غالب ؔکے پینشن کا قضیہ:ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

مشتاق فاروق

ریسرچ اسکالر یونی ور سٹی آف حیدر آباد ، حیدر آباد

موبائل :۔ ۶۰۰۵۰۳۲۱۲۰

ای میل :۔ mushtaqhcu@gmail.com

                غالبؔ نے پینشن کی بحالی کے لیے کلکتے کا سفر کیا تھا ۔ اس دوران غالب ؔ کو کن مصائب و مشکلات کا سامنا ہوا اس پر اردو کے کئی اہم اورنامور محققین و ناقدین نے پوری وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ غالبؔ کے پینشن کا قضیہ بیان کرتے ہوئے اردو کے کئی محققین نے لکھا ہے کہ غالبؔ کے چچا نصراللہ بیگ انگریزی فوج میں ملازم تھے ۔ انہیں انگریزی حکومت کی طرف سے کچھ جاگیر دی گئی تھی ۔ لیکن ان کی وفات کے بعد لارڈ لیک نے یہ جاگیر واپس لی اور ان کے اہل خانہ کے لیے پینشن مقرر کردی ۔ پینشن کی رقم سالانہ دس ہزار تھی ۔ اس کی تصدیق مالک رام ،خلیق انجم اور حنیف نقوی کے بیان سے بھی ہوجاتی ہے ۔ جس دوران یہ واقع پیش آیا ۔ اس وقت غالبؔ کی عمر دس سال تھی اور ان کے چھوٹے بھائی مرزا یوسف کی عمر ساتھ سال ۔ انگریزی حکومت کی طرف سے ملنے والی پینشن نواب احمد بخش خاں نے دس ہزار سے گٹھا کر پانچ ہزار کردی ۔ اس کے علاوہ نصراللہ بیگ کے اہل خانہ میں ایک ملازم خواجہ حاجی کو بھی شامل کرلیا ۔ مالک رام نے ــــ’’ذکر غالب‘‘ میں لکھا ہے کہ انہیں نواب احمد بخش خاں کی سفارش پر انگریزی حکومت کی طرف سے پینشن بحال ہوئی تھی ۔ جس کی تقسیم کچھ اس طرح ہوئی ۔

                ’’خواجہ حاجی دوہزار روپے سالانہ ،مرزا نصراللہ بیگ خاں کی والدہ اور تین بہنیں ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ ، غالبؔ اور ان کے بھائی مرزا یوسف ڈیڑھ ہز ار روپے سالانہ ۔ ‘‘

                 غالبؔ نے جب ہوش سنبھالا تو انہیں نواب احمد بخش خاں کی نا انصافی کا علم ہوااور انہوں نے نواب احمدبخش خاں کے نام ایک خط تحریر کیاہے جس میں انہوں نے انصاف کا مطالبہ کیا ۔ جواب میں نواب احمد بخش خاں وعدہ کرتے رہے ۔ لیکن عملی طور پر انہوں نے کبھی کوئی اقدام نہیں اٹھائے ۔ ایک وعدہ یہ بھی کیا گیا تھا کہ جب خواجہ حاجی انتقال کر جائیں گے تو انہیں ملنی والی پینشن بھی غالب ؔ کو دی جائے گی ۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کو ملنے والی پینشن ان کے دواولاد کو ملنی شروع ہوگئی۔ غصے میں آکر غالبؔ نواب بخش کے پاس فیروزپور ملنے گئے ۔ وہاں غالبؔ نے نواب بخش سے مطالبہ کیا کہ چوں کہ اب خواجہ حاجی انتقال کر گئے ۔ لہٰذا مجھے اب اپنا حق دیا جائے ۔ لیکن غالب ؔ کو اس بارے میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی ۔ اس بات کی پوری وضاحت حنیف نقوی نے اپنی کتاب ’’غالب ؔ احوال و آثار‘‘اور خلیق انجم نے اپنی کتاب ’’غالب ؔ کا سفر کلکتہ اور کلکتے کا ادبی معرکہ ‘‘ میں کی ہے ۔

                چناں چہ 15جولائی 1825ء کو دہلی کے ریذیڈنٹ اختر لونی کا انتقال ہوگیا اور26اگست 1825ء کو ان کی جگہ سر چارلس مٹکاف کا انتخاب کیا گیا ۔ غالبؔ کی پوری کوشش تھی کہ وہ اپنی شکایت ریذیڈنٹ چارلس مٹکاف تک پہنچائے ۔ انہوں نے منصوبہ بنایاکہ وہ نواب احمد بخش کو بیچ میں ڈالے بغیر براہ را ست مٹکاف سے بات کریں گے ۔ غالبؔ جب چارلس مٹکاف سے ملاقات کے لیے کان پور پہنچ گئے تو مٹکاف سے ان کی ملاقات نہیں ہوپائی ۔ کیوں کہ اول تو ان کی صحت خراب ہوگئی دوسری بات اسی دوران بھرت پور کا معاملہ پیش آیا ۔

