فیض احمد فیض: عصر جدید کا مقبول شاعر

ڈاکٹرتوصیف احمد بٹ

کاٹھ پورہ کولگام کشمیر

موبائل نمبر:9622774969

            دکن اردو ز بان و ادب کا گہوارہ رہا ہے جو نہ صرف اردو نثر کا ہی نہیں بلکہ اردو شاعری کا مرکز ہے جہاں پہ شاعری کے ابتدائی نمونے ملتے ہیں ۔ دکن میں کئی حکمران خود شاعر تھے جن کے بدولت وہاں اردو شاعر ی میں دھوم مچی۔ دکن سے باہر جب شاعر ی پہنچی تو اس کو ہر عمر کے لوگوں نے پسند کیا اور اس فن میں مہارت رکھنے والے طبع ارمائی کرنے لگے۔ چونکہ شاعری کرنا ہر ایک کے بس کے بات نہیں یہ الہامی ہوتی ہے جو بقول غالبؔ  ؎

آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں

غالب صریر خانہ نوائے سروش ہے

            اس لیے ہر ایک طبع آزمائی کرنے والا یا شعر کہنے والا چاہے اس کا موضوع رومانیت ہو یا انقلابی ، سیاسی ہو یا سماجی اس میں مہارت حاصل نہ کرسکا۔ اس میں بقول شبلیؔ تین خاص چیزیں سادگی، جوش اور اصلیت کا ہونا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ الفاظوں کا روافر ذخیرہ ہونا ضروری ہے اور ان الفاظوں کو برتنے کا ہنر ہونا چاہئے جو کبھی کبھار کسی شاعر کے کلام میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ آج تک جن اردو شاعروں کا کلام فن پر پوری طرح اترتا ہے ان میں نظیر اکبر آبادی ، الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد، ڈاکٹر اقبال کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض کا نام عزت سے لیا جاتا ہے۔

            فیض احمد خان نام اور فیض تخلص ۱۳ فروری ۱۹۱۱؁ء کو سیالکوٹ پاکستان میں پیداء ہوئے۔ اردو ادب میں وہ فیض احمد فیض کے نام سے مشہور ہیں ۔ فیض ہمارے عہد کے بہت بڑے شاعر ہیں ۔ وہ شروع سے ہی ذہین تھے۔ ان کے ذہانت کا پتہ اس وقت نکھر کر سامنے آیا جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے۔ اس دوران انھوں نے شعر گوئی کی طرف توجہ کی اور اپنی شروعاتی نظمیں کالج کے میگزین ’’راوی‘‘ میں شائع کی ۔ اس سلسلے میں سنبل نگار یوں رقمطراز ہیں :

’’فیض کی پرورش شعر و ادب کے ماحول میں ہوئی ۔ کالج کی تعلیم کے دوران شعر کہنے لگے۔ کالج میگزین’’راوی‘‘ میں کلام چھپا تو حوصلہ اور بلند ہوا۔ ‘‘(۱اردو شاعری کا تنقیدی مطالعہ،ص۔ ۹۵۔ مصنف: سنبل نگار)

            فیض نے کالج کی طالب علمی کے زمانے میں ہی شعر و شاعری شروع کی اور انھوں نے اس دوران جو شعر کہے وہ ملک کے مختلف رسالوں اور جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ انھوں نے غزل اور نظم دونوں کی طرف توجہ کی لیکن انھوں نے نظمیں زیادہ اور غزلیں کم کہیں ہیں ۔ نومبر ۱۹۲۸؁ء میں کالج کے زیر اہتمام کئے گئے مشاعروں میں ان کے غزل کا پہلا شعر        ؎

لب بند ہیں ساقی میری آنکھوں کو پلا دے

وہ جام جو منت کش صہبا نہیں ہوتا

            غزل کی شروعات کے بعد انھوں نے نظم کی طرف توجہ کی اور اپنی پہلی نظم’’ میرے معصوم قاتل ‘‘ لکھ کر نظم نگاری کے میدان میں قدم رکھا ۔ اصل میں فیض اپنے پہلے عشق میں ناکام ہوکر بہت دل برداشتہ تھے۔ اور اس دل برداشتہ کی وجہ سے انھوں نے کئی رومانی نظمیں لکھی ہیں اور ان کی بیشتر رومانی نظمیں ان کے پہلے مجموعہ کلامــ’’ نقش فریادی‘‘ میں شامل ہیں جو ۱۹۴۱؁ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ کا دیباچہ ن۔ م۔ راشد نء لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :

’’فیض کسی مرکزی نظریے کا شاعر نہیں بلکہ احساسات کا شاعر ہے۔ ‘‘(نقش فریادی۔ دیباچہ۔ فیض احمد فیض)

            شروع شروع فیض رومانیت کی طرف آگئے جس کی خاص وجہ ایک طرف ان کی ناکام عشق و محبت اور دوسرا ان کے ماحول کااثر ۔ فیض نے جس زمانے میں شاعری شروع کی اس وقت چاروں طرف رومانی شاعر نظر آتے تھے ۔ فیض نے ان شاعروں کا اثر ضرور قبول کیا تو دوسری طرف رومانی شاعری کو اہمیت دی جاتی تھی۔ فیض نے خوب رومانی شاعری کی اور ان کی رومانی شاعری میں جدائی کی خاموش تڑپ ہے۔ رومانیت کے حوالے سے ان کی نظمیں سرود شبانہ، تہ نجوم، یاس اور ایک منظر فیض کے مصوری کا اعلی نمونہ ہے۔ فیض کی ابتدائی نظمیں رومانیت کے ساتھ ساتھ جذبہ وعشق سے پُر ہیں ۔ اگرچہ انھوں نے روایتی موضوعات کو اپنا یا لیکن ان کا یہ جذبہ وعشق کسی خیالی یا تصوراتی محبوب کیلئے نہیں بلکہ ان کی زندگی میں ایک جیتا جاگتا محبوب تھا جن سے وہ عشق میں ناکام ہوئے اور فیض نے مختلف نظموں کو ترتیب دے کر اپنے محبوب سے کبھی جدائی تو کبھی انتظار کی شکل میں نظمیں لکھی ہیں اور ان نظموں میں انھوں نے گہرائی کے ساتھ اپنے جذبات کو اس طرح قلم بند کیا جیسے قارئین کو وہ اپنے حالات معلوم ہوتے ہیں ۔ وزیر آغا اپنی ایک کتاب ’’ نظم جدید کی کروٹیں ‘‘ میں یوں لکھتے ہیں :

’’اردو نظم کے کسی شاعر نے محبت کے جذبے کو اتنی شدت اور خلوص کے ساتھ پیش نہیں کیا جتنی شدت اور خلوص کے ساتھ فیض نے پیش کیا ہے۔ اس کی محبت محض روایتی عشق کی داستان نہیں بلکہ اس میں جسمانی قرب کے نتیجے میں جذباتی طوفان کے شواہد بھی ملتے ہیں ۔ ‘‘ (’’نظم جدید کی کروٹیں ‘‘۔ ص۔ ۷۰۔ مصنف: وزیر آغا)

            شروع شروع میں رومانی شاعروں اختر شیرانی ،جوش ملیح آبادی اور دیگر شاعروں نے اپنے گہرے اثرات چھوڑے تھے اور ان سے فیض بھی بہت متاثر نظر آتے تھے لیکن ۱۹۳۲؁ء میں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو شاعری رومانیت سے حقیقت کی طرف آنے لگی تو فیض بھی اسی تحریک کے ایک کارکن تھے اور انھوں نے بھی اپنی شاعری کو حقیقت کا جامہ پہنایا جس کی بہترین مثال ’’ مجھ سے پہلی سے محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ ہے۔ اس نظم پرتبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مسعود حسین لکھتے یوں لکھتے ہیں :

’’ مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ ما نگ ‘‘ سے فیض کے یہاں دو قسم کی تبدیلیاں ہوتی ہیں پہلی یہ کہ رومان اور خالص جمالیاتی اقدار کے علاوہ زندگی کی دوسری قدریں بھی ان کے یہاں ابھرنے لگتی ہیں ۔ دوسری یہ کہ حقیقت پسندی کے نقطہ نظر کی وجہ سے رخِ محبوب کے سیال تصور کی مثالیت ختم ہونے لگتی ہے۔ ‘‘ (’’نظام فاصلاتی تعلیم‘‘ص۔ ۴۴۹۔ مولاناآزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد) دوسرا پرچہ ( مثنوی ،مرثیہ اور نظم)

            فیض احمد فیض ایک ایسے شاعر تھے جو وقت کے مزاج کے مطابق شاعری کرتے تھے۔ شروع شروع میں انھوں نے صرف رومانیت کی طرف دھیان دیا لیکن ترقی پسند تحریک کی اثر سے انھوں نے حقیقت پر زور دیا اس وجہ سے ان کے پہلے دو مجموعوں ’’ نقش فریادی ‘‘ اور ’’ دست صبا‘‘ میں دونوں اقسام کی شاعری ملتی ہے۔ نقش فریادی کے دیباچے میں ن۔ م۔ راشد لکھتے ہیں :

