اقبال سہیل کی غزلوں کے فکری عناصر
ڈاکٹر محمد شہنواز عالم
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو، اسلام پور کالج، مغربی بنگال
موبائل نمبر: 9874430252
اعظم گڑھ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سر زمین اعظم گڑھ شروع سے ہی علمی اعتبار سے بہت زرخیزرہی ہے یہاں وقفے وقفے سے ایسے علماء، صوفیاء، شعراء، ادباء، اور ارباب فضل و کمال پیدا ہوتے رہے ہیں جنہوں نے علم و تصوف اور شعر و ادب کی دنیا میں نہ صرف اپنی چھاپ چھوڑی ہے بلکہ کائنات کے ایک بڑے حصے کو اپنے علمی و روحانی فیض سے سیراب بھی کیا ہے۔ ان ہی غیر معمولی شخصیتوں میں ایک منفرد نام اقبال احمد سہیلؔ کا بھی ہے جن کی ذات میں علم و حکمت، فکر و فلسفہ، اخلاقی تصوف اور ادیان عالم کے جوہر بدرجہ کمال موجود تھے۔ قدرت نے انہیں علم و فضل کی گہرائی، فکر و فقر کے اوصاف، سیرت کی بلندی، عشق کا ولولہ، اور خرد کی سرفرازی اس فراخ دلی سے عطاء کی تھی کہ وہ جہاں بھی رہے جس حال میںرہے، یگانۂ روزگار اور اپنی مثال آپ رہے۔
انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کی دوسری، تیسری اور چوتھی دہائی بہت ہنگامہ خیز تھی، ان ہی دہائیوں میں مختلف ادبی و سیاسی تحریکات و رجحانات منظر عام پر آئے۔ لوگوں کا ذہن بالیدہ اور شعور پختہ ہوا، اور آزادی کے لئے دستوری جد و جہد کرنے کا سلیقہ آیا۔ آریہ سماج، برہمو سماج اور سرسید تحریک سب اسی عبوری عہد میں رونما ہوئیں، مسلم لیگ اور کانگریس بھی اسی دور میں وجود میں آئیں، کہنے کا مقصد یہ کہ علامہ شبلی نعمانی اور مولانا حمیدالدین فراہی کی صحبت و تربیت نے اقبال احمد سہیل ؔکو ان تحریکوں سے روشناس اور ان کے اغراض کو بخوبی سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے آل احمد سرور رقمطراز ہیں۔
’’ شبلی کی شخصیت اور شاعری کا سب سے دلآویز اور نکھرا ہوا رنگ مولانا سہیل کے کلام میں نظر آتا ہے۔ شبلی کی مشرقیت، شبلی کا جذبۂ حریت، ان کا تبحرعلمی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعرانہ شوخی اور نکتہ سنجی، جس طرح مولاناسہیل کے یہاں آئی ہے اور کسی کے یہاں نہیں ہیں، شبلی کے الفاظ میں دوسروں کے کفر میں بوئے ایمان بھی ہے۔ مولانا سہیل اس راہ سلوک میں دو دل نہیں ہیں اور اس لئے ان کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، علم و فضل کے باوجود وہ شاعری کی محفل میں حسن کاری اور شگفتگی کی دولتِ بیدار لیکر آئے ہیں۔‘‘ ۱؎
