ا قبا ل مجید بحیثیت افسا نہ نگا ر
ڈاکٹر ناصرہ سلطا نہ
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
nasrasultanadu@gmail.com
اقبال مجید چھٹی دہائی کے اوائل کے افسانوی دنیا میں متعارف ہوئے پھر ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘ کی اشاعت نے ان کی ادبی حیثیت میں سونے پر سہاگے کا کام کیا اور ان کا پہلا مجموعہ اسی عنوان سے چھپا۔ مداحوں اور قدرشناسیوں میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی اور ادیبوں نے اس کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا لیکن آٹھویں دہائی کے درمیان پہنچتے پہنچتے ان کا افسانوی نخل نئی زندگی سے سرشار نظر آتا ہے۔ اس تبدیلی کا احساس ادبی دنیا کو اس وقت ہوا کہ ایک مرتبہ بھوپال میں ایک ادبی نشست کا اہتمام ہوا اس محفل میں بہت سارے ادباء و شعراء شریک ہوئے۔ اقبال مجید نے اپنے مخصو ص ڈرامائی لہجہ میں ایک افسانہ ’’پیشاب گھر آگے ہے‘‘ سنایا تو سارے محفل کے شرکاء حیران ہو گئے کہ یہ وہی مصنف ہے جو پہلے پہل ’’عدو چاچا‘‘ کی تخلیق سے پہچانا گیا تھا۔ چنانچہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس نئے مجموعے کے بیشتر افسانے اپنی تخلیقی کیفیت میں ایک کروٹ بدلتے ہیں اور کروٹ کا یہ رخ تازہ منظر نامے کی طرف ہے۔
اقبال مجید کے یہاں بیانیہ کو طرح طرح سے آزمانے کا واضح رجحان ملتا ہے۔ ایک طرف وہ بیانیہ کہانی کہنے کا سلیقہ رکھتے ہیں تو دوسری طرف تمثیلی اور علامتی افسانوں کی جانب گامزن نظر آتے ہیں۔ اظہارِ بیان کی جو مختلف النوع صورتیں افسانوں میں نمایاں ہیں۔ اقبال مجید کی تکنیکی صلاحیتوں کی چغلی کھاتی ہیں۔ انہوں نے سیدھی سادی کہانی بھی کہی ہے۔ (شرمندگی) اور ڈرامائی طرز تحریر بھی اختیار کیا ہے(ایک حلفیہ بیان)ظاہر ہے کہ جب افسانے میں شاعری کی کرافٹ چل سکتی ہے تو افسانے میں ڈرامے کی کرافٹ بھی چلے گی۔ ان کے یہاں وقفے وقفے سے جملوں یا پیراگرافوں کی تکرار ملتی ہے اور ابتدائیہ و اختتامیہ کا انطباق بھی (ہائی وے پر ایک درخت) کبھی کبھی تو ساری دیواریں جو قاری اور مصنف کے درمیان حائل ہوتی ہیں۔ انہیں بڑھ کر مصنف خود ہی منہدم کردیتا ہے۔ پھر اس کا مخاطب براہ راست قاری ہوتا ہے۔(ایک حلفیہ بیان، پوشاک) افسانوں میں جہاں کہیں انگریزی الفاظ جڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی جگہ پر اظہاری قوت کی پرورش کرتے ہیں۔
’’ایک حلفیہ بیان‘‘ اقبال مجید کے اور افسانوں کی طرح ایک ہی استعاراتی محور کے گرد رقصاںہے۔ افسانے کا مرکزایک کیڑا ہے جس سے مصنف(مصنف اور راوی میں یہاں امتیاز مشکل ہے) فکری پیچ و تاب میں مبتلا ہے۔ فکر بھی شدید ہے اور ردعمل بھی شدید ۔ کیڑے اور مصنف کے درمیان کچھ من و تو کا سا رشتہ قائم ہے مگر یہاں من و تو کا فرق مٹتا نہیں بلکہ پیدا ہوتا ہے۔ (فرق کی پیدائش مصنف کی زبانی گالیاں سنانے میں پوشیدہ ہے) یہی فرق ہے جس کے معنیٰ کی تہہ داریاں خلق کی جاتی ہیں۔ مصنف اور اس کے مد مقابل کے علاوہ خارجی صورت حال بار بار ابھاری گئی ہے جو کیڑے جیسے کردار کو جنم دیتی ہے۔
