آزادی سے قبل بنگال کی اہم خواتین افسانہ نگار

Dr. NAGHMA NIGAR

Mob : 8240752399

E-mail : naghmanigar703@gmail.com

            یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بیسویں صدی اردو افسانے کی پیدائش، اس کے ارتقاء اور عہد شباب کی صدی رہی ہے۔ اس صدی میں اردو افسانے کو پریم چند کی حقیقت پسندی سے لے کر رومانی تحریک، ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت جیسی تحریکات اور رجحانات کے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ اس صدی میں جہاں مرد افسانہ نگاروں مثلاً منشی پریم چند، کرشن چندر، منٹو، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، سریندر پرکاش، بلراج مینرا، سلام بن رزاق، انور خاں ، مشرف عالم ذوقی نے افسانے کو اپنی بیش بہا تخلیقات کے موتی پیش کیے ہیں ، وہیں خواتین قلم کار مثلاً نذر سجاد حیدر، حجاب امتیاز علی، رشید جہاں ، رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، ممتاز شیریں ، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، ذکیہ مشہدی ان کے بعد ثروت خاں ، شائستہ فاخری، ترنم ریاض اس تاریخی سفر میں ان کی ہم قدم وہم رکاب رہی ہیں ۔ اردو میں خواتین افسانہ نگاروں کی ایک لمبی فہرست ہے، جنھوں نے مردوں کے ہم پلہ بہ اعتبار مقدار ومعیار قابل افسانے تخلیق کیے ہیں اور نہ صرف صنف نازک کے مختلف مسائل کو اپنے افسانوں کے موضوعات کو وسعت بخشی ہے اور انہوں نے فنی ، تکنیکی، موضوعاتی اعتبار سے افسانہ نگاری کی روایت کو آگے بڑھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں رکھا۔

            اگر ہم بنگال کی بات کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بنگال میں بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہمیں افسانے ترجموں کی شکل میں دستیاب ہیں (اس سے قبل فورٹ ولیم کالج کا دور اردو داستان کے لیے عہد زریں کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں مختلف زبانوں سے داستانیں اردو زبان میں ترجمے کیے گئے) عبدالرزاق ملیح آبادی، راحت آرا بیگم، صغریٰ سبزواری، سالک لکھنوی،ل۔ احمد اکبر آبادی ترجمے کی روایت کا روشن باب ہیں ۔ ان افسانہ نگاروں نے ترجموں کے علاوہ طبع زاد افسانے بھی لکھے۔ بنگال میں آزادی سے قبل بہترین افسانہ نگاروں میں جہاں ل۔ احمد اکبر آبادی، جمیل مظہری، عندلیب شادانی، جوہر غازی پوری، سالک لکھنوی، شاہ مقبول احمد، ضیاء عظیم آبادی کا نام لیا جاتا ہے، وہیں خواتیں افسانہ نگاروں میں راحت آرا بیگم، صغریٰ سبزواری، طاہرہ دیوی شیرازی، صالحہ بیگم مخفی، شائستہ سہروردی کے افسانوں میں عصری شعور کی بالیدگی پوری طرح اپنی جلوہ سامانی دکھاتی ہے۔ آزادی سے قبل بنگال کا افسانوی منظرنامہ اپنے عصری شعور، اس کی نزاکت ونفاست اور پیکر تراشی سمیت درج بالاناموں سے روشن دکھائی دیتا ہے۔

            راحت آرا بیگم (۱۹۱۰ء۔ ۱۹۶۹ء) کو بنگال کی اولین خاتون افسانہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ انہوں نے بہت ہی مختصر عمر پائی لیکن اس مختصر سے عرصے میں گھریلو ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے سات افسانوی مجموعے ’پریمی اور دیگر افسانے‘(۱۹۳۹ء)، ’بانسری کی آواز‘ (۱۹۴۵ء) ، ’شب کی پکار‘ ، ’بدو کی بیٹی‘ (۱۹۴۶ء) ، ’انقلاب‘، ’غنچۂ افسانے‘ اردو ادب کو پیش کیے ہیں ۔ فہمیدہ بیگم کی اطلاع کے مطابق ان مجموعوں میں کل ملا کر ۲۸ ؍ افسانے شامل ہیں ۔ (بحوالہ: راحت آرا بیگم کی افسانہ نگاری اور منتخب افسانے، ۱۹۹۳ء) ان میں سے بیشتر افسانے طبع زاد ہیں ۔ کچھ افسانے بنگلہ اور انگریزی زبانوں سے ترجمہ کیے گئے ہیں ۔ راحت آرا کی تحریریں اس وقت کے مشہور رسائل مثلاً ’تہذیب نسواں ‘ ،’سہیل‘، ’عصمت ‘، ’نیرنگ خیال‘ میں شائع ہوتی تھیں ۔