مذکورہ اقتباس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اقبال احمد سہیلؔ نے شبلی کے طریقۂ کار کو اور ان کی قائم کردہ روایت کو مزید تقویت بخشی، جس کا اندازہ ہمیں ان کی تخلیق کردہ مرثیہ جسے انہوں نے اپنے ماموں مرحوم کی خراج عقیدت میں تحریر کیا تھا جو عین جوانی میں ہی داغ مفارقت دے گئے تھے۔ یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے پورے خاندان کو ماتم کدہ بنادیا، چونکہ سہیل پر ان کے ماموں کی بڑی کرم فرمائیاں تھیں، اس لئے وہ اس حادثے کی تاب نہ لاسکے، انہوں نے جس بحر میں اپنے ماموں کی خراج عقیدت میں مرثیہ لکھا تھا در اصل اسی زمین میں علامہ شبلی نعمانی نے بھی اپنے والد محترم کے وصال پر مرثیہ کہا تھا۔ سہیل کی اس مرثیہ کی خوب پذیرائی ہوئی، اور جب سہیل کا یہ مرثیہ علامہ شبلی نعمانی کی نگاہوں سے گذرا تو نہوں نے اقبال سہیل کو طلب کیا اور ان کی ہمت افزائی کی ، سہیلؔ کا بیان ہے ملاحظہ فرمائیں۔ ۲؎
’’ مولانا نے اس مرثیہ کی حد سے زیادہ داد دی اور میری موزوں طبعی اور ذوق فارسی پر اظہار مسرت فرمایا۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ ’’تیری شاعری پر مجھ کو خود اپنے کلام کا دھوکا ہو رہا تھا۔آخر یہ رنگ سخن تونے کب اور کیوں کر حاصل کیا؟ ‘‘ مولانا کی اس ہمت افزائی نے میرا حوصلہ اتنا بڑھا دیا کہ اصلاحِ کلام کی استدعا کی تو یہ ہدایت ہوئی کہ کسی کو اپنا کلام اصلاح کی غرض سے نہ دکھاؤںاور اپنے نتائج فکر کی معاندانہ تنقید کرتا رہا رہوں۔۔۔۔۔
اس مشق و ممارست سے چند ہی دنوں میں بازوئے فکر توانا ہوجائیں گے اور جو تبدیل و تغیر اپنے کلام میں خود کیا جائے گا وہ اس استاد کی اصلاح سے بسا اوقات بہتر اور ترقی استعداد میں بہر حال زیادہ معاون ہوگا۔‘‘ ۲؎
یہ بات بالکل درست ہے کہ شاگرد کے حق میں استاد کی تعریف، توصیف اور اعتماد ہی اس کی قابلیت، صلاحیت، لیاقت اور کامیابی کی سند ہوتی ہے گو یہ کہ اقبال سہیل کو یہ تمام چیزیں ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی کی جانب سے حاصل تھیں۔ اس ضمن میں سید سلمان ندوی رقمطراز ہیں۔
’’ کسی شاگرد کو اگر استاد کی تحسین حاصل ہو تو اس کے کمال کی سند ہے مولانا مرحوم سے میں نے اقبال سہیل صاحب کہ بدیہہ گوئی کی تعریف سنی ہے۔ ۱۹۰۷ء میں مولانا شبلی کے حادثہ ٔپا پر جب مولانا حالی وغیرہ اور ان کے احباب نے حسن تعلیل کی رباعیاں کہیں تو سہیل صاحب نے چند رباعیاں کہہ کر پیش کیں، جس کو مولانا نے پسند فرمایا۔‘‘ ۳؎
کلیات سہیل کے مطالعہ کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال سہیل کی طبیعت کو قصیدہ، مثنوی، قطعہ، رباعی اور غزل جیسی اصناف سخن پر یکساں قدرت حاصل تھی، وہ جب اور جو کچھ تحریر کرنا چاہتے تھے، ان کے قلم کی روانی و برجستگی میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔ ان کے دماغ میں ہر قسم کے فصیح اور بلیغ الفاظ اور لطیف و نازک ترکیبوں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود تھا، انہیں تغزل کے تمام آداب سے واقفیت تھی، اسی لئے انہوں نے تغزل کی تمام صالح روایت، عبارات، اشارات اور ناز و ادا کے آداب کو اپنی غزلوں میں موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی غزلوں میں جہاں عشقِ مطلق اور حسنِ مطلق ہے وہیں فلسفہ و حکمت کی نکتہ طرازیاں، بادۂ تصوف کی سرمستیاں، ارضی حقائق، کائنات اور ماورائے کائنات کے مسائل بھی ہیں۔ مختصر یہ کہ ان کی غزلوں کے موضوعات متنوع ہیں اس سلسلے کے اشعار ان کی مختلف غزلوں سے ملاحظہ فرمائیں۔
ننگ ہے صید زبوں ہمت عالی کے لئے
میری مشکل ہے مرے کام کا آساں ہونا
پہلے پیدا تو کر آتش کدۂ شوقِ خلیل
آج بھی سہل ہے شعلوں کا گلستاں ہونا
وارفتگان عشق کو سمجھا ہی تو نے کیا
اِن میکشوں میں ہوتے ہیں یزداں شکار تک
غلامی میں وفا بے سود، سجدہ رائگاں میرا
نہ خود میری جبیںمیری، نہ ان کا آستا ں میرا
اِن ہی ذروں سے کل دنیا نئی تعمیر کرنی ہے
سنبھال اے دامنِ فطرت غبار ناتواں میرا
بلائے جاں جو نہ ہوتی کشاکش ِہستی
سکونِ عیش میں جینا بلائے جاں ہوتا
یہ کیا کہ شمع سے شعلہ طلب ہے پروانہ
خود اپنے سوز دورں سے شرر فشاں ہوتا
ننگ ہے بے عمل قبولِ بہشت
یہ تو صدقہ ہوا صلا نہ ہوا
عشق اور حسن سے سوالِ کرم
یہ تو غیرت کا اقتضا نہ ہوا
اٹھی تھی بحرِ حسن سے اک موجِ بیقرار
فطرت نے اس کو پیکرِ انسان بنادیا
اے سوز ِنا تمام کہاں جائے اب خلیل
آتش کدے کو بھی تو گلستاں بنادیا
اے ذوقِ جستجو تیری ہمت پہ آفریں
منزل کو ہر قدم پہ گریزاں بنا دیا
پھر موج ِ زندگی میں نہیں شورشِ عمل
پھر کوئی سنگ راہِ مقابل نہیں رہا
گم تھی فضائے عشق میں کل کائناتِ حسن
اٹھا غبارِ قیس تو محمل نہیں رہا
ہر ایک ساز سے سنتا ہوں اپنی ہی آواز
فضا میں گونج رہی ہے فقط صدا میری
چلنا سنبھل کے وادیٔ الفت میں ہے حرام
یاں ہر قدم پہ لغزشِ مستانہ چاہئے
آخر کلیم! سننی پڑیں، لن ترانیاں
اب بھی کہو گے عجزِ گدایانہ چاہئے
مذاقِ سر بلندی ہو توپھر دیر و حرم کیسے
جبیں سائی کی فطرت نے کئے ہیں سنگ در پیدا
درج بالا اشعار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سہیل ایسی غزلوں کے قائل ہیں جس میں خوددارانہ شان، مردانہ بلندآھنگی، قوت تاثیر اور جوش بیان کے ساتھ سنجیدہ انسانی قدروں اور ز ندگی کے قیمتی تجربات کو پیش کیا گیا ہو، یہی وجہ ہے کہ سہیلؔ اپنی غزلوں میں جن افکار و تصورات کو پیش کرنا چاہتے ہیں پہلے اسے اپنے دل کی گہرائیوں میں سمو کراس کی چھان پھٹک کرتے ہیں اس کے بعد اسے فن کے قالب میں ڈھال کر نہ صرف موثر انداز میں پیش کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو اس کے پس پردہ مجاہدانہ وقار، قلندرانہ شانِ استغنا، حکیمانہ سنجیدگی اور فلسفیانہ وسعت ِ نظر عطا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں مرزا احسان احمد لکھتے ہیں۔
