جمّوں و کشمیر میں اردو زبان کے فروغ میں غیر مُسلم شعراء و اُدبا کا کردار۔

اردو  برِصغیر کی ایک بڑی زبان ہے ۔ اور یہ زبان ہر مذہب و ملّت کی زبان ہے۔ یہ مُسلمانوں ،ہندوں ، سِکھوں اور عسیاہیوں سب کی زبان ہے۔ یہ سبھی مذہبی اور عقیدوں کے افراد میں رائج ہے۔ اور اسے ملک کے ہر علاقے اور خطّے میں سمجھا اور بولا جاتا ہے۔ اس زبان نے ہمارے ملک کی ترقی و فروغ میں اہم کردار نبھایا ہے۔ اور اس نے تحریکِ آزادی کے دوران ہمیں ـ’’ انقلاب زندہ باد‘‘ کا ملک گیر نعرہ عطا کیا جو آج بھی ہمارے دیش کے مظاہروں اور جلسوں میں بکثرت سنائی دیتا ہے۔ تو اس طرح سے اردو کو ترقی دینے میں ہندوستان کے غیرمُسلم شعراء واُدبا نے بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔

           آزادی کے ساتھ بٹوارے اور پھر اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دئیے جانے کے بعد اردو کو ہندوستان میں اپنا وجود قایئم رکھنے کے لیئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔ اس دؤر میں اردو زبان کا پرچم بلند کرنے اور اسے تقویت بخشنے میں غیر مُسلم ادیبوں نے ایک اہم کردار نبھایا تھا اوروہ اس کے بہت بڑے حمایتی تھے۔ ان دنوں میں عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ ہندوستان میں اردو دس پندرہ برس میں ختم ہوجاے گی لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوا اور اردو بڑی شان و شوکت سے سر اُٹھاے اس ملک میں رایٔج ہی نہیں بلکہ اس کا شمار ملک کی اہم زبانوں میں ہوتاہے۔ اور اخبارات و رسایٔل کی تعداد کے لحاظ سے یہ ملک کی تیسری بڑی زبان ہے۔

          بٹوارے کے بعد ہندوستان میں اردو کے بے شمار غیر مُسلم ادیب اور شاعرموجود تھے۔ اُن میں آنند نارایٔن ملاّؔ،تلوک چند محرومؔ،فراق گورکھپوریؔ،کرشن چندرؔ،راجندر سنگھ بیدیؔ،بلونت سنگھؔ،کرپال سنگھؔ، جگن ناتھ آزادؔ،عرش ملسیانیؔ،پنڈت ہری چند ؔ، برہمدت ؔ،کیفی دہلویؔ،مالک رامؔ،پریم ناتھ پردیسیؔ،راما نند ساگرؔ،پریم ناتھ دھرؔ،وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ انھوں نے اس دؤر میں ا        ُردو کو تقویت بخشنے میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ ان دنوں میں جو بھی رسالہ یا اخبار نظر آتا تھا اُس میں درجنوں غیر مُسلم ادبیوں اور شاعروں کے نام نظر آتے ہیں ۔

        اردو کا تین چوتھای حصہ واقعات کربلا پر مشتمل ہے۔ نعت اور منبقت کے مقابلے مراثی زیادہ لکھے گیٔے۔ قیاس یہ ہے کہ پندروھویں ،سولہویں صدی عیسوی میں غیر مُسلم شعرا ء کے مرثیے مقامی بولیوں تک محدود رہے۔ غیر مُسلم مرثیہ نگاروں میں پہلا نامــ رام راؤــــــــــ کا ہے۔ ـــــوہ گولکنڈہ کے قطب شاہی امیر تھے۔ اس کے بعد دوسرا شاعر داسؔ ہے۔ اور تیسرا شاعر سریؔ۔ شمالی ہندوستان میں سب سے پہلے بنارس کے راجہ بلوان سنگھ نے مرثیہ لکھا۔ وہ بنارس سے آگرہ آیٔے اور نظیر اکبر آبادی کی شاگردی اختیار کی اورراجہؔکے تخلص سے مرثیہ نگاری کی۔

         لکھنو ّ کے دوسرے مرثیہ نگاروں میں لالہ رام پرشادبشرؔ کو اہل بیت سے دِلی عقیدت تھی اور اس کا اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں کیا۔ وہ بڑی عقیدت سے مرثیہ پڑھا کرتے تھے۔ خاص کر حضرت عباس ؓکی درگاہ میں جو جلوس نکلتا تھا۔ منشی لال چھنولکھنویــ’’غرب‘‘تخلص میں غزل لکھتے تھے۔ اور’’دلگیر‘‘تخلص کے ساتھ مرثیے۔ پھر مکمل طور پر اُنھوں نے مرثیے لکھے۔

