ہندوستان کی قومی یکجہتی میں پریم چند کی افسانہ نگاری کا روّل
بلال احمد بٹ
مرازی گنڈ بارہمولہ جموں و کشمیر
ریسرچ اسکالر گجرات یونیورسیٹی،احمد آبادbhatbilala@gmail.com
فون نمبر:۔ 7006412793
دنیا کی تمام زبانیں کسی نہ کسی ملک کے تہذیب وتمدن کی پیداوار ہوتی ہے ۔ اسی طرح اردو بھی زبان ہی نہیں ہے بلکہ اس میں ایک تہذیب بھی موجود ہے ۔ جو زبان جس خطے یا علاقے میں بولی جاتی ہے۔ اُس میں اس علاقے کی تہذیب و تمدن کی عکاسی ملتی ہے ۔ لیکن اردو زبان کی صورت حال کچھ الگ ہے ۔ اس کا کوئی مخصوص خط یا علاقہ نہیں ہے بلکہ اس کا علاقہ بہت زیادہ وسیع ہے یا یوں کہے یہ پورے برصغیر کی زبان ہے ۔ بلاشہ یہ ہندوستان کی زبان ہے لیکن یہ بر صغیر کے مختلف ممالک جیسے پاکستان ،بنگلہ دیش،افغانستان اور ہندوستان میں یہ کافی زیادہ بولی جاتی ہے ۔ اس لیے اردو ایک ایسی تہذیب و ثقافت کی ترجمان ہے جس کا دائرہ اثرسرحدوں سے بھر پور ہے ۔ غرض اردو زبان کا دامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں نہ صرف ہندوستان کی مٹی کی خوشبو ہے بلکہ برصغیر اور وسط ایشائی تہذیب و ثقافت کی بو قلسمونی اور رنگا رنگی بھی اس میں موجود ہے ۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جس کا وجود اور ترقی ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے بطن سے ہوا ہے ۔ یہ واحد ایسی ہند آریائی زبان ہے جس میں ہندوستانیت کے تمام عناصر ہر جگہ موجود ہیں ۔ اسی لیے اردو کو قومی یکجہتی کی زبان قرار دیا جاتا ہے ۔ کیونکہ ہندوستان کی عظیم و راثتوں میں اردو ایک مشترکہ وراثت ہے ۔ اسی زبان کی پرورش اور وسعت عطا کرنے میں جہاں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے وہی اس زبان کو سنورانے اور نکھارنے میں عربی ،فارسی ،ترکی اور دیگر زبانوں نے اہم رول ادا کیا ہے ۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جو آسانی سے کسی زبان کو حذب کر لیتی ہے ۔ اس طرح یہ ہندوستان کی ایک مشترکہ زبان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اردو کو اس مقام تک لانے کے لیے ہر عہد میں ادیبوں اور شعراء نے اپنا اپنا رول ادا کیا ہے ۔ اس فہرست میں اگر پریم چند کا نام نا لیا جا ئے تو یہ اردو ادب کے لیے نا انصافی ہوگی ۔ خاص طور پر پریم چند کی افسانہ نگاری ایک ایسا قیمتی خزانہ ہے جس سے اردو ادب کی پوری دنیا مالا مال ہوئی ۔
پریم چندکا نام افسانہ نگاری کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ۔ اس سے پہلے اردو افسانہ ادب میں مافوق الفطری عناصر اور داستانوی رنگ موجود تھا ۔ لیکن پریم چند نے حقیقت نگاری کی طرف توجہ مبذول کرائی ۔ اس کی بنیادی وجہ اس وقت کے حالات تھے جب برطانوی سامراج نے ہندوستان کو اپنے شکنجوں میں جکڑا ہوا تھا ۔ اسی دور میں موصوف نے اپنے افسانوں میں حقیقت نگاری کے ذریعے عوام کے کئی مسائل کو سامنے لایا ۔ انھوں نے اس وقت لوگوں کے سماجی مسائل کا بغور مشاہدہ کیا۔ جس پر وہ احتجا ج کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پریم چند کے افسانوں کی خاصیت ایک طرف تہذیبی شعور کے در کھولتی ہے تو دوسری طرف وہ اپنے سماجی شعور کے پیش نظر معنویت سے بھر پور حقیقی زندگی کی داستان پیش کرتے ہیں جس میں وہ اپنی مٹی کی بوباس سے جڑ یں پیو ست کیے ہوئے ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں اپنے عہد کے سماج کے مختلف پہلوؤں کو نہایت خوبصورتی سے زینت ِ قلم بنا یا ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
