کرشن چندر ۔ ہمہ جہت فکشن نگار
حارث حمزہ لون، رحمت آباد، رفیع آباد، بارہ مولہ کشمیر
اُردو کی شعری اصناف میں بہ لحاظِ فن اور بہ لحاظِ مقبولیت جو حیثیت غزل کو حاصل ہے ، وہی حیثیت نثری اصناف میں افسانہ کو بھی حاصل ہے ۔ جس طرح اچھی غزل کے شعراء کی تعداد ہر دور میں معدودے چند کی ہی رہی ہے ٹھیک اسی طرح اچھے افسانہ نگاروں کو بھی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے ۔ یہ بات الگ ہے کہ اُردو غزل طویل العمر ہے جب کہ اُردو افسانہ قلیل العمر ۔ افسانے کا فن بھی غزل کے فن کی طرح دھوکا دیتا ہے ۔ یعنی یہ بہ ظاہر آسان لیکن بہ باطن مشکل فن ہے ۔ اس لیے مغربی مفکر ای ۔ایچ۔ ایٹسن نے اپنی کتاب ’’دی مارڈن شارٹ اسٹوری‘‘ میں لکھتا ہے کہ : ’’افسانہ لکھنا گویا دیا سلائی کے تنکوں سے عمارت بنانا ہے ، اور اس عمل میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ جب ایک اور تنکا اڑا اڑا دھم کر کے سب کو گرا دیتا ہے ‘‘ ۔
( مختصر افسانے کا ارتقا ۔ از ڈاکٹر جمال آرانظامی ، کراچی ۱۹۸۵ ء ، ص۔ ۳۰ )
جموں و کشمیر کے شہر پونچھ کو یہ فخریہ حاصل ہے کہ اس نے کرشن چندر کو جنم دے کر ’ایشیا کا سب سے بڑا افسانہ نگار‘ اُردو کو دیا ہے ۔ نثر میں شاعری کرنے والے اور اُردو ادب کے گیسوئوں کو سنوارنے والے اس ادیب کا یہ وہ زمانہ تھا جب ادیب اپنی ذات کے لیے نہیں سماج کے اس طبقے کے لیے ہوتا تھا جس کا وہ جُز تھا ۔ ایک سادہ اور دل آویز نثر لکھنے کا زمانہ تھا ، انسانی وجود کے قلب کی سوئی ہوئی وادیوں کو جگانے اور اپنے ساحرانہ طرزِ بیان سے ان وادیوں کی رنگینی ، شادابی اور دلکشی کو قاری کی روح میں منتقل کرنے کا ، آہوں ، امیدوں ، آنسوئوں ، مایوسیوں ، قہقہوں اور مسکراہٹوں سے آنکھ مچولی کرنے کا زمانہ تھا ، وہ زمانہ تھا جب اُردو میں افسانہ نے ایک زقند لگائی اور ایک صنف سے بڑھ کر ایک تحریک بن گیا ۔ کرشن چندر ایک ایسے بڑے ستون تھے جن کے جذبوں کی آنچ سے کپکپاتی ہوئی نثر نے اس تحریک کی آبیاری کی اور اُردو افسانے کو وہ تنوع ، ہمہ جہتی و ہمہ گیری ، وسعت و گہرائی اور گیرائی عطا کی جو اُردو ادب میں ایک درخشاں ستارے کی طرح آج بھی روشن ہے ۔
کرشن چندر کی پیدائش ۲۳ ؍ نومبر ۱۹۱۳ ء کو ضلع پونچھ ریاست جموں کشمیر میں ہوئی ۔ ان کے والد ڈاکٹر گوری شنکر چوپڑا وہاں میڈیکل آفیسر تھے ۔ اسی لیے پونچھ آکر بس گئے تھے ۔ کرشن چندر کی والدہ پرمیشوری دیوی بڑی خود دار اور سناتن دھرم میں سخت عقیدت رکھنے والی خاتون تھی ۔ جبکہ گوری شنکر آریہ سماجی اور آزاد خیال انسان تھے ۔ انسانی ہمدردی ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کا اثر کرشن چندر کی شخصیت میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ کرشن چندر نے ابتدائی تعلیم پونچھ کے پرائمری اسکول میں حاصل کرنے کے بعد آٹھویں درجے سے وکٹوریہ جبلی ہائی اسکول پونچھ میں داخلہ لیا ۔ یہیں وہ یرقان کے مہلک عارضے کی وجہ سے اسپتال میں داخل رہے اور یہیں اسپتال میں ہی اپنا پہلا افسانہ ’’یرقان‘‘ بھی لکھا جو ’’ادبی دنیا ‘‘(لاہور) کے دسمبر ۱۹۳۶ ء کے شمارے میں شائع ہوا ۔ جبکہ شائع ہونے والا پہلا افسانہ ’’جہلم پر نائو ‘‘ بتایا جاتا ہے ۔ کرشن چندر کو درسی کتابوں کے بجائے دیگر کتب کے مطالعے کا بڑا شوق تھا۔ انھوں نے اسکول کے دونوں میں ہی ، داستانِ الف لیلیٰ ، پریم چندر کی تصانیف فسانۂ آزاد اور ٹیگور کے ناول پڑھ ڈالے تھے ۔ ۱۹۲۹ ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد کرشن چندر نے ایف ۔ ایس ۔ سی میں میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔ لیکن کرشن چندر نے سائنس کے مضامین چھوڑ کر بی ۔ اے اور پھر انگریزی ادبیات میں ایم۔ اے کیا ۔ اپنے والدین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ۱۹۳۷ء میں کرشن چندر نے لا کالج لاہور سے ایل ۔ ایل ۔ بی کی ڈگری بھی حاصل کی ، مگر وکالت کے پیشے سے ان کو کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ اس کے بعد ’’ اقبال بحیثیت شاعر‘‘ کے موضوع پر پی۔ ایچ ۔ ڈی کرنے لگے ، لیکن حالات نے ساتھ نہیں دیا ۔ فکرِ روزگار لاحق ہوئی ، تو اس طرح قلم کو ہی اپنے روزگار کا آلہ بناکر وہ ’’کل وقتی ادیب ‘‘ بن گئے ۔ اسی اثنا میں بھگت سنگھ کے گروپ میں رہ کر دو ماہ جیل میں بھی گزارے ۔ سنہ ۱۹۳۹ ء میں کرشن چندر کو لاہور ریڈیو اسٹیشن میں پروگرام اسسٹینٹ کی جگہ مل گئی ۔
اُردو ادب کے ممتاز فکشن نگاروں کی فہرست میں کرشن چندر کا شمار صفِ اول کے نثر نگاروں میں ہوتا ہے ۔ کرشن چندر نے اُس وقت اپنے قلم کو متحرک کیا جس وقت مغربی ادب کے زیر اثر ہمارے اُردو ادب میں اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر بھی اردو ادب پروان چڑھ رہا تھا ۔ چاروں طرف دنیا بھر میں بے چینی ، کرب اور بے سکونی کا موحول عام تھا ۔ ایسے پر آشوب دور میں کرشن چندر نے معاشرے کی بدحالی اور اس کی صورتِ حال کی سچی ترجمانی کرتے ہوئے اُردو ادب کے دامن کو مالا مال کیا ۔ انھوں نے اپنی فکر کے سمندر میں غوطہ زن ہو کر ایسے سچے موتی اور لعل و گوہر تلاش کئے جس کی چمک دمک سے قاری حیرت زدہ اور ششدر نظر آئے ۔
کرشن چندر اُردو میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب ہیں ۔ لکھا بھی انھوں نے بہت ۔ اس دنیا میں ظلم تھا ، بے بسی تھی ، غربت و افلاس کے گھنائونے منظر تھے ، نا انصافیوں سے تڑپتی ہوئی انسانی روح کی سسکیاں تھیں ۔ لالچ ، نفرت ، مذہبی تفریق ، رنگ و نسل ، اور ذات پات کا تعصب تھا ۔ مکروہ سیاست کی شرمناک کارستانیاں تھیں ۔ مایوسی ، ناامیدی اور محرومیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تھے ۔ مگر اسی دنیا میں سرسبز وادیاں بھی تھیں ، پھولوں سے لدی شاخیں بھی تھیں ، چنار کے درختوں کو چھو کر گزرتے ہوئے ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے بھی تھے، پہاڑی ڈھلانوں کی آزاد پگڈنڈیوں سے گزرتی حسین دو شیزائوں کی دبی دبی ہنسی بھی تھی ، شکارے میں تیرتے ہوئے جواں دلوں کی دھڑکنیں بھی سنائی دیتی تھیں ، ان سب کے ساتھ یہ دنیا بنی نوع انساں کی عظمتوں کے ترانوں سے گونجتی تھی ، امیدوں کے گیت سناتی تھی ، آشائوں کے دیپ جلاتی تھی ، لڑکھڑاتے ہوئے حوصلوں کو سہارا دیتی تھی اور زندگی کی ناہمواریوں اور اس کے مضحک پہلوئوں پر قہقہے لگا کر صحیح سلامت گزر جانے کی طاقت بھی بخشتی تھی ! کل ملا کر یہی تھا کرشن چندر کا فکشن ۔
کسی بڑے تخلیق کار کی فکر اور تخیل کی پرواز یہاں تک کہ مزاج کا اندازہ اس کی تحریر و تخلیق سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ ہر ایک تخلیق کار کا اندازِ فکر منفرد ہوتا ہے ۔ یہ اس کے تخیلات کی گہرائی اور گیرائی پر منحصر ہوتا ہے اور پھر اس کے ذاتی مشاہدات اور تجربات ، ماحول اور معاشرے کی صورت حال مل کر اس کے اسلوب بیان کا تعین کرتے ہیں ۔ اگر قلم کار ایک حساس دل رکھتا ہے تو وہ معاشرے کی رگ و پے میں اترتا چلا جاتا ہے اور معاشرے میں پھیل رہی اخلاقی و سماجی بیماریوں کو تلاش کرکے اس کا ہر ممکن علاج کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
افسانہ لکھتے وقت کرشن چندر کے ذہن میں دراصل مالی لحاظ سے کمزور شہریوں ، دیہاتوں کے گلی کوچوں ، فٹ پاتھوں پر تڑپتے لمحوں اور جھونپڑیوں کے پُر سکون صحنوں کی زندگیوں کے ابھرتے ڈوبتے چہرے رہتے تھے جن میں وہ اپنے افسانوں کے کرداروں کو تلاشتے اور اپنی تخلیقات کے تار پود کو بنتے تھے ۔ ان کے افسانوں ، ناولوں میں خوبصورت عورتوں کا ذکر ان کے متعلق رومانی جذباتی ان کے شروع کے افسانوں میں ضرور ملتی ہے مگر بعد کے افسانوں میں حد سے بڑھی ہوئی رومانیت اور جذباتی پر قابو پاکر انھوں نے حقیقت پسندی کی طرف اپنی توجہ منعطف کر لی ۔
ایک خوبی ان کے فن کی اور بھی تھی، وہ اُردو کے پہلے باقاعدہ فنطاسی نویس یا تصور نگار تھے ۔ قلم پر ایسا قابو شاید ہی کسی کو رہا ہو جیسا کرشن چندر کو حاصل تھا ۔ ان کی کہانیوں میں کچھ بھی ہوسکتا تھا ۔ گدھا کسی دبے کچلے غریب انسان کی طرح بولنے لگتا تھا ۔ مسلا کچلا کرنسی نوٹ اچانک ان صارفین کے قصے سنانے لگتا تھا جن کے ہاتھوں سے وہ گزرا تھا ۔ اجنتا ایلورا کے غاروں میں پتھر پر تراشے گئے شوجی مہاراج تنہائی سے اکتا کر ایک دن نئی دنیا کی نئی سڑک پر آجاتے تھے اور پچھتاتے تھے ۔ ہائڈروجن بم کی تباہ کاریوں کے بعد دنیا پر جانوروں کی حکومت قائم ہو جاتی تھی جس میں ایک چڑیا گھر کے پنجروں میں جانور نہیں بلکہ بچے کھچے سیاستداں ، افسر ، مصور ، موسیقار ، شاعر اور ادیب نمونے کے طور پر بجائے نیچے زمین کی گہرائی کی طرف اگنے کی بجائے نیچے زمین کی گہرائی کی طرف اگنے لگتا ہے اور اس درخت کی ہر شاخ پر ایک الگ طرح کی دنیا آباد ملتی ہے ۔ انھیں پڑھ کر کسی نے کہا کہ کرشن چندر اُردو کا سب سے مکمل فکشن نگار ہے ۔ کسی نے لکھا کرشن چندر قلم کا جادو گر ہے ۔ کسی نے فرمایا کرشن چندر بہت بڑا طنز نگار ہے ۔ کسی نے رائے دی کہ کرشن چندر نثر نہ لکھتا تو اپنے دور کا ایک بڑا شاعر ہوتا ، کیونکہ اس کی دل آویز نثر میں شاعری کا تمام تر حسن جلوہ فگن ہے ۔ مگر مجموعی طور پر کرشن چندر قلم کا بندہ تھا ۔ وہ زندگی بھر لکھتے رہے ۔ کسی نے کہا ہے کہ وہ اُردو کے پہلے ادیب تھے جو تاحیات قلم کی کمائی پر زندہ رہے ۔ روزی روٹی کا کوئی اور ذریعہ ان کے پاس نہیں تھا ۔
کرشن چندر کی ابتدائی تحریروں میں رومانی طرزِ فکر نظر آتا ہے ۔ ان کے افسانے ’’جہلم پر نائو‘‘ ، ’’بالکونی‘‘ ، ’’زندگی کے موڑ پر‘‘ ، ’’دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘ میں رومانی اندازِ تحریر نمایاں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لیکن بعد میں وہ اپنی تحریروں میں ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات ، ترقی پسند رجحانات ، جدوجہد آزادی کی تحریک ، کسانوں ، مزدوروں ، سماج کے دبے کچلے لوگوں اور عوامی بیداری کے منفرد رنگ و آہنگ کو پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔ پریم چند کے بعد اردو افسانہ نگاری کے سلسلے سے جو مقبولیت کرشن چندر کے حصے میں آئی اسے ہر گز درکنار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے اُردو افسانے کے دامن کو وہاں سے تھام لیا ہے جہاں سے پریم چند نے اس کو چھوڑا تھا تو اس بات میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا ۔ ’’ل۔ احمد اکبر آبادی ‘‘ کرشن چندر کے حوالے سے کہتے ہیں : ’’پریم چند نے اُردو ادب میں ایک نئے عہد کا آغاز کیا تھا تو کرشن چندر نے اسے دورِ شباب تک پہنچایا ہے ‘‘۔
کرشن چندر کا پہلا افسانہ یوں تو ’’ماسٹر بلیکی‘‘ کے عنوان سے ۱۹۲۶ ء میں ہفتہ وار ریاست دہلی میں شائع ہوا تھا ، لیکن کرشن چندر کے افسانوی سفر کا باضابطہ آغاز افسانہ ’’یرقان‘‘ سے ہوتا ہے ، جو ادبی دنیا (لاہور) میں ۱۹۳۶ ء میں شائع ہو کر مقبول عام ہوا تھا ۔ ابتدائی دور میں کرشن چندر رومانی افسانے لکھتے رہے ، حسن و عشق کی داستان حسین اور دلچسپ انداز میں بیان کرتے رہے ۔ لیکن جوں جوں ان کا سماجی شعور بیدار ہوتا گیا ، وہ رومانیت سے قدرے دُور ہوتے ہوئے حقیقت نگاری اور زندگی کے اسرار و رموز کو اپنے تمام تر احساسات و جذبات کے ساتھ فن کی بھٹی میں تپا کر افسانوی قالب میں پیش کرنے لگے ۔
