مظفرعلی سید:سخن اور اہل سخن

ثاقب فریدی

ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

سخن اوراہل سخن مظفر علی سیدکے تنقیدی مضامین کامجموعہ ہے ۔اس میںمظفر علی سید کے وہ مضامین ہیںجو ان کی حیات میںبصورت ِکتاب نہ آ سکے ۔ادب میںمظفر علی سید نے بطورنقاد،محقق اور مترجم اپنی شناخت قائم کی۔’’ سخن اور اہل سخن‘‘ کے تنقیدی مضامین کے علاوہ انہوں نے مشفق خواجہ کے ادبی کالموں کے تین مجموعے ’’خامہ بگوش کے قلم سے،سخن در سخن اورسخن ہائے گفتنی‘‘ مرتب کئے۔ ’’احمد ندیم قاسمی کے بہترین افسانے‘‘ مرتب کیے۔ایچ ۔ڈی ۔لارنس کی کتاب’’ فکشن ،فن اور فلسفہ‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اس کے علاوہ’’تنقیدکی آزادی‘‘،’’پاک فضائیہ کی تاریخ‘‘اور’’ یادوں کی سرگرم‘‘ بھی ان کی اہم تصانیف ہیں ۔ انتظار حسین’’ سخن اور اہل سخن‘‘ کے دیباچہ میںلکھتے ہیں۔

’’ابھی مظفر نے بی اے کا امتحان نہیں دیا تھا۔ اس سے پہلے ہی وہ ٹی ہاؤس میں آن بیٹھااور ہمارے بیچ بیٹھ کر اپنے عہدکے نقادوں پر تبصرہ آرائی شروع کردی۔ بس ایک عسکری صاحب سے اس نے تھوڑا خم کھایا۔ باقی سب اس کے نشانے کی زد میں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں مظفر نے بالغ ہونے سے پہلے بہت سی کتابیں پڑھ لی تھیں یا کہہ لیجیے کہ زمانۂ نا بالغی کے بیچ ہی وہ بالغ ہوگیا تھا‘‘     ۱؎

 انتظار حسین کا یہ اقتباس اس بات کی وضاحت ہے کہ مظفر علی سید نے اپنے ابتدائی ایام ہی سے تنقیدی مضامین لکھنے شروع کردیئے تھے۔خصوصاًانہوں نے اپنے معاصرین شعرا میں مجیدامجد ، اختر الایمان ، مختار صدیقی اور ن، م، راشد وغیرہ پر بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں مضامین لکھے جو احمد ندیم قاسمی کے رسالہ ’’ سویرا‘‘ میں شائع ہوئے۔ مظفر علی سید کا مطالعہ بہت و سیع اور نظر گہری تھی۔ انتظار حسین کا یہ اقتباس اس بات کی توثیق ہے کہ مظفر علی سید کا شمار شروع سے ہی اچھے لکھنے والوں میں تھا۔یہی وجہ تھی کہ جب ۲۰۰۰؁ء میں مظفر علی سیدکی وفات ہوئی تو’’ سخن اور اہل سخن‘‘ کے تنقیدی مضامین کے متعلق ان کے دوستوں کوتفتیش ہوئی۔ انتظار حسین نے ان مضامین کا مسودہ ان کے بیٹے سے حاصل کیا اور اسے ترتیب دیکر سنگ ِمیل پبلی کیشنز لاہور سے  ۲۰۱۶؁ء میںشائع کرایا۔

’’ سخن اور اہل سخن ‘‘میں مختلف موضوعات پر ۲۲مضامین ہیں۔جن میں ’’اردو ادب کی صورت حال،عصرحاضر میں ادب کا کردار ،ترجمے کی جدلیات،حرف و صوت کا رشتہ، ادب اور تاریخی شعور،میرؔکی فارسی سخن گوئی،نقدنیازونگار،حفیظ ہشیارپوری،منٹو،بیدی،غلام عباس ، انتظارحسین، میراجی، ن. م . راشد ،مجید امجد،اخترالایمان،مختار صدیقی،ناصر کاظمی، سلیم احمد وغیرہ پر مضامین ہیں۔ گیت کار میرا جی میں مظفر علی سید نے یہ بات لکھی ہے کہ اردو شاعری کے تعلق سے عظمت اللہ خاں کے اعتراضات وہی ہیںجو ان کے بعد کلیم الدین احمد نے دہرائے یعنی ریزہ خیالی ، پریشاں فکری ،غیر واقعاتی اور غیر منظم انداز بیان ۔عظمت اللہ خان اور کلیم الدین احمد دونوں نے اردو غزل کی مخالفت کی تھی۔ غزل کے تعلق سے دونوں کے فقرے بہت مشہور ہیں۔ کلیم الدین احمد نے غزل کے تعلق سے کہاتھا کہ’’ غزل ایک نیم وحشی صنف سخن ہے‘‘ اور عظمت اللہ نے اردو غزل کی گردن بے دریغ ماردینے کی بات کہی۔کلیم الدین احمد اور عظمت اللہ خاں کے تنقیدی میلانات اپنے ذاتی شعور اور تجربے کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ لہٰذا کلیم الدین احمد کے تعلق سے یہ بات کہ ( انہوں نے عظمت اللہ خاں کے اعتراضات اپنی کتاب میں دہرائے ہیں ) مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ عظمت اللہ خاں کے اعتراضات دہرانے کا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ کلیم الدین احمدنے اس تعلق سے کوئی نئی بات نہیں کہی اور اس ضمن میں ان کے نظریات کا مرجع عظمت اللہ خاںہیں۔ جبکہ ایسا بالکل نہیںہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کلیم الدین احمد کے تنقیدی رویہ میں ان کا ذاتی مطالعہ شامل ہے۔

میراجی کے گیتوں کے تعلق سے مظفر علی سید کا خیال ہے کہ ان میں نغمگی اور سریلہ پن تو ہے لیکن یہ نغمگی ساحر و ساغر کے گیتوں کی نغمگی کی طرح غور وخوض اور فکر انگریزی سے خالی نہیں ہے۔ بلکہ میراجی کے گیتوں میں گیان اور دھیان باہم دست و گریباں رہتے ہیں ۔ وقت پڑنے پر ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ یعنی میراجی کے گیتوں میں جذبہ وفکر دونوں ہم آہنگ ہیں۔ دراصل مظفر علی سید نے جذبہ و فکر کو ایک دوسرے سے الگ ذہنی کیفیات فرض کرنے کے رویے کو ردکیا ہے ۔ شاعری میں جذبہ یا فکر کوئی ایسی علاحدہ شئے نہیں ہے جس پر انگلی رکھ کر یہ اشارہ کیا جاسکے کہ یہاں پر جذبہ ہے اور یہاں فکر۔شاعری میں جذبہ و فکر دونوں سیال صورت میں کچھ اس طرح مل جاتے ہیں کہ انہیں علاحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ کہیں جذبے کا عنصر زیادہ ہوتا ہے تو کہیں فکر غالب آتی ہے ۔ لریکل شاعری کے تعلق سے مظفر علی سید نے بہت عجیب بات کہی ہے ۔

