رتنؔ پنڈوروی حیات وادبی خدمات

IQBAL AHMED

Research Scholar

Deptt. of Urdu Persian & Arabic

Punjabi University Patiala,(Punjab)

India

Pin 147002

Email:oafgme9111@gmail.com

Contact +919419109197

مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والے شاعر پنڈت رلارام نے اردو دنیا میں رتن ؔپنڈوروی کے نام شہرت پائی ۔ ان کا تخلص رتنؔ تھا اور پنڈوری گاؤں میں پیدائش کی وجہ سے پنڈوروی کہلائے ۔ رتن ؔکاضلع گرداس پور کے ایک گاؤں پنڈوری میں ۷جولائی ۱۹۰۷ء میں ایک برہمن گھرانے میں جنم ہوا تھا۔ رتنؔ پنڈوروی اپنی پیدائش کے متعلق اپنے پہلے شعری مجموعے’’ فرشِ نظر ‘‘میں لکھتے ہیں کہ:

 ’’یہ زاویہ نشین فقیردنیا جہاں کے آلام وشدائد کوساتھ لیتاہوا بتاریخ۷ جولائی۱۹۰۷؁ء میں ایک غریب مگر قانع برہمن پنڈت متھراداس بھاردواج کھٹ شاستری کے گھر بمقام پنڈوری ضلع گرداسپور(پنجاب) تولد ہوا‘‘ ۱؎

رتنؔ پنڈوروی نے قصبہ گھمان کے ایک اسکول جو پنڈوری گاؤں سے تقریبا ًایک میل دوری کے فاصلے پر تھا وہاں پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ایک غریب خاندان میں جنم لینے کی وجہ سے نہایت ہی غربت اور تنگدستی میں پانچویں جماعت تک تعلیم مکمل کی۔ اس دوران متعدد بار ہی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر فاقہ کشی کی نوبت پیش آتی رہی۔ اپنی تعلیم اور غریبی کے بارے میں ان الفاظ میں لکھتے ہیں کہ:

’’آبائی گاؤں موضع پنڈوری سے ایک میل کے فاصلے پر قصبہ گھمان سے پانچویں جماعت پاس کی وہ بھی شدائدومکائد کے طوفانی حملوں کا مقابلہ کر کے۔ ہاتھ تو خیر ازل سے ہی خالی تھا پیٹ بھی بسا اوقات خالی رہ کر ستم بالائے ستم کا معاملہ پیش کرتا رہا‘‘۲؎

 پانچویں جماعت تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدغربت کے باعث مزید تعلیم جاری رکھنا رتنؔ پنڈوروی کے لئے مشکل تھا ۔ مگر قسمت مہربان ہوئی ایک پڑوسی نے رتن ؔکی مزید تعلیم کی ذمہ داری لی اور امرتسر کے خالصہ اسکول بابا بکالا میں فیس معاف کروا کے داخلہ دلوا دیا۔ کھانے پینے کے اخراجات کا ذمہ اس کے ننھیال والوں نے لیا۔ مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اس کے بعد رتن ؔپنڈوروی کے ایک استاد جن کا نام منشی مادھورام تھا نے رتن کو دو روپے ماہوار دینے کا وعدہ کیا اور گرداس پور کے ایک فارسی مڈل اسکول میں داخل کروا دیا ۔ رتنؔ کی غربت کو دیکھتے ہوئے اسکول کے ہیڈ ماسٹر نے فیس معاف کر دی صرف یہی نہیں بلکہ کبھی کبھارپہننے کے لئے کپڑے بھی دے دیا کرتے تھے ۔ یہ اسکول رتن ؔکے گاؤں پنڈوری سے سات میل کے فاصلے پر تھا پیادہ پا اسکول چل کے آنا جانا مشکل تھا ۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:

’’ اسکول آبائی گاؤں سے سات میل کے فاصلے پر تھا ایک کمسن اور وہ بھی فاقہ زدہ بچے کا روزانہ آنا جانا ناممکن تھا ۔ اسکول کی کوئی عمارت نہ تھی درختوں کے پتے چھت کا کام دیتے تھے اور زمین فرش مکلف کا‘‘۳؎