 (بحوالہ: بنگال میں اردو، از: وفا راشدی، ص:۲۵۶، ۱۹۵۵ء)

            راحت آرا بیگم اپنے عہد کے مسائل، ادبی رجحانات سے بخوبی واقف تھیں ۔ انہوں نے نہ صرف متنوع موضوعات پر مبنی افسانے قلم بند کیے بلکہ اپنے عہد کے تناظر میں عصری حقیقتوں کی پیکر تراشی میں دلچسپی لی۔ ہندوستانی سماج کے بعض مسائل پر خوبی سے روشنی ڈالتے ہوئے بہت سی برائیوں اور خامیوں کو طشت از بام کرکے سماجی اصلاح کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوں میں مقصدیت کی زیریں لہریں دکھائی دیتی ہیں ۔

            راحت آرا نے صنف نازل کے مختلف رخوں اور ان کی زندگی کے مخفی گوشوں پر قلم اٹھایا ہے۔ ان کے افسانوں میں ماں کی ممتا سے لبریز عورتیں نظر آتی ہیں ۔ وفا شعار، صابر وشاکر عورتوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ مفاد پرست، بے وفا عورتیں بی دکھائی دیتی ہیں ۔ صنف نازک کے جذبات ونفسیات کے رموز ونکات کو ان کے تخلیق رسا ذہن نے بڑی خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔

            افسانہ ’چندرا‘ ، ’ماں ‘ ماں کی مامتا، بچے سے والہانہ لگاؤ۔ اس کی چاہت وشفقت، روحانی وجذباتی لگاؤ کو پیش کرتا ہے۔ افسانہ ’چندرا‘ میں ایک غریب بیوہ نوکرانی چند روپیوں کے عوض اپنے بچے سے محروم ہوجاتی ہے۔ افسانہ ’ماں ‘ میں ہمیں صرف ماں کی شفقت ومحبت ہی نظر آتی ہے۔ اس بوڑھی ماں کے اکلوتے بیٹے کو حکومت کے خلاف سازش کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ اس کی ماں اس کے انتظار میں بڑے درد وکرب سے گزرتی ہے۔ جیل میں اپنے بچے سے ملاقات کے دوران اس کے منہ سے جو جملے نکلتے ہیں ، وہ ماں کے جذبات کی مؤثر عکاسی کرتے ہیں :

            ’’آ! شنکر میرے بچے آ(ہاتھ پھیلادیتی ہے) ۔ میری گود میں آ۔ افسوس کاش کہ تو نے ایسا کام نہ کیا ہوتا۔ آ میرے ننھے چل۔ میں تجھے گود میں چھپا کر لے جاؤں ۔ اپنے سینے سے لگا کر بھاگ نکلوں ، آمیرے لعل! اگرچہ دنیا کے سامنے تو جوان ہے لیکن میری نظروں میں وہی ننھا سے شنکر ہے، جسے میں اس روز اپنے دروازے کی چوکھٹ پہ بیٹھی دودھ پلارہی تھی۔ ‘‘ (افسانہ: ماں )

            ’دلنواز‘، ’اعتراف‘،’نوجوان طالب علم‘،’جوائف بریملو‘ جیسے افسانوں میں عورتوں کی وفا شعاری ، ایثار وقربانی، ناموافق حالات میں بھی صبر وشکر کا دامن تھامے رہنے والی عورتوں کے گرد گھومتے ہیں ۔ ان افسانوں میں عورتوں کی نفسیات کے کئی پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں ۔ افسانہ ’شب کی پکار‘ ، ’اچھوت کی محبت‘ میں سماج کی دکھتی رگوں پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ’شب کی پکار‘ جہیز جیسے سماجی ناسور پر مبنی افسانہ ہے۔ جہیز جیسی قبیح رسم کے عوض رنجیت کی خرید وفروخت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی مرضی کو مقدم نہ گردانتے ہوئے بھاری جہیز کے عوض ایک بد شکل لڑکی سے کروادی جاتی ہے۔ افسانہ ’اچھوت‘ اور ’محبت‘ میں سماجی تفریق، بھید بھاؤ دو محبت کرنے والوں کے درمیان حائل ہوجاتی ہے۔