 ’’ بعض لوگوںکی موسیقی کھچ کھچاکرگلے کی راہ اختیارکرتی ہے اور بعض کا سریلا پن،ان کے ذہن میں بسی ہوئی تما م موسیقی، تمام سنی ہوئی سروں اور موسیقارعالم کی بنائی ہوئی،مظاہر قدرت کی گائی ہوئی تمام دھنوں کو سارے بدن کے رگ وپے میں تقسیم کردیتاہے۔۔۔۔ ایسے لوگ جب لریکل شاعری کرتے ہیں تو بڑے بڑے گلے باز اور موسیقی کا عملی تجربہ رکھنے والے بھی لفظوںمیںویسانغمہ سمونے سے قاصر رہ جاتے ہیں‘‘  ۲؎

اردو شاعری میں سب سے زیادہ غنائیت تو امیر خسرو کے یہاں ملتی ہے اوروہ خوش گلو بھی تھے۔ خود میراجی کے عہد میں کئی ترقی پسند شعراء کی شاعری میں غنائیت کا عنصر غالب ہے ۔جن میں مجاز ، فیض اور مخدوم و غیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے یہاں بھی غنائیت بے معنی نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ خوش گلو ہونا اورشاعری کے الفاظ میں نغمگی سمونا اگر چہ الگ الگ باتیں ہیں لیکن عین ممکن ہے کہ دونوں صفات ایک جگہ بھی یکجا ہوجائیں اور علاحدہ علاحدہ بھی موجود ہوں ۔ میرا جی کی شاعری کی غنائیت اگر چہ بہت مختلف تھی اور اس میں بڑی حد تک غور و فکر کا عنصر بھی شامل تھالیکن مظفر علی سید نے ساحر لدھیانوی اور حفیظ جالندھری کی شاعری کی غنائیت کو کمتر اور گلے باز کہا ہے۔ اصل میں میرا جی کے ساتھ ساحر اور حفیظ جالندھری کا نام لینا بھی مناسب نہیں ہے۔

 مظفر علی سید کا خیال ہے کہ میراجی بھگتی عہد کی شاعری ، وید ، مہابھارت ، گیتا اور کالی داس کے ترجموں میں استعمال شدہ مقامی لفظوں اور قدیم ہندی تہذیب اور اس کی روح سے بخوبی آشنا تھے اوران کی شاعری میں لفظوں کی ثروت مندی بھی نظرآتی ہے ۔ قدیم ہندوستانی تہذیب اور ہند و دیو مالائی عناصر سے گہر ے لگاؤ ہی کا نتیجہ ہے کہ میرا جی کی شاعری میں جنگل ، مندر اور سادھوؤں کی آوارہ گردی ہے۔ان کی شاعری میں اساطیر کا عکس ہندو دیو مالائی عناصر کی دین ہے۔وزیر آغا نے تومیراجی کی شاعری میں آزاد پنچھیوںکو آوارہ سادھوؤں کا استعارہ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان کی شاعری میں آزاد پنچھی جنگل کی تصویر اور زیادہ خوبصورت بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مظفر علی سید نے میراجی کے گیتوں کے موضوعات کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان میں تنوع بھی ہے اور نیاپن بھی۔ وہ لکھتے ہیں۔

 ’’ عظمت اللہ سے لے کر میرا جی تک لریکل شاعری کے جو جو پہلو اور جو جو موضوع تمام لوگوں نے برتے ہیں ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے پھر محسوس ہوگا کہ میرا جی کے کئی موضوع اورپھر ان کے کئی ایسے تفیصل کے پہلو ہیں جن کو کسی گیت لکھنے والے نے چھوا ہی نہیں ہے ‘‘   ۳؎

مظفر علی سید نے نہ صرف میراجی کے گیتوں کا مطالعہ کیا تھابلکہ ان سے ما قبل لکھے گئے گیتوں کے موضوعات، ان میں برتے گئے الفاظ ،ان کی نغمگیت اور ان میں موجود فکر انگیز پہلوؤں پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میراجی کی شاعری میں بعض ایسے فکری پہلو تلاش کر لیتے ہیں جس طرف عموماً ہماری نظر نہیں پڑتی۔

مظفر علی سید نے اپنے مضمون راشد اور ایران کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ راشد کی نظموں کے مطالعے میں جو چیز سب سے زیادہ حائل ہوتی ہے وہ راشد کی زبان ہے۔ راشد کی زبان کے تعلق سے یہ عمومی رائے ہے کہ انہوں نے فارسی زدہ زبان استعمال کی۔ ان کی نظموں میں فارسی تراکیب دشواری کا باعث بنتی ہیں ۔ مظفر علی سید کا خیال ہے کہ راشد کا فارسی آمیز اسلوب ایران جانے سے قبل بھی کم و بیش اسی نوعیت کا تھا اور ان کے اس اسلوب کے متعلق جو شکایت کی گئی وہ خاصی بعد از وقت تھی ۔ راشد کے اسلوب میں مشکل پسندی ضرور ہے لیکن دیکھنا یہ چاہیے کہ اس مشکل پسندی سے جہتیں روشن ہوئیں یا نہیں۔ ایران میں اجنبی کی نظمیں ماوراء کی نظموں کے مقابلہ زیادہ فارسی زدہ ہیں۔ بلکہ ما وراء کی نظموںمیں بھی فارسی کا اثر خوب ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ آتی ہے کہ راشد نے فارسی ادب اور تہذیب و تاریخ سے اپنا رشتہ قائم کیا تھا ۔اس کا اثر ان کی شاعری پر ہوا۔یہی وجہ ہے کہ ایران جانے سے قبل بھی راشد کا انداز سخن یہی تھا۔ راشد کی زندگی ، شاعری اسلوب و آہنگ اور ان کے فکری سر چشموں پر مظفر علی سید کی نظر بہت گہر ی تھی۔ مظفر علی سید کو راشد کے ساتھ تہران میں وقت گذارنے کا کچھ موقع میسرآیا۔اس موقع سے بھی مظفر علی سید نے راشد کو قریب سے دیکھا۔ضیاء جالندھر ی نے راشد پر یہ الزام لگایا تھا کہ راشد ایران کا گہرا مطالعہ نہ کر سکے ۔ضیاء جالندھر ی کے اس الزام کے حوالے سے مظفر علی سید لکھتے ہیں۔

