کیفی اعظمی۔ سیاسی شاعری کے تناظر میں

محمد الیاس کرگلی۔

ریسرچ اسکالر، دہلی یونی ورسٹی

 MOHD ILYASS Kargili Research Scholar Delhi University

mohdilyas047@gmail.com  mob.no.: 6005412339

 MOHD ILYASS ,ROOM NO 4, BUILDING 10/4, VIJAY NAGAR NORTH DELHI 110009

                        ہندوستان میں اردو کی سیاسی شاعری میں ایک اہم نام اطہر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی کاہے۔ خود کیفیؔ اپنی تاریخ پیدائش بتانے سے قاصر ہیں ۔ لیکن سلطان المدارس کی ریکارڑ کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 15اگست 1918ہے۔ آپ ریاست اتر پردیش کے اعظم گڑھ کے ایک چھوٹے سے گاؤں مجواں میں پیدا ہوئے۔ گھرانہ زمیندارانہ تھا۔ والد کے کل گیارہ بچے ہوئے۔ جن میں کیفیؔ تین بھائیوں اور چار بہنوں سے چھوٹے تھے۔ بدقسمتی یہ کہ ان کی چاروں بہنیں یکے بعد دیگردق کے مرض سے انتقال ہو گئیں ۔ اس کا اثر ان کے والد پر بہت گہرا پڑا۔ انھوں نے سوچا کہ کیفیؔ کو مذہبی تعلیم دلائی جائے تاکہ بعد وفات ان کے لئے فاتحہ پڑھے۔ ادبی دنیا میں کیفی ؔ کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ کیفیؔ کو ان کے بزرگوں نے اس لئے مذہبی درس گاہ میں داخل کیا تھا کہ وہاں فاتحہ پڑھنا سیکھ جائیں ،لیکن کیفیؔصاحب اس درس گاہ سے مذہب پر ہی فاتحہ پڑھ کر نکل آئے۔ بہرحال کیفیؔ کو سلطان المدارس کی فضاراس نہ آئی اور وہاں سے باہر نکل آئے۔ یہیں سے ہی ان کی باغیانہ فطرت کا آغاز ہو جاتا ہے۔ وہ ایک آزاد خیال کے انسان تھے۔ 11سال کی ہی عمر میں ایک غزل کہی جس کا مطلع دیکھئے۔

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

اس شعر سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کا مزاج آغاز سے ہی روایت مخالف تھا۔ وہ زندگی اپنے اصولوں پہ جینا چاہتا تھا جو اس ماحول کے لئے بالکل مناسب نہ تھا۔ چھوٹی عمر میں شعر کہا اور اپنے بڑے بھائی کو دکھایا، لیکن ان کی بے توجہی دیکھی تو جھنجلا کر یہ شعر کہا۔

مجواں کی ادب سوز فضا میں رہ کر

انسان ہی رہ جاؤں تو سو شکر کہوں

 سلطان المدارس سے جب نکالے گئے تو انھیں ترقی پسند تحریک کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ اسی دوران ان کا خاص کام احتجاجی نظمیں لکھنا تھا جو وہ اسی مدرسے کے دروازے پر منعقدہ مجلسوں میں جوش و خروش کے ساتھ پڑھتے تھے۔ وہاں سے نکالے جانے کے بعد کیفیؔ نے لکھنؤ اور الہ آباد یونی ورسٹی سے اردو ،عربی اور فارسی کی چند اسناد حاصل کیں ۔ چونکہ انھیں شاعری اور سیاست سے دلچسپی تھی، ایسے میں باقاعدہ طور سے کسی یونی ورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی مہلت نہیں ملی۔ بقول خود کیفیؔ کہ۔

’’سوچا یہ تھا کہ امتحانات پاس کر کے کسی کالج میں براہِ راست ایف۔ اے میں داخلہ لے لوں گالیکن جب تک سیاست اورشاعری دونوں کا جنوں بہت حد تک ترقی کر چکا تھا۔ آگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے جس نظم و ضبط کی ضرورت تھی میرا لا ابالی پن اس کو جھیل نہیں سکااور تعلیم ادھوری رہ گئی۔ ‘‘

                                                (میں اور میری شاعری۔ کیفیؔ اعظمی۔ کیفی ؔ اعظمی ،عکس اور جہتیں ۔ شاہد مابلی ص ۳۷)

