انشائیہ شناسی: ایک جائزہ

شمع پروین

ریسرچ اسکالر

شعبۂ اردو، ونوبا بھاوے یونی ورسٹی

ہزاریباغ، جھارکھنڈ

ای میل:alam.praween@gmail.com

            مغربی ادب کے زیر اثر اردو ادب میں مختلف نئے اصناف کے دخول کا دور انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کا اوائل تھا۔ یہ معاملہ جتنا غیر شعوری طور پر عمل میں آیا اتنا ہی شعوری طور پر بھی اس عمل کو جاری رکھا گیا۔ ظاہر ہے دیگر زبانوں کے ادب سے اخذ و ماخوذ کا معاملہ بہتر ہی نتائج برآمد کرتا ہے۔ ایک طرف نئے اصناف کے دخول سے ادب کا دامن وسیع ہوتا ہے تو دوسری طرف دیگر زبانوں کے ادب سے نہ صرف یہ کہ اس زبان کی تہذیب و ثقافت کا علم حاصل ہوتا ہے بلکہ اس کے اثر سے فکر و جہت کی ایک نئی دنیا بھی منکشف ہوتی ہے۔ غور و فکر کا دائرہ بھی وسیع ہوتا ہے۔ غور طلب ہے کہ کسی زبان میں نئے اصناف کے دخول کا عمل دو صورتوں میں ممکن ہوتا ہے۔ پہلی صورت یہ کہ اس صنف کی توضیح کرتے ہوئے ویسی ہی کچھ تحریر اپنی زبان میں بھی کرنا اور دوسری، اولاً اس صنف کی تخلیقات کا ترجمہ اپنی زبان میں پیش کرنا بعد ازاں اس کے اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے، اس کی پیروی کرنا۔ پہلی صورت میں مسئلہ یہ ہے کہ توضیح کے ساتھ نمونہ عمل کے نہ ہونے سے زیادہ امکان ہے کہ معاملہ کسی قضیہ کا شکار ہو جائے (جیسا کہ صنف انشائیہ کے ضمن میں ہوا) جبکہ دوسری صورت میں توضیح کے ساتھ نمونہ عمل کے ہونے سے کسی طرح کی کوئی بے راہ روی پیدا ہونے کے امکان ختم یا کافی حد تک کم ضرور ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ ہمارے یہاں دوسری صورت کی روایت زیادہ مستحکم نظر آتی ہے تاہم بعض اصناف سخن نے نمونہ عمل کے بغیر بھی، صرف اصول و قوائد کی بنیاد پر اردو ادب میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی اور کامیابی کی پہلی عبارت بھی لکھی۔ اس سلسلے میں بعض ناقدین کا خیال ہے کہ تراجم کے ذریعے اور اس کے بعد بطور نمونہ استعمال کرتے ہوئے کسی بھی صنف کے خد و خال کو زیادہ بہتر طریقے سے پیش کیا جا سکتا ہے۔