 ’’مسئلہ یہ ہے کہ ارض عجم ایک اجنبی سپاہی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے لیکن اس کے روحانی کرب سے آشنا نہیں ہو سکتی ۔اصل میں راشد دشمن کا فوجی ہونے کے باوجود آزادی کا شاعر ہے اور آزادی کا تصور صرف سیاسی نہیں ہو سکتا ۔ذہنی تہذینی اور فنی آزادی کے بغیر سیاسی آزادی کسی دور رس معنویت کی حامل نہیں ہو سکتی ۔‘‘   ۴؎

 مظفر علی سید نے اس تعلق سے جو باتیں کہی ہیں اس سے راشد پر لگے الزام کا پوری طرح دفع نہیں ہوپاتا۔ ماوراء کی نظمیں ہوں یا پھر ایران میں اجنبی کی نظمیں بیشتر جگہوں پر احتجاج کار ویہ نظر آتا ہے۔ یہ احتجاج داخلی کرب اور روح کی گہرائیوں کا سوز محسوس کرنے کے بعد پیدا شدہ کیفیت کا اظہار ہے۔ یہ داخلی کرب ایران میں اجنبی کی ابتدائی فصل کے تیرہ کینٹوز میں بھی ہے اور سبا ویراں اور اسرافیل کی موت جیسی نظموںمیں بھی۔یہ صحیح ہے کہ راشد اتحادی افواج کا ایک حصہ تھے ،ایران میں ان کی حیثیت ایک اجنبی کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی روح مشرقی تھی ۔ مظفر علی سید نے جس طرح راشد کی ایرانی زندگی کی تصویریں کھینچی ہیں اور قیام ایران کے دوران ان کی فکری ارتقا کے متعلق جو گفتگو کی ہے وہ راشد کی پیچیدہ نظموں اور اس کے پس منظر کو سمجھنے میں بہت معاون ہیں ۔ راشد کا فکری کینوس جس قدر وسیع ہے ان کے عہد کا کوئی بھی شاعر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔شمیم حنفی نے تو اپنے ایک مضمون’’خودکوزہ و خو کوزہ گروخود گل کوزہ‘‘ میں راشد کو دانشورنہ آہنگ اور تفکر کے اعتبار سے غالب اور اقبال کے بعد تیسرا سب سے جاذب نظر شاعر قرار دیا ہے۔ اور یہ بات کہی ہے کہ راشد کے یہاں جو تفکر کی گونج سنائی دیتی ہے وہ فیض ،میراجی ، مجید امجد اور اخترالایمان کے یہاں نہیں ہے ۔دانشورانہ آہنگ کا مطلب راشد کا فارسی اسلوب اور تراکیب ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے شمیم حنفی کے ذہن میں دانشوارنہ آہنگ کی کوئی اور تعبیر ہو۔ مظفر علی سید نے پطرس کے دیباچہ کے حوالے سے راشد اور انیسویں صد ی کے انگریز شاعر براؤننگ کے مابین تقابل کی بات کی ہے ۔یہاں انہوں نے یہ بنیادی سوال اٹھا یا ہے کہ براؤننگ کے ڈرامائی مونولوگ سے راشد نے کیا کچھ سیکھا اور اسے کس طرح برتا۔اس تعلق سے مظفر علی سید کا خیال ہے کہ’’ ایران میں اجنبی‘‘ کے کم سے کم پانچ کینٹوز اسی تکنیک میں لکھے گئے ہیں۔ من وسلوی ،دست ستمگر ، کیمیا گر اور تیل کے سود اگر وغیرہ میں خطابت زیادہ اور ڈرامائیت کم ہے۔ راشد کی نظموں میں جہاں تک خود کلامی کی بات ہے تو ان تیرہ کینٹوز کے علاوہ دیگر نظموں میں بھی خود کلامی کا لہجہ پایا جاتاہے۔ ڈرامائی کیفیت تو ایران میں اجنبی کی دوسری نظموں میں بھی موجود ہے۔ اس تعلق سے جو مظفر علی سید نے راشد کی تین چار نظموں کا تذکرہ کیا ہے جن میں’’ حرف ناگفتہ‘‘،’’ یہ دروازہ کیسے کھلا‘‘،’’ زندگی مری سہ نیم‘‘ بطور خاص قابل غور ہیں۔ راشد کی ان نظموں میں خود کلامی بھی موجود ہے اور ڈرامائی کیفیت بھی۔’’یہ دروازہ کیسے کھلا‘‘ میں ڈرامائی عنصر زیادہ نظر آتا ہے۔ ان تین نظموں کے تعلق سے شمس الرحمان فاروقی نے اپنے مضمون’’ ایران میں اجنبی ،ن م راشد کی تین نظمیں‘‘ میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ راشد کی یہ تین نظمیں اسلوب موضوع اور لہجہ کے اعتبار سے بہت مختلف ہیں۔ مظفر علی سید نے راشد کی نظم حسن کوزہ گرپہ بھی گفتگو کی ہے ۔ حسن کو زہ گر چار حصوں میں ہے ۔ اس میں ڈرامائیت بھی ہے اور خود کلامی بھی ۔ مظفر علی سید کا خیال ہے کہ اس نظم میں راشد نے اپنے کردار کو اپنے اوپر تقریباً منطبق کرلیا ہے۔ یہ صرف راشد کا کردار نہیں ہے بلکہ پورے مشرق کی ایک شکل ہے جو حسن کو زہ گر کے کردار میں جذب اور ضم ہوگئی ہے ۔ شمیم حنفی لکھتے ہیں۔

’’ اس نظم کو راشد کی عمومی مجموعی حسیت کے نچوڑ اور ان کی زندگی کے عمر بھر کے تجربے کی اساس کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے ‘‘   ۵؎

 راشد کی زندگی اور ان کے عمر بھر کے تجربے کو جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا وہ مشرق کی تاریخ و تہذیب تھی۔ اس روشنی میں ایک نامعلوم مستقبل سے راشد کا رشتہ استوار ہوجاتا ہے۔ اس تناظر میں راشد کی یہ نظم حسن کوزہ گر بہت بامعنی ہوجاتی ہے۔ مظفر علی سید نے اختر الایمان کی شاعری کو تیسری آواز کہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ نئی شاعری کی ایک آواز تو فیض کی تھی جس میں غنائیت اور شیرینی تھی۔ دوسری آواز راشد کی آواز تھی جس میں لطافت کے بجائے صلابت کارنگ تھا۔ اختر الایمان کی آواز ان دونوں آوازوں سے مل کر تیار ہوئی۔ اختر الایمان کی شاعری کے تعلق سے یہ بات کہی گئی ہے کہ وہ نثر زدہ شاعری ہے۔ اس میں تراکیب کا کم کم استعمال ہوا ہے لیکن اس نثر زدہ شاعری کی نثر کرنا بھی آسان نہیں ہے ۔ مظفر علی سید نے اختر الایمان کی شاعری کے بنیادی مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں۔

