فلسطینی شاعرہ فدوی طوقان: شخصیت اور کارنامے
Palestinian Peot Fadwa Tuqan, life and contributions
محمد اظہر جليس احمد
ریسرچ اسکالر شعبۂ عربی دہلی یونیورسٹی، نئی دہلی
ABSTRACT
Fadwa Tuqan: (1917 -12 December 2003), was a Palestinian poet renowned for her representations of resistance to Israeli vocation in contemporary Arab poetry.
Once in a blue moon, she is referred to as the “Poet of Palestine”.
Tuqan’s poetry is acknowledged for her distinctive chronicling of the suffering of her people, the Palestinians, specifically those who inhabit under Israeli occupation.
Born and brought up in Nablus to the affluent Palestinian Tuqan family, the family was eminent in various fields at every nook and corner of Palestine. She met with education at an early age until she was forced to evacuate school at the age of 13 by virtue of illness. One of her brothers, Ibrahim Tuqan, known as the poet of Palestine, took responsibility of educating her, bestowed her with books to study and taught her English. Tuqan eventually enrolled in Oxford University, where she learnt English literature.
Tuqan finally published eight poetry collections, which were translated into several languages and enjoys publicity in all over the Arab world.
Her book, “Alone with the Days” drives home on the hardships encountered by women in the male- dominated Arab world. One of her best known poems, “The Night and the Horseman” described life under Israeli military rule.
Tuqan is widely considered a symbol of Palestinian cause and one of the most prominent figures of modern Arabic literature.
اس دنیا میں بے شمار شخصیات اور متعدد ہستیاں وجود میں آئیں اور اپنے قابل ذکر کارناموں اور لایق ستائش خدمات سے بے نظیر ریکارڈ قائم کر گئیں ۔ کوئی شاعر ہوتا ہے جو اپنی انقلاب آفریں شاعری سے معاشرہ میں بیداری کی روح پھونکتا ہے- کوئی مایہ ناز صحافی اور شہرت یافتہ قلم کار ہوتا ہے جو اپنی قلمی قوت سے دلوں پر حکومت کرتا ہے- ہم اس مختصر سے مقالے میں اسی طرح کی شخصیت پر خامہ فرسائی کی جسارت کرتے ہیں جن پر گفتگو تو بزبان اردو ہوگی لیکن آپ عربی زبان و ادب کی ہر دلعزیز اور شہرت یافتہ شاعرہ ہیں- ملک فلسطین میں 1917 میں پیدا ہوئی اور بے پناہ شہرت کی حامل ہیں- اس شخصیت سے میری مراد فدوی طوقان ہیں-
فدوی طوقان کی زندگی جہد مسلسل اور کاوش پیہم سے عبارت ہے- ان کی زندگی میں بہت سارے نشیب و فراز ہیں – مشاکل کا انبار ہے، پریشانیوں کا پہاڑ ہے، ظلم و تعدی کے خلاف جنگ بھی ہے، اپنوں کی بے اعتنائی کا درد بھی ہے، گھر میں اجنبیت کا احساس بھی ہے، دل میں احساس محرومی بھی ہے، اور گمنامی کی زندگی سے الفت و محبت اور پیار بھی ، غرضیکہ فدوی طوقان کے در حیات پر مختلف احوال و کیفیات نے دستک دیئے ہیں- لیکن ان تمام طرح کی پریشانیوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ نبرد آزمائی کا ہنر اور جوہر ان کے یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں- فدوی طوقان معاشرہ کی عادات و تقالید اور خاندانی حدود و قیود اور غیر موزوں پابندیوں کی نذر ہو گئی تھیں- اور یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنی تعلیم کو جامہ تکمیل سے آراستہ کرنے کا موقع دستیاب نہ ہو سکا- لیکن ان کے بھائی ابراہیم طوقان جو خود ایک کہنہ مشق شاعر اور کامیاب قلم کار تھے ان کی زندگی میں مسیحا بن کر آئے- اور تعلیم و تعلم میں درپیش رکاوٹوں اور صعوبات کے ازالے میں قابل قدر و لائق تحسین کردار ادا کیا۔
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ فدوی طوقان کی پیدائش فلسطین کے نابلس شہر میں ۱۹۱۷ میں ہوئی تھی- ان کا گھرانہ نابلس کا ایک قدیم، ذی حیثیت، ممتاز اور متمول گھرانہ تھا- اسی گھر کی چہار دیواری میں محصور ہو کر فدوی کے شب و روز کٹنے لگے- اس گھر کا اصول و ضابطہ کچھ سخت اور نہایت ہی تقلیدی تھا جس کے سبب فدوی کو گھر کی چہار دیواری سے باہر جانے کی شاذ و نادر ہی اجازت ملتی تھی اور بمشکل تمام ہی وہ گھر کے باہر جا پاتی تھی- فدوی کو گھر میں ایک ناخوشگوار آب و ہوا اور بر عکس و بے کیف ماحول کا سامنا کرنا پڑا- اور اہل خانہ بھی آپس میں بے اعتنائی اور رقابت کا شکار رہتے تھے، جیساکہ فدوی طوقان اپنی سوانح حیات میں اس چیز کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: ” ازدواجی زندگی کے ابتدائی ایام میں میرے والد محترم نے میری والدہ محترمہ سے چند ایام کے لیے قطع تعلق کر لیا تھا- کیونکہ والدہ کی جانب سے اسقاط حمل کی کوشش نے ابو کو رنجیدہ اور غضب ناک کردیا تھا” ۔(1) اور گھر کی اسی آپسی کشیدگی نے فدوی کو کافی حد تک نفسیاتی طور پر زد پہنچایا تھا اور اندر ہی اندر جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا- ان پر ہمیشہ غم و الم اور مایوسی کی کیفیت طاری رہتی تھی، اور وہ خود ہی میں محدود ہو کر زندگی گزارنے لگی تھیں، اور اپنے مستقبل اور تعلیمی ترقی کو لیکر کافی حد تک متفکر بھی رہنے لگی تھیں، کیونکہ اہل خانہ اطمئنان بخش طریقے سے معاون ثابت نہیں ہو رہے تھے- اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ گھر کی تقلیدی رسم اور روایتی ثقافت کے مطابق صنف نازک کا عام زندگی سے جڑنا اور روز مرہ زندگی کے معاملات میں دخیل ہونا ایک نا پسندیدہ امر گردانا جاتا تھا – اور یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فدوی کو مدرسہ کی زندگی اور اس کے ماحول سے کنارہ کش ہو کر اپنی ذات کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر از خود کرنی پڑی، اور تعلیم و تعلم کی راہ مسدود دیکھ کر کف افسوس ملنا پڑا- یہ تو ان کے بھائی ابراہیم طوقان کی کرم فرمائی ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کی خوابیدہ صلاحیت اور خفتہ ہنر کو بیدار کرنے کی زحمت اٹھائی- اور انہیں شعری تخلیق کی راہ پر گامزن کیا، بلکہ مختلف جرائد و رسائل اور مجلات میں تخلیقی کاوش اور نگارشات شائع کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ غرضیکہ گھر کے اس کشیدہ ماحول اور صنف نازک سے بیزار فضا میں ابراہیم طوقان کی مدد و حمایت فدوی کے لیے اکسیر حیات ثابت ہوئی- اور