’’ نقش فریادی ایک ایسے شاعرکی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے جو رومان اور حقیقت کے سنگم پر کھڑا ہے۔ ‘‘ (نقش فریادی۔ دیباچہ۔ فیض احمد فیض)

            ۱۹۳۵؁ء میں جب فیض کا تقرر امرتسر کے ایم۔ اے ۔ اُو کالج میں بحیثیت لیکچرر ہوا تو وہاں انھیں پطرس بخاری ، رشید جہاں ،ہاجرہ بیگم اور ڈاکٹر محمود ظفر جیسے ترقی پسند تحریک کے ادباء و شعراء سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا جنہوں نے فیض کے ناکام عشق کی داستان سن کر انھیں اپنی تحریک کی طرف مائل کردیا اور جلد ہی فیض اپنے عشق کاغم بھول گئے اور پوری دنیا کے غم کو گلے لگایا اور یہ شعر کہنے پر مجبور ہوگئے ؎

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

            ترقی پسند تحریک کا مقصد پریم چند نے اپنے پہلے صدارتی خطبے میں پیش کیا ہے۔ اس تحریک سے وابستہ جو بھی تخلیق کار تھے انھوں نے مقصدی ادب کی تخلیق کی اور واضح انداز میں کہا کہ وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے قائل ہیں ۔ اس تحریک سے وابستہ کارکنان کے سیکھنے کا مقصد بھی الگ الگ تھا اور فیض جیسے سرگرم عمل کارکن کے بارے میں ڈاکٹر نصرت چودھری لکھتے ہیں :

’’فیض احمد فیض ترقی پسند وں کے صف اول میں شامل ہیں ۔ ترقی پسند تحریک سے ان کی نظریاتی ہم آہنگی بینادی طور پر سیاسی مصلحتوں کے تاج نہیں تھی بلکہ وہ ایک اندورنی جوش اور خلوص کی بناء پر اس سے وابستہ ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تخلیقات میں نظر یاتی کٹر پن نہیں ملتا جیسا کہ دیگر ترقی پسندوں کے یہاں ملتا ہے۔ ‘‘ (فیض احمد فیض ( روایت اورانفرایت)ص۔ ۲۰۷۔ مصنف: ڈاکٹر نصرت چودھری)

            فیض احمد فیض کی اس تحریک سے وابستگی خالص انھیں الجھن میں دالتی ہے۔ وہ انسان کی اجتماعی جدوجہد میں شرکت کوفن کا تقاضا قرار دیتے ہیں ۔ فیض احمد فیض کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نصرت چودھری یوں رقمطراز ہیں :

’’ فیض ترقی پسندی کے تحت اپنے گردوپیش کی زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کا ادراک کرتے ہیں ۔ مگر محبوب کے کھلتے ہوئے ہونٹ اور جسم کے دل آویز خطوط کو نظر انداز نہیں کرتے۔ دراصل ان کا مزاج ابتداء ہی سے رومانی ہے اور اس کے اثرات ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے کے باوجود کم نہیں ہوئے۔ ‘‘ (فیض احمد فیض ( روایت اور انفرایت) ص۔ ۲۰۷۔ مصنف: ڈاکٹر نصرت چودھری)

            فیض نے سیاسی موضوعات پر بھی کئی نظمیں لکھی ہیں اور اس کی شروعات انھوں نے ’’چند روز اور میری جان ‘‘ نظم لکھ کر کی۔ اے دل بے تاب ٹھہر ، سوچ ،کتے، صبح آزادی، ترانہ وغیرہ ان کی دیگر سیاسی نظمیں ہیں ۔ فیض کی زندگی میں اس وقت اثر انداز تبدیلی آگئی جب ۹ مارچ ۱۹۵۱؁ء میں لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی سازش میں فیض کو گرفتار کیا گیا ۔ اگر چہ فیض کو جلد ہی یعنی ۱۹۵۵؁ء میں انھیں رِہا کیا گیا۔ ۱۹۵۸؁ء میں انھیں پھر سے سیفتی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا ۔ قید خانے میں رہنے سے فیض کی ادبی زندگی دبنے کے بجائے اور ابھر کر سامنے آئی۔ اور اس دوران بھی انھوں نے بہترین شاعری کی ۔ نثار میں تیری گلیوں پہ ، یاد، اے روشنیوں کے شہر ، دریچہ ، درد آئے گا دبے پائوں ، وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ان کی کئی یادگار نظمیں ہیں ۔ اسی زمانے میں ایشاء اور افریقہ کے ادیبوں کی پہلی کانفرنس تاشقند میں ہوئی جس میں فیض نے ترقی پسند تحریک کے لیڈر کی حیثیت سے شرکت کرلی۔

