گربچن سنگھ کی افسانہ نگاری اور اختر آزاد
ڈاکٹر عمران عراقی
گیسٹ فیکلٹی، شعبہ اردو، ویمنس کالج
چائباسا، جھارکھنڈ
فون: 9540243689
ان غیر معروف کہانی کاروں کو پڑھتے ہوئے ذہن میں اکثر یہ سوال آیا ہے کہ آخر کیا وجہ رہی کہ بعض بہت اچھا لکھنے کے باوجود ان کہانی کاروں نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرانے میں کامیابی حاصل نہ کی؟ اس کی بنیادی وجہ کیا ہمارے مطالعے کی حدبندیاں ہیں ؟ یا یہ کہ ہم نے اچھے لکھنے والوں کا اعتراف کرنے میں فراخ دلی سے کام نہیں لیا؟ یا کہیں یہ تو نہیں کہ لسانی شعبدہ بازی کو ہم نے کہانی پن پر ترجیح دی؟ کیونکہ اگر ایسا ہے تو یقینا ہم نے کچھ بہت اچھی کہانیاں لکھنے والوں سے خود کو محروم کر دیا ہے۔ ظاہر ہے مذکورہ سوالات کے ضمن میں مباحث کی اپنی سی گنجائش ہے کہ کہانی کے لیے اچھی زبان کا ہونا بنیادی شرط ہے یا محض ایک ذریعہ اور بیان کا دلچسپ ہونا اولیت رکھتا ہے یا ثانویت؟ لیکن اتنا تو طے ہے کہ اگر ہم اپنی حدبندیوں سے باہر نکل جائیں تو کچھ بہت اچھے کہانی کار ضرور دریافت کر لیں گے کہ ناقدین کی رائے سے پرے اچھی کہانیوں سے اردو کا دامن خالی نہیں ۔ مذکورہ سوالات تب مزید اہم ہو جاتے ہیں جب اس کا محور تقریباً 40/50 سال قبل کے کہانی کار ہوں ۔ جب نہ تو آج کی طرح کم فرصتی کا معاملہ تھا اورنہ ہی کتابوں کی طرف بے رغبتی کا چلن۔ اس کے باوجود جب اچھے افسانہ نگاوں کے نام گنوائے جائیں تو ایک ہاتھ کی انگلیوں کے تعداد بھی پوری نہیں ہوتی اور ناموں کے لیے ذہن پر مزید زور دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ بہر حال معاملہ چاہے جو بھی ہو کم از کم دوسری صورت کے امکان کا نہ ہونا مناسب ترین رویہ ہوگا کہ اس کے ہونے سے تخلیق کاروں کے درمیان عدم تحفظات کے بیج پنپنے کا خدشہ ظاہر ہوتا ہے۔
حالانکہ بعض تخلیق کاروں کے ساتھ معاملہ یہ بھی رہا ہے کہ وہ ادبی محفلوں سے دور رہے، جس کی وجہ سے ان کی تخلیقات نہ تو کبھی بحث کا مرکز بنی اور نہ ہی انہوں نے اپنے فن پارے کو قارئین تک پہنچانے کے مختلف طریقے اپنائے۔ گربچن سنگھ کا شمار انہیں تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے خاموشی سے اپنا کام کیا تاہم خواہشاتِ نمود دل کے کسی کونے میں ضرور رہی۔ یہ خواہش اتنی بری بھی نہیں جیسا کہ بعض فن کار ظاہر کرتے ہیں ۔ ایک تخلیق کار کو جتنی خوشی اپنے تخلیقی فن پاروں کو پڑھے جانے سے ہوتی ہے اتنی ہی خوشی یا اس سے زیادہ اس کا اعتراف کیے جانے پر ہوتی ہیں ۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن ’’کئی بہترین اور یادگار افسانے دینے کے باوجود انہیں عمر کے آخری لمحے میں اس بات کا احساس تھا کہ ادب کے لیے پوری زندگی وقف کرنے کے بعد بھی انہیں وہ سب کچھ نہیں ملا جو دوسروں کو ملا‘‘ (گربچن سنگھ کی افسانہ نگاری از ڈاکٹر اختر آزاد،ص۔ ۲۳) البتہ عموماً جیسا کہ ہوتا آیا ہے ان کی تخلیقات بھی بعض کالجیز اور یونیورسٹیز میں ہونے والی ریسرچ کا موضوع بنیں اور اسکالرز کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔ لیکن گربچن سنگھ کی خاص طور پر افسانوی کائنات کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں ۔ جناب ڈاکٹر اختر آزاد نے اسی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے گربچن سنگھ کے حوالے سے ایک اہم علمی کارنامہ انجام دیا جو 2019 میں ’’گربچن سنگھ کی افسانہ نگاری‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں اختر آزاد نے گربچن سنگھ کی حالات زندگی کے علاوہ ان کے افسانوں کے حوالے سے کافی تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کے متعدد افسانوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔
اس جائزے کو مزید آگے بڑھایا جائے تو گربچن سنگھ کی کہانیوں میں موجود ان بنیادی پہلوؤں پر بات کی جانی چاہئے جو اپنے قارئین کو حیران کرنے کے ساتھ بعض دفعہ پریشان بھی کرتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ ہے یہی ہے کہ ان کی کہانیاں ختم ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتیں ۔ کچھ ان کہے سوالات چھوڑ جاتی ہیں ۔ ’’ببلو کے پاپا‘‘ کا آپ مطالعہ کریں یا ’’بھوکا سورج‘‘ نامعلوم آوازوں کا درد، بادام کا پیڑ، انگلیوں پر ٹکا ہواآدمی‘‘ یا بعض دیگر کہانیوں کا مطالعہ کریں ۔ ان کہانیوں میں کچھ ان کہے سوالات ملیں گے جو آپ کو بے چین کرتے ہیں ۔ کیوں اور کیسے کی کشمکش میں ان کہانیوں کو مختلف زاویے سے پڑھنے کو مجبور ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اختر آزاد نے اس کتاب میں گربچن سنگھ کی نمائندہ کہانیوں کا انتخاب بھی شامل کیا ہے۔ ان میں شامل زیادہ تر کہانیاں کچھ علامتی سی ہیں لیکن ان علامتوں میں ایسا گنجلک پن نہیں جو قاری کو دماغی کسرت پر آمادہ کرے بلکہ یہ علامتیں انسانی نفسیات کی ان پیچیدگیوں سے تشکیل پاتی ہیں جو زندگی کو دیکھنے اور اسے سمجھنے کا ایک نیا زاویہ عطا کرتا ہے۔ ان کہانیوں کا پراسرار بیانیہ اور ان کہے سوالات، قاری کو حیران کرتے ہیں ۔ ٹھہر کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ میرے لیے یہ اہم ہے کہ ادب صرف لطف اندوز ہونے کا ذریعہ نہ ہو بلکہ اس کے مطالعے سے سوچنے اور سمجھنے کا ایک مختلف زاویہ بھی ہاتھ آئے۔ گربچن سنگھ کی کہانیوں کا یہ خصوصی پہلو ہے ان کے مطالعے سے قاری ششدر رہ جاتا ہے۔ ان کی نمائندہ کہانیوں کی گر فہرست تیار کی جائے تو ان میں ’’بھوکا سورج‘‘ سرفہرست ہوگی۔ گرچہ اختر آزاد نے اپنی ترجیحات کی بنا پر ’’ببلو کے پاپا‘‘ (جو ان کے دوسرے انسانوی مجموعے کی کہانی ہے، جو 1986 میں شائع ہوئی تھی) کو فوقیت دی ہے اور اس کتاب میں کل دس افسانوں کو شامل کیا ہے۔ یہ تمام افسانے گربچن سنگھ کے افسانوی کائنات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ ’’ببلو کے پاپا‘‘ ایک بچے کی نفسیاتی الجھنوں کو پیش کرتا ہوا، بہت ہی مختلف افسانہ ہے۔ ایک بچے کی اس عام سی سائکی کو افسانے کے بیانیہ میں اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ یہ کہانی اس بچے کے وجود کو ہی مشکوک ٹھہراتا ہے۔ مزید یہ کہ افسانے کا یہ آخری جملہ ’’ببلو کا جی چاہتا ہے کہ وہ پکار کر کہے، ’’نانی ماں میں یہاں ہوں ۔ ‘‘ لیکن اس کے منھ سے کوئی آواز نہیں نکلتی اور پھر قمیض کی آستین سے اپنی آنکھوں کے آنسو پونچھنے لگتا ہے۔ ‘‘ دراصل یہ اس بچے کا اپنے تئیں اس ادراک کو ظاہر کرتا ہے کہ اس وجود کس کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ اب جبکہ اس ماں اس گھر کو چھوڑ کر جا رہی ہے اور پاپا پہلے ہی جا چکے ہیں ، اس کے بعد نہ وہ کسی کو دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا اس گھر میں ہونا دیگر افراد کے کوئی معنی رکھتا ہے۔ دراصل یہ کہانی ایک بچے کی نفسیاتی کیفیت کو ردوقبول کی شکل میں پیش کرتا ہے۔