غالب ؔ کے سفر کلکتہ کی یہ پوری رودادحنیف نقوی اور خلیق انجم ؔنے اپنی تصانیف میں لکھی ہے ۔ چوں کہ کان پور میں غالب ؔ کو کوئی مناسب طبیب نہ مل سکا ۔ لہٰذاانہوں نے دریا گنگا پار کرکے لکھنؤ کی راہ اختیا ر کرلی۔ لکھنؤ میں غالبؔ نے پانچ مہینے اور چند روز قیام کیا ۔ یہاں سے غالبؔ خلیق انجمؔ کے مطابق 26ذیعقدہ1290ھ مطابق 21جون1827بروز جمعہ روانہ ہوئے ۔ اور چوتھے چن کان پور پہنچ گئے ۔ یہاں کچھ دن آرام کرنے کے بعد کلکتے کے ارادے سے باندہ روانہ ہوئے ۔ خلیق انجمؔ کے بقول غالب ؔ نے اس وقت کلکتہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا جب وہ لکھنؤ میں چارلس مٹکاف سے ملاقات کرنے میں ناکام ہوئے تھے ۔

                غالب ؔ کے سفر کلکتے کی روداد بیان کرتے ہوئے محققین لکھتے ہیں کہ جب غالبؔ نے لکھنؤسے کلکتے کے سفر کا ارادہ کیا ۔ توانہیں اس بات کی پوری توقع تھی کہ معتمدالدولہ اور شاہِ اودھ سے انہیں انعام و اکرام کی صورت میں اتنی رقم ضرور موصول ہوگی جو انہیں چاہیے ہوگی ۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ اب غالبؔ نے لکھنؤ سے کان پور اور کا ن پور سے باندھ جانے کا تہیہ کرلیا ۔ خلیق انجمؔ نے نواب انورالدولہ سعدالدین خاں شفیق کے نام غالبؔ کے ایک خط کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالبؔ کو اس بات کی پوری امید تھی کہ باندھ میں نواب ذوالفقار علی بہادر ان کا علاج و معالجہ کرائیں گے ۔ علاوہ ازیں کلکتے کے سفر کے لیے اخراجات کا انتظام بھی یہیں سے ہو جائے گا ۔ غالبؔ جب باندھ پہنچے تو ان کی طبیعت بہت خراب تھی ۔ نواب ذوالفقار علی بہادر نے ان کا علاج و معالجہ کرایا ۔ اس بات کی تصدیق غالب ؔ اپنے الفاظ میں یوں کرتے ہیں :۔

’’اللہ کے فضل اور نواب صاحب کی توجہ اور تیمارداری کی بدولت مجھے اس خطر ناک بیماری سے شفا حاصل ہوئی ۔ ‘‘

                بعض محققین کے قیاس کے مطابق غالب ؔ کو ’’بوالدم‘‘ کی بیماری تھی ۔ اس میں پیشاب کے ساتھ ساتھ قطرہ قطرہ خان بھی آتا ہے ۔ جس سے بے حد سوزش اور جلن کا احساس ہوتا ہے ۔

                باندھ میں چھ مہینے گذر جانے کے بعد غالبؔ نے ذوالفقار علی کے مہاجن امی کرن سے دو ہزار روپے لے کر کلکتے کے سفر کے لیے روانہ ہوئے ۔ یہاں سے غالب ؔ الہ آباد پہنچے ۔ الہ آباد میں غالب ؔ نے محض چوبیس گھنٹے قیام کیا ۔ یہاں سے روانہ ہونے کے بعد غالب ؔ بنارس پہنچ گئے ۔ بقول خلیق انجمؔ:

                ’’غالبؔ کے لیے شہر بنارس کی حیثیت اس نخلستان کی تھی ۔ جو تپتے ہوئے ریگستان میں طویل سفر کے بعد مسافر کے لیے فردوس بریں کا درجہ رکھتی ہو ۔ جس کا ٹھنڈا پانی ، ٹھنڈی ہوائیں اور درختوں کی حیات بخش چھاؤ ں جسم اور روح کے جلتے ہوئے زخموں پر مرہم کا کام کرتی ہو ۔ کیوں کہ بنارس پہنچتے ہی غالب ؔکو طویل بیماری سے نجات مل گئی ۔ بنا رس میں غالبؔ نے تقریباً چار ہفتے قیام کیا ۔ ‘‘

