اورحان پاموک اور “سرخ میرا نام” ایک تنقیدی جائزہ

عاطف شبیر،ریسرچ اسکالر، پی ایچ ڈی، اردو

نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز، اسلام آباد

اٹک، پنجاب ۔ پاکستان

موبائل/وٹس ایپ:

+92-3415121510

ای میل:

atifofficial99@gmail.com

 نوٹ:

)میں تحریری طور پر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ یہ مقالہ اس سے قبل کسی بھی پلیٹ فارم سے شائع نہیں کیا گیا(

*****

 

 

اورحان پاموک:

            اورحان پاموک ۷ جون ۱۹۵۲ء کو ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں پیداہوئے۔ ان کے آباء و اجداد چونکہ ماہر تعمیرات تھے یوں انہیں بھی اس شعبے میں آنےکے لیے آمادہ کیا گیا۔  اسی مد میں اورحان نے تعمیرات کے فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اسی دوران انہوں نے صحافت کی تعلیم بھی حاصل کی۔ لیکن ۲۳ سال کی عمر میں ان کا رجحان لکھنے کی طرف ہوا جس میں انہوں نے ناول نگاری کا انتخاب کیا۔ اورحان کا یہی رجحان ا ن کی باقی کی زند گی کا ہمیشہ کے لیے مقصد بن گیا۔ اس ساری صورت حال کا تذکرہ اورحان اپنی ایک تقریر میں کچھ اس انداز سے کرتے ہیں :

“Between the ages of 7 and 22, I dreamed of being a painter. During my childhood and early youth, I painted with a happy and passionate sense of purpose. But by the time I stopped painting at the age of 22, I knew that I had no choice but to devote my life to art. At the same time, I had no idea why I gave up painting at the age of 22 and began to write my first novel, Cevdet Bey and Sons.” (1)

اورحان پاموک نے ۳۰ برس کی عمر میں تاریخ نگار Aylin Türegün سے شادی کی۔ جس سے ۱۹۹۱ء میں ایک بیٹی رویا کا جنم ہوا۔ اورحان کی ازدواجی زندگی ۲۰۰۱ء میں ان کی اور ایلن کے مابین طلاق کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچی۔

 اورحان پاموک کو کتب سے آشنائی تو بچپن سے ہی تھی۔ آپ کے والد محترم جو پیشے کے لحاظ انجینئر تھے لیکن کتب بینی کا خوب شوق رکھتے تھے۔ بات صرف شوق تک ہی محدود نہ تھی بلکہ انہوں نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سے لائبریری بھی بنا رکھی تھی۔ جس میں لگ بھگ پندرہ سو کتب موجود تھیں ۔ اس صورت حال کا تذکرہ اورحان یوں کرتے ہیں :

“My father had built his library from his trips abroad, mostly with books from Paris and America, but also with books bought from the shops that sold books in foreign languages in the 40s and 50s and Istanbul’s old and new booksellers, whom I also knew. My world is a mixture of the local – the national – and the West.”(2)

اورحان پاموک بھلے ہی بچپن سے مصوری کے شعبے میں جانا چاہتے تھے لیکن دوسری طرف کتب کے ماحول میں  لاشعوری طور پر ان کے اندار لکھنے والے حس بد ستور نشوونما پارہی تھی۔ یہی حس ایک منجھے ہوئے تخلیق کار Cevdet Bey and Sons (1982) کے روپ میں منظر عام پر آتی ہے۔ ناول نگاری کے ساتھ اورحان پاموک فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھتے رہے۔ لکھنے کے عمل کے ساتھ ساتھ وہ کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے بھی تعینات رہے۔ جہاں وہ تقابلی ادب پر لیکچر دیتے رہے۔

ایک لمبے عرصے تک لکھنے والیمیز کے ساتھ چپکے رہنے والے اورحان پاموک سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ لکھتے کیوں ہیں ؟ تو ایک ہی جواب در آتا ہے کہ، میں دو طرح کی کیفیات میں لکھتا ہوں ، ایک یاتو میں بہت خوش ہوتا ہوں ، دوسرا یا پھر میں غمگین ہوتا ہوں ۔ لیکن یہ سب خود کو پرسکون رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔ اور مجھے اس سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔

اورحان پاموک ایک روشن خیال اور ترقی پسند سوچ کے مالک ہیں ۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ غیر جانبداری سے کام لیا۔ انہوں نے کبھی کسی خاص مکتبہ فکر کے لوگوں کے نمائندگی نہیں کی بلکہ وہ انسانیت ہمیشہ اولین ترجیح دیتے رہے۔ ترکی میں آرمینیاوں ، کردوں  اور دیگر اقلیتوں کی ہمیشہ سے وکالت کرتے ہیں ۔ اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپریل ۱۹۱۵ ء میں سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں ہونے والی آرمینیا اور کردوں کی نسل کشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں ۔ جب کہ ترکی میں ان پہلووں پر بات کرنا ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ جس کا سامنا اورحان پاموک کو بھی کرنا پڑا۔ اس حوالے سے Armine Sargsyan لکھتے ہیں :

