اردو ترجمہ کی روایت اور ا صول

ڈاکٹرمحمد عامر اقبال

معلم شعبہ اردو،چناب کالج جھنگ ،جھنگ،پنجاب،پاکستان

(0092-336-6584487)(0092-301-5516347) Email: amirmphil69@gmail.com

ABSTRACT

This article has highlighted the importance of translation. Translation facilitates study for those who do not know the language of the book. Translation done by the heart and mind will be considered as real thought. The importance, significance and utility of such translation is the best of the original.This article is adorned with the expert ideas of many literary scholars. Problems and difficulties encountered in the way of translation are inevitable. A special kind of ability is required to deal with them. Studying this article will be very helpful for the students. Translation skills are very complex. Translation requires familiarity with several languages. Translator must be familiar with human psychology. One can easily understand the other languages, but it is difficult to understand the ideas and thoughts in another language and to interpret them. Translation brings humans closer and increases international ties. The process of translation leads to the discovery and identification of human civilization, behaviour and history. The translation is related to the original work as it is to the astronomy of shooting star. The purpose of translation is to enable translators to translate different ideas and thoughts into different languages. There should be no hate aspect in the translation. In case of criticism, the language should be very polite and the choice of words should also be excellent. Honesty and sincerity must be kept in mind. It is important for the translator to have a taste. Translation is also a key document for future generations. Its safety is very important. Translation should be protected as part of national and cultural traditions. Otherwise the literary treasure will be devoid of great thought. Literary experts from Pakistan and India have proved their mettle in the art of translation.

This continues till date and we must protect this heritage.

KEYWORDS:  Tradition and rules of translation .

اس مضمون میں ترجمے کی اہمیت پر روشنی  ڈالی گئی ہے ۔ ترجمہ اُن افراد کے لیے مطالعہ کی سہولت مہیا کرتا ہے جو کتاب کی زبان سے واقف نہ ہوں۔خونِ جگردے کر جو ترجمہ ہو گا اس پر اصل کا گمان  ہو گا۔ایسے ترجمے کی وقعت، اہمیت اور افادیت اصل کے برا بر ہوتی ہے۔

                ترجمے کی افادیت اور ترجمے کے اصولوں پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ تراجم کا فائدہ یہ ہے کہ جتنے زیادہ ہوں اتنے ہی افکار کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور غوروفکر کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔ ترجمہ چونکہ ان افراد کے لیے بھی مطالعہ کی سہولت مہیا کرتا ہے جو کتاب کی زبان سے واقف نہیں ہوتے۔ اس طرح ہر قاری جب کتاب پڑھ کر اس پر رائے زنی کرتاہے یا کوئی تبصرہ کرتا ہے تو اس کی سوچ کے دھارے کا معیار بھی سب کے سامنے آجاتاہے ۔

کسی خیال کو دوسرے تک منتقل کرنا ترجمہ کہلاتا ہے۔ صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں بات کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوتا۔

 Translationکا لفظ مغرب کی جدید زبان میں “Latin” لاطینی سے آیا ہے۔ اس کے لغوی معنی ہیں “پارلے جانا”یہ لفظ نقل مکانی سے لے کر نقل معانی تک پھیلا ہوا ہے۔ اردو اور فارسی میں ترجمے کا لفظ جس کا اشتقاقی رابطہ ترجمہ اور مترجم دونوں سے ہے بالکل ویسے ہی اردو اور فارسی زبان میں لفظ  ترجمہ، ترجمان اور مترجم دونوں سے مشتق ہے دراصل یہ لفظ عربی الاصل ہے۔ مختلف لغات میں اس کے الگ الگ معانی درج ہیں۔ عربی زبان میں اہل لغت اس کے لیے چار معانی درج کرتے ہیں اس میں “دوسری زبان سے نقل کلام”۔ “تفسیرو تعبیر دیباچہ”کسی شخص کا بیان احوال”یا “تذکرہ شخصی “ہے۔

                امریکہ میں ترجمے کے لیے دوبارہ تخلیق (Recreation)کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اصطلاح میں کسی دوسری زبان کے فن پارے کو اپنی زبان میں ڈھالنا ترجمہ کہلاتاہے۔ فن ہمیشہ انسانی دخل کے بغیر نہ تو ظہور پزیر ہوسکتا ہے اور نہ ہی وجود میں آسکتا ہے۔ فن خود کو فطر ت کی حیرت سے آزاد رکھتا ہے۔ اس لیے اسے انسان کی ذہنی وشعوری کاوشوں کا حاصل قرار دیا جاتا ہے ۔ ہر فن کی لطافت انسان کی محنت، ریاضت اور خلوص کی آئنہ دار ہے۔

                دنیا بھر کے ادبیات میں “طبع زاد”ترجمہ کی اصطلاحات رائج ہیں ۔اس طرح ترجمہ بھی ادب کا حصہ ہے۔ اگرچہ دوسری زبان سے ماخوذ ہونے کی وجہ سے اسے الگ پہچان دی جاتی ہے۔ ترجمہ کسی مشن کو دوسری زبان میں منتقل کرتے ہوئے اس کی تعبیر کرنا ہے ۔ ترجمے کا عمل ایک علمی پیکریا ادبی پیکر کو دوسرے علمی یا ادبی پیکر میں ڈھالنے کا عمل ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عالم گیر تہذیب (Global Civilization)کی ایک مضبوط صورت کو معرض وجود میں لانا ہو تو سب سے پہلے ترجمہ ہی ممدو معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ ترجمہ ہی غیر زبان کے علم اور اقدار حیات کوصحیح معنوں میں منعکس کرسکتا ہے۔ فن ترجمہ کی غرض و غایت کو جاننے کے لیے لازمی ہے کہ مختلف مفکرین کی آراء سے استفادہ ضرور کیا جائے۔ ترجمے کی تعریف و توصیف کچھ ان الفاظ میں بیان کر سکتے ہیں۔

ـ’’ترجمہ ایک برتن سے دوسرے برتن میں (کسی سیال مادے کو)انڈیلنا یا ایک پرانی شراب کو نئی بوتل فراہم کرنا ہیـ‘‘(1)

ترجمے کے عمل کی وضاحت کچھ اس طرح بھی کی جا سکتی ہے:

ـ’’کسی تحریر ، تصنیف، تالیف کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنے کا عمل ترجمہ کہلاتا ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ ترجمہ کسی متن کو دوسری زبان میں منتقل کرتے ہوئے اس کی تعبیر کرنا ہے ۔ یعنی ترجمے کاعمل ایک علمی یا ادبی پیکر کو دوسرے پیکر میں ڈھالنے کا عمل ہے‘‘(2)

