آشور بنی پال: عبدالعزیز خالد کی ایک تمثیل

ڈاکٹر نورالہدی

ہتھوا، گوپال گنج (بِہار)

’’برگ خزاں‘‘ عبدالوزیز خالد کی تین منظوم تمثیلوں کا مجموعہ ہے جس کی پہلی اشاعت ۱۹۶۲ء؁ میں دو آبہ کوآپریٹو پبلشرز،کراچی سے ہوئی۔ اس میں شامل تمثیلوں میں ’’قابیل‘‘ اور’ ’آشوربنی پال‘‘ عہدنامۂ عتیق سے ماخوذ ہیں۔ ’’قابیل ‘‘ کا موضوع قرآن پاک (5:2732) میں بھی موجود ہے، تیسری تمثیل ’’فلکناز‘‘ کرسٹوفر مارلو کے ڈراما ’’ڈاکٹر فاؤسٹس‘‘ سے کسب ضیا کی مثال ہے۔

’’برگِ خزاں‘‘کی تیسری اور آخری تمثیل ’’آشور بنی پال‘‘ ہے۔ اس کا تعلق عہد نامۂ عتیق کے باب ’’ناحوم‘‘ سے ہے ، جس میں نینوا کی تباہی اور رب القدوس کے ذریعہ نازل کئے گئے عذابوں اور تباہیوں کا ذکر موجود ہے۔ آشور بنی پال تاریخ کی ایک اہم شخصیت ہے۔ وہ نینوا کا آخری عظیم بادشاہ تھا، جس نے 668ق م سے 626ق م تک حکومت کی۔ وہ دجلہ و فرات کے درمیان فروغ پانے والی ایک قدیم آشوریہ تہذیب کا بادشاہ تھا۔ جس نے اپنے دور عروج میں مصر، شام، لبنان، آرمینیا، ایلم اور بابل تک اپنی بادشات قائم کرلی تھی۔

آشور بنی پال عظیم الشان آشوری سلطنت کا وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے لکھنا پڑھنا ہی نہیں سیکھا بلکہ علم کے حصول میں بھی کوشاں رہا۔ وہ تمام امور سلطنت میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ہی ماہرانہ عسکری قوتوں کا مالک بھی تھا۔ ریاضی، نجوم، سنگ تراشی، شکار، ارابہ سازی، نظامی گری کا ماہر بھی تھا۔ اس نے خود ہی لکھا بھی ہے کہ وہ عکاوی، آریائی اور سمیری زبانیں لکھ اور پڑھ سکتا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کا وہ پہلا بادشاہ تھاجس نے شاہی کتب خانہ قائم کیا جس میں موجود کتابیں الواح سفالی (مٹیکی تختیاں) کی شکل میں تھیں، جو تعداد میں کم و بیش دو لاکھ بیس ہزار تھیں۔ نینوا میں قائم اس کتب خانہ کی دریافت ماہرین آثارِ قدیمہ نے ۱۸۵۰ء؁ میں کی تھی۔ ایسی دس ہزار سالم تختیاں پائی گئی ہیں، جن پر خط میخی میں تحریریں کندہ ہیں۔َ یہ کتب خانہ آشور بنی پال نے مختلف شہروں میں اپنے آدمیوں کو بھیج کر ماہرین کی مدد سے قائم کیاتھا۔ اس میں اس وقت کے تمام اہم موضوعات پرکتابوں کا بیش قیمت ذخیرہ تھا۔ ان میں خطوط، قانون دستاویزات ، لغات، قواعد، دعا، پیشین گوئیاں، نجوم، تاریخ، جغرافیہ، ادب غرض علم کے تمام موضوعات پر کتابیں موجود تھیں۔

————–

ان ہی کتابوں سے یہ علم بھی ہوتا ہے کہ آشور بنی پال بہت ہی سفاک بادشاہ بھی تھا اور ظلم و ستم، ایذا رسانی، لہو و لعب سے اسے بطور خاص دلچسپی تھی۔

عہدنامۂ عتیق کے باب ’’ناحوم‘‘ میں نینوا کی عبرتناک تباہی کا ذکر موجود ہے۔ عبد العزیز خالد نے اس مکمل حصے کو آشوربنی پال کی ابتدا سے قبل شامل کیا ہے۔ 612ق م میں اس شہر کی تباہی و بربادی محض اتفاق یا تاریخ کا ایک تسلسل ہی نہیں بلکہ عہدنامۂ عتیق میں موجود پیشین گوئی بھی تھی۔ نینوا کو نمرود نے قائم کیا تھا۔ عہد نامۂ عتیق کے باب پیدائش میں اس کا ذکر یوں موجود ہے:

’’اور بنی حام یہ ہیں کوش اور مصر اور فوط اور کنعان اور نبی کوش یہ ہیں: سبا اور حویلہ اور سبتہ اور رعماہ اور سبتیکہ اور بنی رعماہ یہ ہیں: سبا اور دِدان اور کوش سے نمرود پیدا ہوا۔ وہ روئے زمین پر ایک سورما ہوا۔ خداوند کے سامنے وہ ایک شکاری سورماہوا ہے اس لئے یہ مثل چلی کہ خدواند کے سامنے نمرود سا شکاری سورما اور اس کی بادشاہی کی ابتدا ملک سنعار میں بابل اور ارک اور اکاد اور کلنہ سے ہوئی۔ اسی ملک سے نکل کر وہ اسور میں آیااور نینوہ اور رحوبوت عیر اور کلح کو۔ اور نینوہ اور کلح کے درمیان رسن کو جو بڑا شہر ہے بنایا (1:6-13)۔

عہدنامۂ عتیق کے باب ’’یوناہ‘‘ کے مطابق یوناہ (پیغمبر یونسؑ) جو مچھلی نے خشکی پہ اگل دیا تو خداوند قدوس نے دعوت و تبلیغ کے لئے انہیں نینوا جانے کا حکم دیا:

اور خداوند کا کلام دوسری بار یوناہ پر نازل ہوا۔ کہ اٹھ اس بڑے شہر نینواہ کو جا اور وہاں اس بات کی منادی کر جس کا میں تجھے حکم دیتا ہوں۔ تب یوناہ خداوند کے کلام کے مطابق اٹھ کر نینوہ کو گیا اور نینوہ بہت بڑا شہر تھا، اس کی مسافت تین دن کی راہ تھی۔ اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا۔ اس نے منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوہ برباد کیا جائے گا۔ تب نینوہ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ سب نے ٹاٹ اوڑھا۔ اور یہ خبر نینوہ کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا اور بادشاہ اوراس کے ارکانِ دولت کے فرمان سے نینوہ میں یہ اعلان کیا گیا اور اس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یا حیوان گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اور نہ کھائے پیئے۔ لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اور خدا کے حضور گریہ و زاری کریں بلکہ ہر شخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے۔ شاید خدا رحم کرے اور اپنا ارادہ بدلے اور اپنے قہرِ شدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں۔ جب خدا نے ان کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو وہ اس عذاب سے جو اس نے ان پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اسے نازل نہ کیا، لیکن یوناہ اس سے نہایت ناخوش اور ناراض ہوا(عہد نامۂ عتیق: یوناہ: 3:1-10; 4:1-2)۔

لیکن باشندگان نینوا کی یہ حالت دیر تک قائم نہیں رہی۔ عہدنامۂ عتیق کے باب ’’میکاہ‘‘ میں جو ’’یوناہ‘‘ کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے، نینوا پر پیشین گوئی کی گئی ہے:

جب اسور ہمارے ملک میں آئے گا اور ہمارے قصروں میں قدم رکھے گا تو ہم اس کے خلاف سات چرواہے اور آٹھ سرکردہ برپا کریں گے اور وہ اسور کے ملک کو اور نمرود کی سرزمین کے مدخلوںکو تلوار سے ویران کریں گے اور جب اسور ہمارے ملک میں آکر ہماری حدود کو پائمال کرے گا تو وہ ہم کو رہائی بخشے گا (عہدنامۂ عتیق: میکاہ: 5:5-6)۔

’’میکاہ‘‘ کے بعد عہدنامہ عتیق باب ’’ناحوم‘‘ کی ابتدا ہوتی ہے جس کے ابتدائی الفاظ ہیں: ’’نینوہ کی بابت بارنبوت، القشی ناحوم کی رویا کتاب۔ عبد العزیز خالد نے اس مکمل باب کو اس منظوم تمثیل کی تمہید کے طور پر شامل کیا ہے۔ ’’ناحوم‘‘ کے تیسرے حصے میں جو اس کا آخری حصہ بھی ہے، نینوا اور آشوروں، دونوں ہی کی تباہی کا ذکر موجود ہے۔ چند اقتباسات ملاحطہ فرمائیں:

خونریز شہر بر افسوس۔ وہ جھوٹ اور لوٹ سے بالکل بھرا ہے۔ وہ لوٹ مار سے باز نہیں آتا۔ سنو! چابک کی آواز اور پہیوں کی کھڑکھڑاہٹ اور گھوڑوں کا کودنا اور رتھوں کے ہچکولے! دیکھو! سواروں کا حملہ اور تلواروں کی چمک اور بھالوں کی جھلک اور مقتولوں  کے ڈھیر اور لاشوں کے تودے، لاشوں کی انتہا نہیں (3:1-3)۔

اور نجاست تجھ پر ڈالوں گا اور تجھے رسوا کروں گا، ہاں، تجھے انگشت نما کروں گا اور جو کوئی تجھ پر نگاہ کرے گا تجھ سے بھاگے گا اور کہے گا کہ نینوا ویران ہو،ا اس پر کون ترس کھائے گا؟ میں تیرے لئے تسلی دینے والے کہاںسے لاؤں؟ (3:6:7)۔

