رشید امجد کی افسانہ نگاری:ایک جائزہ
ذوالفقار علی
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی
ای میل :uzain014@gmail.com
بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں جن افسانہ نگاروں نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ان میں سے ایک قابل ذکر نام رشید امجد کا بھی ہے جو اپنے منفرد اسلوب اور انداز فکر کے سبب ادبی حلقوں میں معروف ہوئے۔ ڈاکٹر انوار احمد نے رشید امجد کوجدید افسانے کا قدآور نام کہا ہے رشید امجد ایک علمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ ان کے والد غلام محی الدین مونس ایک درویش صفت انسان تھے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ علم وادب کا بھی گہرا ذوق رکھتے تھے جس کی وجہ سے شاعری کی طرف بھی ان کا رجحان خاصارہا۔ وہ پنجابی اور فارسی میں شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ رشید امجد کا بچپن سرینگر کی گلیوں میں گزرا ۔ والد کے کہنے پر علم دوست استاد حبیب اللہ کے پاس پڑھنے کے لیے جاتے تھے جہاں سے غالب اور حافظ جیسے عظیم شاعروں کے نام کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار بھی سنے اور اس طرح ’’غالب‘‘ نام ان کے ذہن پر غالب ہو گیا جس کا ذکر انہوں نے اپنی خود نوشت ” تمنا بیتاب” میں یوں کیا ہے:
’’اپنے عزیزوں رشتہ داروں کے علاوہ جو پہلا اجنبی نام میرے شعور کا حصہ بنا وہ غالب تھا ‘‘۲؎
ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی ادب کے ساتھ دلچسپی بڑھتی گئی۔ بعد میں جب رشید امجد کا خاندان پاکستان منتقل ہوا تو یہاں بھی اعجازراہی،منشا یاد وغیرہ جیسے رہبر نصیب ہوئے۔ استاد غلام رسول طارق نے خاص طور پر ان کے ادبی ذوق کو نکھارا، ساتھ ہی ساتھ افتخار جالب،اور وزیر آغا جیسی عظیم شخصیتوں کی صحبت کا اثر بھی ان پر خاصا پڑا۔
جہاں تک رشید امجد کے افسانوں کا تعلق ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رشید امجد کے افسانوں میں داخلی اور باطنی دونوں طرح کے موجوعات آباد ہیں ۔ ایک طرف سے جہاں ان کے افسانوں میں داخلی موضوعات کی بھرمار ہے وہیں دوسری طرف خارجی پہلو بھی ان کے افسانوں کا نمائندہ موضوع رہا ہے۔ نفسیاتی پہلو کو اجاگر کرنے میں انہیں خاصی مہارت حاصل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مارکسی نقطہ نظر کی آواز بھی ان کے افسانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ رشید امجد کا دل عام لوگوں کے لئے ڈھڑکتا تھا اس لئے وہ ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے جہاں نہ صرف خواص بلکہ عام لوگ بھی خوشی خوشی زندگی گزار سکیں اسی لئے وہ عام لوگوں کی کہانیوں کو موضوع بناتے تھے ۔ اسی وجہ سے جب یورب اکیڈمی اسلام آباد سے ۲۰۰۶ء میں ان کی افسانوی کلیات شائع ہوئی تو اس کاعنوان بھی’’ عام آدمی کے خواب‘‘ رکھا ۔ رشید امجد کے کل بارہ افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ’’ تمنا بے تاب‘‘ کے نام سے خودنوشت بھی منظر عام پرا ٓئی ہے۔ افسانوی مجموعے درج ذیل ہے:
۱۔ بیزارآدم کے بیٹے ۱۹۷۴ء (اٹھارہ افسانے)
۲ریت پر گرفت ۱۹۷۴ء (بارہ افسانے)
۳۔ سہ پہر کی خزاں ۱۹۸۰ء (بارہ افسانے)
۴۔ پت جھڑ میں خودکلامی ۱۹۸۴ء (اٹھارہ افسانے)
۵۔ بھاگے ہے بیاباں مجھ سے ۱۹۸۸ء (سترہ افسانے)
۶۔ کاغذکی فصیل ۱۹۹۳ء (نوافسانے)
۷۔ عکس بے خیال ۱۹۹۳ء (تیرہ افسانے)
۸۔ دشت خواب ۱۹۹۳ء (چودہ افسانے)
۹۔ ست رنگے پرندے کے تعاقب میں ۲۰۰۲ء (پچیس افسانے)
۱۰۔ گمشدہ آواز کی دستک ۲۰۰۶ء (پندرہ افسانے)
۱۱۔ ایک عام آدمی کے خواب ۲۰۰۶ء (بارہ افسانے)
۱۲۔ صحراکہیں جسے ۲۰۱۲ء (انیس افسانے)
رشید امجد علامتی افسانے کے پیچ و خم سنوارنے میں پاکستان کے ایک اہم افسانہ نگار تصور کیے جاتے ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف اپنی افسانوی کائنات کو روایتی انداز سے مختلف کیا بلکہ اپنے معاصرین سے بھی منفرد نظر آتے ہیں ۔ ان کی انفرادیت داخلی اور خارجی دونوں صورتوں پر دیکھی جاسکتی ہے مروجہ اسلوب سے انحراف اور لسانی تشکیلات کا عمل ان کے فن کو ایک انوکھیت عطا کرتا ہے -جن افسانہ نگاروں نے جدید افسانے تحریر کیے ہیں خاص کر علامتی اور تجریدی افسانے لکھے ہیں وہ اپنی تخلیقات میں فن کے منطقی اصولوں کی پابندی نہیں کرتے۔ رشید امجد کے یہاں بھی افسانے کے روایتی اصولوں سے انحراف نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں پلاٹ بھی ہوتا ہے اور کردار بھی لیکن یہ پلاٹ روایتی پلاٹ اور کردار سے مختلف ہوتے ہیں ۔ انہیں الفاظ کے برتاؤ اور افسانے کے ڈکشن پر گہری دسترس حاصل ہے۔ اپنے خیالات کے اظہار کے لئے انہوں نے نت نئے تجربے کئے ہیں ۔ انہیں فلسفہ وجودیت سے گہری دلچسپی تھی اور images کا استعمال کثرت سے کرتے تھے۔ ان کے یہاں علامت اور تجریدیت کی بھی بہتات پائی جاتی ہے جن کا استعمال کر کے اردو افسانے کی پوری ماہیت ہی بدل جاتی ہے یہی علامتی انداز تحریر ان کا منفرد تشخص قائم کرتا ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کہتے ہیں کہ :
’’صحیح معنوں میں علامتی افسانے لکھنے کے سلسلے میں سب سے اہم نام رشید امجد کا ہے۔ رشید امجد نے نہ صرف ایک منفرد اسلوب اختیار کیا بلکہ کہانی اور اس کے کرداروں کے عقب میں ایک بالکل نئے اور کنوار منطقے کی تصویر دکھائی ‘‘۳؎
اس کے علاوہ انسان، انسانی رویہ، انسانی جذبات، معاشرہ، معاشیات، نفسیات، مارشل لاء،صنعتی تہذیب کی بے حسی، داخلی قرب، اپنے تشخص کی تلاش، سیاسی جبر، حالات کی ستم ظریفی،غرض مسلسل غوروفکر کے نتیجے میں افسانوی کینوس کو وسیع کیا ہے۔ ان کے افسانے کی دنیا فکر و خیال سے لے کر مابعد طبعیاتی تجربات تک پھیلی ہوئی ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ موضوعات کے اعتبار سے بھی وہ ایک اہم افسانہ نگار ہیں ۔
