زبیر رضوی کی نظم نگاری کا جائزہ

حبیب الرحمن

 ریسرچ اسکالر،شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

9716929568

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اردوکاشعری منظر نامہ زبیر رضوی کی شاعری اور ذہن جدید کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ زبیر رضوی نے اپنی نظمیہ شاعری کے ذریعہ ایک جدید اسلوب اور آہنگ کا خاکہ تیار کیا، ماضی سے ہمارے رشتوں کو استوار کیا ۔ اعلیٰ اقدار سے ہمیں آشنا کرانے کے ساتھ ساتھ عیاش زدہ ذہن اور زوال پذیر معاشرے پر کاری ضرب بھی لگائی ۔ زبیررضوی نے بہت کچھ لکھا، وہ غزل، نظم، گیت سب پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ نمائندہ نظموں کے حوالے سے اگر ہم دیکھیں تو زبیر رضوی منفرد لب ولہجے کے ساتھ وارد ہوئے۔

’’مسافت شب‘‘ کے حرف آغاز میں خلیق انجم نے ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ میری نظر میں زبیر رضوی کی سب سے بڑی خوبی توازن ہے۔یہ توازن دین ہے عصری زندگی کی پیچیدگیوں کے بھر پور عرفان کی۔ ماضی اور حال دونوں طرف ان کا رویہ ہمدردانہ ہے اسی لئے ان کی شاعری میں رومانوی بغاوت اور انقلاب ، بے وجہ کی چیخ وپکار، گھن گرج یا شدید نفرت اور مردم بیزاری نہیں ملتی بلکہ ایسا ذہن ملتا ہے جو ماضی اور حال سے ہر سطح پر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سمجھوتہ کس طرح کا ہے ؟ کیا وہ ماضی اور حال دونوں کو ان کے لوازمات کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں ؟کیا وہ دونوں سے مطمئن نظر آتے ہیں؟ میرے خیال میں انہوں نے ماضی اور حال دونوں کو آئینہ دکھایا ہے اور دونوں کو اپنی کسوٹی پر پرکھا ہے ۔ ان کے یہاں موجود توازن ایک طرح کا سمجھوتہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی نوعیت ذرا مختلف ہے۔  توازن کا کمال ہے کہ اس نے قاری کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ان کی شاعری میںموجود  غنائیت کا عنصر ان کا خاصہ ہے۔ ایک عجیب سرمستی کی کیفیت میں نظمیں کئی کئی بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ ماضی اور حال کا ادراک کس قدر گہرا ہے اس کا اندازہ بیشتر نظموں میں ہوتا ہے:

سنو کل تمہیں ہم نے مدراس کیفے میں

اوباش لوگوں کے ہمراہ دیکھا

وہ سب لڑکیاں بدچلن تھیں جنہیں تم

سلیقے سے کافی کے کپ دے رہے تھے

(شریف زادہ، سنگ صدا،صفحہ ۳۵)

زمانۂ حال کی بے راہ روی اور ماڈرنزم کے نام پر ہونے والی فحش کاریوں کا بیان کس قدر اچھوتا اور نازک ہے ، بدچلن لڑکیوں کو سلیقے سے کافی کا کپ دینا اس رنگین ذہنی عیاشی کا اشاریہ ہے جسے سلیقہ اور خوش اخلاقی کا نام دے دیا گیا ہے۔

بہت فحش اور مبتذل ناچ تھا وہ

کہ جس کے ریکارڈوں کی گھٹیا دھنوں پر

تھرکتی مچلتی ہوئی لڑکیوں نے

تمہیں اپنی بانہوں کی جنت میں رکھا

بہت دکھ ہوا

(شریف زادہ، سنگ صدا،صفحہ ۳۵)

یہ دکھ ظاہر ہے کہ سمجھوتے سے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لفظ حاصل میں قصداً لکھ رہا ہوں کیونکہ یہ دکھ اسی شعری احساس کا حاصل ہے جسے ایک تخلیق کار ہی محسوس کرتا ہے اور اسے اپنی زندگی کا خزینہ سمجھتے ہوئے لفظوں کا پیکر عطا کرتا ہے۔ یہ حصول اسی خزینے سے نکلے ہوئے چند آنسوؤں اور آہوں کا مرکب ہے۔

سلیقہ جو ہوتا تمہیں لغزشوں کا

تو اپنے بزرگوں کی مانند تم بھی

گھروں میں کنیزوں سے پہلو سجاتے

پئے عشرت دل، حویلی میں ہر شب

کبھی رقص ہوتا کبھی جام چلتے

کسی ماہ رخ  پر دل و جاں لٹاتے

سلیقہ جو ہوتا تمہیں لغزشوں کا

تو یوں خاندانی شرافت، وجاہت

نہ مٹی میں ملتی نہ بدنام ہوتی!!

(شریف زادہ، سنگ صدا،صفحہ ۳۵)

زبیر رضوی نے پہلے تو حال کا آئینہ دکھایا ۔ کھلے عام بزرگوں کی عزت کو اچھالنے پر نئی نسل کو لعن طعن کیا۔ اس نظم کا عنوان ’شریف زادہ‘ اسی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ابھی آپ طبقہ ٔ اشرافیہ کے نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا کسی بھی طرح کی بے راہ روی اس حال میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ نظم کے آخری حصے میں زبیر رضوی حال سے ماضی کی جانب پلٹتے ہیں،  یہ وہ رویہ ہے جو قاری کے ذہن کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے اور اسے سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آخر ان شرفاء کو کس خانے میں رکھ کر دیکھا جائے۔ چونکا دینے والا یہ عمل نہایت ہی فطری ہے یہ قاری کی اس طرح ذہن سازی کرتا ہے کہ انہیں اس بات کے لئے تیار کردیا جائے کہ وہ حیران اور ششدر رہ جائیں۔