’’ممکن ہے کہ ان کی غزلوں میں کسی شوریدہ مزاج کے پر گداز عاشقانہ جذبات کی شرر باریاں نظر نہ آئیں، لیکن ہم کو مسرت ہے کہ وہ اس مئے کدہ میں ایک رسوائے سربازار کی متبذل اداؤں کے ساتھ نہیں بلکہ ایک بلند حوصلہ اور عالی نظر رند کی حیثیت سے داخل ہوئے، جس کا ہر قدم عزت نفس اور خود داری کے احساس کے ساتھ اٹھتا ہے، جو بندگی کی لعنت کے ہوتے ہوئے زندگی کی صورت دیکھنا گوارہ نہیں کرتا، جس کو خود اپنے دست و بازو کا تعمیرکردہ نشیمن دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہے جس کی غیرت عشق کسی حال میں حسن سے سوال کرم پر آمادہ نہیں ہوتی ،جس کے ذوق ِ جستجو کے ہمت منزل کو ہر قدم پر کریزاں بنادیتی ہے، جس کی موج زندگی کو شورش عمل کے لئے ہمیشہ پر خطر راہوں کی تلاش رہتی ہے، جس کا غم کدۂ حیات جہان غیر کے مہر و ماہ سے نہیں، بلکہ خود اپنے ہی سوز دل کی تراوش نور سے جکمگاتا رہتا ہے۔‘‘ ۴؎
درج بالا اقتباس کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سہیل کے یہاں جو عشقیہ کیفیت پائی جاتی ہے وہ ان کے تربیت یافتہ عشق کا نتیجہ ہے، کیوںکہ عشق اگر تربیت یافتہ ہوگا تو عاشق کی سوچ و فکر بھی بلند ہوگی اور جب فکر بلند ہوگی تو فعل اعلیٰ و ارفع ہوگا، اور جب فعل اعلیٰ و ارفع ہوگا تو جذبۂ خودداری اور خود شناسی پیدا ہوگی اور یہی خود داری اور خودشناسی جہد حیات میں حصہ لینے کا ولولہ اور طوفانِ حوادث سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ لہٰذا سہیلؔ کے یہاں جو عشق پایاجاتا ہے وہ نشاط زیست، خود آگہی، علؤ کرداراور عرفان حیات کو اپنے دامن میں سمو ئے ہوئے ہے چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سہیل کے یہاں احترام ِحسن بھی ہے اور توقیر جنون بھی۔ اشعار دیکھئے۔
جو دردِ عشق نہ ہوتا تو دل کہاںہوتا
بہارِ زیست کا ہر لمحہ رائیگاں ہوتا
میرے سجودِ شوق سے ہوجائے بے نیاز
اتنا بلند حوصلۂ سنگ در نہیں
دل خطاوارِ اشتیاق سہی
لب گہنگار التجا نہ ہوا
پاس ادب سے گرنہ سکا شرح آرزو
میں بیخود میں بھی کبھی غافل نہیں رہا
اتنا تو ہوش ہے، اسے دیوانہ کیوںکہیں
جو پھوڑتا ہے سر تری دیوار دیکھ کر
وہ آتے یا کرم مرگ ناگہاں ہوتا
کوئی تو چارہ نوازِ بلا کشا ں ہوتا
اس جانفزا عتاب کے قرباں جائیے
ابرو کی ہر شکن کو رگ جاں بنا دیا
صدا فریاد کی آئے کہیں سے
وہ ظالم بدگماں ہوگا ہمیں سے
چشمِ کرم کی شوخیِ طرزِ ستم نہ پوچھ
غم بھی بقدرِ حوصلۂ دل نہیں رہا
اب ہجر کا شکوہ، نہ تغافل کا گلہ یاد
آئی جو تیری یاد، تو کچھ بھی نہ رہا یاد
فریب کاریاں نہ پوچھ جوشِ انتظار کی
تمام شب سنا کئے صدا خرام ِیار کی