 لکھنؤ جو کہ اس وقت ترقی پسندوں کا گہوارہ بن گیا تھا۔ ترقی پسند ادبا کی پہلی کانفرنس بھی یہیں ہوئی تھی، کیفی ؔ کی ترقی پسند مصنفین سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ وہ ان کے خیالات سے بہت حد تک متاثر ہوئے اور آخر انجمن ترقی پسند مصنفین کی رکنیت حاصل کر لی۔ وہیں 1941میں کیفیؔ کانپور پہنچے جو اس وقت مزدوروں کی تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ یہاں کی فضا انھیں راس آئی اور مارکس کو باقاعدہ طور پڑھنا شروع کیا۔ کانپور سے وہ لکھنؤ آئے اور پھر لکھنؤ سے سجاد ظہیر کے کہنے پر آخرکار انہوں نے بمبئی کا رخ کیا۔ ممبئی کے کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی دفتر میں انہوں نے ایک شاعر اخبار نویس کی حیثیت سے چالیس روپیہ ماہوار کی تنخواہ پر کام کیا۔ یہیں ممبئی میں ہی 1943میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’جھنکار‘‘ شائع ہوا۔ 1945کے حیدر آباد میں منعقدہ ترقی پسند کانفرنس میں ان کی ملاقات شوکت خانم سے ہوئی اور دونوں ایک دوسرے سے متوجہ ہوئے۔ جب یہ بات ان کے والدین تک پہنچ گئی تو آپس میں مشورہ ہوا اور یوں مئی 1947میں کیفیؔ اور شوکت کی شادی ہوئی۔ جب ملک آزاد ہوا تو ترقی پسندوں پر بھی شکنجہ سخت ہوا۔ ایسے میں کیفیؔ کو مہینوں روپوش بھی رہنا پڑا۔ آہستہ آہستہ مالی حالت بد سے بدتر ہوتے گئے۔ مالی پریشانیوں کے ازالے کے لئے انھوں نے فلموں میں گانے لکھنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ انھوں نے فلم ’’بزدل‘‘ کے ساتھ فلمی کیرئر کی شروعات کی۔ آہستہ آہستہ زیادہ سے زیادہ فلموں میں نغمے، کہانی، منظرنامے اور مکالمے لکھنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ غریب عوام کی فلاح کے لئے انھوں نے کئی سماجی، تعلیمی اور تربیتی ادارے قائم کئے۔ سن 1973میں کیفیؔ پر اچانک فالج کا حملہ ہوا اور اس سے ایک ہاتھ اور ایک پاؤں مفلوج ہو کر رہ گئے۔ بعد میں صحت یاب ہونے پر 1977میں پاکستان کا سفر بھی کیا۔ یہ انکا پاکستان کا پہلا سفر تھا۔ دوسری مرتبہ 1984میں بھی پاکستان کا سفر کیا ،جب کراچی میں ہند و پاک مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا۔ اس بار وہاں ان کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی اس لئے تمام پروگرام منسوخ کر کے واپس ممبئی روانہ ہوئے۔ اس کے بعد بھی پاکستان کا کئی بار سفر کیا۔ سن 2002میں انکی طبیعت بہت خراب ہو گئی اور یوں 10مئی2002کو وہ ہمیشہ کے لئے یہ دار فانی چھوڑ کر آخرت کے سفر کے لئے کوچ کر گئے۔ ان کی موت پر ملک کے عظیم سیاسی رہنماوں اور ادبی شخصیتوں نے تعزیت پیش کی۔

کیفیؔ کا دور وہ ہے کہ جب غزل کی طرف شعرا کا رجحان کم تھا۔ کیونکہ ترقی پسندوں کا یہ ماننا تھا کہ غزل سے ان کے سیاسی خیالات اچھی طرح تشہیر نہیں ہو سکتی ہے۔ کیفیؔ کے ہاں بھی زیادہ تعداد نظموں کی ہی ہے، لیکن روایت سے ہٹ کر انھوں نے اپنی شاعری کی شروعات نظم کے بجائے غزل سے ہی کی۔ گرچہ ان کی غزلوں میں رومانیہ عنصر بھی کم نہیں ہے لیکن ترقی پسند عناصر اپنی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ان کے ہاں بھی زندگی کے مسائل پیش ہوئے ہیں ۔ جہاں کہیں گاؤں کی یاد ہے،کہیں کسانوں اور دیہاتیوں کی پریشانیاں تو کہیں فرقہ پرست و ظلمت پرست طاقتوں سے اظہار بیزاری ۔ غرض غریبوں اور مزدوروں کی زندگی کے اہم مسائل کو انھوں نے اپنی غزلوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ ظلم کو پہچانتے ہیں اور اس کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتا ہے اور لوگوں کو امید دلاتا ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہوگا۔ شعر دیکھئے۔

اعلان حق میں خطرہِ دار و رسن تو ہے

لیکن سوال یہ ہے کہ دار و رسن کے بعد

غزلیہ شاعری میں بغاوت کی بو تو پہلی ہی غزل سے آتی ہے جو ان کے بقول گیارہ سال کی عمر میں کہی تھی۔ شہر میں ضرور آئے لیکن گاؤں کے کسانوں اور مزدوروں کے حالات انھیں ہمیشہ پریشان کرتا تھا۔ وہ بھولے نہیں بلکہ اپنے اشعار میں ہمیشہ پیش کرتے رہے۔ ایک شعر یوں بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں ۔

وہ میرا گاؤں ہے وہ میرا گاؤں کے چولہے

کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

جہاں انھیں نئے دور کی انسانی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کا اعتراف ہے تو وہیں دلوں میں بڑھتی کدورتوں ، نفرتوں اور فرقہ پرست عناصر کا دکھ بھی ہے۔ اس دور میں جب امیری اور غریبی کے درمیان کی جو ریکھا ہے وہ کم ہونے کے بجائے دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ غریب غریب تر ہوتے جارہے ہیں ۔ اس شدت احساس کو کیفیؔ کی غزلیہ شاعری میں جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ غزل کے دو اشعار میں اس فکر کو کچھ یوں پیش کیا ہے۔

اکیسویں صدی کی طرف ہم چلے تو ہیں

فتنے بھی جاگ اٹھے ہیں آواز پا کے ساتھ

ایسا لگا غریبی کی ریکھا سے ہوں بلند

پوچھا کسی نے حال کچھ ایسی ادا کے ساتھ

کیفیؔ کی ذات، زندگی اور عمل میں تضاد نہیں ہے۔ وہ اپنے خیال اور مقصد کے تحت شعر کہتا ہے۔ گرچہ ان کی غزلیہ شاعری میں ترقی پسند افکار چیدہ چیدہ ہیں لیکن ان کا انداز بیان سیدھا سادہ ہے۔ وہ اپنے خیال کو رمز وایما کے بجائے اکثر کھل کر بیان کرتا ہے۔ ان کی گفتار و کردار میں ہم آہنگی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں خلوص اور سچائی کا عنصر عیاں دکھائی پڑتا ہے۔ شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ پڑھنے او سننے والے کے جذبہ عمل کو بیدار کرے۔ یہ کمال ایک شاعر میں تب پیدا ہوتا ہے جب اسکا مقصد واضح ہو اور جب کیفیؔ کی شاعری کی بات کی جائے تو اس میں اس کے ترقی پسند فکر اور اس تحریک کے اغراض و مقاصدعیاں ہیں جس مقصد کی طرف ان کی وابستگی نہایت ہی مستحکم دکھائی دیتا ہے۔ وہ بات کو دو ٹوک انداز میں کہنے کے عادی ہیں ۔ اشعار دیکھئے۔

