ہائیکو (جاپانی صنفِ سُخن)
ڈاکٹر محمد اکرم خاور
Email: akramkhawer@yahoo.com
Cell# +923343633154
خلاصہ
اس آرٹیکل میں ہائیکو جو ایک جاپانی صنفِ سُخن ہے اس پر بحث کی گئی ہے اور اس کی تاریخی اور صوتی ہیت بیان کرتے ہوئے اس کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے جو کہ نئے لکھنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو گی۔
key words: Haiko nazm,subcontinent-1874 to 2000 in
Pakistan, haiko was started in 1963 suspension and revival of Haiko. اُردونک ڈکشنری اور انسائکلو پیڈیا میں ہائیکو کی تعریف یوں کی گئی ہے:
’’جاپانی طرز سخن سے مشابہ ، چھوٹی بحرکی مختصر نظم جو صرف تین مصرعوں پرمشتمل ہوتی ہے۔ اس میں ایک خیال مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اس میں ردیف قافیے کی قید نہیں ہوتی۔ جدید اْردو ادب میں جمیل الدین عالی، ادا جعفری اور ذکیہ غزل نے “ہائیکو” اور ہوں” کے بہترین نمونے پیش کیے ہیں۔ ہائیکو جاپانی شاعری کی ایک صنف ہے اپنی مقبولیت کی وجہ سے دنیا کی اور زبانوں میں بھی مروج ہے۔ عام طور پر یہ 3 سطروں پر مشتمل ہے۔ ایک ہائیکو میں 17 الفاظ (syllable) استعمال ہوتے ہیں پہلی میں 5 دوسری میں 7 اور تیسری میں بھی 5۔ ہائیکو میں فطری مظاہر کی زبان میں بات کی جاتی ہے‘‘۔(1)
پروفیسررحمت یوسف زئی اپنے آرٹیکل ’’ہائیکو اور اردو شاعری‘‘ مزید وضاحت کرتے ہیں ان کے خیال میں:
’’جب وقت بدلتا ہے تو اس کے ساتھ ہر شئے بدلتی ہے۔ انسانی فکر کے زاویئے بدلتے ہیں ، خیالات اور رجحانات بدلتے ہیں فیشن بدلتا ہے۔۔۔۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اردو شاعری کو ایک نیا موڑ دیا۔ چونکہ موضوعات بدل رہے تھے اس لئے اسلوب میں تبدیلی آنا ایک لازمی امر تھا۔ لہجہ میں ایک آہنگ کا پیدا ہونا ضروری تھا۔۔۔ چنانچہ دوسرے ممالک کی زبانوں میں مروجہ اصناف کو اردو میں برتنے کی تجربے کئے گئے ’’ہائیکو‘‘ اسی طرح کا ایک تجربہ ہے۔ ’’ہائیکو ‘‘ اصل میں جاپانی صنف سخن ہے وہاں ابتدائی دور ہی سے مختصر نظمیں قبول رہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہندوستان میں دوہے یا ایران میں رباعی اور غزل کے اشعار یا قدیم عربی ادب میں قصائد کے دور عروج سے قبل ارجوزۃ یا اراجیز قبول عام کی سند رکھتے تھے‘‘۔(2)
اگر ہم جاپان کی ابتدائی شاعری کی بات کریں تو جاپان کی ابتدائی شاعری میں ’’رینگا ‘‘ یا ’’تنکا‘‘ ایک مشہور و مقبول صنف سخن تھی۔ جس کے آثار آٹھویں صدی سے نظر آئے ہیں۔ یہ صنف آج بھی مقبول ہے لیکن قدیم دور میں یہ جاپانی شاعری کا طرہ امتیاز تھی اس نظم میں13 صوتی اجزا ہوتے تھے اور 5-7-5-7-7 کی ترتیب میں پانچ مصرعے کہے جاتے تھے یعنی پہلے مصرعے میں پانچ اجزاء، دوسرے میں سات، تیسرے میں پانچ اور آخری دو مصرعوں میں سات سات صوتی اجزاء ہوئے تھے سترھویں صدی کی شاعری میں مزید اختصار سے کام لیا گیا۔ صرف تین مصرعوں میں سب کچھ کہہ دینے کے جذبے نے ’’ہائی کائی ‘‘ یا ’’ہائیکو‘‘ کو جنم دیا۔ جس میں صرف سترہ صوتی اجزا 5-7-5کے تناسب سے استعمال ہوتے تھے۔ مشہور جاپانی شاعر باشو (1644-1649) نے اس صنف کو اپنی شاعری میں پہلی مرتبہ اختیار کیا اور یوں ’’ہائی کو‘‘ وجود میں آئے۔ ’’ہائیکو ‘‘ اصل میں ’’ہوکو ‘‘(Hukku) کی بدلی ہوئی شکل ہے جس کا مطلب جاپانی نظم کا ابتدائی حصہ ہے چنانچہ جاپانی شاعری کی دوسری اصناف جیسے رینگا(Renga)یا تنکا (Tanka)کے ابتدائی تین مصرعے ہوکو کہلاتے تھے اور ان میں بھی وہی پانچ صوتی اجزا کی ترتیب موجود ہوتی تھی، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے پاس غزل کے پہلے دو مصرعے جو ہم قافیہ وہم ردیف ہوں مطلع کہلاتے ہیں۔ جاپانی شاعری میں جب ’’ہوکو‘‘ یا نظم کے مطلع کو علیٰحدہ نظم کی شکل دی گئی تو اسے ’’ہائی کائی‘‘ اور پھر ’’ہائیکو‘‘ کہا جانے لگا۔ ذیل میں باشو کا ایک جاپانی ہائیکو اس لئے پیش کیا جا رہا ہے کہ اس کے صوتی اجزاء کو سمجھا جا سکے۔
Kawazu tobe
Komu Furu lkeya
mizu mu oto
اس کا ترجمہ انگریزی میں ہیرالڈجی اینڈرسن نے یوں کیا ہے۔
Old pond
Frog jump – in
Water sound
اردو میں اس کا ترجمہ شاید اس طرح سے ہو
ایک بوڑھا جوہڑ
جس میں مینڈک کو دے اور
پانی جوں کا توں
جاپانی زبان کے مصرعوں کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے مصرعے کے پانچ صوتی اجزاء ہیں دوسرے مصرعے کے سات اور تیسرے کے پانچ صوتی اجزاء ہیں اور اس طرح پوری نظم میں سترہ صوتی اجزاء ہیں اردو ترجمہ کرتے ہوئے یہی بات پیش نظر رکھی گئی ہے ۔ چنانچہ یہ ترجمہ بھی سترہ سبب حفیف پر مبنی ہے۔ اصل میں دوہے ہوں یا رباعی، غزل کا شعر ہو یا ہائیکو۔ ان سب میں ایک بات مشترک ہے۔ اور وہ ہے دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن۔۔۔ جس طرح غزل کے دو مصرعوں میں شاعر تخیل کی ایک کائنات سمودیتا ہے۔ اسی طرح ہائیکو میں بھی صرف سترہ صوتی اجزاء پر مشتمل تین مصرعوں میں سب کچھ کہہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اردو ہائیکو کہنے کا رواج اس وقت شروع ہوا جب1963ء میں شاہد احمد دہلوی نے رسالہ ساقی کا ’’جاپان نمبر ‘‘ شائع کیا۔ اس رسالے میں فضل حق اور تمنائی نے جاپانی ہائیکو کے اردو تراجم پیش کئے۔ فضل حق کا ترجمہ نثر میں تھا جبکہ تمنائی نے تین مصرعوں میں ترجمہ کیا جس کا حوالہ ڈاکٹر عنوان چشتی کی کتاب ’’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ تمنائی کا ترجمہ یہ ہے۔
یہ دنیا شبنم کے قطرے جیسی ہے
بالکل شبنم کے قطرے جیسی
پھر بھی کوئی حرج نہیں
لیکن تمنائی نے جہاں آہنگ کو پیش نظر رکھا وہیں سترہ صوتی اجزاء کی پابندی کو نظر انداز کر دیا۔ یہاں یہ بحث مقصود نہیں کہ اردو کا پہلا ہائیکو کس نے لکھا۔۔۔۔۔۔؟ یہاں تو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ اگرکسی خاص طرز کی پابندی کی جائے یا کسی خاص ہیئت میں نظم لکھنے کی کوشش کی جائے تو فنی لوازمات کو بھی نظر رکھنا چاہیے۔ یہ بات اس لئے کہی گئی کہ اردو میں ہائیکو کے نام سے جو نظمیں ملتی ہیں ان میں تقریباً سبھی نظمیں ایسی ہیں جنہیں ہائیکو کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے کیونکہ ان میں سترہ صوتی اجزاء کی پابندی اور پانچ سات پانچ کی ترتیب کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور یہاں ان اصولوں کی پابندی نظر آتی ہے وہاں اردو کے مزاج کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔
ہمسائیہ ملک ہندوستان میں علیم صبا نویدی اور پاکستان میں محمد امین نے ہائیکو کے مجموعے شائع کئے۔ پاکستان میں ’’جاپانی ثقافتی مرکز‘‘ کے زیر اہتمام ’’ہائیکو مشاعرے ‘‘ بھی منعقد ہوئے جن میں جاپانی ہائیکو کے تراجم کے علاوہ شعراء نے طبع زاد ہائیکو بھی سنائے۔ اور ان مشاعروں کے چند گلدستے بھی شائع ہوئے۔
علیم صبا نویدی کے علاوہ قاضی سلیم سے لے کر شارق جمال اور قطب سرشار تک ہائیکو کہنے والوں کا ایک طویل قافلہ نظر آتا ہے لیکن ان تمام میں وہی ایک بات کھٹکتی ہے۔ کہاں ترجمہ پیش کیا گیا وہاں تو خیر ایک جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن جہاں شاعر کی اپنی کاوش ہے وہاں یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس صنف کو اپنانے میں کسی اصول کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ سوائے اس کے کہ تین مصرعے ہوں اور بس! انہیں یا تو سہ سطری نظمیں کہا جا سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ مثلث یا ثلاثی۔۔۔۔
قاضی سلیم بہت اچھے شاعر ہیں اور فنی اعتبارات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ رسالہ تحریک جولائی 1966ء میں ان کی چند مختصر نظمیں شائع ہوئی تھیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ نظمیں ہائیکو کے فارم کی سختی سے پابندی کرتی ہیں بقول ان کے انہوں نے سترہ مسلسل کی پابندی کی ہے اور یہ سترہ صوتی اجزاء ہندی کے لکھے اور گرد ماتراؤں کے اتصال پر مبنی ہیں۔ ان کی ایک نظم پیش ہے۔
عکس جو ڈوب گیا
آئینوں میں نہیں
آنکھوں میں اتر کر دیکھو
اس نظم میں ہندی چھند کے اعتبار سے پہلے مصرعے میں پانچ دوسرے مصرعے میں پانچ اور تیسرے میں سات جڑواں ماترائیں آئی ہیں ۔۔۔۔ اگر عروضی اعتبارسے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پہلے مصرعہ میں تین سبب خفیف ایک سبب ثقیل اور ایک وتد مجموع ہے۔ دوسرے مصرعے میں چار سبب خفیف، اور ایک وتد مجموع آیا ہے۔ تیسرے میں چھ سبب خفیف اور ایک وتد مجموع ہے کیا ہم اسے ہائیکو کہہ سکتے ہیں۔ علیم صبا نوید ی نے ’’ترسیلے ‘‘ کے عنوان سے ہائیکو کا جو مجموعہ شائع کیا اس میں بقول کرامت علی کرامت دو طرح کے ہائیکو ہیں۔
