پروین شاکرکی غزلوں میں علامتی عناصر

 

ڈاکٹر زینت بی بی، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اردو ، شہید بینظیر بھٹو خواتین یونیورسٹی پشاور

ڈاکٹر غنچہ بیگم،اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اردو ، سرحد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی پشاور

 

Abstract

Parveen Shakir was an Urdu author, an educator, and a Pakistani government municipal servant. Parveen Shakir’s poems, especially for women, are known for their in depth analysis of sensitive topics that are rarely discussed. Her poems were meant to cover all facets of becoming a woman, from innocence to the beginning of becoming aware of one’s own sexuality, as well as more adult struggles. These include the hardships of love, the limitations and social pressures that women face differently, and the need to be more represented in all aspects of society by women. Except for Kaf-Aina, the verse books are compiled in the Mah-e-Tamaam volume.With new meanings/interpretations, the Urdu classical poetic symbols were used. This was Perveen Shakir’s great accomplishment. This paper aims to point out the use of both classical and modern poetic symbols in the poetry of Perveen Shakir.

پروین شاکر(24نومبر1952ء-26دسمبر1994ء) کی مختصر زندگی میں ان کے پانچ شعری مجموعے “خوشبو”(1976ء) “صدبرگ'(1980ء)، “خود کلامی” 1980ءاور” انکار” 1990 ءمیں شائع ہوئے ۔ اس کے علاوہ کف آئینہ ان کی وفات کے بعد سامنے آیا۔

پروین شاکرسچے جذبوں کی شاعرہ ہیں  اپنے گرد و پیش کو کو بغوردیکھتی اور محسوس کرتی ہیں ۔ ان کی دل کش اور سحر انگیز شعروشاعری نے اردو ادب کے ذخیرہ الفاظ اور معنویت کے نظام کو نئے آہنگ سے روشناس کیا ۔ انہوں نے اپنے احساسات کو لفظوں کی ایسی پوشاک عطا کی جس کی بدولت اردو ادب میں  نئے، دلکش اور خوبصورت پیرائےِ اظہار کو تقویت ملی ۔  اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی سے الفاظ کے ذریعے لڑی میں پروتی ہیں ۔ وہ عورت کو اپنے حدود اور توازن و اعتدال کے حق میں ہیں ۔ جسے میانہ روی کا راستہ بھی کہا جاتا ہے ۔ وہ نا امیدی اور نا آسودگی کو بدلنے کی کوشش میں آخری دم تک مصروف رہی۔ انہوں نے اندھیروں میں امید کی شمعیں روشن کیں ۔ انہوں نے عورت کی مجبوری اور اس کی بے بسی کو اپنی شاعری میں انتہائی خوبصورت انداز میں اتارا ہے۔ ان کی شاعری میں انوکھی تراکیب ملتی ہیں ۔ جو ان کی گہرے مشاہدے کا پتہ دیتی ہیں ۔ ان میں سانپ راتیں ،سورج خور، اجلی خواہش، شاخ گریہ،خوابِ یکتائی،سانپ راتیں ،لمحہ جمال،قبائے خاک،پھول بدن اجاڑ رات اور پہاڑ دن وغیرہ شامل ہیں ۔

 شاعری کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی سے بھرپور اور جینے کو سہل بنا دے۔ انسانوں میں قربت کا احساس اور توازن کی فضا کو فروغ دے۔

رہ گیا ہاتھ میراتیغ و سپر پر رکھا

ہم نے ہر رات کا انجام سحر پر رکھا (1)

             انہی اصولوں پراگر پروین شاکر کی شاعری کفر کے دور نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انہوں نے زندگی کی تلخیاں اور بے رخی کے بیان میں “امید” کا مضبوط سہارا لیا ہے۔ اس حوالے سے وہ “صدبرگ” میں “رزق ہوا “کے عنوان کے زیر اثر کچھ یوں رقم طراز ہیں :

“شجر کتنا ہی ویران کیوں نہ ہو امید بہار پیوستہ ہے۔ پھول کتنا ہی پامال کیوں نہ ہو اچھے دنوں پر یقین کرنے والے کوئی نہ کوئی اچھا شگون لے ہی لیتے ہیں ۔ صد برگ بھی تمام تر ریزہ ریزہ ہونے کے باوصف اسی یقین پر مہر اثبات ہے” (2)

ویسے تو علامتیں اردو شاعری میں ایک عرصے سے مستعمل ہیں ۔ شعرا نے اس کا خوب استعمال کرکے شاعری کے کینوس کو وسعت بخشی ہے۔ زبان کو وسعت دینے میں علامت نگاری نےاہم کردار ادا کیا ہے۔ علامت عام لفظ کو بھی ایسی توانائی بخشتا ہے کہ وہ لفظ کئی لحاظ سے اہم بن جاتا ہے۔ اس میں جامعیت آجاتی ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں ہیں کہ علامت سے گزر کر لفظ عام سے “خاص” بن جاتا ہے ۔ اردو زبان و ادب کی بات کی جائے تو یہاں  بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو فنکارانہ استعمال کی بدولت نئے اور منفرد مفاہیم دینے لگ جاتے ہیں ۔ اس سے زبان میں وسعت کا احساس جنم لیتا ہے۔ علامت تشبہہ،تلمیع ،استعارہ اور محاورہ وغیرہ کی نسبت اعلی و ارفع خصوصیت رکھتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ علامت محض لفظی بازیگری نہیں بلکہ اس میں فنکار اپنے فن کو باور کرانے کی بجائے خیال اور ہمہ گیر وجدان کے اظہار کا وسیلہ بنا کر استعمال میں لاتے ہیں ۔