ایک قدیم یونانی مقولہ ہے کہـ:

                ’’ترجمہ ایک بھنی ہوئی سڑابری (Strawberry)ہے‘‘

                اب جو بھی ترجمہ کے فن سے ذرابھی شغف رکھتا ہے اور بھنی ہوئی سڑابری  (Strawberry)سے واقف ہے یہ ضرور محسوس کرے گا کہ یہ مقولہ ترجمے کے فن کے ساتھ پورا پورا انصاف کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب ہم شیکسپیئر کا ڈرامہ پڑھیں اور اس کے بعد ڈرامہ کا ترجمہ دیکھیںتو غصے کے عالم میں یہ محسوس کریں گے کہ بھوننے کے عمل کے دوران تبدیلی واقع ہو گئی۔ لیکن اس سے مفر نہیں ہے کہ ترجمہ ایک ایسا دریچہ ہے جس سے دوسری قوموں کے احوال ہم پر کھلتے ہیں ۔ ترجمے کو ادبی قدرو قیمت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم کے ساتھ وہ آب ورنگ وہ مٹھاس، وہ خوش بو اور وہ لطف بھی آجائے جو اصل عبارت میں موجود تھا۔ ترجمہ ہر دور میں ہر زبان کی اہم ضرورت رہا ہے ۔ یہ مختلف اقوام، زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان پڑے ہوئے اجنبی پن کے پردوں کو چاک کر کے انہیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے اور ہر زبان کی ترقی، پھیلائو اور وسعت میں بھی معاونت پیداکرتا ہے۔

                کوئی بھی فن ہو اس میں کمال پیدا کرنے کے لیے خون جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔ خون جگر دے کر جو ترجمہ ہوگا اس پر اصل کا گمان ہوگاایسے ترجمے کی وقعت، اہمیت اور افادیت اصل کے برابر ہوجاتی ہے ۔ چونکہ فن سچائیوں کا مرقع ہوتا ہے اس لیے اس کی پوری پیش رفت سچائی سے عبارت ہونی چاہیے۔ فن ترجمہ میں اس پہلو کی اور زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ بوجہ یہ کہ ترجمہ ایک مشکل، ادق اور کٹھن عمل ہے ۔ محققین اور مدبرین نے تو اسے صبر آزماکے ساتھ ساتھ مرد آزما بھی قرار دیا ہے ۔ ذـرا دیکھیے:

ـ’’ترجمہ نہایت صبر آزما بھی ہے اور مرد آزما بھی ۔ اس کا سب سے کٹھن تقاضا یہ ہے کہ ہر لفظ ، ترکیب ، استعارہ، تمثال ، فقرہ اور محاورہ کو جملہ اشارات و کنایات ، اور مضمرات کے ساتھ جو بین السطور میں ہوں بعینہٖ کیا جائے جس میں منجملہ دیگر امور کے اسلوب، آہنگ اور لب و لہجہ کو بھی دخل ہے ۔ اس لیے سو فیصد برجستہ الفاظ درکا ر ہوتے ہیں‘‘(3)

                ترجمہ کوئی معانی اور مطالب کی بجا آوری کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے تقاضے فن پارے میں موجود جذبات اور تاثرات کی منتقلی تک پھیلے ہوتے ہیں۔ اس لیے فن ترجمہ کے معانی سے اٹھ کر احساس کی سطح تک رسائی ازحد ضروری ہے۔ وگر نہ ترجمہ اپنے اصل حسن سے محروم رہے گا۔ ترجمے کا فن کسی حد تک مشکل بھی ہے۔ اس کے ادق ہونے کے حوالے سے ادبی ماہرین لکھتے ہیں:

ـ’’ترجمے کا کام یقینا ایک مشکل کام ہے ۔ اس میں مترجم مصنف کی شخصیت ، فکر و اسلوب سے بندھا ہوتا ہے ۔ ایک طرف اس زبان کا کلچر، جس کا ترجمہ کیا جارہا ہے، اسے اپنی طرف کھینچتا ہے اور دوسری طرف اس زبان کا کلچر جس کا ترجمہ کیا جارہا ہے، یہ دوئی خود مترجم کو توڑدیتی ہے‘‘(4)

                ترجمے کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں بہت زیادہ صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ متن کی زبان اور اپنی زبان تو آنی ہی چاہیے۔ اس موضوع سے بھی طبعی مناسبت درکار ہے جو متن میں موجود ہے ۔ مصنف سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی مماثلت لازمی ہے۔ ترجمے کا فن مشکل کیوں ہے؟ اس کی جو بھی وجہ ہو مگر ایک وجہ ضرور ہے کہ ادب زندگی کے جملہ زاویوں اور منطقوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور زندگی خود پیچیدہ، مبہم اور عجیب تضادات کا مجموعہ ہے ۔ اس کے ہزار پہلو ہیں ہر فرد اپنی جگہ ایک کائنات ہے۔ ہر فرد اپنے اند ر ایک جہان رکھتا ہے اس  کے جذبات اور محرکات، عقاید اور توہمات، نفرتوں اور محبتوں سے انصاف کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے الفاظ نہیں ملتے ہمیں اپنی کائنات کی حدود تک کا علم نہیں۔اور اب تو یہ بھی خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایسی لاتعداد کائناتیں اور بھی ہیں۔

                زندگی اتنی بے کراں ہے کہ ادب اور فنون کبھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتے ۔ بڑے سے بڑے ادیبوں ، شاعروں اور فنکاروں نے اسے بس کہیں سے چھوا ہے۔ اس بحرنا پیدا کنار کی لہروں کے صرف چھینٹے ان پر پڑے ہیں ۔ لیکن اس کم رسائی میں مایوسی کا کوئی پہلو نہیں ۔ زندگی سے عشق کرنے کا جو سلیقہ ادب اور فنون نے ہمیں سکھایا ہے وہ اپنی جگہ بے مثال ہے۔ زندگی جس قدر پرپیچ رجحانات اور عجائبات سے عبارت ہے اس قدر تخلیق بھی مبہم اور متنوع ہے اس لیے کسی بھی تخلیق کا ترجمہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہر تخلیق یا فن پارہ زبان اور اس کے ثقافتی مظاہر مثلاً فکری، سیاسی ،اخلاقی ، معاشی ، تمدنی ، تاریخی، تہذیبی ، لسانی ، وراثتی اور ماورائی سے ترتیب پاتا ہے ۔ اس لیے اس کا ترجمہ کرنا نہایت مشکل عمل گردانا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ان جملہ لوازمات کی معنویت کو آشکار کرنا مترجم کے لیے صدہا مشکلات کا باعث ہوتا ہے۔