            تراجم کے دیگر فوائد کے ساتھ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس صنف کے پیروکاروں کے لیے ایک نمونہ عمل ہاتھ آ جاتا ہے۔ جس کی پیروی کرتے ہوئے اب انہیں اپنا اختصاص قائم کرنا ہوتا ہے۔ گویا اس صنف کی مبادیات تو واضح ہوتے ہی ہیں بلکہ اپنی زبان کے خصوصی امتیازات داخل کرنے کی گنجائش بھی ہوتی ہیں ۔ ایسے میں دیکھا جائے تو کسی ادبی اصناف کو ترجمہ کے ذریعے اپنی زبان میں داخل کرنے کا عمل بہ مقابل خود ساختہ توضیحات کے بعد تخلیق کرنے کے عمل سے زیادہ بہتر طریقہ معلوم ہوتا ہے۔ اس سے وہ صنف بے راہ روی کی شکار ہونے سے بچ جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اردو ادب میں صنف انشائیہ کی تعریف و توضیح جس مفہوم اور تصورات کے ساتھ پیش کی گئی، اس کے بعد بھی اس کے اصول و ضوابط مرتب کرنے کا عمل جس قدر قضیہ کا شکار ہوا، وہ کسی اور صنف کے ساتھ نہیں ۔ ظاہر ہے اس کی بڑی وجہ اس صنف کے تقاضے کو سمجھے بغیر خود ساختہ توضیحات اور براہ راست تخلیقی عمل سے کام لینا تھا۔ شاید خود ساختہ توضیحات کے بعد براہ راست تخلیقی عمل کا راستہ بھی اتنا پیچیدہ نہ ہوتا اگر اس کی تعریف و توضیح کو سابقہ کسی تحریر سے باہم کرنے یا اس کے اولین نقوش تلاش کرنے کی کوشش نہ کی جاتی۔ کیونکہ صنف انشائیہ کے خد و خال کی واضح تصویر کے ابھرنے میں جو تاخیر ہوئی، اور بعض بنیادی نکات قضے کا شکار ہوئیں ، اس میں بھی ایک بڑی وجہ بزرگوں کی سابقہ تحریروں میں اس کے نقوش تلاش کرنے کا عمل تھا۔ حالانکہ اس سے بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے لیکن یہ خیال رہنا چاہئے کہ کسی تحریر میں کسی صنف کی خصوصیات کا پایا جانا، اسے اس صنف کی صف میں کھڑا نہیں کرتا۔ جس طرح کسی افسانے یا ڈرامے میں طنزیہ اور مزاحیہ مکالموں یا کسی خاص سین کے ہونے سے اس افسانے یا ڈرامے کو طنز و مزاح کے مضمون میں شامل نہیں کر دیتا ہے۔ اسی طرح انشاء پردازی اور چیز ہے اور انشائیہ نگاری دیگر است۔ اس موقعے پر معروف نقاد قدیر زماں کی یہ بات بے حد مناسب معلوم ہوتی ہے کہ

’’ملا وجہی کی ’’سب رس‘‘ کو انشائیہ کہا جاتا ہے۔ اختلاف کی گنجائش کم ہے لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم کسی افسانے یا ناول کو انشائیہ کا نام نہیں دیں گے۔ اس میں انشائیوں کی کثرت ہو سکتی ہے۔ کسی دوسرے موضوعات پر لکھی ہوئی تحریروں میں بھی بہ کثرت انشائیہ کا اسلوب پایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ خواجہ حسن نظامی کی تالیف ’’صوفی سلسلے‘‘ میں موجود ہے۔ ‘‘ (سوئے انشائیہ اور سوانحی انشائیے از قدیر زماں ، ص۔ ۱۳)

            ان مباحث کے باوجود انشائیہ شناسی کے سلسلے میں ہمارے جن بزرگوں نے اہم کام کیا ہے، نہ صرف یہ کہ ان پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے بلکہ عصر حاضر کے تقاضوں کے ملحوظ رکھتے ہوئے ان تمام امور کا از سر نو جائزہ بھی لینا چاہئے۔

            انشائیہ اپنے ابتدائی دور سے ہی اس قضیہ کا شکار رہا کہ یہ ذاتی تاثرات پر مبنی کوئی تحریر ہے یا فلسفیانہ خیال آرائی کا طلسم یا کوئی اعلیٰ انشأ پردازی کا نمونہ، یا محض سادہ سی کوئی تحریریا لفظوں کے ذریعے بنائی جانے والی رنگین تصویر۔ ۔ ۔ ان تمام مباحث میں جس ایک لفظ نے انشائیہ کے مزاج کو الجھائے رکھا، وہ لفط ’’انشأ‘‘ ہے۔ ہمارے یہاں عام طور پر لفظ انشأ سے مراد ایک ایسی تحریر سے ہے، جس میں فکر و خیال کی اُڑان سے زیادہ پُر لطف رنگین بیان موجود ہو۔ حیرت ہے کہ صنف انشائیہ میں اسی پُرلطف رنگین بیانی کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ کسی مضمون میں رنگین بیانی کا ہونا اور فصاحت و بلاغت اور رواں انداز بیان کے ساتھ اپنے موضوع کو ایک انوکھے انداز سے پیش کرنا، دونوں الگ باتیں ہیں ۔ مضمون میں رنگین بیانی کو اگر بنیاد بنائی جائے تو ظاہر ہے ایسی صورت میں خاص طور پر کلاسکی ادب پاروں کا بیشتر حصہ انشائیہ نگاری کے زمرے میں آ جائے گا، جو مزید انشائیہ شناسی کے سلسلے میں گمراہی کا باعث ہے۔