’’تو اپنے بزرگوں کی مانند تم بھی

گھروں میں کنیزوں سے پہلو سجاتے‘‘

طنز کے یہ نشتر بہت ہی گہرے ہیں جن کے گھاؤ آسانی سے نہیں بھرے جاسکتے۔ خلوت اور رات کی سیاہی اپنے اندر نہ جانے کتنے فتنے اور ہیبت ناک قصے  سمیٹے ہوئے ہے۔زبیر رضوی سیاہی کی گود سے ہی جنم لینے والے ان بے باک کارناموں کو آئینے کی شکل میں شریف زادوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں کہ سلیقہ اور قرینہ یہ ہوتا ہے ، داد عیش اس طوربھی دیاجاسکتا ہے ، ماہ رخ پر دل وجان لٹانے کا ظرف تمہارے بزرگوں میں تھا، اگر تمہیں ان کے نقش قدم پر چلنا ہی ہے تو ان کی پیروی کرو اور گئی رات تک حویلی میں جشن صہبا مناؤ۔

اس طرح کا طنزیہ لہجہ زبیر رضوی کی شاعری میں جابجا نظر آتا ہے:

اے نگار دل وجاں شوق کی بانہوں میں مچل

سایہ سایہ یونہی آغوش چمن زار میں چل

دن ستم پیشہ ہے رازوں کو اُگل دیتا ہے

رات معصوم ہے رازوں کو چھپا لیتی ہے

(ملاقات، سنگ صدا،صفحہ۴۳)

زبیر رضوی کی نظموں کا یہ روپ بہت ہی متاثر کن ہے جہاں وہ صاف اور نکھری ہوئی زباں کا استعمال کرتے ہیں۔ قاری کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب نظم اپنے ارتقائی منزل کی جانب بڑھتی ہوئی ایک الگ دھارے پر بہنے لگتی ہے، لفظوں کے تانے بانے میںطنز کے پہلو پرچھائیں کی طرح نظر آتے ہیں اور دھیرے دھیرے قاری کے ذہن کو گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اظہار بیان کے اسی وسیلے کو وحید اختر نے خوب سراہا ہے:

’’زبیر رضوی کی نظموں میں ایک مخصوص تہذیبی روایت سے بغاوت نظر آتی ہے، مگر طنز کا نقاب اوڑھ کر۔ میرا یقین ہے کہ آج کے دور میں پرانی اقدار کی تنقید ہو یا نئے معاشرے کا پوسٹ مارٹم ، طنز کے نشتر ہی اظہار کا بہترین وسیلہ فراہم کرسکتے ہیں۔ زبیر نے اپنی ابتدائی سادہ رومانیت کو چھوڑ کر طنز کی تہہ داری کو اپنی کئی حالیہ نظموں میں کامیابی سے برتا ہے۔ علی بن متقی رویا سلسلے کی نظموں کی تفکر آمیز متانت کے پس پردہ بھی طنز کی یہ لہر کار فرما نظر آتی ہے‘‘۔

(وحید اختر،ورق ورق،سنگ صدا، صفحہ ۱۳)

زندگی کا عرفان کوئی آسان کام نہیں ہے۔ایک لمبی عمر کی ریاضت کے بعد خود کو جذبات اور تجربات کی بھٹی میں تپا کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔تخلیق کار اصل کو اصل ہی دیکھتا ہے لیکن اس کا زاویۂ نظر اوروں سے کچھ مختلف ہوتا ہے،اس کے اظہار کا وسیلہ ذرا مختلف ہوتا ہے۔

آسماں ٹوٹا ہوا چاند

ہتھیلی پہ لئے ہنستا ہے

رات آزردہ ستاروں سے سخن کرتی ہوئی

رہگذاروں پہ دبے پاؤں چلی آئی ہے

بھیگ جاتی ہے کسی آنکھ میں آنسو بن کر

پھیل جاتی ہے کسی یاد کی خوشبو بن کر

کہیں ٹوٹے ہوئے پیمان وفا جوڑتی ہے

موج مئے بن کے چھلک پڑتی ہے پیمانوں سے

دل کا احوال سنا کرتی ہے دیوانوں سے

(رات پھر درد بنی، سنگ صدا،صفحہ ۲۴۲)

چاند کا ٹکڑے ہونا ہمارے مذہب سے جڑا ہوا ہے ، یہ تقدیس کے زمرے میں بھی شامل ہے۔ ٹوٹا ہوا چاند ایک طرح کا تلمیحی اشاریہ ہے ۔اظہار بیان کا یہ سلیقہ ایک تخلیق کار کے بس کا روگ ہے۔ آسمان، چانداور رات کو ہم سب دیکھتے ہیں، اسے محسوس کرتے ہیں لیکن زاویۂ نظر میں تبدیلی اسے شعری قالب میں ڈھال دیتا ہے۔ آسمان کا ٹوٹے ہوئے چاند کو ہتھیلی پر لے کر ہنسنا، رات کا آزردہ ستاروں سے ہم سخن ہونا، پھر رہ گزاروں پر دبے پاؤں چلے آنا، کسی کی آنکھ میں آنسو بن کر اتر جانا،یا خوشبو بن کر بکھر جانا یا پھر اپنی انتہا پر پہنچ کر پیمانوں سے موج مئے بن کر چھلک جانا ایک عام انسان کے محسوس کرنے کی چیز نہیں ہے۔ایک تخلیق کار ہی رات کے کرب کو محسوس کرسکتا ہے اور اسے اپنے پیرائے میں بیان کرسکتا ہے اور پھر رات کی اس سے بہتر تعریف اور کیا ہوسکتی ہے۔

اردو شاعری میں رات کا استعارہ کئی جہتوں میں مستعمل ہوتارہا ہے خصوصاً جدیدنظمیہ شاعری میں رات کا کرب،رات اور تنہائی ،رات اور خاموشی ،رات کو ہجر سے جوڑ کر دیکھنا، رات اور صبح آزادی کا تصور اپنے وسیع تر معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ن م راشد کی ایک نظم میں رات کا استعارہ کس طرح بامعنی معلوم ہورہاہے۔ ملاحظہ کیجئے:

یاد ہے اک رات زیر آسمان نیلگوں

یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات

چاند کی کرنوں کابے پایا فسوں…پھیلا ہوا

سرمدی آہنگ برساتا ہوا…ہرچار سو

اور مرے پہلو میں تو…!