 یہ ا سکول جس کی نہ کوئی عمارت تھی اور نہ ہی کوئی چھت چھپر اس کے قریب ایک خانقاہ تھی رتنؔ پنڈوروی اسی خانقاہ میں رہنے لگے۔ کھا نا خود بناتے تھے ہر اتوار کو گاؤں جایا کرتے تھے اور واپسی پر ساتھ ہفتہ بھر کے لئے راشن لے آتے تھے ۔ جب گھر سے آٹا نہ ملتاتوبارہا نوبت یہاں تک پہنچتی کہ درختوں کے پتے بھی ابال کر کھانے پڑتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مزدوری بھی کرتے تھے تا کہ تعلیمی ضرورت کی اشیاء کاپی، پنسل اورکتاب وغیرہ میّسر ہو سکیں لکھتے ہیں کہ:

’’ میرا پیٹ خالی ہے تعلیم کی دیگر ضروریات کاپی کتاب وغیرہ کے لئے گھاس کاٹنی پڑتی تھی اور ایندھن فروخت کرنا پڑتا تھا‘‘۴؎

۱۹۲۲ء میں کافی محنت مشقّت اور تکلیف برداشت کرتے ہوئے ۱۵ سال کی عمر میں مڈل فارسی میں پاس کیا ۔ ان دنوں فارسی مڈل پاس کر لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ والدین بیٹے کی ملازمت کے خواب دیکھنے لگے مگر ملازمت ہاتھ نہ آئی ۔ اپنے فارسی مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے رتنؔ کو بارہ روپے ماہوار پر اسی اسکول میں چپراسی رکھ لیا ۔ اپنی پہلی ملازمت کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

 ’’کوتاہ بختی کے ساتھ ساتھ کوتاہ قامتی بھی اس معاملہ میں سد راہ تھی ۔ اس پر فاقوں کے کڑاکرانے نے صحت کا صفایا بول دیا تھا۔ عمر بھی چھوٹی تھی نوکری ملتی بھی تو کیوں کر ہر طرف سے مایوس ہو کر اپنے ہیڈ ماسٹر کی خدمت میں پہنچا انہوں نے اپنے زیر سایہ اسکول میں ۱۲ روپے ماہوار کا چپڑاسی رکھ لیا‘‘۵؎

اسی اسکول میں ملازمت کے دوران انہیں پتا چلا کہ محکمہ تعلیم میں پرائمری مدارس کی کچھ آسامیاں خالی ہیں اور انہیں استادوں کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں اپنے گاؤں سے کئی میل کی دوری پر ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس گورداسپور کے دفتر تک پیدل سفر کیا اور وہاں پہنچنے پرجواب ملا کہ افسوس اب کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔ مایوسی کے عالم میں واپسی کا سفربھی پیدل ہی طے کیا ۔ رتنؔ نے گرداس پور کے ایک اسکول میں داخلہ لیا جس سے رتن ؔکو آٹھ روپے ماہانہ وظیفہ بھی ملتا تھا ۔ اس اسکول سے فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ۱۹۲۵ ء میں رتنؔ کو نائب مدرسی کی ملازمت بیس روپے ماہانہ پر مل گئی۔

 مطالعے کا رتن ؔپنڈوروی کو بے حد شوق تھا مگر غربت کے باعث کتابیں نہیں خرید سکتے تھے ۔ پیدل سفر کر کے دور دور سے کتابیں مستعار لاتے اور کتابیں نقل کرنے کے بعد واپس لوٹا دیا کرتے تھے ۔ اس سلسلے میں لاہور کابھی کئی بار پیدل سفر کیا۔ رتن ؔنے۱۹۳۲ء میں منشی فاضل اور۱۹۳۶ ء میں ادیب فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد گرداس پور کے ایک ہا ئی اسکول میں بطور فارسی مدرس نوکری مل گئی تھی ۔ اب ان کی تنخواہ میں بھی اضافہ ہوا جو بیس روپے ماہوار سے بڑھ کر ۳۰ روپے ماہانہ ہوگئی ۔ زندگی کے کافی نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ کے بعد۱۹۶۲ء میں اسی اسکول سے سبکدوش ہوئے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد رتن ؔپنڈوروی اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے رہے اور آخر کار پنجاب سے تعلق رکھنے والا اردو کا یہ سپاہی۴ نومبر ۱۹۹۰ ء کو ۸۳ سال کی عمر میں وہ بمقام پٹھانکوٹ زندگی کی آخری سانس لے کر اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