         لکھنوّکے مرثیہ گویوں میں پدم شری گوپی ناتھ امنؔکا نام قابلِ ذکر ہے۔ اُن کے والد مہادیو پرشادبھی اردو میں شاعری کرتے تھے۔ امنؔ کی تربیت بھی اُسی ماحول میں ہوییـ اور مرزا محمد ہادی رسواؔ کی شاگردی میں چلے گیٔے۔ امنؔ نے فارسی،ہندی اور اردو تینوں زبانوں میں شاعری کی۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہے۔

      پرستش روا نہیں ہے مومنین کو،

      مجھے یہ حق کہ پوجتا ہوں دیدہ پُرآب سے

      کافر کہے تو کوی کہے امن کو مگر

      ایوانِ دل میں اسکے قیام حُسینؓ ہے

     جو امن ذات کا ہندوہے،اس کو حیرت کیا

      اگر علی کو نصیری خُدا سمجھتے ہیں ۔

غیر مسلم شعراـ و اُدبا نے اردو شاعری میں اپنی مذہبی رواداری کاثبوت بھی فراہم کیا ہے۔ حضرت امام حُسین اور اولیایٔے اکرام کے سلسلے میں انھوں اپنی نظم ونثر کا بھر پور سہارا لیکر ایک خوشگوار ماحول تیار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہیں ۔

  اشنان کر کے آیا ہے سنگم پر برہمن

  اور خاکِ کربلا کا تِلک لاجواب ہے

 جاوید ؔ مدح خواں ہے تیرا بنتِ مرتضیٰ

  یہ برہمن اسلیے عزت مآب ہے۔

              [پروفیسر شیو پرشاد جاویدؔ]

اُتر پردیش کے نامور غیر مُسلم سکالر اور شاعربھوتیش کمار شرما بھونؔاپنی نظم’’امام حُسین اور ہندو‘‘میں یوں رقمطراز ہیں :۔

اپنے مہمان پر کب ظُلم ڈھاتے ہیں ہندو

ہیں اسے اپنے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہندو

ہند کا نام جو آیا تھا زباں پر اُن کی

اس لیے یاد بھی اُن کی ہیں مناتے ہندو

  ہند میں کاش حُسینؓابنِ علیؓ آجاتے

  چومتے اُن کے قدم، پلکیں بچھاتے ہندو

  اُن کے خیمے بھی لگے گنگا کنارے ہوتے

  اُن کے گھوڑوں کو بھی جل اس کا پلاتے ہندو۔

جہاں تک جمّوں و کشمیر میں اردو زبان وادب کی ترویج وترقی کا تعلق ہے ۔ تو یہاں غیر مُسلم شعرا و اُدبا کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ جمّوں وکشمیرزمانہ قدیم سے ہی علم وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں کے دلفریب نظارے ایک ادیب کو گنگنانے و کچھ سوچنے اور تخلیق کرنے پرمجبور کرتے ہیں ۔ جمّوں وکشمیرمیں اردو زبان و ادب کے سلسلے میں پنڈت ہر گوپال کول خستہؔکا بیاں ہے کہ۱۸۷۷ء؁ تک اردو کا چلن صرف بازاروں تک محدود تھا۔ اور یہ عہد مہاراجہ رنبیر سنگھ کا تھا۔ اس کے عہد میں اردو نے اپنے قدم یہاں مضبوطی سے جما لیے تھے۔ اس راجہ کی علم دوستی کا چرچا سُن کر پنڈت ہر گوپال کول خستہؔاور ان کے بھایٔی سالکرام کول سالکؔ واپس دہلی سے کشمیر لوٹ آیٔے۔ ان دونوں بھایٔیوں کا اُس دؤر کے صفِ اوّل کے اُدباوشعراء میں شمار ہوتا ہے۔ اُن دونوں کو نظم و نثر کے علاوہ صحافت سے بھی دلچسی تھی۔ اس طرح سے ریاست میں اردو کی ترویج و ترقی میں ان دونوں کا قابلِ قدر حصہّ ہے۔ ریاست جمّوں وکشمیر میں اُس عہد میں دیوان شیو ناتھ کول منتظرؔ اور پنڈت ٹھاکرپرساد وانچوؔ اچھے شاعر تھےؔ۔ پنڈت پرمانندکا صوفیانہ کلام ہندوستانی اورپنجابی کی مِلی جُلی زبان میں ملتا ہے۔ جِسے وہ’’ بھاکاــ‘‘ کہتے تھے۔ اس کے علاوہ بشمبر ناتھ کول عنادلؔ،پنڈت نرنجن ناتھ رینہؔ،اور پنڈت لچھمن نارایٔن بھانؔ کے ہاں بھی اردو میں ایشور بھگتی کی شاعری ملتی ہے۔

