ایاز رسول نازکی :ایک منفرد آواز

ڈاکٹر طاہر محمود ڈار

لیکچرار گورنمنٹ ڈگری کالج بانڈی پورہ

جموں و کشمیر،سرینگر

7006776763

جموں و کشمیر میں بھی اردو زبان بالخصوص اردو شاعری کی ایک شاندار تاریخ ہے اور اس آسمان پر بہت چھوٹے بڑے روشن اورجھلملاتے ہوئے ستارے جلوہ گر ہوئے۔ جموں وکشمیر میں شعروشاعری کے آغاز سے موجود ہ دور تک بہت زمانی فاصلہ ہے۔ اس فاصلے میں شاعری نے کئی ادوار دیکھے اور ہر دور میں بلا مبالغہ سیکڑوں اہم اور غیر اہم شعرا نے اردو شاعری کی طرف توجہ مبذول کی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس گلستان ادب کے ہر پھول کی خوشبو جداگانہ اوررنگ مختلف ہے اور ہر عہد کے کچھ فن کا ر شاعری کے میدان میں اپنی طرز ادا اورطرز احساس کے اعتبار سے دوسرے لکھنے والوں کے مقابلے میں ممتاز نظرآتے ہیں ۔ ایاز رسول ان ہی بلند قامت اورنئی شاعری کی ایک معتبر آوازہے۔ ان کے لہجے کی تازگی اوراسلوب کی نادرہ کاری نے ان کی شاعری کو ایک منفرد مقام پر فائز کردیاہے۔ اگرچہ ایاز رسول نازکی سائنس کے طالب علم ہے لیکن ادب سے ان کا ذہنی اور قلبی لگاؤ ہے اور اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود گزشتہ چار دہائیوں سے علم و ادب کی آبیاری میں مصروف عمل ہے ۔ انھوں نے علم وادب سے جس طرح اپنا رشتہ استوار رکھا ہے، وہ تخلیق اور تخلیقی عمل سے ان کی محبت اور گہری و ابستگی کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ ادب سے ان کی کمٹ منٹ کو بھی عیاں کرتا ہے۔ ایاز رسول نازکی کو اردو،کشمیری اور انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے اور تینوں زبانوں میں انہوں نے اپنی تخلیقات سے اہل ادب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ’جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے ایاز رسول کے دو شعری مجموعہ ’خود رو‘‘ اور ’شام سے پہلے‘کے علاوہ ان کے نثری فن پارے ’مشت خاشا کے‘ ،’حاصل ضرب‘،’ورق ورق روشن‘،باقیات اسد‘ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔

ایاز نازکی کی شخصیت اورفن کی تعمیر میں ان کے خاندان کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایاز رسول کا تعلق اس خانوادے سے ہے جسے شعر وادب کا گھرانہ کہاجاتاہے۔ ان کے والد میر غلام رسول نازکی کا شمار کشمیر کے مقبول اورمشہور ومعروف شعرا میں ہوتاہے ۔ غلام رسول نازکی جموں وکشمیر میں اردو ادب کے بنیاد گزاروں میں ایک اہم نام ہے جو تقریباً چھ دہائیوں تک شعروادب کے میدان میں سرگرم عمل رہے ۔ والد صاحب کے علاوہ ان کے برادرِ اکبر فاروق نازکی موجودہ دور کے صف اول کے شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ اس شاعرانہ ماحول اوروالد کی سرپرستی کے سبب شعروادب سے ان کا تعلق فطری کہاجاسکتاہے ۔ ایاز رسول نے اپنے خاندان کی اس روایت کو نہ صر ف برقرار رکھا بلکہ لہجے کی شگفتگی اورلفظیات کے آہنگ سے اپنی الگ شناخت بنائی۔ کسی بھی شاعر کی شاعرانہ خصوصیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ خود شاعر کے اپنے اعترافات کو سب سے پہلے دیکھا جائے ایازرسو ل کے یہ اشعار اس سلسلے میں ہماری خاصی رہنمائی کرتے ہیں :