 پنڈت رتن ؔپنڈوروی بیک وقت شاعر، ادیب ،مدرس ،مورخ ،اصلاح کار ،مترجم اور محقق تھے ان کی تقریباً بیس کتابیں مطبوعہ اور دس کے قریب غیر مطبوعہ ہیں ۔ ان کا ادبی سرمایہ نثرونظم ،تاریخ ،درسی اور اصلاحی کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان کے سلسلہ نظرکے شعری مجموعوں کی تعداد پانچ ہے جو فرش ِنظر، بہشت ِنظر ،انداز ِنظر ،پیام ِنظراو رآخری نظر کے نام سے شائع ہوئے تھے۔ ان کے علاوہ اصلاحِ دیہات،پیغامِ عمل اور رباعیاتِ رتن بھی ان کے شعری مجموعے ہیں ۔ ان کی درسی کتب جو پرائمری جماعت سے کالج تک کے طلبہ کے لیے لکھی گئی تھیں ۔ ان میں دستور القوائد ،گلشن اردو، رہنمائے اردو زبان و ادب،بہارِ حساب اور گلزارِ حساب وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کی درسی کتب میں گلشن ِاردو کافی اہم کتاب ہے اس کتاب میں صرف و نحو کی اقسام معنی و مطالب کی ادائیگی ،تصحیح اغلاط ،انشا پردازی ،مقالات ،تمثیلات و تشبیہات وغیرہ کا ذخیرہ جمع ہے ۔ یہ ضخیم کتاب سات سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب اس وقت کے ایجوکیشن بورڈ کے نصاب کے اعتبارسے کافی اہم تھی ۔ اس کے علاوہ غیر مطبوعہ کتب کی جو فہرست دستیاب ہوئی ہے ان میں مضامین رتن ،داستان ِادب،شرح دیوان ِ غالبؔ،تذکیروتاینث ،گرداب، گنج ادب ،کلید ادب ،مقالات ِ فارسی ،کلید ترجمہ فارسی اور جیمنی اشومیدھ کااردو ترجمہ شامل ہیں ۔

رتن ؔپنڈوروی نے آٹھویں جماعت میں محض پندرہ برس کی عمر میں اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ بلاشبہ شاعری قدرت کاایک ایسا عطا کردہ تحفہ ہوتاہے جو ہر کس وناکس کو میسر نہیں ہوتا مگراس میں بھی شک وشبہ نہیں ہے کہ غربت،بے کسی ،بے بسی،کوتاہ بختی اور عشق ومحبت میں ناکامی وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو شاعر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ ان تمام چیزوں سے رتنؔ کو دوچار ہونا پڑا تھاجس کا بین ثبوت گذشتہ صفحات میں مل جاتا ہے کہ رتنؔ نے اپنی ولادت سے لیکر تعلیم اورملازمت تک کا سفر کن حالات میں اورکیسے طے کیا۔ اپنی شاعری کے آغاز کے متعلق لکھتے ہیں کہ

’’آٹھویں جماعت ہی سے دلی تاثرات و جذبات کو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں پیش کرنے لگا‘‘۶؎

رتن ؔپنڈوروی نے پہلے دلؔشاہجہاں پوری کی شاگردگی اختیار کی اورخط وکتابت کے ذریعے ان سے اشعار پر اصلاح لیتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد جوشؔ ملسیانی سے بھی شرفِ تلمذ رہا۔ رتن ؔ کے آٹھ شعری مجموعے ہیں لیکن میری رسائی صر ف پانچ مجموعوں تک ہوئی ہے۔ تلاش ابھی بھی جاری ہے۔ ان کے تمام شعری مجموعات کی دستیابی کے بعد کلیات ِرتنؔ کے نام سے مرتب کرنے کا خاکہ بھی تیار کرلیا ہے۔ فی الوقت ان ہی پانچ مجموعوں کو پیشِ نظر رکھ کر رتن ؔکی شاعری پر سرسری خامہ فرسائی کرنے کی کوشش کرونگا۔ رتن ؔنے جملہ اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور کامیاب بھی ہوئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں غزلیں ،نظمیں ،رباعیاں ،قطعے ،نعت ،حمد ،سلام اور مراثی وغیرہ شامل ہیں ۔ رتنؔکے شعری ذخیرے میں غزلوں کی تعداد زیادہ ہے۔