شاہ نامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر

ہر جگہ ہے دفن اک افسانہ تیرے شہر میں

ننگی سڑکوں پر بھٹک کر دیکھ جب مرتی ہے رات

رینکتا ہے ہر طرف ویرانہ تیرے شہر میں

ملک کے پسماندہ طبقوں جن میں کسان اور مزدور شامل ہیں ،کی حالت زار کسی بھی حساس انسان کو باغی بنانے کے لئے کافی ہے۔ کیفیؔ نے ان محنت کش طبقوں کی بیداری کے لئے جہاں اشعار کہے تو وہیں ایسے ڈرامے بھی لکھے اور اسٹیج کرائے جن میں محنت کش عوام کو بیدار کرنے کے لئے پیغام تھا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ان کی خدمات لائق نظر ہے۔ یوں تو تحریک سے جڑے اور بھی بڑے نام ہیں لیکن کیفیؔ کا کارنامہ سب سے جدا گانہ ہے۔ اسی تحریک نے ہی ان کی رومانوی شاعری کو وقار اور سیاسی شاعری کو سنجیدہ للکار عطا کی۔ غزلیں کم ہی کہی ہیں ، جن کی مجموعی تعداد پچاس کے ہی آس پاس ہے۔ لیکن غزلوں میں بھی اپنے رنگ کو برقرار رکھا ہے۔ وہ ایک عوام دوست شاعر تھے، جو عوام سے ہی اٹھے اور عوام ہی کی خدامت گزاریوں میں لگے رہے۔ چونکہ وہ خود ایک زمیندار گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے اور اس زمیندارانہ نظام کے پروردہ ہونے کے سبب ان کے مزاج میں جہاں ایک طرف کسی قدر رومانیت بھی تھی وہیں ایک عام کسان یا مزدور کی پریشانیوں کو سمجھنے کا حس بھی تھا۔ ایک غزل میں قحط اور سیلاب سے متاثر کسانوں کی پریشانی کا ذکر یوں کیا ہے۔

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں کدھر گئیں

دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار

کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں

وہ مزدوروں کے ذہن کو جھنجوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ، انہیں آواز دیتے ہیں کہ وہ خود کو پہچانیں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرے۔ ایک شعر یوں بھی ہے۔

بیلچہ لاؤ کھولو زمین کی تہیں

میں کہاں دفن ہوں کچھ پتہ تو چلے

ایک اور شعر ملاحظہ ہوں

خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے

میں اگر ٹھک گیا قافلہ تو چلے

کیفیؔ کی غزلیہ شاعری میں کہیں کہیں نظم کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ترقی پسند شعرا چونکہ ایک مقصد کے ساتھ شاعری کر رہے تھے، لہٰذا ان کی غزلوں میں بھی وہی مقصدیت دکھائی دیتا ہے۔ غزل چونکہ اس مقصد کو اچھی طرح پورا نہیں کر سکتے تھے، لہٰذا جب بھی غزل لکھی گئی ، اس میں نظمیہ شاعری کے اثرات در آئے ہیں ۔ کیفیؔ کی غزلیہ شاعری گر چہ بہت ہی قلیل ہے لیکن ان کی غزلوں میں رومانیت کے ساتھ ساتھ مقصدیت بھی قابل غور ہے۔

 اردو کی سیاسی شاعری کی تاریخ میں کیفیؔ کا مقام اہم ہے۔ یہ ان کی سیاست سے دلچسپی ہی تھی جس نے ان سے مدرسہ چھڑوائی اور ارباب مذہب سے بغاوت کر کے نکل کر اپنی ایک الگ راہ بنا لی۔ انھوں نے شعوری طور پر اپنی شاعری میں سیاسی اور خصوصاََ ترقی پسند عناصر کو پیش کیا ہے۔ ان کا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے سیاسی حالات کو اور واقعات کو ہی تھیم بنا کر نظمیں کہی ہیں ۔ گر چہ ابتدا میں ایک مدت تک ان کا شعری لب و لہجہ رومانی رہا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے اشتراکی و عوامی انقلاب کو اپنا نصب العین بنا لیا اوراشتراکیت سے متاثر مختلف نظمیں لکھیں ۔ ان کے اوائل عمر کے عہد کو رومانی شاعری کا عہد مانا جاتا ہے کہ جب اختر شیرانی اور جوشؔ کی رومانی نظمیں اپنی رنگ بکھیر رہی تھیں ۔ کیفیؔ بھی اس دور کے رنگ سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا۔ لہٰذا ان کے پہلے مجوعہ کلام ’’جھنکار‘‘ کی اکثر نظمیں رومانی نوعیت کی ہیں ۔ یہاں تک کہ 1945تک ان کی شاعری کا رجحان رومان پسند رہا۔ لیکن سیاسی شاعری جو ان کا منفرد وصف ہے ، ایک تو اس وقت کا ادبی ماحول اور دوسرا مختلف ترقی پسند شعرا سے متاثر سیاسی نوعیت کی نظمیں بھی لکھتا رہا۔ مجموعہ کلام ’’جھنکار‘‘ سے کئی نظمیں اسی طرز کی ملتی؎؎؎؎؎؎ ہیں ، جن میں آواز کی شکست، گمراہ ولی عہد، بیکار مزدور، حقیقتیں ، جیل کے در پر آواز کی شکست، اسٹالین کا فرمان، کشمکش، بیوہ کی خود کشی، سر کی موت، آخری جنگ، روسی عورت کا نعرہ، لیڈر کی آمد، استقلال، دستور، دھواں ، تاج محل، انتباہ، اتحادیوں کے نام جگاوا، روسی عوام اور جنف،نئی صبح اور آندھی جیسی نظمیں شامل ہیں ۔ ترقی پسند تحریک نے کیفیؔ کو بہت متاثر کیا۔ یہ تحریک اس دور میں مارکس ازم سے زیادہ انسانیت کے وسیع تصور ، امن و آشتی، بہتر مستقبل اور پر مسرت زندگی کے طور پر ادبی حلقہ میں مقبول ہوئی۔ کیفیؔ نے بھی برسر مقصد یہ شعر کہا۔