میرے دل میں یہ خیال آنے لگا

غم کا بحر بے کراں ہے یہ جہاں

میری محبوبہ کا جسم اک ناؤ ہے

سطح شور انگیز پر اس کی رواں

ایک ساحل، ایک انجانے جزیرے کی طرف

اس کو آہستہ لئے جاتا ہوں میں

(ایک رات:ماورا،ن م راشد )

نیلگوں آسمان کے نیچے بتائی ہوئی اس رات نے محبوبہ کے جسم کو ایک ناؤ کی شکل دے دی ہے ،پہلومیں کسی کے ہونے کا احساس تو ہے لیکن اس کے باوجود متکلم کے دل میں یہ خیال آرہا ہے کہ یہ دنیا ایک بحر بیکراں ہے جس کی لامحدود وسعتوں میں انسانی زندگی بے وقعت سی ہے۔  متکلم محبوب کے جسم کو اسی بحر بیکراں کی شور انگیز سطح پر ناؤ کی طرح استعمال کرتے ہوئے ایک انجان جزیرے کی طرف رواں دواں ہے ۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ وصال کے باوجود متکلم کو کنارا نصیب نہیںہوا، اس کی بے چینی کا خاتمہ نہیں ہوا اور زندگی کا سفر یونہی مسلسل جاری ہے۔ ان تمام چیزوں پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ رات اور شاعر کا تعلق کیسا ہے ، وہ رات کو کن معنوں میں دیکھتا اور سمجھتا ہے، اس رات سے اس کی کون سی توقعات وابستہ ہیں یا کس طرح کی یادیں جڑی ہیں جن کے ساتھ وہ ایک لمبے سفر پر نکل پڑا ہے۔

عزیز حامد مدنی جن کے یہاں نوکلاسیکی طرز آہنگ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ رات کے استعارے کو کس طرح دیکھتے ہیں ایک مثال ملاحظہ کیجئے:

خامشی رات کی بانبی سے نکل آتی ہے

شہر کے شور کو ،جاگے ہوئے میخانوں کو

سائبانوں کو ،دروبام کو، ایوانوں کو

اک ذرا دیر میں ڈس جائے گی دھیرے دھیرے

(رات کی قبر:عزیز حامد مدنی )

رات اور خامشی کے اس تعلق سے جسم میں سہرن سی پیدا ہوتی ہے کہ وہ کس طرح رات اور اس کے لوازمات کو دھیرے دھیرے ڈس رہی ہے۔ ڈسنے کا لاحقہ اور پھر اس سے منسوب پھپھکارر ہی اپنے آپ میں ایک جہان معنی سمیٹے ہوئے ہے ۔ دنیا کو اپنی سرسراہٹ کا احساس دلانے کے بعد ڈسنے کا عمل زہریلے نظام کو اپنے تیز تر زہر سے مات دے رہا ہے۔ یہ عمل اور رد عمل کا کھیل ہے جہاں بازی خامشی کے ہاتھ میں ہے جو زیادہ زہریلی اور تیز تر ہے۔

یوں تو زبیررضوی کی انفرادیت کی بہت ساری وجوہات ہیںلیکن حکائی نظموں کے سلسلے’’پرانی بات ہے‘‘ نے ان کی انفرادیت کو پوری طرح ظاہر کیا ہے۔پرانی بات ہے کا سلسلہ ان کی عظمت کا ایسا ثبوت ہے جس کی وجہ سے زبیر رضوی ہمیشہ ادب میں زندہ رہیں گے۔ ان کے ذریعہ تراشے گئے کردار بظاہر تاریخی نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ فرضی کردار ہیں جن کے ذریعہ ماضی کے قصے حال کے تناظر میں بیان ہوئے ہیں۔علی بن متقی رویا، صفا اور صدق کے بیٹے، کتوں کا نوحہ، ستارہ بخت سوداگر، بنی عمران کے بیٹے، قصہ شجیع زادوں کا، فتح مبیں فتح مبیں فتحن، پاکی داماں کی حکایت، انجام قصہ گو کا، قصہ گورکنوں کا ، خطائے بزرگاں جیسی نظموں میں جب ہم کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں تو اکثر ان کے تاریخی ہونے کا وہم گزرتا ہے۔

’’پرانی بات ہے‘‘کی پہلی نظم ’’علی بن متقی رویا ‘‘ ہے ۔ زبیر رضوی حکائی نظموں کے سلسلے سے پہلے خود یہ واضح کردیتے ہیں کہ انہوں نے یہ نظمیں کیوں اور کس مقصد کے تحت لکھیں۔

’’پرانی بات ہے سلسلے کی نظمیں اس احساس کے تحت لکھنی شروع کی تھیں کہ راتوں کو قصہ سنانے کی روایت آج بھی چوپالوں‘ آنگنوں اور ڈرائنگ روموں میں زندہ ہے‘میری مشکل یہ تھی کہ قصہ کہاں سے شروع کروں ۔ میں نے حافظے کو ٹٹولا‘ اس ماضی کی راکھ کریدی جس کی پیشانی پر میرے اجداد کی خوش بختیوں اور ان کے اقبال کے قصیدے اور قصے لکھے۔ قصوں کی یہ بیش بہا دولت پاکر مجھے اچانک اپنی ثروت مندی کا احساس ہوا اور پھر یوں ہوا کہ میں نے اپنے اجداد کی خلوت وجلوت سے ایک ایک کرکے پردے اٹھانے شروع کردئیے‘ جب پہلی نظم ’’علی بن متقی رویا‘‘ لکھی تو احساس ہوا کہ ماضی کی جو تہذیبی فضا ‘ عقیدے اور تطہیر کے جو مواعظ اور حسب نسب کی جو پرانی تاریخ مجھے ورثے میں ملی تھی اور جو آج بھی بدلے ہوئے لباسوں میں موجود ہے اسے داستان کی زبان میں بیان کرنا زیادہ اثر انگیز ہوگا۔ پرانے قصہ گو ہمیں قصہ سناتے ہوئے غیر محسوس طور پر اخلاقی تربیت دینے کا جتن کرتے تھے میں نے ان نظموں کے ذریعے آج کے ذہن کو اپنے ارد گرد حصارِ حمد تعمیر کرنے کی تحریک دینا چاہی ہے کہ حصارِحمد میرے نزدیک انسانی تطہیر کا دوسرا نام ہے!‘‘

