میر تقی میرؔ سماجی شعور اور عصری آگہی کا شاعر
ڈاکٹر شفیع الرحمٰن
شعبۂ اردو، مٹیا برج کالج، کولکاتا۔ ۷۰۰۰۲۴
9831245920
hafiurrahman04@gmail.com
میر تقی میر ایک نابغۂ روزگار شخصیت کا نام ہے ایسی شخصیتیں ہر روز پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ جیسا کہ میرؔ کو خود اس کا بات کا احساس ہے اس متعلق میرؔ کہتا ہے ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مذکورہ شعر کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ میر نے بابغۂ روزگار کے لیے یہ بات کہی ہے۔ میر تقی میرؔ نے اردو شاعری کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی اور تقریباً ہر صنف کو اعتماد بخشا۔ لیکن صنف غزل کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ میرؔ نے صنفِ غزل میں ایسے ایسے گل بوٹے کھلائے جو آج تک کسی اور سے نہ بن سکا۔ ذیل کے اقتباس سے میری مذکورہ رائے بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرئیں۔:
’’میرؔ در اصل ایک ایسے شاعر ہیں جو جملہ اصنافِ سخن پر قدرت کاملہ رکھتے ہیں۔ اس کی اپنی انتقادی فکر بھی ہے جس کا ثبوت نکا الشعراء سے ملتا ہے لہٰذا ان ابعاد و افکار کے ساتھ میرؔ کے مطالعہ کی قدروقیمت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔ اس کی شاعری سہل ممتنع ہونے کے باوصف بہت پیچیدہ ہے اس لیے کہ اس کی شاعری کی اصل روح رمزیت اور ایمائیت میں مضمر ہے۔ میر ؔ کا فن بہت تہہ داری کا امانت دار ہے جس کی تہوں میں تہیں بہت سی زیریں لہریں ہیں۔‘‘
میرؔ اردو کا ایک محتاط اور معتبر شاعر ہے۔ یہی وجہ ہے اسے خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ میرؔ کو خدائے سخن کا خطاب یوںہی نہیں دیا گیا۔ اس کے پیچھے کئی اہم راز ہیں۔ میرؔ کو خدائے سخن اس لیے بھی کہاجاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ ان کی جو طرز تحریر ہے اس میں انفرادیت اور مقناطیسی کیفیت پائی جاتی ہے۔ میرؔ نے وقت کی دھڑکن کو اپنے خون میں شامل کرکے اپنی شاعری میں سمولیا ہے۔ میرؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم میرؔ سے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ ان کا خون ہماری رگوں میں گردش کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ چند اشعارملاحظہ ہوں:
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنئے گا
کہتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئے گا
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
آتش بلنددل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کا
چاہے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
میرؔ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ میرؔ نے جو کچھ شعر کی شکل میں ہمیں دیا ہے وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ہے۔ میرؔ کے اشعار پڑھنے کے بعد ہمیں ایسا بالکل نہیں لگتا ہے وہ اشعار دو ڈھائی سو سال پہلے کہے گئے ہیں۔ بلکہ جب جب ہم ان کے اشعار کو پڑھتے ہیں تب تب یہ ہمیں تازہ اور ہمارے عہد کے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں وضاحت حسن رضوی رقم طراز ہیں:
’’ایک زندہ حقیقت ہے کہ ہم جب بھی ان کا کوئی شعر پڑھتے ہیںتو ایسا معلوم ہوتاہے کہ جیسے کوئی ہمارے پاس بیٹھا ہوا ہے۔ ہمارا بزرگ، دوست اور ساتھی ہے۔ اسی طرح زمانے کے سرد و گرم کو جھیلے ہوئے دکھ اٹھائے ہوئے، آشوب روزگار کا مارا ہوا،ہمارے زخموں پر اپنے اشعار سے مرہم رکھ دیتا ہے۔‘‘
درج بالااشعار کی روشنی میں یہ بات میں کہہ سکتا ہوں کہ میرؔ کا دل عوام و خواص کے لیے دھڑکتا ہے، کہنے کا مقصد یہ کہ شاعر ہو یا ادیب وہ بھی اسی زمین، اسی سماج میں اپنی زندگی کے دن جیتا ہے۔ وہ بھی اپنی ضروریاتِ زندگی اسی سماج یا معاشرے سے حاصل کرتا ہے۔ شعراء، ادباء، دوسروں کے بہ نسبت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے سماج سے ایک لیتے ہیں تو اس کے بدلے دس دیتے ہیں۔ شعراء و ادباء اپنے اپنے عہد کے نباض ہوتے ہیں تو بھلا میرؔ ان چیزوں سے کیسے اپنے آپ کو بچالیتا۔ وہ بھی تو ہمارے سماج کا ایک حصہ تھا۔ اس ضمن میں میرؔ کے اشعار ملاحظہ ہوں:
شعر میرے ہیں سب خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
کس نے سن شعر میرؔ یہ نہ کہا
ہائے پھر کہیو کیا کیا صاحب
روشن ہے اس طرح دلِ ویراں میں ایک چراغ
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے
جفائیں دیکھ لیا، بے وفائیاں دیکھیں
بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں
جو تچھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کرچکے
نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے گر وہ آتا
سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
زیارت ہوگی کعبہ کی یہی تعبیر ہے اس کی
کئی شب سے ہمارے خواب میں بت خانہ آتا ہے
میرؔ نے اپنی شاعری میں تشبیہات و استعارات کے ذریعے ایسا پیکر تراشا ہے جس میں زندگی کی حرارت محسوس ہوتی ہے۔ میرؔ نے شاعری کو درد اور درد کو شاعری بنایا ہے۔ ان کے یہاں ان دونوں کی مکمل ہم آہنگی ملتی ہے۔ ان کے کلام میں جہاں شگفتگی اور مسرت کی جھلک نظر آتی ہے وہاں بھی کسی نہ کسی گوشے میں درد و غم کا گذر ہوتا ہے۔ میرؔ کی شاعری حد درجہ داخلی، شخصی اور نشتریت سے بھری ہے۔ ان کی شاعری میں انسان اور انسانیت کی آواز ہے کیوں کہ انہوں نے شاعری نہیں ساحری کی ہے۔ ان کے اشعار ہمارے دل پر فوراً اثر کرتے ہیں اور ہمیں بے اختیار کردیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ایسی حسن کاری ہے کہ ہم اسے بیان نہیں کرسکتے۔ انہوں نے اپنی سحر بیانی سے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیا ہے اور یہ ان کا کمال ہے۔ میرؔ کے اشعار سنتے ہی ہمارے ذہن میں محفوظ ہوجاتے ہیں جو ان کی ایک اہم انفرادیت کا ہمیں احساس دلاتے ہیں۔ اس متعلق چند اشعار ملاحظہ ہوں:
؎کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ ستخواں شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہِ بے خبر
میں بھی کبھی کسو کا سرِ پُرغرور تھا
نام آج کوئی یاں نہیں لیتا ہے انہوںکا
جن لوگوں کے کل ملک یہ سب زیریں نگیں تھا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری تھا
مذکورہ اشعار کی روشنی میں یہ بات کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ انسانی شخصیت کی تعمیر میں گرد و پیش کے حالات و واقعات اہم رول ادا کرتے ہیں۔ میرؔ کی شاعری میں جو سوزو گداز اور اثر و تاثیر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی ذات نے غمِ عشق، غمِ روزگار اور انقلاب زمانہ کی سختیاں جھیلیں۔ انہیں اپنے عزیزوں کی بدسلوکی کا زخم کھانا پڑا، عشق میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ساتھ ساتھ پے در پے بیرونی حملوں نے دلّی اور اہلِ دلّی پر جو آفت توڑی اسے سہنا پڑا۔ ا ن حالات نے ان کی شخصیت پر جو اثر چھوڑے وہ ان کی شاعری کے سلسلے میں بہت اہم ہیں۔ شاعری میں سوز و گداز کی سی کیفیت انہیں اثرات کے نتیجہ ہیں۔ میرؔ جب اپنے دل کے لٹنے کا ذکر کرتے ہیںتو اس کے پس منظر میں وہ سارے انقلابات ہوتے ہیں۔ جن سے دلّی دو چار تھی۔ اس طرح ان کا ذاتی غم آفاقی ہوجاتا ہے گویا ان کی شاعری کی اہم ترین خصوصیات آفاقیت اور عمومیت ہیں۔ انہوں نے گرچہ اپنے ہی جذبات و احساسات بیان کیے ہیں لیکن ان میں ایک عام انسان کے دل کی دھڑکن صاف سنائی دیتی ہے۔ ایک ایسا انسان جس پر وہ سب کچھ بیت سکتا ہے جو میرؔ پر بیت چکاہے۔ ان کی دنیا میں وہ تمام حالات پیدا ہوسکتے ہیںجن کو میرؔ اپنی زندگی میں دیکھ چکے تھے۔ اسی لیے میرؔ کی شاعری اپنے اندر موافقت کی فضا رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں عام انسانی اپیل ہے۔ جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے اسی وجہ سے ان کا چرچہ گھر گھر ہے اور جو مقبولیت انہیں ان کی حیاتِ زندگی میں انہیں حاصل تھی اس سے کہیں زیادہ انہیں آج حاصل ہے۔ خواجہ احمد فاروقی اس حقیقت کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے ۔ اقتباس ملاحظہ ہوں:
’’میرؔ کی روح فطرت کی محرم تھی، ن کا دل حسن کا ادا شناس تھا اور ان کا جگر عشق کی سورشوں سے آشنا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام حسن و صداقت کا ایسا گہوارہ ہے جس میں زندگی کی ہدایت کھڑی مسکرارہی ہے۔‘‘
میرؔ نے اپنی غزلوں میں زندگی اور آلامِ زندگی کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے زندگی اور عشق کے ہاتھوں بڑی پریشانیاں اٹھائیں اور بڑے ظلم سہے۔ زندگی میں انہیں بہت سارے تلخ تجربات سے دوچار ہونا پڑا اور عجیب عجیب صورتیں پیش آئیں۔ میرؔ نے اپنے شہر اور اپنا دل کو لٹتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اپنے دل کے لٹنے کا ذکر کیا تو گویا اپنی ذاتی محرومیوں کو بیان کیا ہے اور دلی کے لٹنے میں تاریخی و سیاسی انقلابات ان کے پیش نظر رہے۔ اس سلسلے کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں:
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
شام سے کچھ بجھا سے رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
آنکھوں سے جو پوچھا حال کا
ایک بوند ٹپک پڑی لہو کی
دیدنی ہے شکستگی دک کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے
وہی سمجھا نہ ورنہ ہم نے تو
زخم چھاتی کے سب دکھائے تھے
میرؔ دلّی کی تباہی کا ذکر کچھ اس انداز سے کرتے ہیں:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
دلّی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
کل تک جنہیں غرور تھا یاں تخت و تاج کا
اب خرابہ ہوا جہاں آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا
اس گلشن ہستی کی عجیب دید ہے لیکن
جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
مذکورہ اشعار سے بات واضح ہوتی ہے کہ یہ اشعار میرؔ کی زندگی کے ترجمان ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ یہ محض آپ بیتی نہیں بلکہ جگ بیتی ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جسے مجنوں گورکھپوری نے محسوس کیا تھا اور اسی بنیاد پر یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ’’میرؔ ہم سے اتنے قریب ہوجاتے ہیں کہ ان کا خون ہماری رگوں میں گردش کرتا محسوس ہوتا ہے۔‘‘ شاہ مقبول احمد میرؔ کی شاعری سے بحث کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔ اقتباس دیکھئے:
’’ممکن ہے کہ ایسے غیر متعین اور غیر واضح حالات و تفصیلات ہم کو ابدیت اور آفاقیت کے ہم معنی معلوم ہوتے ہوں مگر ایک ادبی کارنامہ ابدی اور آفاقی ہونے کے باوجود اپنے اظہار کے لیے ایسے وسائل کا متقاضی ہے، جن کی تشکیل میں مکاں و زماں کی قیود نے خد و خال کا کام کیا ہو، اس لیے اگر ایک ادیب کی چشم وا ہے، اس کا ذہن بیدار ہے اور اس کا شعور پختہ ہے تو اس کا نتیجۂ فکر روح عصر کے حق میں جسد کا کام کرے گا۔ افکار کے ایسے مظاہر جن پر مظاہر عصری، ہنگامی، اور مقامی اثرات کی چھاپ ہوتی ہے، ان میں بھی چشم بصیرت ایک ابدی اور آفاقی حقیقت کی جھلک دیکھ لیتی ہے کیوں کہ انسانیت عظمیٰ اور اس کا طول و عرض ایک ایسی وسعت اور پہنائی کا نام ہے جس کی ہمہ گیر سرحدیں ازل سے شروع ہوئیں ہیں ابد پر اختتام پذیر ہوں گی۔‘‘