“Orhan Pamuk became an advocate of human rights in Turkey. He stood by his words even as he was facing up to three years in prison. In an interview with BBC News he stated, “What happened to the Ottoman Armenians in 1915 was a major thing that was hidden from the Turkish nation; it was a taboo. But we have to be able to talk about the past.” His statement was meant to stand for freedom of expression rights in Turkey and allow others to speak about the history of the early twentieth century.”(3)

حقائق کو منظر عام پر لانے کی بنیادی وجہ ترکش ملک و قوم کی ذلت و رسوائی نہیں بلکہ موجودہ ترک حکومت کے غیر منصفانہ نظام پر تنقید کرنا ہے، جس میں اقلیتوں کے حقوق پر بہت بڑاڈاکا ڈالا گیا۔ اورحان کا تاریخی حوالہ جات کا اپنی تحریر وں میں بیان کرنے کا اصل مقصد ہی یہی ہے کہ ہمیں ماضی میں کی ہوئی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے نہ کہ وہی غلطیاں دوبارہ دہرانی چاہیں ۔ ان اسی کاوش پر ان کو نہ صرف جیل اور جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں قتل کی دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی بنا پر اورحان کو ترکی چھوڑنا پڑا۔ تاہم سماجی حقیقت نگاری اور انسانیت کے لیے وہ برابر آواز اٹھاتے رہے۔ اس حوالے اورحان پاموک کا بیانیہ ڈاکٹر راجندرا اپنی تحقیقی کتاب A Study of The Depiction of History, Politics And Culture in the Novels of Orhan Pmuk میں یوں نقل کرتے ہیں :

“But while speaking in an interview with Alexander Star, he says: “I was not a political person when I began writing 20 years ago… But later, as I began to get known both inside and outside of Turkey… that the Turkish state was damaging democracy, human rights and the country. So I did things outside of my books.”(4)

لکھاری اپنے معاشرے اور ثقافت کا بہترین عکاس ہوتا ہے۔ وہ اپنے سماج کا پس منظری حوالے سے جائزہ لے کر پیش منظر کو بیان کرتا ہے۔ اورحان پاموک نہ صرف گہرا تاریخی و وسماجی شعور رکھتے ہیں بلکہ ان کی تحریروں میں بھی ان کے تاریخی و سماجی شعور کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ حقیقت نگاری ان کی تحریروں کا بہترین خا صہ رہا۔ اورحان جدید اقدار کی پاسداری کسی خاص مکتبہ فکر کے لوگو ں یا خطے کی حدود میں مقید ہو کر نہیں کرتے بلکہ وہ اس معاملے میں وسیع النظر ہیں ۔ اورحان پاموک کے ان اوصاف کا اعتراف سابق امریکی صدر جارج بش اپنی ایک تقریر میں کچھ اس انداز سے کرتے ہیں :

“His work has been a bridge between cultures, and so is the Republic of Turkey. The people of this land understand, as Pamuk has observed, that “What is important is not [a] clash of parties, civilizations, cultures, East and West.”(5)

            تاریخی آگاہی، سماجی شعوراور حقیقت نگاری سے لیس اورحان کی تحریریں نہ صرف اسے کو قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر شہرت بخشنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ انہی اوصاف سے بھر پور ناول Snow انہیں دنیائے ادب کا سب سے بڑا انعام “نوبل پرائز )۲۰۰۶ء(” دلوانے میں کامیاب ہوا۔

            بین الاقوامی تناظر میں اگر اورحان پاموک کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو ان کے کئی ناول دنیا کی لگ بھگ ساٹھ سے زائد زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔ نوبل انعام سے قبل ان کی تحریریں کئی قومی و بین الاقوامی ابی ایوارڈ حاصل کر چکی تھیں ۔  ترکی بدر ہونے کے بعد اورحان امریکہ منتقل ہو گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع کولمبیا یونیورسٹی میں تقابلی ادب کے پروفیسر مقرر ہو گئے۔

            اورحان درج ذیل افسانوی و غیر افسانوی کتب اب تک تحریر کر چکے ہیں :

  • Fiction:
    •        Cavedet Bey and His Sons      (1982)
    •         The Silent House                    (1983)
    •         The White Castle                     (1985)
    •         The Black Book                       (1990)
    •        The New Life                            (1994)
    •        My Name Is Red                       (1998)
    • Snow (2004)  (2006 Nobel Prize Winner)
    •        The Museum of Innocence       ( 2007 )
    •        The Red Haired Women         ( 2016)
  • Non Fiction:
    •        Istanbul                                    ( 2003)

درج بالا کتب کے علاوہ اورحان پاموک کے کئی مضامین اور انٹرویوز بھی شائع ہو چکے ہیں ۔

 

 

سرخ میرا نام:

درج بالا کتب میں سے اگر نا ول ” سر خ میر ا نا م” کے حوا لے سے با ت کی جا ئے تو یہ ناول پہلی بار ترک زبان میں  ۱۹۹۸ ء کو Benim Adim Kirmizi کے نام سےچھپ کر منظر عام پر آیا۔ ” سرخ میرا نام ” مکمل طور پر ایک تاریخی ناول ہے ۔ ناول ’’سرخ میرا نام ‘‘ کا ترکش سے انگریزی میں  ترجمہ ترکش امریکن اسکالر، مترجم اور شاعر Erdag Goknar نے ترجمہ کیا جو My Name Is Red” کے نام سے ۲۰۰۱ء کو منظر عام پر آیا۔ ان کی اس کاوش پر انہیں ۲۰۰۳ء میں International Dublin Literary Award (IMPAC) سے بھی نوازا گیا۔ جس کی مد میں انہیں ایک لاکھ یورو سے بھی نوازاگیا۔ اورحان پاموک کی سابقہ دیگر کتب کی بہ نسبت اس ناول کو زیادہ پذیرائی ملی اور اب تک یہ ناول ۶۰ مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔  جس سے اس ناول کی مقبولیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

            ” سرخ میرا نام”سولہویں صدی عیسویں میں سلطان مراد سوم کے دور حکومت کے پس منظر میں لکھا گیا۔ جب سلطنت عثمانیہ کا نقطہ عروج جمود اور مغرب میں  ترقی کی نئی راہیں ہموار ہو رہی تھیں ۔ ۵۹ ابواب پر مشتمل یہ ناول عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ناول میں مصنف نے واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ ہر کردار براہ راست قاری سے مخاطب ہوتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے قاری بھی اس ناول کا کوئی کردار جس سے دیگر کردار مخاطب ہو کر اپنی کہانی سنا رہے ہیں ۔

ناول کا آغاز ایک مردہ کردار انیس آفندی سے ہوتا ہے۔ جو اپنے مارے جانے اور بعد میں پیدا ہونے والی متوقع صورت حال کا بتا رہا ہوتا ہے۔ انیس آفندی ایک ماہر منی ایچر فن کار ہے اور اپنے سلطان کے لیے ایک خفیہ کتاب پر کام کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن ایک دن ایک نامعلوم قاتل اس کو اپنے شکنجے میں پھنسا کر اس کا قتل کر ڈالتا ہے۔

            منی ایچر فن کار انشتے جو سلطان کے لیے ایک خفیہ منی ایچری کتاب تیار کرنے کے لیے سرگرم ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ نوجوانی میں اپنی کئی سر گرمیوں کے لیے یورپ کا سفر کر چکا ہے اور یورپ کی جدید اقدار سے بخوبی واقف ہے۔ اسی بنا پر انشتے کو خفیہ کتاب کی تیاری کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ انشتے ایک ماہر منی ایچر فن کار کے روپ میں ہمارے سامنے آتاہے۔ ایک دن انشتے کو اس کے گھر کے دیگر لوگوں کی غیر موجودگی میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ موت کے بعد انشتے ایک نئے روپ کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔

            زیر بحث ناول میں قرہ ایک اہم کردار ہے ۔ قرہ ایک منی ایچر فن کار ہے اور اس فن میں اس کا خالو انشتے اس کا استاد ہے۔ قرہ اپنی خالہ زاد شکورے سے محبت کرتا تھا۔ لیکن اس کا اظہار محبت اُسے شکورے سے ایک لمبے عرصے کے لیے دور کر دیتا ہے۔ قرہ اس واقعے کے بعد ایک طویل عرصہ کے لیے استنبول چھوڑ کر ایشیائی علاقوں کا رخ کرتا ہے۔

            قرہ کی غیر موجودگی میں اس کا خالو انشتے سلطان کے لیے ایک خفیہ منی ایچر کتاب پر کام کرتا ہے۔ اس دوران انشتے مدد کے لیے قرہ کوخط کے ذریعے قرہ کو طلب کرتا ہے۔ قرہ اپنے خالو کی دعوت پر استنبول پر پہنچتا ہے اور یہاں اس کی زندگی کے اک نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ استنبول پہنچ کر قرہ کو شکورے نئے انداز میں ملتی ہے۔ شکورے دو بچوں کی ماں ہوتی ہے اور اس شوہر کسی مہم میں مارا جا چکا ہوتا ہے۔ یوں ایک بار پھر قرہ اس کے نزدیک ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس بار حامی تو بھر لیتی ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہوتی ہیں جن کو قرہ پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