دیکھ تیرے اندر تیرے مرد عورتیں بن گئے ۔ تیری مملک کے پھاٹک تیرے دشمنوں کے سامنے کھلے ہیں۔ آگ تیرے اڑنگوں کو کھا گئی (3:13)۔

تیرے امرا ملخ اور تیرے سردار ٹڈیوں کے ہجوم ہیں جو سردی کے وقت جھاڑیوں میں رہتی ہیں اور جب آفتاب نکلتا ہے تو اڑ جاتی ہیں اور ان کا مکان کوئی نہیں جانتا۔ اے شاہ اسور تیرے چرواہے سوگئے۔ تیرے سردار لیٹ گئے، تیری رعایا پہاڑوں پر پراگندہ ہوگئی اور اس کو فراہم کرنے والا کوئی نہیں تیری شکستگی لاعلاج ہے۔ تیرا زخم کاری ہے۔ تیرا حال سُن کر سب تالی بجائیں گے، کیوں کہ کون ہے جس پر ہمیشہ تیری شرارت کا بار نہ تھا (3:17-19)۔

عہدنامۂ عتیق کے ان اقتباسات میں نینوا کی اہمیت اور اس کی تباہی اور پھر خود اس سلطنت کے عبرتناک انجام کی واضح نشانیاں موجود ہیں۔ آشور بنی پال کے دورِ سلطنت کے آخری حصوں میں ہی سلطنت آشوریہ دائمی چپقلشوں اور سازشوں کا شکار ہونے لگی تھی، لیکن تب تک یہ سلطنت اپنی سفاکی کی وجہ سے بھی بے مثل بن چکی تھی۔

کتب خانۂ آشور بنی پال میں پائے گئے خود آشور بنی پال کے کندہ کئے ہوئے کتبوں سے یہ علم ہوتا ہے کہ تاریخ عالم میں اپنی تنزلی کی جانب گامزن ایسی کوئی قوت و طاقت کبھی بھی نہیں رہی جو اس کی مانند وحشی، سفاک اور درندہ صفت رہی ہو۔ Farrar) :2009:147-148) کے مطابق آشور کے بادشاہوں نے پوری دنیا کو دہشت میں مبتلا کردیا تھا۔ انہیں اپنے کتبوں میں درندگی کے یہ نمونے محفوظ کرنے میں بھی کیف و مستی کا احساس ہوتا تھا کہ کس طرح لاشوں کے لئے زمین تنگ ہوجاتی تھی۔ ان کی دیوی اشئر کتنی غضبناک ہے کہ وہ کسی کو نہیں بخشتی، کس طرح وہ مٹی کے مجسموں کی مانند سپاہیوں کی لاشوں کو اٹھا اٹھا کر پھینکتے تھے، کس طرح انسانی کھوپڑیوں کے اہرام بناتے تھے۔ وہ کس طرح شہروں کو نذر آتش کرکے نیست و نابود کردیتے تھے۔ کس طرح بستیوں کی بستیوں کو سڑتی ہوئی لاشوں میں تبدیل کردیتے تھے۔ کس طرح وسیع و عریض ریگستانوں کو خون سے سرخ کردیتے تھے، پورے ملک کے طول و عرض میں دیواروں پر لاشوں کی نمائش کرتے تھے، کس طرح لاشوں کے ڈھیر سے پہاڑی بناتے تھے اور پہاڑوں اور ندیوں کو مردہ ہڈیوں سے پاٹ دیا کرتے تھے، کس طرح دوسری سلطنت کے بادشاہوں اور امراء کے ہاتھ پیر کاٹ کر اپنے محل کی دیواروں کی آرائش کرتے تھے اور ان کے جسم کو کتوں اور بھیڑیوں کی غذا بناتے تھے کس طرح اسیروں کو زنجیروں میں جکڑ کر ان سے اینٹیں بنواتے تھے اور سپاہیوں کو جھاڑ جھنکاروں کی طرح کاٹ دیا کرتے تھے اور باغیوں اور دوسری سلطنتوںکے بادشاہوں کے جسم کی چمڑیاں اتار کر شہر کے مختلف ستونوں کو منقش کرتے تھے۔ نینوا کی دیواریں ایسی بلند اور مضبوط تھیں کہ ان پر حملہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ بابل نے جب نینوا پر حملہ کرنا چاہا تو اسے کامیابی نہیں ملی۔ آشوریوں کے درمیان ایک پیشین گوئی مشہور تھی کہ نینوا کی تسخیر تب تک ممکن نہیں جب تک کہ ندی خوداس کی دشمن نہ بن جائے۔ کوئی تین ماہ کے محاصرے کے بعد ایسی بارش ہوئی کہ شہر کا ایک حصہ اس میں ڈوب گیا اور اس کی دیواروں پر فرات کا پانی اتنی اونچائی تک چڑھ گیا کہ اہل بابل کا شیرمیں داخل ہو نا آسان ہوگیا۔ تب بادشاہ کو یقین ہوگیاکہ وہ پیش گوئی صد فیصد صحیح ہے۔ شہر میں بڑھتے ہوئے پانی کی وجہ سے جنگ کرنا بھی ناممکن ہے اور دشمنوں کے نرغے میں آجانا بھی ہتک آمیز۔ جان بچا کر بھاگ نکلنے کے سبھی راستے بھی مسدود ہیں۔ اس نے حکم دیا کہ اس کے محل میں ایک وسیع و عریض چتا کی تعمیر کی جائے جس پہ اس کے تمام اسباب شاہانہ رکھ دئے جائیں۔ اس انتظام کے بعد اس نے محل کا دروزہ بند کرلیا اور اپنی ملکہ اور کنیزوں کے ساتھ اس چتا میں بیٹھ کر شعلوں کی غذا بن گیا۔ (Lenormant Chevallier : 2016)