جو غزل بھی کہی کبھی ہم نے

دفتر واقعات ہے پیارے

شعر تو شش جہات ہے پیارے

اس میں کل کائنات ہے پیارے

شعر گوئی ایاز کی توبہ

اس میں کوئی ہنر نہیں دیکھا

شاعری ہم پہ چھوڑ دینی تھی

مرزا غالب سپہ گری کرتا

جانتے ہیں ہم کہ کہتے ہو بہت ہی کم ایازؔ

جو غزل تم نے کہی اس کی تعریفیں ہو ئیں

مندرجہ بالا اشعار میں ایاز رسول نے خودہی اپنی شعر وشاعری کے محاسن ومعائب سے متعلق اپنی رائے پیش کی ہے۔ دراصل ایاز رسول ایک خودآگاہ شاعر ہیں ۔ موصوف خود احتسابی کے قائل ہیں اس لیے اپنی شاعری کا جواز فراہم کرنے کی کوشش بھی کی ہے یہی خوداحتسابی ان کے شعری ارتقا کی ضامن ہے اورمیرے خیال میں یہی وہ خوبی ہے جو ان کے تخلیقی سفر سے آگاہ رکھتی ہے۔ خودآگاہ فن کار کے اندر قوت فیصلہ، ارادے کی پختگی اورمدافعت کی قوتیں بھی ہوتی ہیں اس لیے وہ کسی بھی تنقید وتوصیف سے بے نیاز ہوکر ہر لمحہ اپنی انفرادیت کی تعمیر وتشکیل میں مصروف رہتاہے ۔ ایاز رسول کی اپنی رائے کے بعد یہاں ایک اوربات کا تذکرہ بھی مناسب ہوگا کہ ان ناقدین ادب کی آرابھی پیش کی جائے جنھوں نے ایاز رسول کی شاعری کو زیر بحث لایا ہے ۔ اردو کے مشہور ومعروف نقاد وشاعر پروفیسر عتیق اللہ ایاز رسول کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں :

’’ایاز رسول نے بڑی قلندرانہ طبیعت پائی ہے۔ ان کی غزل کے یوں تو کئی Shadesہیں ۔ لیکن ان کی آپ بیتی کاشیڈبڑادلاویز ہے۔ غزل کا شاعر بالعموم روایت کا ماراہوتاہے۔ روایتی مضامین اور روایتی اسالیب اس کے ذہن پر آسیب کی مانند سوار رہتے ہیں ۔ ایاز رسول کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنی بات اپنی زبان میں اداکرسکیں ۔ اپنی بات سے مراد اپنے تجربے، وہ تجربے جن کا تعلق ان کی ذات سے ہیں ۔ اسی لیے بار بار ان کا بچپن ان کے لاشعور سے عود کرآتاہے۔ ‘‘۱؎

جاوید انور ایاز رسول کی شاعری اوران کے فکر وفن کا جائزہ پیش کرتے ہوئے ر قم طراز ہیں :

’’ایاز رسو ل نے اپنے اشعار میں حقیقت نگاری کے جن جن رویوں کو برتاہے۔ ان میں سماجی ، سیاسی اوراقتصادی بہت اہم ہیں ۔ اس کے لیے انھوں نے انسانی شعور ، عمل اور جذبے کے تمام مظاہر سے اپنی شاعری کے تعلق کو استوار کیاہے۔ انھوں نے اپنے اردگرد پھیلے انسانی وجود کی خواہشات اورمحسوسات کو شعری کلیت کے ساتھ فعال بنانے کی کوشش میں شخصیت کے تمام ابعاد پر نظر رکھی ہے۔ ان کی نظر میں ماضی، حال اورمستقبل کا انسان تاریخی حقائق، عہد حاضر اورمستقبل کے امکان کی صورت جلوہ گرر ہتاہے۔ ‘‘۲؎

جموں وکشمیر کے اہم شاعر اوربے لاگ محقق ونقاد ڈاکٹر فرید پربتی ایاز رسول کی شاعرانہ خصوصیات کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں :

’’ایاز رسول کی تخلیقی ذہانت ایک ساتھ کئی عناصر سے نمو پذیر ہوتی ہے۔ ایک طرف ان کے یہاں روایت کا اعلیٰ شعور اورفنی اکتساب دوسری طرف نئی حسّیت منفرد جمالیاتی ذوق اور عصری آگہی ان کے فکر وفن اوراظہار واسلوب کومستحکم بنیادیں فراہم کرتی ہوئی نظرآتی ہے ۔ روایت کا اعلیٰ شعور ان کے اظہار میں ایک نوع کا بانکپن پیداکردیتاہے۔ وہ خوبصورت بندش اورالفاظ کی صحیح نشست وبرخاست پر زور دینے کے باوجود نئی حسّیت اوراپنے زمانے کے آپسی قوتوں سے پورے طورسے باخبر ہیں ۔ جہاں وہ روایت کے دوررس اثرات سے اپنے دامن کو بچاکر گذرتے ہیں وہاں ان کے یہاں موجود بھر پور تخلیقیت ابھر کرسامنے آتی ہے۔ ‘‘۳؎