’’ پریم چند زمین کی سوندھی سوندھی باس سے بہت قریب تھا ۔ اس نے تخیل کی رفعتوں کے بجائے زندگی کے ارضی پہلوؤں اور سماج کی واضح کروٹوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا یا۔ ‘‘
۱؎
پریم چند کی تصنیف و تالیف کا زمانہ بیسویں صدی کی ابتدائی چار دہائیوں پر محیط ہے ۔ یہ عہد ہندوستان کی ذہنی ،سماجی سیاسی اور تہذیبی زندگی میں بڑی نتیجہ خیز اور دوررس تبدیلیوں کا زمانہ تھا ۔ یہ تبدیلیاں ایک غیر ملکی نو آبادیاتی حکومت کے مفادات ،اثرات اور ریشہ دواینوں کی وجہ سے کچھ پیچیدہ بھی تھیں اور کچھ مصنوعی بھی مثال کے طور پر قومیت اور قومی کلچر کے جن تصورات نے انگلستان اور یورپ کے سرمایہ دارانہ صنعتی سماج رواج پایا تھا ۔ ہندوستان میں ان کو پنپنے اور جڑ پکڑنے سے روکا جا رہا تھا ۔ مغرب میں قومیت یا قومی کلچر کی تشکیل میں مذہب کا کوئی ہاتھ نہ تھا ۔ وہاں ایک جغرافیائی ،سیاسی یا ریاستی وحدت سے وابستہ شہر یوں کو ایک قومی اکائی سمجھنے کا رحجان غالب تھا ۔ لیکن ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کے بعد دور اندیش حاکموں کی منظم کو شش یہ رہی کہ ان کی رعایا متحدہ قومیت اور قومی مفادات کے مشترکہ احساس و شعور سے دور رہے ۔ نتیجہ میں تعلیمی ،لسانی ،ثقافتی اور انتظامی سطحوں پر انھوں نے نہایت ہو شیاری اور خاموشی سے ایسی تدابیر اختیار کیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ مذہبی اور فرقہ وارانہ مفادات کی بنیاد پرہی قوم یا قومی کلچر کا تصور کریں اور اپنے فرقے کے لیے ہر طرح کی مراعات حاصل کرنے کی خاطر علیحدہ سے انگریز حاکموں کے ساتھ معاملہ کریں ۔
پریم چند بھی اسی روشن طبع ذہن سے تعلق رکھتے ہیں ۔ انھوں نے ہندوستانی عوام کی معاشرت اور تہذیب کو دریافت کیا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اپنی تصنیفی زندگی کے ابتدائی دور میں وہ سوامی وویکا نند اور آریہ رہنماؤں کے خیالات سے متاثر رہے اور اس عہد کی بعض کہانیوں اور ناولوں میں ان خیالات کی اشاعت بھی ہے ۔ ان کی بے شمار کہانیوں اور ناولوں میں اس زندگی کا سمندر ٹھاٹیں مارتا نظر آتا ہے ، پرین چند کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ فرقہ وار تہذیب کو خوبصورت پہن کر ہی سامنے آتی ہے ۔ وہ اپنی اندگی کی آخری سانسوں تک ایک مشترک ہندوستا نی تہذیب اور ہندوستانی زبان پر زور دیتے رہے ۔ اس بارے میں دیا نرائن نگم لکھتے ہیں کہ:
’’پریم چند تنگ خیال اور فرقہ پرست ہندو مسلمان دونوں کے مخالف اور دونوں سے نالاں رہتے تھے اور تنگ خیال پنڈتوں اور مصنف مولویوں دونوں کو ملک کے لیے خطرناک سمجھتے تھے۔ ‘‘
۲؎