(پورے قد کا آئینہ:زبیر رضوی، ص ۱۷۲)

حصارِ حمد تعمیر کرنے کی تحریک نے ہی زبیر رضوی کو بغاوت کرنا سکھایا۔ انسانی تطہیر کا عمل وراثت کے اس تعظیمی رتبے کو ڈھانے میں معاون ثابت ہوا جس کی عمارتوں میں سیندھ لگانا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں ہے۔

حکائی سلسلے کی نظم ’’خطائے بزرگاں‘‘ سے ان کے اس رویے کا بھرپور اظہار ہوتا ہے کہ کس طرح بزرگوں نے زیب تن کئے ہوئے جامے اتار پھینکے اور شرافت وعزت کو مئے نوشی کے طوفان میں غرق کردیااور اپنی برہنگی سے اپنی اولادوں کے سامنے شرمسار ہوئے :

پرانی بات ہے /لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے/ ہوا اک بار یوں/ ان کے بزرگوں نے / زمیں میں کچھ نہیں بویا/ فقط انگور کی بیلیں اگائیں/ اور مٹی کے گھڑوں میں مئے بنائی / رات جب آئی/ وہ سب مدہوش تھے / ان کے بدن ننگے تھے / پہلی بار مئے کا ذائقہ ہونٹوں نے چکھا تھا/ حکایت ہے/ برہنہ دیکھ کر اپنے بزرگوں کو/ جواں بیٹوں نے آنکھیں بند کرلیں/ اور مٹی کے گھڑوں کو توڑ ڈالا/ صبح سے پہلے/ زمیں ہموار کی/ اور اس میں ایسے بیج بوئے/ جن کے پھل پودے /کبھی ان کے بزرگوں کے نہ کام آئے

اس سلسلے کی مختلف نظموں میں زبیر رضوی نے باغیانہ لہجہ اختیار کیا ہے۔ ’’بدچلن بزرگوں کا نوحہ، انجام قصہ گو کا، کتوں کا نوحہ، بنی عمران کے بیٹے، نسب زادے، پاکی داماں کی حکایت، قصہ گورکنوں کا ‘‘یہ ساری نظمیں اسی لہجے کی غماز ہیں۔

’’مسافت شب‘‘ کے حرف آغاز میں خلیق انجم نے ان کے تعلق سے یہ بات رقم کی ہے جس کے ذریعہ زبیر رضوی کے اسلوب اور فکر پر روشنی پڑتی ہے۔

’’اسلوب اور مواد دونوں سطحوں پر انہوں نے کلاسیکیت کو جدیدیت سے ہم آہنگ کیا ہے۔ زبیر نے جذباتیت اور عقلیت ، رومانویت اور سائنٹفک نقطۂ نظر، خارجیت اور داخلیت، روایت اور بغاوت، رومانویت اور مادیت میں ایک توازن قائم کیا ہے اور اسی توازن نے انہیں ایک ایسا اسلوب ، ایک ایسی آواز ، ایسا لب ولہجہ اور ایسا تفکر دیا ہے جو تمام ترقی پسند شاعروں سے مختلف ہے اور جس نے زبیر کی آواز کو انفرادیت دی ہے۔‘‘

کلاسیکیت اور جدیدیت کے سنگم پر کھڑے ہوکر توازن اور اعتدال برت پانا بہت ہی مشکل امر ہے۔ لیکن یہ ہنر چونکہ زبیر رضوی کے یہاں موجود ہے لہٰذا ایسی بہت ساری مثالیں ان کی نظموں میں دکھیں گی جو اس کلیے پر پوری اترتی ہیں۔

عجیب ہے جسم وجاں کا عالم

ہزار رشتوں کی چاہتوں کے حصار میں ہوں

گئی رُتوں کا وہ آخری پھول ہوں

جو شاخ نہال غم پر کھلا ہوا ہے

میں ایسا مکتوب رفتگاں ہوں

جسے چراغوں کی روشنی میں

ورق ورق پڑھ رہی ہیں آنکھیں

…………

عجیب ہے جسم وجاں کا عالم

میں چہرہ چہرہ نظر اٹھاتا ہوں

رفتگاں کی نشانیاں

اور شباہتیں ان میں ڈھونڈھتا ہوں

عزیز ہاتھوں کا لمس

میری ہتھیلیوں میں پگھل رہا ہے

میں تودۂ خاک دل کی مانند

کوزہ گر کی ہتھیلیوں کا گداز پا کر

عجیب شکلوں میں ڈھل رہا ہوں

(جب سمت سفر بدلی، سنگ صدا،صفحہ ۲۲۶)

اس نظم میں کلاسیکیت کا رچاؤ بھی ہے اور ماضی سے اپنے دیرینہ رشتے کا اظہار بھی۔  ’’شاخ نہال غم‘‘کا استعارہ خالص کلاسیکی ہے ۔ سراج اورنگ آبادی نے اپنی مشہور غزل میں اس ترکیب کو استعمال کیا ہے ۔

چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا

مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہو سو ہری رہی

خود کو گئی رتوں کا آخری پھول بتانا اور اس پھول کا شاخ نہال غم پر کھلا ہوا ہونااور پھر خود کو مکتوب رفتگاں سے جوڑ کر دیکھنا ان قدروں کا استعارہ ہے جو ہمارے لئے مشعل راہ کا حکم رکھتے ہیں۔ یہ نظم سمت سفر بدلنے کی کہانی ہے جہاں رفتگاں اور ان کی شباہتیں ڈھونڈھنے کا عمل جاری وساری ہے ، جہاں عزیز ہاتھوں کا لمس ہتھیلیوں میں پگھل رہا ہے، جہاں کوزہ گر کی ہتھیلیوں کا گداز پاکر تودۂ خاک دل کی مانند متکلم عجیب شکل میں ڈھل رہا ۔ یہ عجیب شکل بغاوت کی شکل ہے اسے یہ احساس نہیں ہے کہ چاک جسم امکان کا اصلی قرینہ ہے، وہ اب اپنی اصل شکل میں ظاہر ہو رہا ہے ۔ یہ شکل ماضی کی بازیافت کا حاصل ہے جو کلاسیکی قدروں سے کسی حد تک مماثل نظر آتی ہیں۔ زبیر رضوی کے یہاں ماضی سے وابستگی جابجا نظر آتی ہے لیکن وہ اس کی زلفوں کے اسیر نہیں ہوتے ۔ وہ ماضی سے کچھ چیزیں مستعار لیتے ہیں، اسے دل وجاں سے لگائے ہوئے ہر لحظہ آگے بڑھتے ہیں لیکن اسے خود پر حاوی نہیں ہونے دیتے ۔

