شاکرؔ کلکتو ی کے رمضانی قصیدوں کا مطالعہ
رضیہ سلطانہ
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، وشوا بھارتی یونیورسٹی
موبائل: 9903650087
سید طاہر علی شاکرؔ کلکتو ی دنیائے اردو ادب کے ایک معتبر شاعر ہیں۔آ پ کاشمار علامہ رضا علی وحشتؔ کے عزیز شاگردوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش 23نومبر1910 کوکڑایہ روڈ، کلکتہ- 17میں منشی سیّد محمد شفیع کے گھر ہوئی ۔
آ پ کی مادری زبان اگرچہ بنگلہ تھی لیکن اردو اور فارسی زبانوں پر ان کو پورا عبور حاصل تھااس کے آپ نے پندرہ سال کی عمر میں ہی شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ ابتدا میں اس وقت کے مشہور شاعر اکملؔ سے اصلاح لی۔ استادا لشعراء علامہ وحشت سے شاکرؔ متاثر تھے اس لیے انہوں نے وحشت کلکتوی کی شاگردی اختیار کی۔علامہ وحشتؔ بھی ان کے شاعرانہ افکار و استعداد کے دل سے قائل تھے۔علامہ وحشت نے شاکر کو 1945 میں اپنا جانشین مقرر کیا۔ ایک شعر میں فرماتے ہیں ؎
نہیں ہے شعر میں وحشت ؔکا ہمنوا کوئی
بس ایک شاکر ؔخوش فکر ہے خد ا رکھے
آ پ کے شاگردوں کا ایک وسیع حلقہ ہے۔آپ کے شاگردوں نے 1937 میں ایک ادبی انجمن اپنے استاد کے نام کی مناسبت سے قائم کی جس کا نام ’’بزم شاکری‘‘ ہے۔ بزم شاکری آ ج بھی کلکتہ میں بڑے جوش وخروش سے ادبی خدمات انجام دے رہی ہے۔ بزم شاکری کی اردو سے محبت وعقیدت سے متاثر ہوکر علامہ وحشتؔ فرماتے ہیں:۔
خوب ہے بزم شاکری وحشت
جس کو بافیض و با اثر دیکھا
اگرچہ شاکرؔ نے تمام اصنافِ سخن پہ طبع آ زمائی کی اور شاعری میں قصیدہ نگاری کے میدان میں بھی اپنی جولانی طبع کے جو ہر دکھائے۔ لیکن وہ حقیقی معنوں میں غزل کے شاعر تھے۔ہندوستان میں جب اردو شاعری کا آ غاز ہوا تو شعرا نے ہر صنف سخن پر طبع آزمائی کی۔دوسرے اضاف سخن کی طرح قصیدہ گوئی کی ابتداء بھی دکن سے ہوئی۔دکنی شعراء میں سلطان محمد قلی قطب شاہ پہلا قصیدہ نگار شاعر ہے۔ قطب شاہ سلطنت کے قصیدہ نگاروں میں نصرتی اور غواصی بڑے پایہ کے قصیدہ نگار گزرے ہیں۔ان کے علاوہ مقیمی ہاشمی اور عاشق عادل شاہی قصیدہ نگاروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔
صنف قصیدہ ایک جداگانہ فن ہے قصیدہ عربی زبان لفظ ہے جس کے معنی گاڑھا مغز کے ہیں۔ دراصل اپنے بلند اور پرُشکوہ مضامین کی وجہ سے تمام اضاف سخن میں اسے وہی حیثیت حاصل ہے جو انسانی جسم میں مغز کو حاصل ہے۔لہٰذا اسے مغز سخن تصور کرکے قصیدے کا نام دیا گیا۔ اصطلاح شاعری میں قصیدہ ایسی شاعری کو کہتے ہیں جس میں قصیدیا ارادے سے کسی کی تعریف یا ہجو کی جاتی ہے۔ جہاں تک قصیدے کی ہیئت(form) کا تعلق ہے تواسکی ہئیت بھی وہی ہے جو غزل کی ہے۔ یعنی قصیدے کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ وہم ردیف ہوا کرتے ہیں۔ قصیدہ میں خیالات مضامین مربوط اور تواتر کے ساتھ ہوتے ہیں۔اور موضوع کے اعتبار سے قصیدے کا کوئی نہ کوئی عنوان ضرورہوتا ہے۔ جیسے قصیدہ نبوؐی ،منقبت حضرت علیؓ، منقبت امامؓ ،درمدح عالم گیرثانی، درمدح آصف الدولہ، آ مدماہ صیام ، دواع ماہ صیام وغیرہ ۔