سہیلؔ نے اپنی غزلوں میں حقائق و معارف کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ غزل کی شیرنی، لطف و ندرت اپنی جگہ قائم ہے یعنی ان کی غزلوں میں’اشارت، عبارت، جدت، لطافت اور ندرت کے تمام لذائذ موجود ہیں۔ ان کی متصوفانہ اشعار خود اس بات کی دلیل ہیں کہ اس میں شاعرانہ رعنائی بھی اور وجدانی کیفیت بھی لیکن اس کے باوجود یہ اشعار کدو کاوش سے بے نیاز اور تصنع سے یکسر پاک ہیں اس قسم کے اشعار بطور نمونہ پیش خدمت ہیں۔
وارفتگانِ شوق کو کیا دیر، کیا حرم
جس در پہ دی صدا، درِ جاناں بنادیا
برقِ جمال یار! یہ جلوہ ہے یا حجاب
چشم ادا شناس کو حیراں بنادیا
لاکھ گناہگار ہوں، حسن کا راز دار ہوں
عکسِ کمال یار ہوں آئینۂ قصور میں
جمالِ دوست پنہاں پردۂ شمس و قمر پیدا
یہی جلوے تو کرتے ہیں تقاضائے نظر پیدا
اک میں ہی بد نصیب گرفتار غم نہیں
دنیا اسیر حلقۂ زلف دراز ہے
اف کیا مزہ ملا ستم روزگار میں
کیا تم چھپے تھے پردۂ لیل و نہار میں
تری نگاہ کا تبسم، تیری جبیں کی شکن
یہ ابتدا ہے مری اور یہ انتہا میری
اک مشق اضطراب کا رکھا ہے نام عشق
اف بے کسی کہ وہ بھی نہیں اختیار میں
بس اتنی کائنات ہے حیاتِ مستعار کی
شباب ہے حباب کا، بہار ہے شرار کی
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پہلے پہل انگریز ہندوستان بحیثیت تاجر آئے، لیکن جب انہیں ہندوستانیوں کی بدحالی، بے بسی، لاچاری، کم فہمی اور ناخواندگی سے واقفیت ہوئی تو انہیں اسی دن اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ ہندوستان پر حکومت کرنا بہت مشکل نہیں ہے غرض یہ کہ ان کا یہ خواب ایک دن شرمندۂ تعبیر ہوا۔ چنانچہ انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی کے شروع میں جب ہندوستانیوں کا ذہن ذرا بیدار اور انگریزوں کی حکمت عملی سے روشناس ہوا تو ہندوستانیوں نے ان کے ظلم، جبر، بربریت، منافقت، بے حسی اور بداخلاقی کے خلاف اپنی آواز بلند کی، تو شاطر انگریزوں نے انہیں یہ کہہ کر بہلانے اورپھسلانے لگے کہ ہم تو یہاں ایک مقدس مشن لے کر آئے ہیں لہٰذا ہمیں یہاں کچھ اور دن رہنے دیا جائے تاکہ ہم اپنے مشن کی اشاعت صحیح طریقے سے کر پائیں۔ چالاک انگریزوں کے ان ہی پینترے بازیوں کو اقبال سہیل نے بڑے دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ بہتر ہوگا ہم انگریزوں کی ان پینترے بازیوں پر ایک نظر ڈالتے چلیں، اشعار دیکھئے۔
خیال ان کے سخن میرا زباں ان کی دہن میرا
بہار ان کی چمن میرا گل ان کے گلستان میرا
تاراج نشیمن کھیل سہی صیاد مگر اتنا سن لے
جب عشق کی دنیا لٹتی ہے خود حسن کا ماتم ہوتا ہے
حقیقت فریب حسن عالم آشکارکی
یہ ابتدائے فتح ہے جنون پختہ کار کی
الٰہی خیر کہ صیاد لے کے دستۂ گل
چلا ہے آج سجانے کو آشیاں اپنا
خدا سمجھے بت سحر آفریں سے
گریباں کو لڑایا آستین سے
اسی میں خیر ہے ساقی مئے رنگین پلائے جائے
یہ مے کش ہوش میں آئے تو سمجھو تانہ ہوجائے
وہ چشم فتنہ گر ہے ساقی مے خانہ برسوں سے