اندھیرا، رات اور برسات، علاوہ بریں ٹیوب لائٹ کی روشنی ہے جو کمرے کی فضا پر مسلط ہے اور یہ فضا جسے ہم غیر فطری بھی کہہ سکتے ہیں کیڑے کی گرفتاری کا سامان ہے۔ چکنا فرش کیڑے کو بے بس رکھتا ہے اس کی ابتلا کے وقفے کو فزوں تر کرتا ہے اور اسی فرش کے باعث کیڑا مظلومیت کا شکار ہے۔ ایک اپیسرڈ صورت حال میں پھنسا ہوا ہے۔ لہذا کیڑا ایک طرف ہے جو مسلسل ابتلا کی تصویر ہے جس میں کبھی ہاتھ پاؤں چلاتا ہوتا ہے اور کبھی صبر و تحمل آزماتا۔ دوسری طرف مصنف ہے جو کیڑے کی سعی ناکام پر جھلاہٹ کا شکار ہے اور اسے برانگیختہ شکل میں جگہ جگہ استعمال کرتا ہے۔ مصنف کی یہ برانگیختگی کیڑے کی ناکافی تڑپ کے خلاف احتجاج ہے کہ وہ کیڑے کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے یا پھر یہ احتجاج چکنے فرش کے خلاف ہے جس کے باعث یہ صورت حال پیدا ہے۔ بہرحال وقفہ وقفہ سے ابھرنے والی برانگیختگی ایک نئے بیانیہ کی تخلیق میں ڈھلتی ہے۔ یعنی حلف اٹھانے کی زبان ہر بار نئی جہت لیتی ہے۔ اس افسانے میں تین طرح کی بیانیہ لہریں اپنے آپ کو بدل بدل کر دہراتی ہیں۔ ایک حلفیہ بیان ، ایک خارجی ماحول یا کمرے کے پس منظر کا بیان اور ایک کیڑے اور مصنف کے ردعمل کا بیان۔ اپنی اپنی جگہ پر ابتدائیہ اور اختتامیہ دونوں ہی حلفیہ بیان پر تمام ہوتے ہیں۔ مگر اول اور آخر کا فرق جسے پڑھتے ہوئے تخلیقی تناؤ کا آئینہ کہا جاسکتا ہے۔ ’’پیشاب گھر آگے ہے‘‘ بھی ایک حلفیہ بیان کی طرح لہروں کی تکرار سامنے لاتا ہے۔ اس میں بھی تین پیٹرن موجود ہیں۔ ایک راوی کا بیانیہ پیٹرن ہے، ایک بنیادی کردار کے سوال کا پیٹرن ہے۔ غائب یا موجود کرداروں کے جواب کا پیٹرن ہے۔ اقبال مجید کی فن کاری ان پیٹرن کی تخلیق میں دیکھی جاسکتی ہے۔ وہی مکالمے آگے آتے ہیں تو مزید اضافے کے ساتھ دہراتے ہیں۔ اس صناعی کی خوبی چھنتی چلی جاتی ہے۔ بہ این ہمہ تناؤ کی شدت بھی کئی حساب بڑھتی جاتی ہے۔ راوی کا بیانیہ رخ بھی جھلملاتا اپنی برانگیختگی کو ہوا دیتا آگے قدم اٹھاتا ہے پیشاب حیاتیاتی تناؤ کا نمونہ ہے جو فنی تخلیقی تناؤ کے ساتھ فیوز ہوکر ایک مظہر، ایک فیونومنا بن گیا ہے۔ دوکانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ اور راہ گیر اس رکاوٹ اور اس شدت کو کیا محسوس کریں گے۔خواہ یہ شدت حیاتیاتی یا تخلیقی سطح پر ہو خواہ داخلی یا فنی سطح پر۔ ایسے وقت فرد ؍فنکار اتنا جانتا ہے کہ بہت دیر کا ٹھہرا ہوا پیشاب جب یکبارگی بہہ نکلتا ہے تو جسم کے ایک ایک حصے کا تناؤ جس مسرت انگیز لذت کے ساتھ کم ہوجاتا ہے۔ وہ لطف و طمانیت قدرت کا ایک عظیم تحفہ ہے۔
وقت اقبال مجید کے یہاں کسی ایک استعارے میں نہیں ڈھلتا جس طرح قرۃ العین حیدر کے ’’فوٹوگرافر‘‘ میں یا سریندر پرکاش، محمد عمر میمن، یا حمید سہروردی کے دو ایک افسانوں میں استعارے یا تلمیح کا روپ دھار لیتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کی طرح ان کے یہاں اکثر تاریخی تسلسل والا وقت موجود ہے۔ افسانوی حیثیت سے عصری سطح پر وقت کی تاریخی تہیں خدا، عورت اور مٹی میں نمایاں ہوکر کرافٹ مین شپ کی مثال پیش کرتی ہیں۔ مختلف ادوار کی تہیں ازلی وقت کی تہیں اس طرح مدغم ہوجاتی ہیں کہ آپس میں ایک (Crushing closeness) کا پرتو اتارتی ہیں۔ کرافت مین شپ کے علاوہ اقبال مجید کے یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وقت کا ٹریٹمنٹ بھی بڑھتے ہوئے تناؤ کا نمونہ ہے۔