رتنؔپنڈوروی کی زندگی ایک تارک الدنیا،خداپرست اور نیک نفس صاحب فن کی زندگی تھی۔ عمر کا ایک حصہ ایک ویران مندر میں اور بیشتر حصہ اردو ادب کی خدمت میں گزارا۔ ان کے اشعار میں ان کی زندگی کی جھلک موجود ہے۔ تمام کلام تصوف کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ تصوف صرف ان کی شاعری کا موضوع ہی نہیں بلکہ ان کی دل کی آواز ہے اوراس کے علاوہ شاعرا نہ رنگینی بھی ان کے کلام میں ہر جگہ موجود ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔

لطف خودی یہی ہے کہ شانِ بقا رہوں

انسان کے لباس میں بن کر خدا رہوں

کبھی الفت کا قصّہ کھول کر کہنا ہی پڑتا ہے

بڑا مشکل ہے گو کہنا مگر کہنا ہی پڑتا ہے

گو بہت دور ہے محبوب مگر دور نہیں

آنکھ ہو آنکھ تو مستور بھی مستور نہیں

رتنؔ پنڈوروی نے ایسی موزوں طبیعت پائی تھی کہ نہ صرف ہر صنف میں بلکہ ہر رنگ میں استادانہ صلاحیت رکھتے تھے۔ مشکل سے مشکل زمینوں میں بڑے دلچسپ شعر کہے ہیں ۔ آخری نظر سے یہ اشعار

میں بلبل ہوں تو نغمہ ہے،میں ساز ہوں تو اس کا پردہ

میں محوِ ادا تو حسنِ ادا ،میں اور نہیں ، تو اور نہیں

میں تجھ میں ہوں تو مجھ میں ہے،میں ظاہر ہوں تو باطن ہے

میں تیری ضیا تو میری ضیا ،میں اور نہیں تو اور نہیں

؎زندگی خوابِ پریشاں کے سوا کچھ بھی نہیں

موت تفریقِ تن وجاں کے سوا کچھ بھی نہیں

حسن والوں کی محبت آزما کر دیکھ لی

اس میں سوز و یاس و حرماں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

ایک اور غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں

زندگی کی راہ میں راحت بھی ہے کلفت بھی ہے

کارگاہِ دہر میں عسرت بھی ہے عشرت بھی ہے

اے خدا تو ہی بتا میں کون سے عالم میں ہوں

تیری دنیا سے مجھے نفرت بھی ہے رغبت بھی ہے

اگر چہ رتنؔ بظاہر ایک سناتن دھرمی ہندو تھے لیکن تعصب کبھی ان کے نزدیک تک نہیں آیاتھا۔ جہاں ایک طرف انہوں نے گائتری منتر کا ترجمہ کیا وہیں دوسری طرف انہوں نے سرورِکائنات حضرت محمدﷺ کی نعت بھی لکھی،حمد بھی لکھیں اور سلام بھی۔ گائتری منتر میں صرف لفظ اوم کی جو تشریح رتنؔ نے کی ہے اس کے دو شعرملاحظہ کریں ۔

اے سراپا نور اے حسنِ ازل

خالقِ خلق اے خدائے عزّوجل

لاشریک لازوال ولامکاں

بے عدیل وبے مثال وبے بدل

نعت کے دو شعر

آیا ہے لب پہ نام رسول ِؐ کریم کا

جلوہ تڑپ اٹھا ہے ریاضِ نسیم کا

بحرِعدن میں لاکھ ہوں لُولوئے شاہور

کچھ رنگ روپ اور ہے دُرِّیتیم کا

رتن ؔنے مسدس ،مخمس ،رباعی،قطعہ ہر صنف میں کمال فن کے جوہر دکھائے ہیں ۔ ان تمام اصناف کے نمونہ جات دکھانے کے لئے ان کی شعری خدمات پرایک الگ سے مقالہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ رتن ؔ کی شاعری کے یوں تو کئی موضوعات ہیں لیکن تصوف اور اخلاقیات ان کے خاص موضوع ہیں ۔ پنڈت رتن ؔپنڈوروی کے کلام میں لکھنٔو کاقدیم رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے اور پنجابی ہوتے ہوئے بھی انھیں اردو زبان وبیان پر مکمل عبور اور بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ رتن ؔ نے شاعری میں بالکل سادہ ،صاف، ستھری،پاکیزہ اور سلجھی ہوئی زبان کا استعمال کیا ہے۔ اردو کے بلند پایہ ناقد پروفیسر آل احمد سرور لکھتے ہیں کہ:

’’رتن صاحب کا شمار اردو کے ان اہم اشعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شاعری سے زبان و ادب کی بہت خدمت کی ہے۔ انہوں نے دل شاہجہانپوری اور جوشؔملسیانی جیسے شعراء سے فیض حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہیکہ ان کا کلام کسی عیب یا سقم سے پاک ہے‘‘۷؎

 ان کے تراجم میں شریمد بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ سرِمغفرت کے نام سے شامل ہے ۱۷۷ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ماہنامہ شان ِہند دہلی سے ۱۹۸۴ء میں شائع ہوئی ۔ رتن پنڈوروی شریمد بھگوت گیتا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’یہ ایک بے نقاب حقیقت ہے یہ شریمد بھگوت گیتا زندگی کے جملہ مسائل کا بہترین کامیاب اور لاجواب حل پیش کرتی ہے فلسفہ حیات کی مکمل ومشرح تفسیرفی الحقیقت گیتا ہی ہے‘‘۸؎

 رتن ؔپنڈوروی نے شریمد بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ سرِمغفرت کے نام سے چار مہینے میں مکمل کیا ودیاپرکاش سرور تونسوی اس منظوم ترجمہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

’’ میں ابوالبلاغت پنڈت رلا رام رتن پنڈوروی کا تاابد ممنون ِاحسان رہوں گا کہ انہوں نے میری درخواست پر گیتا کا ایسا بہترین اور عام فہم اور انمول ترجمہ فرمایا کہ آج تک گیتا کا ایسا بہترین ترجمہ نہیں ہوا‘‘۹؎

 رتن ؔکے کیے گئے منظوم ترجمے میں شلوکوں کی تعداد ۷۰۰ ہے اور اردو اشعار۲۰۱۸ ہیں رتنؔ پنڈوروی بطور شاعر تو کافی شہرت اور اہمیت رکھتے ہی تھے مگرشاعری کے علاوہ ادب میں ان کا میدان تاریخ ،تحقیق اور ترجمہ بھی رہا ہے ۔ ان کی تحقیقی کتب میں نورتن، ہندی کے مسلمان شعراء اور تحقیقی مباحث شامل ہیں اپنی نثراور تحقیق کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

’’ شعر و شاعری کے علاوہ بچپن ہی سے نثر نویسی کا شوق بھی دامن گیر رہا ۔ چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے گزر کر ادبی ،فنی اور تحقیقی مضامین تک بات آپہنچی ،لغوی ولسانی تحقیق ادبی و فنی تجسس کا سودا یہاں تک متجاوز کر گیا کہ بصارت وسماعت بھی ساتھ چھوڑ گئیں آپریشن تک نوبت آپہنچی‘‘۱۰؎

رتنؔ پنڈوروی کی بیس مطبوعہ کتابوں میں سے دس تک میری رسائی ہوئی ہے جن میں پانچ نثری اور پانچ شعری ہیں ۔ یہاں صرف ان کی نثری کتب جو تحقیقی ،تنقیدی اور درسی نوعیت کی ہیں کامختصرسا تعارف کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان کی تحقیقی و تنقیدی کتب میں نو رتن، ہندی کے مسلمان شعراء اور تحقیقی مباحث اہم ہیں ۔

 نورتن:رتنؔ پنڈوروی کے نو تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل مجموعہ نورتن کے نام سے ۱۹۵۳ء میں کتب خانہ انجمن ترقی اردو ،اردو بازار دہلی سے شائع ہوا ۔ مذکورہ مجموعے میں شامل تمام مضامین مطبوعہ ہیں اور وقتاً فوقتا ًرسالہ رہنمائے تعلیم میں شائع ہوتے رہے تھے ۔ شاملِ مجموعہ تمام مضامین اہم ہیں ان مضامین کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب مضمون نے ان کے لکھنے میں کافی محنت و مشقت کی ہے بغیر تحقیق کے اور گہرے مطالعے کے ان مضامین کو سپردِ قلم کرنا ناممکن تھا۔ اس کتاب میں شامل مضامین ہماری تعلیم میں مادری زبان کا درجہ ،اردو کاسب سے بڑا مصنف ،قدیم ہندی ڈرامہ، اردو ڈرامہ، رباعی، تدریس اردو ،مثنوی، قصہ چہار درویش اور ادبِ جدید شامل ہیں ۔ ان میں سے چند مضامین پر تفصیلی بحث کی ہے اور رتن ؔپنڈوروی کی یہ تحقیقی کتاب ایک ایسے زمانے میں منظر عام پر آئی جب اردو تحقیق پنجاب بالخصوص مشرقی پنجاب میں دم توڑ چکی تھی اُس وقت بھی اردو کے اس مرد ِمجاہد نے تحقیق کی شمع کو جلائے رکھا اگرچہ اس کی آنکھوں کی بصارت نے بھی اس کا ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا اس کتاب کو یہ اعزاز بھی حاصل تھاکہ پنجاب یونیورسٹی کے اردو امتحان ادیب کے نصاب میں کئی برسوں تک شامل رہی تھی۔ جوش ملسیانی اس کتاب اور اس کے خالق کے بارے میں ان الفاظ میں لکھتے ہیں :