            اس ناول کا ایک اور پرکشش اور متحرک کردار شکورے کا ہے جو انشتے کی بیٹی ہے۔ شکورے نہایت سلیقہ شعار اور بے پناہ حسن کی مالک ہے۔  یہ ناول میں ہیروئن کے کردار ادا کرتی ہے۔  شکورے انتہائی مضبوط اور بہادر عورت کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ انشتے اپنی مرضی سے ایک گھڑ سوار سے شادی کرتی ہے جو سلطان کی فوج کا سپاہی ہوتا ہے۔ شکورے کے ہاں دو بیٹوں کا جنم ہوا ایک کا نام شوکت اور دوسرے کا نام اورحان ہے۔ شکورے کا شہر کسی جنگی مہم کا حصہ بنتا ہے اور مارا جاتا ہے۔ شوہر کے لاپتہ ہونے کے بعد شکورے اپنے شوہر کے چھوٹے بھائی حسن اور اپنے سسر کے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔ اسی دوران شکورے کو حسن کی طرف سے جنسی ہراسائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس واقعے کے بعد شکورے اپنے بچوں کے ساتھ اپنے والد انشتے کے پاس آجاتی ہے جہاں اس سے دوبارہ اپنے خالہ زاد قرہ سے ملاقات ہوتی ہے۔ قرہ ایک بار پھر اپنی خالہ زاد سے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس بار اسے مختلف صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران انشتے کا قتل ہوچکا ہوتا ہے اور شکورے قرہ سے اس شرط پر شادی کے لیے آمادہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے باپ کے قاتل کا سراغ لگائے۔ یوں اس معاہدے کے ساتھ ان کی شادی طے پاتی ہے۔

            ایک قدامت پرست مسلمان رہنما جو تاریخی شخصیت پر مبنی ہے۔ جو کافی اور کافی خانوں ، فحش کہانیوں اور علامتی تصویروں کے خلاف ہے۔  ناول میں نصرت حوجا جو ایک امام مسجد کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے جو اپنے خطبہ کے دوران جذبات میں آکر ان حقائق سے نقاب کشائی کرتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کے موجودہ رویے پر خاصی تنقید کرتا ہے۔ حوجا دو طرح کے مسلمانوں پر انگلی اٹھاتا ہے ایک تو وہ جو توہم پرستی کا شکار ہیں اور دوسرے وہ جو جدید اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں اور اسی دوران وہ جذبات میں آکر اسلام کی اصل تعلیمات کے بارے میں بتانا شروع کر دیتا ہے۔ اور بھٹکے ہووں کو دوغلا اور کتا قرار دیتا ہے۔ اس کے اس بیان پر سگ یعنی کتا میدان میں اترتا ہے اور اپنا دفاع کرتا ہے۔ اس دوران اس کردار کے لیے کئی قرآنی حوالے بھی پیش کیے جاتے ہیں ۔

            سگ اس ناول ایک اور اہم کردار ہے جس کے ذریعے ناول نگار نے ایک کتے کے جذبات کو بیان کیا ہے۔ دراصل یہ کردار ہم سے کافی خانے میں بیٹھے ایک داستان گو کے منی ایچر فن پارے سے مخاطب ہوتا ہے۔ اس باب میں جس میں یہ کردار ہم سے مخاطب ہوتا ہے نہایت اہم اور حساس موضوع پر بحث کی گئی ہے۔  نصرت حوجا جب منافقین اور مرتدین کے لیے’ دوغلا’ اور ‘کتے’ جیسے لفظ کا استعمال کرتا ہے تو سگ یعنی کتا اپنے دفاع کے لیے میدان میں آتا ہے۔ سگ اپنے دفاع میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

’’اگر چہ یہ میرا مقام نہیں ، پھر بھی مجھے اس سورت کی آیت نمبر ۱۸ یاد دلانے دیجئے، جس میں اس غار کے دہانے پر سوتے کتے کا تذکرہ ہے جس میں وہ سات نوجوان محو خواب تھے۔ یقینا کوئی بھی قرآن میں اپنا ذکر آنے پر فخر کرے گا۔ ایک کتے کی حیثیت سے میں اس بیان پر فخر کرتا ہوں اور اس کے ذریعے میں ارض روم کے لوگوں کی توجہ لینا چاہتا ہوں جو اپنے دشمنوں کا حوالہ دوغلی نسل کے کتوں سے دیتے ہیں ۔ ‘‘(6)

دیگر کرداروں میں شوکت جوشکورے کا بڑابیٹا اور اورحان کا بڑا بھائی۔ حقیقی زندگی میں بھی شوکت مصنف)اورحان( کے بڑے بھائی کا نام ہے۔ شکورے کا چھوٹا بیٹا اورحان اور یہ مصنف کے نام کا پہلا حصہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اس ناول کی ایک اور اہم کردار حیریے ہے جو انشتے کے گھر کی نوکرانی کے روپ میں ہمارے سامنے آتی ہے۔

            ناول میں ایک کردار بگلا جو منی ایچر مصوروں میں سے ایک فن کار جو سلطان کی خفیہ کتاب تیار کرنے والوں کا حصہ ہوتا ہے۔ مصوری میں یہ درخت اور کتے بناتا ہے۔ اسی طرح زیتون کا کردار بھی درج بالا گروپ کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ شیطان اور درویش کی مصوری کرتا ہے۔ تتلی کا کردار بھی اسی گروپ کا حصہ ہوتا ہے یہ موت اور افسردہ عورت کی تصویر کشی کرتا ہے۔

