آخری سواریاں کا تجزیاتی مطالعہ : قومی ہم آہنگی کے تناظر میں

  صدام حسین،  ریسرچ اسکالر شعبہ اردو ، علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی ، علی گڑھ

   موبائل:9568047024

معاصر اردوفکشن میں فکرو فن کے نئے افق روشن کرنے والوں میں  سید محمد اشرف کانام خاص طورپر قابل ذکر ہے ۔ان کا فکشن ہندوستانی تہذیب و تمدن اورقدیم اقدار و روایات کی بازیافت کا مظہر ہے ۔انہوں نے اپنے پہلے ہی ناولٹ ’’ــنمبردار کا نیلا‘‘(1997)سے اردو فکشن کی تاریخ میں اپنی منفرد شناخت قائم کرلی تھی ۔ اس ناول میں انہوںنے “نیلا “کی شکل میں جاگیردارانہ نظام کے ظلم و ستم ، جبروتشدد اور قہرو غضب کی دردناک کہانی بیان کی ہے ۔

انیس (۱۹)سال کے طویل عرصے کے بعد ان کا دوسراناول ’’آخری سواریاں‘‘ (2016)منظر عام پر آیا جسے اردو حلقوں میں خوب قدرو عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور سراہا بھی گیا۔جو اس جملے کا صحیح مصداق ہے:

دیر آید خیلے خوب آید

یوپی کے قصبہ مارہرہ کے ایک علمی و روحانی خانوادے سے آپکا تعلق ہے ۔جس طرح خانقاہی تقدس ، جاہ و جلال، مروت و اخلاق اور قصباتی زندگی کے ثقافتی ، تہذیبی ، جغرافیائی اور ذہنی ماحول کو انہوں نے محسوس کیا ہے اور پھر ان تمام تجربات و احساسات کو پوری صداقت کے ساتھ اظہار کے نت نئے سانچوں میں ڈھالا ہے یہ انکی غیر معمولی صلاحیت ہے ۔اس جیسی مثالیں آج کے فکشن میں کمیاب ہیں۔

انکے تہذیب و ثقافت کے اس مؤثر اور انوکھے بیان اور اسی سے ہم آہنگ دلوںپر چھاجانے والے انداز تحریر کی ہر طبقہ فکر کے ناقدین و قارئین نے خوب تعریف کی ہے ۔یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ” ڈارسے بچھڑے “سے لیکر “آخری سواریاں” تک پھر چاہے وہ “آدمی “ہو یا” روگ” ،”ساتھی” ہو یا “نمبردار کا نیلا” انکی ہر تخلیق اردو فکشن میں سنگ میل ہی ثابت ہوئی ۔

جہاں تک سوال’ آخری سواریاں‘ کا ہے تو اس ناول میں انہوں نے قدیم اقدار کے زوال کا نوحہ بیان کیا ہے۔شناخت کے کھو جانے کا افسوس کیا ہے ۔لازوال اقدار جو شرافت و صداقت، دیانت و امانت ، مودت و محبت ،اخوت وبھائی چارگی، امن و آ شتی اور آپسی اتحاد کی قوی شناخت تھیں ،دھیرے دھیرے مٹتی جا رہی ہیں اور جب شناخت ہی مٹ جائے تو پھر زندگی اپنی اہمیت و معنویت کھو بیٹھتی ہے۔Eckhart Toll نے بھی کہا ہے:

“When you lose touch with yourself,you lose yourself in the world.”

شناخت کا کھو جانا یقینا معنوی موت ہے ۔ انسان مادی طور پر تو کھاتا پیتا چلتاپھرتا ہے مگر ایک بے معنی وجود کے سوا کچھ نہیں ۔ وہ بھی جانوروں کی مانندصرف کھاتا پیتا اورسوتاجاگتا ہے اور ایک دن چل بستا ہے بس یہی اسکی زندگی ہے۔اشرف نے اسی احساس کے تحت تمثیلی انداز میں آخری سواریاں عطا کیا ہے جو در حقیقت ایک ایسی تمثیل ہے جسکی اہمیت ومعنویت اسکے عنوان ہی سے ظاہر ہے ۔اس کلیدی استعارے پر اگر غور نہ کیا جائے تو اسکی اہمیت و معنویت پوری طرح عیاں نہیں ہو پائے گی ۔