کہ باہم لڑرہے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے
الہی زنجیر ٹوٹ جائے، اسیر غم اب تو چھوٹ جائے
چمن کو لوٹا ہے باغباں نے توآکے گلچین بھی لوٹ جائے
ستم بھی ہوگا تو دیکھ لیں گے کرم کا بھانڈا تو پھوٹ جائے
یہ دوستی کا طلسم ٹوٹے، یہ مہربانی کا جھوٹ جائے
بلا سے قزاق آکے لوٹیں یہ پاسبانوں کی لوٹ جائے
اچک لے شاہیں تو غم نہیں ہے قفس تو کم بخت ٹوٹ جائے
۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو ہمارا ملک آزا دہوا، لیکن مجاہدین آزادی کو وہ آزادی نہ ملی جس کے لئے انہوںنے اپنا سب کچھ قربان کیاا تھا۔ یعنی آزادی کے متعلق ان لوگوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا، مجاہدین آزادی ہندوستان کی آزادی کے ساتھ امن و سکون، انصاف، برابری اور اس کی سالمیتکے خواہاں تھے لیکن ہندوستان آزاد ہوتے ہی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ بٹوارے کے نتیجے میں اہل وطن سے بہیمانہ اور وحشیانہ حرکتیں سرزد ہوئیں وہ مجاہدین آزادی ہی نہیں بلکہ سہیل جیسے جان دادۂ قوم و ملک کے لئے ناقابل برداشت تھیں۔ اس ضمن میں سہیل کچھ یوں شبنم فشاں ہوتے ہیں۔
ہماری پستیٔ فطرت نہ تھی یوں آشکار اب تک
کہ تھی دیوارِ زنداں رازِ دل کی پردہ دار اب تک
شبِ غم کاٹ دی تھی جس کے جاں پرور تصور میں
چھپی ہے کُہر کی تہہ میں وہ صبح زرنگار اب تک
بہا ڈالے ہزاروں خانماں سیل حوادث نے
دلوں میں تہہ نشیں ہے پھر بھی صدیوں کا غبار اب تک
نہ پوچھ اے ہم نفس! چاکِ گریباں کی تہ کاری
الجھتا ہے نفس کے تار سے دامن کا تار اب تک
دلِ برباد کی خاک آج بھی دوشِ صبا پر ہے
کھٹکتا ہے زمانہ کی نظر میں یہ غبار اب تک
قفس کے تنگنائے تیرہ میں عمریں بسر کی ہیں
نشیمن کی فضا ہم کو نہیں ہے سازگار اب تک
آئی شبِ غم کے بعد سحر، غمناک رہا پھر بھی منظر
وہ غنچہ و گل کا ہنس ہنس کر شبنم کو رلانا کیا کہئے
پیچھے ہیں قدم آگے ہے نظر جانا ہے کدھر، جاتے ہیں کدھر
مبہم ہے یہاں خود سمت سفر رفتار زمانہ کیا کہئے
غرض کہ سہیل ؔکی دور رس نگاہوں نے ان تلخیوں اور محرومیوں کو بھی دیکھ لیا تھا جس سے آج کے باشندگانِ ہند کے عوام دوچار ہیں، گویہ کہ آزادی کے فوراً بعد ملک میں نفرتوں کی ایک وبا پھوٹ پڑی تھی جو فرقہ پرستی، تعصب، تنگ نظری اور شرپسندوں کو تقویت عطاء کر رہی تھی، جس سے ملک کے امن و سکون میں خلل پیدا ہوگیا تھانتیجتاً ملک کے جاں باز سپاہیوں کے حوصلے پست اور شرپسندوں کے ارادے بلند ہونے لگے لیکن ان حالات میں بھی اقبال سہیلؔ پوری ہمت و حکمت سے کام لیتے ہیں وہ آہ و بکا کرنے کے برعکس بلند حوصلگی، اولولعزمی، حمیت اور رجائیت کو پیش کرتے ہیں جو ان کی شخصیت کے خاص عناصر ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
مرا صبر حد سے گذرا مگر اے سہیل اب بھی