ناقدین کی مذکورہ بالاآرا اورایازرسول کے کلام کی روشنی میں ہمارے سامنے جو مجموعی صورت حال سامنے آتی ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے مقرر نظریوں ، خانوں ، فارمولوں اور نعروں سے اپنے دامن کو ہمیشہ محفوظ رکھا اورکسی وقتی یا ہنگامی مسلک یا نصب العین سے وابستگی کے لیے اپنے ذہن کو آمادہ نہیں کیا۔ وہ زندگی کی وحدت کواپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ دیکھنا، برتنااور سمجھنا جانتاہے۔ وہ نفی اور اثبات کا کوئی بنابنایاسانچہ اپنے پاس نہیں رکھتا۔ وہ نہ کسی چیز کو آنکھ بند کر کے رد کرنے کے حق میں ہے اور نہ آنکھ بند کر کے تائید میں بلکہ خود اپنے حواس ، اپنے تجربے اوراپنے ادراک سے زندگی کی ماہیت اور حقیقت کو دریافت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ وہ اپنے آپ کو صوفی، رند، انقلابی، رومانی، فطرت پرست، باغی، مصلح قوم، مجاہد، اشتراکی وغیرہ قسم کی صفات میں کسی صفت کواپنی کل شخصیت سمجھتے ہیں ۔ اور نہ ہی قنوطی، رجائی، نشاط پرست، الم پرست وغیرہ تصور رکھتے ہیں ۔ وہ محض انسان ہیں ایسا انسان جو متضاد عناصر سے مل کر بناہے اور متضاد کیفیتوں سے گذرنا اس کا مقدر ہے ۔ اسی کیفیت نے ان کی شاعری کو چند نئی جہتوں سے آشناکیاہے۔ وہ عصری آگہی سے گہری شناسائی کے ساتھ ہی اپنے عہد گذشتہ اورموجودہ تہذیبوں کے ٹکرائو کو بھی شدت سے محسوس کرتے ہیں اورحالات کی بے یقینی اورزندگی کے عدم تحفظ کے بارے میں یوں گویا ہوتے ہیں :

پہلے جیتے تھے نفرتوں کے بغیر

اب بھی جیتے ہیں چاہتوں کے بغیر

یہ امیر شہر کا دعویٰ ہے

منصفی ہے عدالتوں کے بغیر

روح مومن جسم کافر کیوں ایاز

یہ تو کہیے پارسا ہیں کیوں نہیں

گنے ہیں ہم نے ہر اک سمت میں ہزار درخت

کہیں ملا نہ ہمیں ایک سایہ دار درخت

ان اشعار میں دیکھیے کس سادگی اورلہجہ کی نرمی کے ساتھ ایاز رسول اقدارکی شکست وریخت کی داستان سناتے ہیں ۔ شاعر اقدار کی شکست وریخت سے پریشان ہیں لیکن مایوس نہیں ۔ وہ ایک مخصوص انسان کی طرح اس بدلتے ہوئے نظام کو دیکھ رہے ہیں جہاں انسان کا رشتہ انسان سے ٹوٹتاجارہاہے اور زمانے کی تیز رفتاری کو مڑکر دیکھنے کی فرصت نہیں ۔ اقدار کا ٹوٹنا اگر چہ ایک قدرتی عمل ہے کیوں کہ ہر لمحہ ہر ساعت احوالِ عالم دگر گوں ہوتارہتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ تغیر اس قدر تیز رفتاری سے ظہور پزیر ہوا کہ اپنی شناخت ہی کھوبیٹھے ہیں اوراس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے غیر ارادی طورپر ان بنیادوں کو ہی ہلادیا ہے جس پر ہمارامعاشرہ تعمیر ہوا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ہم ہی نہ رہے۔ ایاز رسول کے اندر کا شاعر اس اہم ترین مسئلے کے تئیں بے قرار ہے اور بیدار بھی۔ وہ ماضی سے آنکھیں بند کرنا نہیں چاہتے اورمستقبل سے گریز ممکن نہیں ۔ ان کے پورے شعری مجموعہ ’’شام سے پہلے‘‘ میں اس کشمکش کابڑا دلچسپ اظہار ہے۔