            بہر حال! انشائیہ شناسی کے سلسلے میں ہمارے بہت سے بزرگ ادبا نے اپنی بساط بھر کوششیں کی ہیں ۔ جہاں ایک طرف انشائیہ کے نقوش تلاش کرنے کی کوشش میں متعدد کلاسیکی ادب پاروں کو کھنگالا گیا وہیں تمام اصول و قیود کے ساتھ انشائیہ کی واضح شکل کو بھی پہچاننے کی کوشش کی گئی۔ اس سلسلے میں کئی اہم کامیابیاں بھی ہاتھ آئیں ۔ سید محمد حسنین اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ : ’’عہد آزاد اردو انشائیہ کی صبح کاذب ہے اور عہد رشید صبح صادق‘‘ (ص۔ ۷۶) گرچہ حسنین صاحب کے اس بیان سے اختلاف کی گنجائش بھی موجود ہے لیکن اعتراف کا پہلو یہ ہے کہ چونکہ انشائیہ کو مختلف ادبا نے مختلف زاویے سے دیکھا اس لیے اس توضیح میں بھی مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اس کے اصل رنگ کو واضح کرنے میں وزیر آغا نے جس تندہی سے کام کیا، اس سے یقیناً یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ’’عہد آغا اردو انشائیہ کا طلوع آفتاب ہے۔

            اردو انشائیہ نگاری نے صبح کاذب سے طلوع آفتاب تک کا سفر صرف اس بنا پر طویل طے نہیں کیا کہ اس نے پگڈنڈیوں کو منزل مقصود کا ذریعہ بنایا بلکہ اس لیے بھی یہ سفر طویل اور پیچ دار راہوں سے ہو کر طے کیا گیا کہ اس کی بعض خصوصیات ہمارے اپنے ادبی سرمایے کا حصہ تھیں ۔ حالانکہ اس ضمن میں وزیر آغا کی توضیح اور ان کے متعدد انشائیوں کے مطالعے کے بعد روشن آفتاب کا ایک الگ ہی منظر سامنے آتا ہے۔ اس روشن آفتاب کے نقوش آپ کو شاذ ہی کہیں نظر آئے۔ تاہم ہمارے بعض بزرگ ادبا نے تلاش و جستجو کے عمل سے انشائیہ کے نقش و نگار کچھ حد تک تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

            انشائیہ شناسی کے معاملے میں سید محمدحسنین نے دریافت کیا کہ اردو ادب کی تاریخ میں پہلی کتاب جو ’’انشائیہ‘‘ کے مجموعہ سے نام زد ہو کر منظرعام پر آئی وہ ’’ترنگ‘‘ ہے۔ اس کے مصنف سید شاہ علی اکبر قاصد (ولادت پھلواری شریف پٹنہ ۱۹۱۹؁ء ، وفات کراچی ۱۹۶۲؁ء) تھے۔ قاصد صاحب پٹنہ کالج میں آنرس ادبیات انگریزی کے استاذ تھے۔ ۱۹۴۴؁ء میں بی اے کے بعداسی مضمون کے ساتھ ایم اے میں داخلہ لیا۔ سرکاری ملازمت مل گئی اور تعلیمی زندگی ختم ہو گئی۔ ترنگــ ‘‘کو مکتبہ خیال (سبزی باغ، بانکی پورپٹنہ) نے ۱۹۴۴؁ء میں شائع کیا تھا۔ اس مجموعہ کے تمام انشائیے ’’بزم ادب‘‘ یا اردو سوسایٹی کے لئے لکھے گئے تھے۔ حالانکہ اس کے نمونے اب دستیاب نہیں ہیں ۔ اس لیے ’’ترنگ‘‘ میں شامل انشائیوں کی قدر و قیمت کا تعین زمانی اعتبار سے تو کی جا سکتی ہے لیکن فنی اعتبار سے مشکل ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اس حوالے سے بڑی خوب بات کہی ہے کہ :

