام کتابوں کا تعارف کرایا ہے، حیدری کی تصانیف کے ضمن میںجن کتابوں کاتعارف کرایا گیا ہے وہ درجِ ذیل ہیں:

۱-            قصہ مہر وماہ ۱۲۱۴ء/۱۷۹۹ء: مرتب کے مطابق یہ حیدری کی سب سے پہلی تالیف ہے اور یہ مشہور فارسی مثنوی مہروماہ کا اردو نثر میں ترجمہ ہے۔

۲-            قصہ لیلیٰ مجنوں ۱۲۱۵ء/۱۸۰۱ء: یہ امیرخسرو کی مشہور فارسی مثنوی لیلیٰ مجنوںکا اردو نثر میں ترجمہ ہے۔

۳-            توتا کہانی ۱۲۱۵ء/۱۸۰۱ء: یہ حیدری کی سب سے مشہور کتابوں میں ہے، یہ کتاب محمد قادری کے طوطی نامہ کا اردو ترجمہ ہے۔

۴-            آرایشِ محفل ۱۲۱۶ء/۱۸۰۱ء: یہ داستان حاتم طائی کی سات سیروں کا اردو ترجمہ ہے۔

۵-            گلدستۂ حیدری ۱۲۱۷ء/۱۸۰۲ء: اس میں حیدری نے اپنی متفرق تحریرات نظم و نثر جمع کردی ہیں۔ مرتب کے مطابق اس میں مندرجہ ذیل تحریرات جمع ہیں:

(۱) مجموعۂ مراثی (۲)مجموعۂ حکایات (۳)دیباچۂ مہروماہ (۴)دیباچۂ لیلیٰ مجنوں (۵)دیوانِ حیدری (۶)                         گلشن ِ ہند۔

۶-            جامع القوانین ۱۲۱۸ء/۱۸۰۳ء

۷-            ہفت پیکر ۱۲۲۰ء/۱۸۰۵ء: یہ نظامی کی مشہور فارسی مثنوی  ہفت پیکر کا اردو ترجمہ ہے۔

۸-            تاریخ نادری ۱۲۲۴ء/۱۸۰۹ء: یہ تاریخ جہاں گشاے نادری از مرزا محمدمہدی استرآبادی کا اردو ترجمہ ہے۔

۹-            گلِ معرفت ۱۲۲۷ء/۱۸۱۲ء: یہ ملا حسین واعظ کاشفی کی روضۃ الشہدا کا اردو ترجمہ ہے۔

۱۰-         گلزارِ دانش، یہ بہاردانش از عنایت اللہ کا اردو ترجمہ ہے۔ مرتب کی اطلاع کے مطابق اس کے کسی قلمی یا مطبوعہ نسخے کے وجود کا علم نہیں ہوسکا ہے۔

۱۱-         شاہنامہ، (مولوی کریم الدین اور گارساں دتاسی کے حوالے سے)

بعدہ مرتب نے گلدستۂ حیدری کے نسخوں سے متعلق گفتگو کی ہے۔ آپ کے مطابق گلدستۂ حیدری کے چارنسخوں کاپتا چلا ہے۔ نسخوں کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱- انڈین انسٹی ٹیوٹ آکسفورڈ میں جو نسخہ تھا وہ باڈلین لائبریری میںمنتقل ہوگیا ہے، اس میں تذکرۂ حیدری کا مکمل متن موجود ہے۔

۲-برٹش میوزیم (اورینٹل:۲۱۶۱)یہ نسخہ ناقص الآخر ہے۔

۳- تیسرا نسخہ گارساں دتاسی کے پاس تھا۔ اس میں تذکرہ غیرمکمل حالت میں ہے۔

۴- چوتھا نسخہ شیخ چاند کی اطلاع کے مطابق کھنبایت کے ایک ذاتی کتب خانے میںموجو د تھا لیکن مرتب نے اس نسخے سے متعلق لاعلمی ظاہر کی ہے۔

مقدمے کے بعد اصل متن اور اس پر حواشی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہ حصہ (ص۲۱ سے ص۱۰۲ تک) ۸۱صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا آغاز مصنف کے دیباچے سے ہوتا ہے، جو ص۲۱؍ پرموجود ہے۔ اس کے بعد تذکرۂ شعرا کا آغاز ہوتا ہے۔شعرا کا یہ تذکرہ حروف تہجی کے اعتبار سے ہے۔ ہر حرف کا الگ باب قائم کیا گیا ہے مثلاً ’’الف کے باب میں‘‘ ’’ب کے باب میں‘‘ وغیرہ۔

مختارالدین احمد نے اس تذکرے کو کافی محنت، لگن او رتحقیق و تفحص کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ دورانِ تدوین دونسخوں کی نقل،نسخہ باڈلین لائبریری آکسفورڈ، اورنسخۂ برٹش میوزیم لندن آپ کے زیرِ نظر رہے۔ اس کے علاوہ دیگر تذکرے بھی آپ کے زیرِنظر رہے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