 ’’ اختر الایمان کی نظموں میں ایک ایسی بے طرفی اور غیر جانبداری نظر آتی ہے جس میں تجرے کو فاصلے پر رکھ کر مشاہد ہ کیا گیا ہے اس طرح یہ مواصلاتی مشاہدہ پڑھنے والے کے لیے بیک وقت ایک محسوساتی تجربہ اور شعوری تبصرہ بن کر سامنے آتا ہے اور یہ شاعری آپ بیتی ہونے کے باوجود جگ بیتی کی طرح پڑھی جاسکتی ہے ‘‘ ۶؎

 تجربے کو فاصلے پر رکھ کر مشاہدہ کرنے کا ایک مطلب تویہ ہے کہ اپنے اوپر بیتے ہوے واقعات و معاملات کا از سر نو پوری ایمانداری کے ساتھ تجزیہ کیا جائے۔ مشاہدے کا یہ طریقہ آسان نہیں ہے۔ آپ بیتی کو جگ بیتی بنادینے کی بات تو میرـؔ کے تعلق سے بھی کی گئی تھی لیکن میرؔ کی زندگی ، معاشرت اور اس کا تاریخی سیاق اختر الایمان سے بہت مختلف تھا۔ مظفر علی سید نے اختر الایمان کی نظموں میں ڈرامائی کیفیت اور مکالماتی انداز بیان کی بات بھی کی ہے۔یہ صرف اختر الایمان کا امتیاز نہیں ہے بلکہ راشد کے یہاں بھی یہ فنی سروکار موجود ہے۔ البتہ اخترالایمان کی نظموں کا کھردرا پن اگر چہ ان کے آہنگ اور الفاظ کی بندش میں ایک طرح کی لڑکھڑاہٹ پیدا کردیتا ہے مگر یہ کھردراپن ان کی نظموں کی خوبی بھی ہے اور اختر الایمان کی نظموں کا امتیاز بھی ۔مظفر علی سید نے اختر الایمان کی رجعت پسندی کے متعلق بھی گفتگو کی ہے۔ وزیر آغا نے اپنے مضمون میں اختر الایمان کو مراجعت کی ایک مثال قرار دیا تھا ۔ وزیر آغا نے پہلی بار یہ بات کہی تھی کہ اختر الایمان نے زندگی کی داخلی سطح سے خارجی سطح کی طرف مراجعت کی تھی۔ اختر الایمان کے پہلے مجموعے ’’ گرداب‘‘کے سلسلہ میں فراق نے یہ کہا تھا کہ نئے شاعروں میں سب سے گھائل آواز اختر الایمان کی ہے ۔ مظفر علی سید نے اختر الایمان کے جن نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ا س میںایک اہم موضوع اختر الایمان کی نظموں میں انسان کی دربدری ہے ۔ اختر الایمان کے یہاں یہ موضوع متعدد جگہوں پر نظر آتا ہے لیکن اس میں یکسانیت نہیں ہے۔ اختر الایمان نے اس ایک موضوع کو مختلف انداز سے برتاہے۔

’’ناصر کاظمی ایک گم گشتہ نوا‘‘ میں مظفر علی سید نے ناصر کاظمی کی دو غزلوں کا تجزیہ کیاہے۔ اس میں پہلی غزل تو ’’ دیوان‘‘ کی غزل اول ہے جس کا مطلع ہے۔

آرائش خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو

وہ درد اب کہاں جسے دل چاہتا بھی ہو

 دوسری غزل وہ ہے جس کی ردیف شام فراق ہے۔ ناصر کی غزلوں میں ایسی اور بھی غزلیں موجود ہیں جن کے ذریعہ ناصر کی شاعری کے متعلق گفتگو ہوسکتی ہے۔ مظفر علی سید نے ناصر کی زبان و اسلوب کے بجائے ان کی شاعری کے مواد و موضوع اور اس کے ماخذ پر انحصار کیا ہے ۔ ناصر کاظمی کے داخلی ماحول سے مظفر علی سید کو بس اتنا ہی سروکار ہے کہ وہ ادھر ادھر سے سنی ہوئی باتوں کو پورے اعتماد کے ساتھ ذاتی دریافت بنا کر پیش کرسکتے تھے۔ مظفر علی سید نے ناصر کاظمی کی کم مائیگی اور کم علمی کے مسائل اٹھائے ہیں اور ان باتوں کا دفع بھی کیا ہے ۔ان کاخیال ہے کہ ناصر کو مغرب کے جدید علوم و فنون سے گہری آشنائی کا موقع نہیں ملا۔ وہ اس واقعہ کا بھی تذکرہ کرتے ہیں کہ ناصر نے دانشوروں کی محفل میں یا تو اشعار سنائے یا خاموشی اختیار کی۔ مظفر علی سید نے یہ بات بھی کہی ہے کہ ناصر اس قدر ناخواندہ بھی نہیں تھے جتنے آج کے دانشور ہوتے ہیں۔ انہوں نے جس قدر اپنے محدود مطالعے سے فائدہ اٹھایا آج کے دانشور اتنا فیض اپنے مطالعے سے نہیں اٹھاتے ۔ مظفر علی سید نے ناصر کی زندگی کی بہت ساری باتوں کو گفتگو کا موضوع بنایا ہے ۔اس نوع کی تمام باتیں ناصر کاظمی کے شعری متن سے بہت کم سروکار رکھتی ہیں۔ ناصر کاظمی کس قدر خواندہ تھے اور کس قدر ناخواندہ ناصر کے متن کے سامنے تمام باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ خود ناصر کے عہد میں بہت سارے دانشوروں نے شاعری کی ہے۔ لیکن ان کی شاعری کوئی کشش نہیں رکھتی۔ مظفر علی سید کے مضمون میں وہ حصہ جہاں انہوں نے ناصر کی غزلوں کا تجزیہ کیا ہے اور ان کی غزل میں رفتگاں کے موضوع پر گفتگو کی ہے وہ بہت اہم ہے ۔ ناصر کی آواز میرؔ کی آواز سے بہت مماثل ہے اور پھر ناصر کے یہاں فراق کا اثر بھی موجود ہے۔ مظفر علی سید نے کئی جگہ ناصر کے یہاں فراق کا اثر تلاش کیا ہے۔ ہم عام طور سے کسی شاعر کو کسی دوسرے شاعر سے مماثل قرار دے دیا کرتے ہیں لیکن ان چیزوں کی نشاندہی آسان نہیں۔ ناصر کاظمی والے مضمون میں مظفر علی سید نے جس طرح ناصر کے یہاں رفتگاں کے مضامین تلاش کئے ہیں وہ اصل دیکھنے کی چیز ہے۔

رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا

اگ رہی ہے زمیں پر گھاس بہت

اگر رفتگاں کی یاد میں ناصر کاظمی صرف مندرجہ بالا شعر کہہ لیتے تو کافی ہوجاتا۔ مظفر علی سید نے بھی اس شعر کو اپنے مضمون میں شامل کیا ہے ۔ وہ اس ضمن میں انفرادی طور پر ہر شعر کو موضوع گفتگو نہیں بناتے۔ بلکہ انہوں نے اجتماعی طور پر رفتگاںکے مضمون کے متعلق گفتگو کی ہے اور اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ناصر کے کس شعر میں کون گمشدہ ہے ۔ ناصر نے جہاں رفتگاںیا گزرے ہوئے لوگوں کی بات کی ہے وہاں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ رفتگاں یا لوگ کے لفظ سے فلاں اشخاص یا افراد ہی مراد ہیں۔ اس تنقیدی رویے میں معنی کا دائرہ محدود ہوجائے گا۔ شعر متعدد معنی کا متحمل نہیں رہ سکتا۔ ممکن ہے کوئی قاری ان الفاظ میں کچھ دوسرے معنی تلاش کرلے ۔لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ناصر کی غزل میں رفتگاں یا لوگ کا لفظ فلاںشخص کی جانب دلالت کرتا ہے۔

’’سخن اور اہل سخن ‘‘میں منٹو کے موضوع پر دو مضامین شامل ہیں ۔ایک مضمون’’ منٹو کی کردار یات‘‘ پہ ہے اور دوسرا ’’افسانہ ساز منٹو‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ مظفر علی سید نے اپنے مضمون منٹو کی کرداریات میں منٹو کے متنازع فیہ کرداروں اور ان کے رویوں پر گفتگو کی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ منٹو کو سرسری طور پر پڑھنے کے بعد لوگوں کو یہ گمان گزرتا ہے کہ منٹو کا موضوع صرف طوائف ہے۔ بلاشبہ منٹو نے طوائف کے موضوع پر کئی کامیاب کہانیاں لکھی ہیں ۔ خود اس مضمون میں بھی منٹو کے یہی کردار گفتگو کا محورہیں ۔ منٹو کو بیشتر انہی کرداروں کی وجہ سے پڑھا گیا ۔ ان کرداروں کے علاوہ بھی منٹو کی کہانیوں میں کردار موجود ہیں لیکن شاردا، جانکی، خوشیااور زینت جیسے کرداروں نے قاری کو زیادہ متاثر کیا۔ طوائف کے موضوع پر مشتمل کہانیوں کے مقابلہ منٹو کی دیگر کہانیاں کم پڑھی گئیں۔ مظفر علی سید نے اس مضمون میں سو گندھی ، زینت ، بابوگوپی ناتھ ، رکما، راج کشور ، خوشیا اور شہزادہ غلام علی جیسے کرداروں کی نفسیاتی کیفیات اور رویے پر گفتگو کی ہے۔ ان کرداروں کی تخصیص و عامیانہ پن پر بالتفصیل وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ۔

’’ منٹو normality of the abnormal اور abnomality of the normalکا قائل ہے انسانوں کی معمولی اور غیر معمولی خانوں میں تقسیم اسے بڑ ی سطحی سی معلوم ہوتی ہے۔‘‘   ۷؎

منٹو نے جس عہد میں طوائف اور دلال کے موضوعات پر کہانیاں لکھیں تھیں وہ آج سے خاصہ مختلف تھا ۔ منٹو نے اس عہد میں انسان کی جس abnormalزندگی کی normality دریافت کی تھی وہ آج زیادہ حقیقت پر محمول کی جاسکتی ہے۔ منٹو کے کرداروں پر یہ الزام تھا کہ منٹو کی طوائف اور دلال اپنے غلیظ پیشے کے باوجود ایک انسانی جذبے، ہمدردی اور خلوص سے مملو ہوتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔یعنی اصل زندگی میںطوائف اور دلال ان جیسے انسانی اوصاف سے متصف نہیں ہوتے۔ مظفر علی سید نے منٹو پرلگے الزام کا رد کیا ہے ۔ ظاہر ہے اصل دنیا میں طوائف اور دلال کی زندگی اگرچہ غلیظ ہوتی لیکن بطور انسان ان میں بھی ایک انسانی جذبہ ضرور پایا جاسکتا ہے۔ اپنے مضمون افسانہ سازمنٹو میں مظفر علی سید نے منٹو کے بیانیہ اسلوب، اس کی کہانیوںکے مزاج کی نشتر یت سے بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔

’’منٹو ایک بیدرد اور سفاک حقیقت نگار ضرور ہے لیکن اس کے متعدد افسانو ں کی تہ میں ایک عمیق اور نازک ورد مندی پائی جاتی ہے جو رقیق القلب قسم کے جذ باتی افسانوں میں نہیں ملتی۔ بابو گوپی ناتھ اور ٹو بہ ٹیک سنگھ جیسے افسانو ں میں بظاہر مرکزی کردار کے ساتھ استہزائی لہجہ روا رکھا جاتا ہے لیکن بالآخرجب شخصیت کی پر تیں کھلتی ہیںتو ان کادکھ ہمارا دکھ بن جاتا ہے‘‘   ۸؎

منٹو کی سفاک حقیقت نگاری کے تعلق سے بہت کچھ لکھاگیا۔مقدمے چلے لیکن بالآخر منٹو کی حقیقت نگاری کو بھی تسلیم کیاگیا۔ منٹو کے افسانوںاور کرداروں کے تئیں مظفر علی سید کی تنقیدمثبت ہے ۔وہ ان کی مطعون کہانیوں اور کرداروں میں زندگی کی سچائی اور سادگی دیکھتے ہیں۔ منٹو کی زندگی اور شخصیت کو کسی تحریک و تنظیم کے حوالے سے نہیں دیکھنا چاہتے ۔ان کا خیال ہے کہ ایک بڑا فنکار کسی تحریک اور تنظیم کے دائرے میں بہت دیر تک قیدنہیںرہ سکتا ۔ منٹو کی ترقی پسندی پر بھی سوال اٹھائے گئے۔ حلقہ میں ان کی شرکت پر واویلا مچا۔ مظفر علی سید کا خیال ہے کہ منٹو کی شخصیت ان ہنگاموں سے بہت بلند تھی۔