کاندھے پہ رکھ کے سرخ علم آن بان سے

یہ سازِ انقلاب ہے کچھ گنگنایئے

ان کے دوسرے دور کی شاعری احتجاجی و سیاسی شاعری ہے۔ احتجاجی شاعری عموماََ وقتی ہوتی ہے اور اس عہد کے بعد اپنا تاثر کھو دیتا ہے لیکن کیفیؔ نے جو اپنی شاعری کے لئے ڈکشن اپنایا ہے وہ آفاقی ہے اور وہ ہر دور کے لوگوں کا المیہ معلوم ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری سے اس وقت کے لوگوں کو نہ صرف جھنجھوڑا بلکہ ہر فرد کو اپنی ذمہ داری کا احساس بھی دلایا۔ بعض ناقدین نے ان کی شاعری میں خطابت کے پہلو پر زور دیا ہے،لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ خطابت میں بھی لفظ کی پوری فنکاری اور صناعی آجاتی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ یہ فن کو مجروح نہ کرے۔ کیفیؔ کی شاعری میں یہ پہلو ضرور ہے لیکن یہ سپاٹ شاعری نہیں ہے بلکہ ان کی نظموں میں ایک مخصوص کیفیت اور خاص درد انگیزی ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ شعر دیکھئے۔

وہ کھیت کون اجاڑے گا کون لوُٹے گا

اگی ہوئی ہے منڈیروں پہ جس کی شمشیریں

ملک کی سیاسی حالت ابتر تھی، تحریک آزادی زوروں سے چل رہی تھی۔ انگریزوں کے خلاف احتجاج جگہ جگہ ہو رہے تھے۔ نظم ’’جیل کے در پر‘‘ اسی وقت کی ایک نظم ہے جس میں ایک انقلابی نو جوان کے اپنے ملک کے تئیں جذبہ اور قربانی کو پیش کیا ہے۔ کیفیؔ نے اس نوجوان کی بیوی کے احساسات کی بھی ترجمانی کی ہے جو جذبہ وہ اپنے انقلابی شوہر کی کامیابی و کامرانی کے لئے رکھتی ہے۔ شعر یوں ہے۔

کہہ اٹھا کیفی ہر اک زرہ بصد قہر و عتاب

انقلاب و انقلاب و انقلاب و انقلاب

ہندوستان کی تحریک آزادی کے متعلق بھی مختلف نظمیں لکھی گئی ہیں ۔ جن میں ماحول،آوازکی شکست، جوہر، آندھی، آخری جنگ، دھواں وغیرہ شامل ہیں ۔ وہ کسی بھی طرح کا ظلم برداشت نہیں کرسکتے تھے تو ملک پر ایک غاصب نظام بھلا کیوں کر برداشت کرتا۔ ناقدین نے کیفیؔ کی 1945کے آس پاس کی شاعری کو پارٹی لائن کی شاعری کہا ہے۔ اس دور کی شاعری میں عصری، ہنگامی اور سیاسی موضوعات کو خطیبانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

ان کے ہاں طبقاتی جنگ کو لیکر بہت ساری نظمیں ملتی ہے۔ پہلا مجموعہ کلام جھنکار کی نظم ’’کشمکش‘‘ اور ’’بیکاری‘ میں انھوں نے طبقاتی جنگ کو پیش کیا ہے ۔ ایک غریب مزدور زندگی بھر سرمایہ داروں کے ظلم و ستم برداشت کرتا ہے اور جب یہ ظلم انتہا کو پہنچتا ہے تو وہ بغاوت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہیں کیفیؔ نے ان نظموں کے ذریعے ظالم و جابر حکمرانوں ،زمینداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار بھی کیا ہے کہ وہ مزدوروں اور کسانوں پر ظلم کرنا چھوڑ دیں ورنہ یہ بغاوت پہ بھی اتر سکتا ہے جو کہ ان کے لئے مضرثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح نظم ’’بیکار مزدور‘‘ میں انھوں نے مزدوروں اور سرمایہ داروں کے درمیان کی کشمکش کا نقشہ کھینچا ہے جس میں مزدور ہڑتال پر ہے اور اپنے حقوق کی مانگ کر رہے ہیں ۔ اس نظم میں غریب مزدوروں کے اقتصادی حالات اور ان کے احساسات و جذبات کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ وہیں کشمکش میں بھی طبقاتی جنگ کو ہی موضوع بنایا ہے۔ اس نظم میں جہاں کشمکش کو دکھایا ہے تو وہیں آخر میں دعوت انقلاب بھی دیا ہے۔ ایک بند دیکھئے۔

                        میرے اﷲ!

                        میں کدھر جاؤں

پھر ہے فطرت نے آگ بھڑکائی

دو حریفوں میں ہے صف آرائی

اک طرف قیصری و دارائی

اک طرف مفلسی ہے جھلائی

انھیں جوانوں سے کافی امیدیں وابستہ ہے۔ نوجوان سوچ اور قدامت پرست بزرگوں کا ایک نظم ’’مغالطہ‘‘ میں تقابل کیا ہے۔ کچھ اسی انداز سے ایک اور نظم ’’مشورے‘‘ میں بھی ان دو گرہوں کو ٹٹولا ہے۔ جس میں رات کے اندھیرے میں ایک بزرگ مسافر سفر کرتا ہوا آتا ہے جو انقلاب کا خواہاں ہے لیکن کیفیؔ کو اس بزرگ سے کوئی امید نہیں ہے بلکہ مشورہ دیتے ہیں کہ کمزور جسم یہ سفر طے نہیں کر سکتا تو بہتر یہ ہے کہ یہ انقلاب کا کام نوجوانوں پہ چھوڑ دو۔ نظم ’’حقیقتیں ‘‘ بھی سرمایہ دارانہ نظام کو ہی موضوع بنا کر لکھی گئی ہے۔ وہ نظام جس میں ایک طرف عشرت پرست سرمایہ دار ہیں جن کی زندگی میں ہر کچھ سہولیات دستیاب ہیں اور دوسری طرف غریب، نادار اور مفلس عوام ہے جو غریبی، تنگ دستی اور ظلم و جبر کا شکار ہے۔ جن کی زندگی میں تلخیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ کیفیؔ نے اس صورتحال کا بہت ہی باریک بینی سے نقشہ کھینچا ہے۔ ایک شعر یوں بھی ہے۔