وقت کے واسطے سے دیکھئے تو اس سلسلے کا ایک افسانہ ’’ہائی وے پر ایک درخت‘‘ عجیب و غریب افسانہ نظر آئے گا۔ یہاں اتفاق سے اقبال مجید تکنیک کا وہی ملتا جلتا سلسلہ بروئے کار لاتے ہیں جو اوپر بیان میں آیا ہے۔ اقبال مجید کے افسانوں کا تکنیکی تنوع دیکھنا ہو تو ’’ایک حلفیہ بیان‘‘ ’’ پیٹ کا کیچوا‘‘’’پوشاک‘‘ ’’دو بھیگے ہوئے لوگ‘‘’’مدافعت‘’ وغیرہ پر ایک نظر ڈالی جاسکتی ہے۔ جن میں تکنیکی اختلاف کے علاوہ داخلیت اور خارجیت مشاہدہ اور انوالومنٹ غرض ہر طرح کی کوشش موجود ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ انوالومنٹ والے افسانے عموماً یکسانیت کا شکار ہوسکتے ہیں۔
البتہ اقبال مجید کے یہاں تجربوں میں فن کار کی شمولیت کے باوجود افسانوں کی رنگا رنگی قائم ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی تجربے کی دنیا میں شامل ہونے کے بعد فن کار اس کا پرتو اتارتا ہے اور دنیا بدل دیتا ہے۔ یہاں سوال دنیا کو بدلنے یا نہ بدلنے کا ہے فن کار کی شمولیت کا نہیں۔ ہاں تو یہاں وقت اپنے برتاؤ میں ایک ایسا ڈائمنشن اختیار کرتا ہے جو پھانسی پر لٹکے ہوئے آدمی کا ذہنی وقت ہے وہ بھی مرنے سے چند لمحے پہلے اور مرنے کے کچھ دیر بعد کا ذہنی وقت مرنے سے قبل والا ذہنی عرصہ تو سبھی قبول کرلیں گے مگر فرد مرنے کے بعد بھی کچھ دیر تک ذہنی طور پر فعال رہ سکتا ہے۔ یہ متنازعہ فیہ امر ہے مگر میرا خیال یہ ہے کہ افسانہ آگے بڑھ رہا تھا، تخلیق مزید زندگی مانگ رہی تھی ورنہ شاید تکمیل کو کبھی نہ پہنچتی، نفسیات یا ذہنی حیات کے طور پر یہ بات ممکن ہے یا نہیں اسے دانائے علوم یا ریسرچ اسکالرس طے کرتے رہیں افسانہ تو اپنی منزل طے کرچکا۔
بہرحال اقبال مجید اپنے افسانوں کے لہجے میں پختگی اور طمانیت کی نمایاں پہچان قائم کرتے ہیں۔ پرانی قدروں اور عصری حسیت کے تال میل میں قدیم اسلوب استعمال ہوتا ہے اور اس میں بڑی خود اعتمادی جھلکتی ہے۔ جہاں تک نئی حسیت کا تعلق ہے اس کے اظہار میں پرانے اسلوب کا استعمال بڑی محنت کا طلبگار ہوتا ہے۔ امنڈتے ہوئے عصری دھاروں کو ایسے اسلوب میں ڈھالنے کے لیے جس کوشش اور جانفشانی کی ضرورت ہے اسے اقبال مجید جیسا پختہ فن کار ہی محسوس کرسکتا ہے۔ نئے فن کاروں کی یہ پیدائشی مشکل ہے کہ زبان کو عصریت کے تابع بنایا جائے نہ کہ عصریت کو کھینچ تان کے پرانی زبان کے چوکھٹے میں بٹھایا جائے۔ اقبال مجید تو کم لیکن قاضی عبدالستار زیادہ اس کشمکش سے گریزاں ہیں۔ عصری حسیت کے تانے بانے بننا دشوارگذار مرحلہ ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے اقبال مجید کے حالیہ افسانوں کو ایک نئی کروٹ سے تعبیر کیا ہے۔
اقبال مجید کے بیانیہ کی بات مکمل نہ ہوگی اگر ان کے افسانوی اسلوب میں موجود خشکی اور ٹھو س پن کا احساس نہ دلایا جائے کہ یہ ان کی افسانوی ہیئت کی تشکیل کا اہم جزو ہیں۔ ایک پْروقار فن کار کی نظر اسلوب کو جذباتیت سے ماورا کرتی ہے اور جذباتی معدومیت کے باوجود بھی اگر بیان کی بے ساختگی نمایاں رہے تو یہ ایک خوبی ہے۔
٭٭٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!