ایاز رسول کی شاعری کاایک اہم پہلو ظلم وستم کے خلاف ان کا احتجاجی رویہ ہے۔ ظلم دراصل ظالم کے خلاف مظلوم کی خاموشی سے پنپتا ہے اورپروان چڑھتاہے یعنی ظلم کے فروغ میں خود مظلوم کا بھی بڑا ہاتھ ہوتاہے جب تک مظلوم احتجاج اورمزاحمت کا رویہ نہیں اپناتا تو ظالم کا حوصلہ بلند ہوجاتاہے۔ ظلم وستم کو خاموشی سے سہہ لینا بھی ظلم کے ساتھ تعاون ہے۔ مصلحت پسندی اورخاموشی کی وجہ سے ظالم مزید طاقتور ہوجاتاہے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ آج کا زمانہ اور زمانے کے معاملات اتنے پیچیدہ ہوگئے ہیں کہ اب ظلم کو بہت آسانی کے ساتھ پہچاننا مشکل ہوگیاہے۔ بہت سے مظالم ایسے ہیں جو بظاہر مہربانی اورعنایت نظر آتے ہیں ۔ موجودہ دورمیں منافقت کا جو کاروبار ہے وہ بھی ظلم ہی کاایک حصہ ہے کیوں کہ عنایات واکرامات کے پس پردہ بھی ظلم کی کوئی نہ کوئی نوعیت پوشیدہ ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں کشمیر کی سیاسی صورتحال نے فرد کی ذاتی اور اجتماعی زندگی پر جس طرح کا جبر اور اور بے یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے ۔ وہ شخص جو بظاہر مخلص اورہمدرد نظرآتاہے وہ بھی دوست نما دشمن ثابت ہوسکتاہے۔ ایاز رسول کی شاعری میں آج کے اس پر آشوب دورمیں ظلم وستم اوراپنے دورکے دکھ درد اورکرب خصوصاً کشمیر اورکشمیری عوام کے انحطاط کی طرف واضح اشارے ملتے ہیں ، جنھیں انھوں نے کہیں سیدھے سادے الفاظ اورکہیں علامتوں میں پیش کیاہے:

قبیلے کے سارے جواں قید میں ہیں

میں ان کے عوض ان کا سردار مانگوں

اگر گونگی بستی ہے میرا مقدر

کوئی سلب کر لے یہ اظہار مانگوں

اس کا تابوت اٹھا پائے نہ بیٹا لیکن

باپ کے قرض کا بوجھ تو اٹھانا ہوگا

ان پہاڑوں میں کہیں جو کھو گئے

لوٹ کر آجائیں گھر ممکن نہیں

جس شہر کی سانسوں پہ بھی تعزیر لگی ہے

اس شہر کی خاطر وہ ہوا مانگ رہاہے

امن کا بادل ہے لیکن میرے کھیتوں پر ہی

دیکھنا تم ایک دن یہ جنگ لے کر آئے گا

محمد یوسف ٹینگ ایاز رسول کی شاعری میں کشمیری عوام کی مظلومیت ومعصومیت اوران کے آلام ومصائب میں صرف ایک شعر کا تجزیہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

’’ایاز رسول کے سلسلہ سخن میں صرف قدوگیسو کی پیمائش وآرائش نہیں ہے۔ اپنے حشر آسازمانے کی کسک اورخلش بھی موجود ہے ۔ اس مجموعے میں اس کے کتنے ہی نقوش ابھرتے ڈوبتے ہوئے نظر آئیں گے لیکن میں ایک شعر کو اس کے محبوب کشمیر کا بڑا دل گداز نوحہ سمجھتاہوں اوراس کے نقل کرنے کے بعد قیل وقال کرنے کو لاحاصل خیال کرتاہوں ۔ یہ خود آپ کے احساس میں تیز برچھی کی طرح اتر کر اپنی داد حاصل کرے گا۔