اس حوصلہ افزائی پر فدوی طوقان نے اپنے اسپ قلم کو مہمیز دینا شروع کر دیا حتی کہ سر زمین فلسطین کی ایک مایہ ناز اور شہرہ آفاق عربی شاعرہ اور ادیبہ بن کر منظر عام پر نمودار ہوئیں- اور ظلم و تشدد اور تعصب سے دبے کچلے جذبات کو اپنی فنکارانہ قلمکاری کے ذریعے عیاں کرنے لگیں- چنانچہ انہوں نے اپنے خوابوں، درد و کسک اور امیدوں کو قلم بند کیا جو انہوں نے اپنے ملک اور خود اپنی آزادی کے تعلق سے پال رکھے تھے- اور اسی قلمی کاوش کی بدولت ان کی شخصیت نمایاں ہوئی اور ایام طفلی کے روح فرسا احوال اور عنفوان شباب کی محرومیاں ہمیشہ ان کے اشعار کا اہم حصہ بن کر اپنے وجود کا احساس دلاتی رہے- اور انہی اشعار کے توسط سے فدوی طوقان نے اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا ۔(2)
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شکم مادر ہی میں فدوی عبد الفتاح طوقان کو زندگی کی جنگ لڑنی پڑی، اور یہ جنگ جسمانی، روحانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر فدوی پر منفی انداز میں اثر انداز ہوئی۔ اور اس چیز کا تذکرہ فدوی طوقان نے بھی کیا ہے- چنانچہ وہ کہتی ہیں: ” مال اور نرینہ اولاد میرے والد محترم کے متاع حیات اور سامان زندگی تھے- اور وہ پانچوے لڑکے کے خواہش مند تھے، لیکن میں نے ان کی امید پر پانی پھیر دیا- اب ابو کے پاس چار لڑکوں کے ساتھ ساتھ تین لڑکیاں بھی ہو گئیں۔۔۔۔ اور میرے بعد ادیبہ، پھر نمر پھر حنان آئے، اس طرح ہم لوگ کل دس ہوگیے “۔(3)
فدوی طوقان کو ایک مہموم و مغموم اور رنجیدہ زندگی گزارنی پڑی- ان کے ایام طفلی معاشرتی رسوم، بے جا قیود اور خلاف فطرت پابندیوں کے سبب یاس و حرماں کی نذر ہوگئے، اور اس تکلیف دہ صورتحال نے پیار و محبت اور پریم و شفقت کے احساس سے محروم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا- اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ فدوی کے والدین اسے درخور اعتنا اور قابل توجہ نہیں سمجھتے تھے- ان باتوں نے فدوی کو ایام طفلی میں کافی حد تک متاثر کیا تھا- اور اس کے نہاں خانہ دل میں یاس انگیز اور حزیں آگیں یادیں بن کر راسخ ہو گئی تھیں۔ اور یہ امر واقعہ بھی ہے کہ عہد طفلی میں نظر اندازی کا شکار بچہ ایام شباب میں خواہ کتنے ہی خوش گوار اور مسرت آمیز حالات سے کیوں نہ شادکام ہو وہ ماضی کے درد و کسک اور اس کے سوز دروں کو محسوس کیے بنا نہیں رہتا ہے- اور مذکورہ بالا باتوں کا تذکرہ فدوی طوقان نے اپنی سوانح حیات میں بھی کیا ہے- چنانچہ وہ رقمطراز ہیں: ” وہ غمناک احساس جس سے ہم زمانہ طفولت میں دو چار ہوتے ہیں- عمر کے ہر موڑ پر اسے اپنی بلاکی ذہانت سے محسوس کرتے ہیں ” –(4) اور اس مظلومانہ بچپن اور ظالمانہ سلوک کا منفی اثر فدوی طوقان کی شعری و نثری ہر دو تخلیقات میں بدرجہ اتم نمایاں ہوا ۔(5)
مرور ایام اور امتداد زمانہ کے باوجود فدوی طوقان کی زندگی پر جن لوگوں کی شخصیت اثرانداز رہی ان میں ان کی والدہ کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے ۔ صنف نازک اور طبقہ نسواں کو وہ اس برادری سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی بنظر حقارت دیکھتی تھی- اور اسی لیے پیدایش کے بعد نہ اس نے فدوی کو گلے لگایا- نہ مسرت و شادمانی کا اظہار کیا، اور نہ اسے ممتا کا پیار دیا جس کی ایک عام عورت سے امید کی جاتی ہے، بلکہ اسے” سمراء” نامی ایک خادمہ کے حوالے کر دیا تھا-