            ترقی پسند تحریک کے علاوہ فیض نے حب الوطنی اور حصول آزادی کے پُر آشوب اور انقلابی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصّہ بنالیا ۔ انھیں وطن سے اور وطن کے لوگوں سے ہمدردی تھی اور وہ کبھی اپنے وطن کے لوگوں کو مایوس یا غمزدہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے دل میں وطن ِعزیز کے لوگوں کیلئے تڑپ کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اوروہ اپنے ہم وطنوں کو حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں :

’’فیض حب الوطنی کے دھمکتے ہوئے جذبے کے تحت گردش لیل ونہار کا علاج آرزو اور امید کی شمع جلا کر کر لیتے ہیں ۔ وہ ہمت نہیں ہارتے۔ ان کے دل میں امید کے چراغ روشن رہتے ہیں اور وہ رات بھر کی جدائی سے خائف نہیں ہوئے۔

گر آج تو جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

(فیض احمد فیض ( روایت اور انفرایت) ص۔ ۱۵۷۔ مصنف: ڈاکٹر نصرت چودھری)

            فیض احمد فیض کی شاعرانہ زندگی پر اگر بھر پور نظر ڈالی جائے تو انھوں نے کم و بیش ہر موضوع پر قلم اٹھایا ۔ اور ان موضوعات پر بے شمار نظمیں اور غزلیں قلم بند کی ہیں ۔ ان کی دیگر نظموں میں رقیب سے، ایرانی طلباء کے نام ، سر مقتل وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ فیض نے ان نظموں اور غزلوں کو سمیٹ کر سات مجموعوں میں وقتاً فوقتاً شائع کیا جو بالترتیب ان طرح ہیں : نقش فریادی(۱۹۴۱؁ء )، دست صباء (۱۹۵۲؁ء)، زنداں نامہ(۱۹۵۶؁ء)، دست تہہ سنگ(۱۹۶۵؁ء)، سروادی سینا(۱۹۷۱؁ء)، شام شہر یاراں (۱۹۷۸؁ء)، میرے دل میرے مسافر(۱۹۸۱؁ء) قابل ذکر ہیں ۔ ان مجموعوں کر یکجا کرکے فیض کی کلیات ــ ’’ نسخہ ہائے وفا‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔

            فیض احمد فیض اپنی شعری خدمات کے سبب عصر جدید کے سب سے زیادہ مقبول اور منفرد شاعر ہیں جو بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے ہیں ۔ فیض احمد فیض نے جس دور میں شاعری شروع کی اس وقت عام طور پر روایتی طرز کی شاعری کی جاتی تھی فیض نے بھی اگرچہ شروع شروع میں روایتی طر ز تحریر اپنایا مگر جلد ہی انھوں نے اس شاعری کو خیر باد کہہ کر حقیقت کی طرف آگئے اس طرح فیض اس زمانے میں ایک پُل بن کر سامنے آگئے جو روایت کی سنگلاخ چٹانوں کو تجربوں کی خاروادی سے ملاتا ہے۔ فیض کی شاعری کے اثرات دور جدید کے شاعروں پر حاوی نظر آتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ جدید تقاضوں اور عصری موضوعات کو فن کارانہ چابکدستی سے موضوع شعر بناتے رہے اور ساتھ ہی اپنی روایت سے بھی انھوں نے رشتہ قائم رکھا اور فیض نے جو اسلوب اپنایا اس کا اثر بھی نئے شاعروں پر خاصا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے استعارے اور تراکیب ، علامت نگاری اور پیکر تراشی کے نمونے بھی نئے شاعروں میں کثرت سے دیکھنے کو ملتے ہیں ان کے اثر کا خاص سبب یہی رہا کہ انھوں نے روایت کی روشنی میں مشاہدے اور تجربے کی تازگی اور پختگی سے اپنی شاعری کو منور کیا۔

            مجموعی طور پر فیض احمد فیض اپنی شعری خدمات کی وجہ سے اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے دور کے مختلف موضوعات اور واقعات کو تخیلی سطح پر محسوس کرکے انھیں نزاکتوں اور لطافتوں سے پیش کیا ہے۔ وہ اپنے عہد کے ایک ایسے نمائندہ شاعر ہیں ۔ جنہوں نے موضوع اور فن کے خوبصورت امتزاج سے کام لیا اور اس لحاظ سے انھیں اردو شاعری کی تاریح میں کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔

٭٭٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.