نینوا اسی طرح نیست و نابود ہوگیا جس طرح آشوریوں نے کبھی سوسا اور بابل کو تاراج کیاتھا۔  Durant(1976:283-284) کے لفظوں میں شہر شعلوں کی غذا بنادیا گیا۔ باشندوں کا قتل عام ہوا اور غلام بنالئے گئے۔ ابھی حال ہی میں آشور بنی پال کے ذریعہ بنوایا گیا محل بے نام و نشان ہوگیا۔ آشوریہ ایک جھٹکے میں تاریخ کے صفحے سے مٹ گیا، کچھ بھی نہیں بچا، ایک ہی لمحے میں بے پناہ طاقتوں والے بادشاہ بھلادیئے گئے اور ان کے محل ریت کے ذروں میں تبدیل ہوگئے۔ ایسا ایک پتھر بھی نہیں بچا جو آشوریہ کے بلند و بالا معبدوں کی نشان بیان کرسکے۔ Mathew Henry نے اس صورتِ حال کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے (انجیل کا مفر) کہ اس واقعہ سے کوئی سو سال قبل یوناہ (یونسؑ) کی تبلیغ کی وجہ سے اہل نینوا اپنی اخلاق سوز حرکتوں پر نادم ہوئے اور انہوںنے توبہ کی، لیکن یہ صورتِ حال تادیر برقرار نہیں رہی، جب یوناہ کے کہنے کے مطابق برسوں تک کوئی عذاب نازل نہیں ہوا تو وہ پھر بداعمالیوں میں ملوث ہونے لگے اور اس لئے ایسی اندوہناک سزا کے مستحق ہوئے کہ ایک ہی دن میں ان کا نام و نشان مٹ گیا۔

عبد العزیز خالد نے اس منظوم تمثیل کو اسی پس منظر میں قلمبند کیا ہے۔ آشور بنی پال کا نام پڑھتے ہی یہ تمام تاویلات استعاروں کی شکل میں پھیلتی چلی جاتی ہیں اور ایک عظیم الشان سلطنت کے عروج و زوال کی مختلف سطحیں روشن ہونے لگتی ہیں جن میں جاہ و جلال، سطوت و ہزیمت، سفاکی و درندگی کے ساتھ ہی رومان کے عنصر بھی موجود ہیں۔ خالد نے آشور کے کردار میں آشور و نینوا کے بادشاہ آشور بنی پال اور اس کی ملکہ  سلیمیٰ کے علاوہ بادشاہ کی منظور نظر کنیز عذرا، ملکہ کا بھائی اور سپہ سالار بختیارک، میدیا کامرزبان ازبک، بابل کا پجاری بِلاسبن اور وابستگانِ دربار میں اولیاء، قنبر، حارث موجود ہیں۔ دوسرے ذیلی کرداروں میں نقیب، حاجب، آبدار،عسکری، اور منصبدار بھی شامل ہیں۔

تمثیل کی ابتدا بختیارک کی خود کلامی سے ہوتی ہے جو اپنی دور اندیشی اور جہاںبینی کی وجہ سے سلطنت کے شیرازوں کو بکھرتا ہوا دیکھ رہا ہے اور حیران و پریشان ہے کہ اس سلطنت کو کس طرح تنزلی سے بچایا جائے:

دبدبہ سطوت شاہی کا مسلم لیکن

کبھی قانون مکافات عمل بدلا ہے؟

کیا یہ میراث نیا گاں یوںہی مٹ جائے

شمع بجھ جائے گی نمرود و سمیرامس کی؟

رہا اسلاف کی پلکوں میں بسیرا جس کا

اس حسین خواب کی تعبیر پریشاں ہوگی؟

دولت عز و شرف، جنسِ وقار و تمکیں

اس طرح ابرو و آشفتہ و ارزاں ہوگی؟

جس کے آبا کو اجداد نے خون سے سینچا

کیا وہ مرصوص بنا، خستہ و ویراں ہوگی؟

پانچ سو سالہ تمدن کی امیں یہ اقلیم

جس کی مملوکہ ہے بابل، ملکہ شہروں کی

نوع انساں کی وہ دنیا میں نخست آبادی

آستانہ جو خداوند کا ہے باب ایل

اک ستمگر کی بہیمانہ سیہ کاری سے

نکہت گل کی طرح ہم سے گریزاں ہوگی؟

ان سطور میں خالد نے نینوا کی عظمت رفتہ کے ساتھ ہی اس کی موجودہ ابتر صورتِ حال اور اس کے زوال آمادہ ہونے کی خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔ بختیارک بادشاہ کے سلسلے میں آگے کہتا ہے:

اے سیہ مست یہ دور مے دوشیں کب تک؟

شغلِ رخسارو کنار و لب نوشیں کب تک؟

تبھی آشور آتا ہوا نظر آتا ہے، جس کا سراپا ’’نوحام‘‘ کے اس بیان کی مانند ہے: تمہارے مرد عورتیں بن گئے، اسے دیکھ کر بختیارک کہتا ہے:

غمزہ زن طائفہ حسن کو ہمراہ لئے

مجمع زہرہ و ناہید کو شرمندہ کئے

جھومتے جھامتے وہ صاحب زماں آتے ہیں

واسکی راجہ منی دیپ کا صاحب پاتال

ناگ کنیاؤں کے جھرمٹ میں خراباںجیسے!

بادشہ زن ہے نبیرہ یہ سمیرا مس کا

ان الفاظ میں بادشاہ کے تئیں بختیارک کی نفرت کا کھلا اظہار موجود ہے۔ یہ نفرت اس لئے ہے کہ بادشاہ اپنے منصب کے فرائض کو بھول کر لہو و لعب اور عیش کوشی کو ہی اپنا شیوہ بنابیٹھا ہے۔ بختیارک کے الفاظ میں تأسف بھی ہے اور استہزا بھی۔ وہ عہد کرتا ہے کہ انجام خواہ جو بھی ہو وہ بادشاہ کو اس حالت سے باز آنے کے لئے کہے گا۔ آشور نسوانی تکلفات کے ساتھ داخل ہوتاہے۔ اس کے سر پر پھولوں کا تاج ہے۔ لباس کی بے ترتیبی ایک شان بے نیازی کی غمازی کرتی ہے۔ آشور مجمع حضّار سے مخاطب ہوکر ایک جشن کے اہتمام کا حکم دیتاہے، جس کا مقـصد اس کے طویل مکالمے کے آخری حصے میں یوں واضح ہوتا ہے:

ہمیں مقصود ہے دلداریٔ فن آج کی رات

جاؤ آرائش لب و رخسار کرو

بن سنور پھول پہن عطرِ لگاکر آؤ

قصرِ شاہی کی جواں سال کنیزوں کا جمال

رات کو چاند ستاروں کے مقابل ہوگا

بعدازاں آشور اپنی کنیز عذرا سے گفتگو کرتا ہے ۔ دونوں کے درمیان ناز و ادا کی باتیں ہوتی ہیں، تبھی بختیارک بادشاہ سے ہم کلامی کی اجازت چاہتا ہے اور اسے عذرا سے باز آنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتا ہے:

اس دغل باز حسینہ کی در اندازی سے

خانوادے لٹے برباد ہوئے کاشانے!

بادشاہ اس کی سرزنش کرتے ہوئے کہتا ہے:

منصب و مرتبہ کو بھول رہے ہو سالار!

ما بدولت کی جلالت کو نہ بیدار کرو

ان تلخیوں کو دیکھ کر عذرا وہاں سے جانے کی اجازت چاہتی ہے۔ اسے اجازت دیتے ہوئے بادشاہ جن کلمات کو ادا کرتا ہے ایک مصرع میں خالد نے آشور کی مکمل ذہنیت کو پیش کردیا ہے:

تاج شاہی کی ترے سامنے وقعت کیا ہے

اسے سن کر بختیارک چراغ پا ہوجاتا ہے۔ اسی موقع پر بختیارک کا مکالمہ خالد کی شاعری کی خوبصورت مثال کے ساتھ ہی سلطنت کی زبوں حالی اور بادشاہ کی بداعمالیوں کا نقشہ بھی پیش کرتا ہے:

بختیارک:

سر سے دستار گری جاتی ہے

آشور:

حد آداب سے سالار تجاوز نہ کر

بختیارک

حد آداب! ابھی فکرِ زیاں باقی ہے؟

ظلم آداب کی دیوار کو ڈھاتا ہوا ظلم

موت کے راگ نفری پہ بجاتا ہوا ظلم

صر صر قہر سے ہر نخل ہے نخل ماتم

۔۔۔۔۔۔

فتنہ پردازیٔ عمال جفا پیشہ سے

سینوں میں محشر فریاد دھواں آنکھوں میں

۔۔۔۔۔۔

چار سو گو نجتی ہے ایک فغان پر درد

قحط و سیلاب ہے ویرانی و بربادی ہے

زندگی آج تیرے ظلم کی فریادی ہے

مجھے معصوم سلیمیٰ کا خیال آتا ہے

اس کے بچوں کا جو ہیں تخت شاہی کے وارث

اپنے اسلاف کی ناموس و حمیت کا خیال

اور آثارِ صنادید کے مٹنے کا ملال

آشور:

اس خطابت سے ترا مقصد و منشا کیا ہیـ؟

بختیارک:

آپ کو رب مکرم سے جو ترکے میں ملے

آج وہ لوگ بغاوت پہ کمر بستہ ہیں

پھر وہ بادشاہ کی حمیت کو للکارتے ہوئے آباو اجداد کی قربانی اور جانفشانی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

رات دن دشت نوردی کا یہی مقصد تھا

کہ مرے سنگ لحد پر میرے فرزند سعید

عیش و عشرت کے شبستانوں کی تعمیر کریں؟

اپنے اجداد نے ا س باغ کے سب گل بوٹے

اپنے جسموں کی غذا دے کر برومند کئے

اسی خاطر کہ ترے نفس کا تنور بھرے؟

اور اس کسب و تعیش کی بدولت آخر

صفحۂ دہر سے ناپید ہوں ان کے آثار؟

پیشہ شیروں کا جو تھا رمنہ غزالوں کا بنا!

بادشاہ پھر بھی اپنے فیصلے سے نہیں پھرتا۔ بختیارک اسے پھر سمجھاتا ہے کہ ایسا زلزلہ آنے والا ہے جس سے مفر مشکل ہے اور ابھی بھی وقت ہے کہ سنبھل کر راہ تلافی نکال لی جائے۔ لیکن بادشاہ اپنے جاہ و جلال کی رعونت میں ایسا فراموش ہے کہ وہ بختیارک کی کسی بات پر توجہ نہیں دیتا۔

زلزلے کے مگر آثار و قرائن کیسے؟

مطلق الحکم شہنشاہ کے کر و فر سے

کس زیاں کوش کو ہے جرأت رزم آرائی؟

صاحب تاج رنگین، ظل ایا ہوتا ہے

کس کی ہمت ہے بغاوت کا علم لہرائے؟

بادشاہ کو یہ شبہہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں بختیارک خود کوئی چال تو نہیں چل رہا ہے۔ یہ بھی سوچتا ہے کہ شاید اپنی بہن (ملکہ) کی وجہ سے اس سے بدلہ لینا چاہ رہا ہو۔ یہ باتیں سُن کر بختیارک اپنی بہن کی معصومیت کا ذکر کرتا ہے اور اسے سمجھاتا ہے:

ملکہ زوجہ کا حق مانگتی ہے بھیک نہیں

وہ رہے معتکف کلبۂ احزاں ہوکر

آپ گلچھرے اڑاتے ہنڈو جنگل بیلے

پھر بھی اس کے لب اظہار پر فریاد نہیں

پھر بختیارک اصل مدعا کی جانب بادشاہ کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے گویا ہوتا ہے:

شاہِ والا یہ کوئی موقع ہنگام نہیں

بیش و کم کی کوئی حسرت نہ غم ناز و نعیم

میں تو اس وقت یہ پیغام امم لایا ہوں

کہ یہ دستورِ جہاں ہے کہ تغافل مشرب

بادشہ اپنا کفن آپ سیا کرتے ہیں

ان تمام تر دلیلوں کے باوجود آشور بنی پال یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس کی مملک کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہے یاہ یہ وہ کسی خانگی یا بیرونی سازش کا شکار ہورہی ہے۔ تب بختیارک صاف صاف لفظوں میں کہتا ہے:

آپ کا نیر اقبال ہے مائل بہ زوال

قصر نمرود کا انجام قریب آ پہنچا!

یہ سن کر بنی پال اس سے تفصیل دریافت کرتا ہے اور تدبیروں کا حکم بھی دیتا ہے۔ بختیارک اسے رات کی جشن مہتابی کو منسوخ کرانے کی گذارش کرتا ہے مگر بادشاہ یہ کہہ کر انکار کردیتا ہے کہ اس حکم کو واپس لینا اس کے شایانِ شان نہیں۔ بختیار کے چلے جانے کے بعد بادشاہ غور و فکر میں مبتلا ہوجاتا ہے، لیکن فوراً ہی عیش کوشی اور محفل کی رنگینیاں اسے اپنا اسیر بنالیتی ہیں۔ تبھی عذرا وہاں پہنچتی ہے اور دونوں عشق و عاشقی کی باتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ جس کی مملکت کا ستارہ غروب ہونے والا ہو اور جسے یہ پختہ خبر بھی مل چکی ہو کہ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ اپنی کنیز سے یوں مخاطب ہے:

جی میں آتا ہے کہ اسباب حشم ٹھکرا کر

درہ و وادی و کہسار میں آوارہ پھریں

سرمدی حسن کے دل سوز ترانے چھیڑیں

عذرا دریافت کرتی ہے

اور اگر رات ہی صیاد اجل ثابت ہو!