’’ اصل میں منٹو فنکار کی آزادی کا نقیب تھا۔ جہاں تک سماجی سیاسی رجحانات کا تعلق ہے وہ ۳۶؁ء کا منشور شائع ہونے سے پہلے بھی اتناہی ترقی پسند تھا جتنا کہ آخر دم تک رہا اور جہاں تک فنی اقتدار اور انسانی نفسیات سے اس کی وابستگی کا تعلق ہے تو یہ رجحان بھی اس کے یہاں حلقۂ ارباب ذوق کے قیام سے پہلے موجود تھا‘‘  ۹؎

 مظفر علی سید کی دونوں تحریر یں منٹو کے فن اور شخصیت پر ایک مثبت روشنی ڈالتی ہیں۔ منٹو کے فن اور شخصیت پر جتنے الزامات عائد کئے گئے یہ دونوں تحریریں ان الزامات کا رد بھی ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھنے کے بعد منٹو کے فن اور شخصیت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔

 مظفر علی سید نے دو مضامین بیدی پر لکھے ہیں۔ ایک مضمون تو بیدی کی مشہورکہانی’’ گرہن‘‘ کے تجزیے پر مشتمل ہے ۔دوسرا مضمون ’’بیدی کا المیہ‘‘ کے عنوان سے ہے۔ ’’ بیدی گرہن میں ‘‘میں مظفر علی سید نے بیدی کے ایک نئے اسلوب کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ان کے خیال میں گرہن کے بیدی دانہ و دام کے بید ی سے بہت مختلف ہیں ۔ دانہ و دام میں بھولا، ہمدوش ، چھوکری کی لوٹ ، تلادان اورگرم کوٹ جیسی کہانیاں شامل ہیں ۔جبکہ گرہن میں اغوا ، غلامی ، تلچھٹ ،رحمن کے جوتے ، زین العابدین اور گھر میں بازار میں جیسی کہانیاں ہیں۔ اس میں ’’گرہن‘‘ بھی ہے۔

’’ دانہ و دام کے بعدبیدی کے یہاں واضح طو رپر چیخوف سے جدائی شروع ہو جاتی ہے اور بالآخر وہ منٹو کے بے حدقریب پہنچ جاتے ہیں مگر اس وقت ہمارا مرکز توجہ ان کا وہ افسانہ ہے جہاں اس عمل کا آغاز ہوتاہے۔ ذرا ایک نظر گرہن پر ڈال کر دیکھئے اور سوچئے کہ کیا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ بیدی کے یہاں تیز جذبات ،غیرمعمول واقعات اور طوفانی حادثات شاذ ہی ملتے ہیں‘‘   ۱۰؎

بیدی کے افسانوں کے تعلق سے یہ بات کہی گئی ہے کہ ان کی کہانیوں میں چیخوف کار نگ پایا جاتا ہے ۔ گرہن سے ایک نئے بیدی کو دریافت کرنا خصوصاً جس میں چیخوف سے علاحدگی ہو ایک نئی بات ہے۔ گرہن میں بلاشبہ تیز جذبات اور طوفانی حادثات ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا گرہن میں شامل دوسری کہانیوں میں بھی اس نوع کے شدید جذبات ہیں؟ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو ‘‘اور’’ ہاتھ ہمارے قلم ہوے‘‘ کی تمام کہانیاں میں بھی تیز جذبات اور طوفانی حادثات نظر آتے ہیں لیکن ان کا ہمدردانہ اور مشفقانہ رویہ بھی اس کے ساتھ ساتھ نظر آتا ہے۔ مظفر علی سید نے گرہن میں اساطیر ی جڑوں کا سرے سے انکار کیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کے ناقدین بیدی کی کہانیوںمیں اساطیر ی اور دیومالائی عناصر تلاش کرتے ہیں ۔ ’’بیدی گرہن میں‘‘ پڑھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ مظفر علی سید کے نزدیک گرہن میں اساطیر اور مابعد الطبیعاتی فضاء مفقود ہے۔ حالانکہ چاند گرہن میں اساطیر اور مابعد الطبیعاتی تذکرہ ہی دیو مالائی عناصر کا اظہار ہے ۔ ان دیو مالائی عناصر کے باوجود انہوں نے گرہن کی فضا میں اساطیر سے انکار کیا ہے۔

کتاب کا آخری مضمون ’’ میرؔ کی فارسی سخن گوئی بر صغیر کے تہذیبی پس منظر میں ‘‘ہے ۔ یہ اس کتاب کا سب سے طویل مضمون بھی ہے جو پچاس صفحات پر مشتمل ہے۔ اس مضمون کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ مضمون کی نوعیت تحقیقی بھی ہے اور تنقیدی بھی۔ مظفر علی سید نے بعض ایسی اطلاعات فراہم کی ہیں جو عام طور پر نگاہوں سے اوجھل ہیں ۔ میرؔ نے دو برس تک اردو چھوڑ کر صرف فارسی شاعری کی تھی اور ان کا فارسی دیوان تقریباً تین ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ لیکن میر کی فارسی شاعری کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ مظفر علی سید کا خیال ہے کہ میر ؔکی فارسی شاعری اگر چہ میرؔ کی ریختہ گوئی کے ہم پلہ قرار نہیں پاسکتی لیکن آج جب کہ ہم مطالعہ ٔ میرؔ کی طرف اس قدر راغب ہوئے ہیں تو میرؔ کی فارسی گوئی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے میرؔ کی فارسی شاعری کے تعلق سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مولوی عبد الباری آسی نے دیوان میرؔ (فارسی ) کو محض تفنن طبع اور خانہ پر ی پر محمول کیا۔ اس ضمن میں مظفر علی سید نے عبد الباری آسی کی کوتاہیوں کو بھی آشکار کیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ عبد الباری آسی نے جو دیوان میرؔ (فارسی ) کا انتخاب پیش کیاہے وہ اول تو ایک دو صفحات پر مشتمل ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں صرف ردیف الف یعنی دیوان کے ابتدائی چند صفحات شامل ہیں اور انتخاب کا یہ رویہ میرؔ کی فارسی شاعری کی وضاحت کی تئیں پوری طرح کامیاب نہیں ہے۔ مظفر علی سید کا خیال ہے کہ جس دور میں میںمیرؔو سوداؔ فارسی کے قدیم مضامین اور فارسی شاعری کے کلاسیکی اساتذہ کا معیار سخن قائم کرنے میں کوشاں تھے اسی عہد میں ایرانی شعراء بھی اپنے متقدمین کی پیروی کررہے تھے۔ اس ضمن میں مظفر علی سیدنے ہندوستان کی فارسی شاعری کی روایت اور اسی عہد میں ایران کی فارسی شاعری کو موضوع بحث بنایا ہے ۔