قلم کو روزی روٹی کا ذریعہ بنانا یا اس کے ذریعے بلندیوں کو چھونا کوئی عیب یا چوری نہیں ہے ۔ کرشن چندر چونکہ بسیار نویس تھے ، اس لیے ان کے ادبی سرمایے میں ۳۲ افسانوی مجموعے ، ۴۷ ناول ، ۷ ڈراموں کے مجموعے ، ۲ رپورتاژ ، ۱۱ بچوں کی کتابیں موجود ہیں جنھیں مختلف اداروں نے شائع کیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کے ۳۲ افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں ، جن پر ہم ایک نظر ڈالیں تو ، طلسم خیال (۱۹۳۹ ء ) ، نظارے (۱۹۴۰ ء) ، ہوائی قلعے (۱۹۴۰ء) ، گھونگھٹ میں گوری جلے (۱۹۴۱ ء) ، زندگی کے موڑ پر (۱۹۴۳ ء) ، نئے افسانے (۱۹۴۳ء) ، نغمے کی موت (۱۹۴۴ ء) ، پرانے خدا (۱۹۴۴ ء)، ان داتا (۱۹۴۴ ء)، ہم وحشی ہیں (۱۹۴۷ ء)، ٹوٹے ہوئے تارے (۱۹۴۷ ء)، تین غنڈے (۱۹۴۸ ء)، اجنتا سے آگے (۱۹۴۸ ء)، ایک گرجا ایک خندق(۱۹۴۸ ء)، سمندر دور ہے (۱۹۴۸ ء)، شکست کے بعد (۱۹۵۱ء) ، نئے غلام (۱۹۵۳ء) ، میں انتظار کروں گا (۱۹۵۳ء) ، مزحیہ افسانے (۱۹۵۴ء) ، ایک روپیہ ایک پھول (۱۹۵۵ء) ، یوکلپٹس کی ڈالی (۱۹۵۵ء) ، ہائڈروجن بم کے بعد (۱۹۵۵ء) ، کتاب کا کفن (۱۹۵۶ء) ، دل کسی کا دوست نہیں (۱۹۵۹ء) ، کرشن چندر کے افسانے (۱۹۶۰ء) ، مسکرانے والیاں (۱۹۶۰ء) ، سپنوں کا قیدی (۱۹۶۴ء) ، مس نینی تال (۱۹۶۴ء) ، دسواں پل (۱۹۶۷ء) ، گلشن گلشن ڈھونڈا تجھ کو (۱۹۶۷ء) ، آدھے گھنٹے کا خدا (۱۹۶۹ء) ، اور الجھی لڑکی کالے بال (۱۹۷۰ ء )تک رسائی ہوتی ہے ۔
اس پر ضرور غور ہونا چاہیے کہ وہ کون سی مجبوریاں تھیں کہ کرشن چندر کو اتنے ڈھیر سارے افسانے لکھنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ ظاہر ہے اتنے سارے افسانوں میں کرشن چندر کی اعلیٰ فکری و فنی صلاحیتیں پوری طرح ابھر کر سامنے کیسے آتیں ۔ لیکن جن افسانوں میں کرشن چندر کا اپنا ٍمخصوص لب ولہجہ ، اسلوب ، آرٹ اور فن پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے ، ان کے مطالعے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرشن چندر ایسے خوش نصیب افسانہ نگار ہیں جنھوں نے اپنے اسلوب ، آرٹ اور فن کے ساتھ ساتھ اپنے تجربے اور مشاہدے کے شاندار اظہار کی بنا پر اپنے پہلے ہی افسانے کی اشاعت کے بعد شہرت حاصل کر لی ۔کرشن چندر کے بارے میں خواجہ عبد الغفور مثبت رائے رکھتے ہیں اور ان کو عظیم فنکار کا درجہ دیتے ہیں : ’’ وہ پورے ادب پر چھائے ہوئے ہیں اور عوام الناس کی ملکیت ہیں ۔ بین الاقوامی ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ افسانے ، ناول ، ڈرامے ، انشائیے اور تنقیدی مضامین لکھتے ہیں ۔ دنیا کی ۶۵ زبانوں میں ان کی تصانیف کا ترجمہ ہوچکا ہے ۔ تصانیف کی تعداد تو ان کو کیا یاد ہوگی بچپن کشمیر کی پُر فضا وادیوں میں گزرا ہے ۔ جس کی مہک اب تک تازہ ہے ان کی تحریریں زعفران زار ہوتی ہیں ۔ کہانیوں میں مزاح کا رنگ نرالا اور اچھوتا ہے ۔ کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں ‘‘ ۔
( طنز و مزاح کا تنقیدی جائزہ ۔ خواجہ عبد الغفور ، ص : ۲۴۶ )