ایک پابند ہائیکو اور دوسرے نثری ہائیکو:
جس نظم کوکرامت علی کرامت نے پابند ہائیکو قرار دیا اس کا ہر مصرع فاعلاتن مفاعلن فعلن کے وزن پر ہے۔ اور پہلے اور تیسرے مصرعے میں قافیہ کی پابندی کی گئی ہے۔ یہ نظم پیش کی جا رہی ہے۔
معتبر منزلوں کا راہی وہ
ہیں سمندر پناہ میں اس کی
ہے صدف آشنا سپاہی وہ
اب حمایت علی شاعر کا ایک ’’ثلاثی ‘‘دیکھئے جس کا عنوان ’’زاویہ نگاہ‘‘ ہے۔
یہ ایک پتھر ہے جو راستے میں پڑا ہوا ہے
اسے محبت تراش لے تو یہی صنم ہے
اسے عقیدت نواز دے تو یہی خدا ہے
اس ثلاثی میں اور علیم صبا نویدی کی نظم میں ہیئت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ بحر البتہ مختلف ہے۔ دونوں میں پہلا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ وہم ردیف ہے اور ہر نظم کے تینوں مصرعے ایک ہی وزن کے ہیں۔ تو پھر علیم صبا نویدی کی نظم کو ثلاثی کیوں نہ کہا جائے۔ ایک ہی ہیئت کے آخر دو نام کیوں ….؟ البتہ اسی کتاب یعنی ترسیلے کے مقدمے میں کرامت علی کرامت نے اپنا بھی ایک ہائیکو پیش کیا ہے جو کہ میرے خیال میں ہائیکو کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔ مثال کے طور پر
لمحوں کی تتلی
میرے من کے آنگن میں
جانے کیو ں آئی
اس نظم میں سترہ سبب خفیف 5 7 5کی ترتیب میں استعمال کئے گئے ہیں کرامت علی کرامت نے ’’ترسیلے ‘‘ کے مقدمے میں ایک بڑی خوبصورت بات کہی ہے، جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ کسی زبان کی مخصوص صنف کو دوسری زبان میں برتتے وقت اس کے فارم میں کچھ تبدیلیاں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔
اس بات میں کچھ اضافہ ہو سکتا ہے کہ تبدیلیاں ایسی ہوں جن کے باوجود اس صنف کی انفرادیت باقی رہے اور دوسری اصناف کے ساتھ خلط ملط ہونے کا خدشہ نہ رہے۔ اور ساتھ ہی فنی لوازمات اور زبان کے مزاج کا بھی خیال رکھا جائے ۔۔۔۔۔یعنی ہیئت یا موضوع کے لحاظ سے کوئی بات تو ایسی ہو جس سے صنف کا تعین ہو سکے۔ اگر ہم کسی نظم کو ہائیکو کہیں تو اس کے کچھ اصول ہوں۔ ثلاثی کہیں تو اس کے کچھ ضوابط بنیں اور سہ سطری ہیں تو اس کا تعین بھی کسی قاعدے کی بنیاد پر ہو۔ ورنہ ان تین ناموں کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔.؟ قرعہ ڈال کر کسی ایک نام کا انتخاب کر لیا جائے یہ کیا بات ہوئی کہ جس کے جو جی میں آئے وہی نام استعمال کرے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، جاپانی ہائیکو کی پابندی خصوصیات میں سب سے اہم اختصار ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ صرف سترہ صوتی اجزاء سے پانچ، سات، پانچ کی ترتیب میں تین مصرعے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ اب اردو شاعری جاپانی یا انگریزی شاعری سے مختلف ہے۔ وہاں سلیبل یا صوتی اجزاء کے ذریعے Scanningکی جاتی ہے اور یہاں سبب اور وتد کے ذریعے ارکان بنا کر تقطیع ہوتی ہے۔۔۔۔ تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ سبب یا وتد کو ہائیکو کے لئے بھی بنیاد بنایا جائے ۔
ذاتی طور پر میرا بھی خیال میں اردو ہائیکو کے لئے بھی یہی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔۔۔۔ یعنی سب سے پہلے تو یہ کہ تین مصرعے ہوں اور دوسری بات یہ کہ5 7 5 کی ترتیب کا خیال رکھا جائے۔ یعنی پہلے مصرعے میں پانچ ہم وزن ٹکڑے دوسرے میں سات اور تیسرے میں پانچ ٹکڑے استعمال کئے جائیں۔ یہ ہم وزن ٹکڑے سبب خفیف یا وتد مجموع کے ہو سکتے ہیں۔ البتہ قافیہ اور ردیف کی قید کو ضروری نہ رکھا جائے۔۔۔۔ کیوں کہ جاپانی میں بھی یہ قید نہیں ہے۔ ویسے اگر مزید حسن پیدا کرنے کے لئے پہلے اور تیسرے مصرعے ہم قافیہ ہوں تو اور بھی بہتر ہو گا۔
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فع
اور سترہ وتد مجموع کے لئے یہ شکل بنے گی۔
مفاعلن مفاعلن فعل
مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعل
مفاعلن مفاعلن فعل
یہاں ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی تھی کہ کیوں نہ کسی سالم یا محذوف رکن کو سترہ بار استعمال کیا جائے۔ میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہائیکو نظم کی سب سے اہم خصوصیت اختصار ہے۔ سالم یا محذوف رکن استعمال کرنے سے جو طوالت پیدا ہو گی وہ ہائیکو کی روح یعنی اختصار کو مجروح کر دے گی۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سبب ثقیل وتد مفروق اور فاصلہ صغریٰ و کبریٰ کو بھی استعمال ہونا چاہیے۔ لیکن شاید اردو کا مزاج اس کا متحمل نہ ہو سکے۔ بہرحال اگر سترہ سبب خفیف یا ستروتد مجموع کی بحور کو اپنا کر اردو میں ہائیکو کہے جائیں تو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ صنف نہ صرف مقبول ہو گی بلکہ اس کی اپنی ایک ہیئت بھی ہو گی۔ اور اس کے اصول بھی ہوں گے۔ نمونے کے طور پر پروفیسررحمت یوسف زئی کے کچھ ہائیکو درج ہیں۔
آنسو دیتا ہے
لمحہ تیری یادوں کا
چٹکی لیتا ہے
میری باتوں سے
سہماسہما ہے سورج
کتنی راتوں سے
اک اک پل جوڑے
زندہ رہنے کی خواہش
پیچھا کب چھوڑے
تنہائی میری
دھندلا دیتی ہے اکثر
بینائی میری (3)
ڈاکٹر رفعت اختر اپنی کتاب’’ ہائیکو تنقیدی جائزہ‘‘میں لکھتے ہیں کہ :
’’اگر ہم جاپانی ادب کا جائزہ لیں تو یہ چینی ادب کی نقل ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جاپان کے کلچر اور تمدن کو فروغ دینے میں چین کا زبدست ہاتھ رہا ہے۔یہاں تک کہ ادب ،مذہب ثقافت،فلسفہ اور زبان وغیرہ میں بھی چین کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں، جب ہم زبان کی بات کرتے ہیں تو جاپانی زبان کے ماہرین کا خیال ہے کہ جاپانی زبان کوریائی زبان اور منگول اور ترکی زبانوں کے اثر سے وجود میں آئی جو تصویری زبان میں لکھی جاتی تھی‘‘(4)
بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک جاپانی نثر ،نظم اور فکشن وغیرہ میں علامت نگاری، پیکر نگاری،ربلزم،کمیونزم، ماوزنزم جیسے عالمی ادبی رجحانات و میلانات جاپانی ادب کا سرمایہ بن گئے تھے۔
ڈاکٹر رفعت کے خیال میں :
جاپانی ادب کی مخصوص صنف ہائیکو دنیا میں مشہور ہوئی کھٹاوٹا،سیڈوکا، سبوسیکا،چوکاتنکا،رینگا جیسی شعری صنف آج بھی جاپانی شاعری کا گراں قدر سرمایہ ہیں ۔ہائیکو کے اختصار کے پیشِ نظر ڈونلڈکین نے لکھا ہے کہ مختصر نظمیں جاپانی ادب کا ایسا سرمایہ ہیںجو اس برق رفتار دنیا میں چند لمحوں کے لیے سکون و اطمینان بخشتی ہیں۔‘‘(5)
جب ہم جدید اردو نظم کی بات کرتے ہیں تو یہ1847ء کا سال بنتا ہے یعنی پاکستان کے بننے سے ایک سو سال پہلے جو کہ جاپان میں جدید نظم کا سال تسلیم کیا جاتا ہے جبکہ مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد نے بھی 1874ء میں ہندوستان میں جدید شاعری اور جدید نظم کو فروغ دیااس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اس وقت بھی بین الاقوامی ادب پر نظر رکھی جا رہی تھی۔جدید جاپانی نظم اہم شاعر’’ اشی کا در ناگو بوگو‘‘1885-1912ء سمجھا جاتا ہے۔ص 22’ہائیکو تنقیدی جائزہ‘‘ اور جب ہم ہائیکو کی بات کرتے ہیں تو اس کی ابتدا سولہویں صدی میں ہوتی ہے مگر سترہویں صدی اور پھر انیسویں صدی میں عروج حاصل ہوا، اوزان اور بحر کی بات بھی ہم کر چکے ہیں ہاں البتہ موضوعات کے اعتبار سے فطرت، موسم اور نیا سال وغیرہ جبکہ تیکنیک بہت اہم اور مخصوص ہوتی ہے یہ خالص غنائی اور جمالیاتی شاعری ہوتی ہے اور ہر قسم کی مقصدیت سے خالی ہوتی ہے۔
جاپانی ہائیکو کے قدیم اساتذہ باشو، بسون،کیسکاکو،اسا، کیتو، موکودو،اونیتورا، اوئے مارو، ساینو، سیہو،
چی یو کی وغیرہ نے جاپانی ہائیکو کو 27سلیبل کے فن میں استعمال کیا ہے چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
ایشی نو آکا
مونو اوکی میزونو
ہی زا شی کاتا
(بونوؔ سو)
فورد الی کی یا
کا واز ٹو بی کومو
میزا فوا وٹو
(باشو)
باشو کی اس نظم کا ترجمہ ہیرالڈ جی اینڈرسن نے اس طرح کیا ہے
اولڈ پونڈ ایک بوڑھا جوہڑ
فراگ جمپ ان جس میں مینڈک کودے اور
واٹر ساونڈ پانی جوں کا توں
جاپانی زبان میں لکھی گئی ہائیکوز کے اردو اور دیگر زبانوں میں بھی تراجم کیے گئے ہیں۔جیسا کہ جاپانی سے انگریزی میں ۔۔۔۔۔بوسون ((Buson 1716-83
The sea in sporing time
all the warm day in breathing swells
in breathing swells
The moon passes
in splender through its centeral heavens
and through wrethed streets