ان کی دنیا میں سبھی کچھ ہے مصیبت کے سوا

میری دنیا میں مصیبت کے سوا کچھ بھی نہیں

لیکن وہ ناامید نہیں ہوتے ہیں نہ وہ دوسروں کو ناامید ہونے دیتے۔ نظم’’موجودہ جنگ اور ترقی پسند عناصر‘‘ میں جہاں ایک طرف فاششٹ نظام ہے تو وہیں دوسری طرف مجاہدین آزادی ہیں ۔ شاعر مجاہدین کو اپنی طافت کا احساس دلاتے ہیں اور فخریہ انداز میں کہتے ہیں ۔

ہماری قوتوں کا پوچھنا کیا

ہماری پشت پر ہے ایک دنیا

ہمارے ہاتھ میں ہے لال جھنڈا

نظم آخری فرمان، اسٹالن کا فرمان ، روسی عورت کا نعرہ، اعتراف، استقلال، روسی وعام اور جنگ، نئی صبح جیسی نظمیں روسیوں سے متعلق ہیں ۔ جہاں کہیں وہ روسی فوجیوں کی ہمت افزائی کے گیت گاتے ہیں ، کہیں ان کے رہنما ’اسٹالین‘ کی فتح و کامرانی پر شاد ماں ہے، کہیں روسی عورتوں کا فاششٹ قوتوں کے خلاف نعرہ بازی، شجاعت و بہادری اور ان کا اپنے ملک کی خاطر جذبہ ایثار پر خامہ فرسائی ہے تو کہیں لینن کی بیدار قوم کی عظمت کا بیان ملتا ہے۔ نظم ’’روسی عورت کا نعرہ ‘‘ سے ایک بند دیکھئے۔

 مری قوتیں رائیگاں اب نہیں

 حیات و عمل بد گماں اب نہیں

 مرا نام کمزوریاں اب نہیں

 گلے میں وہ طوق گراں اب نہیں

 وہ طوق اب گلے میں نہ ڈالوں گی میں

 وطن صاف تجھ کو بچالوں گی میں

اسٹالین کا فرمان میں روسی رہنما ’اسٹالین‘ کی شخصیت کو پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انکے حکم و فرمان کو بھی نہایت ہی سلیقے سے شعری پیکر عطا کیا ہے۔ اسٹالین کی شخصیت کو پیش کرتے ہوئے بعض جگہ مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا گیا ہے۔  چند اشعار دیکھئے۔

نئی دنیا نئی تہذیب کے کردار ہو تم

جنسِ آزادی انساں کے نگہہ دار ہو تم

فوج مزدور کے سالار ہو سالار ہو تم

ایک اور نظم ’’استالین‘‘ نام سے بھی ہے۔ جس میں کیفیؔ نے سرخ فوجیوں کے رہنما ’’استالین‘‘ کی قصیدہ خوانی کی ہے۔ اس نظم میں مبالغہ آرائی کی ایک مثال دیکھئے۔

 زلزلے مضمحل قدم میں تیرے

 دم بخود آندھیاں ترے آگے

دوسرے مجموعہ ’’آخر شب‘‘ میں بھی مختلف نوعیت کی سیاسی نظمیں ملتی ہیں ۔ ان نظموں کو ہم دو گروہوں میں بانٹ سکتے ہیں ۔ پہلی قسم کی نظموں کا محور ہندوستان اور یہاں کی سیاست و جد و جہد آزدی ہے تو دوسری نظموں میں عالمی یا اشتراکی خیالات کو پیش کیا ہے۔ اول الذکر نظموں میں ہندوستان میں مزدوروں پر ہو رہی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند ہے۔ جن میں سلام، نئے مہربان، نئی جیت، تربیت، نئے خاکے، کرن، سویت یونین اور ہندوستان، سپر دگی، قومی حکمران، سروجینی نائیڈو، حملہ، قومی اخبار، تاریکی، چکلے، فیصلہ، تلاش، کب تک، آخری مرحلہ، مژدہ، آزادی وغیرہ شامل ہیں ۔ دوسری طرز کی نظمیں جو اکثر روس اور وہاں کی سرخ فوجیوں کے بارے میں ہیں ۔ ان میں بشمول سویت یونین اور ہندوستان، ہم آگے بڑھتے ہی جارہے ہیں ، یلغار، فتح برلن اور لال جھنڈا قابل ذکر ہیں ۔

اس دور میں کیفیؔ کی شاعری کا ایک اہم پہلو ہندوستان کی جد و جہد آزادی ہے۔ مذ کورہ بالا نظموں میں اکثر نظمیں تحریک آزادی سے متاثر ہیں ۔ قائدین آزادی سے متعلق بھی نظمیں لکھیں ، جن میں نظم کرن اور ’خاکے‘ شامل ہیں ۔ ان میں ’کرن‘ گاندھی سے ملاقات پر لکھی تھی اور ’خاکے‘ گاندھی جی اور جناح کی ملاقات سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔ ان نظموں سے اس وقت کے ہندوستان کے سیاسی حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ ان نظموں میں کیفیؔ نے امید کا پہلو برقرار رکھا ہے۔ خاکے کا پہلا شعر دیکھئے۔