حکایت پر مبنی راجند سنگھ بیدی کا ایک اہم افسانہ ’’بھولا‘‘ جو اپنے سادہ بیانیے اور اساطیری تحیر کے سبب کافی مقبول ہوا تھا۔ وارث علوی نے اس افسانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے خوب لکھا ہے کہ ’’اساطیر کی بڑی علامتوں اور کرداروں کو اس چھوٹی سی سیدھی سادی کہانی میں بیدی نے اس طرح بند کیا ہے گویا سمندر کو کوزے میں ۔ ‘‘ حقیقتاً جائزہ لیا جائے تو بیدی کے اس افسانے کا بیانیہ اس قدر معصومانہ انداز میں تشکیل پاتا ہے کہ اس افسانے کے بطن میں اساطیر کی علامتیں کس طرح آپس میں مدغم ہو جاتی ہیں ، قاری کو خبر ہی نہیں ہوتی۔ اس کی بنیادی وجہ افسانے کی جزیات نگاری ہے، جس پر قاری کی سب سے زیادہ توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ گویا یہ افسانہ اپنی تھیم اور ٹریٹمنٹ کے لحاظ سے بے حد کامیاب تجربہ بن جاتا ہے۔ یہ افسانہ غالباً 1939-43 کے آس پاس لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد طویل عرصے تک شائد کوئی دوسرا افسانہ اس تھیم اور ٹریٹمنٹ کے ساتھ نہیں ملتا۔ 1970-80 کی دہائی کے آس پاس (افسانہ کی اشاعت کا صحیح سنہ موجود نہیں البتہ اسی عنوان سے ان کا پہلا افسانوی مجموعہ 1982میں شائع ہوا تھا) گربچن سنگھ نے ایک افسانہ بھوکا سورج‘‘ کے عنوان سے لکھا، جو اپنے ٹریٹمنٹ کے لحاظ سے بیدی کا افسانہ ’’بھولا‘‘ سے کچھ حد تک مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم گربچن سنگھ نے اس افسانے کی تھیم اور بیانیہ بالکل مختلف طرح سے پیش کیا ہے۔ چونکہ بیدی کے افسانے کی تھیم ناصحانہ تھی اس لیے افسانے کا بیانیہ بھی شفاف اور ایک قسم کا معصومانہ انداز سے تشکیل پاتا ہے جبکہ گربچن سنگھ کے افسانے کی تھیم ایک ایسی حکایت پر مبنی ہے جو بذاد خود ایک دردناک کہانی ہے۔ لیکن اس دردناک کہانی میں کیوں اور کیسے کا اسرار پنہاں ہیں جس کا جواز نہ تو حکایت میں ظاہر ہوتا ہے اور نہ ہی افسانے میں ۔ اس لیے گربچن سنگھ نے اس تھیم کے پیش نظر کردار بھی ایسے وضع کیے ہیں ، جن میں لطیف جذبے کا اسرار بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تمام کردار، سوائے ’’دیال‘‘ کے، سبھی اپنے Moral Values کو نبھانے میں ، افسانے کو تحیر آمیز بناتے ہیں ۔
گربچن سنگھ کے اس افسانے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی بنیاد میں حکایت کی شمولیت اور ماحول کی عکاسی میں بیانیہ کا تحیر، دونوں کے اشتراک نے گھٹا گھٹا سا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ جو قاری کو داسان کا مزہ بھی دیتا ہے اور حکایت کے ان سلجھے سوالات سے دوچار بھی کراتا ہے۔ ظاہر ہے گربچن سنگھ کا یہ تخلیقی اختصاص ہے جو کسی حکایت کو اس ٹریٹمنٹ اور ماحولیاتی بیانیہ کے ساتھ مزید تحیر کا رنگ عطا کرتا ہے۔ دیکھا جائے تو بیدی اور گربچن سنگھ کے افسانوں میں زمانی فاصلے کی مدت کچھ طویل ہے۔ اس فاصلے نے گربچن سنگھ کو جہاں سوچنے کا نیا زاویہ دیا وہیں علاقائی سطح پر لسانی روایت کو سمجھنے کی مہلت بھی فراہم کی۔ لسانی روایت اور علاقائی شناخت گربچن سنگھ کے اس افسانے کی خاص پہچان ہے۔ یوں بھی ہمارے یہاں لسانی روایت کو قصے کے قالب میں ڈھالنے کا کام تھوڑا کم ہی کیا گیا۔