 اس لیے کہتے ہیں کہ :

ـ’’جب تک کوئی شخص متواتر اور پے درپے زبان کی نزاکتوں اور اسلوبیاتی نظام پر غور نہیں کرتا اور جب تک اپنے افکار کو مختلف اور گوناگوں انداز سے لفظوں کی معرفت سامنے لانے کی مشق بہم نہیں پہنچاتا۔ اس وقت تک وہ ترجمے اور تالیف کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہوسکتا‘‘(5)

                انسان جس قدر آسانی سے اپنی زبان میں افہام و تفہیم کرسکتا ہے دوسری زبان میں اتنا آسان نہیں ہوتا۔ مشرق و مغرب ہر ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے کی روایت بہت قدیم ہے۔ یہ بات مصدقہ ہے کہ جب کوئی قوم علوم وفنون میں ترقی کا پہلا قدم اٹھاتی ہے تو سب سے پہلے علمی زبانوں کے تراجم میں سے اپنی زبان کا سرمایہ بناتی ہے اور علمی خزانوں کو معمور کرتی ہے۔ کئی ایک دوسری سرگرمیوں کی طرح ترجمے کا عمل بھی انسان کو انسان کے قریب لاتا ہے۔ اور زمین کی سرحدیں پھیلاتا ہے۔

                تراجم کا عمل انسانی تمدن، مزاج اور تاریخ کی دریافت اور شناخت کا بھر پور ذریعہ ہے۔ انسان جو رنگوں ،زبانوں اور جغرافیائی بندشوں، سیاسی تفرقات کی بدولت انسان ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہے۔ ترجمے کے ذریعے ایک زبان کو دوسری زبان کے حروف تہجی میں ڈھالنے سے انسانی سطح پر ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرتا ہے۔

                زبان کی توسیع، تمدن کا تعارف، انسانی کائنات کی دریافت اور تاریخ سے آگاہی کے لیے ایک سے زیادہ زبانوں سے واقفیت ضروری ہے ۔ مترجم ایک ایسا کردار ادا کرتا ہے جو خارج کے مصنف کے ساتھ ساتھ داخل کے مصنف کو بھی ڈھونڈ نکالتا ہے ۔ترجمے کی بدولت قومیں اور تہذیبیں جغرافیائی حد بندی کے بعد بھی ایک دوسرے کے قریب تر ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حالات و واقعات سے آشنا ہیں ۔ ترجمے کے ذریعے انسان دیگر تہذیبوں کو پہنچاننے لگتا ہے ۔ ترجمہ کا تعلق اصل تصنیف سے وہی ہوتا ہے جو شہاب ثاقب کا نجوم و کواکب سے ہے۔ یہ بھی اکثر اوقات ایک نہ ایک سیارے سے جدا ہو کر تاریخ کے کسی نہ کسی ریگستان میں گم ہوجاتا ہے یا پھر اپنے دائرہ کے کشش ثقل میں گرد ش کرتے کرتے خود بھی چھوٹا موٹا سیارہ بن جاتا ہے۔

                ترجمے کے ذریعے زبان پھلتی پھولتی ہے۔ ترجمہ نئے الفاظ و تراکیب کے ذریعے انسانی علوم میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اور ذہنی سرحدوںکو کشادگی فراہم کرتا ہے۔ ترجمے کے ذریعے زبان کئی طرح پھلتی پھولتی ہے اور اسی طرح کئی طرح کی خوبیاں ترجمے کے مضامین کے حوالے سے پیدا ہوتی ہیں الفاظ کے معانی، مضمون کی روح کا دوسری زبان میں منتقل ہونا۔ یہ سب ترجمہ کی خصوصیت ہے۔

                اگر ترجمہ کی روایت نہ ہوتی تو دنیا میں بے چینی پروان چڑھتی۔ ترجمہ انفرادی طور پر بھی ضروری ہے اور اجتماعی طور پر بھی ۔ایک ملک یا ایک کلچر کے خیالات کو دوسرے ملک یا کلچر کی زبان کے مطابق ڈھالنے کو ترجمہ کہتے ہیں۔ فارسی اور انگریزی زبانوں نے جب فکر و جذبات کے دیسی طریقوں سے اپنے آپ کو قریب کرنا چاہا تو ترجموں سے کام لیا۔ ترجمہ جو کہ ایک مشکل عمل ہے اس میں کامیابی کے لیے ترجمہ کی روایت کو پروان چڑھانا ضروری ہے۔

                کسی دوسری زبان سے اردو زبان میں کوئی کہانی، داستان، فکر ، فلسفہ یا دیگر افکار نہ تو کوئی گناہ کی بات ہے اور نہ ہی ایسا کرنے پر کوئی اعتراض ہے۔ بلکہ اردو زبان کے لیے یہ برکت و سعادت کی بات ہے کہ اس زبان میں مزید افکار و نظریات اور علمی کاوشوں کا اضافہ ہوگا۔ عصر رواں میں اگر اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ترجمہ شدہ افکار ،نظریات اور خیالات سے کیونکر مستفید ہوا جاسکتا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جو عصر حاضر میں اردو زبان و ادب کے لیے موثر ثابت ہوسکتے ہیں۔

                ترجمے میں یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ایک ہی بات کو بہت سے افراد کی طرف مختلف رنگ دے کر بیان کر دیا جاتا ہے۔ ترجمے میں ایسی بات بہت سے ابہام پیدا کردیتی ہے۔ یہ کوئی نئی اور عجیب بات نہیں ہے ۔ ہمارے بہت سے سیاسی مفکرین کے بیانات کو تراجم میں اس طرح توڑاور مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ عوام خود حیران اور پریشان ہیں اور سوچ بچار کے سمندر میں غوطہ زن ہیں کہ ہمارے رہنما دراصل کہنا کیا چاہتے ہیں اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے مترجمین نے ہر ترجمہ میں خاص خیال رکھا ہے ۔ آج انگریزی افکار اور نظریات کو اردو زبان میں منتقل کرنے اور انہیں اردو زبان میں سمجھنے کی استعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ وہ ترجمہ جو انگریزی سے اردو میں کیا جائے گا اسے اگر لفظ بہ لفظ کریںگے تو وہ (Faith Full)یا باوفا تو ہوگا مگر ایسا ترجمہ ادبی خوبیوں سے عاری ہوگا ۔ ایسے ترجمے کے حوالے سے کرنل محمد خان اپنی تصنیف “بدیسی مزاج”میں لکھتے ہیں:

’’صحیح ترجمہ تو غالباً اسی کو کہا جاسکتا ہے جو لفظ بہ لفظ کہا گیا ہو جسے انگریزی میں “Faith Ful(باوفا )  ترجمہ کہا جاتا ہے ، مگر ایسا ترجمہ ادبی محاسن سے عاری ہوتا ہے یعنی خوبصورت نہیں ہوتا۔ اسی رعایت سے ایک مغربی دانشور کا قول ہے کہ (خواتین سے ہزار معذرت کے ساتھ) ترجمہ عورت کی مانند ہے، اگر بہت خوبصورت ہو تو عموماً Faith Ful(باوفا) نہیں ہوتی اور وفادار ہو تو ایسی خوبصورت نہیں ہوتی‘‘(6)

نثری تراجم بھی ہوتے ہیں اور شاعری کے تراجم بھی ہوئے ہیں ۔ تراجم کے مقاصد ہیں بھی صرف یہ کہ مترجم اپنے افکار اور نظریات کو دوسرے زبان سے اپنی زبان میں منتقل کرسکے۔ ان میں الفاظ کے معانی بھی ہوں گے اور فکرو فلسفہ بھی ۔ ہر مترجم اپنی بھر پور کوشش کرتا ہے کہ دیگر زبانوںمیں شامل اچھے افکار اس کے اپنے افراد تک بھی پہنچیں مگر ان زبانوں سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اچھی باتیں آگے نہیں پہنچ پاتیں۔ ترجمہ نویس یہ فریضہ انجام دیتا ہے ۔ پروفیسر عبدالحق  اس حوالہ سے کہتے ہیںـ:

ـ’’انسانی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ اپنے نظریہ و خیال کی اشاعت چاہتا ہے وہ اپنے ایمان و عقائد کا حلقہ وسیع بنانے کی فکر میں ہمہ تن مصروف رہتا ہے۔ دوسروں کو ہم مشرب اور ہم راز بنانے کی جدوجہد میں دیوانگی کی حد تک بڑھ جاتا ہے جسے باعث خیر اور موجب نجات سمجھتا ہے۔ یہی جدوجہد اور خواہش ترجمہ کی تحریک پیدا کرتی ہے اگر مخاطب ہم زبان اور ہم قلم نہیں ہے تو کسی مشترک زبان اور ذریعہ اظہار کا سہارا لینا پڑتا ہے‘‘(7)

مترجم جب ترجمے کا آغاز کرتا ہے تو اپنے ادب، مذہب، فکر اور فلسفہ کو بھی ملحوظ خاطر رکھتا ہے لکھنے والے نے بھی مکمل طور پر اپنی تصنیف میں اپنے افکار کا اظہار کیا ہوگا ۔ جب ہم ترجمہ کریں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ تنقید میں نفرت کا پہلو نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے انتہائی شستہ لہجہ اختیار کیا جائے کیونکہ لہجہ ایسی چیز ہیجس سے دلوں کا بغض اور نیتوں کا فتور عیاں ہو جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے حوالہ سے بات اس انداز سے کی جائے کہ اس میں نفرت کا عنصر نہ ہو۔ دوسروں کے عقائد کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ تراجم میں سب سے مشکل ترجمہ شاعری کا ہے۔ ڈاکٹر انور سدیدنے مولانا صلاح الدین احمد کے حوالہ سے لکھا ہے:

ـ’’اگر چہ نثر میں نہیں بلکہ نظم میں ہو تو مترجم کی مشکلا ت میں اضافہ ہوجاتا ہے اول تو خود شعر ہی ایک ناقابل ترجمہ چیز ہے اگر کسی طرح آمادہ انتقال کر بھی لیا جائے تو دوسری زبان کا ساغر اس شرابِ غریب کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیتا ہے‘‘(8)

اس کے باوجود بہت سے ایسے تراجم ہیں جو دوسری زبانوں میں بھی ہوئے ہیں اور شاعری سے نثر میں بھی منتقل ہوئے ہیں اور ان کا مقام بھی بہت بلند ہے۔ اقبال کے “اسرار و رموز”کے علاوہ دیگر شاعرانہ اور نثری تصانیف کے تراجم کی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ “دیوان غالب اردو”سے غالب کی غزلیات کا انگریز ی زبان میں ترجمہ ہوا ہے ۔ خواجہ طارق محمود جو پیشے کے اعتبار سے تو انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے مگر ادبیات سے گہری دلچسپی رکھتے تھے ۔ آپ نے غالب کی غزلیات کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ پروفیسر عبدالحق اس ترجمہ کے حوالے سے لکھتے ہیںـ:

’’مترجم نے بہت حد تک مغرب کے مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش ہر جگہ بار آور ہے، کہنا مشکل ہے مگر قریب تر رسائی کی کوشش کو ایک مستحسن قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں غالب سے زیادہ انس ہے اور کلام غالب سے وہ زیادہ متاثر ہیں۔ ہونا بھی چاہیے کیونکہ مختصر دیوان میں زندگی اور کائنات کے وسیع تر امکانات اور موضوعات محفوظ ہیں ۔یہ اختصار بھی حیرت خیزی کا سبب بنتاہے۔‘‘(9)

                فارسی شاعری کا ترجمہ آسان نہیں ہے خاص طور پر غالب کی فارسی شاعری کے ترجمے پر نظر نہیں پڑی ۔ترجمے کی افادیت یہی ہے کہ دوسری زبان میں پوشیدہ افکار ، نظریات اور خیالات کو اپنی زبان میں بھی منتقل کیا جائے اور لوگ ان سے استفادہ کرسکیں ۔ ترجمہ چاہے قرآن کا ہو یا حدیث کا، انجیل کا ہو یا بائبل کا، کسی مذہبی تصنیف کا ہو یا ادبی شاہ پارے کا، کسی شاعرانہ تخلیق کا ہو یا کسی قانونی دستاویز کا، ہر ترجمہ خاص اہمیت کا حامل ہو تا ہے ۔ کسی کی اہمیت و افادیت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ترجمہ نگار کے لیے لازم ہے کہ اس کام پر انتہائی دیانتداری کی راہ اختیار کرے۔