٭٭٭

جدید نظم کا تنقیدی جائزہ (1990 تا حال)

محمد توصیف خان

ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی، دہلی

اگر ہم اردو نظم کے سفر پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی تر ویج و اشاعت کسی نہ کسی تحر یک و رجحان کے زیر سایہ ہوئی۔ خواہ وہ انجمن پنجاب جیسی موضوعاتی تحریک ہو یا ترقی پسند اور جدید جیسی سخت گیر تحریکیں۔ تحر یکات و رجحانات نے اردو شعر و ادب کو جہاں رنگا رنگی عطا کی وہیں فن کار مقید ہوگیا۔ یہ کوئی کلیہ نہیں ہے بعضوں نے اس کے خلاف بھی کیا مگر ان کا شمار انگلیوں پر کیا جاسکتا ہے۔ان تحریکات کا منشور فن کا ر کی اظہار رائے میں رکاوٹ بنا چنانچہ فن کار ایک قسم سے آزاد ہوتے ہوئے بھی کسی نہ کسی درجہ میں پابند ہی رہا۔

میں 90 کے بعد نظم کی اس لئے بات کررہا ہوں کیوں کہ 80 کی بعد کی نظم جدید یت کے سحر سے آزاد نہ ہوسکی تھی نیز اس پر ایک تنقیدی اصطلاح مابعد جدید یت کا لیبل تھوپ  دیا گیا۔ اس لیے 90 کے فورا بعد والی نظم کو بھی ہم مکمل آزاد نہیں کہ سکتے۔ مگر آج (1990)کی نظم  یا فن کار ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہے۔ موضوعاتی تحدیدات بھی اب اتنی نہیں ہے جتنی ترقی پسند نظم یا جدید نظم میں تھی۔ نئے نظم نگاروں نے دونوں کے ورثے سے استفادہ کیا۔آج کی نظم کو ہندو ستان کی دوسری زبانوں کی شاعری نے بھی متاثرکیا ہے۔ نیز نئی فکر و دانش و نئی لفظیات اور نئے تہذیبی رویے اس میں واضح اور نمایا ں ہیں۔

 گفتگو کا موضوع جدید اردو نظم ہے، مناسب  معلوم ہوتا ہے کہ جدید نظم کے نمائندہ  نمونہ کو سامنے رکھ کر  بات کو آگے بڑھایا جائے ، چنانچہ شہناز نبی کی نظم” ناجائز”  کا یہ حصہ ملاحظہ ہو۔

میں کیوں مانوں

‎میرے سارے تیر ہوا میں رستہ بھولے

‎آسمان پر جگمگ کرتے تارے اک اک کر کے

‎ٹوٹے

‎میں کیوں مانوں

‎میرے کھیتوں کو اک آندھی چاٹ رہی ہے

‎میرے پاؤں کے نیچے دلدل

‎میرے سر پر کالا سایہ میرے سورج چاند ہیں جھوٹے

‎میرا سیاراہ گہنایا

‎میری بستی گونگی بہری

‎چوپالوں کا راج ہے  چوپٹ

‎میرا قبیلہ نامردوں کا

‎میرا اک اک آنگن مرگھٹ

‎میں کیوں مانوں

‎ایسا ویسا

‎میں کیوں ہاروں کھیل سے پہلے

‎میری رگوں میں گرم لہو کا رقص

‎ابھی تک تابندہ ہے

‎میرے دل میں دھڑکن زندہ

‎میں کیوں مانوں۔” (۱)

‎اس نظم سے جدید نظم کا  ماحول ہمارے سامنے آیا ، اب جدید نظم کے ارتقاء پر  مختصراً نظر ڈالتے ہیں ، نئی نظم  کا آغاز  انجمن پنجاب سے ہوتا ہے یہ روایت  حالی، آزاد سے گزر کر اور پھر تصدق حسین خالد ، ن، م راشد، اختر الایمان ، میراجی ، مجید امجد تک پہنچتی ہے ،بیسویں صدی میں  جس کو جدید نظم کہا گیا ہے وہ وہی ہے  جو، ن۔ م راشد سے شروع  ہوتی ہے ، جس میں نیا طرز احساس ، نئی طرز فکر ، نیا ڈکشن ، نئے استعارے ، نئی تشبیہات ، نیا لہجہ ، نئی کیفیات، اور نئے مزاج کا اظہار ہے ، اس دوران نئی نظم کی بہت ساری صورتیں  ساتھ ساتھ چلتی نظر آتی ہیں ۔ 1960ء کے بعد  لسانی تشکیل کا وجود عمل میں  آیا، افتخار جالب ، جیلانی کامران جیسے نوجوانوں نے راشد کی نظم پر ری اکشن کے طور پر  سوالات کھڑے کردئے ۔ اور کہا کہ ہم جدید نظم کے لوگ ہیں ۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ ہم لفظوں  کے حوالے سے کب تک محدود دائرے میں بند رہیں گے ، لہٰذانیا نظام وضع کرنا  چاہئے ، چنانچہ 90 کے بعد کی نظم کو ہم اسی منظر نامے کے تحت دیکھ سکتے ہیں ، جس میں لسانی تبدیلی ، نئی تراکیب ، داستانوی اور اساطیری انداز جو راشد سے لیکر علی اکبر ناطق  اور عبد الاحد ساز تک پھیلا ہوا ہے ۔ عبد الاحد ساز  ساز کی ایک نظم ” عوج بن عنق” ہے جو اساطیری انداز کو پیش کرتی ہے  ۔ اس داستانوی اور اساطیری نظم کا یہ حصہ دیکھئے۔