’’انشائیہ ہی نہیں بلکہ کسی بھی صنف ادب کے کسی دوسرے ملک، غیر زبان اور بے گانہ کلچر میں پنپنے یا فروغ پانے یا مقبولیت حاصل کرنے کے لیے یہ بنیادی شرط طے پائی ہے کہ وہ اس قوم کے مخصوص مزاج اور اجتماعی شعور کی عکاسی کر سکے۔ ۔ ۔ ‘‘ (بحوالہ انشائیہ اور انشائیے از سید محمد حسنین، ص۔ ۷۶)

            گویا سلیم اختر کسی بھی صنف ادب کے فروغ پانے میں معاشرتی پس منظر کو بنیادی شرط کے طور پر دیکھتے ہیں ، جس سے انکار بھی مشکل ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ’’ترنگ‘‘ کے انشائیے، خواہ ان اصول و قیود کے پابند نہ بھی ہوں جو انشائیہ نگاری کے لیے بنیادی شرط کے طور تسلیم کی گئی ہیں ، تب بھی وہ اس قابل تو ضرور ہوں گے کہ انہیں خالص مزاحیہ یا طنزیہ تحریر سے مختلف سمجھتے ہوئے، اپنے معاشرتی مزاج و آہنگ کو پیش کرتے ہوں گے۔ اس لحاظ سے ترنگ کے انشائیے کو، اردو انشائیہ نگاری کی روایت کی ایک کڑی کہنے میں کوئی مشکل نہیں ۔

            ان کڑکیوں نے انشائیہ کو اپنی واضح شکل عطا کرنے میں خوب تعاون کیا ہے۔ حالانکہ بعض غلط فہمیاں بھی راہ پائی اور بعض ناقدین نے ان راہوں کی اپنی تاویلات بھی پیش کیں ۔ لیکن ان تمام تاویلات نے انشائیہ کے خد و خال کو مضمحل کرنے کی بجائے خوب نکھار نے اور سنوارنے کا کام کیا۔ سید محمد حسنین کی اسی کتاب کے پیش لفظ میں سید احتشام حسین انشائیہ کے ضمن میں لکھتے ہیں :

اس کا مقصد یہ بھی نہیں ہے کہ میرے ذہن میں انشائیہ کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ یہ تصور کسی منطقی تعریف کی شکل میں نہیں ، ایک علمی تاثر کی شکل میں میری ذہنی کرید کے افق پر جھلملاتا رہتا ہے اور جب میں اسے لفظوں میں اسیر کرنا چاہتا ہوں تو وہ گرفت میں نہیں آتا ۔ شاید یہی فرق ایک علمی یا معلوماتی مضمون اور انشائیہ میں بھی ہو۔ ایک میں قطعیت، استدلالی انداز، معلوماتی نیرنگی اور نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش ہوتی ہے اور دوسرے میں افکار و مسائل کی تاثراتی رنگینی۔ (سید احتشام حسین، پیش لفظ از انشائیہ اور چند انشائیے۔ سید محمد حسنین،ص۔ ۷)