ناول کا لہجہ بیانیہ ہے مگر ایسا بیانیہ جس کو بولتی تصاویر کے ذریعے زندہ جاوید بنا دیا گیا ہے ۔آخری سواریا ں کا بیانیہ ڈھانچہ بقول پروفیسرشافع قدوائی :

’’تخلیقی رنگ ونور کی تصویر کاری نیز مترنم اشک باری تہذیبی فضا سے اس قدر معمور ہے کہ اس تخلیقی بیانیے کو بلا شبہ بستی اور طا ؤس چمن کی مینا سے زیادہ تخلیقی تصور کیا جانا چاہئے۔ ‘‘

ناول کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے کہ ہیرو جب چھٹیاں گزارنے اپنے گھر واپس آتا تو دادا کے روزنامچہ نما سفر نامے کا بغور مطالعہ کرتا ۔روزنامچہ پڑھ کر ہیرو گہرے دکھ درد میں مبتلا ہو جاتا ۔راتوں رات نہیں سو پاتا ۔گھر والے ہیرو کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیرو کی امی کہتیں:

’’تم اس کتاب کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو بیٹا ۔یہ تمھیں ہر سال دکھ دیتی ہے۔تم جب جب اسے پڑھتے ہو ایک انجان سوچ میں ڈوب جاتے ہو اور پھر تمہیں بخار آجاتا ہے ۔‘‘(ص:۱۱)

در اصل ہیرو کے دادا کا یہی سفر نامہ کہانی کا اصل محرک ہے۔جس میں ناول نگار کے دادا کی امیر تیمور سے ملاقات کا ذکر ہے۔یہ سفر نامہ گویا راز ہائے سر بستہ کا ایک پٹارہ ہے ۔سفر نامہ کو پڑھ کر ہیرو کا گہرے دکھ میں مبتلا ہو نا بجا ہے کیوں کہ اس میں تیموری نسل کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی بے بسی اور لاچاری کا دلسوز بیان ہے ۔کس طرح فرنگیوں نے بادشاہ وقت کو  قیدی بناکر بے دست و پا کر ڈالا اور تمام شاہانہ مراعات اور عیش و عشرت کے جملہ لوازمات سے ان کو محروم کر دیا ۔

ناول کا مرکزی کردار جو ایک معصوم کم عمر لڑکا ہے اپنے والد سے بار بار پر دادا کے بٹوے سے باخبر ہو نے کی ضد کرتا ہے ۔مگروالدیہ کہ کر ٹال دیتے ہیں ۔ناول نگار کی زبانی دیکھیں:

’’وہ بھی وہم کا کارخانہ ہے۔معوذتین کی بلا ناغہ ورد کیا کرو‘‘ (ص۱۱)

اس کے فوراً بعد جمو کی کہانی شروع ہو جاتی ہے اوریہ کہانی جمو کی بے جوڑ شادی پر ختم ہو تی ہے ۔جمو کے کردار کی پیش کش میں ناول نگار نے کمال ہنر مندی کا ثبوت دیا ہے۔جمو کا کردار ناول کا سب سے طاقتور کردار ہے۔

قدیم ہندوستانی تہذیب میں ہندو مسلم اتحا د کی بنیادیں کا فی مضبوط تھیں ۔بلا تفریق مذہب و ملت ایک دوسرے سے ملنا جلنا ،مصیبت میں کام آنا ،مل جل کر زندگی گزارنا اوربیاہ شادی میں شرکت کرنا عام سی بات تھی ۔ناول میںقومی ہم آہنگی ، ہند و مسلم اتحاد اور معاشرتی میل جول کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔

ناول نگار کے ننہال کے برابر میں پنڈت ماما کا مکان ہے ۔اور دونوں خاندان کا ایک ہی مشترک کنواں ہے۔دونوں الگ الگ مذہب کے پیروکار ہیں مگر انسانی رواداری اور معاشرتی اتحاد کی عظیم مثال قائم کر رکھی ہے۔دونوں ایک ہی کنویں کا پانی پیتے ہیں ۔ڈول الگ الگ ہیں مگر پانی ایک ہے۔مشترکہ استعمال سے نہ کسی کا پانی ناپاک ہوتا ہے اور نہ نا قابل استعمال ۔ اسی پانی سے پنڈت ماما کا بچہ اشنان کرتا ہے تو اسی سے نانی امی کا وضو ہوتاہے۔دیکھیں ناول کا یہ ٹکڑا:

’’نانی امی کے گھر اور پنڈت ماما کے مکا ن کی دیوار مشتر ک تھی ۔دیوار کے دونوں طرف دونوں گھروں کے صحن تھے اور دیوار کے نیچے ؎ وہ ساجھے کا کنواں تھا جو آدھے چاند کی شکل میں دیوار کے ادھر ادھر دونوں صحنوں میں استعمال ہوتا تھا ‘‘)ص :۱۶)

پنڈت ماما کے یہاں ایک تلسی کا پودا بھی ہے جسے ہندو مذہب میں بڑا پوتر اور بابرکت سمجھا جاتاہے ۔اسکے احترام کا عالم یہ ہے کہ جس طرح دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لئے طہارت شرط ہے بس اسی طرح اس پودے کی سیرابی کے لئے بھی پاک صاف ہونا ضروری ہے۔اگر کبھی ضرورت پڑتی اور ماما کے گھر کی عورتوں کو کوئی مانع لاحق ہوجاتا تو راوی کی ننہال کی خواتین اسکی سینچائی کا فریضہ انجام دیتیں ۔دونوں خاندان کے بچے بچیاں آپس میں کھیلتے اور تفریح کرتے ۔خاندان کے بڑے حضرات بچوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کا فریضہ انجام دیتے۔حتیٰ کہ وہاں محبت تھی نفرت نہیں ،میل جو ل تھا دوری نہیں ،آپس داری تھی عداوت نہیں اور اگر سچ کہوں تو ان کے لئے سب سے بڑھ کر انسانیت تھی۔چند اقتباسات دیکھیں:

’’ایک دن دیوار کے پیچھے سے مامی چلائیں ۔

’’موسی او موسی !کیا جمو ہے ؟‘‘

’’ہاں ہے بہو۔کہو کیا بات ہے ۔‘‘

’’گومتی اور شاردا دونوں ٹیلرنگ والے اسکو ل گئی ہیں ۔تلسی سوکھ رہی ہے۔۔۔تنک جمو کو بھیج دیجیے ۔تلسی میں دو گڑھئی پانی ڈال دے گی۔‘‘

’’اے بہو تم کیا مہندی لگائے بیٹھی ہو ۔خود ہی پانی ڈال لو ۔‘‘نانی دیوارکے پاس جاکر کہا :

’’اے موسی کیا بتائیں آج ہم تلسی میں پانی نہیں ڈال سکتے ۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ارے بیٹا جمو!ذرا بہو کے گھر جاکر تلسی میں پا نی لگا دو ۔‘‘(ص :۱۹۔۲۰)

پنڈت ماما کی بہن کی شادی کا واقعہ بھی ہندو مسلم اتحاد کی ایک بہترین مثال ہے۔جب پنڈت ماما کی بہن کی شادی ہوتی ہے تو مسلم گھرانے کی جمو اور اسکی دو نوں بہنیں پنڈت ماما کے یہاں تمام گھریلو کاموں اور شادی کے کھان پان میں برابر کی شریک رہتی ہیں حتیٰ کہ مذہبی رسومات میں بھی ۔اور اگر آپ جمو کی شادی کا منظر دیکھیں تو اس میں سب ہند و مسلمان ایک نظر آتے ہیں اور ناول نگار کی نانی ماں خود اپنے مکان میں شادی کا انتظام کرواتی ہیں ۔اور یوں بین مذہب رواداری اور اتحاد کی ایک عظیم مثال قائم ہو جاتی ہے۔راوی کم عمرسہی مگر اس کا تجربہ اور مشاہدہ پختہ اور شعور سے پر ہے اس لئے تمام واقعات و احوال کی تفصیلات زندہ جاوید نظر آتی ہیں۔

