وحشی سعید کی افسانہ نگاری ۔ ۔ ۔ رومانیت سے حقیقت تک

عروسہ فاروق ،ریسرچ اسکالر یونی ورسٹی آف کشمیر

ریاست جموں و کشمیر اردو ادب کا ایک اہم دبستان ہیں جس نے اردو ادب کی تاریخ کو اپنی نگارشات کی وجہ سے مالا مال کیا ۔ یہاں کے ادباء اور شعراء نے یہاں سے گزرتے ہوئے برصغیر میں بھی اپنی ایک شناخت قائم کی، غنی کاشمیری سے لے کر عصر حاضر میں ترنم ریاض تک ایسے کئی قلم کار ہیں جنہوں نے اپنے فن کی بدولت اردو زبان و ادب کوایک وسعت عطا کی ۔ ریاست میں جب بھی فکش خاص کر اردو افسانہ کی بات کی جائے تو وحشی سعید ساحل کا نام یہاں کے نامور افسانہ نگاروں کے ساتھ لیا جاتا ہیں انہوں نے اردو افسانے کی خدمت کر کے اپنی ایک پہچان قائم کی ۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز اپنی تعلیم کے دوران ایس پی کالج کے معروف میگزین ’’ پرتاب ‘‘ سے کیا ۔ شروع شروع میں ان کے افسانوں میں رومانیت کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے،اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ افسانے انہوں نے عنفوان شباب کے زمانے میں لکھے ہیں ۔ یہ افسانے ان کے دو مجموعے ’’ماضی اور حال‘‘(اول اور دوم)میں شامل ہیں ۔ ’’ماضی اور حال‘‘کے عنوان سے ہی تیسرا مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے جس میں رومانیت سے بھر پور موضوعات کی ناولٹ شامل ہے۔ ’’ماضی اور حال ‘‘میں شامل میں افسانہ ’’وہ عورت‘‘ایک شرابی عورت کی کہانی ہے جو راوی کو دہلی کے ایک ہوٹل کے سامنے اپنی روداد ِ جہاں سناتی ہے،عورت اپنے آپ کو غریب باپ کی بیٹی بتاتی ہے جس کی عزت امیر وں کی جاگیر بنی تھی اب وہ صرف شراب کی وجہ سے زندہ ہے وہ راوی سے ۲۰ روپیہ کا مطالبہ کرتی ہے روای اس سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا ہے لیکن عورت ۲۰ روپیہ لے کر چلی جاتی ہے۔ اس دوران راوی کا دوست وہاں سے گزرتا ہے ۔ ۔

’’کیوں یار تم بھی۔ ۔ ‘‘

 ’’یار یہ جو لڑکی گی ہے اس کر ساتھ اونچی سوسائٹی نے اچھا نہیں کیا ‘‘

 اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’اچھا تو تمہیں بھی اس نے بے وقوف بنایا ۔ یار وہ ہر نئے آدمی کو الگ الگ من گھڑت کہانی سناتی اور ۲۰ روپئے لے لیتی ہے‘‘(افسانہ عورت)دراصل مصنف نے افسانے میں عورتوں کی چال بازی کو سادہ الفاظ میں بیان کیا ہے۔

            افسانہ ’’پتھر کے صنم‘‘غریبی اور امیری کا بہترین ترجمان ہے ۔ اقبال ذہین اور ایمان دار ہونے کر ساتھ ساتھ شاعر بھی ہے۔ کالج میں پڑھائی کرتا ہے اس کے برعکس اسلم امیر زادہ ہے جو اسی کالج میں پڑھائی کرتا ہے۔ اقبال کی دوستی ایک امیر لڑکی سے ہے جو اسلم کی برداشت سے باہر ہے ۔ آگے افسانے میں اسلم کی شادی اسی لڑکی سے ہوتی ہے اقبال کو ان دونوں کی شادی سے بڑا دکھ ہوتا ہے لیکن وہ اپنی غریبی میں دن گزارنے میں مصروف ہوجاتا ہے ،دوسری طرف اسلم اور اس کی بیوی کی طلاق ہوجاتی ہے۔ اسلم اپنی بیوی پر بہت سارے الزامات عائد کرتا ہے اور اس کی جائیداد بھی ہڑپ لیتا ہے۔