اسی طرح پریم چندنے اپنے ایک ہندی مضمون ’’ فرقہ واریت اور تہذیب ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ فرقہ واریت ہمیشہ تہذیب کی دہائی دیا کرتی ہے اسے اپنے اصلی روپ میں نکلتے شاید شرم آتی ہے ۔ اس لیے ( اس) گدھے کی طرح جو شیر کی کھال اوڑھ کر جنگل کے جانوروں پر رعب جماتا پھرتا ہے ۔ تہذیب کا خول ( پہن کر ) آتی ہے ۔ ہندؤ اپنی تہذیب کو قیامت تک محفوظ رکھنا چاہتا ہے ۔ مسلمان اپنی تہذیب کو ۔ دونوں ہی ابھی تک اپنی اپنی تہذیب کو اچھوتی سمجھ رہے ہیں ۔ یہ بھول گئے ہیں کہ اب نہ کہیں مسلم تہذیب ہے نہ ہندو تہذیب ، نہ ہی کوئی دوسری تہذیب ۔ اب دنیا میں صرف ایک تہذیب ہے اور وہ ہے اقتصادی تہذیب ۔ مگر ہم آج بھی ہندؤ اور مسلم تہذیب کا رونا روتے چلے جاتے ہیں ۔ حالانکہ تہذیب کا دھرم سے کو ئی تعلق نہیں ۔ آریہ تہذیب ہے۔ ایرانی تہذیب ہے عرب تہذیب ہے لیکن عیسائی اور مسلم یاہندؤ تہذیب نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ ‘‘
۳؎
مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہذیب کے بارے میں پریم چند کا ذہن کتنا صاف اور روشن ہے انھوں نے ہمیشہ یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ انسانوں کی باز آور اجتماعی محنت ہی تہذیب کی معمار ہوتی ہے ۔ پریم چند نے اس تحریک کے خلاف پُر زور احتجاج کیا ہے جس کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا ہے ۔ ۱۹۳۲ء میں آریہ سماجیوں نے بڑے پیمانے پر شدھی کی تحریک شروع کی ۔ پریم چند نے اس کے خلاف زبردست مخالفت کی ۔ ۲۳ اپریل ۱۹۳۲ء میں موصوف نے اڈیٹر ’’ زمانہ ‘‘ دیا نرائن نگم کو ایک خط میں لکھا ہے کہ :
’’ شدگی پر ایک مختصر سا مضمون لکھ رہا ہوں ۔ مجھے اس تحریک سے سخت اختلاف ہے ۔ تین چار دن میں بھیجوں گا ۔ آریہ سماج والے بگھائیں گے ۔ لیکن مجھے اُمید ہے کہ اس مضمون کو ’’ زمانہ ‘‘ میں جگہ دیں گے ۔ ‘‘
۴؎
پریم چند نے اس مضمون کے ذریعے نہ صرف دلائل کے ساتھ اس تحریک کو ملک کے لیے تباہ کن ثابت کیا بلکہ ان کے کا نگریسی رہنماؤں کو بھی نہیں بخشا جو یا تو خاموش تھے یا اس تحریک کی حمایت کر رہے تھے ۔ اس بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’ افسوس کے ساتھ کہناپڑتا ہے کہ کانگریس نے بھی اجتماعی طور پر اس تحریک سے الگ تھلگ رہنے کے باوجود ،انفرادی طور پر اس میں شامل ہونے میں کچھ بھی اُٹھا نہیں رکھا ۔ اتنا ہی نہیں ایک بھی ذمہ دار کانگریسی نیتا نے اعلان کرکے ان تحریکوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ۔ ‘‘
۵؎
پریم چندنے فرقہ واریت کے خلاف جہاد میں بے مثال قربانی دی ہے ۔ ۱۹۳۳ء میں چتربین شاستری کی ایک کتاب ’’ اسلام کا ویش ورکش( اسلام کا زہر یلا درخت) ‘‘ شائع ہوئی ۔ اس کتاب کا مقصد اسلام پر کیچڑ اُچھال کر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا تھا ۔ پریم چند نے اپنے ہندی رسائل ،’’ہنس ‘‘اور’’جاگرن ‘‘ میں اس کتاب کے خلافپُر زور احتجاج کیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں فرقہ پرستار ذہنیت رکھنے والا ایک بڑا حلقہ ان کا مخالف ہوگیا اور انھیں زد کوب کی دھمکیاں بھی دی گئیں ۔ اس بارے میں پریم چند نے اپنی بیوی شورانی سے کہا کہ اگر ہم ادیب ان دھمکیوں سے ڈر جائیں تو دنیا کے مظلوم لوگوں کی بے بسی کا عالم کون بیان کرے گا ۔