            حالانکہ احتشام حسین انشائیہ کی حدبندیوں سے گریز کرتے ہیں لیکن پھر اسی ’’پیش لفظ‘‘ میں مزید کہتے ہیں کہ ’’وہ مختلف اصناف ادب میں سے اس صنف کو چھانٹ کر الگ کرے جسے عرف عام میں انشائیہ کہا جاتا ہے‘‘ حالانکہ زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو اب تک انشائیہ کے خد و خال واضح ہو چکے تھے۔ وزیر آغا، نظیر صدیقی، ظہر الدین مدنی، صفی مرتضیٰ وغیرہ کے انشائیے سامنے آ چکے تھے۔ جو نہ صرف انشائیہ کی شکل و صورت کو واضح کر رہے تھے بلکہ اس کے حدود کو بھی طے کر رہے تھے۔ خود احتشام حسین نے ان انشائیہ نگاروں کا اعتراف کیا ہے اس کے باوجود احتشام حسین جیسے قدآور ناقد کے نزدیک بھی لفظ انشائیہ بطور صنف عرف عام میں کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ جن تحریروں کو طنز و مزاح سے جدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی، اس نے ابھی تک صنف انشائیہ کا دامن چھوڑا نہیں تھا۔ یا یہ کہ ہمارے بعض ناقدین پس و پیش میں مبتلا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انشائیہ شناسی کے سلسلے میں احتشام حسین نے محتاط رویہ اختیار کیا اور اختصار سے کام لیا۔ تاہم بعض بنیادی باتوں کو زیر بحث بھی لانے کی کوشش کرتے رہے۔ حالانکہ اس عہد تک وزیر آغا جیسے ادیبوں کے مابین انشائیہ اپنی شناخت پوری طرح سے قائم کر چکا تھا اس کے باوجود یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اردو ادب میں انشائیہ کے ورود کا زمانہ ابھی بہت طویل نہیں تھا اور بعض نذاعی نکات کا در آنا ناگزیر تھا۔ اور چونکہ خود احتشام حسین کا انشائیہ کی تنقید یا تخلیق سے براہ راست واستہ نہیں تھا، اس لیے بھی شاید انہوں نے محتاط انداز سے خامہ فرسائی کی۔ ان تمام باتوں کے باوجود سید احتشام حسین جب یہ لکھتے ہیں کہ ’’ان انشائیوں کو مضمون، مقالہ، روداد، اداریہ، خاکہ، رپوتاژ، صحافتی مضامین اور روز نامچہ سے الگ کیا جا سکتا ہے‘‘ تو یہ امر مزید واضح ہو جاتا ہے کہ بہر حال احتشام حسین کے نزدیک انشائیہ کے سلسلے میں ذہن اتنا تو صاف تھا کہ انہوں نے دیگر تحریروں سے علیحدہ انشائیہ کو بطور صنف سمجھا۔ ان کا یہ خیال ’’میرا خیال ہے کہ انشائیہ کی کوئی ایسی حد بندی نہیں ہونی چاہئے، جو اچھے، خیال انگیز، ادیبانہ اور ذہنی آسودگی بخشنے والے ادب پاروں کو صرف اس بنا پر اس صنف میں شامل نہ ہونے دے کہ اس میں کوئی مخصوص بات، جو کسی لغت یا کتاب میں انشائیہ کے بارے میں بتائی گئی ہے، نہیں ملتی۔ ‘‘ کسی طور انشائیہ کے حق میں بہتر نہیں مانا جا سکتا۔ کیونکہ بہر حال تمام اصناف کی بنیادی خصوصیات ہیں اور دراصل یہی بنیادی خصوصیات، ان کی حدیں متعین کرتی ہیں ۔ گر چہ زمانے کے تغیر و تبدل کے ساتھ ان خصوصیات میں بھی تبدیلی لانے کی بھی گنجائش دیتی ہے تاہم یہ گنجائش بھی ایک حد بندی تو بہر حال طے کرتی ہے، جس سے تمام اصناف ایک دوسرے سے علیحدہ اور اپنا اختصاص قائم کرنے کی آزادی دی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.