’’یہ ادبی کاوش ،یہ شوقِ تحقیق،یہ ذوقِ تدقیق اور یہ کامیاب انشاپردازی بھی ان اصحاب کا انگشت بدندان کر دینے کے لیے کافی ہے جو اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ایک مفلوک الحال اور غم زدہ ادیب کے روح فرسا مصائب اسے ادبی زندگی سے کنارہ کش ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں مسلسل غم و اندوہ میں بھی اگر کوئی شخص اپنے ادبی جنوں کو نہیں چھوڑتا اور دماغ سوزی ہی کو اپنا بہترین مشغلئہ حیات خیال کرتا ہے تو بلاشبہ وہ بہت ہی تحسین وآفرین اور قدر شناسی کا مستحق ہے‘‘۱۱؎

ہندی کے مسلمان شعراء: اس کتاب میں ہندی زبان کے مسلمان شعراء کا تذکرہ مع تصویر ہے ۱۹۸۲ء میں مکتبہ شان ہند دہلی سے شائع ہوئی ۔ شانِ ہندکے ایڈیٹر اس کتاب کی عظمت کو دیکھتے ہوئے اسے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کے مستحق قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

’’ ایسے اس حقیقت کے بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہندی کے مسلمان شعراء ۱۹۸۲ء کی مطبوعات میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کی مستحق ہے کاش کہ آزاد ہندوستان میں سفارش اور خود غرضی کا بول بالا نہ ہوتا‘‘۱۲؎

 میں ایڈیٹر کی اس بات سے متفق ہوں کہ کتاب بہت اہم ہے اور ایوارڈ کی مستحق بھی ہے مگر اس حقیقت سے نہ تب انکار تھا اور نہ آج کیا جا سکتا ہیکہ ایوارڈ صرف انہی کتابوں کو ملتے ہیں جن کی سفارشات اعلیٰ عہدے داروں اور جان پہچان والوں سے کروائی جاتی ہیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہیکہ برسوں پہلے ادیبوں کے ساتھ جو ناانصافیاں ہوتی تھیں آج بھی وہ جاری وساری ہیں ۔ میں کسی ایک کتاب کا نام نہیں لوں گا بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسی کتابیں مل جاتی ہیں جن پر ایوارڈ دیے جا رہے جو کہ ایوارڈ تو دور خریدنے کے قابل بھی نہیں ہوتیں ۔ ایسا صرف اردو زبان میں ہی نہیں ہے بلکہ دوسری زبانوں میں بھی اس طرح کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کتاب میں ہندی زبان سے متعلق تحقیق ہے مسلمانوں کا ہندی زبان سے تعلق اور خدمات یہ ایک بے مثال اور لازوال کارنامہ ہے جو محققین اور طلبا کے لیے کافی اہم ہے۔

تحقیقی مباحث: رتن ؔکی یہ کتاب۱۶ تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے ۔ شاملِ کتاب تمام مضامین آزادی کے بعد مختلف رسائل میں چھپتے رہے ان میں آجکل ،نگار ،شان ہند اور رہنمائے تعلیم شامل ہیں ۔ یہ کتاب شان ہند پبلیکیشنز نئی دہلی سے۱۹۸۸ء میں شائع ہوئی اس کتاب کی اشاعت کے بارے میں رتن پنڈوروی لکھتے ہیں کہ:

’’ پچھلے دنوں محسن ِاتفاق محسن ِگرامی ومربی نظامی حضرت سرور تونسوی صاحب کا حکم نام مشرف ِصدور لایا کہ اپنے مضامین کو ترتیب دو شائع کئے جائیں گے اس ارشاد ِمسرت کے پیش ِنظر میں مذکورہ بالا رسائل سے مضامین مرتب کرکے صاحب ممدوح الصدور کی خدمت فیض ِدرجات میں پیش کر دیے جو زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر ناظرین باتمکین کے پیش نظر ہیں ‘‘۱۳؎

 رتن ؔپنڈوروی نے ایک ایسے وقت میں مشرقی پنجاب میں اردوزبان و ادب اورتحقیق کے چراغ کو چراغاں رکھا جب اردو تحقیق تو دور کی بات اردو والے بھی اس خطے میں اکا دکا دکھائی دیتے تھے۔ رتن ؔکی ادبی وتحقیقی خدمات کا احسان ہمیشہ مشرقی پنجاب کے اردو زبان و ادب پررہے گا۔ لیکن رتنؔ کے اس احسان کو اردو طبقہ بالخصوص مشرقی پنجاب کے اردو طبقہ نے نظر انداز کیا ہے اور ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں کوئی تحقیقی کام انجام نہیں دیا ۔ رتن ؔپر تحقیقی کام تو دور کی بات کسی نے مضمون تک نہیں لکھا ۔ مشرقی پنجاب کی جامعات میں لکھے جانے وا لے شاعری کے حوالے سے تقریباً تمام تحقیقی مقالے میری نظر سے گزرے ہیں ۔ ایک ادھ مقالے میں صرف ان کانام لکھا گیا ہے کوئی تعارف یا ان کے کلام کا تجزیہ نہیں کیا گیا ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایک ایسا قلمکار جس کی بیس مطبوعہ اور دس غیر مطبوعہ کتابیں ہوں اسے کیسے نظر انداز کیا جا سکتاہے۔ رتنؔ کی ان تیس کتابوں میں سے ا ٓٹھ تو صرف شعری مجموعے ہی ہیں اور باقی نثری کتابیں جو تحقیق،تنقید،درسی اور تاریخی وغیرہ کتابوں پر مشتمل ہیں ۔ رسائل کی روایت رہی ہے کہ شعراء وادباء کی خدمات کے اعتراف میں ان پر خاص نمبرشائع کیے جاتے رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔ مگر رتن ؔ پنڈوروی پر کسی رسالے نے خاص نمبر نہیں شائع کیا۔ بیرونِ پنجاب کے رسائل کی بات تو چھوڑیے مشرقی پنجاب سے شائع ہونے والے رسائل نے بھی رتنؔ کا نمبر نہیں شائع کیا۔ رتنؔ کو کس قدر نظر انداز کیا گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہیکہ ان پر تحقیق تو دور کی بات کسی نے تنقید بھی نہیں کی۔ ان کے شعری مجموعوں کو مع مقدمہ کلیاتِ رتن کے نام سے بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ مشرقی پنجاب کی جامعات کے شعبہ اردو کو چاہیئے کہ کم از کم رتنؔ کی حیات و خدمات پر ایک تحقیقی مقالہ لکھوایا جائے اور ان کی شاعری کو کلیات کی شکل میں مرتب کیا جائے تاکہ ان کے اردو پر احسانات کا کچھ نا کچھ حق ادا ہوسکے۔

٭٭٭

حواشی

۱؎(فرش نظر،پنڈت رلارام ص ۱۱، ۱۹۶۵ء)

۲؎(ایضاً ص۱۱)

۳؎(ایضاً ص۱۲)

۴؎(ایضاً ص۱۲)

۵؎(ایضاً ص۱۳)

۶؎(ایضاً ص۱۶،۱۷)

۷؎(آخری نظر ،پنڈت رلارام ،ص۱۸،۱۹۸۴ء)

۸؎(سرِمغفرت،رتن پنڈوروی، ص ۱۲،۱۹۸۴ء)

۹؎(ایضاً ص۵)

۱۰؎(فرش نظر، پنڈت رلارام ،ص۲۰)

۱۱؎(نو رتن ،پنڈت رلارام،ص ۹،۱۹۵۳ء)

۱۲؎(آخری نظر ،پنڈت رلارام،ص۸،۱۹۸۴ء)

۱۳؎(تحقیقی مباحث،رتن پنڈوروی ،ص۷،۱۹۸۸ء)

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.