اپنی بات
اردو ریسرچ جرنل اشاعت کے مرحلے میں ہی تھا کہ شمس الرحمن فاروقی ہم سب کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ فاروقی صاحب کی وفات کا سانحہ یقینی طور پر پوری اردو دنیا کے لیے ایسا خسارہ ہے جس کی بھرپائی مشکل ہے۔ انہوں نے تنقید، تحقیق، شاعری اور فکشن ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ میر کی شاعری پر ان کا کام شعر شور انگیز کی شکل میں میر کی تفہیم میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ انہوں نے میر فہمی کے بنے بنائے سانچوں کو چیلنج کیا ۔ یہ معاملہ میر کے ساتھ ہی نہیں تھا۔ انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا وہاں روایت سے انحراف دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ علم کا سمندر تھے ۔ ادب کے کسی بھی پہلو پر گفتگو کرتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہی ان کا اختصاص ہے۔ فاروقی صاحب ایک نظریہ ساز ادیب تھے۔ شب خون کی شکل میں انہوں نے ایک مدت تک ادب کے طالب علموں کی رہنمائی کی۔ ان کا ناول کئی چاند تھے سر آسماں اردو کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس ناول کے بارے میں بہت ساری باتیں ہوئیں ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی ہوتی رہیں گی۔ ہمارے لیے یہ ناول ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ آگ کے دریا کے بعد یہ پہلا ناول ہے جو تاریخی ناول ہوتے ہوئے بھی تاریخی ناول نہیں ہے۔ اس ناول میں انہوں نے مٹتی ہوئی تہذیب کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کردیا ہے۔
فاروقی صاحب کی تنقید ہم طالب علموں کے لیے اس لیے بھی اہم ہے کہ ان کی تنقید بغیر کسی لاگ لپیٹ کے ہوتی ہے جس کی وجہ سے عام طالب علموں کو بھی آسانی سے سمجھ میں آجایا کرتی ہے۔ انہوں نے ادب کی مختلف اصناف پر بہت گرانقدر سرمایہ چھوڑا ہے جس سے آنے والی نسلیں استفادہ کرتی رہیں گی۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک اردو زندہ ہے فاروقی صاحب قارئینکے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
یہ شمارہ مختلف وجوہات کی وجہ سے تاخیر سے شائع ہورہا ہے۔ اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ آئندہ کے لیے کوشش کی جائے گی کہ سبھی شمارے وقت پر شائع ہوں۔ اس کے لیے مجھے ادب نواز دوستوں کی مدد بھی درکار ہے۔ امید کہ مجھے آپ سب کا تعاون ملتا رہے گا۔
رہے نام اللہ کا
عزیر اسرائیل
(مدیر)
Leave a Reply
Be the First to Comment!