سید محمد اشرف کی ایک شناخت مذہبی معاملات ،دینی شعائر اور فقہی مسائل کے بیان کی وجہ سے بھی ہے۔مگر قرآن و حدیث کے حوالے اور اسلامی تلمیحات کے بیان سے مذہب کی تبلیغ یا نشرو اشاعت ان کا مقصو د نہیں بلکہ ان کا فنی علاقہ تو ادب برائے زندگی ہے۔ناول آخری سواریاں میں بھی دینی و مذہبی اصول و مسائل کا کئی مقامات پر بڑا بر محل بیان ملتاہے مگر ان مذہبی شعائر کے بیان سے بھی انہوں نے بین مذہب رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کی شائستگی اور پختگی کو ثابت کیا ہے۔ناول میں ایک مقام پر نماز استسقاء کا بڑا دلکش اور پر لطف بیان ہے ۔جب علاقہ میں بارش نہ ہونے کے سبب سوکھا پڑ جاتا ہے اور انسان ،جانور حتی کہ چرندو پرند پانی کے لئے ترس جاتے ہیں تو نہ صر ف مسلمان بلکہ علاقے کے ہندو بھائی بھی ناول نگار کے ابا جان کے پاس آتے ہیں اور نہ صرف نماز استسقاء پڑھانے کا استدعا کرتے ہیں بلکہ انہیں مجبور بھی کرتے ہیںاور جب راوی کے اباجان نماز پڑھاتے ہیں تو وہ سب بھی ذات پات ،مذہب و ملت سب کچھ بھول کر پوری عقیدت و احترام کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاتے ہیںاور بارش کے لئے خدا ئے وحدہ لا شریک سے دعاکرتے ہیں ۔سو نماز استسقاء جو دین اسلام کا ایک مخصوص عمل ہے اس میں پوری خلقت شامل ہے ۔یہ اس دور کے معاشرے کے اتحاد کی ایک عظیم مثال ہے۔یہی بین المذاہب رواداری اور ہم آہنگی کی وہ خوبصورت تصویر ہے جسے ناول نگار نے منقش کر دیا ہے۔ملاحظہ ہو یہ اقتباس:

’’ یہ نماز بھی ہے اور دعا بھی ۔اس میں مخصوص سورتیں پڑھی جاتی ہیں ۔دعاکے لیے جب ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ہتھیلیاں اپنے چہرے کی طرف نہیں اوپر کی طرف بلند کر دیتے ہیں ۔ عاجزی کے ساتھ اسے دکھاتے ہیں کہ اے مالک و معبود ہمارے ہاتھ خالی ہو گئے ہیں۔سورج نکلنے کے بعد گرمی میں جاکر جنگل میں اس لیے پڑھنا لازمی ہے کہ عاجزی اور مشقت کے بغیر کوئی بڑا انعام نہیں ملتا ۔اپنے پالتو جانور بھینس، بکریاں اور بیل بھی لے کر چلنا ۔وہ سب بھی دعاکرتے ہیں۔‘‘(ص:۱۰۲)

’’کافی دیر بعد انھوں نے سلام پھیرا تو میں نے دیکھا قصبے کے اور بہت سے لوگ بھی وہاں جمع تھے جو ہم سے کچھ دور ہماری صفوں کے پاس ہاتھ جوڑے سر جھکائے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب والد صاحب نے خطبے کے بعد کی دعا کے لیے ہاتھ بلند کیے۔ہتھیلیوں کا رخ آسمان کی جانب تھا ۔(ص:۱۰۳)

راوی کے ابا جان نے لوگوں کے پوچھنے پر نماز استسقاء کی جو تعریف اور اس کے جو فوائد بیان کیے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے ایک جید عالم دین اور متبحر فقیہ تھے اور علم و عمل دونوں میں ممتاز تھے ۔یہ تو صوفیاء کا امتیاز ہوتاہے کہ وہ رب کی خاص عطا سے مشکل سے مشکل ترین مسائل کو چٹکیوں میں حل کردیا کرتے ہیں ۔اس لحاظ سے ناول کا یہ جملہ بہت اہم ہے :

’’ جنگل میں اس لیے پڑھنا لازمی ہے کہ عاجزی او مشقت کے بغیر کوئی بڑا انعام نہیں ملتا ۔‘‘(ص:۱۰۲)