اب کہیں پر بھی نہیں ہوگا چنار

میں نے گملے میں ابھی بویا چنار

(محمد یوسف ٹینگ۔ مجموعہ شام سے پہلے از ایاز رسول ۔ ۲۰۰۸ ۔ ص ۱۰)

محمد یوسف ٹینگ کے اس قول سے شاید ہی کسی کو اعتراض ہو ۔ ایاز رسول نے اس شعرمیں چنار کو بطور علامت بہت ہی خوبصورتی سے پیش کیاہے۔ صرف ایک لفظ ’’چنار‘‘ سے کشمیر کے قومی تشخص کی یاد دہانی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ اس پر آشوب دور کے دردوکرب اورشکست وریخت کی آواز اورزخمی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ ایاز رسول کے اس نوعیت کے اشعار اپنے عہد کے سیاسی، معاشی اور اقتصادی جبر کو بے نقاب کرتے ہیں جو نہ صر پچھلی چند دہائیوں کی عکاسی کر تی ہیں بلکہ جب سے مظلومیت اورسفاکی ایک دوسرے کے مقابل آئے ہیں ۔ ان اشعار کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ایک خاص حلقے کی جانب سے نئے شاعروں پر بطورخاص یہ الزام عاید کیاجاتاہے کہ ان کی شاعر ی درو ں بینی کا شکار ہے اورا ن میں سماجی معنویت کی کمی ہے۔ ایاز رسول کا کلام ایسے اعتراضات کا منہ بولتا جواب ہے۔ ان کے اشعار میں اپنے دور کے مسائل اورموجودہ دور کی پیچیدگی کے واضح عکس مرتسم ہیں ۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں اہم مسائل پر ایسے دلچسپ پیرائے میں رائے زنی کرتے ہیں کہ شعریت بھی مجروح نہیں ہوتی اورسماجی معنویت کا رنگ بھی ابھرتاہے۔

ایاز رسول کی شاعری کاایک اورخاص وصف جو ان کو اپنے ہم عصر شعرا سے منفرد وممتاز بنا دیتاہے وہ ہے ان کی شاعری میں علامتوں کاانتخاب۔ اردو غزل قدیم ہو یا جدید،رمزیت، ایمائیت اور تہہ داری اس کی بنیادی خصوصیات رہی ہیں ۔ شعرا یہ تہہ داری پیدا کرنے کے لیے اشارے کنایے، استعارے اورعلامت جیسے شعری وسائل سے کام لیتے رہے ہیں ۔ ایاز رسول نے نئی لفظیات کے تجربے کر کے اپنی شاعری میں جس طرح سے معنوی جہتیں پیدا کی ہیں وہ ان کے ہم عصروں سے جداہیں ۔ انھوں نے روایت کی پاسداری کے ساتھ زبان کو نئے غزل کے مزاج کے مطابق استعمال کیا ہے۔ ترکیبیں اوراضافتیں خوبصورت اوردلکش انداز میں ان کی شاعری میں استعمال ہوئی ہیں جس سے معنی کے نئے نئے دریچے کھلتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مضمون کی مناسبت سے ان کے یہاں زبان کا فطری استعمال ہواہے جو عصر مفہوم اداکرنے میں زیادہ نیچرل معلوم ہوتی ہے۔ نئی غزل کے فطری تصورات کے مطابق انھوں نے نئے اورفصیح الفاظ سے اپنی شعری لفظیات کی حد بندی کی ہے۔ پرانی علامتوں کی تکرار اورگھسے پٹے تلازموں کے بجائے تازہ علامتیں اورالفاظ کے نئے نئے تلازمے استعمال کیے ۔ قفس وآشیانہ، گل وبلبل، صیاد وگل چیں ، دیر وکعبہ، مے خانہ وساقی، موسیٰ وطور، واعظ ومحبت اور اس طرخ کی قدیم علامتوں کو اپنی ذہنی کیفیات کے اظہار کے لیے ناکافی سمجھ کر خود اپنے ماحول اورقریبی زندگی سے علامتیں وضع کیں اوراس سلسلے میں خوداپنے حواس خمسہ کو اپنا راہ نمابنایا۔ اس عمل سے ان کی شاعری اپنی زمین سے بہت قریب آگئی ہے ۔ ان کی غزلوں میں چنار، برف، ڈل ، زعفران، جنگل ، کانگڑی،پھرن،گھر، شہر، دھوپ ، سورج، ہوا، ہرن، زیتون وغیرہ درجنوں دوسرے الفاظ اپنے تازہ علامتی رنگوں میں ابھرآئے ہیں ۔ ان الفاظ کی اہمیت اس بات میں مضمر ہے کہ یہ اپنے ماحول کی ترجمانی کرتے ہیں اور اپنی زمین کی خوشبو اوررنگ کو قاری تک پہنچاتے ہیں :