                اسی انتہائی تکلیف دہ سفر کی دین غالبؔ کی مثنوی ’’چراغ دیر‘‘ ہے ۔ اس مثنوی کا شمار ہندوستان کے فارسی ادب کے اعلیٰ شہ پاروں میں کیا جاتا ہے ۔ خلیق انجمؔ کے مطابق اس مثنوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شاید ہی کسی اور نے بنارس شہر کو غالبؔ سے بہتر خراج تحسین پیش کیا ہو ۔ غالبؔ اپنے عزیزوں ،دوستوں اور شہر دلی کے لیے کیسے تڑپ اٹھتے تھے ۔ اس کا مکمل اظہار اس مثنوی میں کیا گیا ہے ۔

                محققین غالبؔ نے غالبؔ کی پینشن کے معاملات پر اتنا کچھ تحریر کیا ہے کہ اگر اسے ترتیب دیا جائے تو وہ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہوگا ۔ لیکن اس سلسلے کی سب سے اہم دستاویز خود غالبؔ کی وہ درخواست ہے ۔ جو انہوں نے کلکتہ پہنچ کر 28مئی 1828کو حکومت کے سامنے پیش کی تھی ۔ یہ درخواست انڈیا آفس لائبریری میں محفوظ ہے ۔ اس سلسلے کے سب سے اہم کارناموں میں مالک رام کا ایک کارنامہ اس دستاویز کی دریافت ہے ۔ جو انگریزی میں ہے اور مالک رام نے اس کا ترجمہ اردو میں کرکے ماہنامہ ’’ افکار‘‘ کراچی ، سے مارچ 1969میں صفحہ نمبر46تا54میں شائع کیا ہے ۔ اس ترجمے کو بعد میں انہوں نے اپنے مضامین کے مجموعے ’’فسانۂ غالبؔ‘‘ میں شامل کیا ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک اہم دستاویز مرزا افضل بیگ کی ہے ۔ جو انہوں نے غالبؔ کی درخواست کے جواب میں 8مارچ1830ء میں حکومت کے سامنے پیش کی تھی ۔ اس درخواست میں انہوں نے غالبؔ کے خلاف دعویٰ کیا تھا کہ غالبؔ نے حاجی صاحب کے صاحب زادوں کی حق تلفی کی ہے ۔

                 2مئی1828ء کو جب غالبؔ نے اپنی درخواست حکومت کے سامنے پیش کی تو سرکاری افسروں نے غالبؔ کو آگاہ کیا کہ انہوں نے یہاں آکر غلطی کی ہے ۔ کیوں کہ سرکاری اصول کے مطابق غالبؔ کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی درخواست دہلی کے ریذیڈنٹ کول بروک کے سامنے پیش کریں ۔ اسی کی رپورٹ پر کلکتہ میں مناسب کاروائی کی جاتی ۔ باوجود اس کے غالبؔ نے دہلی کے ریذیڈنٹ کے بجائے براہ ِ راست کلکتہ میں اپنی درخوست دائر کی ۔ باوجود اس کے کہ غالبؔ کی درخواست کو اصول کے مطابق رد کیا جاتا سائمن نے غالبؔ کی عرض داشت لے کر رکھ لی اور غالبؔ کو خیال ہوا کہ انہوں نے دہلی کے ریذیڈنٹ کے ذریعے درخواست نہ بھیجنے کی جو غلطی کی تھی ، اسے نظر انداز کردیا گیا ۔

                اس وقت کلکتے میں اینڈرپوزاسٹر لنگ نامی ایک اور آفیسر تھے ۔ یہ کونسل میں بہت اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ۔ سائمن فریزر انہی کے ماتحت تھے ۔ اسٹرلنگ ہی طے کرتے تھے کہ کس مقدمے کو کونسل بھیجا جائے اور کس مقدمے کو بنیادی مرحلے پر ہی رد کیا جائے ۔ اسٹرلنگ سے غالبؔ کی ملاقات کے بارے میں خلیق انجمؔ لکھتے ہیں :۔