تذکرۂ طبقات الشعرا، تذکرۂ عشقی، تذکرۂ گلشنِ ہند (ازمرزا علی لطف) تذکرۂ گلزارِ ابراہیم، تذکرۂ شورش، مجموعۂ نغز، تذکرۂ سفینۂ عشرت، تذکرۂ عیار الشعرا،تذکرۂ مجمع الانتخاب وغیرہ۔

مرتب نے تقریباً ہر صفحے پر ذیلی حواشی تحریر کیے ہیں۔ یہ تمام حواشی تحقیقی نوعیت کے ہیں۔ ان حواشی کی مجموعی تعداد راقم کے شمار کے مطابق ۵۱۰ ہے۔ انھیں نوعیتِ حواشی کے تحت مندرجہ ذیل قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

۱- متعدد شعرا کے تعارف اور ان کی شخصیت سے متعلق مصنف کی پیش کردہ معلومات پر مرتب نے اضافہ کیا ہے۔ اس سے متعلق چند مثالیںملاحظہ فرمائیں:

(۱) ص۶۳ پر نند نرائن کا ذکر ہے۔ ان سے متعلق مصنف نے اجمالی تعارف اس طرح کرایا ہے:

’’راقم تخلص، نام نند نرائن، مرزا رفیع کے شاگرد تھے۔‘‘

مرتب نے حاشیے میں دیگرمآخذ کے حوالے سے ’نندنرائن‘‘ سے متعلق لکھا ہے:

’’دونوںنسخوں میں ’’نند نرائن‘‘ درج ہے،نکات الشعرا (ص۱۴۳) اور گلشن بیخار (ص۸۴) میں بند رابن، گلشن سخن میں شاگرد میر لکھا ہے (ص۱۳۶) یہ پہلے میر کے شاگرد تھے بعد کو رسوا کے تلامذہ میں داخل ہوئے۔تذکرۂ شورش (۱:۱۲۵) خودنکات الشعرا  ۱۴۲ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔‘‘۲؎

اسی طرح سے مصنف نے ’’سید ہدایت اللہ خاں‘‘کا تعارف مختصراً اس طرح کرایا ہے:

’’ضمیر تخلص، لقب سید ہدایت علی خاں، شعر ہندی کہتے تھے۔‘‘

مرتب نے حاشیے میں ان سے متعلق مزید معلومات اس طرح فراہم کی ہیں:

’’ نصیرالدولہ بخشی الملک اسدجنگ بہادر سید ہدایت علی خاں ولد شاہ علیم اللہ، ناظم بنگالہ نواب علی وردی خاں کے اقربا میں تھے اور عظیم آباد کے حاکم، صوبہ بہار کی بہت اہم اور تاریخی ہستیوں میں ان کا شمار ہے۔ سیدغلام حسین خاں وفاؔ عظیم آبادی مصنف سیرالمتاخرین ان کے بیٹے تھے۔‘‘۳؎

(۲) متن میں اگر کسی شاعرکا کلام کسی دوسرے شاعرسے منسوب ہوگیا ہے تو حاشیے میں اس کی بھی نشاندہی کردی ہے اور صحیح معلومات فراہم کی ہے کہ متعلقہ کلام کس شاعر کا ہے: اس سے متعلق چند مثالیں ذیل میں پیش کرتا ہوں:

تذکرے میں صفحہ ۲۲ ؍پر شاہ عالم ثانی آفتاب کی طرف نسبت کرتے ہوئے یہ دو شعرنقل کیے گئے ہیں۔

صبح توجام سے گزرتی ہے     شب دل آرام سے گزرتی ہے

عاقبت کی خبرخداجانے    اب تو آرام سے گزرتی ہے

ان کے متعلق مرتب نے حاشیے میںلکھا ہے کہ گلزار ابراہیم (نسخۂ رام پور) میں آفتاب کے ترجمے کے محاذ میں حاشیے پر شاہ قدرت اللہ قدرت ؔکے حوالے سے یہ اطلاع درج ہے کہ یہ دونوں شعر قدرت ؔکے ایک شاگرد کے ہیں، جو مرشدآباد میں تھے۔

(ii)اسی طرح ص۲۸ پر احسن اللہ خاں سے منسوب شعر کے متعلق وضاحت کی ہے کہ یہ شعرمجموعۂ نغز (۱:۲) میں سراج الدین خاں آرزو سے منسوب ہے۔

(iii) ص۲۹ پرالہامؔ سے منسوب شعر ہے:

اے عندلیب جاکے چمن میں کرے گی کیا

بادخزاں سے سب گل و گلزار جھڑگئے

اس کے متعلق مرتب نے لکھا ہے کہ یہ شعر گلزار ابراہیم (ص:۳۳) میں ایک دوسرے الہامؔ (فضائل بیگ شاگرد عبدالولی عزلت) کے نام درج ہے۔