ڈل کے پانی میں عکس کس کا ہے

آئینے پر وہ آئینہ ہو گا

زعفران، ہی، گلاب بُم،

ان کے قدموں کی دھول ہوتے ہیں

سرماکی سرد تیز وتاریک رات خود

رہ رہ کے در پہ آکے پھرن مانگتی رہی

اگر مٹی میں خوشبو خون کی ہے

ہوائوں میں مہک زیتون کی ہے

برف گرنے کا منظر دیکھتا

ہر طرف ہے سنگ مرمر دیکھنا

چیل کوے اڑ رہے ہیں برف میں

آکے بیٹھے کچھ کبوتر دیکھنا

میرے آنگن آکے رویا رات بھر

پاس کی بستی کا وہ بوڑھا چنار

اس نگر کو بد دعا دے جائے گا

اس چوراہے پر کھڑا سوکھا چنار

یہ اور اس قبیل کے بہت سارے اشعارہمیں ایاز رسول کی شاعری میں جا بجا ملتے ہیں ۔ یہاں شاعر نے علامات کے استعمال میں خوب ہنر مندی دکھائی ہے۔ برف، ڈل، زعفران، زیتون، چنارجیسے الفاظ نہ صرف کشمیر کی سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اپنا ایک تاریخی پس منظر رکھتے ہیں ۔ باالفاظ دیگر ان علامتوں کا تعلق ہماری معاشرت اورتہذیب سے بھی ہے ۔ یہ الفاظ خارجی حقائق کے ساتھ ساتھ باطنی حقائق کا حوالہ بھی رکھتے ہیں جنھیں دیکھنا اور ان پر غوروفکر کرنا دراصل حیات وکائنات پر غور فکر کرنا ہے۔

بعض الفاظ شاعر کے یہاں بار بار آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ الفاظ شاعر کی شخصیت سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ یہ الفاظ اس کے موضوعات کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کو بھی نمودار کرتے ہیں ۔ ایاز رسول نے بھی اپنی شاعری میں کچھ مخصوص الفاظ کو باربار باندھا ہے جن میں سے ایک ’’گھر‘‘ ہے۔ گھر ایک مقدس جگہ کی علا مت ہے ۔ گھر تہذیب کا مرکز ، جائے پناہ اورحفاظت کے لیے مستعمل ہے۔ وسیع تر تناظر میں ’’گھر ‘‘ کی علامت کائنات کو ظاہر کرتی ہے۔ گھر دانش کا مخزن ، انسانی جسم اوروطن کو بھی ظاہر کرتاہے ۔ چنداشعار ملاحظہ فرمائیں :

آپ کے گھر سے لاش نکلی ہے

آپ کے یہاں کوئی ڈرا بھی نہیں

ڈیڑھ کمرے میں زندگی گزری

ایک مدت سے گھر نہیں دیکھا

تیرا آنا میرے گھر میں

خارج از ممکنات ہے پیارے

میرے گھر کا آنگن سکڑتا گیا ہے

جو بوتے رہیں ایسے اشجار مانگوں

مندرجہ بالا اشعار اس نطام قدر کی یاد دہانی کراتے ہیں جب سب ایک دوسرے کے قریب ہوتے تھے اورایک دوسرے کا احترام کرتے تھے ۔ اس نظام قدر نے سب کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا۔ شاعر کو شہر کی افرا تفری میں چھوٹی چھوٹی آبادیوں کی فطری اورپرخلوص زندگی کی یاد ستاتی ہیں ۔ اوروہ اسے ایک فردوس گم شدہ سے تعبیر کرتاہے۔ چنانچہ یہ یاد بس ایاز رسول کی غزل میں طرح طرح سے جلوہ گری کرتی ہیں ۔

ایاز رسول کی شاعری میں ’’جنگل‘‘ کی علامت بھی قابل توجہ ہے۔ گھر کی طرح جنگل کی علامت میں بھی ایاز رسول نے مختلف معنی پیدا کیے ہیں ۔ مثلاًیہ اشعار :