’’غالبؔ نے ان سے اپنی ملاقات کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسٹرلنگ کی گفتگو سے وہ اپنے مقدمے کے سلسلے میں بہت پر امید ہوگئے تھے ۔ اسٹرلنگ کو غالبؔ سے ہمدردی تھی ۔ لیکن وہ اصول و ضوابط کے سامنے معذور تھے ۔ قائد کے مطابق اسٹرلنگ نے عرض داشت پر لکھا تھا کہ عرض داشت پہلے دہلی کے ریذیڈنٹ کے سامنے پیش کی جانی چاہیے تھی اور پھر وہاں سے ان کے پاس آنی چاہیے ۔ ‘‘

                 غالبؔ نے جب یہ سنا کہ اراکین نے ان کے مقدمے کو اس شرط پر قبول کرلیا ہے ۔ کہ عرض داشت دہلی کے ریذیڈنٹ کی معرفت سے آ نی چاہیے ۔ تو غالبؔ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا ۔ کیوں کہ اول تو مالی اعتبار سے غالبؔ اس لائق نہیں تھے کہ وہ دہلی جاتے ۔ دوسری بات یہ کہ ان کی صحت بھی اتنے لمبے سفر کے لیے متحمل نہیں تھی ۔ لہٰذہ انہوں اپنے ایک رفیق مولانا فضل حق خیر بادی کو خط لکھ کر اس سلسلے میں مدد طلب کی ۔ فضل خیر آبادی نے ان کی مدد کے لیے ایک وکیل پنڈت ہیرا لال کی خدمات حاصل کرلی ۔ ابھی مقدمہ چل ہی رہا تھا کہ غالبؔ کو معلوم ہوا کہ تین سال کے لیے میرٹھ کو دارالسلطنت قرار دیا گیا ۔ اس لیے گورنر جنرل مع کونسل اور کونسل کے اراکین کے عملے کے ساتھ شمالی ہند روانہ ہوئے ۔ غالبؔ بھی اس کاروان کے ساتھ میرٹھ روانہ ہوتے لیکن ان کی مالی حالت اس قابل نہیں تھی کہ وہ سفر کے اخراجات کو برداشت کرتے ۔ لہٰذہ انہیں کلکتہ میں مزید قیام کرنا پڑا۔ کچھ دن بعد غالبؔ کو ایک خط موصول ہوا جس میں لکھاگیا تھا کہ ان کی درخواست مسل کاغذات میں شامل ہوگئی ہے ۔

                لیکن اسے غالبؔ کی بدقسمتی کہیے یا کچھ اور کہ سر ایڈورڈ کولبروک پر اسی دوران ان کے دشمنوں نے کچھ الزام تراشیاں کیں ۔ جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جب تک ان الزامات کی مکمل تحقیق نہیں ہوتی کولبروک کو اس عہدے سے برترف کیا جاتا ہے ۔ اور ان کی جگہ ہاکنزکا تقررکیا گیا ۔ جب غالبؔ کو یقین ہوگیا کہ کلکتہ میں مزید قیام ان کے لیے کوئی فائدہ مند نہیں ہے ۔ تو وہ 20اگست 1829ء کو کلکتے سے روانہ ہو کر 18نومبر1829کودہلی پہنچ گئے ۔ دہلی میں انہوں نے ریذیڈنٹ سے رابطہ قائم کیا ۔

                ہاکنز نواب شمس الدین احمد خاں کے بہت قریبی تھے ۔ انہوں نے نواب شمس الد ین کے کہنے پر صدردفتر میں دوسری رپورٹ بھیجی جس میں تحریر کیا گیا کہ غالبؔ نے اپنی پینشن کے بارے میں جو نا انصافی کا دعویٰ کیا ہے ۔ وہ بے بنیاد ہے ۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