وہ زباں نکال پھینکوں جو طلب کرے ترحم
ہوائے شوق میں اٹھ اٹھ کے جو برباد ہوتا ہے
وہی شعلہ فروغِ محفل ایجاد ہوتا ہے
سہیل اس بے نوائی پر بھی ہمت کا یہ عالم ہے
عوض خاکِ وطن کے میں نہ لوں ملکِ سلیماں بھی
سہیل اس چلتی پھرتی چھاؤں سے دل گیر کیا ہونا
یہ دنیا کروٹیں لیتی رہی ہے بار بار اب تک
ابرام نہیں گو شرط ادب الحاح سے بھی ہیں دوختہ لب
دعوے سے نہ کرسکتے ہوں طلب تو ملتجیانہ کیا کہئے
مختصر یہ کہ سہیل کی غزلوں کا یہی وصف ہمیں مایوس کن حالات میں بھی مذاقِ سربلندی، احساسِ خود داری، توقعات، صبر و ثبات، انسانیت دوستی، انقلاب کا شعور، زندگی جینے کا حوصلہ اور جہدِ حیات میں حصہ لینے پر آمادہ کرتا ہے۔ حبیب احمد صدیقی اس ضمن میں اظہار خیال کرتے ہیں۔
’’ان کی غزل میں وہ تمام عناصر موجود ہیںجو شاعری کو دوام بخشتے ہیں ان کو محض وطنیت کا شاعر کہنا ان کے ساتھ نا انصافی ہے۔ ان کے یہاں تصوف کی وجدانی فراست بھی ہے اور حقائق زیست کی رمز شناسی بھی، وہ کاروبار شوق کے صحت مند جذبات کو لبیک بھی کہتے ہیں اور برق نظر سے کسب سعادت بھی کرتے ہیں۔ وہ حسن کے مرتبہ داں بھی ہیں مگر عشق کی عظمت کو بھی نہیں بھولتے۔ وہ زندگی کو ماہرانہ نظر سے دیکھتے اور عارفانہ انداز سے برتتے ہیں۔ ان کی غزل سے دل لذت، نظر بصیرت اور روح فرحت پاتی ہے اور اسی کو کمال شاعری کہتے ہیں۔‘‘ ۵؎
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اقبال احمد سہیلؔ اپنے عہد کے ایک منفرد اور صاحبِ طرز غزل گو شاعر تھے، ان کی غزلوں میں لہجے کی انفرادیت، زبان و بیان کی نکھار، سلاست و صفائی، بندش کی چستی، استعارے کی چمک دمک، شوخی و رنگینی، ردیف و قوافی کی متنوع دریافت اور اسلوب کی ندرت موجود ہے۔ جس بنا پر وہ اپنے ہم عصروں میں ہی نہیں بلکہ بعد کے سخن وروں میں بھی ممتاز نظر آتے ہیں۔
حواشی:
۱۔ ’’سہیل کا تغزل‘‘ از۔ آل احمد سرور، از۔ تابش سہیل، مرتب: افتخار اعظمی۔ صفحہ: ۷۶، ناشر۔ مرکز ادب، جہانگیر آبادپیلس، لکھنؤ۔ سن اشاعت۔ اکتبوبر ۱۹۵۸ء
۲۔ عرض ناشر، کلیات سہیل ،مرتبہ: عارف رفیع۔ صفحہ: ۱۵، ناشر۔دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ۔ اشاعت دوم، نومبر ۲۰۱۱ء
۳۔ ’’تابش سہیل‘‘ از۔ مولانا سید سلیمان ندوی، کلیات سہیل، مرتبہ: عارف رفیع، صفحہ: ۸، ناشر۔ دارلمصنفین، شبلی اکاڈمی، اشاعت دوم ۲۰۱۱ء
۴۔ ’’یادِ سہیل‘‘ از-مقالات احسان۔ مصنف: مرزا احسان احمد صاحب، صفحہ: ۱۲۸، ناشر: درمطبع معارف، اعظم گڑھ، طبع گردید، سن اشاعت: ۱۹۶۸ء
۵۔ ’’اقبال سہیل غزل گو کی حیثیت سے‘‘ حبیب احمد صدیقی۔ از- تابش سہیل ، مرتبہ: افتخار اعظمی۔ صفحہ: ۱۴۲، ناشر: مرکزِ ادب جہاں گیر آباد پیلس، لکھنؤ۔ سن اشاعت: اکتوبر ۱۹۵۸ء
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!