شاکرؔ کلکتوی نے اس صنف میں ایک نئے طرز کی راہ ہموارکی۔انہوں نے رمضانی قصیدہ لکھنے کا رواج قائم کیا جو اردو قصیدہ نگاری میں بالکل جداگانہ اور منفرد نوعیت کا طرز اظہار ہے۔ یہ قصیدے اصل میں ماہ رمضان کی آمد اور اس کے وداع کے مضامین پر محیط ہیں۔ اور منفرد نوعیت کا طرز اظہارہے۔ قصیدہ گوئی کیلئے جس بلند تخیل، مضمون آ فرینی، قادرالکلامی کی ضرورت ہوتی ہے وہ شاکرؔ کلکتوی کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہے۔اردو زبان میں رمضانی قصیدہ کی روایت نہ ہونے کے باوجود ان کے اس قسم کے قصیدے نقشِ اول بن گئے ۔ ماہ رمضان میں کلکتہ اور اس کے اطراف میں لوگوں کو نیند سے بیدار کرنے کی خاطر لوگ قافلے کی شکل میں قصیدے گایا کرتے تھے۔
اس ضمن میں شاکرؔ لوگوں کو بامعنی اور نصیحت آموز قصیدے لکھ کر دینے لگے انہوں نے دوسرے شعراء کی طرح جاہ ومرتبہ یا پیسے کمانے کے لیے قصیدے نہیں لکھے۔ بلکہ انہوں نے ماہ رمضان کی شان وعظمت اوراس کے احترام میں قصیدے لکھے۔جو قصیدہ نگاری کی دنیا میں بالکل اچھوتی اور نئی بات تھی۔ شاکرؔ کے قصیدے ماہ رمضان کی عظمت و فضیلت کے ساتھ نصیحت آ موز ہیں اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ قصیدہ خوانی کو ایک نئی اورمفید راہ مل گئی۔لوگوں کے دلوں میں الفت خداوندی اور دینِ محمدی سے اور بھی زیادہ گہری عقیدت ومحبت پیدا ہونے لگی۔ ماہ رمضان کی آ مداور رخصتی پر شاکر ؔ کے جو قصیدے ہیں اس سے ان کی دینی محبت والفت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ آ ج بھی رمضان کے آ خری ایام میں قصیدہ خوانی کے مقابلے ہوتے ہیں اس طرح قصیدہ خوانی کونئی سمت اور نئی زندگی مل گئی جو اردو کی ترویج و ترقی میں معاون ثابت ہوئی۔ بقول رئیس الدین فریدی :
’’شاکرؔ صاحب نے اردو کو مقبولِ عوام بنانے کے لئے ایک اور موزوں طریقہ بھی اختیار کیا………. شاکرؔ صاحب نے لوگوں کو بامعنی اور نصیحت خیز قصیدے لکھ کر دینے شروع کیے اور اس طرح قصیدہ خوانی کو نئی اور بامقصد زندگی مل گئی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے‘‘
(بحوالہ:شاکرکلکتوی….سب سے بڑے بنگالی غزل گورئیس الدین فریدی۔ گوشہ شاکر از مصطفیٰ اکبر ۔ مغربی بنگال اردو اکاڈمی۱۹۹۲)
شاکرؔ کے رمضانی قصیدے میں حسن کے ساتھ بڑی حد تک غزل کی مہکتی ہوئی خوشبوبھی ملتی ہے۔ اُن کے کلام میں جہاں دیگر موضوعات کی فردانی ہے وہیں رمضانی قصیدہ نگاری کی دنیا میں ان کی جدت پسند طبیعت کے نئے نئے گل کھلائے ان قصیدوں میں شاعر نے اسلام اور اس کے بنیادی اصولوں سے عقیدت و محبت رکھنے والوں کے لئے ایک تاریخ مرتب کردی ہے۔ جب کوئی عشق حقیقی میں سرشار ہوتا ہے تو کیفیت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یاد محبوب کو خود سے کبھی جدا ہونے دینا نہیں چاہتا۔ یہاں یاد محبوب سے مراد’’ ماہ رمضان‘‘جو شاکرؔکی زندگی کا محور و مرکز ہے۔ جسے شاعر بے حد عزیز سمجھتا ہے۔شاعر ماہ رمضان کی آمدکا انتظار اسطرح کرتا ہے۔ جیسے کوئی حسین وجمل محبو ب کا انتظار کرتا ہو ۔ محبوب کی آمد سے اتنی مسرت ہوتی ہے کہ وہ محبوب (ماہِ ر مضان) کو عید سے تشبیہ دے کر اپنے فکر کے کینوس کومزید وسیع کرتا ہے۔ شاعر بڑی ہی معصومیت سے کہتا ہے ۔