                حکومت کے اس حتمی فیصلے کے باوجود غالبؔ نے ہمت نہیں ہاری ۔ انہوں نے جولائی 1830ء کو گورنر جنرل کے نام ایک اور عرض داشت بھیجی ۔ اس عر ض داشت میں وہ تمام باتیں پھر دہرائیں گئیں ۔ جوخواجہ حاجی اور پینشن کے بارے میں پہلی عرض داشت میں تحریر کی گئی تھیں ۔ ساتھ ہی حکومت کے کیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی کی گئی تھی ۔ بعض محققین کے مطابق اس بار غالبؔ کو یہ کامیابی حاصل ہوگئی کہ ان کی عرض داشت پر گور نر جنرل لارڈولیم بینٹنک نے 20اگست1830ء کو دہلی کے قائم مقام ریذیڈنٹ ہاکنز کو حکم دیا کہ لارڈ لیک کا7جون1806ء کا وہ خط ،جو نواب احمد بخش خاں کے نام تحریر کیا گیا تھا اور جس میں نصراللہ بیگ کے ورثا کی پینشن کی رقم مقرر کی گئی تھی ،نواب شمس الدین سے لے کر ان کو بھیج دیا جائے ۔ ایف ہاکنز نے نواب شمس الدین سے یہ خط لے کر 18اکتوبر1830ء کو گورنر جنرل کو بھیج دیا ۔ ا یف ہاکنز نے لارڈلیک کا جو خط کلکتہ بھیج دیا اسے صاف ظاہر تھا کہ غالبؔ نے اپنی پینشن کے بارے میں جو عرض داشت دائر کی ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے ۔ لیکن ہاکنز کی طرف سے بھیجے گئے دستاویزات پر غالبؔ مسلسل یہ اصرار کرتے رہے کہ لارڈلیک کے یہ دستاویز جعلی ہیں ۔ لیکن حکومت کے مختلف عہدے داران مسلسل اس کے اصل ہونے کی تصدیق کر رہے تھے ۔ نتیجتاً غالبؔ نے لارڈ ولیم بینٹنک کے نام ایک درخوست تحریر کی جس میں انہوں نے بقول خلیق انجم ؔ سرکاری افیسروں پر رشوت خوری اور خود لارڈلیک پر سرکاری کاموں میں لاپرواہی برتنے کے الزامات عائد کئے ۔ 31دسبمر1830ء کو دہلی کے ریذیڈنٹ ہاکنز کو ایک خط کے ذریعے ہدایت دی گئی تھی کہ نواب شمس الدین سے اصل خط حاصل کرکے کلکتے بھیج دیاجائے ۔ اس معاملے کی رودادبیان کرتے ہوئے خلیق انجمؔ لکھتے ہیں کہ :۔

’’دہلی کے ریذیڈنٹ ڈیلیو بی مارٹن نے 24اگست1831ء کے ایک خط میں گور نر جنرل کو لکھا ، جس میں بتایا کہ یہی وہ دستاویز ہے ، جس کی باپت اسداللہ خاں کا دعویٰ ہے کہ اس میں تحریف کی گئی ہے لیکن جب اصل دستاویز سر جو ن میلکم بہادر کو تجزیے کے لیے پیش کی گئی تو موصوف نے اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کی تھی ۔ چناں چہ تمام حقائق کے مد نظر رکھتے ہوئے میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ نہ تو مدعی کو نالش کانے کا مجاز ہے ۔ نہ ہی حکومت نواب شمس الدین خاں سے کسی رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرسکتی ہے جیسا کہ داد خواہ چاہتا ہے ۔ ‘‘

                خلیق انجمؔ نے اس خط کے بارے میں مزید یہ بھی لکھا ہے کہ اس خط میں مارٹن نے اس حقیقت کا اظہار بھی کیا ہے ۔ کہ پہلے بھی دو دفعہ اس طرح کی عرض داشتیں پیش کی گئی تھیں اور دونوں دفعہ انہیں مسترد کردیا گیا تھا ۔ اورپھربل آخر گورنر جنرل کی ہدایت پر معتمد میکنائن نے یکم مئی 1832ء کو غالب ؔ کے نام ایک خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے :۔

’’گورنر جنرل صاحب ،فضیلت مآب صدران کونسل کے خیالات سے کلی طور پر اتفاق فرماتے ہیں ۔ لہذٰا ایسی صورت میں نواب شمس الدین سے موجودہ پینشن میں اضافے کا مطالبہ سراسر نارواہے اورجنرل لارڈلیک صاحب کی عطا کردہ سند جس میں مختلف حصے داروں کے نام مخصوص رقم کا اندراج ہے ، بالکل صحیح ہے۔ ‘‘

                اس کے بعد 1834ء میں جب نواب شمس الدین کو ولیم فریزر کے قتل کے الزام میں پھانسی دی جاتی ہے تو غالبؔ نے ایک بار پھر اپنی عر ض داشت دائر کی ۔ لیکن غالبؔ کی اس درخواست کو بھی مسترد کیا گیا ۔ اور لفٹنٹ گورنرنے فیصلہ کیا کہ 7جون 1806ء کے شقے کے مطابق جو ساڑھے سات سو سالانہ انہیں ملتے رہے وہی درست ہے ۔ اور آئندہ بھی وہ اس سے زیادہ کے حقدار نہیں ۔ مرزا نے اس کے خلاف گور نر جنرل کے پاس اپیل کی مگر وہاں سے بھی یہی فیصلہ بحال رہا۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.