در اصل فدوی طوقان کی ذاتی سیرت کے مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ باپ بھی ماں ہی کے نقش قدم پر گامزن تھے- فدوی طوقان کے ساتھ ان کے تعلقات پیار و محبت اور شفقت سے خالی تھے، اور جو کچھ بھی انہیں فدوی سے کہنا ہوتا وہ براہ راست کہنے کے بجائے فدوی کی ماں سے کہتے تھے- بلکہ معاملہ یہاں تک پہونچ گیا تھا کہ فدوی سامنے ہوتی پھر بھی وہ ض
ضمیر غائب ” کا صیغہ استعمال کرکے اس سے خطاب کرتے گویا کہ وہ اس کا نام اپنی زبان پر لانا بھی مناسب نہیں سمجھتے ہوں – لیکن قابل تحسین بات یہ ہے کہ والد اور بیٹی کے مابین کشیدہ تعلقات ہونے کے باوجود بھی فدوی اپنے والد کی تحریکی شخصیت سے کافی متاثر تھی- اور اسی سے حب الوطنی، دیش پریم اور ملک سے محبت کا سبق حاصل کی تھی- سر زمین فلسطین سے محبت والد ہی کے توسط سے ان کے دل میں پیدا ہوئی تھی. بلکہ باضابطہ اس چیز کو فدوی نے اپنی سوانح میں ذکر بھی کیا ہے کہ انہیں والد کی عدم موجودگی کا کافی احساس ہوتا تھا- بطور خاص جب گھریلو مسائل اور خانگی پریشانیاں درپیش ہوتی تھیں تو فدوی کے والد بہت یاد آتے تھے- اپنے والد کی قوم پرستی کا تذکرہ کرتے ہوئے فدوی رقمطراز ہیں : ” میرے والد اس قومی تحریک کی جانب مائل تھے، جو مغربی استعماری تجاوزات کے خطرات سے آگاہ ہے ، اور بعض قوم پرست لوگوں کے ساتھ استعمار کےخلاف برسرپیکار رہتے تھے- جن میں سر فہرست رفعت تقامہ، سیف الدین طوقان اور فائق عنبتاوی ہیں” (6)۔
فدوی طوقان کی شہرت و ناموری اور تعلیمی ترقی میں ان کے بھائی ابراہیم طوقان کا کلیدی کردار رہا ہے ۔ یہ ابراہیم طوقان ہی تھے جنہوں نے فدوی کی ذہنی تربیت کی اور حصول علم کی راہ پر گامزن کیا- فدوی کی خفیہ صلاحیت اور پوشیدہ لیاقت کو ایک نئی جہت اور قابلِ رشک سمت دینے میں ابراہیم صاحب کی محنت آب زر سے لکھے جانے کے قابلِ ہے- اپنی محروم و مایوس اور ہر قید و بند میں محصور بہن کو عالم حریت میں لانے اور نعمت آزادی سے ہم کنار کرانے میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا – ابراہیم طوقان کی حوصلہ افزائی پر فدوی کے اندر سماج کے تقلیدی رسوم اور جاہلانہ طرزِ زندگی سے ٹکرانے کی جرات پیدا ہوئی ۔ جس نام نہاد خاندانی مذہبیت نے فدوی کو حصول علم سے روک دیا تھا اور انہیں ابتدائی تعلیم ہی پر اکتفا کرتے ہوئے مدرسہ چھوڑنا پڑا اس دقیانوسی فکر کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور یہ سب کچھ بھائی کی عنایت خاص کے سبب ممکن ہوسکا- اور اس چیز کو فدوی طوقان نے اپنی سوانح میں ذکر بھی کیا ہے- چنانچہ وہ کہتی ہیں : ” جب میں سن شعور کو پہنچی تو معاشرے میں مجھے تضادات نظر آئے- مذہبی تعصب اور رواداری دونوں کو ایک جگہ پایا- اور قومی و ملکی شعور میں ثقافتی تقلید کی جھلک نظر آئی جس کو خاندان میں مضبوط و مستحکم کرنے کے لئے ہمارے والد اور چچا دونوں کوشاں رہیں – اور وہ اس طرح کہ لڑکوں کو غیر ملکی اداروں میں حصول علم کے لیے بھیجتے تھے- جہاں وہ مغربی ثقافت سے آراستہ و پیراستہ ہوتے تھے- حالانکہ شہر میں خود ہی جامعہ ازہر جیسی عظیم الشان دانشگاہ متلاشیان علم اور شائقین ادب کا مرجع وقبلہ بنی ہوئی تھی ” (7)۔