استاد عثمان کا کردار بھی ناول میں اہمیت کا حامل ہے جو دیگر کرداروں  کی طرح منی ایچر فن کار اور سلطان کی خفیہ کتاب کی تیاری کا نگران مقرر ہوتا ہے۔ عثمان چونکہ مغربی طرز کی جدید منی ایچری فن سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر عثمان کو نگران مقرر کیا جاتا ہے۔ ناول کا ایک اور اہم کردار ایستھرجو ایک یہودی بنجارن کے روپ میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ایستھر پیغام رسانی میں ماہر ہوتی ہے اور اس معاملے میں شکورے اور قرہ کی مدد ایک دوسرے خطوط پہنچانے کی صورت میں کرتی ہے۔

درج بالا کرداروں کے علاوہ کچھ بے جان کردار جن میں سکہ،درخت، سرخ رنگ وغیرہ بھی ناول کا حصہ ہیں ۔ جو دیگر کرداروں کی طرح براہ راست قاری سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ یہاں پر حیرانی تو ہو رہی ہو گی کہ کیسے بے جان اشیاء قاری سے مخاطب ہوتی ہیں ؟ بھلا کوئی بے جان چیز بھی بات کر سکتی ہے کیا۔ لیکن اس بات جواب مصنف ناول کے شروع میں دے کر اسے بے بس کر دیتے ہیں جب قاری ایک مردے کی روداد بڑے انہماک سے سن رہا ہوتا ہے۔ جب سگ اپنے قاری سے مخاطب ہوتا ہے تو عین اسی وقت مصنف قاری کے ذہن میں پیدا ہونے والے ابہام کو کچھ اس طرح سے مطمئن کرتا ہے:

“میں ایک سگ زادہ ہوں یعنی کتا اور چوں کہ آپ انسان مجھ سے کم سمجھ دار درندے ہیں ، آپ کہتے ہیں : کتے بولتے نہیں ۔ اس کے باوجود آپ ایسی کہانی کو سچ ماننے کو تیار ہیں جس میں مردے بولتے ہوں اور کردار ایسی باتیں کرتے ہوں جو شاید حقیقت میں ان کے لیے جاننا ممکن ہی نہ ہو۔ “(7)

اگر سرخ رنگ کے حوالے سے بات کی جائے تو ناول میں یہ رنگ کئی روپ لے کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ سے دوشیزاوں کے لباس، دعوتی میز کا پوش، دیواری سجاوٹوں ، پوشاکوں ، دوشیزاوں کے ہونٹ،لاشوں کے مہلک زخموں سے اور خون سے لتھڑی سربریدہ لاشیں وغیرہ۔ ناول میں یہ رنگ اپنے اوصاف یوں  بیان کرتا ہے:

“میں خوش نصیب ہوں کہ سرخ ہوں ! میں آتشیں ہوں ۔ میں طاقتور ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ میں مردوں کی توجہ کھینچتا ہوں اور یہ کہ میرے خلاف مزاحمت نہیں کی جا سکتی، کوئی مجھے جھٹک نہیں سکتا۔ “(8)

            سرخ رنگ کی مزید وضاحت ڈاکٹر سید ضمیر اختر نقوی اپنی تحقیقی کتاب ’’میر انیس کی شاعری میں رنگوں کا استعمال‘‘ میں کچھ اس طرح سے کرتے ہیں ہیں :

” ماہرین نفسیات کا نظریہ ہے کہ سرخ کسی کے ساتھ نا انصافی پسند نہیں کرتا، سرخ رنگ محبت اور خلوص تقسیم کرتا ہے۔ سرخ رنگ شہادت کا رنگ ہے، آزادی اور انقلاب کا رنگ ہے، سرخ رنگ قربانی کا جذبہ دل میں موجزن کر دیتا ہے۔ سرخ رنگ انسان کو فتح کے لیے بے چین رکھتا ہے، سرخ رنگ میں استقلال اور جوش ہے، سرخ رنگ کو شاہانا رنگ بھی کہتے ہیں ۔ “(9)

                        کہانی کا آغاز ایک منی ایچر فن کار نفیس آفندی کی موت سے ہوتا ہے۔ جو مردے کے روپ میں قاری سے مخاطب ہوتا ہے۔ جس میں وہ اپنے قتل ہونے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا تذکرہ کرتا ہے۔ قرہ جو اس ناول کا اہم کردار ہے جو لڑکپن میں استنبول چھوڑ کر ایشائی علاقوں کا رخ کرتا ہے۔ انشتے جو قرہ کا خالو ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا منی ایچری کا استاد بھی ہے، جو اپنے سلطان کے لیے کسی خفیہ کتاب پر کام کر رہا ہوتا ہے۔  نفیس آفندی کے قتل کے بعد انشتے جو اس کا خالو ہے اپنی مدد اور قاتل کا سراغ لگانے کے لیے استنبول مدعو کرتا ہے۔ قرہ نظر آتاپنے خالو کی دعوت کو قبول کرتا ہے اور استنبول کا رخ کرتاہے۔ قرہ کا استنبول کی طرف رخ کرنے کے پیچھے صرف یہی بات کارفرما نہیں تھی بلکہ کہ وہ اپنے خالو کی مدد کو استنبول جا رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی خالہ زاد شکورے کو حاصل کرنا بھی تھا۔