            ان کے افسانوں کی اکثر ہیروئنیں سیدھی سادی، وفا شعار، صابر وشاکر دکھائی دیتی ہیں ۔ وہ ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتیں بلکہ خاموشی سے درد وکرب جھیلتی دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کے افسانوں سے مشرقیت کا رنگ چھلکتا ہے اور مشرقی اقدار وروایت کی پاس داری بھی ملتی ہے۔ قصہ پن کی دلچسپی اور بیان کی سادگی ان کے افسانوں کی اہم خوبی ہے۔ مجموعی طور پر انہوں نے اپنے اردو گرد کی ایسی کہانیاں لکھی ہیں ، جن میں عورتوں کی مجبور، مظلومیت اور بے بسی کو اجاگر کیا گیا ہے۔

            راحت آرا کی زبان سادہ، صاف ورواں ہے۔ اسلوب شگفتہ، جان دار اور دل چسپ ہے۔ ان کی سادہ وسلیس نثر کا عمدہ نمونہ ملاحظہ ہو:

            ’’ننھی سیارہ خوب صورت ہرن کی طرح دوڑتی ہوئی آتی اور باپ کی ٹانگوں سے لپٹ جاتی۔ باپ مسکراتا ہوا آگے بڑھتا اور اسے اپنے مضبوط بازوؤں پر لے لیتا اور اس کے پھول سے رخساروں پر سے سیاہ بالوں کے گچھے ہٹا کر اسے پیار کرلیتا لیکن زمانہ آہستہ آہستہ گذرتا گیا اور ساتھ ہی ننھی سیارہ بچپن کے ماحول سے نکل کر جوانی کے آغوش میں قدم رکھا۔ ‘‘ (افسانہ : بدو کی بیٹی)

            طاہرہ دیوی شیرازی نے بھی بنگال میں اردو افسانے کو جلا بخشی۔ ان کی پیدائش ایک ہندو گھرانے میں ہوئی تھی لیکن ایک مسلمان شخص کی محبت میں مبتلا ہوکر انہوں نے اسلام قبول کیا۔ نوشاد مومن کی اطلاع کے مطابق ان کی افسانہ نگاری کا آغاز ۱۹۲۶ء سے ہوا اور مختصر سی مدت میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ ان کے افسانے اس زمانے کے تمام اہم ادبی رسائل وجرائد میں شائع ہوتے تھے۔ ۱۲؍ افسانوں پر مشتمل ان کا افسانوی مجموعہ ’سحر بنگال‘ کے عنوان سے ۱۹۳۵ء میں ساقی بک ڈپو، دہلی سے شائع ہوا ۔ (مشمولہ: اردو کی معروف خواتین افسانہ نگار اور ان کی خدمات، مرتب : نعیم انیس، ص:۱۳۴)تا دم تحریر راقم الحروف کو یہ افسانوی مجموعہ دستیاب نہ ہوسکا۔

            نوشاد مومن کی اطلاع کے مطابق طاہرہ دیوی فرانسیسی، انگریزی، بنگلہ ، فارسی اور اردو زبانوں میں مہارت رکھتی تھیں ۔ فرانسیسی ودیگر زبانوں کے اہم افسانوں کو انہوں نے فارسی زبان میں ترجمہ کرکے اپنی افسانہ نگاری کا آغاز کیا تھا۔ بعد میں انہیں اردو زبان میں منتقل کیا۔ انہوں نے جب لکھنا شروع کیا تھا، اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ حقیقت نگاری کا دور دورہ تھا۔ گرچہ ان کے افسانوں کا عام رنگ رومانی ہے لیکن اپنے گرد وپیش کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی بھی ان کے یہاں نظر آتی ہے۔ ان کے افسانوں میں رومان اور حقیقت کا امتزاج موجود ہے۔ انہوں نے جہاں صنف نازک کے جذبات، ان کی داخلی وخارجی زندگی کو اپنی کہانیوں کا مرکز بنایا، وہیں مادیت پرستی اور سماج کے پریشان حال افراد کی عکاسی بھی کی۔ نوشا د مومن کی اطلاع کے مطابق اس مجموعے میں ’دختر کفش دوز‘، ’سنجوگ‘، اصنابتائے، عشق‘، ’غلط فہمی‘، ’بازیگر‘، ’سکون کی جستجو‘، ’مقدس مصیبت‘، ’سوتیلے بچے‘،’بازیچۂ اطفال‘، ’کیا عورت ناقص العقل ہے؟‘ نامی افسانے شامل ہیں ۔ ’خواب رنگیں ‘، ’جھوٹ‘ فرانسیسی افسانوں کے ترجمے ہیں ۔