            مصنف نے امیری اور غریبی کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق انسان اور بد اخلاقی کو بھی موضوع بنایا ہے ۔ اقبال کے ذریعے مصنف نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایک انسان تب تک غریب نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے خوش اخلاق اس کے ساتھ نہ ہو۔ افسانہ چونکہ جوانی میں لکھا گیا ہے اسلیے جوانی کے سارے رنگ افسانے میں چھلکتے ہیں ،کالج میں پڑھنا ،لڑکیوں کی باتوں میں محو رہنا، ایک لڑکی کی خاطردو لڑکوں کاآپس میں جھگڑناوغیرہ جیسے موضوعات شامل ہیں ۔ ان موضوعات کا اطلاق وحشیؔ نے عنفوان شباب کے دور میں بخوبی کیا ہے۔

            وحشی سعیدکے اب تک کئی افسانوی مجموعے سامنے آچکے ہیں جن میں ’’ سڑک جارہی ہے ‘‘ ’’کنوارے الفاظ کا جزیرہ‘‘ ’’ خواب حقیقت ‘‘ ، ’’ آسمان میری مٹھی میں ‘‘ اور ’’ارسطو کی واپسی ‘‘ ’’آخر کب تک ‘‘شامل ہیں ۔ ۔ ’’ارسطو کی واپسی‘‘ افسانوی مجموعہ وحشی سعید کے فن کا تابناک مظاہرہ اور مشاہدہ ہے۔ مجموعے میں سماجی حقیقت نگا ری سے جس طرح پردہ اتٹھایا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ یہ مجموعہ مختلف افسانوں ،تجزیاتی مطالعوں اور چند ایک تبصروں پر مبنی ہے۔ اس مجموعے کے دیباچے میں وحشی سعید یو ں لکھتے ہیں :

’’ اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے افسانوں کی دنیا سے دور چلا گیا ،لیکن اس دوران بھی افسانہ میرے ذہن میں پنپتا رہا ، میرے قلم کو قوت بخشتا رہا اور جب میں لوٹ کر آیا تو مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ نہ صرف ماضی میں میرے پڑھنے والوں نے میرا استقبال کیا بلکہ نئی نسل بھی میرے نام سے ناواقف نہ تھی میں سمجھتا ہوں کہ ایک کہانی نگار کے لیے یہ سب سے اہم اور بڑا انعام ہے ۔ ۔ ۔

ارسطو کی واپسی ‘‘پیش خدمت ہے اس تعلق سے یہ کہنا چاہوں گا کہ اس میں آپ کو چالیس سال قبل کا وحشی سعید اور آج کا وحشی سعید دونوں نظر آئیں گے ۔ ‘‘ ؎۱

’’ارسطو کی واپسی ‘‘ مجموعے میں شامل اسی نام سے ایک خوبصورت کہانی ہے۔ جس میں انسانی اقدار کی پامالی کا رونا رویا گیا ہے ۔ ایسے واقعات نہ جانے روزانہ بنیادوں پر فلسطین،افغانستان،لیبیا اور کشمیر میں آئے روز ہوتے رہتے ہیں ۔ اوردوسری طرف اس میں کشمیر کے حالات و و قعات کو موضوع ِ بحث بنا کر پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے :

’’ وہ عام شہری ‘‘ جس کو فوجیوں نے بکتر بند گاڑی کے سامنے والے حصے پر باندھ لیا تھا ، اس سے سنسان شہر کی سنسان گلیوں اور سڑکوں پر گھمارہے تھے ۔ وہ فوجی اپنی اس فتح پر ناچ رہے تھے ۔ ۔ ۔

بگل بجا بجا کر اپنی جیت کا اعلان کر رہے تھے ‘‘

     (افسانہ : ارسطو کی واپسی ، ص ۲۶۔ ۲۷)

اس اقتباس سے یہاں کے عوام کی حیثیت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس طرح سے یہاں کے معصوم نوجواں کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے اور حکومت پامال کرنے والے آفسروں کوانعام و اکرام سے نوازتے ہیں ۔ اس افسانے کا موضوع قاری کو سوچنے پر تلقین کرتا ہے کہ آخر کیوں مصنف نے اس افسانے کا نام ارسطو کی واپسی رکھا ہے دراصل ارسطو نے اپنے دور میں انسانی اقدار اور حقوق کو پامال نہیں ہونے دیا اوراسی لیے افسانہ نگار پھر سے شاید اسی ارسطو کی تلاش میں ہے۔

اس افسانے میں انسانی اقدار کی پامالی کے حوالے سے افسانے کے مرکزی کردار سکندر اعظم کو اپنے استاد ارسطو کی نصیحت یاد آجاتی ہے :

’’میرے سب سے بڑے اور عزیز شاگرد سکندر !تمہیں تاریخ نے ایک سنہرا موقع فراہم کیا ہے ۔ اب تک تم صرف فتح عالم تھے ۔ اب تم سکندر اعظم بننے والے ہو شرط یہ ہے کہ انسانی اقدار کو پامال نہیں ہونے دو گے ‘‘ (افسانہ : ارسطو کی واپسی ، ص ۲۶۔ )