یہ چند حواشی انتسابِ کلام سے متعلق تھے۔ ان حواشی سے مرتب متن کی محنت اور تحقیق سے شغف کا اندازہ ہوتا ہے۔مرتب نے انتساب ِ کلام سے متعلق درجنوں دواوین اور تذکروں کی ورق گردانی کی ہے اور پھر شعرا کے اشعار کا مقابلہ و موازنہ کرکے صحیح معلومات فراہم کی ہے۔ بے شک یہ مختارالدین احمد کی تحقیق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

(۳) متن میںمصنف سے کسی نام کے اندراج میں اگر سہو ہوگیا ہے تومرتب نے حاشیے میں اس کی تصحیح کردی ہے مثلاً:

ص۷۶ ؍پر مصنف نے ایک شاعر کا تعارف اس طرح کرایا ہے:

’’عاشق تخلص، نام میر برہان علی،میرحسن کے شاگرد، فقیروں کی طرح رہتے تھے۔ یہ ان سے ہے:

پہنچے نہ پاس ہم کبھو اس گلعذار کے     دام قفس میں جاتے دن بہار کے

مرتب نے اس سے متعلق حاشیے میں طرح وضاحت کی ہے:

’’صحیح یہ ہے کہ ان کا نام برہان الدین تھا۔میرحسن کے تذکرے میں ان کا ذکر نہیں، لیکن گلزار کے علاوہ اس کا حال تذکرۂ شورش (۲:۸۶) تذکرۂ عشقی (۲:۸۷) میںملتا ہے اور ان تمام تذکروں میں نام برہان الدین درج ہے۔‘‘۴؎

مذکورہ چندمثالیں حواشی سے پیش کی گئی ہیں۔ ان حواشی سے بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ مرتب نے حواشی تحریر کرنے میں کتنی تحقیق و تفحص سے کام لیا ہے، مرتب نے حواشی کی تیاری میں متعدد مآخذ سے استفادہ کیا ہے، مرتب کی اس محنت اورکارآمد حواشی کی وجہ سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ تذکرہ قطعۂ تاریخ پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد مرتب نے برٹش میوزیم کے نسخے کے خاتمے سے احوالِ مولف درج کیا ہے، یہ صرف پانچ سطروں پر مشتمل ہے۔

تدوین کا خاتمہ ’’فہرست کتب و مراجع پر ہوتا ہے‘‘ اس فہرست میں مرتب نے ان کتابوںکے نام بہ طورِحوالہ درج کیے ہیں، جن سے دورانِ تدوین استفادہ کیا گیا ہے۔ ان کتابوں کی تعداد ۵۲ ہے۔

اخیر میں گلشنِ ہند کی تدوین سے متعلق چند باتوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے:

۱- مرتب نے ’’گلشنِ ہند‘‘ کی تدوین سے متعلق اپنے اصول اور طریق ِ کار سے متعلق کوئی وضاحت نہیں کی ہے۔ مرتب متن کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جس متن کو مرتب کررہا ہے، اس کی تدوین میں جن اصولوں اور طریقِ کار کی پابندی کی گئی ہے اس کی پوری تفصیلات درج کرے۔

۲- مرتب نے اصل متن کی کیفیت بھی تحریر نہیں کی ہے۔ نہ اس کے متن سے متعلق کوئی وضاحت کی ہے۔ مرتبِ متن کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ زیرِ نظر نسخے کی پوری نوعیت تفصیل سے درج کرے،مثلاََ: اس کی ضخامت، سائز، اوراق کی کیفیت،املا کی نوعیت وغیرہ تاکہ صحیح صورتِ حال قاری پرواضح ہوسکے۔

مولانا امتیاز علی خاں عرشی اور رشیدحسن خاں نے اپنے تمام مرتبہ کتابوں میں امورِ مذکور کی وضاحت و صراحت کی ہے،جس سے یہ اصول برآمد ہوتا ہے کہ مرتب کو اپنے اصول اورطریقِ کار کی وضاحت کرنی چاہیے نیز زیرِنظر نسخے کی مکمل کیفیت تحریر کرنی چاہیے۔مختارالدین احمد نے ان دونوں امور کو نظراندازکردیا ہے۔ اس سے قطعِ نظر تدوین و ترتیب کے لحاظ سے یہ ایک معیاری کام ہے۔

٭٭٭

حوالہ جات:

(۱)          ڈاکٹر مختارالدین احمدبحیثیت محقق، گیان چند جین، مشمولہ نذر مختار، مرتبہ مالک رام، علمی مجلس دلی ۱۹۸۸ء، ص:۸۸

(۲)          گلشن ہند، مرتبہ مختارالدین احمد، علمی مجلس دلی ۱۹۶۷ء،ص:۶۳ (حاشیہ)

(۳)          ایضاً،ص:۷۱ (حاشیہ)

(۴)          ایضاً،ص:۷۶(حاشیہ)

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.