؎
تیرے آنے کی ایسی خوشی ہے
جیسے دنیا میں عید آج ہی ہے
سب کے چہروہ پہ اک تازگی ہے
آج سب کے لبوں پر ہنسی ہے
آج دنیا کے ظلمت کدے میں
تیرے آنے سے اک روشنی ہے
سر میں پھر ہے عبادت کا سودا
دل میں پھر خواہشِ بندگی ہے
تو ہی سب کچھ ہے اے ماہِ رحمت
دین تو ہی ہے دنیا تو ہی ہے
شکر کرتا ہوں شاکرؔ کہ مجھ کو
زندگی ازسر نو ملی ہے
یہ تمام دلی کیفیات جو اوپر کے اشعار میں واضح ہوئے ہیں وہ دراصل ایک عاشقِ صادق کے دل کی دل دوزداستان ہے ۔خیالات کی روانی، فنی بصیرت ان کی شاعری میں جابجا ملتی ہے انہیں وجو ہات کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری میں تنوع، خلوص والہانہ پن ہمدردی، دردمندی جو مختلف شیڈس میں جلوہ گر ہیں۔مثال کے طور پر اس تعلق سے منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
شاعر ماہِ صیام کی رخصتی پر رنج وملال کرتا ہے ماہِ رمضان کی وداع پر مر جھا جا تا ہے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کے ہجر میں سوکھ کر کا نٹا ہوجا تا ہے۔ ’’رمضانی رخصتی قصیدوں‘‘ کو پڑھتے وقت عاشق ومحبوب کے ہجرکا منظر سامنے آ جاتا ہے۔شاعر اپنی بے کلی پر آ نسو بہاتاہے اور کہتا ہے
”وداع ماہ ِصیام ”
اے ماہ کرم فرقت میں تری مایوس ہو کیوں شیدا تیرا
کیادل میں نہیں ہے یادتری کیا سر میں نہیں سودا تیرا
فرقت میں تری اے ماہ کرم رہتے ہیں مستِ مسرت ہم
ہے یاد نشاط انگیز تری ہے ذکر سرو رافزا تیرا
بے سو دہے فکراسکی اے دل بیکار ہے اس کا اندیشہ
جو عشق میں سب کا ہوتا ہے انجام وہی ہوگا تیرا
گوروک نہیں سکتا تجھ کو‘ جان اپنی تو دیدے سکتا ہے
مجبور ہے لیکن اتنا بھی مجبور نہیں شیدا تیرا
آیا ہے ابھی اور جانے کی کرتا ہے ابھی سے تیاری
اللہ رے اے ماہِ مضان آنا تیرا جانا تیرا
تو شوق بھری آنکھوں سے مری روپوش ابھی کیوں ہوتا ہے
جی بھر کے تو اب تک ماہ جبیں دیکھاہی نہیں جلوہ تیرا
شاکر ہے مگر تو دیوانہ لیلائے صوم کا دیوانہ
بے وجہ نہیں یوں رہ رہ کرہنسنا تیرا روناتیرا
شاکرؔ کلکتوی نے رمضانی قصیدہ نگاری میں اپنی پوری قادر الکلامی کاثبوت دیا ہے۔ ان قصیدوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ شاکرؔ گہرا دینی شعور رکھتے تھے۔ ڈاکٹرسمیع اللہ اسدنے شاکرؔ کی شاعرانہ عظمت کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’شاکرؔ صاحب کے قصیدے نہ صرف یہ کہ شاعر کے بے پناہ جزبات واحسا سات کے
تر جمان ہیں بلکہ ان کی قادر الکلامی حسنِ بیان طرزِادا ، شکوتِ الفاظ، چست تراکیب
اور سلاست وفصاحت کی بہترین مثال ہیں۔ یہ قصیدے ان کی گوناگُو ں خصوصیات
شاعری کا شا ہکار ہیں۔”
(بحوالہ: شاکر کلکتوی کافن۔پروفیسرمحمد سمیع اللہ اسدؔ۔ص: ۱۵، گوشۂ شاکر از مصطفیٰ اکبر، مغربی بنگال اردو اکاڈمی 1992)