            جنس ان کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ انہوں نے اپنے وقت میں بے باکی سے اس موضوع پر افسانے تحریر کیے۔ ان کے کچھ افسانوں مثلا! ’دختر کفش دوز‘، ’سنجوگ‘ میں رومان اور جنس کی آمیزش نظر آتی ہے۔ انہوں نے عریانی کو آرٹ کی معراج ضرور مانا لیکن جنس کو اس سلیقے سے پیش کیا کہ افسانے جذبات کو برانگیختہ نہیں کرتے اور نہ طاہرہ دیوی پر فحاشی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ ان کی نظروں میں ادب وقت گذاری کا ذریعہ نہیں بلکہ روحانی تسکین کا وسیلہ ہے۔

            افسانہ ’دختر کفش دوز‘ میں چند روپیوں کے عوض ایک نوجوان حسینہ جبراً ایک نواب کی جنسی تشفی کا سامان مہیا کرتی ہے لیکن ایک مدت کے بعد اس قید سے آزادی حاصل کر کے اپنے گاؤں لوٹ جاتی ہے۔ افسانہ ’سنجوگ‘ میں سربالا اور منوہر ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار نظر آتے ہیں ۔ اس عشق میں ان سے جو فعل سرزد ہوتا ہے، وہ سماجی رسم ورواج کے منافی ہے۔ سربالا اور منوہر عشق میں سماجی بندھنوں اور رسول وقیود کو توڑتے نظر آتے ہیں ۔ افسانہ ’سکون کی جستجو‘ میں طاہرہ نے مادیت پرستی کو موضوع بنایا ہے اور سماج ومعاشرے میں موجود تلخ حقیقتوں کی ترجمانی کی ہے۔ افسانہ ’مقدس معصیت‘ میں انسانیت کا بول بالا دکھائی دیتا ہے۔ ’افسانہائے عشق‘ میں انسانی زندگی عش کے زیر سایہ پروان چڑھتی ہے اور بسر ہوتی نظر آتی ہے۔ انسان ہر عمر میں عشق ومحبت کا اسیر دکھائی دیتا ہے۔

            طاہرہ دیوی کے افسانوں کی زبان سادہ ، سلیس، اور دلکش ہے۔ زبان کی سادگی وصفائی ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ نسباً ہندو ہونے کے انہوں نے سادہ وسلیس اردو میں افسانے کس خوبی سے تحریر کیے۔ نیاز فتح پوری نے اس کی وجہ تلاش کرتے ہوئے لکھا تھا:

            ’’طاہرہ دیوی نہ صرف فارسی بلکہ فرانسیسی زبان کی بھی ماہر ہیں اور غالباً یہیں سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ ان کی افسانہ نگاری میں یہ رنگ کہاں سے آیا۔ زبان کی صفائی اور شگفتگی کو دیکھ کر یہ حیرت ہوتی ہے کہ بنگال کی ایک ہندو خاتون اتنی صاف اور صحیح اردو لکھنے میں کیوں کر کامیاب ہوئیں ۔ ‘‘ (مشمولہ : اردو کی معروف خواتین افسانہ نگار اور ان کی خدمات، ص:۱۳۹)

            افسانوں کے تانے بانے نہایت سوچ سمجھ کر بنے گئے ہیں ۔ اس عہد کی معاشرتی وتہذیبی فضا ان افسانوں میں زندہ تابندہ ہے۔ آج بھی طاہرہ دیوی کا وجود ناقدین کے لیے نزاعی مسئلہ بنا ہوا ہے طاہرہ دیوی نے اپنی تحریروں میں بہت بے باکی سے لکھا۔ اپنی کتاب میں خود کی تصویر شائع کروائی۔ کیا وجہ رہی ہوگی کہ وہ سامنے نہ آسکیں یا واقعی ان کا حقیقی وجود نہ تھا۔ چاہے ان کا حقیقی وجوہ ہو یا نہ ہو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے افسانوں کا غائر مطالعہ کیا جائے۔ کیوں کہ یہ مجموعہ بنگال سے منسوب ہے۔ ہوسکتا ہے کوئی نیا پہلو ہمارے ہاتھ آجائے یا طاہرہ دیوی کے متعلق کچھ اور نئی باتیں معلوم ہوں ۔