’’ بعد میں اسی قسم کے اعتراضات بہت سارے ایرانی علماء و ادباء نے بر صغیر کے اکثر فارسی شعراء پر ( ماسوا مسعود سعد سلمان اور امیر خسرو) بلکہ ان ایرانی شعراء پر بھی جو یہاں (ہندوستان)مقیم ہوگئے تھے وارد کئے ہیں۔ یہاںتک کہ فارسی کے خاص انداز تحریر کا نام سبک ہندی رکھ دیا گیا جسے جملہ اعتراضات کا خلاصہ کہنا چاہئے ( اگر چہ بعد میں جب یہ معلوم ہوا کہ اس قسم کا انداز تحریر پہلے سے ایران میں شروع ہوچکا تھا تو پھر اسے سبک اصفہانی قرار دے کر اس کی بعض خوبیوں کی دریافت بھی شرو ع ہوگئی‘‘   ۱۱؎

اس اقتباس میںاعتراضات سے مراد تکرار مطالب، حشووزائدکااستعمال،بے محاورگی،بے ربطی، تصرفات اور مہمل نویسی ہے۔دراصل اس قسم کے اعتراضات خان آرزو نے شیخ علی حزیںؔ کی شاعری پہ کئے تھے اور پھر ایرانی ادیبوں نے یہی اعتراضات بر صغیر کے فارسی شعراء پر کئے۔اس ضمن میں مظفر علی سید نے میر ؔسے قبل ہندوستان کی فارسی شاعری کی کیفیات کا جائزہ لیا ہے اور بیدل عظیم آبادی سے ناصر علی سر ہند ی تک کی فارسی شاعری سے بحث کی ہے ۔ اور یہ سوال قائم کیا ہے کہ میرؔ وسوداؔ اور اس عہد کے دیگر شاعروں کی نظرایران کی کلاسیکی شاعری کی طرف کس طرح پڑی۔ خان آرزو کی رہنمائی سے َ۔۔۔۔؟  یاشاہ گلشن کی ہدایت سے ۔۔۔۔؟۔ مظفر علی سید نے خان آرزو کی زندگی ، شخصیت ،ان کے کمالات اور میرؔ کے ساتھ ان کے رشتے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔میرؔ ایک مدت تک خان آرزو کے ساتھ رہے اور پھر ان سے علاحد گی و رنجش بھی ہوگئی ۔جس کا میرؔنے ذکر میرؔ میں تذکرہ کیا ہے ۔یہاںایک بات قابل غور ہے کہ میر ؔ ذکر میرؔ میں تو خان آرزو کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن نکات الشعراء میں اس رنجش کا اظہار نہیں کرتے۔ مظفر علی سید کا خیال ہے کہ نکات الشعراء اور ذکر میرؔ کے علاوہ میرؔ نے خان آرزو کا ذکر اپنی شاعری میں بھی کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خان آرزو سے رنجش اور علاحدگی کا رد عمل میرؔ کی اردو شاعری کے علاوہ فارسی شاعری میں بھی ہے ۔ فارسی شاعری میں یہ تلخی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

مسلم ایں کہ دارد عیب ہا میرؔ

بحمد اللہ کہ چوں تو بے وفا نیست

ناصح ! جنوں زیادہ شد آخری زپند تو

نفعے نہ کرد، داروے ناسود مند تو

ان اشعار کے تعلق سے مظفر علی سید کا خیال ہے کہ میرؔ کی فارسی شاعری میں شیخ ، واعظ ، ناصح اور زاہد کا مضمون محض روایتی نوعیت کا نہیں ہے۔ بلکہ اس میں میرؔ کی ذاتی واردات کا زور محسوس ہوتا ہے اور ا ن روایتی کرداروں پر مشتمل مضامین میں میرؔ کی فارسی شاعری نے اضافہ کیا ہے۔ اور پھرا ن روایتی کرداروں میں ایک جھلک خان آرزو کی بھی ہے۔ مظفر علی سید کے ان تنقیدی خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔عموماً یہ کہا جاتا کہ میرؔ کی فارسی شاعری ان کی اردو شاعری کا چربہ ہے اور ان کی فارسی و اردو شاعری کے مضامین و اسالیب میں بڑی مماثلت ہے۔ مظفر علی سید نے میرؔ کے ان فارسی و اردو اشعار کو یکجا کیا ہے جو مضمون اور اسلوب کی سطح پر مماثل ہیں ۔ اس نوع کے اشعار یکجا کرنے کے بعد انہوں نے ان اشعار کے مابین تقابل بھی کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ایسے اشعار بہت کم ہیں ۔ میرؔ کے یہاںاردو غزلوں میں بھی ایک مضمون کو مختلف انداز سے برتا گیا ہے لہٰذا عین مناسب سے کہ ایک مضمون جو قبل سے اردو شاعری میں موجود تھا فارسی میں وہ رقم کرتے وقت کچھ مختلف ہوگیا ہو ۔

تری چال ٹیڑھی تری بات روکھی

تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے

خرامت بطرزے کلامت بطورے

ترا کم کسے میرؔ فہمیدہ باشد

آگے کسو کے کیجے کیا دست طمع دراز

وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے

کے پیش منعمان جہاں می شود دراز

بالین زیر سر شدہ دست گدائے او

یہاں مظفر علی سید نے مثالیں پیش کرنے کے بعد یہ بھی بتایا کہ کس طرح میرؔ کے یہاں مضامین فارسی واردو شاعری میں نئی جہت اختیار کرلیتے ہیں ۔شاید مظفر علی سید سے پہلے کسی نے اپنے موقف کی تائید میں میرؔ کے کلام کا اس انداز سے جائزہ نہیں لیا تھا۔ان کا خیال ہے کہ میر ؔنے فارسی شاعری میں سعدی اور حافظ سے لے کر عرفی ، نظیری، صائب ، کلیم بیدل ، ناصر علی ، شیخ علی حزیںاور خان آرزو تک کی زمینوں کو برتا ہے۔ مگر اس کے باوجود میرؔنے بہت ساری زمینیں خود ایجاد کی ہیں۔ ایسی زمینوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ فارسی شاعری ہی کیا میر ؔنے اردو شاعری میں بھی جس قدر زمینیں ایجاد کی ہیں اردو کاکوئی دوسرا شاعر یہاں تک نہیں پہنچتا ۔ اس ضمن میں مظفر علی سید نے بہت ساری ایسی زمینوں کی مثالیںدیں ہیں جو اردو اور فارسی دونوں طرح کی شاعری میں یکساں ہیں۔ میں یہاں ان میں سے دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