نئے ہندوستان میں ہم نئی جنت بسائیں گے

تڑپ دے کر خس و خاشاک کو بجلی بنا ئیں گے

اسی طرح نظم کرن کے اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

رخ سم آلودہ ہواؤں کا بدلنے سا لگا

شوق پژ مردہ عناصر میں مچلنے سا لگا

کس نے یہ ساز اخوت پہ الاپا دیپک

اک دیا رات کی آغوش میں جلنے سا لگا

تیرگی یاس کی کافور ہوئی جاتی ہے

چونکہ یہ نظمیں ایک وقتی تقاضا کے تحت لکھی گئی تھیں لہٰذا ان میں تاثر بھی وقتی ہے۔ اگر چہ ان نظموں کی تاریخی اہمیت ٖضرورہے لیکن ان کو کسی بھی طور آفاقیت کے زمرے میں شامل نہیں کی جا سکتی۔ لیکن شاعری کو صرف میرؔ و غالب اور سودا و داغ کے پیمانے پہ ناپنا بھی درست نہیں ہے۔ شاید اسی بنا پر برسوں تک نظیر جیسے عوامی شاعر کو تنقید نگاروں نے نظر انداز کیا۔ کیفیؔ کی شاعری اس لحاظ سے اپنی طرح کی منفرد شاعری ہے۔ ان کی شاعری چونکہ موقع و محل کے متعلق لکھی گئی ہیں اس لئے یہ ابہام اور مشکل تراکیب سے دور ہیں ۔ ان کے اشعار پڑھ کر اس وقت کا نقشہ ہمارے سامنے مجسم ہو جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں خطابت کا پہلو ضرور نمایاں ہے لیکن سپاٹ شاعری نہیں بلکہ دلکش اور درد انگیز شاعری ہے۔

تحریک آزادی سے متاثر دوسری نظموں میں ہم، نئی جنت، آزادی، سلام، سپردگی، قومی حکمران،تربیت، قومی اخبار، مثنوی خانہ جنگی،عوام وغیرہ ہیں ۔ اس دور کے دوسرے شعرا جن میں اسماعیل میرٹھی، قبال، چکبستؔ، جوشؔ، ظفر علی خان اور محمد علی جوہر نے اس وقت کے تقاضے کے حساب سے شاعری کی۔ وہیں حسرتؔ، اختر شیرانی اور فراقؔ بھی اس دور کے سیاسی حالات سے متاثر شاعری کر رہے تھے۔ کیفیؔ نے ان تمام شعرا کا ثر قبول کیا اور بحیثیت ایک سپاہی اپنے ملک کی آزادی کے لئے اپنی شاعری کی مدد سے جد و جہد کی۔ وہ ایک طرف تو انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتا ہے تو دوسری طرف اپنے ملک میں موجود غدار اور عیار لوگوں پر طنز کستا ہے۔ نظم’قومی حکمران‘ اسی نوعیت کی ایک نظم ہے۔ ایک اور نظم ’تربیت‘ کا آغاز ہی اسی طرح ’غدار‘ لوگوں کے خلاف آواز کے ساتھ ہوئی ہے۔

’کانگریس برباد‘ تو نے کیا کہا سے گل غدار

آگیا جیسے اچانک ہاتھ میں بجلی کا تار

کہیں کہیں وہ شعر کہتے کہتے تلخی پر بھی اتر جاتے ہیں ۔ اسی نظم کا دوسرا شعر دیکھئے۔

کم سنی بھی درس غدار کا بڑھتا ہے کہیں

بولتی ہے روح تیرے باپ کی یہ تو نہیں

ایسا ایک محور عمل ہے تیرے بوڑھے باپ کا

چاک جس پر گھومتا رہتا ہے اکثر پاپ کا

نظم ’تلاش‘ قلعہ احمد نگر جہاں کانگریسی رہنما نظر بند تھے ، کو موضوع بنا کر لکھی گئی ہے۔ ’’حملہ‘‘ ہندوستان کے مختلف ریاستوں میں ہو رہی انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہاں بھی جوش اور جذبہ کا عنصر قائم و دائم ہے۔ اسی طرح کی اور نظمیں ’’ناقص بھرتی‘‘ اور ’’تاریکی‘‘ ہیں ، جن میں لاہور میں ہوئے الیکشن کی روداد بیان ہے ، جب حکومت نااہل رہنماؤں کے ہاتھوں میں پڑ جاتی ہے۔

 کیفیؔ چونکہ اس دور کا شاعر ہے جس دور کو سیاسی شدت کا عہد کہا جاتا ہے۔ ایک طرف سے عالمی سیاست پر روس کا بڑھتا اثر رسوخ اور سرد جنگ کا عالم تھا تو دوسری طرف اندرون ملک بھی ہر طرف سیاسی افرا تفری تھی۔ روسی سرخ انقلاب نے سیاست کے ساتھ ادبیات کو بھی متاثر کیا۔ ہندوستان کے اردو شعرا و ادبا نے بھی اس اثر کو قبول کیا۔ سید سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے جس تحریک کی بنیاد ڈالی تھی ،وہ تحریک آگے جاکے پھلی پھولی اور اس دور کے اکثر شعرا و ادبا اس تحریک سے متاثر ہوئے۔

کیفیؔ کے دوسرے مجموعہ ’’آخر شب‘‘ میں سویت یونین اور کمیونزم کے موضوع پر نظمیں ملتی ہیں ۔ ان میں کمیونزم اور روس کے عوام کی تعریف اور فاششٹ ازم کی سرزنش کی گئی ہے۔ جیسے نظم ’’ یلغار‘‘ کا موضوع روس کی غلام قوم اور ہٹلر کا نظام ہے۔ جہاں ہٹلر کی ظلم و ستم کے خلاف روسی فوجی فاششٹ نظام پر حملہ کرتا ہے۔ اس نظم میں منظر کشی بھی الگ اور منفرد طور کی ہے۔ جیسے اس بندمیں دیکھئے۔

ہل کے طوفاں کا کلیجہ رہ گیا

ست ٹپک کے تند دھارا رہ گیا

ہانپ کر رستے میں دریا رہ گیا

شہر میں بل کھا رہی ہے سرخ فوج

سوئے برلن جارہی ہے سرخ فوج

اشتراکیت سے انکی گہری وابستگی تھی۔ جب برلن پر سرخ فوج قبضہ کر لیتی ہے تو شاعر کی خوشی کا ایک الگ مقام ہوتا ہے۔ اور پھر ’’فتح برلن‘‘ میں لکھتا ہے۔