کہاگیاہے کہ غزل جیسی صنف سخن قصیدے کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔۔قصیدہ اور غزل کے ہئیت اور اسلوب دونوں ایک ہی ڈھانچے پر مشتمل ہے۔ شاعر نے کہیں کہیں ماہِ کرم، ماہِ صوم، مہہ ذیشان وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کیا ہے ۔اگرشاعر ایسے اشارے یا ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتا تو شاید ایک روایتی غزل اور ایک رمضانی قصیدے کے درمیان حد بندی مشکل تھی۔نمونہ کے طور پر چند اشعار پیش خدمت ہیں جن کے مطالعے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ بظاہر محبوب ہی سے گفتگو کا انو کھا انداز ہے۔
میں فراق ماہ صیام میں نہ تو چپ رہوں نہ فغاں کروں
مجھے چاہئے کہ حدیث غم بہ نگاہ یاس بیاںکروں
جو میں کام جزبۂ دل سے لوں تو یہ اختیار بھی ہے مجھے
کہ دکھا کے جلوہ جو چھپ گیا اسے پھر سے جلوہ کناں کروں
یہ خبر نہیں ہے مہ رواں کہ تو کس طرف کو ہوارواں
میں پکاروں جاکے کدھر تجھے میں تلاش تجھکو کہاں کروں
تو نہ پوچھ اے مرے چارہ گر مرے دل کے درد کا ماجرا
کہ یہ راز ہے مرے عشق کا میں کسی سے کیسے بیاں کروں
ترا وصل مجھ کو نصیب ہومہ صوم کا ش وہ دن ہو پھر
کہ ترے فراق کی داستاں ترے سامنے میں کیسے بیان کروں
مجھے چاہئے غم عشق پر میں اب اپنے آپکو چھوڑدوں
نہ علاج سوز دروں کروں نہ دوائے درد نہاں کروں
مہ ذی کرم تو چلا گیا یہ بتا کہ شاکر ؔبے نوا ……!
تراقصہ کسکو سناؤں میں ترا حال کس سے بیان کروں
ایک خط میں علامہ وحشت لکھتے ہیں:۔ ’’ رخصت ماہ ِصیام پر آپ نے خوب خوب شعر نکالے ہیں‘‘
(مکاتیب وحشتؔ، ص53 ڈھا کہ 7/اگست 52)
بہر حال موضوع رمضانی قصیدے کا ہی کیوں نہ ہو لیکن ان میں شاعرنے جو طرز تخاطب اور انداز بیان اختیار کیا ہے۔ اس میںبلا کادرد اور اثر انگریزی موجود ہے۔ لہٰذا دل بے تحاشہ شاعر کو کمال فن کی داد تحسین دینے پر آمادہ ہے۔ اس قبیل کے چند اشعار دیکھئے:۔
شاکرؔ صاحب کا اسلوب بیان بالکل انفرادی ہے۔ زبان سادہ اور سلیس استعمال ہوئی ہے ان کی ذہانت، قوتِ فکر ،معنی آ فرینی ان کی صلاحیتوں کی آئینہ دار ہیں۔ یہ قصیدے اس عہد کی یاد گار ہیں جب قصیدہ کہہ کر سحری میں لوگوں کو اٹھایا جا تا تھا۔ ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہاں تک کہ آج بھی لوگ ان کے یاد گار قصیدے ہی وقت سحری گاتے ہیں۔بہ صورت تقلید دیگر شعراء بھی شاکرؔ کی ایجاد کردہ اس روایت میں نیاپن لاکر قصیدے لکھ رہے ہیں۔ شاکرؔ کلکتوی کے قصیدے’’ شاہکار قصیدے ‘‘کے عنوان سے منظر عام پر آچکے ہیں۔
شاکرؔ کلکتوی نے قصیدے کے علاوہ نعت ومنقبت، سلام ونوحہ اور مختلف موضوعاتی نظموں پر بھی اپنے قلم کا جو ہر دکھایاہے۔ لیکن ان کی شاعری کا خاص میدان غزل ہی ہے۔لیکن اس کے باوجود شاکرؔ کلکتوی رمضانی قصیدہ نگاری کی دنیا میں بے تاج بادشاہ مانے جاتے ہیں۔اس تعلق سے علامہ وحشت لکھتے ہیں:۔
’’….آپ کی نظمیں متعلق ماہِ صیام سب کی سب استادانہ رنگ میں
ڈوبی ہوتی ہیں اشعار پرتاثر ہیں اور فنی خوبیاں لئے ہوتے ہیں۔‘‘
(مکاتیب وحشت، ص53 ڈھاکہ 7/جولای52)
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!