رشید امجد کا اسلوب بھی منفرد ہے اس پر انہیں پوری طرح گرفت حاصل ہے اور اردو افسانے کو ایک نیا اسلوب دینے میں رشید امجد کو بہت محنت کرنی پڑی ہے۔ ان کے اسلوب میں شعریت کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے جس سے ان کے جملوں پر مصرعوں کا گمان ہوتا ہے ساتھ ہی ساتھ تشبیہ، استعارہ اور علامت کی مدد سے وہ بیانیہ کی تشکیل کرتے ہیں ۔ تلمیح، تمثیل اور تصوف کی اصطلاحات کے ذریعے بھی وہ افسانے کے معنی کو وسعت دیتے ہیں ۔ تخیل آفرینی اور حقیقی مناظر کی جھلک کبھی الگ الگ اور کبھی انہیں باہم کر کے منظر کی تشکیل کرتے ہیں ۔ رشید امجد نے شاعرانہ وسائل سے اپنے افسانوں میں اس قدر کام لیا ہے کہ نثر، نظم سے قریب نظر آتی ہے۔ لفظوں کی نشست و برخاست جملوں کی ساخت کے ساتھ ساتھ تشبیہوں ، استعاروں اور علامتوں کے استعمال سے ان کے نثر پر شعریت کا گمان گزرتا ہے اور حسن و لطافت اور تغزل کی وہ خصوصیت جو شاعری کے ساتھ مخصوص ہیں ان کے افسانوں میں بھی اس کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر نوازش علی نے اپنے مضمون رشید امجد کے افسانوں کی اسلوبیاتی اساس میں ان کے اسلوب کے متعلق لکھا ہے:
’’یہ اسلوب اس کی ذات کے انکشافات کی دین ہے۔ یہ کوئی اوپر سے اوڑھا ہوا اسلوب نہیں ہے۔ اس نے استعارتی و علامتی اور شاعرانہ انداز بیان زیب داستان کے لیے اختیار نہیں کیا بلکہ اس کے تجربات و احساسات ہی ایسے تھے جن کو گرفت میں لینے کے لئے اسے شاعری وسائل سے کام لینا پڑا اس کے استعاروں اور علامتوں کے پیچھے اس کے اپنے تجربات و کیفیات کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس کے بعض استعارے تخلیقی کارنامے ہیں جو ایک خاص عہد اور ایک قوم کی تاریخ کے پورے دور پر محیط ہیں ‘‘۴؎
رشید امجد کے یہاں وقت جبر کی علامت ہے جو ابتداء سے ہی انسان کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے ان کے یہاں کردار وقت کی جابرانہ گرفت سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے جس کے لیے وہ ماضی کی سیر میں گم ہو جاتے ہیں اور تاریخ کے اوراق سے امیدوں کے گلدستے لے آتے ہیں کیونکہ تاریخ کا مطالعہ ہی قوموں کو زندہ رکھتا ہے، تاریخ سے ہی قوموں کے عروج و زوال کی واقفیت حاصل ہوتی ہے اور یہ سب کچھ مدنظر رکھ کر معاشرے میں ابھرنے والے سوالوں کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے اور ترقی کے نئے منازل عبور کرنے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔
وہ بیک وقت مختلف زمانوں میں سفر کرتے ہیں ۔ حال میں رہ کر ماضی اور مستقبل کی سیر کروآتے ہیں جس کے لیے وہ آزاد تلازمہ اور شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کرتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ دریا، سمندر اور پانی کا ذکر کرتے ہیں ۔ رشید امجد کے مطابق ہمارا معاشرہ پوری طرح حکام کے جال میں پھنس چکا ہے یہی وجہ ہے کہ حکام چاہتے ہیں کہ علم کسی بھی صورت میں پروان نہ چڑھے کیونکہ اگر ایسا ہوا تو عوام باشعور ہو جائے گی جس سے حکام کی من مانیاں بھی ختم ہوجائیں گی لہذا حکام ہر وقت عوام کو مختلف ڈھکوسلوں کے ذریعے وہ ایسے ہتھکنڈے اپناتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف وہ بلکہ ان کی نسلیں بھی مستقبل میں یہی روش اپنا کر عام لوگوں کے جسموں کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں کو بھی غلام بنا دیتے ہیں ۔ رشید امجد کے استعاراتی نظام میں تصور وقت کو اہمیت حاصل ہے وہ اپنے آپ کو کسی ایک زمانے میں مقید نہیں کرتے بلکہ ایک ایسے نقطے پرآکھڑے ہو جاتے ہیں جہاں ماضی، حال اور مستقبل یکجا ہو جاتے ہیں جس کی مثالیں ان کے افسانوں ’’ قطرہ سمندر قطرہ،لا=؟، سناٹا بولتا ہے، عکس تماشا عکس، گمشدہ آواز کی دستک ‘‘وغیرہ میں کثرت سے ملتی ہیں ۔ کرداروں کے حوالے سے رشید امجد نے ابتداء میں اپنے اردگرد کے ہی کرداروں کا انتخاب کیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے تخیل کی دنیا سے کردار ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے جس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں کہ :
’’پھر میرے اندر کوئی ایسی تبدیلی آئی کہ میں نے کرداروں کو باہر تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر ڈالنا شروع کر دیا کہ مجھ پر منکشف ہوا ہے کہ میرے اندر جہان ہے وہ باہر کی دنیا سے کہیں بڑا، پراسرار اور عظیم ہے۔ ‘‘۵؎
مرشد،شیخ اور درویش اندر کی دنیا سے تلاش کئے گئے کردار ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے افراد خانہ میں انہوں نے بیوی رخسانہ اور بیٹی سعدیہ کو بھی کئی کرداروں میں صورت بدل بدل کر پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ رشید امجد نے سڑکوں ، دیواروں ، گلیوں ، گاڑیوں اور گھر کو بھی کردار کے طور پر پیش کیا ہے۔ کرداروں کے انتخاب میں انہوں نے بڑی بصیرت اور بصارت سے کام لیا ہے ان کی مجبوری و ذہنی انتشار اور بے چینی کو ظاہر نہیں کیا بلکہ معاشرتی کجروی کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ جراحت کے اسباب مہیا کیے اور یہی انداز انہیں ہم عصروں میں ممتاز بنا دیتا ہے۔
مارشل لا کے نفاذ کو رشید امجد نے ہمیشہ ایک جبر کے طور پر دیکھا اور اپنی تحریروں میں بھی نہایت ہی ناگواری کے ساتھ برہنہ گفتاری کے بجائے علامتی انداز سے اس کی مذمت کرتے رہے ہیں جو ان کے کئی نمائندہ افسانوں میں بجا طور پر نظر آتی ہے۔ مثال کے لیے ہم ان کاافسانہ ”گملے میں اگا ہوا شہر ” لیں گے کہ جس میں مصنف نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح مارشل لا کے نفاذ سے ہر سو خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا احساس لوگوں میں کرب و بے چینی پیدا کر دیتا ہے۔ اس افسانے کے ذریعے رشید امجد نے لوگوں کے مردہ ضمیر کو جگانے کی کوشش کی ہے جو پھانسی کے بعد اس شخص کی تجہیز و تکفین میں آتے ہیں جو ان کے دلوں پر راج کرتا تھا انہی لوگوں کی بے حسی کے سبب تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ اگر وقت پر آواز اٹھاتے تو شاید وہ محبوب ان کے بیچ میں ہوتا۔ افسانے کا پلاٹ کچھ اس طرح کا ہے کہ ایک شخص تختئے دھار پر لٹکایا جاتا ہے اور یہ خبر تیزی سے پورے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ ہر سو اک سناٹا سا چھا جاتا ہے اور لوگ گھروں سے نکل کر اس میدان کی اور سفر کرتے ہیں جہاں اس شخص کو پھانسی دی جاتی ہے۔ لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا ہے اور انہیں میں افسانے کا مرکزی کردار بھی شامل ہے۔ جنازہ جوں ہی اٹھایا جاتا ہے کچھ وقت گزرتے ہی مرکزی کردار کو محسوس ہوتا ہے کہ جنازہ کہیں گم ہے اور اسی کیفیت میں ہر ایک شخص دوسرے کی اور دیکھ کر حیرانی و پریشانی کی حالت میں جنازے کی گمشدگی کے بارے میں باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ یہ خبر قبر کھودنے والوں تک بھی پہنچ جاتی ہے جو اپنا کام مکمل کر چکے ہوتے ہیں اور جب وہ جنازہ کی گمشدگی کی اطلاع سنتے ہیں تو وہ بھی فکر مند ہوجاتے ہیں کہ اب آخر وہ کس کو اس قبر میں دفن کریں گے۔ یہ افسانہ ایک اجتماعی تشکیک کے مسئلہ سے شروع ہو تا ہے جہاں سب لوگ سمجھتے ہیں کہ جنازہ گم ہو گیا ۔ جس سے دہشت کی فضا ہر سو چھا جاتی ہے جس کی وجہ سے ہر شخص اس خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کہیں اب وہ خود اس قبر کا لقمہ نہ بن جائے اور کہیں نہ کہیں یہ بات بھی ہر اک شخص کو اندر کھٹکتی ہے کہ اگر وقت پر مزاحمت کرتے تو شاید وہ شخص پھانسی سے بچ جاتا۔ پاکستان کے لوگوں کی محدود سوچ کو مدنظر رکھ کر رشید امجد نے گملے میں اگے ہوئے شہر کی علامت تراشی ہے۔ کیونکہ گملا محدود ہوتا ہے اس میں لگے پودے کی جڑیں محض ایک خاص حد تک ہی بڑھ سکتی ہیں ۔ ایسے ہی پاکستان کے لوگ ہیں جو اس گملے میں اگے ہوئے پودے کی طرح ہیں جو اپنے محبوب ترین لیڈر کو بچانے کے لیے اس دائرے سے باہر ہی نہیں آئے۔ اس طرح اسے سولی پہ لٹکا دیا گیا لہذا افسانہ نگار ان لوگوں کو اب بھیڑیے سے تعبیر کرتا ہے۔
رشید امجد نے اپنے فنی سفر میں مختلف مسائل کا سامنہ کیاہے ۔ ابتدا ہی میں ایوب خان کے مارشل لا ء سے واستہ پڑا،پھر سقوط ڈاکہ ،یحییٰ کا مارشل لاء،زیا کا مارشل لاء،بٹھو کی پھانسی،اور نائین الاوین جیسے کئی حادثوں کا تجربہ اور مشاہدہ حاصل کیاہے ۔ اور ان حالات اور واقعات سے رشید امجد کے افسانوں کے موضوعات نے جنم لیا۔ انہوں نے ماحول اورحالات کی قرب ناکی کی اذیت کو محسوس کیا،اور افسانوی کرداروں کی صورت میں پیش کیا۔ ان کے ہاں اجتماعی یا انفرادی سطح پر عہد کی بے چینی ،گمشدگی ،شناخت وعدم شناخت،شناخت اور جبروقرب کی کیفیات نے کرداری سطح پر ناسٹلجیا کی تخلیق کی اور ساتھ ہی ساتھ ان کا اپنا ناسٹلجیا بھی ان کے افسانوں میں نمایاں طور پر نظرآتا ہے۔
٭٭٭
حوالہ جات
۱۔ تمنا بے تاب، ص 23،حرف اکادمی، راولپنڈی،اشاعت دوم، ستمبر 2003
۲۔ وزیر آغا، ڈاکٹر، پاکستان میں اردو ادب کے پچاس سال، مشمولہ اوراق، جنوری۔ فروری 1979، 289
۳۔ رشید امجد ایک مطالعہ،ڈاکٹر شفیق انجم،ص 74
۴۔ میں اور میرے کردار، مشمولہ،عام آدمی کے خواب،ص21
Leave a Reply
Be the First to Comment!