            آزادی سے قبِل جمّوں وکشمیر میں غیر مُسلم اردو شعراء کی ایک کثیر تعداد سامنے آچکی تھی۔ وہ برابر شعروشاعری میں مصروف تھے۔ اُس دؤر کے شعراء میں کشن لال حبیبؔ،کشن سمیلپوریؔ،منوہر لالؔ، اور دینا ناتھ مستؔوغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ ۱۹۴۷؁ء سے قبل جمّوں وکشمیرمیں اردو کی ترقی وترویج کا جایٔزہ لیتے وقت یہ معلوم ہوتا ھکہ یہاں کہی اہم ترین ادیبوں نے ناول ،افسانے،ڈرامے اور تحقیق و تنقید کے میداں میں بہت سے کارنامے سرانجام دیے۔ جمّوں وکشمیر میں اردو ناول نگاری کی شروعات بیسویں صدی کے آغازمیں سب سے پہلے پنڈت سالگرام سالکؔ کے ہاتھوں ہویٔ۔ اُنھوں نے داستان’’جگت روپ‘‘اور’’ تحفہ سالک‘‘ جیسی تصانیف کومنظرِعام پر لایا۔ اس کے علاوہ وشواناتھ،موہن لال،شمبھوناتھ وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ جن کے ناول ملک راج صراف کی ادارت میں جمّوں سے شایٔع ہونے والا ہفت روزہ ’’رنبیر ‘‘ میں قسط وار چھپتے رہے۔ اس زمانے میں نندلال در بے غرضؔنے ’’تازیانہ عبرت‘‘کے نام سے ناول لکھا۔ پریم ناتھ پردیسی نے بھی اسی زمانے میں ’’پوتی‘‘ کے نام سے ناول لکھا۔ جو زیورِ اشاعت سے محروم ہو کرتلف ہوگیا۔ راما نند ساگر نے بھی ناول نگاری میں اہم نام پیدا کیا۔

      جمّوں وکشمیر میں اگر ہم افسانہ نگاری کے حوالے سے بات کریں توسب سے پہلے پریم ناتھ پردیسیؔ اور اُن کے محاصر پریم ناتھ در ؔکا نام آتا ہے۔ اور ان کے بعد گنگا دھر دیہاتیؔ،راما نند ساگرؔ، موہن یاورؔ،پشکرناتھؔ،رام کمار ابرولؔ،وہد راہیؔ،اُمیش کول بھارتیؔ،ہردے کول بھارتیؔ،جگدیش بھارتیؔ، بنسی نردوش،ؔ مالک رام آنندؔ، یش سروجؔ ، مدن موہن شرماؔ، ہری کرشن کولؔ ، گھنشام سیٹھیؔ ،سومناتھ ڈوگرہ ؔ، راجیش گوہرؔ،کشوری منچندہؔ،وجے سوری ؔ ، او ۔ پی۔ شرماؔ، گیانچند شرما ؔ اور آنند لہرؔ وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔ جنھوں نے وقت اور حالات کے واقعات کو مدِ نظر رکھتے ہویٔے اردو  ناول اورآفسانے تخلیق کیے۔ اور اردو زبان و ادب کی ترویج وترقی میں اہم کارنامہ سر انجام دیا۔ جہاں تک یہاں پر اردو  ڈرامے کا تعلق ہے تو غیر مُسلم اُدبا میں سب سے پہلے دینا ناتھ واریکو شاہدؔ نے’’ رکمنی ہرن‘‘کے نام سے ڈرامہ تخلیق کیا۔ اور اسی دؤر میں جگدیش کنول نے بھی ڈرامے لکھے۔

          مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو زبان کو جب جمّوں وکشمیر کی سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تو شعروادب کے لیٔے فضا ہموار ہو گہی اوریہاں کے کہی غیر مُسلم اُدباوشعرا ء نے اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا وسیلہ اردو کو بنایا اور اردو زبان و ادب کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ علاوہ ازیں انھوں نے اپنے فن کی مدد سے عوام کے جذبات کی حقیقی ترجمانی بڑے پُر اثر انداز کے ساتھ کی اور اپنے فن پاروں کے ذریعے انسانی زندگی کے ہر ایک پہلو کو اُجاگر کیا۔ اور اردو زبان و ادب کے فروغ و ترقی کے لیے راہیں ہموار کر دیں ۔

 Dr. Sanjay Kumar S/o Sh.swami Raj

Asstt,Prof.Govt. PG Degree College Bhaderwah J&k

R/o vill.Jagota Teh. Bhella Dist.Doda J&K 182201

Phone: 9906307934

Email: apsanjay84@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on "جمّوں و کشمیر میں اردو زبان کے فروغ میں غیر مُسلم شعراء و اُدبا کا کردار۔"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
Suresh kumar
Guest

Bhut acha source hai jammu and kashmir k related 👍👍👍👍👍👍

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.