‎”ناف اس کی ۔۔ ۔ مرکز ثقلِ زماں

‎پیٹ اس کا ۔۔۔پیٹ بھرنے کے وسائل کا خزانہ

‎وہ گھروں سے دفتروں سے، راستوں سے

‎رینگتے بونے اٹھاتا

‎اپنی کہنی اور کلائی  پر چلاتا

‎حسب منشا ذائقے کے طور پر

‎ان کو چباتا جا رہا تھا

‎جان لیکن ا س قوی ہیکل  کی اس کے گردن و سر میں نہ تھی

‎جان تھی

‎ٹخنو ں میں اس کی

‎اس کے ٹخنے

‎سرد اور محفوظ  تہہ خانے کی تہہ سے تھوڑااوپر تک پھیلے ہوئے

‎بے روح ساحل پر عیاں تھے

‎اور وہیں اک دل زدہ بیزار موسیٰ  شہر کے سب سے بڑے ہوٹل کی چھت کو چھو نہ سکنے سے خفیف

‎نابلد ٹخنوں کی کمزوری سے  دیوِ عصر کی

‎اپنے امکاں اور ارادے کے عصا کی ضرب سے نا آشنانیم مردہ سرد بے حس ریت پر سویا ہوا تھا۔” (۲)

‎اس پر شکوہ اسلوب میں داستانوی رنگ اور ایک طرح کا مافوق الفطرت طرز اظہار ہے ۔

‎علی اکبر ناظق کی نظم ” سفیر لیلی” کی یہ لائنیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ، جس میں داستانوی باز گشت نمایاں ہے۔

‎سفیر لیلیٰ یہ کیا ہوا ہے

شبوں کے چہرے بگڑ گئے ہیں

دلوں کے دھاگے اکھڑ گئے ہیں

شفیق آنسو نہیں بچے ہیں غموں کے لہجے بدل گئے ہیں

تمہیں بتاؤ کہ اس کھنڈر میں جہاں پہ مکڑی کی صنعتیں ہوں

جہاں سمندر ہون تیرگی کے

سیاہ جالوں کے بادباں ہوں

جہاں پیمبر خموش لیٹے ہوں  باتیں کرتی ہوں مردہ روحیں۔۔۔ـ”(۳)

سفیرلیلیٰ اور دیگر کئی نظموں سے ایسے واضح اشارے ملتے ہیں کہ ناطق کا شعری شعور قدیم داستانوں کے خمیر سے گندھا ہوا ہے۔ ناطق ان داستانوں کے سحر سے تو پیچھا چھڑا چکے ہیں لیکن اظہار کی داستانویت اور اساطیری اسلوب ان کے پیرائے اظہار  میں پوری طرح حل ہو چکا ہے۔  داستانوی لفظیات کا ہنر مندانہ استعمال اور داستانوی فضا کا چابک دستانہ تسلسل ناطق کی نظموں کا پر اسرار حسن ہے۔

‎نئی نظم آزاد نظم ہے، نثری نظم ہے، وہ معاصر احساس  کے ساتھ گلوبل سطح سے  ہوتی ہوئی اپنے لوکیل کے ساتھ جڑتی ہے ، چیزوں کو، زندگی کو ، انسانوں کو ، خدا کو ، ایک نئے انداز میں دیکھتی ہے ، اس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ  غزل کی جبریت  سے آزاد ہے ، اپنا ایک مستقبل ساختہ رکھتی ہے  حتیٰ کہ اس بات کی متقاضی ہے  کہ غزل کا نقاد اس پر بات نہ کرے ، نئی نظم کی تنقید اپنی علاحدہ شعریات اور نئے استعاراتی نظام کا تقاضہ کرتی ہے ، استعارہ جدید ، مذہبی تعلیمات ، اخلاقی نظام یا علاقائی طریقئہ زندگی کے زیر سایہ نہیں ڈھالا جاتا  بلکہ وسیع تر انسانی بلکہ کائیناتی واقفیت و معلومات کے تخلیقی استعمال سے وجود میں آتا ہے ، چنانچہ وہ بیشتر علاقائی و اعتقادی تنگیوں  کے عادی انسانوں  کے لئے  یاتو معمہ ہوتے ہیں  یا پیغام بغاوت ، ایسی شاعری میں انسانی ہمدردی  تو آسکتی ہے لیکن ولولہ انگیز جذبئہ اصلاح  کی کوئی جگہ نہیں۔

‎جدید نظم  نئے عہد کے انسانی مسائل کی پیچیدگیوں  کو بڑے ہی مؤثر  طریقے سے بے نقاب کرتی ہے، حال کے لمحوں کی اذیت ، کرب اور ٹکڑوں میں بٹے ہوئے فرد کی انتشاری شخصیت  کے کوائف کا اظہار کرتی ہے۔

‎نئی نظم کا فنکار اپنے جذبات اور محسوسات پر خود ہی سوالیہ نشان لگا تا ہے اور ان کے جواب تلاش کرتا ہے ۔ آج کی نظم سے وہ عام قاری  بالکل لطف انداز نہیں ہو سکتا  جو انسا ن کے اس جنگل کا حصہ ہے  ، جس کی اپنی کوئی سوچ نہیں ، بلکہ وہ آدمی جو باشعور ہے ، بقول نعمان شوق “میرے نزدیک اس مشکل وقت میں شاعری کرنا   قبرستان میں وائلن بجانے جیسا ہے۔ آج اس سے زیادہ چیلنج بھرا کوئی کام نہیں ، الیکٹرانک میڈیا کی یلغار کے اس دور میں شاعری کا اصلی سرو کار یہ ہے کہ شاعری کا قاری  ،ناپید ہوتی مخلوق کے زمرے میں آگیا ہے، جنگ ، دہشت گردی، صارفیت ، فساد اور بے روزگاری سے نبرد آزما قاری شاعری کی طرف  دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا، تا وقتیکہ یہ کسی فلم یا البم میں نیم برہنہ پریوں کے رقص کے ساتھ نہ ہو ، ورنہ جہنم میں جائے ” شاعر اور اس کی شاعری۔” (۴)

‎نئی  نظم  کے  شعراء کے  جدید  لسانی  شعورنے  نئی نظم  کے وقار  اور معیار  کو نہ صرف  بلند کیا  بلکہ  اس کا  رشتہ بدلی  ہوئی  معاشرتی  اور تہذیبی  زندگی سے  جوڑ دیا ہے اس کے اندر  بدلی  ہوئی  معاشرت  کے ساتھ  انسانی رویوں،  روایات واقدار ،رسم  ورواج ،اور  سماج میں پیدا  ہونے  والی  تبدیلیوں کا واضح  عکس  نظرآتاہے ۔