کرشن چندر نے اردو افسانوی ادب کو جو تنوع دیا ، جو ہمہ جہتی و ہمہ گیری دی ، جو بلندی عطا کی ، جو وسعت اور گہرائی و گیرائی دی ، اس کی مثال ہماری ادبی تاریخ میں کم ملے گی ۔ ہندوستان کے شہروں ، دیہاتوں کے گلی کو چوں ، فٹ پاتھوں کے تڑپتے لمحوں ، حویلیوں اور جھونپڑوں کے پُر سکون صحنوں کی زندگی سے لے کر لندن ، ماسکو اور واشنگٹن جیسے پُر ہجوم شہروں کے کلبوں اور کارخانوں کی نئی صنعتی زندگی کی دھوپ چھائوں ، زندگی کے مختلف فلسفوں اور عقیدتوں کے چمن زاروں میں کھلے انسانی احساسات و جذبات کے پھولوں اور ان پھولوں پر منڈ لاتی انسانی نفسیات اور کردار کی رنگ برنگی تتلیاں جسم و جاں اور روح کی وادیوں میں گنگناتے آبشاروں ، لہلہاتے چنار دلچسپ پیرائے سے کرشن چندر کے ادب کو مزین کرتے ہیں اور اس کی مقامی اور بین الاقوامی قرأت اور قدر و قیمت بڑھاتے ہیں ۔
کرشن چندر نے اپنے افسانوی سفر کا آغاز ’’طلسم خیال‘‘ جیسے افسانوی مجموعے کی تخلیق سے کیا ۔ جو اہل ادب میں بہت سراہا گیا ۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ، انھوں نے افسانوں کے ساتھ ساتھ ناول ، ڈرامے ، انشائیے ، رپورتاژ ، طنزیہ اور مزاحیہ مضامین بھی تحریر کئے ۔ انھیں ہمارے نئے ادب کے عظیم افسانہ نگاروں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے ۔ انھوں نے سماج میں موجود منفرد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا ۔ اس میں سماج کے ایسے طبقات کے لوگ بھی شامل ہیں جنھوں نے پسماندگی اور استحصال کا عذاب جھیلا اور جن کا ذکر اعلیٰ سماج میں کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جو ادب صحیح معنوں میں غریبوں یا عام انسانوں کی حمایت یا ترجمانی نہیں کرتا وہ حسن پرست نہیں ہے ۔ دراصل ایسے ادب کو تحریر کرنا وہ فضول سمجھتے ہیں ۔
کرشن چندر نے ۴۲ ناول لکھے ہیں ۔ ان میں شکست ، جب کھیت جاگے ، ایک گدھے کی سرگزشت ، سڑک واپس جاتی ہے ، میری یادوں کے چنار ، طوفان کی کلیاں ، گدھے کی واپسی ، چاندی کے گھائو ، ایک گدھا نیفا میں ، ایک عورت ہزار دیوانے، ممبئی کی شام ، فٹ پاتھ کے فرشتے خاص اہم مانے جاتے ہیں ۔ کرشن چندر اپنے افسانوں کے مقابلے میں ناول نویسی کے فن میں کچھ زیادہ شہرت حاصل نہ کرسکے ۔ کرشن چندر اپنی کہانیوں کے لیے موضوعات اپنی جیتی جاگتی دنیا اور اس کے گرد و پیش سے مستعار لیتے ہیں ۔ ان کی کہانیاں اور ان کے کردار اسی معاشرے کے ہیں جس معاشرے میں کرشن چندر زندگی گزار رہے ہیں ۔ جیلانی بانو کے مطابق : ’’مشاہدے کی وسعت ، پختہ سماجی شعور اور انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں سے آگاہی کرشن چندر کے موضوعات کوتنوع دیتی ہے ‘‘۔