یوں تو ڈاکٹر اختر آزاد نے اپنی کتاب ’’گربچن سنگھ کی افسانہ نگاری‘‘ میں گربچن سنگھ کے احوال و کوائف کے ساتھ ان کے افسانوں پر بھی گفتگو کی ہے۔ اور ان کے دس نمائندہ افسانوں کو کتاب میں شامل بھی کیا ہے تاکہ قارئین نہ صرف گربچن سنگھ اور ان کے افسانوں کے حوالے سے اختر آزاد کی رائے کو قبول کرے بلکہ خود ان افسانوں کے مطالعے کے بعد اردو افسانہ نگاری کی دنیا میں گربچن سنگھ کے مقام کا تعین کر سکیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ گربچن سنگھ کے افسانے کو سمجھنے کے لیے دو سطح کا تعین کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی افسانوی کائنات کا صحیح خاکہ سامنے آ سکے۔ پہلی یہ کہ انہیں ان کے عصری منظرنامہ میں پرکھا جائے اور دیکھا جائے کہ ان کے یہاں ہم عصروں سے کس قدر مختلف نوعیت کے افسانے موجود ہیں اور دوسری سطح یہ کہ ان کے افسانوں میں تشکیل پانے والا ان کا منفرد اسلوب کیا معنویت رکھتا ہے۔ ان دو سطحوں پر گربچن سنگھ کے افسانوں کے جائزے سے، ان کی اصل شناخت قائم ہوگی۔ جو یقینا انہیں ایک مختلف مقام پر کھڑا کرتا ہے۔ گربچن سنگھ کے حوالے سے اختر آزاد نے بڑے معقول اور معتدل انداز میں یہ اچھی بات کہی کہ ’’میرا یہ قطعی دعویٰ نہیں کہ گربچن سنگھ، منٹو، بیدی، کرشن اور عصمت جیسے بڑے افسانہ نگار ہیں ‘‘ ۔ یہ بالکل مناسب بات ہے کہ کسی افسانہ نگار کو بڑا بننے کے لیے کسی افسانہ نگار کے جیسا کیوں ہونا ہوگا؟ ہر افسانہ نگار کا اپنا جدا انداز اور موضوعا کے انتخاب میں اپنی سی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ بلکہ موضوعات کو برتنے کا بھی انداز دیگر افسانہ نگاروں سے مختلف ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے۔ اس لیے منٹو، بیدی یا کرشن اور عصمت جیسا لکھنا ہی بڑے افسانہ نگار ہونے کی دلیل نہیں بلکہ کہانی کو اپنے مخصوص اسلوب اور تکنیک کے ساتھ اس طرح برتنا کہ قاری لطف اندوز بھی ہو اور متحیر بھی کہ آیا یہ فسانہ ہے یا حقیقت؟
منٹو کے ذکر کے ساتھ گربچن سنگھ کے ایک اور افسانے ’’انگلیوں پر ٹکا ہوا آدمی‘‘ کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ اس افسانے کی مشابہت منٹو کے افسانے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ سے تھیم کی بنیاد پر ہے۔ گو کہ گربچن سنگھ نے اپنے افسانے کی تھیم کو منٹو کے افسانے سے بالکل الٹ پیش کیا ہے۔ وہ اس طرح کہ منٹو کے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا ایشر سنگھ ایک خوبصورت جسم کی کشش میں اس قدر بیتاب ہو جاتا ہے کہ اسے ہوش ہی نہیں رہتا کہ اس نے جس خوبصورت جسم کے ساتھ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کی، وہ پہلے ہی مردہ ہو چکی تھی۔ گویا ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا ایشر سنگھ لاعلمی میں ایک مردہ جسم کے ساتھ اختلاط کرتا ہے۔ جبکہ گربچن سنگھ نے بھی اپنے افسانے کی تھیم میں جسے مرکزی حیثیت دیا ہے وہ ایک خوبصورت جسم ہی ہے لیکن یہاں وہ جسم مردہ شکل سامنے آتی ہے۔ اس کے باوجود مرکزی کردار منگل کے لیے کشش کی وجہ بنتی ہے۔ گربچن سنگھ نے اس کشش میں اس قدر شدت پیدا کی ہے کہ منگل ’’ایک حسین لڑکی جس کا خوبصورت جسم نہ صرف قتل کی وجہ بنا بلکہ اس کے مردہ جسم کی کشش نے منگل کو ایک اور زندگی ختم کر دینے کے لیے مجبور کر دیا۔ ‘‘ (ص۔ ۲۵۷)