وحشی سعید کی مقبولیت کا راز یہ بھی ہے کہ ان کے افسانوں کے موضوعا ت متنوع نوعیت کے مالک ہیں ۔ وسیع موضوعات کے ساتھ ساتھ ان کے یہاں مختلف رنگ کے کردار نظر آتے ہیں ان کے افسانوں میں مختلف تجربوں اور مشاہدوں کا احساس ہوتا ہے ۔ ان کے افسانوں کی قراء ت کرنے بعد احساس ہوتا ہے کہ انہیں زبان و بیان پر اچھی خاصی دسترس حاصل ہے انہوں نے مشرق و مغرب کی تہذیب و تمدن کا غور سے مطالعہ کیا ، حالا ت و واقعات کی بھر پور عکاسی اپنے افسانوں میں کی ۔ اس حوالے سے نورشاہ یوں رقم طراز ہیں :

’’ ایک باشعور افسانہ نگار کی طرح وہ حالات و واقعات کی صحیح اور سچی عکاسی اپنے مخصوص لب و لہجہ اور پر اثر اندازِ تحریر میں کرتے ہیں ، بڑی بات تو یہ ہے کہ ان کے علامتی افسانوں میں کہانی پن کا طلسم قائم رہتا ہے ‘‘۔ ؎۲

اس مجموعے میں شامل دوسرا افسانہ ’’ سامری ‘‘ کے نام سے ہے جس میں انہوں نے ماں کے جذبات کو اجاگر کیا ہے ، اس افسانے میں جب لوگ ایک نو زائید بچے کو گود میں اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور سب لوگ اس بچے کو منحوس بچہ کہہ کر پکاتے ہیں لیکن ماں کے جذبات کو کس چابکدستی سے مصنف نے برتا ہے اس تعلق سے افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے :

’’ لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے ۔ وہ اپنے نوزائید بچے کو اپنے چھاتی کا دودھ پلا رہی تھی ۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں کا دریا بہہ رہا تھا روتے ہوئے ہچکیاں لیتے ہوئے اپنے بیٹے کی پیٹ کو سہلاتے ہوئے کہتی ۔ ۔ ۔

’’سو جاو ۔ ۔ ۔ راجا بیٹے سوجاو ۔ ۔ ۔ ‘‘ (افسانہ : سامری ،ص ۳۶)

’’بھنگی ‘‘اس مجموعے کا ایک عمدہ افسانہ ہے جو تقریباً ان کے دیگر افسانوں پر حاوی ہے اس افسانے کا مرکزی کردار صمد۔ ۔ ۔ ’’ بھنگی‘‘ ہونے کے باوجود بہت مزے کی زندگی گزار رہا ہے ان کی صرف ایک خواہش تھی کہ ان کے ہاں ایک اولاد پیدا ہو ۔ آخر کا ر ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے لیکن صمد بھنگی اپنے بیٹے کو بھنگی نہیں بلکہ ایک کامیاب اور بڑے آدمی کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے لیکن وقت کی ظالم دارا اور سماجی جکڑبندیوں نے ان کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنا دیا اور آخر کار بھنگی کا لڑکا بھنگی بن جاتا ہے اس افسانے میں ایک درد ناک حادثہ اس وقت پیش آتا ہے جب صمد بھنگی کا بیٹا لال چوک کی سڑک صاف کرتے کرتے موٹر کی زد میں آجاتا ہے ،اور افسانے کا اختتام یوں ہوتا ہے :

’’دوسرے دن میں نے صمد کو سٹرک پر اپنے ہی بیٹے کے خون کے دھبوں کو صاف کرتے ہوئے دیکھا ۔ ۔ ۔

کیوں کہ ۔ ۔ ۔ وہ ۔ ۔ ۔ بھنگی تھا ۔ ‘‘(افسانہ ،بھنگی ،ص ۵۰)

اصل میں اس افسانے میں افسانہ نگار قاری کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ بھنگی کا لڑکا بھنگی ہی بنے ۔ اور جس طرح سے ہمارے سماج میں اےNotion create ہوا ہے کہ ڈاکٹر کا لڑکا ڈاکٹر ،وکیل کا لڑکا وکیل ، نائی کا لڑکا نائی ، موچی کا لڑکا موچی ۔ لیکن مصنف سماج کے اس بنائے ہوئے قانون پر طنز کے تیر برساتے ہیں اور سماج کے اس روایتی اور دقیانوسی سوچ پر قاری ضرب لگاتے ہیں اس افسانے کا تجزیہ کرتے ہوئے ’’ جاوید انور ‘‘ یوں رقم طراز ہیں :