پریم چند نے اپنے ناولوں ،کہانیوں اور ڈراموں میں ظلم و ستم کی طاقتوں سے لڑتے ہوئے ۔ افلاس ،محرومیوں اور گھریلو زندگی کی الجھنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اور آزادی کی جنگ میں قربانیاں دیتے ہوئے جو صدہا کردار تخلیق کیے ہیں وہ سب ہندوستانی ہیں اور مشترک تہذیبی مزاج کے مالک ہیں وہ ایک جیسی سماجی اور اخلاقی قدروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہیں اور اپنے مشترک دشمنوں کے مقابلے میں سب متحد ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے سیکولر ہندوستانی سماج کے ہر طبقہ ،ہر پیشہ اور ہر عقیدہ کے انسانوں کی زندگی کے جاندار مرقعے پیش کیے بلکہ اپنی تحریروں کے ذریعے انھوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ ہندوستان ذہنی اور جذباتی طور پر ایک دوسرے کے زیادہ قریب آئیں ۔ ایک دوسرے کے عقائد اور مذہبی روایات کو سمجھیں ۔
آزادی سے پہلے ہندوستان کی رابط کی قومی زبان کے مسلہ نے سیاسی عوامل کی دخل اندوزی سے ایک پیچیدہ صورت اختیار کرلی تھی ۔ پریم چند نے سیاسی مفادات سے بلند ہو کر اس مسلہ کو تہذیبی اور لسانی نقطہ نگاہ سے سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش کی ۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ ہندستانی ہی وہ واحد زبان ہے جو کم و بیش سارے ملک میں سمجھی جاتی ہے ۔ کھڑی بولی کی بنیاد پر نشو نما پانے والی یہ زبان جسے ریختہ ،ہندوی اردو اور ہندوستانی کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔ پریم چند کے خیال میں نسلی ،علاقائی اور مذہبی حدبندیوں کو توڑ کر سارے ملک میں سمجھی جانے والی زبان بن گئی تھی جو مشترکہ قومی تہذیب کی زندہ علامت ہی نہیں بلکہ اس کی بہترین اقدار کا مظہر بھی تھی ۔ پریم چند جانتے تھے کہ یہ زبان ایرانی اور وسط ایشاء سے آنے والی قوموں اور ہندوستانی عوام کی سیاسی ،سماجی ،تجارتی ،عسکری اور تہذیبی ملاپ یا اختلاط کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے ۔ صوفیوں ،درویشوں اور مسلمان حکمرانوں کی فوجی نقل و حرکت سے یہ زبان شمال سے جنوب پھیل گئی ۔ اس بارے میں پریم چند نے رابطہ کی ہندوستانی زبان کو فروغ دینے کے لیے ایک ٹھوس تجویز رکھی تھی کہ شمالی ہند کے اسکولوں میں دسویں جماعت تک اردو اور ہندی دونوں زبانوں کی تعلیم کردی جائے ۔ اس کے نتیجے میں دونوں زبانوں کا ارتقاء اس ڈھنگ سے ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کے قریب آہی جائیں گی۔ غرض پریم چندنے ہندستان کی مشترکہ تہذیب اور اس کے تحفظ کے لیے جو تگ ودو کی ایسی قربانی بہت کم ادیبوں نے پیش کی ہے ۔
حواشی
۱؎ نو تحقیق(جلد ۴،شمارہ ۱۴۰)،شعبہ اردو لاہور ،گیریژن یونیورسٹی لاہور ،ص۔ ۶۴
۲؎ اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب ،مرتبہ کامل قریشی ص۔ ۱۸۶
۳؎ پریم چند قلم کا سپاہی ،ص۔ ۵۳۸
۴؎ پریم چند شخصیت اور کارنامے ،ص ۔ ۱۸۷
۵؎ اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب ،مرتبہ کامل قریشی ۔ ۱۸۷
Leave a Reply
Be the First to Comment!