‎نئی نظم کے شعراء نے  اپنی جدید فکر سے روایتی سانچوں کو نہ صرف توڑا بلکہ  اسے جدیدت سے ہمکنارکیا ۔

‎یہ بغاوت  اور روایت شکن محض شعوری اور فکری ہی نہیں بلکہ لسانی  حوالوں سے  بھی ہے ،اس تبدیلی نے نئی نظم کو نیا آہنگ اور توانائی بخشی اور اسے نئے  رحجانات ومیلانات کا عکاس بنادیا ،لسانی حوالے سے  جو تجربات ہوئے  اس نے الفاظ ومفاہیم میں نہ صرف موزونیت پیدا کی  بلکہ ایک قسم کا طنز بھی درآیاہے ۔وہ طنز معاشرتی اور طبقاتی  نا ہمواریوں پر ہے ،لسانی شعور سے الفاظ کی جو کا ئنات معرضِ وجود میں آئی اس سے نئے نظم علاقائیت  سے  نکل کر آفاقیت  کی طرف  گا مزن ہوگئی ۔نئی نظم کے نما ئندہ لکھنے والوں میں  شارق کیفی،صدیق عالم ،اکرام خاور،  شہناز نبی ، جینت پرمار،جمال اوسی،عذراپروین، بلقیس ظفیرالحسن، راشد جمال فاروقی، سہیل اختر ،علی اکبر ناطق،افضال  سید،ذیشان ساحل،علی زریوں، اور ثروت حسین وغیرہ کے نام لیے جاتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ  نظم نگاروں کی نظموں کے بعض ٹکڑے ملا حظہ ہوں۔

وہ بکرا پھر اکیلا پڑگیا ہے

‎کہ میرا  ہاتھ بھی ڈونگے میں اچھی بوٹیوں کو دھونڈتا ہے

‎وہی بکرا

‎ کھڑارکھا گیا ہے جس کو کونے میں نگاہوں سے چھپاکر

‎وہ جس کی زندگی ہے منحصراس  بات پر

‎کہ ہم کھا ئیں گے کتنا

‎اور کتنا چھوڑدیں گے بس یوں ہی اپنی پلیٹوں میں

‎ ابھی کچھ دیر پہلے  میں کھڑا تھا  پاس جس کے

‎ اور جس کے زاویے  سے دیکھ کر محفل کو

‎آنکھیں ڈبڈیا  آئیں تھیں مگر

‎ وہ پل کبھی کا جا چکا ہے ،

‎وہ بکرا  پھر اکیلا پڑگیا ہے۔” (۵)

‎نظم۔۔۔ ذات

بدن کی کالی مٹی پر

‎پٹھی  پرانی میلی قمیص

‎اور نیندوں میں

‎خواب سنہرے دیکھتا ہوں

‎خواب میں اکثر  ہوتا میں

‎جا گیردار کا یک لڑکا

‎سارے گاؤں پہ رعب جمایا کر تا ہوں

‎میرےہ نام پہ ساری گلیاں

‎ جھک جاتی ہیں پاؤں میں

‎ دگڑو سے میں دیا پرشاد

‎خواب میں کتنا خوش ہوتا ہوں۔”

نظم، چہ دلاور است دزدے۔۔۔۔۔۔۔

خبریں دیکھتے دیکھتے  یکدم چونک کے اٹھ جاتی ہوں

‎ دوڑ کے کھڑکی سے لگ جاؤں

‎سانس  روک کے باہر سے آنے والی ہر آہٹ کی سن گن لینے لگتی ہوں

‎دل ہی دل میں دل کو  تھامنے لگتی  ہوں میں

‎آس پا س کے اپنے  نام سے ملتے جلتے ناموں والے گھروالوں کو

‎کس کو پتہ کل صبح کی  خبروں میں میرے نام کے ساتھ ان کا نام بھی آجا ئے

‎گھر میں آگ  لگا کے ماردئے جانے والوں  میں

( نام میں کیا رکھا کیا ہے۔ یہ اب میری سمجھ میں آیا ہے”۔)

‎ (۵)

نظم کے اس مطالعے کے بعد ہمیں اس امر کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جدید شاعری نے جس طرح مضامین کو ایک خاص قسم کی مظہریت کے اثر میں گھیرے رکھا تھا اور اس کی ترسیل کو مغلق تصورات سے آراستہ کرنے کی کوشش کی تھی ۹۰ کے بعد کی نظم میں اس کا سحر پوری طرح ٹوٹ چکا ہے۔ نظم کی وہ بندشیں جو کالی نظمیں اور جھوٹی نظمیں تخلیق کر رہی تھی، اس ارتقائی منزل میں ہم جذبات کی کشمکش میں الجھنے کے بجائے اس کی جمالیاتی نہج کو اجاگر کرنے میں زیادہ کوشاں رہے۔ محمد علوی کی نظم سے جو سفر شرو ع ہوا تھا جس نے باقر مہدی، اطہر نفیس، عزیز حامد مدنی اور زبیر رضوی کی نظم کو از کار رفتہ قرار دینے کا عمل شروع کیا تھا، نئے لکھنے والوں نے اس خیال میں مزید رعنائی پیدا کی۔

 اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ نہ تو نئی نظم کو کوئی مبلغ ملا جس نے اسے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہو کہ ایک خاص رجحان نئی شاعری کو معنویت عطا کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی مصلح درمیان میں حائل ہوا جو کسی سیاسی پارٹی کی تختی نظم نگاروں کے گلے میں لٹکا دیتا، نئے لکھنے والوں نے لکھا اور اپنے خیال کی ترنگ میں نظمیں خلق کیں، ان کے پیش نظر عالمی مسائل اور علاقائی مسائل میں کوئی فرق نہ تھا، انہوں نے نارنگ کے کہنے پہ کامن سنس کے قضیے پہ غور تو کیا، لیکن مابعد جدیدیت کے جال میں پھنسے نہیں۔