آشور:

موت کا وقت اٹل ہے جاناں!

اس پہ چلتا نہیں جنتر منتر

کام آتی نہیں دانتا کلکل

کیوں نہ پھر ہونی کا خود بڑھ کے کریں استقبال؟

عذرا:

حفظ ناموس وطن سے تمہیں تسکین ہوس

ایک آسودگی ہر لحظہ گریزاں وہ بھی

کیا بہت پیاری ہے؟

۔۔۔۔۔۔

نینوا کے چمن آرائے ستارہ رخ سے

اس کی دلدار فقط جینے کا حق مانگتی ہے

آشور:

سر بھی مانگو تو بلا چوں و چرا حاضر ہے

یہ وہ بادشاہ ہے جو اپنی کنیز کی دلجوئی کے لئے اسے اپنا سر دینے پر آمادہ ہے لیکن مملکت کی حفاظت کا اسے خیال نہیں۔

اس منظوم تمثیل کے دوسرے حصے میں بیلاسین، ازبک اور قنبر کے مکالموں سے علم ہوتاہے کہ یہ لوگ بادشاہ کے خلاف سازش میں شریک ہیں اور حملہ آرائی کے مناسب وقت کے منتظر ہیں۔ بختیارک ان کی سازشوں سے آگاہ ہوجاتا ہے اور انہیں قتل کرنا چاہتا ہے لیکن تبھی بادشاہ وہاں پہنچ کر ان سے گفت و شنید کرتا ہے اور بختیارک کو مشورہ دیتا ہے کہ انہیں ملک بدر کردے۔ اس حصے میں عذرا اور بختیارک پھر اسے کسی انہونی کے اندیشے کا احساس دلاتے ہیں لیکن آشور کہتا ہے:

جشن کا وقت ہوا، اٹھ بھی چکو جانانہ!

منتظر تشنہ لبوں کا ہے لب پیمانہ!

تیسرے حصے میں کاخِ نمرود بقعۂ نور بنا ہوا ہے۔ آشور اور شاہی مہمان مصروف ناؤ نوش ہیں لیکن باہر باد و باراں کا طوفان برپا ہے۔ یہ طوفان جتنا بڑھتا جاتا ہے آشور کی سرمستیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں۔

آشور:

رقص مئے تیز کرو، ساز کی لے تیز کرو!

ساقیان سمن اندام و پری پیکر سے

مئے احمر کے چھلکتے ہوئے ساغر لے کر

دوش و فردا کو فراموش کرو آج کی رات!

۔۔۔۔۔۔

عقل ہے محض جنوں، شغل مے ناب کرو

فرصت نیم مستی نذر تب و تاب کرو

مطربہ! چھیڑ نشید طرب انگیز شباب

کیسے بے زخمہ و مضراب تمنا کا رباب

جھنجھناتا ہے رگ تاک سے رستی ہے شراب

اور تبھی اولیا داخل ہوتا ہے، شمشیر برہنہ، قبا دریدہ، خون آلودہ اور اعلان کرتا ہے کہ

مرزبانوں کے عساکر نے بغاوت کردی

جاں پناہا! یہ مے و نغمہ کا ہنگام نہیں

قہرماں وقت کا فرمان عمل دیتا ہے

جنگ شروع ہوتی ہے۔ بختیارک نے جن پہ شبہ کیا تھا وہی لوگ بغاوت کر بیٹھے تھے۔ ان میں بابل کا پجاری بلاسین اہم تھا۔ اس موقع پر بھی آشور بنی پال اپنی ہوسناکیوں سے نہیں چوکتا، وہ عذرا کو تہہ خانے میں جاکر چھپ جانے کا مشورہ دیتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ:

میرے سینے میں سما کر ماہی

آتشیں بوسے کے شیرینی سے

غم آیندہ کو آساں کردے!

اولیا کو عذرا کی حفاظت کے لئے معمور کردیتا ہے گرچہ عذرا وہیںرہتی ہے۔ اس درمیان ازبک اور بلاسین جم غفیر کے ساتھ پہنچتے ہیں، طرفین میں جنگ ہوتی ہے اور باغی وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ آشور پر نشہ اس قدر طاری رہتا ہے کہ وہیں گر کر سوجاتا ہے اور عذرا بھی لیٹ جاتی ہے۔ چوتھے حصے میں پھر یہی دونوں محو گفتگو ہیں۔ آشور جنگ کی بجائے شب طرب انگیز کی مستیوں کا قصہ چھیڑ دیتا ہے۔ تبھی بختیارک وہاں آکر خبر دیتا ہے کہ بغاوت ابھی تھمی نہیں۔ وہ گذارش کرتا ہے کہ ملکہ اور ولیعہد کو کسی محفوظ پناہ گاہ کی جانب بھیج دیا جائے ۔ اس مقام پہ پہلی بار سلیمیٰ آتی ہے آشور سے اپنی محرومیوں کی شکایتیں کرتی ہے:

مجھے آئین سیاست سے سروکار نہیں

آشیاں راکھ ہوا میرا میں رہوں لب بستہ

لے گیا لوٹ کے اندوہ نہانی مجھ کو

نہیں مطلق ہوس شاہجہانی مجھ کو

قصر شاہی نہیں مدفن ہے نسائیت کا

وہ بیہوش ہوجاتی ہے اور بختیارک اسے بازؤوں میں اٹھا کر لے جاتا ہے۔ آشور اب تذبذب میں مبتلا ہے اور فیصلہ کرتا ہے:

ہم بھی سرگرم ستیزہ ہوکر

برق و سیماب و شرر بن جائیں

یا طباشیر سحر کو پالیں

یا شب داج میں گم ہوجائیں

پانچویں حصے میں صبح کا منظر ہے۔ عذرا جنگ سے متوحش ہے۔ قنبر کہتا ہے   ؎

فرصت زیست کا یہ آخری دن ہے شاید

تبھی سپاہی مجروح بختیارک کو اٹھائے ہوئے لاتے ہیں۔ اس کے سینے میں تیر پیوست ہے۔ چند ہی لمحوں کے بعد آشور بھی وہاں پہنچ جاتا ہے۔ بختیارک برجستہ دریافت کرتا ہے :کیا ہارگئے؟ آشور جواب دیتا ہے:

جنگ میں کھیت رہے، کھیت ہوئے

چھن گئی ہم سے زمام ایام!

اسی درمیان بختیارک دم تور دیتا ہے۔ آشور کہتا ہے:

ایک اک کرکے ستارے ہوئے جاتے ہیں غروب

صف بہ صف موت کے منحوس قدم آتے ہیں

جس جگہ گرم تھا بازار حیات آج وہاں

پئے گلگشت سفیران عدم آتے ہیں

اسی اثنا منصب دار خبر دیتا ہے:

ابھی سیلاب کے آجانے سے

بند سب ٹوٹ گئے شہر ہوا زیر آب

اسلحہ بھیگ گیا، توپوں نے گولے اگلے

اور مہتاب دکھائی تو گئی رنجک چاٹ

آشور پھر یلغار کا حکم دیتا ہے مگر عذرا کہتی ہے:

اب عناصر نے بھی سازش کردی

اور آشور کہتا ہے

لیکن امواج بلاخیز فرات

مابدولت کی قلمرو میں نہیں

اولیا خبر دیتا ہے کہ سارے راستے مسدود ہوچکے ہیں اور تب آشور اپنی شکست قبول کرلیتا ہے:

موت کی آگ میں ہستی کی قبا جلنے دو

چوب صندل کی چنو ایک چِتا!

چتا سجائی جاتی ہے۔ عذرا مشعل اور جام شراب لاتی ہے۔ سپاہی تخت کے ارد گرد لکڑیوںکا ڈھیر لگادیتے ہیں اور عود سلگاتے ہیں۔ آشور کے ساتھ ہی عذرا بھی خود کو آگ کی نذر کرنے کا فیصلہ کرلیتی ہے۔ آشور کہتا ہے:

مری عذرا! مرے خوابوں کی سمن پوش پری

ثمرِ خوبی و دُر صدف، محبوبی!

مری مقصود صمیمی، مری روح شیریں!

اپنی جرأت پہ کہیں تو متاسف تو نہیں!

عذرا

زندگی عشق کو ملتی ہے شہادت گہ میں

مآخذ:

افکار ماہنامہ(1965)۔ شمارہ : 162، کراچی۔

بخاری ، شاہد(2010)۔ بے مثال شاعر عبد العزیز خالد۔ در ماہانامہ ’’ادب لطیف‘‘، مارچ اپریل ۲۰۱۰ء؁، لاہور۔

تفسیر ابن کثیر (2013)۔ شعبۂ تحقیق و تصنیف و ترجمہ، دار السلام، مکتبہ دار السلام، ریاض۔

تفسیر احسن البیان(1995)۔ سیف بک ڈپو، دہلی۔

جامع اللغات(1908)۔ نول کشور، لکھنؤ۔

چند، گیان(1967)۔ تحریریں۔ ادارہ فروغ اردو، لکھنؤ۔

حسین، آغا افتخار(1965)۔ عبد العزیز خالد کی شاعری۔ در ’’نقوش‘‘ ، شمارہ: 106، ادارہ فروغ اردو،لاہور

خالد، عبد العزیز۔

 ۔۔۔            (1964)برگ خزاں۔ کراچی:دو آبہ کوآپریٹو پبلشرز لمیٹیڈ۔

 ہاشمی، ارشد مسعود (2008)۔ (مدیر) ادبی تقویمات، کتابستان، مظفرپور

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.