            راحت آرا بیگم اور طاہرہ دیوی کی ہم عصروں میں صغریٰ سبزواری (۱۹۱۲ء۔ ۱۹۹۸) کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے ۱۹۲۶ء سے افسانے لکھنے شروع کیے۔ اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی دنوں میں ہندی، انگریزی، بنگالی زبانوں کے افسانوں کا ترجمہ کیا۔ ان کا واحد افسانوی مجموعہ ’نورتن‘ کے نام سے دہلی سے شائع ہوا تھا۔ مجموعے میں کل نو افسانے ہیں ۔ اسی مناسبت سے اس مجموعے کا نام ’نورتن‘ ہے۔ ان افسانوں میں انہوں نے زندگی کے عام مسائل کو پیش کیا ہے۔ انسانوں کی روز مرہ کی زندگی میں جو واقعات در پیش ہوتے ہیں ، جن غموں سے اس کا سابقہ پڑتا ہے یا جو چھوٹی چھوٹی خوشیاں اسے میسر آتی ہیں ، صغریٰ کی نظریں وہاں تک پہنچ کر ان واقعات کو عام سے انداز میں اس طرح پیش کرتی ہیں کہ عام واقعات بھی غیر معمولی لگتے ہیں ۔ ان کے افسانے دلچسپ اور ہلکے پھلکے ہوتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں مشرقی رنگ وآہنگ ملتا ہے جس کی وجہ سے ان کے یہاں سطحیت اور فحاشی نہیں ملتی ۔ وہ لکھتی ہیں :

            ’’میرے یہ حقیر افسانے ممکن ہے اہل ذوق کو پسند نہ آئیں اور پسند نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس میں حسن وعشق اور سیکس کا کہیں بھی ذکر نہیں ۔ نہ ہی میرے قلم نے کبھی جسارت کی۔ ان افسانوں میں سوائے ایک دو کے ، بقیہ افسانوں میں ، میں نے سماج کی دکھتی رگ پکڑی ہے۔ سماج کی اکثر رسموں کا مذاق اڑایا ہے۔ ‘‘ (نورتن، از: صغریٰ سبزواری، فرید فاروقی اینڈ برادرس پبلشرز، دہلی، ص:۳)

            یعنی انہوں نے افسانے صحت مند قدروں کو فروغ دینے کے لیے تحریر کیے۔ جنس کے نام پر فحاشی اور لذت اندوزی وزبان کے چٹخارے کے لیے نہیں لکھے، نفسیاتی بے چیدگیاں ان کے یہاں نہیں ، فلسفیانہ موشگافی نہیں بلکہ زندگی کی تلخ حقیقتیں ان کے افسانوں میں جلوہ گر ہیں ۔ مثلاً ایک طرف ان کا افسانہ ’چٹھی‘ ہے جس میں ماں اور بچے کا دوری کے باوجود فطری وآپسی لگاؤ، ان کے مقدس ترین رشتے کا ذکر ہے۔ دوسری طرف ان کا افسانہ ’ضامن نہ ملا‘ ہے جس میں ایک پریشان حال باپ نظر آتا ہے۔ سیلاب سے تباہی کے بعد وہ گاؤں سے شہر روزی کی تلاش میں آتا ہے لیکن ضامن نہ لانے کے سبب سے بے روزگاری سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ حالات کی ستم ظریفی اور نام ونہاد سماج کے ٹھیکے داروں کی کمینگی سے دل برداشتہ ہوکر اپنی بچی کو ڈبو کر مار ڈالنا چاہتا ہے مگر پدرانہ شفقت آڑے آجاتی ہے۔ افسانے کا ایک منظر ہمارے رونگٹے کھڑے کردیتا ہے:

            ’’میرا دل دھڑکنے لگا۔ کمر تک پانی میں اتر پڑا اور آگے بڑھا۔ بچی چلائی: بابا! میں نے کہا: چپ چاپ ڈوب جا، تیری ساری مصیبتیں دور ہوجائیں گی۔ وہ اپنی جان اس طرح دینا نہ چاہتی تھی۔ وہ بابا کہہ کر پکارے جارہی تھی۔ میں اسے ڈبونے پر تلا ہوا تھا۔ مجھے غصہ آگیا۔ اس کی گردن پکڑ کر ڈبانے لگا اور اسے پانی میں ڈبائے رہا۔ میرے سر پہ خون سوار تھا اور وہ جان بچانے کی کوشش میں تھی۔ وہ مرنا نہیں چاہتی تھی اور میں مارنے پہ تلا ہوا تھا۔ ‘‘  (افسانہ ’ضامن نہ ملا‘ ، ص:۴۱)

            افسانہ ’جہیز ‘ میں سماج کے رستے ہوئے ناسور کا ذکر ہے جس کی وجہ سے غریب ماں باپ کی بیٹیوں کے بالوں میں اپنے باپ کی دہلیز میں سفیدی اتر آتی ہے۔ شادی کے بعد جہاں آئے دن اس پر کم جہیز لانے کی پاداش میں تشدد کا باراز گرم رہتا ہے۔ یہاں تک کہ متمول گھرانے کے افراد بھی اس لعنت میں مبتلا ہیں ۔ افسانے میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان کی شادی بھاری جہیز کے عوض ٹھہرائی جاتی ہے لیکن وہ جہیز کی مخالفت کرتا اور اپنے ماں باپ کی مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے شادی سے انکار کردیتا ہے۔ حالاں کہ وہ بعد میں اپنی شرطوں کے مطابق اسی لڑکی سے نکاح کرتا ہے۔ افسانے میں صغریٰ اس سماج پر طنز کے نشتر چلاتی ہیں ، جہاں شادی کے نام پہ فضول رسمیں اور بے جا اسرافات ہوتے ہیں ۔