            شکورے اس ناول کا اہم اور دلکش کردار ہے جو انشتے کی حسین جمیل، مضبوط اور بہادر بیٹی کے روپ میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ جس کے حسن کے سحر میں  علاقہ بھر کے نوجوان گرفتار ے ہیں ۔ انہی میں اسے ایک اس کا خالہ زاد قرہ بھی ہے۔ باوجود قربت کے قرہ شکورے کے دل میں وہ جگہ نہیں بنا پاتا کہ وہ اس کے اظہار محبت کو قبول کر پاتی۔ یہی اظہار محبت اور انکار قرہ کو ایک لمبے عرصہ کے لیے استبول چھوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

            قرہ کی غیر موجودگی میں شکورے ایک گھڑ سوار فوجی سے شادی کر لیتی ہے۔ جس سے اس کے دو بیٹے شوکت اور شکورے جنم لیتے ہیں ۔ شکورے کا شوہر کسی جنگی مہم کا حصہ بنتا ہے اور لاپتہ ہو جاتا ہے۔ بعد میں جس کے بارے میں یہی قیاس کیا جاتا ہے کہ جنگ میں مارا جا چکا ہے۔ اس دوران شکورے اپنے بچون کے ساتھ اپنے باپ کے گھر میں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ قرہ اس ساری صورت حال سے آگاہ ہوتا ہے کہ اس کی غیر موجودگی میں کیا کیا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے۔  جہاں قرہ انشتےکے گھر کچھ ضروری ہدایات لینے کے لیے آتا ہے وہیں اس کا سامنا شکورے سے بھی ہوتا ہے۔ شکورے علاقہ بھر کی ماہر پیغام رسا ایستھر سے ذریعے اپنا پیغام خط کی صورت میں قرہ تک پہنچاتی ہے۔ جس میں قرہ کو پیشگی خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے قریب آنے سے باز رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ قرہ کو مصورے کے نمونے بھی واپس بھیجتی ہے جو کسی دور میں قرہ نے خاص اس کے لیے بنائے تھے۔ اس سب کے باوجود قرہ اسے پانے کا عزم کیے ہوئے نطر آتا ہے۔

            دوسری طرف شکورے کو اس کا دیور حسن مسلسل اس پر گھیرا تنگ کرتا ہوا نظر آتا ہے اور شکورے کو حاصل کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتا ہے۔ تاکہ کسی صورت شکورے کی واپسی ممکن ہو جائے۔ یوں شکورے بیک وقت مختلف قسم کے حالات کا سامنا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔  اور وہ کسی بھی لمحے خود کو بے بس تصور نہیں کرتی۔ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے بہتر سے بہتر لائحہ عمل تیار کرتی ہے۔ انشتے کے قتل کے بعد شکورے کے لیے سوائے قرہ کے اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ انشتے کی تہجیز و تکفین سے قبل قرہ قانونی طور پر شکورے کی رضامندی سے اس سے شادی رچا لیتا ہے۔ قرہ اور شکورے کی شادی مکمل طور پر ایک معاہداتی شادی ہوتی ہے ۔ شکورے شادی سے قبل کچھ شرائط رکھتی ہے جس میں ایک تو قرہ اس کے باپ کے قاتلوں کو تلاش کرے گااور دوسری شرط یہ کہ قرہ اس کے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی اٹھائے گا۔ قرہ شکورے کی شرائط پر آمادگی کا اظہار کرتا ہےیوں ان دونوں کے درمیان شادی طے پا جاتی ہے۔ لیکن وہ محض ایک رسمی شادی ہی ثابت ہوتی ہے۔ قرہ شکورے کے باپ کے قاتل کو تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے بچوں کی بھی اچھی طرح سے دیکھ بھال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود قرہ کبھی شکورے کے دل میں وہ مقام پیدا نہ کر سکا جس کی اسے خواہش تھی یا جس کی وہ توقع کیے ہوئے تھا۔

            اس کے علاوہ ناول میں فلسفیانہ مباحث ، قدامت پرستی اور توہم پرستی جیسے موضوعات بھی ناول کا حصہ ہیں ۔  بنیادی طور پر یہ ناول سولہویں صدی عیسویں میں مغربی اور مشرقی تہذیب کے درمیان کشمکش کا اظہار کرتا ہے۔ ایک طرف نصرت حوجا جیسے کردار تو دوسری طرف جدید اقدار کے علمبردار نظر آتے ہیں ۔ ایک طرف ہمسائی تہذیب میں روشن خیال تحریک ریناساں کا ابھرتا ہوا چہرا اور دوسری طرف روایات اور توہمات میں ڈوبی عثمانیہ سلطنت  کو ایک خاص پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔

            اس ناول میں سولہویں صدی کی مشرقی و مغربی ذہنیت کو بیان کیا گیا ہے۔ جدید اور پرانی فرسودہ روایات اور ان کے مابین ہونے والے تصادم کو بیان کیا گیا ہے۔ تمام کے تمام کردار قاری کو اس دور کے معاشرتی اور سیاسی حالات سے روشنا کراتے ہیں ۔ در حقیقت مجموعی طور پر یہ ناول اس دور کی مذہبی انتہا پسندی، رومانیت، تصوف اور فلسفیانہ اقدار کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔ یہ کتاب اپنے اندر کئی فکری جہات رکھتی ہے جسے قاری اپنی علمی و فکری استطاعت کے مطابق اخذ کر سکتا ہے۔

 

ماحصل:

            ” ناول سرخ میرا نام” درحقیقت ایک پیغا م ہے جس میں مصنف اہل ترک کو خبردار کرنے کے ساتھ ان حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے جو سلطنت عثمانیہ کے زوال کا سبب بنے ہیں ۔ یہ ناول سلطنت عثمانیہ کے اس عہد کے پس منظر میں لکھا گیا جب سلطنت عثمانیہ کا نقطہ عروج جمود کا شکار ہو چکا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ فرسودہ روایات کی پاسداری اور خاص مکتبہ فکر کے لوگوں کی پیروی کرنا تھی۔  یہ ناول جس عہد میں لکھا گیا وہ مغرب میں ترقی کے آغاز کا دور تھا۔ ایک طرف رینے ساں جیسی روشن خیال تحریک کے اثرات جب کہ دوسر ی طرف ہمسایہ ملک فرسودہ روایات، توہم پرستی اور قد امت کا شکار تھا۔

            اس کے علاوہ “سرخ میرا نام ” اس بحث کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہےوقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتابلکہ وہ ہمہ وقت ارتقاء عمل سے گزر رہاہوتا ہے۔ اسی ارتقائی گرداب کا شکار آدمی، مذہب، طاقت اور دیگر سماجی اقدار بھی ہوتی ہیں ۔ اس حوالے سے ہری پرساد لکھتے ہیں :

“New historical reading of the novel My Name is Red tries to prove the notion that knowledge and truth are only perspectives. They get changed with time, place and persons. Money, power, socio-politico-cultural background, religion, gender etc.”(10)

 اسی طرح اگر انسان کی فکر اور سوچ بجائے ارتقاء کے اگر جمود کا شکار رہتی ہے تو بجائے دنیا کے ساتھ دینے ارتقائی گرداب میں کچل کر عبرت بن جاتا ہے۔ اور ہر دور میں ایسا ہوتا ہوا آیا۔

            اسلامی تعلیمات اور روایات کو بھی اس ناول کا حصہ بنایا گیا ہے۔ آج کے دور میں  اسلامی معاشرت میں پلنے بڑھنے والا بھی اسلامی اقدار کو روایت اور قدیم کہہ کر رد کر دیتا ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، حقائق یکسر مختلف ہیں ۔ درحقیقت بین الاقوامی سطح پر اسلام کا اصل چہرہ مسخ اور اس کی تضحیک کرنے والی کوئی بیرونی قوتیں نہیں بلکہ اس کے ماننے والے اور پیروکار ہی ہیں ۔ نصرت حوجا جیسے کردار جس کا تذکرہ “سرخ میرا نام” میں ہوتا ہے، کسی خاص عہد میں نہیں بلکہ ہر دور میں موجود ہیں جو مذہب کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ جہاں ان کے مفادات کو خطرہ لاحق ہو وہیں اسلام تعلیمات کے تشریحات اپنی مرضی سے کر کے پیش کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اگر اسلام کے ابتدائی دور کے حوالے سے بات کی جائے توفرسودہ روایات، توہمات وغیرہ سے مقابلے میں یہ مذہب وجود میں آیا تھا اور آ ج کے دور میں اس پر وہی لیبل لگائے جا رہے ہیں جن کے خلاف ماضی میں یہ برسر پیکار رہا۔ بات یہ نہیں کہ اس مذہب کا وہ خاص عہد تھا اور آج کے دور میں اس میں خامیوں کا در آنا ایک فطری عمل ہے، حقیقت تو یہ کہ اسلام ایک ہمہ گیر مذہب ہے اور ہر دور کی جدید روایات کے ساتھ چلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی کے کہ اس کو جدید روایات اور اقدار کے ساتھ لے کر کیسے چلناہے۔ اگر ہم اپنے علمی حوالے سے اپنے اصل کے ساتھ ہی دیانت داری کے ساتھ جڑے رہیں تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصل تعلیمات ہیں کون سے؟ اور ان تک رسائی کیسے ممکن ہے؟ ہم جب اس کھوج میں لگتے ہیں تو مختلف مکتبہ فکر کے لوگ ہمیں بجائے اصل کے مزید الجھن میں ڈال دیتے ہیں ۔

