اقبال اور خواجہ عبدالحمید یزدانی

Iqbal and Khawja Abdul Hameed Yazdani

ڈاکٹر نائلہ عبدالکریم

Dr. Naila Abdul Karim

Federal Urdu University

Islamabad

Abstract:

Love is the real essence of God. Love is source of contacts between creator and creature. Love is the eternal life. The way to love is arduous and patience trial, but not unbelievable. Therefore, the person gets a lesson to love Muhammad (PBUH) from Masnavi of Rumi. Whose preaching Iqbal also did in his word. And through own book (Zikr-e-Rasool Masnavi Rumi Main), Dr.khawaja Abdul Hameed Yazdani gave the proof of own love and belief and Ishq and delivered to reader the important theme of Masnavi into simple sense. Thus Iqbal and Dr. Khawaja Abdul Hameed Yazdani both arranged to convey the Rumi’s message to the reader. Therefore, in this article it is explained that Ishq-e-Rasool is the source of salvation.

اقبال کے کلام کا حاصل عشق ہی قربِ الہٰی کا ذریعہ ہے۔ عشق ہی خالق و مخلوق میں رابطے کا سبب ہے۔ اس لیے عقل کو عشق کے مدمقابل کھڑ ا نہیں کیا جاسکتا۔ عشق کیو جہ سے ہی ابراہیمؑ پر آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوئی۔ عشق میں ہی حضرت یعقوبؑ کی رو رو کر بینائی چلی گئی۔ عشق ہی سے میدان کربلا میں حضرت حسینؑ کا سر بلند ہوا۔ یہاں تک کہ حضرت اویس قرنی نے بھی حضور انورؐ کا زمانہ پایا مگر دیدار نہ کرسکے۔ پھر بھی حضورؐ سے غائبانہ عشق رکھتے تھے۔ عشق کی وجہ سے ہی صدیق اکبرؓ و بلال حبشیؓ جیسی عظیم ہستیاں بنیں ۔ عشق سے ہی انعامات و کرامات خداوندی، سرفراز ی و سربلندی اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں ۔ اس لیے اقبال کے ہاں بھی ہمیں مختلف حوالوں سے عشق کا درس ملتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں :

؎ عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام

 اس زمین و آسمان کو بے کراں سمجھتا تھا میں

 صدق خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق

 معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق(1)

اقبال ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہے جنہوں نے ہمیشہ ایک صحت مند اور مثبت معاشرے کا خواب دیکھا۔ اقبال کے اعلیٰ افکار ہی مغربی دنیا میں بھی مقبولیت کا باعث بنے۔ انہوں نے ان اقوام کے ہاں جاکر اعلیٰ سوچ کی آبیاری کی جو مسلم اُمہ کے منافی معاشرہ تھا۔ سید میر حسن سے شروع ہونے والا علمی سفر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے پر ختم ہوا۔ مگر مسلم امہ کے لیے مفکرانہ علوم کی بازیافت کے لیے وسیع دائرے میں سوچ جاری رہی۔ اقبال کے ہاں عقل اعلیٰ مقام کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ حیلے بہانے، ہچکچاہٹ، تذبذب، بدگمانی جیسےادنیٰ اوصاف کی مالک ہے۔ جبکہ اس کے برعکس عشق کسی بھی میدان میں کودنے کے لیے دیدہ و دلیری، جرأت و بے باکی اور نفع و نقصان کے تخمینے کے بغیر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے کام سرانجام ہوجاتے ہیں جو انسان کی عقل و فہم کا احاطہ نہیں کرتے۔ اسی لیے اقبال فرماتے ہیں   ؎

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

عشق فرمودہ قاصد سے سبک گام عمل

عقل سمجھتی ہی نہیں معنی پیغام ابھی (2)

اقبال کے ہاں عقل کا دائرہ محدود اور عشق لامحدود وسعت و طاقت کا مالک ہے۔ یہ عشق ہی ہے جس کی بنا پر رہتی دنیا تک عوام و خواص نہ صرف فیض حاصل کرتے رہیں گے بلکہ آپ کی تقلید پر فخر محسوس کریں گے۔ علامہ محمد اقبال دراصل مولانا روم سے بہت متاثر تھے۔ اس لیے اقبال کی شاعری میں بھی جابجا وہی موضوعات ملتے ہیں ۔ جو مولانا روم کی مثنوی رومی میں زیر بحث ہیں ۔ مولانا جلال الدین رومی ایسی عظیم اور منفرد شخصیت ہیں جن کی مثنوی عشق رسولؐ سے لبریز ہے جس میں اشعار کے ذریعےآپؐ سے حقیقی عشق کی بات کی گئی ہے۔ اسلیئے اقبال اور رومی کے کلام میں عشق محمدؐ کا درس ہی مماثلت کا باعث ہے۔ ان دونوں معزز شخصیات کی فکر کو مکمل احاطہ تحریر میں لانے کے لیے ان گنت صفحات درکار ہیں ۔ لیکن اس مضمون میں اقبال، رومی کے آپس کے تعلق کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کی مثنوی مولانا روم کے حوالے سے کی گئی کاوش کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا۔ اقبال نے اپنے روحانی پیشوا مولانا رومی سے اپنے کلام کے حوالے سے فیوض و برکات حاصل کیں ۔ اس لیے علامہ اقبال اپنے پیرو مرشد مولانا رومی کے بارے میں کہتے ہیں :