سارا جنگل جل گیا آخر

آگ نے تو شجر نہیں دیکھا

اس نے جنگل جلادیے لیکن

شاخ اک پیڑ کی ہری کرتا

ایک کائنات نہیں ملا ان کو

ہم تو جنگل نکال سکتے تھے

ایک جنگل آج بھی ہے میرے خوابوں میں کہیں

سایۂ آسیب ہے کیا چشم آہو دیکھنا

اس کے علاوہ درخت، صحرا، آئینہ کا ذکر باربار آتاہے۔ یہ الفاظ کبھی اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں تو کبھی علامت کی شکل میں :

ہم تو صحرا نہ تھے مگر پھر بھی

ریزہ ریزہ یوں ہی بکھر جائیں

نہتے صحرا میں پیڑ کی چھائوں

اک دعا میرے ساتھ ہے پیارے

خود کو ہر وقت دیکھتا ہوگا

ہاتھ میں اس کے آئینہ ہوگا

ڈل کے پانی میں عکس کس کا تھا

آئینے پر وہ آئینہ ہوگا

نئی غزل میں ایک اہم علامتی رجحان واقعہ کربلا اوراس کے تعلقات بطور علامت یا شعری استعارہ استعمال کرنے کا بھی ہے۔ اگر چہ واقعہ کربلا کو غزل میں علامتی انداز میں استعمال کرنے کا رجحان کافی قدیم ہے لیکن نئی غزل میں یہ رجحان باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کرگیاہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ’’واقعہ کر بلا بطور شعری استعارہ‘‘ میں بڑی تفصیل سے اس رجحان پر روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ کربلا کی بازیافت کا بنیادی سبب ہے کہ موجودہ عہد کے انسان میں بے حسی جڑ پکڑ تی جارہی ہے۔ اسے صرف اپنے اغراض سے مطلب ہے اوران اغراض کی راہ میں جو چیز مانع آتی ہے وہ اسے بڑی بے دردی سے پرے کر دیتاہے۔ سب سے بڑی غرض حصول دولت اورحصول طاقت ہے اور اس مقصد کے سامنے اس کے لیے ہر انسانی رشتہ بے معنی اوربے مصرف ہے۔ اسی بے حسی اوربے دردی نے ظلم وجور کی فضا کو تحریک دی ہے۔ اس طرح ان لوگوں کے لیے یہ دور بلائے جان اورایک زبردست آزمائش بن گیاہے جو حق پرست ، معصوم ، انسان دوست مخلص اور دردمند ہیں ۔ اس لحاظ سے سر زمین کربلا کا واقعہ جدید ادوار میں بھی اتنا ہی بامعنی ہے جتنا ماضی میں رہاہے۔ عہد حاضر میں اقتدار کے ظلم وستم یزید کے وقت کے کم نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایاز رسول نے کربلا کے تلازمے کو ایک مخصوص نفسیات اورمعنویت کے اظہار کے لیے علامتی سطح پر استعمال کیاہے۔ ایاز رسول نے اس واقعے سے متعلق لفظیات کو بڑی فن کاری اورچابک دستی کے ساتھ برتاہے:

کربلا میں ہی سفر ہوگا تمام

روک دینا اب سفر ممکن نہیں

قتل کرنا ہے تو دستور نبھانا ہوگا

سر میرا تجھے نیزے پہ اٹھانا ہوگا

مندرجہ بالا اشعار میں عہد حاضر کے سانحہ کو عہد حاضر کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موجودہ دردو الم کو کربلا کے مسافروں کے دکھ درد سے ہم آہنگ کرکے نئے نئے معنی کی تشکیل کی گئی ہے۔

                 ٭٭٭

حواشی

۱۔         عتیق اللہ ۔ ایازرسول کی زبانِ خاموش۔ شام سے پہلے۔ شعری مجموعہ ایاز رسول۔ ص۴۰

۲۔         جاوید انور۔ وادی کشمیر کے چند اہم شعرا۔ مہاویر پریس وارانسی۔ ۲۰۱۲۔ ص ۱۳۶

۳۔         ڈاکٹر فرید پربتی۔ تخلیقی رویوں کی تفہیم۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ، دہلی ۲۰۱۳ ، ص۔ ۲۶۸

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.