انگریزی کے علاوہ یونانی،روسی،چینی، جنوبی ہندوستان کی زبانوں ،جرمن،اور ہندی زبانوں میں بھی لکھی گئیں ہیں۔تنقیدی نکتہ نظر سیدیکھا جائے تو ہائیکو خالصتاًمشرقی صنف شاعری ہے،اردو میں ہائیکو کا آغاز 1936ء میں ہو گیا تھا جبکہناوک حمزہ پوری،ڈاکٹر رحمت یوسفزئی،انور مینائی اور سلیم انصاری وغیرہ نے ہائیکو کی تفہیم نے نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ پروفیسر عنوان چشتی،پروفیسر کلیم الدین احمد،پروفیسر گیان چند جین، پروفیسر انصار اللہ نظرؔ،پروفیسر کرامت علی کرامت، شارق جمال، طیب انصاری،ڈاکٹر اختر بستوی،سلیم شہزاد، ڈاکٹر سید حامد حسین، ڈاکٹر ناز قادری،بلراج کومل،سید اختر الاسلام،محمد امین،علیم صبا نویدی،ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، کرشن موہن، مظفر حنفی، پروفیسر ستیہ بھوشن شرما، قمر جمیل اورپروفیسر وزیر آغا جیسے قد آور ناقدین اور محققین نے ہائیکو کے حق میںگراں قدر آرا تحریر کیں۔جس سے ہائیکو تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی ہونے کے ساتھ ساتھ ہائیکو کے
معیار اور وقار میں اضافہ ہوا۔
اردو ہائیکو نگاری کا ایک مختصر سا جائزہ سہیل احمد صدیقی نے کچھ یوں بیان کیا ہے
اردو دنیا کی سب سے منفرد زبان ہے جس میں ہر چھوٹی بڑی زبان کے ذخیرہ الفاظ اور ادب کوبحسن و خوبی اپنانے اور سمونے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ان کی تحقیق کے مطابق کم و بیش پینتیس (35) زبانوں کے الفاظ کسی نہ کسی طرح اس عظیم زبان کے ذخیرے میں شامل ہیں۔ مغربی ادب سے متاثر ہونے والے اکثر خواندہ اور بعض بزعم خویش عالمِ شعرو سخن یہ سمجھتے ہیں کہ طبع زاد ادب کی تخلیق ہو یا تراجم ۔۔۔۔ اردو ہر دو لحاظ سے کمزور زبان ہی۔اسی طرح بہت سے پڑھے لکھے اس غلط فہمی میں نہ صرف مبتلا ہیں بلکہ اس کا ببانگ دہل پرچار بھی کرتے ہیں کہ اس زبان میں جامعیت کا عنصر مفقود ہی‘ مختصر و جامع جملے محض انگریزی زبان میں ادا کئے جا سکتے ہیں۔۔۔۔یہ دونوں باتیں عملاً غلط ثابت ہوچکی ہیں اور اگر کوئی ایسا سمجھتا اور کہتا ہے تو اپنی کم علمی ‘ نا فہمی اور بے جا تعصب کا اظہار کرتا ہی۔
ہماری عظیم زبان کے متنوع ادب میں شامل بہت کم عرصے میں ،بہت تیزی سے مقبول ہونے والی صنف سخن ہائیکو ہی۔یہ محض اردو کا معاملہ نہیں‘ اس وقت دنیا کی تمام قابل ذکر ‘ بڑی (یا کم از کم اپنے خطے کی حد تک)نمایاں زبانوں میں سب سے زیادہ طبع آزمائی اسی صنف سخن پر ہورہی ہی۔
ہائیکو کے متعلق مبسوط تحقیقی مقالہ لکھنا اور تمام مباحث کو ان صفحات پر بالتفصیل پیش کرنا آسان نہیں ہے ۔
جاپانی شاعری دنیا کے قدیم ترین محفوظ سرمایہ ادب میں شامل ہی۔سنسکرت ‘ لاطینی ‘ یونانی ‘ عبرانی اور کسی حد تک عربی زبانوں میں محفوظ لوک (عوامی) ادب انسان کی شعر وادب سے ازلی وابستگی کا مظہر ہی۔ آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں مَن یّوشو [Manyusho]کے نام سے ساڑھے چار ہزار جاپانی منظومات کا مجموعہ مرتب و شائع کیا گیا۔ 9.5ء یعنی دسویں صدی کے آغاز میں ایک ہزار ایک سو گیارہ منظومات کا مجموعہ کوکن شو اور پھر 9.51ء میں تیسرا مجموعہ گوسین شو کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔
جاپان کی قدیم ترین اصناف سخن میں چوکا ‘ واکا یا تنکا اور رینگا(نظم مسلسل) شامل ہیں۔ نظم مسلسل کے مختلف تجربات صدیوں جاری رہنے کے بعد اس میں سے ایک حصہ ہائیکئی [Haikai]کے نام سے جدا کیا گیا‘ بعد ازآں اسے ہوکو [Hokku]کہا گیا اور پھر یہ شعری صنف ہائیکو [Haiku]کے نام سے موسوم ہوئی یہ معاملہ کسی حد تک اردو کی سب سے توانا صنف سخن غزل کا ہے جو کبھی عربی قصیدے میں تشبیب کے نام سے شامل ایک حصہ تھی‘ پھر عربی سے ترکی اور بعد ازآں فارسی میں یہی تشبیب غزل بن کر گویا ادب کی دلھن قرار پائی۔فارسی سے ہم نے اردو میں اس منفرد صنف کا پودا لگایا تو ترقی کرتے کرتے یہ شجر سایہ دار اپنی ماں سے آگے نکل گی ۔۔۔آج لفظ غزل ادا کرتے ہی اردو غزل کی ہر عمدہ مثال سامنے آتی ہی۔
جدید ہائیکو کا بانی عظیم جاپانی شاعر مَت سّو باشو [ Basho Matsuo ](1644ء تا1694 ء) تھا۔گویا بطور جدا گانہ صنف ہائیکو کا آغاز سترہویں صدی میں ہوا۔باشو ایک سیلانی شاعر تھا۔ آج اس کا شمار دنیا کے عظیم ترین شعراء میں کیا جاتاہے اور اس کے طے کردہ جادہ سیاحت پر چل کر جاپان کی سیر کرنا جاپانی اور یورپی اہل سخن کے نزدیک عظیم سعادت ہے۔ہائیکو کے چار بڑے اساتذہ میں باشو ‘ بوسون [Buson]‘ اِسّا [Issa] اور شیکی [Shiki]شامل ہیں۔۔۔۔جدید دور میں ہائیکو ترقی کے مختلف مدارج طے کرچکی ہے ‘ تکنیک ،ہئیت اور موضوعات کے تنوع کے باوصف، ان عظیم سخنوروں کی تعلیمات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
بدھ مت کی شاخ زین کا فلسفہ ساتوری یعنی آگہی، ہائیکو کا بنیادی فلسفہ ہے۔ اس فلسفے کے تحت مناظر فطرت ، مظاہر قدرت کے مشاہدے نیز مراقبے کے ذریعے اس ذات اقدس تک رسائی حاصل کی جاتی ہے جو کائنات میں اول و قدیم ہے، لیکن اگر غور کریں تو معاملہ ذرا گنجلک ہوجاتا ہے کیوں کہ بدھ مت کی اصل، بنیادی تعلیمات میں خدا کاواضح تصور موجود نہیں!
آج ہائیکو دنیا کے ہر موضوع سے متعلق نظر آتی ہے،مگر مناظر و مظاہر کے گاہے گاہے باقاعدہ انفرادی واجتماعی گروہ در گروہ مطالعے ‘ مشاہدے اور مراقبے کا اہتمام مختلف تہواروں پر کیا جاتا ہے۔ گویا اس صنف کی بنیاد آج بھی ترو تازہ ہے۔
ہائیکو کی تکنیکی بنیاد یک صوتی حروف [ Mono syllabic chararacters ] پر ہے جو غیر مقفیٰ non.rhymed] ہوتے ہیں اور نظم کرتے وقت ان کی ترتیب یہ ہوتی ہی: پانچ۔سات۔پانچ=5-7-5
موسیقی کی بنیاد پر اسے یوں سمجھا جاسکتا ہی:سارے گاماپا=5دھا نی سارے گاماپا=7سارے گاماپا=5یعنی جب آپ اپنی زبان میں ہائیکو نظم کریں تو اس کی شکل یو ں ہوگی کہ پہلے مصرع میں الفاظ ،وزن کے لحاظ سے پانچ صوتی ہوں گی، دوسرے میں سات اور تیسرے میں پھر پانچ۔جاپانی ہائیکو میں موسم کی اہمیت بہت زیادہ ہی۔ اس نظم میں کی دائی [KIDAI]یعنی موضوع ِ موسم [Season theme] اور کی گو [KIGO]یعنی حرفِ موسم یا حرف فصلSeason word]، ضروری عنصر ہوتے ہیں۔ جدید ہائیکو میں ان لازمی عناصر سے انحراف عام ہے مگر پابندی کا رواج ختم ہونے کی بجائے بہت مقبول ہے۔
دسمبر1922ء میں معتبر ادبی جریدے ’نگار‘ (لکھنو) نے بیرسٹر سید حسن عابد جعفری کا یادگار مضمون ’’ جاپانی شاعری پر اک نظر‘‘ شائع کیا۔ فاضل مصنف نے اس نگارش کے ذریعے ہائیکو سمیت مختلف اصناف کا تعارف اردو گو طبقے سے کرایا۔یہ اہم مضمون بہت جلد فراموش کرد یا گیا، پھر1936ء کی ابتداء میں ایک اور اہم جریدے ’ساقی‘ (دہلی) کا ’’ جاپان نمبر‘‘ شائع ہوا۔ اس اہم خصوصی شمارے میں عزیز تمنائی ،فضل حق قریشی اور علی ظہیر جیسے ادیبوں نے ہائیکو اور دیگر جاپانی اصناف کے تراجم کی خدمت انجام دی۔ مواد کی فراہمی میں نور الحسن برلاس کا کردار کلیدی تھا۔
1936ء سے1960ء تک اردو میں جاپانی صنف سخن ہائیکو کے (بذریعہ انگریزی) تراجم کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ نمایاں مترجمین میں حمید نظامی، میراجی ، ظفراقبال، کلیم الدین احمد ، عبدالعزیز خالد، قاضی سلیم وغیرہ شامل ہیں۔1960ء کی دہائی میں عبدالعزیز خالد کی کتاب ’’ غبار شبنم‘‘ کے ذریعے ہائیکو کے آزاد ، تکنیکی لحاظ سے محض سادہ سہ مصرعی تراجم سامنے آئے۔1963ء میں نامور اردو شاعر محسن بھوپالی(مرحوم) نے سندھی سے ہائیکو کے منظوم تراجم کرکے ’افکار‘ (کراچی) میں شائع کرائے۔1966ء میں قاضی سلیم کے آزاد ہائیکو کی اشاعت کا ذکر ملتا ہے جو ہئیت کے لحاظ سے ناقص نظمیں تھیں۔1970ء یا 1971ء کی بات ہے جب معروف شاعر آفاق صدیقی اور ا ن کے دوستوں ڈاکٹر تنویر عباسی اور شیخ ایاز نے دریائے سندھ کے کنارے نجی محفل میں پہلی مرتبہ باقاعدہ اردو ہائیکو نظم کی۔
1970ء کی دہائی میںڈاکٹر محمد امین جاپان گئے تو وہاں انہیں ہائیکو سے باقاعدہ تعارف حاصل ہوا۔ ان کی کوشش اور تحریک سے ملتان اور پنجاب کے دیگر حصوں میں اس صنف کا رواج ہوا۔ڈاکٹر محمد امین نے اردو ہائیکو کا پہلا مجموعہ1981ء میں مرتب کرکے شائع کیا جو اَب نایاب ہے۔ اس کے بعد اردو مجموعہ ہائے کلام کا سلسلہ چل پڑا اور آج ان کی تعداد کم وبیش پچاس ہے۔ علاقائی زبانوں میں بھی ہائیکو کا چلن اتنا زیادہ ہے کہ ان میں آئے دن مجموعے شائع ہورہے ہیں۔ان کی تعداد کا تعین مشکل ہے، اندازے کے مطابق تقریباً 50 ہوں گی کراچی سمیت پاکستان بھر میں ہندوستان ‘ بنگلہ دیش ‘ امریکا‘ برطانیہ نیز دیگر خطوں میں اردو ہائیکو کی مقبول ترین بحر، بحر متقارب ہے یعنی:
فعلن ، فعلن، فع/فعلن ، فعلن، فعلن ،فع/ فعلن ، فعلن، فع
اس کے برعکس پنجاب مکتب فکر نے اکثر بحر خفیف مسدس(فاعلاتن، مفاعلن، فعلن…) اپنائی ہی، جسے عرف عام میں مساوی الاوزان Equal meter کہا جاتا ہے۔ اب ذرا ان دو بحروں کی مثالیں ملاحظہ کیجئے:
بحر متقارب: پانی کا جھرنا ’’فعلن ، فعلن، فع‘‘=5 صوتی ارکان
ڈھونڈو تو مل جائے گا ’’فعلن ، فعلن، فعلن ،فع‘‘= 7 صوتی ارکان