نشد شور مزاج امسال از تدبیر ہم آخر

غزل شمار 3-285شعر

جنوں میں اب کے کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر

دیوان دوم۔7شعر

روئے سخن بوصف رخت نیست سوے گل

غزل شمارہ 341۔ 3شعر

زنہار گلستاں میں نہ کر منہ کو سوے گل

دیوان ششم ۔5شعر

مظفر علی سید نے میرؔ کے فارسی کلام سے ان غزلوں کے مطلعوں کا انتخاب کیا ہے جن میں کلام میرؔ (فارسی ) کا طرز خاص یعنی مضامین تازہ وغیر مبتذل ، لطافت اداء اور سوزو گداز صاف نظر آتا ہے۔ میں ان سے چند مثالیں یہاں پیش کرتا ہوں۔

لخت دل ہر شب بدامانم ، نمی دانم چرا

ہر سحر سر در گریبانم نمی دانم چرا

سرگزشت من ادا ازہر زمانے می شود

ایں حکایت رفتہ رفتہ داستانے می شود

در محبت محنت بسیار می باید کشید

بہر یک نظارہ صد آزار می باید کشید

میرؔ نے باضابطہ اگرچہ فارسی شاعری کے لئے اپنا استاد نہیں بنایا تھا لیکن شیخ علی حزیں کی نازک مزاجی اور استغناء نے انہیں متاثر کیا ۔ مظفر علی سید کا خیال ہے کہ ایسا اس وجہ سے بھی تھا کیونکہ شیخ علی حزیںؔاس وقت کے موجودہ بہترین معاصر ایرانی شاعر تھے۔ حزیںؔکے علاوہ شفائیؔ بھی میرؔ کے پسندیدہ شاعر تھے۔

ہے غزل میرؔ یہ شفائی کی

ہم نے بھی طبع آزمائی کی

 مظفر علی سید کے مطابق میرؔ کی رباعیت فارسی بھی اردو کی طرح سے سو سے کچھ زیاد ہ ہیں ۔ عبد الباری آسی نے میرؔ کی رباعیات کے تعلق سے لکھا تھا کہ ان میں حکیمانہ اور فلسفیانہ خیالات کی پابندی نہیں ہے لہذا میرؔ کی رباعیات خیام ، عطار، ابوالخیر وغیرہ کے مرتبے کو نہ پہنچ سکیں۔ مظفر علی سید نے عبدا لباری آسی کے اس خیال کو رد کیا ہے اور کہاہے کہ فلسفیانہ خیالات کے علاوہ نکتہ آفرینی بھی صنف رباعی کا ایک وصف ہے اور اگر یہ وصف خیام کی رباعیوں سے نکال دیا جائے تو خیام کی بھی آدھی خوبیاں ختم ہوجائیں گی اس ضمن میں انہوں نے میرؔ کی فارسی رباعیاں مثال کے طور پر پیش کیں ہیںجن کا خاص وصف نکتہ آفرینی ہے۔ میں ان میں ایک مثال یہاں پیش کرتا ہوں۔

ہر لحظہ چو موج اضطرابے داری

ہر دم رفتار تند آبے داری

صر صر گوئیم یا کہ بروقت خوانیم

اے عمر عزیز بس شتابے داری

 مظفر علی سید نے میرؔ کی ایک فارسی مثنوی کا بھی تذکرہ کیاہے اور لکھا ہے کہ یہ 116اشعار کی مثنوی ہے جسے میر نے کوئی نام نہیں دیا۔ ان کا خیال ہے کہ اسے خضروشاہ یا انقلاب دوراں کا نام دیا جاسکتا ہے ۔ اس کا قصہ نہایت مختصر ہے اور ابتدائیہ خاصہ بڑا ہے۔ میرؔ نے اصل قصہ نہایت عمدگی اور جزالت کے ساتھ لکھا ہے ۔ مظفر علی سید اس مثنوی کے مختلف نسخوں کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہیں کہ ابوللیث صدیقی نے علی گڑھ یونیورسٹی کے بسم اللہ کلیکشن سے جو میرؔ کے دیوان فارسی کا ایک مخطوطہ حاصل کیا ہے اور اس میں جو ایک ناتمام مثنوی کی نشاندہی کی ہے وہ شاید اسی مثنوی کا حصہ ہے اور اختر علی تلہری نے بھی مخطوطۂ لکھنوء کا حوالہ دیا ہے اور اس کے ابتدائی اشعار اپنے مقالے میں رقم کئے ہیں۔ مگر قصہ رقم نہیں ہے۔ مظفر علی سید کا خیال ہے کہ اب یہ مثنوی مطبوعہ شکل میں مکمل ہی معلوم ہوتی ہے۔مضمون کاآخری حصہ میرؔ کی فارسی شاعری کی قدرو قیمت ،اس کی اہمیت و وقعت اور ہندوستانی فارسی شاعری وایرانی شاعری کے درمیان اس کے مرتبے پر مشتمل ہے ۔اس طور سے مظفر علی سید نے میرؔ کی فارسی شاعری کو دس حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد علاحدہ علاحدہ طور سے گفتگو کی ہے اور فارسی شاعری میں دیوان میرؔ (فارسی ) کا مرتبہ متعین کیا ہے۔

حواشی

۱؎   سخن اور ا ہل سخن،مصنف مظفر علی سید،مرتب انتظار حسین، سنگ ِ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۶؁ء صفحہ ۷

۲؎  سخن اور ا ہل سخن ایضاً صفحہ ۱۴۱

۳؎  سخن اور ا ہل سخن  ایضاًصفحہ ۱۴۴

۴؎  سخن اور ا ہل سخن ایضاً صفحہ۱۵۱

۵؎   رسالہ اردو ادب : ن،م راشد نمبر صفحہ۳۷

۶؎  سخن اور ا ہل سخن ،مصنف مظفر علی سید،مرتب انتظار حسین، سنگ ِ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۶؁ء صفحہ ۲۰۱

۷؎  سخن اور ا ہل سخن ایضاً صفحہ ۵۱

۸؎  سخن اور ا ہل سخن ایضاًصفحہ ۶۳

۹؎  سخن اور ا ہل سخن ایضاًصفحہ ۵۸

۱۰؎  سخن اور ا ہل سخن ایضاً صفحہ ۷۰

۱۱؎  سخن اور ا ہل سخن ایضاً صفحہ ۲۴۳

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.