                ترجمہ آنے والی نسلوں کے لیے بنیادی دستاویز کی حیثیت بھی اختیار کر سکتا ہے اس لیے اس کی حفاظت بھی ضروری ہے جو قومیں اچھے ترجمے کو اپنی عمدہ روایات کا حصہ نہیں بناتیں، ان کا ادبی خزانہ عمدہ فکر سے بھی خالی رہتا ہے۔ اردو ادب کا خزانہ تراجم سے تنہا نہیں ہے پاکستان اور ہندوستان کے ماہرین نے اپنی بساط کے مطابق ترجمہ نگاری کے فن میں اپنا لوہا منوالیا ہے ۔ اور ہنوزیہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

                ترجمہ نگاری کے کام میں دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے الفاظ، تراکیب، معانی ، ضرب المثل، محاورات اور تشبیہہ، استعارہ و غیرہ کے لیے موزوں الفاظ کا چنائو کوئی ماہر مترجم ہی کے بس کی بات ہے اور پھر صرف یہ ہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ فکر کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے ۔ اصل بات تو فکر کی ہوا کرتی ہے ۔ اصل پیغام کا پہنچنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر پیغام ہی نہ پہنچ سکے تو ایسے ترجمے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ترجمے کرنا تو پل صراط پر چلنا ہے۔ ترجمے میں غلطی کے باعث مترجم کو ہدف تنقید بننا پڑتا ہے۔ پروفیسر عبدالحق نے ڈاکڑ نکلسن اور این مری شمل کے حوالہ سے لکھا ہے:

’’ڈاکٹر نکلسن کو اسرار خودی کے ترجمہ میں ایک مقام پر غلطی کے سبب ہدف تنقید بننا پڑا۔ ڈاکڑ اینمری شمل بھی غلطی سے دوچار ہوئیں اور نہ جانے کتنے مترجمین مرتکب ہوئے۔ ترجمہ کی پُرخطر راہوں سے دامن بچا کر گزرنا پل صرا ط سے کم نہیں ہے‘‘(10)

                ترجمے سے کوئی ایسی منفی بات پروان نہیں چڑھنی چاہیے جس سے دوسروں کے فکر و فلسفہ پر اثر پڑتا ہو۔ اس لیے ترجمہ کے چند اصول ہیں ۔ ترجمہ کرتے وقت ان قوانین کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ترجمہ نویسی ایک مشکل فن ہے ۔ اس میں کامیابی کے لیے صاحب ذوق ہونا ضروری ہے ۔ مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں زبانوں سے واقفیت رکھتا ہو۔ ترجمے کی اہمیت کسی تخلیق سے کم نہیں ہے۔ پروفیسر عبدالحق کہتے ہیںـ:

ـ’’ترجمہ کا مفہوم کسی خیال کا دوسرے تک منتقل کیا جانا ہے‘‘(11)

                ترجمہ کرتے وقت متن کا مفہوم سمجھا جاتا ہے اور ساتھ ہی اس مفہوم کو بھی مطلوبہ زبان میں ڈھالا جاتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں وجدان بھی کار فرما ہے۔ ماخذ متن کو سمجھنے کے لیے مترجم کو متن کی خصوصیت اور ساخت کا تجزیہ اور تشریح کرنا ہوتی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے لیے ماخذ زبان کی نہ صرف گرائمر، نحو، لفظیا ت اور محاورات وغیرہ کا علم ہونا بہت ضروری ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ زبان کی ثقافت سے آگاہی بھی اشد ضروری ہے۔ مترجم کو اس متن کے مطلوبہ زبان میں ڈھالنے کے لیے مطلوبہ زبان کا بھی اتنا ہی گہر اعلم رکھنا ضروری ہے۔

                مترجم کو چاہیے کہ اس انداز سے ترجمہ کرے کہ پڑھنے والا تحریر کو صاف صاف سمجھتا چلا جائے۔ قاری دوران مطالعہ وہی اثر قبول کرے جو تحریر کا اصل مدعا ہو۔ صرف لفظی ترجمہ ہی کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس سے گریز کیا جائے۔ آزاد ترجمانی انداز اختیار کیا جائے۔ مترجم کا کام ہے کہ وہ دوسری زبان کے اظہار کو اپنی زبان کے اظہار سے ملا کر ایک نئے اسلوب کے لیے راستہ ہموار کرے۔ ترجمہ ایسا ہونا چاہیے جو عام فہم ہو۔ ترجمے میں روانی ہونی چاہیے۔ ترجمے کے کچھ محرکات ہوا کرتے ہیں ۔ کچھ عوامل ہوتے ہیں جس کے باعث کوشش کی جاتی ہے کہ ترجمہ کیا جائے اس میں چاہے مادی فائدہ ہی سہی کہ نئی کتاب ترجمے کی صورت میں زر میں اضافہ کا باعث بنے۔ مگر اس کے برعکس اد ب میں اضافہ کا باعث ضرور ثابت ہوتی ہے پروفیسر عبدالحق لکھتے ہیں:ـ

ـ’’ترجمہ کے محرک عوامل میں بہت سے اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایمان و عقیدہ یا فکر و نظر کی اشاعت کار جحان سب سے زیادہ حاوی ہوتا ہے ۔ انسانی کمزوری ہے کہ اپنے افکار سے علم کو روشناس ہی نہیں کرنا چاہتا بلکہ منوانا بھی چاہتا ہے۔ یا اپنے حلقہ خیال کو وسیع تر بنانے کی مہم جوئی میں سرگرداں، خدمت دیں یا خدمت خلق کے ذوق سے سرشار اور اس مخصوص لڑیچر کی نشرو اشاعت میں بھی پوری تن دہی سے مصرو ف کار دکھائی دیتا ہے‘‘(12)

                ترجمہ چونکہ اپنے ادب میں اضافے کا باعث بنتا ہے اس لیے کوشش کی جائے کہ اس اضافے کو خوب تر بنایا جائے۔ ترجمہ نثری ہے تو تحت الفظ کا انداز ہو اور صرف خلاصہ نہ ہو بلکہ تفکرانہ پہلو واضح ہونا چاہیے۔ ترجمہ کا محاورہ زبان کے مطابق ہونا چاہیے۔الفاظ کے وزن، عبار ت میں الفاظ کی اہمیت ان تمام باتوں کو مدنظر رکھا جائے ۔ مترادفات کی تلاش بھی مترجم کو محنت کی طرف راغب کرے گی۔ اگر جملہ لمبا ہو جائے تو مترجم کو چاہیے کہ جملہ مناسب حد تک اس طرح ترجمہ کرے کہ پڑھنے والے کو بیزاری نہ ہو۔