غور طلب ہے کہ گربچن سنگھ کے افسانے کا ٹریٹمنٹ اور ماحول کی پیش کش نے افسانے کو سحر انگیزی بخشی ہے۔ یہاں افسانے کا بیانیہ صاف شفاف ہونے کے باوجود اپنے اندر تحیر رکھتا ہے جبکہ منٹو کے افسانے کا بیانیہ پوشیدہ ہونے کے سبب چونکانے والا ہے۔ ’’منٹو کے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا ایشر سنگھ چند افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد جس لڑکی کو اپنی جنسی خواہشات کا نشانہ بناتا ہے چند لمحوں بعد ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ اس لڑکی کا جسم تو ٹھنڈا ہو چکا ہوتا تھا۔ ایشر سنگھ اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے کہ اس نے ایک مردہ جسم کے ساتھ اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کی۔ ایشر سنگھ پر اس حادثے کا نفسیاتی اثر کچھ قدر ہوتا ہے کہ وہ کئی مہینوں بعد بھی اپنی کلونت کور کے ساتھ جنسی تعلقات قائم نہیں کر پاتا۔ گویا منٹو نے ایشر سنگھ کے ذریعے ایک مردہ جسم کے ساتھ لاعلمی میں میں کیے گئے جنسی عمل کو اس کی نفسیات میں ہونے والی تبدیلیوں کی شکل میں دکھاتا ہے۔ گویا منٹو کے اس افسانے کو نقطۂ عروج، لاعلمی میں کیے گئے مردہ جسم کے ساتھ جنسی عمل سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کہانی کا پورا تانا بانا اسی ایک عمل سے تشکیل پاتا ہے۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک طرح سے عام انسانی رویہ ہے۔ جبکہ گربچن سنگھ اسی اپروچ کو ’’انگلیوں پر ٹکا ہوا آدمی‘‘ میں بالکل مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ گربچن سنگھ کی کہانی میں یہی عمل شعوری طور پر دہرایا جاتا ہے۔ لیکن اس شعوری عمل سے قبل کردار کی نفسیات میں بتدریج جو تبدیلی آتی ہے، گربچن سنگھ اس تبدیلی کو ماحول اور معیشت کے لبادے میں پیش کیا ہے۔ لیکن یہاں ماحول اور معیشت کا لبادہ جبر بن جاتا ہے جبکہ منٹو کے ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ میں معیشت کو مجبوری کے بجائے سماجی جبر کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ گویا دونوں افسانے میں انسانی جسم کی تذلیل اور سماجی جبر کو مختلف زاویے سے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ گربچن سنگھ نے مردہ جسم کو انسانی میکانزم کے تحت تذلیل ہوتے ہوئے دکھایا ہے۔ افسانے کا خوبصورت پہلو انسان کی نفسیاتی خواہشات کو پیش کرتا ہے تو وہیں اس خواہش کے تابع مرکزی کردار کا دانشتہ طور پر ایک مردہ جسم کے ساتھ جنسی عمل کرنا حیران کرتا ہے۔ منٹو اور گربچن سنگھ کے افسانے کا یہ بنیادی فرق بھی قابل غور ہے کہ منٹو کا ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کا پس منظر تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والی لوٹ مار ہے جبکہ گربچن سنگھ کے ’’انگلیوں پر ٹکا ہوا آدمی‘‘ میں پس منظر کے بجائے پیش منظر میں ہونے والے واقعات سے مرکزی کردار کی نفسیات میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں ۔ سب سے اہم یہ کہ منٹو اور گربچن سنگھ کے افسانوں کا بنیادی فرق Climax پر قاری کو حیرت میں ڈالنے کا عمل ہے۔ منٹو اپنی کہانی میں اصل واقعہ کو پوشیدہ رکھ کر قاری کو حیرت میں ڈالتے ہیں جبکہ گربچن سنگھ واقعات کے تحت انسانی نفسیات میں ہونے والی بتدریج تبدیلیوں کو ایک کڑی کی شکل میں دکھا کر حیرت میں ڈالتے ہیں ۔