اس تحریر سے بھی فدوی کے گھریلو ماحول کا کافی حد تک اندازہ ہوتا ہے۔ فدوی طوقان ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کرنے لگی اور میدان شاعری میں بے نظیر کامیابی سے ہم کنار ہوئی ۔ اور اسی لئے ابو تمام شاعر سے اسے تشبیہ دیتے ہوئے ” ام تمام ” کہا جانے لگا اور یہ بھی عیاں رہے کہ مختلف مستعار القاب سے فدوی شعری تخلیق فرما کر مجلات وجرائد میں شائع کرنے لگی ۔ اور نام کو صیغہ راز میں رکھنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ گھر والے اس بات کو قطعی پسند نہیں کرتے تھے کہ فدوی شمع خانہ کی بجائے زینت محفل بنے- اہل خانہ ہر گز اس بات سے راضی نہیں تھے کہ فدوی بزم ادب اور محفل شاعری کو آراستہ کرے اور اسی لئے مختلف ناموں سے وہ اپنی تخلیقات کو شائع کرتی رہی جن میں سر فہرست ” دنانینر ” اور مطوقہ ” ہیں جو اس کے محبوب القاب میں سے ہیں ۔ کیونکہ یہ القاب اس کی نفسیاتی حالات اور تقلیدی عادات کی آئینہ داری کرتے تھے۔ اور محمود درویش نے اسے ” فلسطینی شعر کی ماں” کے لقب سے ملقب کیا تھا۔
فدوی طوقان نے فکر و فن اور علم و ادب کے میدان میں اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے اور اس میں مہمیز لگانے کے لیے دو اہم ذرائع اختیار کیے – پہلا ابراہیم طوقان جو فدوی کے لئے راہ نجات ثابت ہوئے ۔ جب 1929ء میں اپنی تعلیم کو جامہ تکمیل سے آراستہ کرنے کے بعد گھر لوٹے تو اپنی بہن کی قابل رحم اور لایق افسوس زندگی کو دیکھ کر بہت رنجیدہ اور افسردہ ہوئے اور اسے جہالت کی تاریکی سے نکال کر ادب کی روشنی میں لائے اور شہر نابلس کے اطراف و اکناف میں اسے لیکر سفر کرنے لگے- اور جب ان کے شعری میلان کا ابراہیم طوقان کو ادراک ہوا تو مختلف قصائد و اشعار فدوی کو یاد کرنے کا مکلف بنانے لگے- اور پھر اسے نقل کر کے مجلس میں حاضرین بزم کے گوش گزار کرنے کا مشورہ دینے لگے ۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ عنفوان شباب ہی میں 1941ء میں ابراہیم طوقان اس دارفانی سے کوچ کرگئے- ان کی موت سے فدوی کو بے انتہا تکلیف ہوئی اور تعزیت میں انہوں نے متعدد مراثی بھی لکھے- چنانچہ فدوی طوقان کہتی ہیں: “ابراہیم سے محبت اندرونی غم و اندوہ کا باعث رہی ۔ میں نے مختصر مدت پر مشتمل ان کی زندگی سے اپنا تعلق بنائے رکھا – اور اس رحم دل بھائی کے وجود کا مسرت بخش احساس مجھے جھنجھوڑ دیتا تھا جو کھبی میرے لئے رنج کی طرح ہوتا ۔ اور وہ اس لیے کہ قبل از وقت اس کی موت کا اندیشہ مجھ پر ہمہ وقت غالب رہتا “۔(8)
دوسرا اہم ذریعہ جس کے سبب فدوی کو اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کرنے کا موقع ملا وہ تھا ذاتی مطالعہ اور کتب بینی کا شوق، بطور خاص ادبی کتابوں کا مطالعہ، لغت سے رغبت، عصر جاہلی کے شعراء کے اشعار اور عہد اموی کی شاہکار ادبی کتابوں نے فدوی کی زندگی میں مہمیز کا کام کیا- چنانچہ وہ پوری یکسوئی اور کامل انہماک کے ساتھ محو مطالعہ ہوگئیں- وہ اپنے بارے میں خود کہتی ہیں: ” زندگی کے ساتھ اثردار انداز میں ہم آہنگ ہونا میری استطاعت میں نہ تھا- جس طرح ایک شاعر کے شایان شان ہونا چاہیے- اس ہیبت ناک ماحول میں میری واحد دنیا فقط کتابوں کی دنیا تھی- کتابوں سے کشیدہ افکار اور فلسفوں کے ساتھ میں جیتی تھی- بلکہ انسانی آبادی سے الگ تھلگ ہو کر ،جبکہ میری نسوانیت زخم خوردہ حیوان کی مانند اپنے بند پنجڑے میں کراہ رہی تھی “۔ (9) اس طرح فدوی طوقان صبر و تحمل اور ضبط و شکیبائی کے ساتھ گھر کی جانب سے عاید شدہ تمام تر حدود و قیود اور پابندی کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے اپنے وجود کو مستحکم اور شخصیت کو نکھارنے کی راہ پر گامزن تھی ۔
فدوی طوقان ایک سنجیدہ خاتون، بہترین قلم کار اور کہنہ مشق نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انقلاب آفریں شاعرہ بھی تھیں- اور مجال شاعری میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے سبب ہی ان کے والد محترم جو کبھی فدوی کے تخلیقی جوہر کو نکھارنے میں سد راہ بنے ہوئے تھے- اپنی لخت جگر کی تخلیقی صلاحیت سے متاثر ہو کر تحریک فلسطین پر قلمی لیاقت دکھانے کی درخواست کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ اپنے والد کی اس گزارش پر تبصرہ کرتے ہوئے فدوی طوقان خود ہی کہتی ہیں: ” ایک شاعر پر واجب ہے کہ گرد و پیش کے حالات سے با خبر ہو تاکہ اسے اپنی شعری تخلیقات میں برت سکے- لہذا میرے لیے بر محل اور موزوں مواد پیش کرنا کیسے ممکن ہے؟ مجھے وہ فکری اور نفسیاتی ماحول کہاں سے ملے گا جس میں اس طرح کے اشعار تخلیق کر سکوں؟ ہر روز دو پہر میں کھانے کے وقت جو اخبار میرے ابو لیکر آتے تھے- کیا میں اس سے استفادہ کروں؟ حقیقت یہ ہے کہ مجلات کا مطالعہ اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود میرے دل میں سیاسی اشعار کے جذبات بھڑکانے سے قاصر ہے “۔(10)
اور یہ بھی پیش نگاہ رہے کہ فدوی کی عزلت اور گوشہ نشینی 61عیسوی کے اوائل میں ختم ہوتی ہے جب وہ لندن میں قیام پذیر ہونے کی غرض سے سفر کرتی ہے- کیونکہ اس کی حالت پنجرے میں قید ایک چڑیا کی مانند تھی- پھر خود کو آزاد پاکر آزادی کا مفہوم سمجھ لیتی ہے- اور 1967 کی شکست کے بعد گوشہ نشینی سے مکمل طور پر باہر آتی ہے اور قدآور سیاسی شخصیات اور مزاحمت کار لیڈران سے ملتی ہے- جن میں سر فہرست موشیہ دان- جمال عبد الناصر اور یاسر عرفات ہیں- اور یہیں سے ذاتی حدود اور انفرادی دنیا سے نکل کر معاشرتی دنیا اور اجتماعی سنسار میں قدم رنجہ ہونے کی نوبت آتی ہے- اب فدوی ذاتی اشعار نہیں بلکہ انقلابی تخلیقات پیش کرتی ہے تاکہ خوابیدہ قوم کو بیدار کر حصول آزادی کی راہ پر گامزن کر سکے- اور اس کام کو انجام دینے کے لیے فدوی نے شعری اور نثری ہر دو تخلیقات کو بطور وسیلہ اختیار کیا- تقریبا پچاس سالوں میں فدوی کے آٹھ شعری دیوان زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں ۔
فدوی طوقان کی شعری تخلیقات:
ذیل میں فدوی طوقان کی چند شعری تخلیقات کا نام مختصر تعارف کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے:
۱- ” وحدی مع الایام ” یہ ۱۹۵۲میں منظر عام پر آیا- اس کے اندر شاعرہ نے اپنے ذاتی احوال کو بزبان شاعری بیان کیا ہے ۔