کلامِ میرؔ کی تاثیر میں ان کے اسلوب اور طرز بیان کو بھی بڑا دخل ہے۔ وہ عالمانہ آرائش و زیبائش سے کام نہیں لیتے بلکہ سادہ اور بے تکلف انداز میں دلّی کی بولیوں اور محاوروں کی اظہارِ جذبات کا وسیلہ بناتے ہیں۔ الفاظ بظاہر ملائم، دھیمے، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں غضب کا درد چھپا رہتا ہے۔ الفاظ کی سلاست اور تراکیب کی سادگی لوگوں کو اکثر دھوکہ دیتی ہے۔ وہ ان سے بے خبر گذر جاتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ شاعر نے ان سادہ الفاظ اور معمولی تراکیب میں کیا کیا کمالات بھر رکھے ہیں۔ جس، تس اور ٹک جیسے عالم الفاظ سے میرؔ نے وہ تاثیر پیدا کی ہے جس کی مثالیںاردو شاعری میں کم ملتی ہے۔ اس طرز بیان کے اشعار دیکھئے:
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہم سایہ کاہے کو سوتا رہے گا
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے
اپنی پگڑی سنبھالیے گا میرؔ
اور بستی نہیں یہ دلّی ہے
میرؔ نے اردو شاعری کا بالخصوص اردو غزل پر اپنی انفرادیت کا گہر نقش چھوڑا ہے۔ ان کی شاعری کا اہم وصف قلبی واردات کا اظہار ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں متفقہ طور پر خدائے سخن تسلیم کیا گیا ہے اور تمام مستند شاعروں نے کی ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ غالبؔ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
خود میرؔ کو اپنی عظمت کا شدید احساس تھا جس کا اظہار انہوںنے بار بار کیا ہے:
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
میرؔ نے اپنی شاعری میں عشق کی کیفیت کی عکاسی موثر انداز سے کی ہے ان کا معیارِ عشق بڑی حد تک بلند ہے۔ میرؔ کو کائنات کے ہر ذرے میں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے اسی لیے ان کو اس دنیا کا ہر انسان عزیز ہے۔ انہوں نے عشق کے ساتھ ساتھ عقل و شعور کو اہمیت دی ہے۔ میرؔ اپنی نامرادیوں کو تقاضائے عشق قرار دیتے ہیں اور وقت اور حالات جیسے بھی ہوں اپنے اندر ہمت و حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرؔ کی شاعری میں عشق مجازی کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی کے جلوے بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ میرؔ کے یہاں زندگی گذارنے کا جو حوصلہ ہمیں نظر آتا ہے وہ واقعی حیران کن حالات میں بھی وہ حوصلہ بخشتے ہیں۔ شعر ملاحظہ ہوں:
میرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میںناکامیوں سے کام لیا
جمیل جالبی میرؔ کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طراز ہیں۔ اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’میرؔ نے اپنی تخلیقی قوتوں سے زندگی کا رس نچوڑ کر اسے شاعری کے کوزے میں بند کردیا ہے۔ جب تک زندگی باقی ہے میرؔ کی شاعری بھی باقی رہے گی۔ آنے والے زمانوں میں شاعری اپنا چولا بدلے گی جیسا کہ میرؔ کے زمانے سے اب تک بدلتی رہی ہے لیکن میرؔ کی مشعل اسی طرح روزشن رہے گی جیسی اب تک روشن رہی ہے۔‘‘
کلی طور پر میرؔ کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ میرؔ کی شاعری ہمیں پریشانی حالات میں بھی ہم کو کچھ کرگزر نے کی ایک قسم کی طاقت عطا کرتی ہے۔ ان کی شاعری ہمیں اندھیرے میں روشنی دکھانے کا کام انجام دیتی ہے۔ گویا ہم ان ہی روشنیوں کے سہارے اپنی زندگی کے دن پوری طرح جینے کے قائل ہوجاتے ہیں۔
حواشی:
۱۔ مطالعہ میرؔ کی قدر و قیمت: پروفیسر سید فضل امام، نیا دور میر تقی میر نمبر: مئی-جون ۲۰۱۰ء، صفحہ نمبر ۳۵، محکمہ اطلاعات و رابطہ عامہ اتر پردیش
۲۔ اپنی بات: وضاحت حسن رضوی- نیادور میر تقی میر نمبر، مئی – جون ۲۰۱۰ء
۳۔ خواجہ احمد فاروقی- رہنمائے ادب حصہ اول، ڈاکٹر فخرالاسلام اعظمی، صفحہ: ۸۳، سن اشاعت ۲۰۰۲ء ناشر فخرالاسلام ، ناولٹی پرنڑس، ہراکی، چنگی، اعظم گڑھ
۴۔ میر تقی میر کی شاعری کے بعض پہلو: پروفیسر شاہ مقبول احمد- چند ادبی مسائل، صفحہ: ۱۶۵، سن اشاعت ۱۹۶۴ء، مکتبہ صنم، سبزی باغ، پٹنہ
۵۔ میر تقی میرؔ: ڈاکٹر جمیل جالبی- صفحہ: ۱۲۵، سن اشاعت ۱۹۸۳ء، ناشر مجتبیٰ خان ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!