پیاسے مت مرنا ’’فعلن ، فعلن، فع‘‘=5 صوتی ارکان
شاعر: اقبال حیدر
بحر خفیف مسدس: روشنی کی لکیر چھوڑ گیا
شب کی کالی سلیٹ پر جگنو
یاد آیا مجھے نسیم کوئی
شاعر: نسیم سحر
اردو میں ہائیکو کہنے والوں کی تعداد دو سو(200) سے زائد ہے۔ ان میں بزرگ ترین سخنور تابش دہلوی (مرحوم) اور راغب مرادآبادی شامل ہیں، علاوہ ازیں اس صنف کے سرپرستوں میں پروفیسر محمد رئیس علوی‘ محسن بھوپالی(مرحوم)،اقبال حیدر، وضاحت نسیم اور دستاویزی کام کے لحاظ سے سہیل احمد صدیقی نمایاں ہیں۔ہائیکو کے مقبول اور ممتاز شعراء میں لیاقت علی عاصم، آفتاب مضطر،شاہدہ تبسم،رخسانہ صبا،شاہدہ حسن، شہاب الدین شہاب،یاسر چغتائی، جمال نقوی،فاطمہ حسن اور راشد نور اہم نام ہیں۔بزرگ شعراء میں قمر جمالی امروہوی، رسا چغتائی، حمایت علی شاعر،شبنم رومانی، منظر ایوبی، جاذب قریشی،رئیس باغی،سحرانصاری، سہیل غازی پوری جیسے قابل ذکر سخنور اور جواں سال قافلے میں سہیل احمد صدیقی ، روبینہ تحسین بینا، شہزاد نیاز سمیت بہت سے نام شامل ہیں۔جاپانی سے واقف اردو شعراء میں ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر محمد رئیس علوی، محترمہ وضاحت نسیم، آفتاب مضطر اور سب سے کم عمر شہزاد نیاز کے علاوہ کوئٹہ سے محسن شکیل اور دوسرے شامل ہیں۔
اردو ہائیکو کے مجموعوں میں بعض اپنی انفرادیت منواچکے ہیںجیسے آفتاب مضطر کا ’’ سورج کے اس پار‘‘ جس میں تمام نظموں پر عنوان چسپاں کیا گیا اور منتخب ہائیکو کے جاپانی تراجم پیش کیے گئی، جمال نقوی کا ’’ نغمے سورج دیس کی‘‘ جس میں منتخب نظموں کا جاپانی اور تمام نظموں کا انگریزی میں ترجمہ اور عنوانات کا التزام کیا گیا،نسیم سحر کا ’’ روشن دان میں چڑیا‘‘ جس میں بحر متقارب اور بحر خفیف مسدس دونوں کا بیک وقت پہلی مرتبہ اہتمام کیا گیا۔ اس طرح ہائیکو مجموعوں میں خارج و باطن کے تمام پہلووں کی حسین اور بھرپور ترجمانی کے لحاظ سے فراست رضوی کا ’’ کہر میں ڈوبی شام‘‘قابل ذکر ہی۔ ضمنی نکات میں عرض کرتا ہوں کہ آفتاب مضطر اور جمال نقوی دونوں کے منتخب کلام کا ترجمہ عزت مآب شیگی یوکی اتاکا Shigiuki Atakaسابق مشیر برائے کونسل جنرل جاپان، کراچی نے کیا جن کا اسلامی نام محمد عظمت ہے۔جمال کی تمام ہائیکو کا انگریزی ترجمہ سہیل احمد صدیقی نے کیا ہے۔ اردو شاعرات میں پہلا مجموعہ ’’ پانچ۔سات۔پانچ‘‘ محترمہ ثروت سلطانہ ثروت کی تخلیق ہے۔ ان کا دوسرا ہائیکو مجموعہ بھی منتظر اشاعت ہے، یوں وہ پہلی اردو شاعرہ ہوں گی جن کے دو ہائیکو مجموعہ ہائے کلام شائع ہوئے ۔ محترمہ وضاحت نسیم کے مجموعے ’’ دل چھونے والا منظر‘‘ میں طبع زاد کلام کے ساتھ ساتھ جاپانی سے براہ راست تراجم بھی شامل ہیں‘ جبکہ ان کے فوری بعد اسی سال (2006ء میں) سہیل احمد صدیقی کا مجموعہ ہائیکو ’’ خوش کن ہے پت جھڑ‘‘ منظر عام پر آیا ، جو اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں سہیل احمد صدیقی نے خود اپنے کلام پر تنقید کی ہے۔
اردو ہائیکو کی روز افزوںمقبولیت میں سب سے اہم کردار ان سالانہ ہائیکو مشاعروں کا ہے جو 1983ء میں جاپانی قونصل خانے کے ثقافتی مرکز نے پروفیسر ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی کی تحریک سے شروع کیے اور آج تک کامیابی سے جاری ہیں۔ ان مشاعروں میں طبع زاد کلام کے ساتھ ساتھ جاپانی سے (بذریعہ انگریزی) منظوم تراجم پیش کیے جاتے ہیں۔کچھ سال سے یہ مشاعرہ پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن کے انصرام و اشتراک سے منعقد ہورہا ہے۔
کچھ عرصے بعد (1990ء کی دہائی میں) سفارت خانہ جاپان کی سرپرستی میں اسلام آباد میں اور پھر قونصل خانے کے زیر نگرانی کوئٹہ اور لاہور میں ہائیکو مشاعروں کا انعقاد شروع ہوا۔پاکستان ہائیکو سوسائٹی کے بانی اقبال حیدر نے متواتر24 سال ہائیکو مشاعروں میں کلام پیش فرمایا اور ان کی کوشش سے متعدد مقامی زبانوں میں ہائیکو شاعری کا فروغ ہوا۔آج جب ہم ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں تو وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔
1998ء میں اردو دنیا میں ہائیکو کے فروغ کے لیے پہلا اور واحد کثیر لسانی رسالہ’’ ہائیکو انٹرنیشنل ‘‘ کراچی سے جاری ہوا۔ تا حال اس رسالے کے نو(9) شمارے شائع ہوچکے ہیں، جن میں چار مشاہیر سخن محسن بھوپالی(مرحوم)، اقبال حیدر، وضاحت نسیم اور رئیس علوی پر وقیع خصوصی شمارے بھی شامل ہیں۔ ہائیکو انٹرنیشنل کا ’’ اقبال حیدر نمبر‘‘ پندرہ علاقائی و بین الاقوامی زبانوں میں مواد اور ترتیب وپیش کش کے لحاظ سے اہم ترین کارنامہ ہے، جبکہ ہائیکو انٹرنیشنل مجموعی طور پر پچیس زبانوں میں ہائیکوسے متعلق مواد (طبع زاد ،تراجم ، تنقیدی مضامین، تبصرے،تعارف، انتخاب سمیت) شائع کرکے عالمی ریکارڈ قائم کرچکا ہے۔اقبال حیدر نمبر کے دو ایڈیشن شائع ہوئے اور ان کی تقریب پذیرائی کراچی اور کوئٹہ کے دو ممتاز مقامات پر منعقد ہوئی۔اس جریدے کا بانی مدیر و ناشر بھی سہیل احمد صدیقی تھے۔اس مضمون کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’ یہ عرض کرنا ،ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ ہئیت،مزاج اور موضوعات کے تنوع کے سبب اردو ہائیکو بھرپور اور پرکشش صنف سخن بن چکی ہے۔ حمد و نعت ، منقبت و مناجات، رنگِ تغزل، حب وطن، شہر آشوب، عصر حاضر کی ہمہ جہت عکاسی، مستقبل بینی،غرض کس موضوع اور کس جہت کی کمی ہے۔۔۔۔۔ اردو ہائیکو جمالیاتی لحاظ سے aesthetically جاپانی ہائیکو سے مختلف بھی ہے ، کہیںکہیں مماثل بھی (6)
ڈاکٹر ریاض احمد نے ہائیکو کا تعارف اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں کرایا ہے :۔
’’زندگی کی شاعری، فطرت کی شاعری، حقیقت کی شاعری یا ماحول کی شاعری مجھے نہیںپتا کہ میں اس کو کیا نام دوں۔ مجھے ایسا کوئی لفظ نہیں مل رہا جو ان سب کی نمائندگی کر سکے اور اسے میں ہائیکو کہہ سکوں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ہائیکو تو بس ہائیکو ہی ہے اس کا ترجمہ نہ تو اردو میں ہوا ہے اور نہ ہو سکتاہے جیسا کہ ہم پوئیٹری کا ترجمہ ‘‘نظم‘‘ کر سکتے ہیں۔کیونکہ اس طرح کی شاعری کا وجود اردو میں اس سے پہلے نہیں رہا ہے‘‘۔(7)
مزید کہتے ہیں کہ ہائیکو جاپانی شاعری ہے جو وہاں پہلے دوسرے ناموں سے، محققین کے مطابق 17ویں صدی کے اوائل سے رائج ہے اور بعد میں انیسویں صدی میں اس کا نام ہائیکو (HAIKU) پڑااور اس وقت سے اب تک یہ اسی نام سے موجود ہے اور دنیا پھر میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ یہ جاپانیوں کی منفرد شاعری کی صنف ہے جو کہ صرف وہیں رائج تھی لیکن اس سے جاپانیوں کی والہانہ محبت اور مسلسل کوششوں کی وجہ سے یہ دنیا پھر میں اپنا مقام بنا چکی ہے۔
جس طرح ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کے لوگوں سے مزاج میں مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ایک زبان میں شاعری دوسری زبان میں شاعری سے مختلف ہوتی ہے کہ شاعری انسانی مزاج کے تابع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائیکو کا مزاج اردو شاعری سے یکسر مختلف ہے اور اسی لئے اردو شعرا کے لئے کلاسیکل ہائیکو کہنا کچھ مشکلات پیدا کرتا ہے۔ اردو شاعری عموما شاعر کے تخیل کے گرد گھومتی ہے۔ اسی سے ابتدا اور اسی پہ انتہا ہوتی ہے۔ اور اس کے تخیل کو بنیاد درد، غم، خوشی، قربت ، یادیں ، خواب ،سوچیں ، خوف ، نفرت ، محبت ، عشق ، پیار ، وصل ، ہجر ، ایمان ، ادراک اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات فراہم کرتے ہیں۔اور اگر کہیں فطرت اور ماحول کی ضرورت پیش آ بھی جائے تو اس کو تشبیہ، استعاروں اور تمثیل کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ کسی اردو شاعر کے لئے کلاسیکل اردو شاعری تخلیق کرنے کے لئے بند کمرے میں اکیلا ہونا بہترین ماحول فراہم کرتا ہے اور وہ دنیا کے ہنگاموں سے دور رہ کر بہترین شاعری تخلیق کر سکتا ہے۔ جبکہ جاپانی ہائیکو کہنے والے شاعر کا مزاج یکسر مختلف ہوتا ہے۔