            افسانہ ’سزا‘ میں پتی ورتا، وفا شعار ہندوستانی عورت چندرا نظر آتی ہے، جو اپنے سسرال کی عزت ووقار کو قائم رکھنے کے لیے اپنے جیٹھ کے قتل کے جرم کو اپنے نام کر لیتی ہے۔ اگر ہم آج ذہن سے سوچیں تو چندرا کا یہ عمل ہمیں کتنا احمقانہ لگتا ہے۔ وہ ایثار وقربانی کے نام پر اصل قاتل کو آزادنہ زندگی بخشتی ہے۔ افسانہ ’کٹھن مایا‘ میں منتر بشیر مکھر جی کا کردار ہمیں متوجہ کرتا ہے، جو لوگوں کو اپنے مکر وفریب کا شکار بناتا ہے لیکن ایک لڑکی کو دھوکے میں رکھنا اس کی فطرت میں شامل نہیں ، اس لیے وہا س کی چاہت کے جواب میں اسے اپنی اصل حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے اسے انکار کردیتا ہے۔ یہ انسان در پردہ حالات کا مارا ہے۔ وہ پیٹ کی خاطر دھوکے کا کاروبار کرنا لیکن اپنی فطری بنیادی شرافت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے جو اس کی سوچ کی ترجمانی کرتا ہے:

            ’’بھگوان کے لیے آہستہ بولو، ورنہ تمہارے پتا جی جاگ جائیں گے۔ موتی! میں سچ کہتا ہوں کہا گر تمہاری شادی مجھ سے ہوگی تو تم خوش نہ رہ سکوگی۔ میں صرف تمہارے فائدے کے لیے ہی کہتا ہوں ۔ میں کبھی گھر بار اور دنیا کے بکھیڑوں میں پھنس کر نہیں رہ سکتا۔ میں آزاد طبیعت کا انسان ہوں اور آزاد رہنا چاہتا ہوں ۔ آخر نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری زندگی بھی روتے گزرے گی، اس لیے کیا فائدہ؟ میری خوشی یہی ہے کہ تم ہمیشہ خوش اور سکھی رہو۔ ‘‘ (افسانہ : ’کٹھن مایا‘، ص:۸۱)

            صالحہ بیگم مخفی (۱۹۲۴ء۔ ۱۹۷۲ء)کو ان کے افسانوی مجموعہ ’نیا شاہکار‘ نے دیگر خواتین افسانہ نگاروں میں انفرادیت بخشی ہے۔ یہ مجموعہ یک حرفی افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں کل ۹؍ افسانے اور ایک نظم شامل ہے۔ یہ افسانے صالحہ بیگم مخفی کی اختراعی ذہن، جدت طرازی وفنکارانہ مہارت کا پتہ دیتے ہیں ۔ ان افسانوں میں یک حرفی کا استعمال اور حرف ابجد کی پابندی اس خوبی سے کی گئی ہے کہ تحریر کی روانی میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ افسانوں میں کہانی پن کی فضا بھی باقی ہے اور عبارت کی دلکشی بھی۔ اس کتاب کی تقریظ میں طاہر رضوی لکھتے ہیں :

            ان الفاظوں میں اگر ایک طرف الفاظ کی بندشیں اور خیالات کی ندرت ہمارے لیے دلبستگی کا سامان مہیا کرتی ہیں تو دوسری جانب بصیرت افروز دلوں کے لیے ان کا ہر افسانہ مایہ درس عبرت ہے۔ اس مجموعے کا ہر افسانہ انسانی طبائع کے لیے روحانی تازیانہ نظر آتا ہے۔ ہر ایک افسانہ کی سرخی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں اور اس سے مصنفہ کی جدت اور ٹھوس لیاقت کا پتہ چلتا ہے۔ ‘‘ (نیا شاہکار، از: صالحہ بیگم مخفی، نیوکمرشیل آرٹ پریس نمبر:۳، طبع اول، ۱۹۵۶، ص:۷)

             اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مجموعے میں شامل افسانے محض تفریح طبع یا دلبستگی کا سامان مہیا کرنے کے لیے نہیں لکھے گئے اور نہ ہی صالحہ بیگم کو اپنی جدت طبع کا نمونہ دکھانا مقصود ہے۔ ان افسانوں میں تعلیم ونصیحت کے خزانے اور سماجی نظام کی اصلاح مقصودہے۔ مجموعے میں شامل افسانے ’الف‘ کا افسانہ، ’ب‘ کی بوچھار، ’پ‘ کی پھلجڑی، ’ت‘ کے تاثرات اور دیگر افسانے تمام کے تمام ایک حروف میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود الفاظ کی بندش اور تحریر کی روانی کہیں بھی غیر موزوں نہیں ہوتی نیز بڑی خوبی سے ان میں فکاہیہ اور مزاحیہ مضامین سموئے گئے ہیں ۔ ہر افسانے کے آغاز ، وسط اور اختتام میں انہوں نے اشعار درج کیے ہیں ۔ مجموعے میں الف سے لے کر خ کے حرفوں پر مبنی افسانے شامل ہیں ۔ اس کتاب میں ان کے دوسرے مجموعے یعنی ’د‘ کے حرفوں پر مبنی افسانوی مجموعے کا ذکر ہے لیکن راقم الحروف کو یہ مجموعہ دستیاب نہیں ہوسکا۔

            الف کا افسانہ میں عورتوں کی بہادری ، ان کے وطن پرستانہ جذبات ومحبت کو عیاں کرتا ہے۔ افسانہ ’ب‘ کی بوچھار میں بے کس اور مظلوم بیواؤں کی دوسری شادی کا اہتمام ملتا ہے۔ افسانے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

            ’’بہرحال بہت جلد بھید کھل گیا کہ وہ نوجوان بھی پیٹ کا مارا ہے۔ اس نے بتایا کہ ذات برہمن ہے اور اس کا بوڑھا باپ برسوں کی بیماری کے بعد ابھی حال میں چل بسا۔ بستی کے ایک بنئے کا بہت سا قرض اس کے باپ کے ذمہ باقی تھا اور اس بنئے نے بقایہ نہ پاکر اس کے ساتھ بدسلوکی کا برتاؤکیا۔ غریبی کی وجہ سے وہ بے بس تھا۔ ‘‘  (ب کی بوچھار، ص:۲۷)

            دیگر افسانوں میں مختلف تاریخی واقعات، ہندو مسلم فسا، پیاری جان طوائف، بھکتی شاعرہ میرا کی زندگی سے مختلف واقعات کو بہ شکل افسانہ پیش کیا گیاہے۔

            شائستہ سہروردی (۱۹۱۵ء ۔ ۲۰۰۰ء) نے بنگال کے افسانوی ادب کو اپنے افسانوی مجموعہ ’کوشش ناتمام‘ کی شکل میں تخلیقیت کے موتی پیش کیے۔ شائستہ کا تعلق بنگال کے تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ تقسیم ہند کے بعد شائستہ پاکستان منتقل ہوگئیں ۔ ان کا افسانوی مجموعہ ۱۹۵۰ء میں مکتبۂ جدید، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ (بحوالہ : بنگال میں اردو، وفا راشدی، ص:۲۵۵) اپنی زندگی میں شائستہ سماجی اور سیاسی سطح پر بے حد فعال رہیں ۔ صغریٰ سبزواری کی طرح امور خانہ داری کے فرائض نبھاتے ہوئے انہوں نے اردو ادب کو افسانوں کے علاوہ بہت کچھ دیا۔ ذریعۂ تعلیم انگریزی ہونے کے باوجود انہوں نے قلبی لگاؤں اور دلچسپی کی وجہ سے اردو زبان میں خوب لکھا۔ ان کی تحریریں اس وقت کے مشہور رسالوں ’عصمت‘، ’چمنستان‘، ’نو رنگ‘، ’ہمایوں ‘، ’مریم‘، ’تہذیب نسواں ‘ میں شائع ہوتی تھیں ۔ مختلف مضامین، افسانے ، یادداشت، ناول ، مہر آرا بیگم آپ سے یادگار ہیں ۔

            مجموعہ ’کوشش نا تمام‘ میں کل دس افسانے ہیں ، جن میں صنف نازک کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ شائستہ نے عورتوں کے مسائل اور ان کی سماجی حیثیت کا بغور مشاہدہ کیا ہے۔ اس مشاہدے نیا ن پر یہ انکشاف کیا کہ عورت نہ صرف وفا وخلوص اور ہمدردی کا پیکر ہے، وہ خدمت گزار، غم گسار، خدا کی بہترین نعمت ہونے کے ساتھ انتہائی مکار، فریبی، شاطر، عیاش اور ظالم بھی ہے۔ صنف نازک کے یہی مختلف رخ ان کے افسانوں میں ایک نئے تیور سے نظر آتے ہیں ۔ مختلف عمر کی عورتوں کے احساسات، جذبات وکیفیات کو ان افسانوں  میں پیش کرنے کے علاوہ سماج کے چند رستے ہوئے ناسور کو بھی افسانوں میں پیش کیا ہے۔