                جب کسی بھی چیز کا ترجمہ مقصود ہو تو مترجم کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تکمیل کے بعد سب سے پہلے ایک مبسوط  مقدمہ قلم بند کرے اور قاری کو مقدمے کے مطالعے کی تلقین کرے۔ اس مقدمے میں مترجم اپنے ترجمے کی وضاحت کرے گا۔ ترجمے میں اختیار کیے گئے قوانین کی وضاحت پیش کرے گا، ترجمہ میں استعمال شدہ لغات، تراکیب، جس مصنف کی کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے اس کا لکھنے کا اندز، اس کے مقاصد، مترجم سب اپنے مقدمے میں لکھے گا۔ اگر ضرورت پیش آئے تو مترجم کو یہ بھی واضح کرنا ہوگا کہ جس کا ترجمہ کیا جارہا ہے وہ کسی لفظ کو کس طرح ادا کرتا تھا۔ مترجم اپنے مقدمے میں یہ بھی لکھے گا کہ اس سے پہلے اس کتاب کا کوئی ترجمہ ہوا ہے یا کتنے ترجمے ہوئے ہیں ا س کی خامیوں کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔

                اگر اشاعت نئی ہے تو مترجم اضافی پیش لفظ لکھ کرواضح کرے گا کہ یہ نئی اشاعت ہے۔ سابقہ اشاعت کی خامیوں، خوبیوں ، تبدیلیوں اور اضافوں کا ذکر بھی نئی اشاعت میں کیا جانا ضروری ہے۔مقدمے میں مترجم اپنی ان مشکلات کا ذکر لازمی کرے گا جن کا سامنا اسے کرنا پڑا۔ اس طرح مترجم کے کام میں خلوص، صداقت اور سچائی کا پہلو سامنے آئے گا اور ادب سے لگن بھی نظر آئے گی۔ مشکل کے وقت گھبرانا نہیں چاہیے اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ بعض اوقات کوئی جملہ ایسا سامنے آجاتا ہے جو پڑھا نہیں جاتا ۔ مفکرین اور ماہرین بھی اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ وقت نہیں دے پاتے، اس وقت بے دلی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ اس حالت میں تو کام چھوڑنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر انسان کو ایسے مرحلے تو کئی بار دیکھنے پڑتے ہیں اور ان سے مقدمے میں اچھی مثالیں قائم ہوتی ہیں اور پڑھنے والوں کو ترغیب حاصل ہوتی ہے کہ وہ مقدمہ کا مطالعہ بھی کریں اور ترجمہ نگاری کے کام میں دلچسپی بھی لیں۔

                ترجمہ نگاری میں مترجم کو الفاظ کے استعمال کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ ترجمے میں روانی ہونی چاہیے۔ ترجمہ دلکش اور دلچسپ ہونا چاہیے۔ ترجمہ برجستہ اور نفیس ہونا چاہیے۔ الفاظ بر محل ہونے چاہیں۔ ترجمہ مصنف کے مقاصد کو ضرور اجاگر کرتا ہو۔ ترجمے میں مصنف کے حقائق بھی واضح ہونے ضروری ہیں۔ عبارت کو زور بخشنے والے عناصر بھی ترجمے میں واضح ہونے ضروری ہیں۔ بہت سے ماہرین ادب نے ترجمہ کے میدان میں اپنے جوہر دکھائے منظوم ترجمے کا زاویہ نادر کا کوروی نے ابھارا تھا۔ ڈاکڑ انور سدید لکھتے ہیںـ:

ـ’’ان کا آفتا ب شہرت منظوم تراجم سے چمکا۔ ان میں سے “گزرے ہوئے زمانے کی یاد”غیر مقفّٰی شاعری کی ایسی مثال ہے جس کی تقلید بڑے پیمانے پر ہوئی ۔اس نظم کا ایک بند حسب ذیل ہے۔

اکثر شب تنہائی میں

 کچھ دیر پہلے نیند سے

گزری ہوئی دلچسپیا ں

بیتے ہوئے دن عیش کے

 بنتے ہیں شمع زندگی

 اور ڈالتے ہیں روشنی

میرے دل صد چاک پر ‘‘(13)

نظم “اوڈیسی”کا اردو زبان میں نثری ترجمہ ہوا جو “جہاں گرد کی واپسی”کے عنوان سے سامنے آیا ۔ مترجم محمد سلیم الرحمٰن نے انتہائی خوبصورت داستان کے انداز میں اس نظم کونثری انداز میں پیش کیا ہے۔ ناشر نے اس کے تعارف میں لکھا ہے:

ـ’’اس عظیم رز میے کا ہیرو (او دسیوس نہ کوئی برخود غلط سورما ہے، نہ نیم دیوتا۔مگر اس کی شخصیت کے بے شمار ہی پہلو ہیں۔ اودسیوس کی ذات ایک طرف سے امیر حمزہ اور عمروعیار کا مجموعہ ہے ۔ امیر حمزہ شجاعت و وجاہت کے نمائندہ ہیں اور عمرو مکروفن کا اوسیوس اس داستا ن میں کہیں دلیری کو بروئے کار لاتا ہے اور کہیں عیاری کو، بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس کے خاص خاص کارنامے دلیری اور عیاری کا دلکش امتزاج ہیں ۔ لیکن اودسیوس میں ایک صفت ایسی ہے جو امیر حمزہ اور عمروعیار دونوں میں نہ تھی اور یہ چیز اسے دونوں سے بلند و بالا کردیتی ہے ۔ یہ اپنی بیوی اور اپنے اکلوتے بچے اور وطن عزیز کی لگن کے روپ میں اپنی پرانی جڑوں کی تلا ش ہے ۔ یہ تلاش اتنی شدید ہے کہ ہر ترغیب پر غالب آجاتی ہے۔ اس لکڑہارے کی طرح جس نے سونے اور چاندی کے کلھاڑے کو ٹھکرا دیا تھا ور سچ بولا تھا۔ اور اپنے پرانے دھرانے لوہے کے کلہاڑے پر اکتفا کی تھی۔ اودسیوس نے بھی جوانی اور حسین دیویوں کی سدا بہار صحبت کو ٹھکرا دیا۔ اسے کشمکش کا ظاہری دنیا کے گردابوں ، ہجابوں ، ہنگاموں اور ہفت خوانوں میں اپنی گہری اور سچی روح کی تلاش کا نام بھی دیا جاسکتا ہے ۔ اودیسی ، جہاں گرد اودسیوس کی طوفانی کہانی، دنیا کے اولین، عظیم شاعر”ہومر”کا شہکار ہے اسے اردو کے جوان سال وجواں فکر شاعر محمد سلیم الرحمٰن کے الفاظ میں پیش کیا جاتا ہے‘‘(14)

                ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے دونوں زبانوں سے واقفیت ہونا بہت ضروری ہے۔ کچھ ماہرین کے نزدیک ترجمہ ایک تخلیق کے برابر ہی ہے۔ مگر کہیں کوئی فرق تو ضرور ہے۔ یہ فرق شاید متن کا ہے ۔ اشعار کا ترجمہ کچھ مترجمین متن کے مطابق کرتے ہیں اور کچھ مفہوم کے مطابق۔ ترجمے کے لیے دونوں ہی انداز درست ہیں۔ شاعری میں اگر مشکل ہے تو غالب کی فارسی غزلیات کا ترجمہ ہمارے سامنے ہے ۔ اس حوالے سے پروفیسر عبدالحق کہتے ہیں:

ـ’’فارسی کلیات ضخیم بھی ہے اور مختلف اصناف شعری کی کثر ت آرائی کے ساتھ اختصار کی نشتریت کی جگہ تفصیلات پر مشتمل ہے ۔ گویا ایک اجمال ہے تو دوسری تفصیل ہے۔ ان کی فارسی غزلوں کا ترجمہ آسان بھی نہیں اور پھر کس کے لیے؟ اس سبب اس کی تشریح بھی نہ ہوسکی اور نہ ہی تراجم پر توجہ دی جاسکی۔ اردو دیوان کی شرحوں کی تعداد دو درجن سے تجاوز کرگئی۔ مگر فارسی کلام ہنوز کسی مرد افگن عشق کا منتظر ہے جب کہ اقبال کے تما م فارسی مجموعہ ہائے شعری کی شرح و بیان میں کئی کوششیں پیش نگاہ ہیں ۔ بال جبریل کی اب تک نو شرحیں لکھی جاچکی ہیں اور کئی زبانوں میں اس کے ترجمے موجود ہیں انگریزی میںشمل کا ترجمہ قابل توجہ ہے۔‘‘(15)

                کچھ افسانہ نگار ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے افسانے میں ترجمہ نگاری کو فروغ دیا اور اس میدان میں اپنا طوطی منوایا۔ کچھ افسانہ نگاروں نے مغرب کے کچھ عمدہ افسانوں کا انتخاب کیا اور انہیں اردو کے روپ میں منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ جلیل قدوانی نے روسی ادب کے نقوش کو افسانوں کی مدد سے اردو میں منتقل کردیا۔ صادق الخیری نے مشرق اور مغرب کی نثر کو اردو میں ترجمہ کے ذریعے پیش کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ صادق الخیری وہ ادیب ہے جس نے خوب محنت سے اردو زبان کو دوسری زبانوں سے روشناس کروایا۔ یہ سہرا آپ ہی کے تراجم کے سر ہے۔منصور احمد کے رسالے “ادبی دنیا”کو بھی ترجمے کی تحریک میں کسی طرح پیچھے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس مجلے میں انگریزی، روسی اور جرمن زبانوں کے افسانے بھی اردو زبان میں ترجمہ کیے جاتے تھے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ حامد علی خان، فضل حق قریشی، راجہ مہدی علی خان وغیرہ ایسے ادیب ہیں جو دیگر زبانوں کے افسانوں کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے کی تحریک کے روح رواں ہیں۔ ان تراجم کا فائدہ یہ ہوا کہ اردو تخلیق کاروں کا تعارف عالمی افسانے سے ہوگیا اور یوں ارتقا کے لیے اگلا قدم اٹھانے میں آسانی پیدا ہوگئی۔

                روسی ادب کے ترجموں نے بھی اردو ادب میں گراں قدراضافہ کیا۔ “فیودر دستو ئیفسکی”کے ناول”Hamilated and Insulted”ــکا اردو ترجمہ ظ۔انصاری نے’’ ذلتوں کے مارے لوگ ‘‘کے عنوان سے کیا۔ دستو ئیفسکی کے یہاں جمہوریت اور انسانیت کا جو شعلہ اٹھتا محسوس ہوتا ہے وہ دراصل روس کے کلاسیکی ادب کا جوہر ہے ۔ وہ بھی دراصل مطلق العنان یا بادشاہی کو برداشت نہ کرتا تھا اور نہ ہی اسے نیم غلا می پسند تھی۔ وہ جلسوں میں بھی کھلے لفظوں میں غلامی کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتا تھا۔ اس وجہ سے اسے سزائے موت کاحکم سنایا گیا اور پھر سزائے موت کو جلا وطنی میں بدل دیا گیا۔ 1847ء میں روس میں نوجوان اہل قلم اکٹھے ہوئے تھے ۔ کہا جاتا ہے:

’’نوجوان اہل قلم1847سے پترا شفسکی کے حلقے میں شامل ہوگیا جو روس کی ترقی پسند تحریک کا مرکز اور ترقی یافتہ ذہنوں کا گہوارہ تھا۔‘‘(16)

                مترجم ناول نگار کے بارے میں بڑی پتے کی باتیں منظر عام پر لاتے ہیں۔ اس ناول کے مترجم نے واضح طور پر بتایا ہے کہ ، بیماری اور اعصاب نے مصنف کی شخصیت پر ناقابل برداشت بوجھ ڈالا تھا۔ شاید یہ بوجھ ہی تھا جو “ذلتوں کے مارے لوگ”جیسا شاہکار ناول لکھا گیا۔ روس کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی پست حالی بھی مصنف کو اس ناول کے لیے ابھارتی ہوگی۔ جب لوگ کسی کشمکش کاشکا رہوں تو ادبی ناول لکھے جاتے ہیں یا پھر بیاض میں اپنے تاثرات محفوظ کر لیے جاتے ہیں۔