جاپانی ہائیکو میں ماحول میں پائی جانے والی مادی چیزوں ( ہوا ، بارش ، کیچڑ ، مرغی ، مچھلی ، مینڈک ، مگرمچھ وغیرہ ) کی ظاہریت اور ان کی فعالیت اس صنفِ شاعری کا دل ہوتی ہے۔ اسی لئے جاپانی ہائیکو کہنے والا شاعر دنیا سے بیزار نہیں ہوتا۔ وہ دنیا میں رہ کر شاعری کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ اس کی چیزوں سے پیار کرتا اور انہی کو اپنی شاعری کی بنیاد بناتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جاپانی ہائیکو کہنے والا شاعر لطیف خیالات، احساسات اور جذبات سے عاری ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے جذبوں اور محسوسات کو اپنے ارد گرد پائی جانے والی چیزوں میں سمو دیتا ہے۔ اسی لئے جاپانی ہائیکو کہنے والے شاعر کو ایک مینڈک میں بھی خوبصورتی نظر آتی ہے کہ اْس کو اِس میں اپنا ننھا منا پیارا سا بچہ اچھلتا ہوا نظر آتا ہے اور ایک بندر کے اندر اپنا شرارتی بچہ دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح وہ چیونٹی، مکڑی، پتھر، لکڑی، پانی غرض فطرت میں پھیلی ہر شے میں حسن اور مقصدیت تلاش کر لیتا ہے اور اس کو اپنے (جاپانی) مزاج کے مطابق بڑی خوبصورتی سے شاعری (ہائیکو) میں سمو دیتا ہے۔ جاپانی ہائیکو کا شاعر محبت بھی کرتا ہے اور نفرت بھی، لیکن وہ اپنے ان جذبوں میں بھی اپنے حقیقی ماحول کو نہیں بھولتا اور اسے اپنی شاعری میں ساتھ رکھتا ہے۔
جاپانی ہائیکو کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اردو شعرا کے لئے اسے کہنا اور قارئین کے لئے اسے سمجھنا اور قبول کرنا کسی حد تک مشکل ہے۔ اس میں نہ اردو شعرا اور قارئین کا کوئی قصور ہے اور نہ ہی جاپانی ہائیکو کا۔ یہ زبانوں کے مزاج کے فرق کی وجہ سے ہے۔ یہاں ایک محقق کے حوالے سے ایک جاپانی ہائیکو کی مثال دینا آپ کو میری بات سمجھنا آسان بنا دے گا۔جاپانی ہائیکو کی ایک مثال :
اِک جاں بلب قوم
اِک استرا جس کی بو ہے
کیلے کی جیسی
سمجھنا آسان ہے کہ ایک جاں بلب قوم کی حالتِ زار بیان کی جارہی ہے اور اس کی وضاحت کے لئے کیلے اور استرے کی مثالوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ یہ جاپانیوں کا مزاج ہے اور اس ہائیکو کی خوبصورتی سے کوئی انکار نہیں ہے لیکن اردو شاعر اور قارئین کے لئے اس میں کوئی خاص حسن موجود نہیں کیونکہ یہ اردو کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اگر میں اس موضوع پر ہائیکو کہوں تو وہ کس طرح سے ہوگی ملاحظہ کریں :
اِک قوم کی مستی
اپنے دفاع کو پھول کے
اِک ڈوبتی کشتی
میری اس ہائیکو پر جاپانی کوئی خاص اعتراض نہیں کرسکتے کہ وہ ان کے مزاج کو مدِنظر رکھ کر تخلیق کی گئی ہے۔ لیکن اس میں اردو شاعری کا حسن بھی موجود ہے۔ اس طرح کی ہائیکو جاپانی اور اردو مزاج کا خوبصورت امتزاج کہی جاسکتی ہیں۔ اب میں آپ کو اپنی ایک اور ہائیکو مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں جو کہ جاپانی ہائیکو ہے گو کہ اردو زبان میں ہے یعنی اس کا مزاج خالصتا جاپانی ہے :
وہ ایک پہیہ
جو لگا، گاڑی میں ہے
خراب رویہ
اس ہائیکو میں گاڑی میں لگا ہوا ایک پہیہ صحیح کام نہیں کر رہا اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اردو شاعری میں اس قسم کے موضوعات کی اس انداز میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب میں آپ کی خدمت میں ایک اور، مخصوص اردو مزاج کی ہائیکو پیش ہے جس سے آپ کو جاپانی اور اردو انداز کی ہائیکو کا فرق بہت واضح ہوجائے گا :
وہ اندھیری رات
ڈرتی رہی سارا وقت
اْس سے نہ کی بات
اردو زبان بولنے اور اردو شاعری کے مزاج کو سمجھے والوں کے سامنے یہ ہائیکو پیش کی جائے تو واہ واہ، کیا کہنے،مکرر ارشاد وغیرہ کی آوازوں سے اس کا خیر مقدم ہو۔ کیونکہ وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس میں کسی خاتون کی اپنے محبوب سے جو اس کا شوہر بھی ہوسکتا ہے ناراضگی کی شدت کا اظہار مطلوب ہے۔ وہ اپنے محبوب کی موجودگی میں بھی خود کو اکیلا محسوس کررہی ہے اور ماحول سے ڈر رہی ہے لیکن اس مشکل گھڑی میں بھی وہ اس سے بات کرنا گوارا نہیں کررہی جس سے اس کے ضدی اور انا کی ماری ہونے کا تاثر بھی ابھرتا ہے۔ اسی ہائیکو کو اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو اس سے اس خاتون کی اپنے محبوب سے والہانہ محبت کا اظہار سامنے آتا ہے کہ وہ تھک کے اس کے پاس ہی سویا ہوا ہے اور وہ بے خوابی کی وجہ سے جاگ رہی ہے اور رات کے اندھیرے کی ہولناکی کی وجہ سے خوف کا شکار ہے لیکن اسے اپنے محبوب کے آرام میں مخل ہونا پسند نہیں اور وہ اکیلے ہی اس خوف کو جھیل رہی ہے۔ ایک ہی تحریر کے دو متضاد مطالب اور دونوں ہی صحیح اور بہت خوبصورت، یہی اردو شاعری کا حسن ہے کہ شاعر قاری کے ذہن کو پابند نہیں کرتا بلکہ اسے اس بات کی آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کے معنی اخذ کرسکے۔ یہ ہائیکو دو متضاد سوچ رکھنے والوں میں یکساں پزیرائی حاصل کرے گی۔ اب اگر یہی ہائیکو کسی جاپانی کو پیش کی جائے تو وہ اس کو تکنیکی لحاظ سے ہائیکو ماننے سے تو انکار نہیں کرسکتا لیکن وہ محظوظ ہونے کے بجائے حیران ہوکر کچھ سوالات ضرور کر سکتاہے کہ اب تک تو ہم ہائیکو کے مزاج پہ ہی بات کرتے رہے اب آئیے اس کے تکنیکی پہلو وں پر بھی نظر ڈالتے ہیں اردو شاعری سے ہائیکو اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہ مکمل پابند شاعری ہے اس میں سطروں یا مصرعوں کی تعداد متعین اور ہر ہر سطر یا مصرع میں مقطع لفظی (syllables) کی تعداد بھی متعین ہوتی ہے۔ یعنی سطروں یا مصرعوں کی طوالت بھی طے شدہ ہوتی ہے ان دونوں چیزوں سے انحراف کا مطلب ہائیکو کی حدود سے باہر نکلنا ہے۔ جبکہ اردو میں دونوں باتوں کی پابندی ایک ساتھ ہر جگہ نہیں ہے۔ دوسرے ہائیکو اردو شاعری سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ اس میں بحر کی پابندی نہیں ہے۔ کسی ہائیکو میں سطروں یا مصرعوں کا کسی طرح بھی بحر میں ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔
ہائیکو کل تین (3) سطروں یا مصرعوں پر مشتمل شاعری ہے جس کی پہلی سطر (مصرع) پانچ (5) ، دوسری سطر (مصرع) سات (7) اور تیسری سطر (مصرع) پھر پانچ (5) مقطع لفظی (syllables) پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان سب کا ایک بحر میں ہونا شرط نہیں۔ اب ڈاکٹر ریاض کی دو ہائیکو سے مثال دیکر اس کو اور آسان کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بعد امید ہے کہ ہائیکو سمجھنا اور کہنا آپ کے لئے کچھ آسان ہو جائے گا اور مشق کے ساتھ خامیاں دور ہوتی جائیں گی۔
پہلی مثال : ( 5 – 7 – 5 )
ہے ترسا بادل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے (1) – تر (1) – سا (1) – با (1) – دل (1) — کل پانچ (5)
چاند سے وہ کچھ کہہ سن لے۔۔۔۔۔۔۔چاند(1) – سے (1) – وہ (1) – کچھ (1) – کہہ (1) – سن (1) – لے (1) — کل سات (7)
رک ہوا نہ چل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رک (1) – ہَ (1) – وا (1) – نہ (1) – چل (1) — کل پانچ (5)
دوسری مثال : ( 5 – 7 – 5 )
پنجرے کے اندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پنج (1) – رے (1) – کے (1) – ان (1) – در (1) — کل پانچ (5)
بالکل نٹ کھٹ بچے سا۔۔بل (1) – کل (1) – نٹ (1) – کھٹ (1) – بچ (1) – چے (1) – سا (1) کل سات (7)
ننھا سا بندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نن (1) – نھا (1) – سا (1) – بن (1) – در (1) — کل پانچ (5)
آخر میں، اس قدر وضاحت ہو چکی ہے کہ اب آپ ہائیکو کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں لہٰذا اب امید کی جا سکتی ہے کہ مزید رہنمائی کے لیے چند اور مثالیں پیش خدمت ہیں حتی الامکان کوشش کی گئی ہے کہ ہائیکو سے متعلق اپنی تمام معلومات کو آپ کے ساتھ بانٹ لیں لیکن پھر بھی، اگر لاعلمی میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو پیشگی معذرت :
ہائیکو کے چند اشعار پیش خدمت ہیں:
بارش میں جھولا
میں اْس کو، جھلا جھلا
دنیا کو بھولا
بارش میں لمحات
گزرے ہاتھ میں ڈالے ہاتھ
آگ ہوئے جذبات
وہ دور اِک بادل
چاند کی خواہش لئے
جیسے میں پاگل
تو تراشیدہ
ایک خوبصورت ہیرا ہے
رہنا پوشیدہ (8)
ڈاکٹر عبدالکریم نے نصیر احمد ناصر کی ہائیکو پر ایک تجزیاتی مطالعہ کیا ہے جو اس مقالے میں شامل کیا جا رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ :
’’ نصیر احمد ناصر اردو نظم کا معتبر نام ہے۔میں ان سے کبھی نہیں ملا۔ان کا نام ستیہ پال آنند کی’کتھا چارجنموں کی ‘ میں جب میرپور آزا دکشمیر کے حوالے سے آیا تو پھر میں نے ان کے بارے میں کھوج شروع کی (کیونکہ ہم تحقیق کے لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہے) ان کا فون نمبرپروفیسر غازی علم الدین کے ذریعے سے ملاتو پھر ان سے تقریباً ایک سال قبل فون پر تفصیلی بات ہوئی۔ 04منٹ کی اس کال میں نصیراحمد ناصر ،ان کے فن،ان کے ادبی میگزین ’تسطیر‘ ،ان کی نظم نگاری اور ادبی اکھاڑ پچھاڑ پر کھل کر بات ہوئی۔اس گفتگوسے میں نے ان کے بارے میں کچھ باتیں اخذ کیں ہیں‘‘۔9))