            ان کے افسانوں میں عورت کے مختلف روپ الگ الگ اندا زمیں ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ افسانہ ’آزاد چڑیا‘ میں ایک جدید تعلیم یافتہ لڑکی ثریا نظر آتی ہے۔ جو جوان اور زندگی سے بھر پور ہے۔ اس کا شوہر اس کی جانب سے لاپروائی اور بے توجہی برت کر زیادہ زیادہ دولت حاصل کرنے کا آرزو مند ہے۔ حالات سے بددل ہوکر وہ کسی اور کے دام محبت میں گرفتار ہوکر اسے خلع کا نوٹس بھیج دیتی ہے۔ بظاہر افسانے کا موضوع عام سا ہے لیکن اس قسم کے حالات وواقعات اکثر ہمارے سماج میں رونما ہوتے ہیں ۔ افسانہ ’جرم‘ اور ’شانتی‘ میں بے جوڑ شادی اور اس کے عبرت ناک نتائج پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ افسانہ ’تصویر کا دوسرا رخ‘ میں فرخندہ نامی تعلیم یافتہ لیکن انتہائی لالچی وظالم عورت کا مقدمہ مذکور ہے جس کے ظلم وستم کا سب سے زیادہ شکار اس کا شوہر ہوتا ہے۔ وہ اس کے تمام مال ودولت پر قابض ہوکر اپنے شوہر کو گھر میں قیدی بناکر رکھتی ہے۔ یہاں تک موت اس کا خاتمہ کردیتی ہے۔ افسانہ ’نصف بہتر‘ میں ایک تعلیم یافتہ مظلوم عورت کا قصہ بیان ہوا ہے جس کی ترقی کی راہ میں اس کا شوہر (جو کم تعلیم یافتہ ہے) حائل ہوجاتا ہے۔ وہ بیوی کی شہرت وعزت سے عاجز آکر ذہنی تسکین حاصل کرنے کے لیے بیوی کو لے شہر سے گاؤں چلاآتا ہے تاکہ اس کی ترقی کی راہ مسدود ہوجائے۔ آج بھی ہمارے سماج میں مردانگی کے زعم میں مبتلا رہنے والے ایسے افراد کی کمی نہیں ۔ راقم الحروج کا خیال ہے کہ شائستہ نے آج سے ۵۰؍۶۰ سال قبل جن مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کیا، آج بھی عورت ان ہی مسئلوں سے دوچار نظر آتی ہے۔ آج بھی عورت کی ترقی ، خوش حالی کا دار ومدار اس کے شوہر کی مرضی پر منحصر ہے۔ گویا اسٹیج وہی ہے، کردار بدلتے رہتے ہیں ۔

            درج بالا تمام خواتین افسانہ نگار کے یہاں آزادی سے قبل ہندوستان کے مختلف سماجی ومعاشی مسائل کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات گردو پیش کے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور ان افسانہ نگاروں نے عورتوں کی زندگی کے بہت سے مخفی گوشوں کو بھی طشت ازبام کیا ہے۔ بیشتر نسوانی کردار ہمیں کہیں کمزور، کہیں بزدل، کہیں ظالم تو کہیں عزم وہمت کا پیکر دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ خواتین افسانہ نگار عورتوں کے مسائل اور حالات کی چیرہ دستیوں کو ایک نئے تیور اور نئے فکر واحساس کے ساتھ پیش کرتی ہیں ۔ ان کے یہیاں زندگی پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہے۔ یہ افسانہ نگار ہمیں کہیں مایوس ، قنوطیت کا شکار نظر نہیں آتیں بلکہ زندگی کی کٹھنائیوں کا پورے حوصلہ مندی سے استقبال کرتی ہیں ۔

            ان کے یہاں موضوعات کی قوس وقزح کے ساتھ بنگال کی تہذیب وثقافت کے اثرات دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں تہ داری نہیں بلکہ راست بیانیہ انداز میں عورتوں کی زندگی کے خارجی وداخلی مسائل کی تصویر کشی ملتی ہے۔ ان کی تحریروں میں فیمینزم کی آہٹ سنائی دیتی ہے، جو اپنی بھر پور جولانیوں سمیت آزادی کے بعد کہکشاں پروین، روحی قاضی ، شہیرہ مسرور، فخر النسا کریم، شہناز نبی، شاہین سلطانہ، صابرہ خاتون حنا کی تحریروں میں موجود ہے۔

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.