انھوں نے اپنی کہانیوں کے لیے سماج کے مختلف لوگوں کو تلاش کیا ، ان کی مصیبتوں اور پریشانیوں کو محسوس کیا اور پھر ان کی زندگی کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے سماج کو بیدار کیا ۔ ان کے افسانوں اور ناولوں میں دیہاتی اور شہری دونوں ماحول کی مکمل عکاسی ملتی ہے ۔ کردار نگاری کے ساتھ ساتھ وہ منظر نگاری پر بھی قدرت رکھتے ہیں ۔ انھوں نے کشمیر کی دیہاتی زندگی اور بمبئی کے ماحول کی مکمل تصویر کشی کی ہے جس کا مطالعہ کرنے کے بعد قاری خود کو اسی ماحول سے آشنا پاتا ہے جس ماحول اور معاشرے کی وہ عکاسی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان کی کہانیوں کے کردار جیتے ، جاگتے ، چلتے پھرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کرشن چندر سماج کے فرسودہ رسم و رواج ، عقائد ، ڈھونگ ، مذہب سے بے پناہ لگائو ، لالچ ، فریب جیسے زاویوں کو آشکار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
کرشن چندر نے بہت سارے لازوال اور شاہکار افسانے تخلیق کیے جن میں انسانیت پر ہونے والے مظالم ، درد کا احساس اور جذبات ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔ انھوں نے ہندوستانی عورت کی مظلومیت ، اس کی نفسیات ، احساسات اور بربادی کی روداد بھی بیان کی ہے ۔ کرشن چندر اپنے سیاسی نظریے کی وضاحت میں کس قدر اٹل تھے ، ان کے الفاظ میں دیکھے جو انھوں نے ۱۹۴۴ ء میں ترقی پسند مصنفین کی کانگریس کے خطبۂ صدارت میں پیش کیا تھا : ’’اب وقت آگیا ہے کہ ہر ادیب کھلم کھلا اشتراکیت کا پروپیگنڈہ شروع کردے ۔ کیونکہ اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں ، آگے بڑھتی ہوئی رواں دواں اشتراکیت یا ساکن و جامد موت‘‘ ۔
( کرشن چندر ۔ ترقی پسند مصنفین کا خطبہ ۔ ۱۹۴۴ ء)
ان کے افسانے فنی و معنوی دونوں لحاظ پر نظر آتے ہیں یعنی وہ معنوی اور فنی خوبیوں کو اپنی تحریر میں رچا بسا کر ایک افسانوی سفر پر قاری کو لے جاتے ہیں جہاں سے قاری لمحہ بہ لمحہ حیرت و تعجب کی دنیا میں گم ہوتا چلا جاتا ہے اور جب وہ اس دنیا کا سفر طے کرتا ہوا واپس حقیقی دنیا میں لوٹ کر آتا ہے تو ایک گہرا اثر تا دیر تک اس کے ذہن پر قائم رہتا ہے ۔ یہ کرشن چندر کے قلم کا جادو ہے کہ وہ قاری کو اپنے افسانے کی دنیا میں اس طرح گرفت میں لیتے ہیں کہ قاری ایک لمحے کو بھی اکتاہٹ یا بے ربطی کا شکار نہیں ہوتا ہے ۔
کرشن چندر ایک ایسے قلمکار تھے جنھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے فسادات کو دیکھا اور اس پر اپنا قلم اُٹھایا ان کا مقبولِ عام افسانہ ’’ہم وحشی ہیں ‘‘ اسی فکر کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ کرشن چندر ایک حساس دل رکھتے ہیں ۔ اس لیے ان کی تخلیقات میں انسانی جذبات کی نمایاں مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت معاشرے کی کرب و بے چینی سے ہم کنار رہتے ہیں اور اس کے موضوعات کو اپنی تخلیقات میں جگہ دیتے ہیں ۔ وہ ایک ایسے سماج کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں جس میں انسانیت کو سب سے بڑا مذہب تسلیم کیا جائے ۔