            جس عہد کے پس منظر میں یہ ناول لکھا گیا ہے اس دور کی تہذیب کے زوال کا اصل سبب عیاش سلطان اور نصرت حوجا جیسے کردار تھے۔  جو آئندہ کی تہذیبوں کے لیے نشان عبرت ہیں ۔ اگر آپ روایات میں ڈوبے رہیں گے اور جدید اقدار کے پاسداری نہیں کریں گے تو آپ کا حال بھی سلطنت عثمانیہ جیسا ہوسکتا ہے۔ کہ کیسے ایک وسیع العریض سلطنت اپنے شاہوں اور منتظمیں کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی ہے۔ سلطان مراد )سوم( جس کے شاہی پس منظر میں اس کہانی کو بیان کیا گیا اس کے ناقص حکمت علمی اور عیاشیوں کے حوالے سے ڈاکٹر محمد عزیر لکھتے ہیں کہ:

” سلطان پر حرم کا اثر روز بہ روز ہوتا جا رہا تھا، حرم کی چار خاتونوں کا اثر خصوصیت کے ساتھ اس پر بہت زیادہ تھا اور امور سلطنت کا انصرام حقیقتا ان ہی خواتین کی منشا کے مطابق ہوتا تھا۔ ان میں ایک سلطان کی والدہ نور بانوتھی، دوسری مراد کی محبوب سلطانیہ صفیہ تھی، جو وینس کے مشہور اور سربراہ آوردہ خاندان بفو (Baffo) کی رئیس زادی تھی اور اپنے حسن، صورت اور ذکاوت طبع کے باعث مراد پر حد درجہ حاوی تھی، صفیہ کی سلطنت کی جنگ و صلح میں خاص دخل تھا، چنانچہ باوجود اس کے کہ وینس نے ایک سے زائد بار سلطان کو برانگیختہ کیا، مھض صفیہ کی کوششوں سے جنگ کی نوبت نہ آئی، تیسری ایک ہنگروی خاتون تھی،جس نے کچھ دنوں کے لیے صفیہ کی محبوبیت کا زائل کر دیا تھا اور مراد کی توجہ کا مرکز بنی رہی، چوتھی خاتون جان فدا حرم سلطانی کی خاص مہتمم تھی اور وہ بھی اپنی لیاقت اور سلیقہ شعاری کی وجہ سے مراد کے مزاج میں بہت دخیل تھی، یہی چار خواتین سلطان کی خاص مشیر کار اور انتظام حکومت کی حقیقی نگراں تھیں ۔ “(11)

            جہاں ایک طرف کسی تہذیب کے زوال کا سبب عیاش حکمران بنتے ہیں تو وہیں دوسری طرف محدود سوچ کے حامل مذہبی رہنما بھی برابر کا شکار ہوتے ہیں ۔ اگر اس ناول کی کہانی کو موجودہ ترکی سے تقابل کیا جائے تو جدید اور سیکولر ملک کہلانے والا ترکی درحقیقت انہی روایات کا شکار جو تاریخ کی ایک مہان سلطنت ، سلطنت عثمانیہ کے زوال کا سبب بن چکی ہیں ۔ موجودہ ترکی میں اقلیتوں کو اب بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ایک سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے Armine Sargsyan یوں رقم طراز ہیں :

“Minority groups are still considered second-class citizens; the Armenian, Cypriot, and Kurdish issues remain taboo; and people who wish to speak about those subjects are silenced through Article 301 and the Anti-Terror Law.”(12)

اس کہانی کا بنیادی مقصد ترکوں کو خبردار کرنا ہے کہ ہمیں وہی غلطی جو ایک بار ماضی میں کر چکے ہیں پھر سے نہیں دہرانی چاہیے۔ کہانی میں موجود تاریخی حوالہ جات کو اورحان نے سند کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور ان حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی جن سے عوام بڑی حد تک دور رکھا گیا۔

حوالہ جات:

1.https://www.nobelprize.org/prizes/literature/2006/pamuk/biographical/

  1. Orhan Pamuk,(2006), “My Father’s Suitcase”, Swedish time, Swedan.
  2. Armine Sargsyan, (2012), “Constrains on Freedom of Expression inTurkey”, University of San Francisco, P-37,38
  3. Rajendra R. Thorat,(2017), “A STUDY OF THE DEPICTION OF HISTORY, POLITICS AND CULTURE IN THE NOVELS OF ORHAN PAMUK”, UNIVERSITY GRANTS COMMISSION WRO, PUNE, P-7
  4. ,P-30

6۔         اورحان پاموک، )۲۰۱۷(، سرخ میرا نام )مترجم: ہما انور(، جمہوری     پبلی کیشنز، لاہور، ص- 24

7-        ایضا، ص-22

8-        ایضا، ص-206

9-        ضمیر اختر نقوی، )۱۹۹۹ء(، میر انیس کی شاعری میں رنگوں کا استعمال، مرکز علوم اسلامیہ، کراچی،

 ص-113

10- Hari Prasad Bhattarai, (2010), Knowledge as Perspective: A Genealogical Study of Pamuk’s My Name is Red, Tribhuvan University Kirtipur, P-5

11-    ڈاکٹر محمد عزیز، )۲۰۱۶ء(، “تاریخ سلطنت عثمانیہ)حصہ اول(“، گنج شکر پرنٹرز ، لاہور، ص-210- 211

12-     Armine Sargsyan, (2012), “Constrains on Freedom of Expression inTurkey”, University of San Francisco, P-21

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.