 آپ وہ ساری تحریکیں نظر میں رکھیں جنہوں نے پوری بیسویں صدی کو اپنے حلقہ اثر میں رکھا اور اس تناظر میں نئی شاعری کو چانچنے کو کوشش کریں تو آ پ کے ہاتھ سوائے مایوسی کے کچھ نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیا شاعر تحریکات کے بجائے مسائل سے اپنا رشتہ راست طور پہ قائم کرتا ہے، وہ خواہ کسی جلتی ہوئی عورت کے پھپھولے دار جسم کو اپنا موضوع بنائے یا ثقافتی گھٹن میں پھنسی ہوئی سرحدی مملکت کو، اس کے لیے آزادی اظہار اپنے اسرار کے بغیر سب سے بڑی نعمت ہے، کوئی شاعر یا ادیب نئی نسل میں ایسا نہیں جو فضیل جعفری جیسے نقاد کی آنکھوں آنکھیں ڈال کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے اپنے عہد کی چشمکوں کا بھر پور ادراک ہے۔

 اس نسل کی یہ خاصیت ہے کہ اس نے نقادوں کی زبان سے بولنے کا عمل روا نہیں رکھا، اسے کسی نے سبق آموز کلمات نہیں رٹائے۔

ان باتوں کے علاوہ ایک بڑا پہلو نئی نظم کا اس کی فنی شناخت ہے۔ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ گزشتہ چالیس برس میں شمس الرحمن فاروقی، محمود ہاشمی، محمد حسن، وارث علوی اور انیس ناگی نے ہمیں قواعد کے الجھیڑوں میں کس قدر گھیرے رکھا، اس امر سے قطع نظر کہ مراۃ النظیر اور تعقید لفظی و معنی کی تمام تعلیم فکر کے کسی پہلو کو ظاہرکرنے میں نہ معاون ثابت ہوتی ہے اور نہ مانع، اس کے باوجود یہ المیہ کچھ معمولی نہیں کہ نظم کہنے والوں کی ایک بڑی کھیپ علان نون اور تسکین اوسط کے قضیوں میں الجھ کہ بر باد ہو گئی۔

نئے اذہان نے احمد ہمیش کی پیروی کی اور نہ حالی کے مقدمہ شعر و شاعری سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کی اور یہ ہی اس کی سب سے اہم خوبی ہے۔ نئی نظم کا شاعر یہ جانتا ہے کہ بحر الفصاحت کو بغل میں دبا کر نجم الغنی کے آموختہ کو دہرا کر کوئی ایسا فن پارہ تخلیق ہونے سے رہا جس میں معنی کا سیال بھر ا ہو اور ابلتے ہوئے ذہن کی کرشمہ سازیاں جذب ہوں۔ نئے شعرا نے نثری نظم بھی کہی اور پابند نظمیں بھی، انہوں استعارے کا استعمال بھی کیا اور تلمحیات و کنایات کا بھی، مگر اس خوف میں مبتلا ہوئے بغیر کہ کوئی ناقد ان کو یہ سکھانے کی کوشش کریگا کہ آپ کے اس لفظ میں اس طرح مزید گیرا ئیت پیدا ہو جاتی، یہ ہماری خوش بختی ہے، ہمارے شعرا نے سفیر لیلہ جیسی طویل نظم بھی کہی جس میں ماضی کے ابنوہ کا المیہ بیان کیا گیا ہے اور ساقی کی طرز پہ آواز کا نوحہ جیسی نظمیں بھی جن کا رشتہ سی سک اور بوسیدہ پیالے سے جڑتا ہے۔

آپ اور ہم بلا تکلف نئی نظم کو مستقبل کی نظم کہہ سکتے ہیں جس  میں جدیدیت کی لہر اتنی تیز ہے کہ استقبالیہ مسائل بھی اس کی گرفت میں آ گئے ہیں۔ وہ خواہ زمین کی بات کرے یا آسمانی داستانیں سنائے، معاصر صورت حال کو بیان کرے یا مستقبل کے خواب دکھائے نئی نظم کا شاعر جو کچھ کہتا ہے وہ اپنے اصول بیان اور فکری میلانات کے تناظر میں کہتا ہے۔ اس کی بندش اس کی اپنی ذات ہے جسے وہ جس قدر چاہیے وسیع کر سکتا ہے، ایک طرح کی ثقافتی محرومی جو نئی زندگی میں کرب کی مانند محسوس کی جاتی ہے، نئے شاعر کے لیے وہ سب سے بڑی نعمت ثابت ہوئی ہے۔ سماج کے ٹوٹے ہوئے قوانین اور انسانیت کی بدلتی ہوئی قدروں سے نیا نظم گو ایک ایسا بیانیہ خلق کرنے میں مصروف ہے جس سے ہر نوع کی بندش خود از کار رفتہ ہو رہی ہے۔

کل کا شاعر آج کے حالات کو محسوس کرنے میں کوشاں ہے، اس طرح کہ اگر امریکہ کی کسی بستی میں کوئی نیگرو جلایا جائے تو فلسطین کا نوجوان اسے شدت سے محسوس کرے۔ اس کا نوحہ دھاروں، مذہبوں اور، خیالوں میں بٹنے کے بجائے ان سے ماورا ہو کر انسانیت کے تصور سے ہم آہنگ ہو رہا ہے جس میں کسی بھی سطحی جذباتیت کی کوئی جگہ نہیں۔ نئے نظم گو شاعر کا یہ مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم شمال اور جنوب کی سرحدوں سے اکتا گئے ہیں اور ایک نئی دنیا کو وجود میں لانے کی خواہش ہمارے اندر بیدار ہوتی چلی جا رہی ہے۔

حواشی

۱۔ (پس دیوار گریہ از شہناز نبی،  ص ۱۵۵)

۲۔ (خاموشی بول اٹھی ہے، از عبد الاحد ساز، ص۱۲۸)

۳۔ (یاقوت کے ورق از علی اکبر ناطق،  ص ۲۳)

۴۔ (فریزر میں رکھی شام از نعمان شوق، ص 14)

۵۔ (اپنے تماشے کا ٹکت از شارق کیفی، ص ۲۵)

۶۔ (شعلوں کے درمیان از بلقیس ظفیرالحسن، ص ۳۰)‎

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.