۲- “الرحلۃ المنسیۃ ” اس میں شاعرہ نے اپنے ابتدائی سفروں کا تذکرہ کیا ہے ۔
۳- ” وجدتھا ” یہ ۱۹۵۷میں دار الادب بیروت سے شائع ہوا ۔
٤-“اعطنا حبا ” یہ ۱۹۶۰ میں دار الادب بیروت سے شائع ہوا ۔
۵- ” امام الباب المغلق ” یہ ۱۹۶۹ میں دار الادب بیروت سے شائع ہوا ۔
٦- ” علی قمۃ الدنیا وحیدا ” یہ ۱۹۷۳ میں بیروت سے شائع ہوا ۔
۷- تموز و الشیء الآخر ” یہ ۱۹۸۹میں دار الشروق عمان سے شائع ہوا ۔
۸- ” اللحن الاخیر ” یہ بھی ۲۰۰۰ میں دار الشروق عمان سے ہی شائع ہوا۔
فدوی طوقان کے نثری کارنامے:
۱- نقد و تبصرہ پر مبنی فدوی طوقان کے آٹھ مقالات ہیں جو ” اخی ابراھیم ” نامی کتاب سے پہلے کے تحریر کردہ ہیں جسے یوسف بکار نے جمع کیا ہے ۔
۲- ” اخی ابراھیم ” یہ کتاب ۱۹۴۲میں مکتبہ عصریہ یافا سے شائع ہوئ ۔
۳- ” رحلۃ جبلیۃ- رحلۃ صعبۃ ” یہ در حقیقت شاعرہ کے احوال زندگی اور ذاتی سیرت پر مبنی کتاب کی پہلی جلد ہے جو ۱۹۸۵میں دار اسرار عکا سے شائع ہوئی – پھر دار شروق عمان سے ۱۹۸۵- اور ۱۹۸۹ میں حسب ترتیب شائع ہوئی ۔
4- ” الرحلة الأصعب ” اور یہ فدوی طوقان کی ذاتی سیرت پر مشتمل کتاب کی دوسری جلد ہے جو دار الشروق عمان سے ۱۹۹۳میں شایع ہوئی ۔
فدوی کے شعری اور نثری دونوں اسلوب میں کمال ندرت بدرجہ اتم موجود ہے- فدوی نے پرکشش انداز اور جاذب نظر اسلوب اختیار کیا ہے- خاص طور سے اس کے شعری اسلوب میں تکرار کا طریقہ بروئے کار لایا گیا ہے اور کہیں اسلوب نداء تو کہیں اسلوب استفہام کو اختیار کیا گیا ہے تاکہ مخاطب متکلم کی اور قاری قلم کار کی جانب اپنی توجہ خاطر خواہ مبذول کر سکے ۔
فدوی طوقان کے اشعار اور نثری تخلیقات میں حصول آزادی کا مطالبہ موجود ہے- وہ استعماری قوتوں اور غاصب صیہونیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی نظر آ رہی ہے- اور فدوی کی شاعری میں ملک سے محبت کے عناصر بھی کافی حد تک موجود ہیں- چنانچہ ایک جگہ وہ اپنے ہی ملک کی خاک بننے کی تمنا کرتے ہوئے کہتی ہے:
کفانی اموت علی ارضہا وادفن فیہا
کفانی اظل یحصن بلادی تراباوعشبا و زہرۃ
مذکورہ بالا کلمات فدوی کے جذبہ حب الوطنی کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہیں- اور اس سے بھی ادراک ہوتا ہے کہ ملک سے محبت اور اس کی آزادی سے رغبت فدوی طوقان میں قابل رشک حد تک موجود تھی ۔
Name: Mohd Azhar s/o Jalees Ahmad
Institutional Affliation: Research Scholar, Department of Arabic, University of Delhi
Career: BA & MA (Arabic & Urdu), M.phil (Arabic), Research Scholar currently (Arabic)
Address: Ward 12, Dhaura Tanda, Distt, Bareilly, UP, 243202
Mob: 9899815045
Email: azhar.azeem74@gmail.com
حوالہ جات
1- فدوی طوقان – رحلۃ جبلیۃ- رحلۃ صعبۃ – دار الشروق للنشر و التوزیع- عمان- اردن- ص ۸
2 – غرید الشیخ- فدوی طوقان- شعر و التزام- دار الکتب العلمیۃ- بیروت- لبنان ص ۷۰
3 – رحلۃ جبلیۃ : ص ۸
4 – حوالہ سابق : ص ۲۱
5 – جمال طفیلی: الاتجاہ الرومانسي فی شعر فدوی طوقان- بيروت- جامع بيروت العربي ص ١٥
6 – رحلۃ جبلیۃ: ص ۱۵
7 – رحلتہ جبلیہ: صفحہ 40
8 – رحلۃ جبلیۃ: ص ۱۲۵
9 – حوالہ سابق : ص ۱۲۹
10 – رحلۃ جبلیۃ : ص ۱۳۲
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!