’زرد پتوں کی شال‘نصیر کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو1993ء میں شائع ہوا اور2013ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن سامنے آیا۔اس شعری مجموعے میں 1980ء سے1990ء تک یعنی گیارہ سال کے دوران لکھے گئے ہائیکوہیں۔اس کا پیش لفظ ممتاز محقق ،نقاد اور انشائیہ نگارڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے۔جس پردسمبر 1998 ء تحریر ہے۔ہائیکو جاپانی صنف سخن ہے۔وزیر آغانے ہائیکو اور خاموشی کو مترادف الفاظ قرار دیا ہے۔ ہائیکو معنی کی تلاش کا عمل نہیں بلکہ شے کو مٹھی میں بند کرنے کا وظیفہ ہے۔یہ دھڑکتے ہوئے دل سے مشابہت رکھتی ہے۔اس کا پہلا مصرعہ سمٹتا ہے، دوسرا پھیلتا ہے، تیسرا پھر سمٹ جاتا ہے۔بالکل جیسے دل سمٹتا ،پھیلتا اور پھر سمٹتا ہے۔یہ ہائیکو نصیر احمد ناصر نے سعودی عرب قیام کے دوران لکھے۔جہاں چاروں طرف ریت کا سمندر ہے اور جہاں ریت کا سمندر ختم ہوا ہے وہاں سے پانی کا سمندر شروع ہو گیا ہے۔فطرت اور انسانی فطرت کا ملاپ نصیر احمد ناصر کے ہائیکو کاایک امتیازی وصف ہے۔نصیر کی ہائیکو کے موضوعات متنوع ہیں۔ان کے کچھ ہائیکو بہت گہرائی رکھتے ہیں۔
اس کو کھویا ہے ،خود کو پایا ہے
ایک لمحے کی آشنائی میں
کتنی عمروں کا دکھا اٹھایا ہے
ان تین مصرعوں میں ایک زندگی کا کرب ہے۔ایک روگ ہے۔تاہم اس کا حاصل مجھے پہلا مصرعہ لگتا ہے اور نیوکلیس دوسرا مصرع ہے۔پہلے مصرعے میں متضاد الفاظ کے استعمال سے قاری کو کنفیوز کیا گیا ہے۔جس کو آپ چاہتے ہیں اس کو کھو کر بھی آپ بہت کچھ پا لیتے ہیں۔اور ساری زندگی کا دکھ وہی ایک لمحہ تو ہوتا ہے۔جس میں ہم کسی کے ہو جاتے ہیں۔وہی ایک لمحہ زندگی کا حاصل بھی ہے۔نصیر احمد ناصر زندگی کی حقیقتوں ،تلخیوں ،نفرتوں ،محبتوں سے آشنا ہیں کیونکہ وہ گرم و سرد دیکھ چکے ہیں اور اب ان کو انگلی سے پکڑ کر ان کا پوتا چلاتا ہے۔ان کا یہ ہائیکو
زندگی اسیروں کی
ساحلوں کی تنہائی
خاموش جزیروں کی
ایک فرد نہیں بلکہ ایک قوم کا المیہ بھی بیان کرتا ہے۔اسیروں کی زندگی کشمیر سے برما اور فلسطین تک اس المیے کو سامنے لاتا ہے۔جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ان کے دن ،ان کی راتیں ،ان کی صبحیں اور ان کی شامیں کیسے گزرتی ہیں: یہ کوئی ویران ساحلوں،خاموش جزیروں پر جا کر محسوس کر لے یا ان خانمہ بربادوں سے پوچھے۔ ہائیکو میں فلسفے بیان کرنا خاصا مشکل کام ہے۔لیکن نصیر نے یہ کٹھن کام بھی انجام دیا ہے۔جب وہ یہ کہتے ہیں کہ
وقت کے سمندر میں
جسم کے جزیرے پر
روح کا بسیرا ہے
وقت واقعی سمندر ہے اور ہمارا جسم اس سمندر میں ا یک جزیرہ ہے(ویسے جزیرے کی سمندر میں حیثیت ہی کیا ہے) اور اس جزیرے پر ہماری روح کا بسیر ا ہے۔جسے کوئی نہیں جانتا۔نہ اس کاانت ہے اور نہ کوئی جان سکا۔اس طرح جدائی کے کرب کو بھی انھوں نے اگر بیان کیا ہے تو بعض ہائیکو ایسے ہیں کہ جو روح میں ایک چین ، سرور اور سکون لاتے ہیں۔ان کے لفظوں کے ساتھ ہی ایک سرور روح میں اترتا ہے
رات کے کنارے پر
صبح مسکراتی ہے
آخری ستارے پر
اسی طرح انسانی زندگی میں خوابوں کو اچھوتے اورمنفرد اندازمیں بیان کیا ہے۔انسانی زندگی خوابوں کے بغیر ویران اور بنجر ہے۔زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ خواب دیکھے جائیں اور پھر ان خوابوں کی تعبیر ڈھونڈی جائے۔انھوں نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے ۔
شہر یاروں سے کہو
ٹوٹ جاتے ہیں مگر
خواب مرتے تو نہیں
ایک سچائی کو کتنی آسانی سے بیان کر دیا ہے کہ خواب ٹوٹتے ہیں مرتے نہیں۔اسی طرح کا ایک انداز یوں بھی ہے کہ کچھ لوگ حالات کے ہاتھوں پتھر دل ہو جاتے ہیں اور اندر ہی اندر ٹوٹتے ہیں اور ان کے آنسو کہیں اور گرتے رہتے ہیں۔وہ رونے کو بزدلی گردانتے ہیں اور اکثر تنہائیوں میں روتے ہیں کہ ان کے نزدیک بہادری یہ ہے کہ آنسو نہ بہائیں اور اس میں ایک حقیقت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ ہم اپنوں سے دور جا کر روتے ہیں۔محبوب سے دوری ،فراق ،ہجر،بچھڑنے کو ہر شاعرنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔کچھ کو محبوب کی یاد ہی کا سہارا بہت ہوتا ہے۔کوئی محبوب سے تنہائی میں باتیں کرتا ہے اور کوئی اسے یاد کر کے تنہائیوں میں روتا ہے۔کیونکہ اس کے بغیر دل آنگن سونا ہوتا ہے اور کچھ عشاق کا تزکیہ محبوب کی یاد میں رونا بھی تو ہے۔اس لیے کہتے ہیں:
رات ٹوٹ کر برسا
دل کے سونے آنگن میں
تیری یاد کا بادل
نصیر نے محبوب اور محب کے تعلق کو انوکھے استعاروں اور تشبیہات سے بیان کیا ہے۔محبوب کو سمندر اور اپنے آپ کو جزیرے سے تشبیہ دی ہے۔دونوں کا دکھ مشترک ہے۔ جزیرہ سمندر میں اکیلا ہوتا ہے۔اس کے چاروں طرف سمندر ہوتا ہے۔اکثر ہم پانی پاس ہو کر بھی پیاسے رہتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے محبوب کے ہوتے ہوئے بھی وصال ممکن نہیں لگتا۔دونوں تنہا تو رہتے ہیں لیکن جس طرح ایک دن سمندر جزیرے کی تنہائی دور کر دیتا ہے اس طرح محبوب کا وصال بھی ممکن ہو جاتا ہے۔سمندر اور جزیرے کی دوری دائمی نہیں۔بے نام جزیرے ابھرتے اور مٹتے رہتے ہیں۔سمندر انھیں اپنی آغوش میں لیتا رہتا ہے اسی طرح محبوب کی محبت کے سمندر میں جدائی کا جزیرہ غرق ہو سکتا ہے۔آرٹیکل کے آخر میں کہتے ہیں کہ:
’’نصیر نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی سچائیوں کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ان سب کا شعور ہم کو بھی ہوتا ہے۔ہم اس انداز میں بیان کرتے پر قدرت اس لیے بھی نہیں رکھتے کہ ہم شاعر نہیں۔اسی طرح ہائیکو میں انسان یا فرد کی تنہائی کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ ہم کسی فرد کے ساتھ عشروں رہتے ہیں لیکن پھر بھی ہم کو تنہائی اچھی لگتی ہے۔یعنی اصل ہم آہنگی ذہنی ہے جسمانی نہیں۔اسی لیے کسی کے ساتھ ہم سالوں رہتے ہیں لیکن ہمیشہ ہم کو یہ اچھا لگتا ہے کہ کاش تنہا ہوں۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک فرد ناپسندیدہ بیوی یا عورت ناپسندیدہ خاوند کے ساتھ رہ رہے ہوں‘‘۔(10)
مسلسل ساتھ رہنے سے
طبیعت اوب جائے تو
جدائی اچھی لگتی ہے
موسم سرما کے چاند، یخ بستہ ہونٹوں اور آخری بوسے جو تثلیث بنتی ہے اس کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو محبت کے کرب سے گزرے ہیں اورپھرہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے ہوں۔محبت مسلسل دکھ،کرب اور نا آسودہ خواہش کا نام ہی تو ہے۔اس جذبے میں گزرا ایک لمحہ بعض دفعہ ساری زندگی کا حاصل قرار پاتا ہے۔
موسم سرما میں چاند
ہونٹ یخ بستہ ہوئے
آخری بوسے کے بعد
انسان دو موسموں میں ہمیشہ رہتا ہے، اندر کاموسم اور باہر کا موسم۔باہر کے موسم کا اثر اندر کے موسموں پر پڑتا ہے اور اندر کے موسموں کا اثر باہر کے موسموں پر لیکن کچھ روحیں باہر کے موسم کو اندر نہیں آنے دیتیں۔ وہ کرب کی اس کیفیت سے گزرتی ہیں کہ ان کے لیے تنہائی تریاق بن جاتی ہے۔یہ بھی ایک کیفیت کا نام ہے کہ بارش کا برسنا کچھ روحوں کو آنکھوں کے برسنے کے مترادف محسوس ہوتا ہے جیسے یہ انداز کہ:
تنہائی کا ساز
رونے جیسی لگتی ہے
بارش کی آواز
دکھ اور غم کی کیفیت میں ہمیں ویسے بھی ہنستے چہرے اچھے نہیں لگتے۔نصیر کے ہاں کہیں علامتی انداز بھی ہے جیسے یہ ہائیکو کہ:
دور کہیں اک پھول
کھلتا ہے پر دیکھے کون
آنکھیں مٹی دھول
پھول مرادوں کا بھی ہو سکتا ہے اور آنکھوں میں مٹی دھول موسموں کے علاوہ عمروں کے بھی ہو سکتے ہیں۔ ہماری بصارت عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتی ہے۔موتیا اترنا ،ککرے پڑنا ،پانی آنا،دھندلا جانا، کبھی قریب کبھی دور دکھائی نہ دینا۔ہم خواب دیکھتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ دریچے بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔خواب تو نہیں مرتے۔اسی لیے جس خواب کو ہم دیکھنا چاہتے ہیں کبھی کبھی وہ ہمیں ایک امید موہوم دے جاتا ہے لیکن ’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا ‘ کے مصداق ہم زندگی کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہوتے ہیں۔
نصیر احمد ناصر کا معاشی شعور بھی ان کی ہائیکو میں جھلکتا ہے۔یہ ملک بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور اس ملک کے باشندوں کی معقول تعداد زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے۔جاگیردارانہ سماج میں کسان ساری زندگی خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی باعزت طریقے سے نہیں بنا پاتا۔وہ جس کی محنت پر عالیشان محلات کھڑے ہوتے ہیں ،اس کی اولاد اکثر بھوکی ہی سو جاتی ہے۔اس کے بچے خواب ہی دیکھ سکتے ہیں یا ہجرت کر سکتے ہیں۔ان کی قسمت میں گندم کی فصلیں کھڑا کرنا ہے۔جس کو دیکھ کر جاگیر دار خوشی سے پھولے نہ سمائے ۔ جاگیردار کے بچے کسان کے خون پسینے کی کمائی پر کنگ ایڈورڈیاہاورڈجیسی جامعات میں تعلیم پائیں گے اور اس ملک پر حکمرانی کریں گے۔اس کے کرب کو وہی محسوس کر سکتا ہے جو پاکستانیوں کی غربت کو سمجھتا ہے۔جس کا اس سماج سے گہرا تعلق ہے کہ:
گندم کی کھڑی فصلیں
کیوں بھوک سے روتی ہیں
کھیتوں میں پلی نسلیں
شاید کچھ کے مقدر میں ایسا ہی لکھا ہوتا ہے ورنہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال بھی یوں نہ کہتے کہ
سرما کی ہواؤں میں ہے عریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دوشالا
آخری ہائیکومیں کہتے ہیں کہ یہ ایک فرد کا خواب بھی ہے اور ایک قوم کا بھی۔اگر قوم اور مشرقی پاکستان کے تناظر میں سوچیں تو ایک خواب نے اس ملک کو جنم دیاتھا۔ اسی کیفیت میں ہم نے کئی سال گزارے اور ایک دن یہ قوم اسی نظریے کے ساتھ خلیج بنگال میں ڈوب کر نکلی تو بنگالی تھی اور ملک بنگلہ دیش۔ زندگی کا بڑا حصہ ہم اس خواب کے پیچھے بھاگتے گزار دیتے ہیں جو کبھی پورا ہو ہی نہیں سکتا لیکن وہ ایک Catalystکا کام ضرور دے جاتا ہے۔ہم ایسے ہی زندہ رہتے ہیں۔ایک نشے کی کیفیت میں زندگی کے ماہ و سال گزارتے ہیں اور ایک دن ریشم کے کیڑے کی طرح ریشم کے اندر یعنی اپنے خوابوں کے ساتھ مر جاتے ہیں۔اس ہائیکو میں کتنا درد ہے، اسے پڑھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
خواب میں پیدا ہوئے
خواب میں زندہ رہے
خواب میں ہی مر گئے
بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہائیکو کے ذریعے اپنے افکار ،جذبات ،تخیلات کا ابلاغ ممکن نہیں۔نصیر احمد ناصر کے ہائیکو کے اس مجموعے کو پڑھ کر لگتا ہے کہ انھوں نے سمندر کو کوزے میں بند کر دیا۔انھوں نے مؤثر انداز سے ان تین مصرعوں کی نظم سے ابلاغ کا کام لیا ہے اور اس میں کامیاب رہے ہیں۔یہ لازمی نہیں کہ تمام ہائیکو پر اثر ہوں۔ ہرنالہ پر درد اورپر اثر تو نہیں ہوتا تاہم کچھ نالے بہرحال درد کی وہ کیفیت رکھتے ہیں جن پر کچھ روحیں کان دھرتی ہیں۔تاہم حیرت اس بات پر ہے کہ نصیر احمد ناصر نے20سال بعد اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن لایا لیکن اس میں اضافے نہیں کیے۔اپنے آرٹیکل کو ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
’’غزل کی تنگ دامنی سے بھاگ کر نصیر احمد ناصر نے نظم کے وسیع دامن میں پناہ لی لیکن
پھنس گئے ہائیکو میں۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ وہ پابندیوں کو شاعری کا حسن
تسلیم کرتے ہیں۔ ورنہ وہ اس کا دوسرا ایڈیشن کبھی نہ لاتے‘‘۔(11)
ہائیکو نگاری کے تسلسل میں ‘ ٹھنڈاسورج’اردو کے حروف تہجی اور اعداداردوادب کے شعری ادب میں بیشتر اصناف سخن مشرق وسطیٰ اور مغرب سے ہی آئی ہیں لیکن ان کے مقبول اور معتبر ہونے میں طویل عرصہ لگا جب کہ جاپان سے درآمد ہونے والی صنف سخن ہائیکو نے بیس پچیس برس کی قلیل مدت میں برصغیر پاک و ہند میں جو حیرت انگیز مقبولیت حاصل کی ہے وہ اردو اور اہل اردو کے لیے باعث فخر ہے۔
گزشتہ تقریباً دو دہائیوں میں صرف ہائیکو پر مشتمل درجنوں شعری مجموعے منظر عام پرآ چکے ہیں۔ متعدد ادبی رسائل میں ہائیکو سے متعلق مضامین بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے اہم شہروں کراچی ‘اسلام آباد اور کوئٹہ و غیرہ میں ہائیکو مشاعرے بھی منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ خصوصاً کراچی میں جاپان قونصل خانہ کے تحت 1982ء سے سالانہ بنیاد پر تسلسل کے ساتھ ہائیکو مشاعرے کا انعقاد کیا جا رہا ہے جس میں اردو کے سینئر شعرا کے علاوہ نئے شعراء بھی کافی تعداد میں پابندی کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ آج یہ بات نہایت تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہائیکو اب اردو ادب کے قارئین کے لیے نہ صرف اجنبی صنف سخن نہیں رہی ہے بلکہ اصناف شعری میں گراں بہا اضافے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
جس طرح شاعری کی دیگر اصناف غزل‘ قطعہ‘ رباعی کے علاوہ مغرب سے آنے و الی اصناف‘ آزادنظم‘ نظم معریٰ‘ سانیٹ اور ترائیلے تک اپنی مخصوص ہیئت کی وجہ سے اپنی جداگانہ شناخت رکھتی ہیں۔ اسی طرح ہائیکو بھی بشمول دیگر فنّی پابندی کے اپنی مخصوص ہئیت (FORM) کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ ہائیکو کا پہلا اور تیسرا مصرع مساوی الاوزان جب کہ دوسرے مصرعے میں ایک رکن زائد ہوتا ہے۔ اساتذہ فن اور بیشتر نقادوں نے مندرجہ ذیل ارکان کو ہائیکو کے اصل وزن کے انتہائی قریب ہونے کے باعث صحیح وزن قرار دیا ہے جسے ارکان ‘ اعداد اور اردو مصرعوں کی وضاحت کے ساتھ دیا جا رہا ہے :۔
فع لن۔ فع لن۔ فع = 5
آ وا۔ رہ پت۔ تے
فع لن۔ فع لن۔ فع لن۔ فع = 7
تم نف۔ رت سے۔ مت دے۔ کھو
فع لن۔ فع لن۔ فع = 5
کل یہ۔ کو نپل۔ تھے
برصغیر پاک و ہندکے تقریباً سبھی شعراء اس وزن کی پابندی کے ساتھ ہائیکو لکھ رہے ہیں۔ یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ اس پابندی کو پہلے پہل جاپان قونصل خانہ کراچی کے سالانہ مشاعرے منعقدہ1983ء میں ہدایت کی بموجب ملحوظ رکھا گیا تھا۔ اس مشاعرے میںہائیکو پیش کیے تھے ان میں سے دوہائیکو یہاں دینابے محل نہ ہو گا:۔
بارش کا یہ ساز
رہ رہ کر یاد آتی ہے
گھنگرو کی آواز
بعض نقادوں نے پروفیسر محمد امین کو ان کے ہائیکو مجموعے مطبوعہ1981ء (طبع اول)1982ء (طبع دوم) کی بنیاد پر انہیں پاکستان کا پہلا ہائیکو نگار قرار دیا ہے جب کہ ان کے ہائیکو کے تینوں مصرعے مساوی الاوزان ہیں اس لیے یہ ہائیکو کی بنیادی شرط یعنی ہیئت کی پابندی پر پورے نہیں اترتے چنانچہ انہیں مختصر نظمیں ہی شمار کیا جانا چاہیے۔ اس واضح فرق کے بارے میں مصنف نے اپنے ہائیکو کے دیباچے میں خود تحریر کیا ہے اردو ہائیکو اور بالخصوص میرے ہائیکو جاپانی ہائیکو سے مختلف ہیں۔۔۔ میں نے چونکہ جاپانی ہائیکو سے متاثر ہو کر ہائیکو لکھنے شروع کیے اور جاپانی ہائیکو کی خصوصیات کو ملحوظ رکھا ہے اس لیے میں اسے ہائیکو کا نام دیناہی مناسب سمجھتا ہوں۔ مساوی الاوزان مصرعوں پرمشتمل مختصرنظمیں قیام پاکستان سے قبل بھی لکھی جا رہی تھیں۔ مخمورجالندھری کی مختصر نظمیں کا مجموعہ جواسی نام سے کتابی صورت میں 1946ء میں شائع ہوا تھا۔ مذکو رہ مجموعے سے دو نظمیں دی جا رہی ہیں تاکہ میرے مؤقف کی تائید ہو سکے :
تو کیا جانے تیرے سرپر
وقت کا چرخاگھوں گھوں کرتا
کات رہا ہے بال سفید
اک اور ناؤکنارے پہ بھرکے ڈوب گئی
امیدتھی کہ سمندرکی موج کف آلود
اٹھی‘ بلند ہوئی اور پھر سے ڈوب گئی
ہائیکو کی ہیئت کے سلسلے میں بات یقیناخاصی تفصیل میں چلی گئی ہے لیکن یہ بنیادی مسئلہ تھا جس کی وضاحت مثالوں کے ساتھ ضروری تھی۔
پانچ سات پانچ کی پابندی کے ساتھ سینئرشعراء کے علاوہ جن نئے شعراء اور شاعرات نے کامیاب ہائیکو لکھے ہیں ان میں مہتاب الدین مہتاب‘لیاقت علی عاصم‘آفتاب مضطر‘ شبہ طراز‘ثروت سلطانہ ثروت‘اور رونق حیات کے نام قابل ذکر ہیں۔ مہتاب اور عاصم کے علاوہ بقیہ شعراء کے ہائیکو کے مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ پچھلے چندبرسوں میں ہائیکو نگاروں کی اس کہکشاں میں خاور چودھری کے نام کا خوشگواراضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مساوی الاوزان ہائیکو بھی لکھے ہیں او رہیئت کی پابندی کے ساتھ بھی لیکن میرے نزدیک ہیئت کی پابندی کے ساتھ لکھے گئے ہائیکو ہی ان کی پہچان ہیں جب کہ انہوں نے ماہیے میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
ادبی مراکزسے دور ہونے کے باعث انہیں ہائیکو نگاروں میں کم ہی شمارکیا گیا ہے اور ان کے کلام کی خاطرخواہ اشاعت بھی نہیں ہو سکی ہے جب کہ انہوں نے نہ صرف ہیئت کی پابندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے کامیاب ہائیکو لکھے ہیں بلکہ ہائیکو کے مزاج اور مضامین کو نہایت خوبصورتی سے برتا ہے۔ جاپانی ہائیکو میں قوافی کا اہتمام نہیں کیاجا تا لیکن اردوکے کئی شعراء قوافی کی پابندی کے ساتھ بھی کہہ رہے ہیں اور پابندی کے بغیربھی۔ خاورکے بیشترہائیکو کے پہلے اور تیسرے مصرعے ہم قافیہ نہیں ہیں۔ خاورنے مساوی الاوزان مصرعوں پرمشتمل ہائیکو بھی لکھے ہیں لیکن اصل وزن میں ہی لکھے گئے ہائیکو ان کی پہچان ہیں۔مثلاً
قریہ قریہ دھوپ
میٹھے جھرنوں کا پانی
قصّے بْنتا ہے !
کالے موسم میں
وعدوں کی زنجیرکٹے
مشکل ہوآسان
جاپانی ہائیکو میں موضوعات اور مضامین کے لحاظ سے موسم‘حشرات الارض ‘ اور مظاہر فطرت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ خاور چودھری نے بھی اپنے انداز میں انہیں نہایت خوبی کے ساتھ اپنے ہائیکو کا موضوع بنایا ہے۔
زخمی زخمی خواب
بادل‘برکھا‘ساون رْت
تنہائی کی آگ
کْہرے کی چادر
پربت غم کے ٹوٹ پڑے
شعلے اْٹھتے ہیں !
خاور چودھری کے بعض ہائیکو جاپانی صنف سخن ‘‘سِن ریو‘‘ پرپورے اترتے ہیں :۔
سگرٹ‘ بیڑی‘ پان
اب توایساکچھ بھی نہیں
شاعر کی پہچان!