پیر رومی خاک را اکسیر کرد

از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد(3)

مولانا رومی نے فارسی زبان میں مثنوی لکھ کر حکمت و معرفت کے دریا بہادیئے۔ انہی صفات کی بنا پر یہ مثنوی نسل انسانی کی کئی روحانی بیماریوں کے لیے علاج کا باعث ثابت ہوئی۔ مثنوی کی زبان فارسی ہونے کی وجہ سے اس کی لاتعداد شرحیں ، ترجمے اور فرہنگ لکھے گئے۔ چونکہ مثنوی مولانا رومی چھ دفاتر پر مشتمل ہے اس لیے ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے ’’ذکر رسولؐ ۔ ۔ مثنوی رومی میں ‘‘ کے عنوان سے اپنی تصنیف کو مثنوی مولانا روم کے مطابق چھ دفاتر میں ترتیب دیا جس میں ان اشعار کو درج کیا گیا جن میں آپؐ کی سیرت مبارکہؐ کا ذکر کسی نہ کسی نسبت، حدیث اور روحانی حوالے سے کیا گیا ہے۔ یہ کتاب آپؐ کی سیرت مبارکہ پر مبنی ہے۔ تاہم مولانا رومی نے ارشادات نبوی کو شعری جامہ میں نظم کرکے پیش کیا۔

گر توکل می کنی در کار کن
کار کن پس تکیہ بر جبار کن
گفت آرے ار توکل رہبرست
این سبب ہم سنت پیغمبر ست
گفت پیغمبر بآواز بلند
بر توکل زانوئے اشتر بہ بند
رمز الکاسب حبیب اللہ شنو
از توکل در سبب کامل مشو
در     تو کل   کسب    و جہد     اولیٰ    تر ست

تا حبیب حق شعری ایں بہتر ست(4)

ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے حضور پر نور احمد مصطفیٰ ﷺ کے ذکر خیر کے حوالے سے اشعار کو سیاق و سباق کے ساتھ پیش کیا۔ کیونکہ مولانا رومی نے مثنوی میں بالالتزام نعت و مدحت رسول نہیں لکھی اور ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے مولانا رومی کا مدعا بیان کرنے کے لیے قاری کے لیے مثنوی سے استفادہ کے لیے وہ اشعار ایک ہی کتاب کی شکل میں درج کیے جن سے آپؐ کی سیرت مبارکہ کی برکات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ آپؐ کی اعلیٰ صفات کی وجہ سے جن بابرکت اسماءِ گرامی سے آپؐ کو پکارا گیا۔ وہ اشعار بطور نعت درج کیے۔ مثلاً:

بود در انجیل نام مصطفی ۔
آن سر پیغمبراں بحر صفا ۔
بود ذکر حلیہ با و شکل او ۔
بود ذکر غز و صوم و اکل او ۔ (5)

اقبال کے کلام پر رومی کے اثرات ہونے کی وجہ سے علامہ تصور عشق مصطفی میں عمل کی گرمی اور عرفان مصطفیٰ کی قوت سے پوری دنیا پہ غالب آنے کی حقیقت سے پردہ کشائی کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں :

ہر کہ عشق مصطفیٰ سامان اوست
بحر و بر در گوشہ دامان اوست(6)

مولانا رومی نے نیک و بد کی تفریق، شرک کی نفی، دنیوی عیش و عشرت سے اجتناب، توحید کا پرچار، شہادت کا رتبہ، صبر کی تلقین، جیسے اعلیٰ و ارفع اوصاف کی تلقین کی۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ دنیا کی محبت میں اگر کوئی پھسل پڑے تو اس سے نجات کیسے ممکن ہے۔ مولانا فرماتے ہیں :

بند بگسل باش آزاد ای پر
چند باشی بند سیم و بند زر
گر برتری بحر را در کوزہ ای
چند گنجد قسمت یک روزہ ای
کوزہ چشم حریصاں پر نہ شد
تا صدف قانع نشد پر در نہ شد
او زِ حرص و عیب کلی پاک شد(7)

ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے مثنوی کی تفہیم کے لیے ’’ذکر رسول ۔ ۔ ۔ مثنوی رومی میں ‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر قاری کے لیے سہولت پیدا کی اور دانستہ طور پر ادق مسائل سے بچتے ہوئے مثنوی میں سے ان اشعار کو چنا گیا ہے جن میں آپؐ کے ذکر خیر کی تفصیل ملتی ہے۔ کیونکہ دشمن اپنی ناکامی کا سبب آپؐ کے برحق ہونے کی بجائے اپنے بدقسمت ہونے کو گردانتے۔ حالانکہ عنبر و مشک اور سرگین کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے مولانا رومی نے عشق کو وہ قوت اور طاقت کہا ہے جو انسان کی زندگی میں انقلاب برپا کردیتا ہے اور زندگی کی مشکلات، دکھ، درد اور تلخیوں کو آسان اور شیریں بنا دیتا ہے۔

از محبت تلخ با شیریں شود
از محبت درد با صافی شود
از محبت میں با رزین شود
از محبت درد با شافی شود(8)

علامہ اقبال بھی جس عشق و مستی کو انسانی ارتقا کے لے لازم قرار دیتے ہیں وہ صرف عشق رسول ہی ہے۔ علامہ اقبال پر یہ حقیقت عیاں ہوچکی تھی کہ معرفت رسول ہی معرفت دین کا دوسرا نام ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک عشق مصطفی سر دین بھی ہے اور وسیلہ نجات بھی۔ اسرارِ خودی میں ایک نظم میں لکھتے ہیں :

بوریا ممنون خواب راحتش
در شبستان حرا خلوت گزید
ماند شبہا چشم او محروم نوم
از کلید دیں در دنیا کشاد
  تاج کسریٰ زیر ہائے امتش
قوم و آئین و حکومت آفرید تا بہ تخت خسروی خوابید  قوم
ہمچو او بطن اُم گیتی نزاد(9)

آپؐ نے خود بوریے پر حیات مبارکہ بسر کی مگر امت کو فروغ بخشا کہ تاج کسریٰ ان کے قدموں تلے روندا گیا۔ یہاں تک کہ آپؐ نے غار حرا میں تنہائی میں راتیں بسر کیں تاکہ آپؐ کی امت تخت سروری پر متمکن ہو۔ آپؐ نے یہ راز آشکار کیا کہ دین کی کنجی سےدنیا کا دروازہ کھولو گے تو راہِ راست پاؤ گے۔

مولانا رومی مثنوی میں بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت اور اللہ کی قدرت پر غور و فکر کرنے پر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کفار کی بدبختی کہ انہوں نے آپؐ کو نہ پہچان کر مخالفت و مخاصمت کی۔ حالانکہ کائنات میں انسان کی قدر و قیمت کا تعین نور مصطفیؐ کی وجہ سے ہے۔ اقبال کہتے ہیں :

ہر کجا بینی جہان رنگ و بو
یا ہنوز اندر تلاش مصطفیٰ است
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یاز نور مصطفیٰ آن را بہااست(10)

یعنی جہان رنگ و بو میں آپ جہاں بھی دیکھیں جس کی خاک سے بھی آرزو پروان چڑھتی ہے اور پیدا ہوتی ہے یا تو اس کی قیمت اور قدر ہستی نور مصطفیٰ کی وجہ سے یا پھر ابھی وہ مصطفیٰ کی تلاش میں ہے۔ یعنی جس نے کچھ پایا وہ بھی نور مصطفیٰ کے صدقے میں ہے اور جو سفر کمال کی طرف گامزن ہے وہ دراصل مصطفیٰ ہی کی تلاش میں ہے۔ گویا کمال کی آخری حد کا نام مصطفیٰ ہے اور جو کوئی بھی منزل کمال جستجو میں ہے، درحقیقت وہ مقام مصطفیٰ ہی کی تلاش میں ہے۔

ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے مثنوی مولانا روم کے بیشتر مضامین و مطالب کو اس کتاب میں سمودیا ہے جو اہل نظر اور اہل دل دونوں کے لیے نسخۂ کیمیا ہیں ۔ ڈاکٹر ظہیر صدیقی ’’ذکر رسولؐ ۔ ۔ ۔ مثنوی رومی میں ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی کی عمدہ کاوش کو یوں سراہتے ہیں :

’’ڈاکٹر صاحب ایک عرصے سے اردو اور فارسی ادبیات پر لکھ رہے ہیں اور اہل نقد و نظر سے داد وصول کر رہے ہیں ۔ موصوف کی تحریریں پختہ اور بصیرت افروز ہوتی ہیں ۔ اندازِ تحریر سادہ، شستہ اور شگفتہ ہوتا ہے۔ ‘‘ (11)

ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے آپؐ کی ذات بابرکات کی فضیلت مثنوی مولانا روم کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپؐ کے طفیل ہی تاریکیوں کے بادل چھٹ گئے۔ اسی لیے علامہ اقبال تصورِ عشق مصطفیٰ میں عمل کی گرمی اور عرفان مصطفیؐ کی قوت سےپوری دنیا پہ غالب آنے کی حقیقت سے پردہ کشائی کرتے ہیں اور علامہ اقبال فرماتے ہیں :

؎ ہر کہ عشق مصطفیٰ سامان اوست
بحر و بر در گوشہ دامانِ اوست(12)

مولانا رومی آپؐ کی تعریف و توصیف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپؐ نے اپنی چشم مبارک سے جو کچھ دیکھا اس کی تاب تو حضرت جبریل بھی نہ لاسکے۔ یوں پھر ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے دفتر اول تادفتر ششم ’’طفل و کودک‘‘ کی تمثیلات بطور سند پیش کیں تاکہ مولانا رومی کے فلسفۂ عشق کا پورا نچوڑ سمٹ آئے۔ رومی اس عشق کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ جس کی بدولت جسم خاکی نے افلاک کی طرف پرواز کی۔ جس نے آدم کو وہ مرتبہ اور مقام عطا کیا کہ فرشتے بھی اس مقام اور مرتبے کو نہ پاسکے۔ یہ وہی عشق ہے جو ہماری تمام تر امراض کا شافی علاج ہے۔

شاد باش اےعشق خوش سودای ما
اے حبیب جملہ علت مای ما
اے دوای نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جسم خاکِ از عشق بر افلاک شد
کوہ در رقص آمد و چالاک شد(13)

یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا رومی کو آپؐ کی ذاتِ اقدس سے والہانہ عشق تھا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے مثنوی مولانا روم لکھ کر دنیا کے طول و عرض میں اپنے عشق کو پیش کیا۔ جس کی تشریح و تعبیر علامہ محمد اقبال نے کی۔ جس کی وجہ سے مولانا رومی کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا۔ جبکہ اس کے برعکس ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی نے مولانا رومی کے آپؐ سے والہانہ عشق کو اپنی محققانہ بصیرت سے انمول نمونہ بنایا جس کے نتیجے میں ’’ذکر رسول ۔ ۔ ۔ مثنوی رومی میں ‘‘ جیسی بلند پایہ تصنیف وجود میں آئی۔ جس سے مصنف کی اآپؐ سے گہری اور عمیق محبت ٹپکتی ہے۔ اس لیے مصنف نے مذکورہ کتاب قارئین کی خدمت میں پیش کرکے ناقابلِ بیان احسان سے نوازا ہے۔ یوں علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹر خواجہ عبدالحمید یزدانی دونوں نے مولانا رومی کے پیغام یعنی آپؐ سے عشق ہی دنیا و مافیہا میں نجات کا ذریعہ ہے کا پرچار کیا۔

حوالہ جات

۱۔  محمد اقبال، علامہ، بال جبریل، حسامی بک ڈپو، لاہور، س۔ ن، ص ۔ ص ۱۴، ۸۴

۲۔  محمد اقبال، علامہ، بانگ درا، طبع پانزدہم، ۱۹۵۳ء، ص ۳۱۸

۳۔  عبدالباقی گوالیناری، مولانا جلال الدین، زندگی نامہ و آثار، انسانی و مطالعات فرہنگی، تہران، ۱۳۷۵ھ، ش، ص ۲۷۵

۴۔  جلال الدین رومی، مثنوی مولوی معنوی، پیکجز لمیٹڈ، لاہور، س۔ ن، ص ۱۷

۵۔  ایضاً، ص ۱۰۲

۶۔  محمد اقبال۔ ، علامہ، پیام مشرق، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۶۳ء، ص ۸

۷۔ جلال الدین رومی، مثنوی مولوی معنوی، جلد اول، ص ۳۳

۸۔ ایضاً، ص ۳۳۰

۹۔ شائستہ خان، مرتب اسرار خودی (فراموش شدہ ایڈیشن)، مکتبہ جامعہ، دہلی، ص ۳۷

۱۰۔ محمد اقبال، علامہ، کلیات اقبال (فارسی) جاوید نامہ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، ۱۹۷۳ء، ص ۷۱۹

۱۱۔  محمد منور، پروفیسر، مدیر اقبالیات، جلد ۲، شمارہ ۴، اکادمی ادبیات، لاہور، ۱۹۸۵ء، ص ۱۷۰

۱۲۔  محمد اقبال، علامہ، پیام مشرق، ص ۸

۱۳۔  جلال الدین رومی، مثنوی مولوی معنوی، دفتر ۵، ۳۳

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.