کرشن چندر کی تحریریں زندہ جاوید ہیں ۔ انھوں نے اپنی کاوشوں سے اُردو ادب میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرکے اپنا نام فکشن کی دنیا میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا ۔ انہوں نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ انھوں نے ڈرامے بھی تحریر کئے ۔ جب وہ ریڈیو کی ملازمت کرتے تھے اسی دوران انھوں نے ریڈیائی ڈرامے بھی تحریر کئے ۔ جن کا مجموعہ ’’’دروازہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ ان کا سب سے کامیاب ڈرامہ ’’سرائے سے باہر‘‘ ہے جس پر ایک فلم بھی بنائی جاچکی ہے ۔ ’’حجامت‘‘ کے عنوان سے لکھا گیا ان کا طنزیہ اور مزحیہ ڈرامہ کافی مقبول ہوا ۔ ان کا دوسرا ڈرامہ ’’کتے کی موت‘‘ طنز کے اعتبار سے ایک بہترین ڈرامہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔ کرشن چندر کا ناول ’’شکست‘‘ ایک طویل افسانہ ہے جس میں انھوں نے منظر نگاری ، دلکش اندازِ بیان ، خوبصورت تحریر اور انشا پردازی کے جوہر دکھائے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں کشمیری تہذیب ، نرم دلی ، سادگی جگہ جگہ پر نظر آتی ہے ۔ وہ کشمیر کی فضا اور ماحول سے کافی متاثر نظر آتے ہیں ۔
بہت سارے چھوٹے بڑے انعامات اور اعزازات کے علاوہ کرشن چندر کو اکتوبر ۱۹۶۶ ء میں ہند سوویت لینڈ نہرو ایواڑ اور جنوری ۱۹۶۹ ء میں پدم بھوشن کے خطاب سے بھی نوازا گیا ۔ دنیا کے متعدد ممالک کے دورے بھی انھوں نے کیے جن میں ۱۹۴۷ ء میں پرتھوی راج کے ساتھ چین ، ۱۹۷۱ ء میں روس ، ۱۹۴۷ ء میں ہنگری وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ دنیا کی بیشتر بڑی زبانوں میں (خاص کر انگریزی ، روسی ، چینی ، فارسی ، جرمنی ، فرانسیسی وغیرہ ) کرشن چندر کی تخلیقات کا ترجمہ ان کی زندگی میں ہوا ۔
الغرض کرشن چندر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو اپنے ساتھ ایک دلچسپ دنیا میں لے جاتے ہیں ، جہاں وہ اس کو رنگ برنگے نظارے دکھاتے ہیں ، اسی وجہ سے کرشن چندر کو ہمیشہ ہر طرح کے لوگ پڑھتے ہیں اور آج بھی مختلف اشاعتی ادارے ان کی تصانیف کو تواتر سے چھاپتے رہتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کرشن چندر نے افسانوی ادب میں جو ایک معیار اور وقار قائم کیا اور جو قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے ، ان پر ہم جس قدر فخر کریں ، کم ہے ۔ ۸؍ مارچ۱۹۷۷ء کو ممبئی میں لکھنے کی میز پر ہی کرشن چندر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرماگئے اور اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے ۔
٭٭٭
Haris Hamzah Lone
Kashmir R/O : Rehmatabad Rafiabad Baramulla
District: Baramulla, Tehsil: watergam
Contact : 7889382310
Post Office : Chatloora
Pin Code: 193301
Leave a Reply
Be the First to Comment!