اتحاد اور یک جہتی کا احساس اس وقت بھی شدید ہوتاہے جب راوی اور شیام لال(نوکر)ایک ساتھ کھیت جاتے ،سبزیاں لاتے اور پیڑوں سے پھل توڑ کر ساتھ کھاتے اور کھیل کود کرتے۔ اسی دوران شیام لال اپنی بیٹی کے بیاہ کا قصہ مزے لے لے کر ان بچوں کو سناتا اور قصہ سناتے سناتے یہ واقعہ بھی بیان کرتا کہ بیٹی کے بیاہ کے لیے اس کی مدد کیسے اور کہاں سے ہوئی۔دیکھیں یہ اقتباس :

’’ میاں مجھے روپیہ چہئیے ۔لونڈیا کا بیاہ ہے ۔یہ جمین آپ دھر لو ۔میں نے کھتونی ان کے پیرن پر ڈاردی ۔میاں نے کھتونی اٹھاکر میری گود میں ڈاردی۔میاں نے کھتونی اٹھاکر میری گود میں ڈار دی  اور بولے مجھے کسی کی جمین کی جرورت نہیں ہے ۔میں اپنے ہی باگ کھیتن پر نہ جات ہوں ،تم ہی سال بھر کام کتے ہو۔میں بولو تو آپ روپیہ ادھار دے دو ۔میری آدھی تنکھا ہر مہینے کاٹ لیجو ۔میاں بولے تمہاری پوری تنکھا بھی کون بہت سی ہے جو میں آدھی کاٹ کر گنے گا ر بنوں ۔یہ سن کر میں لگائیوں کی تر یوں رونے لگیو ۔تب میاں مسکرائے ۔اجالا سا پھیل گیو ۔بولے تم جتے روپے مانگ رہے ہو ، دلہن بٹیا اس کے آدھے اپنے میکے جانے سے پہلے میرے حوالے کر گئی تھیں ۔ باقی بچے آدھے وہ میری ترپھ سے بیٹی کے بیاہ کی سوغات ہیں ۔میں بھونچکا بیٹھو رہو کہ اتنی دیر ماں وہ اندر جاکر روپے لا کر میری گود میں ڈار چکے تھے ۔‘‘ (ص:۴۳)

مذکورہ اقتباس میں جہاں ایک طرف بلاتفریق مذہب وملت اور رنگ و نسل کے مدد کا خوبصور ت بیان ہے وہیں علاقائی زبان کی چاشنی اور شیرینی بھی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ناول نگار کو زبان کے علاقائی اختلافات اوربدلتے لب و لہجہ کی بھی گہری معلومات ہے ۔ در اصل سید محمد اشرف کی سب سے بڑی طاقت تو ان کی پاکیزہ اور با معنی زبان ہی ہے جس کے ذریعے وہ جامد اور غیر مرئی اشیاء کو بھی متحرک اور زندہ جا وید بنادیتے ہیں اور ان کی تحریروں میں ڈرامائی عناصر پیدا ہوجاتے ہیں ۔

ناول میں ہندو مسلم مشترکہ تہذیب و ثقافت کی اور بھی بہت سی مثالیں موجو د ہیں ۔یا علی، یا جے بجرنگ بلی جیسے نعرے بلا تفریق دونوں ہی مذہب کے افراد مشترکہ طور پر لگاتے ہیں تب ان نعروں میں اخلاص، محبت ، ہمدردی ، بھائی چارگی ، احترام اور روا داری کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔بین مذہب روا داری کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اکھاڑے میں جیت کے بدلے جو رقم ماسٹر پیارے لال کو ملتی ہے اس سے ایک سال کسی مسلم لڑکی کے نکاح کا انتظا م کیا جاتا تو دوسرے سال کسی ہندو کی بیٹی کی مانگ سندور سے بھر دی جاتی تھی ۔ملاحظہ ہو اقتباس:

’’کبھی خلیفہ سراج کا پٹھا ہار تا اور کبھی یادوؤں یا ٹھاکروں کے گاؤں کا کوئی جیوٹ ہارتا۔لیکن فتح ہر بار ماسٹر پیارے لال شرماکی ہوتی کہ اس آخری کشتی کی بڑی انعامی رقم کا آدھا حصہ وہ دنگل میں ہی وصول کر لیتے کہ اس رقم کی مدد سے ایک سال کسی غریب مسلمان کی بیٹی رخصت کی جاتی اور دوسرے سال کسی غریب ہندو کی بیٹی بیاہی جاتی ۔‘‘(ص:۱۱۱)