گربچن سنگھ کے افسانوں کے حوالے سے ہونے والی اس گفتگو میں ابھی کافی گنجائش ہے کہ یہ سلسلہ ایک پوری بحث کا تقاضہ کرتی ہے۔ لیکن اس سلسلے کو فی الحال ان دو افسانوں کے جائزے پر موکوف کرتے ہوئے ڈاکٹر اختر آزاد کی کتاب ’’گربچن سنگھ کی افسانہ نگاری‘‘ کو زیر بحث لاتے ہیں ۔ ڈاکٹر اختر آزاد نے اپنی اس کتاب میں گربچن سنگھ کا خاکہ کئی اعتبار سے پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر اختر آزاد کی یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّے میں انہوں نے گربچن سنگھ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی ان کی افسانہ نگاری کے سلسلے میں کئی اہم نکات کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو کی ہے۔ یہ گفتگو کئی اہم زاویے سے گربچن سنگھ کے تخلیقی عمل کو سمجھنے میں معاون ہیں ۔ علاوہ ازیں اختر آزاد نے گربچن سنگھ کے چند اہم افسانوں کا خصوصی طور پر تجزیہ بھی کیا ہے۔ اس تجریے کی اہمیت کا اندازہ اس طرح سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اختر آزاد نے، گربچن سنگھ کے دونوں افسانوی مجموعے سے ان کے نمائندے افسانوں کا انتخاب کیا اور پھر اس پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس سے گربچن سنگھ کا افسانوی کینوس کافی حد تک واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے یہاں موضوعات کی سطح پر کس طرح کے افسانے ملتے ہیں اور ان افسانوں کا ٹریٹمنٹ کس طرح کیا گیا ہے۔ گرچہ اس حوالے سے ابھی بہت گنجائش ہے کہ گربچن سنگھ کے افسانوں پر مختلف زاویے سے روشنی ڈالی جائے تاہم اختر آزاد کا یہ کام اس حوالے سے رہنمائی ضرور کرتا ہے۔
کتاب کے دوسرے حصے میں گربچن سنگھ کا ایک انٹرویو بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس انٹرویو کے حوالے سے اختر آزاد نے لکھا ہے کہ بہت کوششوں کے بعد گربچن سنگھ سے ملاقات ہوئی اور انہیں انٹرویو کے راضی کیا گیا۔ مشکل یہ بھی رہی کہ انٹریو کو ایک دن میں مکمل کرنا ممکن نہیں تھا کہ گربچن سنگھ نقاہت کے سبب زیادہ طویل گفتگو نہیں کر سکتے تھے اس لیے دو یا تین دنوں کی گفتگو کو اس انٹریو کا حاصل بنایا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ گفتگو کو تحریر کرنا تھا جو واقعی ایک مشکل کام ہے کہ کہیں آواز صاف ہوتی ہے اور کہیں نہیں ۔ اس انٹرویو کو منظر کلیم اور خود ڈاکٹر اخبر آزاد نے 2006 میں لیا تھا۔ گربچن سنگھ کے حوالے سے اختر آزاد نے مزید لکھا ہے کہ وہ جلد کسی سے ملتے نہیں تھے اور ادبی محفلوں میں شرکت سے محتاط بھی رہتے تھے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں گربچن سنگھ کے تخلیقی عمل کے حوالے سے بعض معلومات قائین تک پہنچ نہیں پائی کیونکہ بعض دفعہ فن کے حوالے سے فنکار کو جاننا، انہیں سننا اور سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ انٹرویو بے حد اہم ہے کہ ایک ایسا ادیب جو محفلوں اور انجمنوں سے خود کو دور رکھتا ہو، جب اپنے فن یا اپنی زندگی کے سلسلے میں گفتگو کرے تو کئی سربستہ راز آشکار ہوتے ہیں ۔ اختر آزاد کا ماننا ہے کہ غالباً شائع شدہ انٹرویو میں یہ ان کی زندگی کا واحد انٹرویو ہے۔