’’ بھنگی کا عنوان ہمارے ذہن کو بے ساختہ کرشن چندر کے مشہور افسانہ’’ کالو بھنگی ‘‘کی جانب لے جاتا ہے ۔ یہ بھی گمان گزرتا ہے کہ جن افسانہ نگاروں نے بعد میں اس کردار کو ذہن میں رکھ کر افسانے لکھے ہونگے ان کے تخلیقی ذہن پر یقینا کالو بھنگی کا کچھ نہ کچھ پرتو رہا ہوگا کیوں کہ بھنگی کے کردار پر سب سے پہلے کم از کم اردو میں قلم اٹھانے والے افسانہ نگار کا نام کرشن چندر ہے ۔ لیکن جب ہم وحشی سعید کے افسانے بھنگی کا مطالعہ کرتے ہے تو مسرت ہوتی ہیں کہ انہوں نے کرشن چندر سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے ایک بہترین افسانہ تخلیق کیا ہے ـ۔ ‘‘ ؎۳

وحشی سعید نے اس افسانوی مجموعے میں ایک بہترین ڈکشن کا استعمال کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک ایسے اسلوب سے کام لیا ہے جو انہیں یہاں کے مقامی فکشن نگاروں سے منفرد کرتا ہیں ۔

            افسانوعی مجموعہ’’ آخر کب تک ‘‘میں شامل ایک بہترین کہانی ’’سزا اور جرم‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔ افسانے میں سماج کے حقیقی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ افسانے میں مزاحمت کی طرف اشارہ ملتا ہے،یوں توافسانے میں کسی ایک جگہ کا تانا بانا پیش کیا جاتا ہے ۔ متذکرہ افسانہ میں ہر ملک ،کشمیر سے کنیا کماری تک کے ایک جیسے حالات بیان کیے گیے ہیں ۔ مصنف نے افسانے میں سکندر(کردار)کے ذریعے ملک بہ ملک کا سفر کیا ہے،سفر کی شروعات ادھیا سے ہوتا ہے ،ادھیا کے حالات و واقعات سے تنگ آکر سکندر کے گھر والے بمبی ہجرت کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اپنی جان کو بچانے کے لیے جہاں آئے ہیں وہاں بم دھماکے سے سکندر کے والداور گھر کے باقی افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے،گھر کی ساری ذمہ داری سکندر کے سر آجاتی ہے اور یوں وہ پڑھائی سے دستبردار ہو کر ہیروں کا کاروبار کرتا ہے اس سلسلے میں انہیں طرح طرح کے ممالک کا سفر کرتاہے۔ افسانہ نگار نے سکندر کے ذریعے قاری کو مختلف ممالک کے حالات و واقعات سے باور کرایا ہے۔ دنیا کا ہر گوشہ چاہے ممبی ،ایودھیا،افریقہ،بلجیم ،نیویارک یا پھر امریکہ ہو کسی جگہ پر انسان کو سکون میسر نہیں ہوتا۔ افسانے کا اختتام سکندر کی موت سے ہوتا ہے جس میں آخر پر سکندر کے بیٹے کی آنکھوں میں بہت سارے سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے باپ کو کس جرم کی سزا ملی۔

مختصر اً یوں کہہ سکتے ہیں کہ وحشی سعید نہ صرف ریاست میں معروف ہے بلکہ اردو ادب کی معاصر افسانوی دنیا کا ایک اہم نام ہے جو اپنی نگارشات کی وجہ سے ریاست سے باہر اپنا نام کما چکے ہیں اور قاری کو اپنی کہانیوں سے مستفید کرتے آرہے ہیں ۔

حوالہ جات :

۱۔ وحشی سعید ، ارسطو کی واپسی، میزان پبلیکیشنز ،سرینگر ، ۲۰۱۷ء ، ص ۶

۲۔ نورشاہ ، وحشی سعید فن اور شخصیت کے تناظر میں ،بحوالہ :ارسطو کی واپسی، میزان پبلیکیشنز ،سرینگر ، ۲۰۱۷ء ، ص ۱۵

۳۔ جاوید انور ،بھنگی تجزیہ ،بحوالہ ، ارسطو کی واپسی، میزان پبلیکیشنز ،سرینگر ، ۲۰۱۷ء ، ص ۵۱

پتہ:

Orussa Farooq

Natipora ,pamposh colony srinagar

lane no.10 ,house no. 130

email: orussashyakh123@gmail.com

cell: 8082706051

pincode: 190015

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.