ہاں مبارک ہو انھیں یہ کامیابی یہ خوشی

بخش دی جن منچلوں  نے زندگی کو زندگی

اسی طرح نظم ’ہم آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں ‘‘ میں وہ پھر روسی فوجیوں کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان نظموں سے لگتا ہے کہ اشتراکیت کا اگر اردو ادب میں کوئی دلی حامی اور چاہنے والا کوئی ہے تو وہ کیفیؔ اعظمی معلوم پڑتا ہے۔ سرخ پرچم جب لہراتا ہے تو ان کو دلی مشرت عطا ہوتی ہے۔

شمال کیسا، جنوب کیسا، کہاں کا کہاں کا مغرب کہاں کا مشرق

جہاں جہاں ہیں غریب مظلوم ایک پرچم اڑا رہے ہیں

کیفیؔ کی فکر مادی بنیادوں پر قائم ہے۔ انھوں نے زندگی کو اسی زاویہ فکر کی روشنی میں سمجھا اور بیان کیا۔ جب کوئی اشتراکیت اور اس لال جھنڈا کے خلاف بولتا ہے تو ان کی شاعری میں وہی باغیانہ پہلو جو انکا خاص وصف ہے ،کھل کر سامنے آتا ہے۔ نظم ’’لال جھنڈا‘‘ کا پہلا شعر دیکھئے۔

’’لا جھنڈا پھینک دو‘‘ اے دیش بھکتو کیا کہا

یہ تو ہے سرمایہ داروں کی لٹیروں کی صدا

اسی مجموعہ میں ہی ایک سیاسی نظم ’’سیاسی خانہ جنگی‘‘ ہے ، جس میں 215اشعار ہیں ۔ مثنوی کو موضوع کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ 144اشعار اور دوسرا حصہ 77اشعار پر مشتمل ہے۔ اس مثنوی میں بھی دوسری نظموں کی طرح انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی اور سرمایہ داروں کے خلاف لکھی گئی ہے۔ جہاں وہ واقعات کا بیان کرتے ہیں تو وہیں ہندوستانیوں کی مسلح کوششوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے نظر آتے ہیں اور انقلاب کی بشارت بھی دیتے ہیں ۔

کیفیؔ کا تیسرا مجموعہ کلام ’’آوارہ سجدے‘‘ ہیں ، جو 1974میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ کا پیش لفظ فیض احمد فیضؔ نے لکھا ہے۔ اس میں نظمیں کافی تعداد میں ہیں ،غزل کی بھی ایک قلیل تعداد ہے۔ پہلے کے دو مجموعوں کی طرح اس مجموعہ میں بھی اشتراکی نظموں کی ایک خاص تعداد ہے۔ جن میں بشمول چراغاں ، آوارہ سجدے، ماسکو، تلنگانہ، پہرہ، بنگلہ دیش، فروغانہ، مکان، انتشار، ماسکو اور لیکن جیسی نظمیں ہیں ۔ کمیونسٹ پورٹی کا ٹوٹنا کیفیؔ کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ تھا۔ یہ درد انھوں نے اپنی نظم ’’آوارہ سجدہ‘‘ میں یبان کیا ہے۔ اشتراکیت سے انھیں بڑی امیدیں وابستہ تھیں لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ مگر انھوں نے اپنی شاعری میں اس نظام کے بارے میں بار بار ذکر کرتا رہا اور غریب و نادار لوگوں کے بارے میں انکے کلام میں اکثر ذکر آتا رہا۔ نظم ’’لینن‘‘ کا موضوع روسی صدر لینن کی زندگی ہے جس میں اس کے کارناموں پر اشعار قلمبند ہوئے ہیں ۔ نظم ’’ماسکو‘‘ کا موضوع روس کی آزادی ہے، جس میں کیفیؔ نے اس نظم کی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ 1969میں ہندوستان اورپاکستان کے درمیان روس کی ثالثی سے تاشقند میں سمجھوتہ ہوا تھا، جسے Tashkend Agreementکے نام سے جانا جاتا ہے۔ نظم ’’تاشقند‘‘ اسی موضوع پر لکھی گئی ہے ۔ جس میں کیفی کا فی مطمئن نظر آتے ہیں ۔ ایک بند دیکھئے۔

پشیماں پشیماں سے ہیں زلزلے

زہے دست تعمیر کی مستیاں

زلیخا پہ آیا دوبارہ شباب

دوبارہ جوں ہو گئیں بستیاں

اشتراکی نظموں کے علاوہ بھی اس مجموعہ میں دیگر نظمیں ملتی ہیں جو اس وقت کے ہندوستان کی سیاست اور حالات کے تناظر میں لکھی گئی ہیں ۔ ایک نظم’دعوت‘ نام سے ہے جس میں ہندوستان کی آزادی کے بعد کانگریس اور مسلم کا ذکر ہے۔ جو ایک تنازعے کی صورت میں ملک میں درپیش ہوا تھا۔ ملک کو آزادی تو ملی لیکن آزادی ملتے ہی ملک کے دو ٹکڑے ہونا کیفیؔ کے لئے اور لاکھوں لوگوں کے لئے ایک تلخ تجربہ تھا۔ مغربی پاکستان میں جب بغاوت شروع ہوئی تب بھی ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئیں ۔ بنگلہ دیش نے 1971میں خود ایک آزاد ملک اعلان کر دیا۔ پاکستان کی لاکھ کو ششوں کے باوجود مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ان تمام واقعات کو کیفیؔ نے اپنی نظم ’’بنگلہ دیش‘‘میں پیش کیا ہے۔ وہیں ایک اور نظم ’’آخری رات‘‘ میں 1962میں چھیڑی گئی ہند چین جنگ پر لکھی گئی ہے۔ اس میں اس جنگ کی آخری رات کو پیش کیا ہے۔

ایک نظم بعنوان ’’نہرو‘‘ بھی شامل کتاب ہے۔ جس میں پنڈت جواہر لال نہرو کی شخصیت کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح نظم ’طوفان‘‘ کا موضوع بھی ملک کے بڑے بڑے رہنما اور ادبا ہیں ۔