راز چھپائے کو ن
دوست سپولے بن بیٹھے
ہاتھ ملائے کو ن
محسن بھوپالی کے خیال میں:
’’خاور چودھری نے اس صنف کو غالباً شعری ذائقہ بدلنے کے لیے استعمال کیا ہےلیکن ان کا اصل میدان ہائیکو ہے اور ‘‘ٹھنڈاسورج‘‘ ہائیکو کا ایک اہم مجموعہ ہے میں اسے ہائیکوکی سبدِ گل میں ایک تازہ پھول کا اضافہ سمجھتا ہوں جو اہل نقدو نظرکی توجہبھی حاصل کرے گا اور قارئین کی داد و تحسین کا مستحق ہی نہیں حق داربھی ٹھہرے گا‘‘ (12)
خاور چودھری کی کتاب’’ ٹھنڈاسورج پرایک نظر‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسرہارون الرشیدلکھتے ہیں کہ پچھلی تقریباًدودہائیوں سے ہائیکونے اردوشاعری میں بڑی آہستگی سے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں‘یہ اگرچہ بدیسی صنف ہے مگر اس کابنیادی ڈھانچہ ہمارے ماہیے سے مماثلت رکھتاہے جس کی وجہ سے یہ صنف اپنی ہی لگتی ہے۔
ہائیکوکے کینوس پرفطرت اپنی تمام تررعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ خاور چودھری کے ہائیکوزبھی انہی خوب صورتیوں سے مملوہیں‘انہوں نے زمین سے آسمان تک قدرت کے بیشتر رنگوں کونہایت مہارت سے پینٹ کیاہے اورفطری ماحول کے اندرڈوب کرنہایت اْجلے اورنازک الفاظ کے دھاگوں سے ہائیکوزکی لڑیاں پروئی ہیں۔ان کے ہائیکوزپڑھتے ہوئے ایسا لگتاہے جیسے قاری ایک Improvisation سے گذر رہا ہو۔مصرعوں کی بْنت‘الفاظ کی نشست وبرخاست اور خیال کی Dimensionسے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ انہیں اپنی بات کہنے پرکتناکنٹرول حاصل ہے۔خاورچودھری ایک ذہین لکھاری ہیں‘لکھنے کاعمل ان کے خون میں تیرتاہے۔ وہ لفظ کی اہمیت سے آگاہ ہیں‘اوریہی احتیاط ان کے ہائیکوزکا بنیادی وصف ہے۔
’’ٹھنڈاسورج‘‘میں انہوں نے جوتجربات کئے ہیں‘ وہ ان کے گہرے مطالعے‘کڑے مشاہدے اوروسیع سوچ کے حامل ہیں‘ان کے ہاں جدّت بھی ہے اورفطرت کی سچائی کی کھلی عکاسی بھی۔مجھے یقین ہے ان کے ہائیکوزکوشعری حلقوں میں بڑی پذیرائی ملے گی کیوں کہ انہوں نے بہت محنت کی ہے اور محنت ہمیشہ رنگ لاتی ہے۔
ماہیاہماری شاعری کی ایک نہایت حسین اور دلآویز صنف ہے۔لوک کہانیوں کی طرح ماہیابھی ہماری روایت میں رچا بساہے۔شہروں سے کہیں زیادہ ماہیا مضافات میں مقبول ہے‘خاورچودھری بھی مضافات سے تعلق رکھتے ہیں‘اور وہ جہاں کے باسی ہیں‘وہاں پرلوک ورثہ کی روایت بڑی مضبوط رہی ہے‘ ان کے ہاں رومانیت‘ حزن وملال اوردیہات کی ٹھنڈی اور نرم مٹی کی پرچھائیوں کے کلرایک عجیب بہار دیتے ہیں‘انہوں نے ہجرکے کرب اورآنسوؤں کی نمی کواپنے ماہیوں کاحصہ بنادیا ہے‘ اردوماہیامسلسل ارتقاکی طرف گامزن ہے‘ خاور چودھری ماہیے کی رْوح میں بیٹھ کر لکھتے ہیں‘ان کے اکثرماہیوں کی Winsomenessدیکھنے کے لائق ہے۔
محبت ان کابنیادی استعارہ ہے‘انہوں نے اس کا استعمال نہایت مہارت اورقرینے سے کیاہے یوں لگتاہے جیسے انہوں نے اپنے خیالات کوایک داستان میں ڈھال دیاہو جس سے ان کے ماہیے پڑھتے ہوئے ایک گہراکیف ملتاہے۔
خاورچودھری کاشعری مستقبل یقیناتابناک ہے ان کی ماہیے کے ساتھ وارفتگی اورment Commit ان کے آئندہ کاپتہ دیتی ہے‘اللہ کرے مرحلہء شوق نہ ہوطے۔
’’ٹھنڈاسورج‘‘خنک تمازتیںکے عنوان سے پروفیسرمحمداعظم خالد کے خیال میں وہ لوگ فی الواقع عظیم ہوتے ہیں جوکسی دیارغیرسے آنے والے مسافر کو پذیرائی بخشتے ہیں‘اسے سینے سے لگاتے ہیں۔ذاتی غرض وغائت سے ماوراء ہوکرفرض مشاطگی نباہتے ہیں۔خاوربھی ایک ایساہی باغباں ہے جس نے جاپانی ادب سے وطن عزیز میں قدم رنجہ فرمانے والی صنف شعر ہائیکو کو کھلی بانہوں خوش آمدیدکہا۔ اور اردو کے موئے قلم سے اس کی نوک پلک سنوارنے اورخال وخط اجالنے کابیڑااٹھایا۔ بلاشبہ چند صاحبان فن اس کار خیر میں پہلے سے مصروف عمل تھے اورخاور بھی اسی تسلسل کی کڑی ہے۔مگرخاورکااعزازیہ ہے کہ انہوں نے خالصتاًطبع زادہائیکوکی ترویج کواپنا شعار بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ خامی سے خوبی اوربرائی سے اچھائی کاپہلونکالنا صنّاع کائنات کی قدرت کاملہ کااٹل ثبوت ہے۔اوریہ خیال بھی واثق ہے کہ Ignorence is Blessing ایک آفاقی سچائی ہے۔ سوخاورکاجاپانی زبان سے ناآشناہونابھی اس لحاظ سے ایک نعمت ثابت ہواکہ انہوں نے جوبھی لکھاصرف اور صرف طبع زاد ہے۔اورترجمے کے الزام سے مبرّا ہے۔
یہ ایک طرفہ تضادہے کہ جب بھی ہائیکوکاذکرآتاہے پنجابی ماہیے کاحوالہ بیچ میں آجاتاہے۔حالانکہ ہر دو اصناف میں نہ صرف بہت بعدہے بلکہ اپنی بنیادکے لحاظ سے دونوں اصناف یکسرایک دوسرے کے متضاد ہیں ۔ پنجابی ماہیا(اوراب تو اردو ماہیا بھی ادب میں آ گیاہے)قدیم اروغزل کی طرح ذاتی جذبات اوردلی کیفیات کا مظہرہے۔یہ صنف دل کے ڈونگھے سمندروں میں اٹھنے والے ابال کااظہارہے۔جبکہ ہائیکو اپناتمام ترموادخارج سے وصول کرتی ہے۔ جب فطرت کادست لطیف دردل پر دستک دیتاہے توماہیا وجود میں آتا ہے۔مگرجب فطرت کی صنّاعی خارجی عوامل کے ذریعے آنکھ کے راستے روح میں گھر کرتی ہے توہائیکوتخلیق ہوتی ہے۔ اور خاور کے ہائیکو قدرت کے خارجی مظاہرکے حوالے سے کیفیات قلبی کے اظہار کابہترین مرقع ہیں‘ کتاب کا عنوان ’‘ٹھنڈا سورج’‘اس لحاظ سے اسم بامسمّیٰ ہے کہ ایک توصاحب کتاب کانام خاور ہے دوسرے جاپان کوچڑھتے سورج کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ کتاب میں جابجا سورج‘ سیمگوں گلاب‘دردکی ردا‘شبنمی اجالے ‘ پربتوں کے ریشے‘ کوہکن کے تیشے ‘حسن کی کرنیں‘ آنسو بونا‘ دھوپ کی چادر‘برف کابستر‘جیون امرت اورایسی بے شمار تراکیب ان ہائیکوزمیں اردوفارسی کارنگ تغزّل بھرکرقاری کے ذوق لطیف کوطمانیت بخشتی ہیں۔البتہ غزل کی ایک اورروایت یعنی شورقلقل مینااورپیمانہ و شیشہ کی کھنک سے یکسراغماض برتا گیا ہے۔دوسری طرف تین مصرعوں میں ایک مکمل پیغام قاری کے ذہن میں غیرشعوری طورگھرکرجاتاہے۔اورایک شاعریاکسی بھی فنکار کا سب سے بڑااعزازہی یہ ہے کہ وہ اپناپیغام غیرمحسوس طریقے سے سامع کے گوش گذارکردے۔
جو ن ایلیانے ایک جگہ لکھاتھا:
نظرپہ باربن جاتے ہیں منظر
جہاں رہیووہاں اکثرنہ رہیو
اس خیال کوخاورنے ہائیکوکے لباس میں یوں پینٹ کیاہے۔
زندہ آنکھیں تو
منظرروزہراچاہیں
ڈھونڈنیااک میت
شاعرجاپانی صنف ادب سے متاثرضرورہے مگرمغلوب نہیں۔ جابجااپنی مٹی سے محبت اوراپنی مٹی سے موادکشیدکرناشاعر کی کمٹ منٹ کابین ثبوت ہے۔مثلاً
منظر ‘ منظر دھول
اجلے چہرے ‘کالے لوگ
مشکل ہے پہچان
جینا جیسے موت
جلتی ریت میں زندہ ہے
بھٹیارن کا دکھ
ایسی بہت سی اصطلاحات اورتراکیب اپنی مٹی سے محبت اوراپنی ثقافت سے لگاؤ کا مظہر ہیں جن کاوجودکسی دوسری سوسائٹی میں مفقودہے۔کتاب کے دوسرے حصے میں اردوماہیے ہیں‘جن میں فکری عنصرغالب ہیں ۔ جوشاعرکی فکری بالیدگی کاغمّاز تو ہے۔مگراصل ماہیے کاکھراپن توا سکے کچے پن سے مستور ہوتا ہے۔ یہ توان لوگوں کے دلوں کی دھڑکن کی صداہوتی ہے جوشہری دانش سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔
بانجھ بدلیوں نے پھر
گھول کرپیاسْورج
سانس ہوگئی ٹھنڈی
کیا خوبصورت بات کی بانجھ بدلیوں نے پھر ذومعنی بات بھی کی جو ایک گہرا تاثر رکھتی ہے۔
تیرگی کی بارش میں
جل مرے زمانوں کی
داستاں سنائے چاند
شہرخواب اْجڑاتو
ماند پڑگئی جیسے
روشنی ستاروں کی
اپنے دکھو ں کا ذکر کیا تو درد کی ردا میں خود کو لپیٹ کر۔
وقت توگذرتاہے
چھوڑووصل کی باتیں
خودسے کیوں اْلجھتے ہو
محبوب کی یاد کا ذکر یوں کرتے ہیں۔
سردیوں کاموسم ہے
کاٹتی ہے تنہائی
پھر وہ یادآیاہے
ایک اور جگہ یو ںگویا ہوتے ہیں۔
جب تم یاد آئے
گونگے خواب ہی کاشت کئے
بنجر آنکھوں میں
اہتمام کر لینا
سْورجوں کی بستی میں
رات نے اْترناہے
رسیلے ہونٹوں کا ذکر کرتے ہو ئے کہتے ہیں۔
ہونٹ ترے شہتوت
میں صدیوں کاپیاساہوں
دیکھ! نہ کر انکار
اٹھتی جوانی پر عاشقوں کی بات یوں کی ہے۔
مجبور جوانی پر
شہر امڈ آیا
اک رات کی رانی پر
حسنِ جاناں کی تعریف یوں کرتے ہیں۔
وہ چاند سی پیاری ہے
جان چھڑکتی ہے
اک ایسی بھی ناری ہے
جلتا ہواتن دیکھا
چاندکی بارش میں
بے تاب بدن دیکھا
سکھیوں کوپکارآئی
یارکے آنے سے
پنگھٹ پہ بہارآئی (13)
’’ٹھنڈا سورج‘‘ سے چند ہائیکو پیش کیے گئے امید ہے قاری کو پسند آئیں گے۔
محاصل:
1۔ ہائیکو کی تاریخی اہمیت معنی و مفہوم وضاحت طلب تھے جو واضع ہو گئے ہیں اور ہائیکو کے بارے میں تمام شکوک و شبہات بھی دور ہو گئے۔
2۔ مختلف مقالاجات کی روشنی میں موضوع کی اہمیت بھی اجاگر کر دیا گیا ہے۔
3۔ اس جاپانی صنفِ سخن کو بر صغیر میں واضع طور پر لکھا اور پڑھا جا رہا ہے۔
4۔ بلوچستان کے شعرا نے بھی اس کو کامیابی کے ساتھ لکھا ہے۔
5۔ پاکستان میں اب ہائیکو کے مشاعرے تقریباً ختم ہو چکے ہیں کتاب کی صورت میں ضرور ہائیکو لکھی جا رہی ہے مگر مشاعروں میں رجحان ختم ہو چکا ہے۔
6۔ جاپان کی حکومت نے بھی اُردو کی ترویج و ترقی کے لئے بنیادی طور پر علاقائی مشاعروں میں یا قومی مشاعروں میں مالی معاونت ختم کر دی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ہائیکو اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
7۔ ہائیکو مشاعروں کا پھر سے آغاز کیا جا سکتا ہے اگر حکومتِ جاپان چاہے تو۔
حوالہ جات:
1۔ اُردو نک ڈکشنری
http://www.urduinc.com/encyclopedia?catid=51&Word2Cat
JunctionID=11441&id=51
2۔ http://www.jahan-e-urdu.com/hyko-and-urdu-
poetry-by-prof-rahmat-yousuf-zai/
3۔ ایضاً
4۔ ڈاکٹر، رفعت اختر، ’’ہائیکو تنقیدی جائزہ‘‘نازش بک سنٹر دہلی، جولائی 1993ء ص17
5۔ ڈاکٹر، رفعت اختر، ’’ہائیکو تنقیدی جائزہ‘‘نازش بک سنٹر دہلی، جولائی1993ء ص19-20
6۔ جناب سہیل احمد صدیقی کا مضمون َhttp://gmkhawar.net/?p=4679
7۔ ہماری ویب پر جناب ڈاکٹر ریاض کا مقالہ
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=39382
8۔ ایضاً
9۔ ایضاً
10۔ ہماری ویب، ڈاکٹر نصیر احمد ناصر کا آرٹیکل
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=63275
11۔ ایضاً
12۔ :https://www.tebyan.net/index.aspx?pid=151962
13۔ : https://www.urduweb.org/mehfil/threads/12690
****
Leave a Reply
2 Comments on "ہائیکو (جاپانی صنفِ سُخن)"
http://gmkhawar.net/?p=4679
صمیم قلب سےشکرگزارہوں