دیگر ہم عصروں کے مقابلے میں سید محمد اشرف کی تحریروں کایہی امتیاز ہے کہ ان کے ہر کردار کا ہر عمل بظاہر قصہ نویسی اور دلچسپی کا مظاہرہ کرتاہے مگر سید محمد اشرف اپنی سادہ اور شیریں زبان کے جادو سے اس میں لطف و انبساط کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں ۔پورے ناول کو قصے کے طور پر پیش کرکے اس کے اندروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور حقیقی المیہ کو تلاش کرکے ناول کو فلسفہ کی شکل عطا کردیتے ہیں ۔ناول آخری سواریاں کا یہی امتیاز ہے کہ اس میں فلسفہ قصے ،کرداروں اور فضاؤں میں تحلیل ہوکر نمودار ہوتاہے ۔محبت ،بین مذہب رواداری ،آپسی میل جول اور علاقائی تہذیب و ثقافت کہیں جنم اشٹمی کے میلے توکہیں شام لال کی بیٹی کی شادی میں ظاہر ہوتی ہے ۔کہیںساجھے کے کنویں تو کہیں منشی شفیع الدین کی وفاداری میں ۔تہذیب و ثقافت کے خوبصورت بیان کے لیے دیکھیں یہ اقتباس:

’’جمو نے کچھ اور کام اپنے سپردکر لیے تھے مثلاً اماں کے سر میں تیل ڈالنا ۔دھوبی کے یہاں سے آئے ہوئے کپڑوں کو کاپی میں لکھے کپڑوں سے ملانا۔خراب دھلے ہوئے کپڑے واپس بھیج کر دوبارہ دھلوانا ۔میلاد والے دن فرش بچھانا۔ تخت پر سفید چادر بچھانا اور اگر بتیاں جلانا اور میلاد شریف کے بعدسب کو چائے پلاکر تبرک تقسیم کرنا ۔کتا بوں کی الماریاں صاف کرانے میں مدد کرنا اور پھر کتابوں کو ترتیب سے رکھنا ۔وہ کتابوں کا نام فر فر پڑھنے لگی تھی لیکن عربی کی کتابوںکو ہاتھ نہیں لگاتی تھی ۔عربی کی ہر کتاب کو قرآن شریف سمجھتی تھی ۔‘‘( ص: ۷۴۔۷۵)

ایک تہذیبی منظر اور ملاحظہ کریں :

’’ دروازے پر یکہ لگ گیا تھااور اس پر پردے نہیں باندگے گئے تھے ۔والد صاحب اور چچا میاں نے اس کے ہاتھ میں لفافے دیے اور سر پر ہاتھ رکھا ۔جمو نے دونوں بہنوں کو گود میں لے کر اپنے سینے سے بھینچا اور ان کی پیشانیوں کو چوما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں انہیں ریل پر بٹھانے اسٹیشن پر آیا ۔راستے میں کوئی کچھ نہیں بولا ۔ یکے میں اتنی خاموشی تھی ک یکے والا بھی حیران سا بیٹھا ہم لوگوں کا منھ تکتا رہا ۔‘‘(ص:۶۴۔۶۵)

مختصر یہ کہ سید محمد اشرف کا یہ ناول ان کے فکرو فن کا سچاترجمان ہے۔اشرف کے مطالعہ کی وسعت ،تجربہ کی گہرائی ،بیان کی خوبی ونفاست ،لہجے کی نرمی وسادگی اور زبان کی پاکیزگی ناول میں جا بجا نظر آتی ہے ۔ہندو مسلم اتحاد ، بین مذہب رواداری ،آپسی بھائی چارگی، قدیم لازوال اقدار کی رخصتی کا غم اورعلم وہنر کی بے بے قدری کا افسوس ناول کی اہم خصوصیات ہیں ۔ گویا آخری سواریاں کی شکل میں اشرف نے تاریخ کے ایک  روشن دور کو زوال پذیر ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔ناول میں قصباتی تہذیب کی عکاسی، کردار نگاری ، جزئیات نگاری ، دیہی ،قصباتی اور علاقائی بولیوں کا حسین امتزاج ، حقیقت نگاری ، نفسیاتی مسائل کابیان اور منظر کشی کے خوبصورت نمونے اشرف کی فکری وفنی مہارتوں کی واضح دلیل ہیں۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.