کیفیؔ کی ایک سیاسی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ۔ دوسرا اجلاس‘‘ ہے، جو اقبالؔ کی مجلس شوریٰ کے 47سال بعد لکھی گئی۔ کیفیؔ کی یہ نظم بھی ابلیس اور اس کے پانچ مشیروں پر مشتمل ہے جو اقبال کے مشیروں سے قدر مختلف ہیں ۔ کیفیؔ نے یہ نظم اشتراکیت کے مخالفین اور اس کے معترضیین کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ یہ نظم سیاسی اعتبار سے ایک کامیاب نظم تو نہیں کہی جا سکتی کیونکہ اس میں سے کئی پیشن گوئیاں غلط ثابت ہوئیں مگر اقبال نے جو بات شروع کی تھی اسے اپنے دور کے پش منظر میں بیاں کرنا اور اسے مکمل کرنا کیفیؔ کا بڑا کارنامہ ہے۔ انکی سیاسی شاعری میں اس نظم کا مقام منفرد اور خاص ہے۔

 مجموعی طور پر کیفی ؔ اعظمی کی شاعری کا کل سرمایہ سیاسی شاعری پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اشتراکیت کے پرچار میں صرف کر دیا۔ ان کا سارا کرب سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام کی بے ترتیبی ہے۔ وہ اپنے ماحول کے سیاسی حالات، فرسودہ روایات، دولت کی نابرابر تقسیم، اور مکاری کے خلاف اپنی شاعری کے ذریعے آواز بلند کرتا ہے۔ جہاں کہیں کہیں ان کے لہجہ میں تلخی بھی آجاتی ہے۔ ان کی شاعری مشاعرہ لوٹ لینے والی شاعری نہیں ہے بلکہ معاشرہ کے فرسودہ روایات اور ملک و دنیا کے ظالمانہ سیاسی نظام کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے۔ قمر ریئس کے مطابق کیفی ؔ کا تعلق انسانیت کی اس ترقی پسند جماعت سے ہے جس نے انسان کو ضعیف الاعتقادی، توہم پرستی اور تعصبات سے نجات دلانے کے کام کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا۔ وہیں شمیم حنفی صاحب لکھتے ہیں کہ جب بھی میں کیفیؔ اعظمی کے کلام کا موازنہ ان کے دوسرے معاصرین سے کرتا ہوں تو ہمیشہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ وہ اردو شاعری میں ترقی پسند تحریک کی اہم ترین آوازوں میں سے فیض ؔاور مخدوم ؔکے بعد تیسری بڑی آواز ہیں ۔ ترقی پسند تحریک نے ایک طرف کیفیؔ کی شاعری کو اپنے حصار میں مقید بھی کیا تو وہیں ان کی نفرادیت کو نکھارا بھی۔ ایک طرف سویت یونین کا عالمی سیاست پر چھا جانا اور دوسری طرف خود ہندوستان میں ہی انگریزی یا سامراجی طاقت کے خلاف تحریک شروع ہونا اتفاق کی بات تھی۔ ایسے میں ترقی پسند شعرا کی شاعری کا ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ہے۔ البتہ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگنے کے ساتھ کیفیؔ ذرا رنجیدہ بھی ہوئے لیکن اشتراکیت اور ماکسزم پر انکا ایمان بعد کے دور میں بھی قائم رہا۔ کیفیؔ علی سردار جعفری کے ساتھ اردو کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے پہلی بار سیاسی مثنوی لکھی۔ ان کے سیاسی عقائد اشتراکیت، عالمی بقائے امن کے نظریات پر مشتمل ہیں ۔ وہ اپنے دور کے حالات کا گہرا اثر قبول کرتے ہیں ۔ مجموعی طور پر ان کی شاعری میں سیاسی شاعری کے علاوہ بھی دیگر موضوعات ملتے ہیں لیکن ان کی انفرادیت سیاسی شاعری کی وجہ سے ہی ہے۔ گوکہ ان کی اکثر نظمیں ہنگامی اور وقتی موضوعات پر ہیں لیکن ان نظموں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ شاعری چونکہ ہر دور کی تاریخ ہوتی ہے۔ مورخ کا قلم تو حقیقت بیانی سے قاصر رہ سکتا ہے لیکن ایک ادیب یا شاعر کی شاعری میں کہیں رمز و ایما کے پیرائے میں تو کہیں کھل کر حقیقت بیان ہوتی ہے۔ کیفیؔکی رومانی شاعری سے قطع نظر بھی سیاسی شاعری کا اپنا منفرد مقام ہے جو اردو ادب کا ایک عظیم اور بیش بہا سرمایہ ہے۔

حواشی

1 ۔ کیفی اعظمی فکر و فن۔ ڈاکٹر شکیل رافت علی۔ معیار پہلی کیشنز 2005

2۔ کیفی اعظمی۔ شخصیت، شاعری اور عہد۔ ڈاکٹر وسیم انور۔ پرائم پیلشرز، ایم پی۔ 2005

3۔ کیفی اعظمی ۔ عکس اور جہتیں ۔  مرتب۔ شاہد ماہلی۔  معیار پیلی کیشنز دہلی۔ 1992

4۔ کیفی اعظمی شخصیت اورفن کے آئینے میں ۔ خورشید علی خان۔  ماس پرنٹرز ،کراچی۔ 1995

5۔ کیفیات (کلیات کیفی اعظمی)۔ ایجوکیشن پبلشنگ ہاوس دہلی۔ 2003

6۔ آخر شب۔ کیفی اعظمی۔ کتب پبلشرز لمیٹیڈ ، بمبئی۔ 1947

7۔ آوارہ سجدے۔ کیفی اعظمی۔  مکتبہ جامعہ لمٹیڈ۔ 1974

8۔ جھنکار۔ کیفی اعظمی ۔ کیفی اعظمی۔ قومی دار الاشاعت بمبئی۔  مارچ 1944

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.