گربچن سنگھ اردو کے ان افسانہ نگاروں میں شامل ہوتے ہیں جنہوں نے بڑی خاموشی سے اپنی ساری توجہ تخلیق عمل میں صرف کی۔ آگے کا مرحلہ قارئین و ناقدین پر چھوڑ دیا کہ وہ ان افسانوں کو کس طرح اور کس حد تک قبول کرتے ہیں ۔ تشہیر و تعریف کی پیچ دار راہوں سے خود کو دور رکھا تاہم یہ خواہش کہیں نہ کہیں ضرور رہی کہ وہ اپنے افسانوں کے ذریعے پہچانے جائیں ۔ کم از کم ان تخلیقات پر ناقدین توجہ دیں لیکن افسوس کہ ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔ یہی وجہ رہی کہ انہوں نے اردو کے بعد دیوناگری کی نگری میں پناہ لی اور بقول اختر آزاد ’’اردو میں جہاں دو افسانوی مجموعوں کے علاوہ ایک ناولٹ شائع ہوئے وہیں ہندی میں آٹھ کہانی سنگرہ اور سات ناول پرکاشت ہوئے۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گربچن سنگھ کہانیوں کی دنیا ابن بطوطا تھے۔ حالانکہ مقدار معیار کی ضمانت تو نہیں تاہم اردو میں ان کے جو دو مجموعے ہیں اگر ان کے افسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہاں کس مختلف نوعیت کے افسانے موجود ہیں ۔ نہ صرف موضوعاتی سطح پر بلکہ فن کے معیار پر بھی وہ اس قدر پختہ ہیں کہ ان کے مطالعے کے بعد قاری کی باچھیں کھل اٹھتی ہیں ۔ جیسے اس نے اپنے بیس پچیس منٹ ضائع نہیں کیے۔ اس حوالے سے اختر آزاد نے بڑی اچھی بات کہی کہ گربچن سنگھ، منٹو، بیدی، کرشن و عصمت جیسے بڑے افسانہ نگار نہ صحیح لیکن وہ اس قابل تو ضرور ہیں کہ ان کے نمائندہ افسانوں کو ان کے ہم پلّہ رکھا جائے۔ ظاہر ہے کسی تخلیق کار کی تمام تر تخلیقات تو شاہکار ہوتیں نہیں لیکن ان کے خزانے میں کچھ نہ کچھ ایسے موتی ضرور ہوتے ہیں جو کسی بھی قاری کو چونکا دے۔ دراصل یہی وہ چونکانے والی خاصیت ہے، جو گربچن سنگھ کو پڑھواتی ہے۔ اگر اس حوالے سے گربچن سنگھ کا مطالعہ کیا جائے تو یقینا کسی قاری کے لیے وقت کا زیاں نہ ہوگا۔
گربچن سنگھ کے ان نمائندہ افسانوں کو پڑھ جائیے، ہر افسانے میں آپ کو ایک مختلف قسم کے ذائقے کا احساس ہوتا ہے۔ ان افسانوں سے آپ جس قدر لطف حاصل کرتے ہیں ، اسی قدر یہ افسانے آپ کو بے چین بھی کر سکتے ہیں ۔ انہیں باتوں کے پیش نظر اختر آزاد نے اس کتاب کا تیسرا حصہ مرتب کیا ہے۔ اس حصے میں گربچن سنگھ کے دس نمائندہ افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ جن میں ’’ببلو کے پاپا، موتیابند، بھوکا سورج، نامعلوم آوازوں کا درد، بھیڑیا، مکان گلی کے بیچوں بیچ تھا، رات منزل اور مسکراہٹ، لچھمی، بادام کا پیڑ، اور انگلیوں پر ٹکا ہوا آدمی‘‘ ۔ گربچن سنگھ کے ان افسانوں کے تعلق سے آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ گربچن سنگھ اتنے مقبول افسانہ نگار نہ صحیح کہ ان کے نام سے ان کے افسانوں کو پڑھا جا سکے لیکن اس قابل ضرور ہیں کہ ان کے افسانون کے حوالے سے گربچن سنگھ کو پڑھا جائے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!