                                اقبال کے خطبات کا بھی اردو زبان میں ترجمہ ہوا ہے۔ “Reconstruction of Religious Thought in Islam”دراصل اقبال کے سات خطبات ہیں۔ ان کا اردو ترجمہ سید نذیر نیازی نے  ’’تشکیل جدید الہبات اسلامیہ‘‘  کے عنوان سے کیا اور بھی کئی اقبال شناس ان کا اردو ترجمہ کر چکے ہیں۔ اقبال کے پی ۔ایچ ۔ ڈی کے مقالے کا بھی اردو ترجمہ ہو چکا ہے۔ اقبال کے خطبہ آلہ آباد اور اقبال کا خطبہ “مسلم کمیونٹی”جس کا ترجمہ “ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر”کے عنوان سے ہوچکا ہے۔ اقبال کی ڈائری”Stray Reflections”کا اردو زبان میں ترجمہ، غرض یہ کہ اردو ترجمہ کی روایت روز بروز پروان چڑھ رہی ہے۔ اقبال کے انگریزی خطوط کا بھی اردو زبان میں ترجمہ ہوچکا ہے۔عصر حاضر میں ترجمے کے حوالے سے اتنا کام ہورہا ہے کہ ماہرین کو کسی قسم کی دشواری پیش نہیں آتی۔ ضرورت ہے تو دلچسپی اور لگن کی۔ اگر مقصد بنا لیا جائے اور پختہ ارادہ کر لیا جائے تو ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان کو کامیابی میسر نہ آئے ۔ ترجمہ کرتے وقت ان اصولوں کو مدنظررکھنا بہت ضروری ہے جو درج بالا صفحات میں بیان کیے گئے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اقبال کی تصانیف کا ترجمہ سب سے زیادہ زبانوں میں ہوچکا ہے۔ پروفیسر عبدالحق اس حوالے سے کہتے ہیں:ـ

ـ’’اقبال تراجم کے اعتبار سے سب سے زیادہ خوش نصیب شاعر ہیں ۔ ان کے کلام کے تراجم کی تعداد کہیں زیادہ ہے اور عالمی،اد ب میں شاید ہی کسی فن کار کو یہ سعادت حاصل ہو۔ دنیا کی تمام اہم زبانوں میں ان کی تخلیقات کے تراجم پائے جاتے ہیں، جن سے ان کی مقبولیت اور ان کے پیغام کی ہمہ گیری کا یقین ہوتا ہے‘‘(17)

ـ               ترجمہ کے حوالہ سے ایک بات خاص طور پر ذہن میں رکھی جائے، ترجمہ صرف مالی فائدے کے لیے نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ناشر یا پبلشر کے کاروبار کی خاطر۔ بلکہ ترجمہ میں ذمہ داری کا پہلو ضرور ہونا چاہیے۔ مترجم اس بات کو ملحوظ خاطر رکھے کہ وہ ادبی خدمت انجام دے رہا ہے۔ اسے مالی فائدہ تو بحر حال ہوگا ہی مگر اخلاقی طور پر بھی اسے خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اردو ادب کی خدمت انجام دے رہا ہے اس میں اگر کہیں کوئی خامی رہ جاتی ہے تو وہ غلطی آئندہ نسلوں تک منتقل ہوجاتی ہے۔

   طلباء  و  طالبات  کو چاہیے کہ ترجمہ کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ترجمے کی روایت کو پروان چڑھانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

                                                حوالہ جات

(۱)حامد بیگ، مرزا ، ڈاکڑ، مغرب سے نثری تراجم (اسلا م آباد۔ مقتدرہ قومی زبان)1988ء ، صفحہ 10

(2)حامد بیگ، مرزا ، ڈاکڑ ، مغرب میں نثری تراجم، صفحہ 15

(3)رفیق خاور، اردو تھیسارس (اسلام آباد۔ مقتدرہ قومی زبان) طبع سوم2002ء صفحہ 17

(4)جمیل جالبی، ڈاکڑ ، ارسطو سے ایلیٹ تک( اسلام آباد، نیشنل بک فاونڈیشن) اشاعت نہم 2015ء صفحہ 13

(5)حامد بیگ، مرزا ، ڈاکڑ ، مغرب سے نثری تراجم، صفحہ 18

(6)محمد خاں، کرنل ، بدیسی مزاح، مزاح کے عالمی اد ب پاروں کا دیسی روپ، پیش لفظ(لاہور۔جنگ پبلشرز) 2000ء صفحہ 9

(7)عبدالحق ، پروفیسر ، تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، مذہبی تصانیف کے اردو تراجم (دہلی ۔ جمال پرنٹنگ پریس )مئی 1976ء صفحہ 115

(8)انور سدید، ڈاکڑ ، مولانا صلاح الدین احمد، ایک مطالعہ (اسلام آباد۔ اکادمی ادبیات) 1991ء  صفحہ 324

(9) عبدالحق، پروفیسر، خواجہ طارق محمود۔ منظومات کے منفر د مترجم، خواجہ طارق محمود ایک منفرد مترجم (بہ حوالہ اقبال و غالب )   ( نئی دہلی۔ اصیلا پریس دریا گنج) دسمبر 2008ء ، صفحہ 11

 (10)عبدالحق ، پروفیسر، خواجہ طارق محمود ۔ منظومات کے منفر د مترجم، خواجہ طارق محمود ایک منفرد مترجم ، صفحہ 14

(11)عبدالحق ، پروفیسر ، تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، مذہبی تصانیف کے اردو تراجم ، صفحہ 115

(12)عبدالحق، پروفیسر، تنقید اقبال اور دوسرے مضامین، مذہبی تصانیف کے اردو تراجم، صفحہ 124

(13)انور سدید، ڈاکڑ ، اردو ادب کی مختصر تاریخ (لاہور۔ عزیز بک ڈپو اردو بازار ) طبع سوم 1998ء ، صفحہ 331

(14)ہومر، جہاں گرد کی واپسی، مترجم ، محمد سلیم الرحمن (لاہور۔ مکتبہ جدید) باراول 1964ء ، پاورق اندرون

(15)عبدالحق، پروفیسر ، خواجہ طارق محمود۔ منظومات کے منفرد مترجم ، خواجہ طارق محمود ایک منفرد مترجم، صفحہ 11

(16)فیودر دستوفسکی، ذلتوں کے مارے لوگ، مترجم ، ظ۔ انصاری (ماسکو۔ دارالاشاعت ترقی)س ن صفحہ548

(17)عبدالحق ، پروفیسر ، اقبال کا حرف شیریں ، اقبال اور شارحین(نئی دہلی۔ اصیلا پریس دریا گنج) اگست 2014ء صفحہ 97

٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.