جہاں تک علامتوں کے استعمال کا تعلق ہے تو اس کے لیے کوئی مخصوص الفاظ استعمال میں نہیں لائے جاتے بلکہ عام الفاظ سورج ،چاند ،برف، رات، دن، اندھیرا ،اجالا اور سایہ وغیرہ جیسے الفاظ کے ساتھ ایک تصویر بنا دی جاتی ہے جو علامت کے طور پر ابھرتی ہے ۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ علامت مختلف جگہوں میں مختلف معنوں میں استعمال میں لائی جاتی ہے ۔ یعنی مکمل یا مفرد معنوں میں استعمال میں نہیں لائی جاتی۔ ضروری نہیں کہ کوئی علامت ہر کسی کے ہاں ایک طرز میں استعمال میں لائی جائے ۔ جیسے سورج کہیں پر” امید” ہے تو کہیں اس کی تمازت کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ علامتوں کے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس بات کا تذکرہ بھی اہمیت رکھتا ہے کہ بعض جگہ علامت کے مفہوم کچھ ہوتے ہیں جبکہ دوسری جگہ ،علاقے یا ملک میں اس کے مفہوم کچھ اور ہوتے ہیں ۔

علامت کی تفہیم اس کےترسیل سے وابستہ ہے۔ اگر ترسیل کا ذریعہ متناسب نہ ہو تو علامت اپنامفہوم ظاہر کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ علامت کا استعمال اتنا آسان نہیں اس کے لیے مخصوص فنکاری کی ضرورت ہوتی ہے اگر یہ تخلیقی صلاحیت ناپید ہو تو علامت کی متناسب ترسیل نہیں ہو سکتی۔ نیزعلامت اپنا مفہوم واضح کرنے کی بجائے مبہم بن کر رہ جاتی ہے۔ اس کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے ۔ بے جا کی علامت نگاری نثر یا شاعری کی رعنائی ختم کر دیتی ہے۔ علامتی انداز کو مد نظر رکھ کر بات کی جائے تویہاں خواتین شاعرات کی کی قطار میں پروین شاکر سب سے نمایاں نظر آتی ہیں ۔ انہوں نے مختلف استعارات کنائیوں اور علامتوں کا اس طوراستعمال کیا ہے کہ جیسے انگوٹھی میں نگینہ جڑا ہو۔

پروین شاکر کے ہاں غالب موضوع جذبہ محبت ہے وہ پوری دیانت کے ساتھ اس جذبے سمیت آموجود ہوئی ہیں ۔ چاہے عشق کے معاملات ہوں یا باقی سماجی و معاشرتی مسائل وہ نسوانی دلکشی کے ساتھ سب پر مضبوط گرفت رکھتی ہیں ۔ انہوں نے جتنی بھی علامتیں یا استعارات اپنی شاعری کا حصہ بنائے ہیں اس سے کہیں بھی الجھاو یا ذہنی کوفت کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں لطافت ہے، شیرینی ہے، احساس ہے ،حسن ہے ،جمال ہے، غرض یہ کہ نسوانیت پوری طرح سے جلوہ گر ہے۔ اپنی شاعری میں علامت نگاری کے حوالے سے لکھتی ہیں :

“سچائی جب مخبروں میں  گھِر جائے تو گفتگو علامتوں کے سُپر دکر دی جاتی ہے۔ ” (3)

دنیا میں میں جتنے بھی تخلیق کار ہیں وہ اپنے احساسات ہو منفرد خیالات کو براہ راست بیان کرنے کی بجائے بلا واسطہ اظہار کواہمیت دیتے ہیں ۔ کیونکہ براہ راست بیان کے برعکس علامتیں پیرائے میں بیان کرنے سے نہ صرف کلام میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ الفاظ کے نئے معنی اور مفاہیم کے امکانات بھی روشن ہو جاتے ہیں ۔ علامت کسی موضوع یا خیال کو ایک پیرائے یا مختلف پیرایوں میں مختلف تاثرات و مفاہیم کے ساتھ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں :

“علامت کوئی جامد شے نہیں ہے ۔ ایک متحرک چیز ہے۔ وقت بدلتا ہے تو یہ بھی اپنا مفہوم بدل لیتی ہے۔ ہر دور کے کے گردوپیش جو کچھ ہوتا ہے علامتیں اسی سے متعین ہوتی ہیں ۔ مگر علامت سازی کا عمل بڑا پراسرار ہوتا ہے گردوپیش اپنی مجازی صورت میں علامتیں نہیں بُنتا۔ تخلیق کار اس گرد و پیش کو اپنے باطن میں اتار لیتا ہے اور یہاں سے علامتیں ابھرتی ہیں ” (4)

غزل میں علامتی رجحان کسی حد تک نظم کے زیر ِاثر آیا ۔ جہاں تک جدید غزل کی بات ہے تو اس کی علامتیں اپنے ماحول کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں ۔ ان علامات میں ” پیڑ “،”شاخیں “،” دھوپ “،”سورج”،” آندھی”،” برف”،” گھر “،”سمندر”،” سا یہ”،” بادبان”،” پتھر “،”آندھی”،” سانپ”،” کھڑکی”،” رات” اور “چاندنی “وغیرہ شامل ہیں ۔ آج کی غزل میں پرانی علامتوں کے ساتھ تازہ اور نئے علامتی انداز بھی ملتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جہاں جدید غزل میں نئی معنویت اور نئی جہتوں کو پیش کیا گیا ہے وہاں غزل جدید علامتوں کی ابہام اور بے معنویت کی فضا بھی لیے ہوئے ہے۔ بعض جدید شعرا نے اپنے ذوق اور مزاج کے تحت علامتوں کو سامنے لایا ہے جس طرح جدید یورپی اور امریکن فلسفیوں نے لفظ “فلسفہ” کی اپنے انداز میں اصطلاح قائم کی ہے، وہی معاملہ غزل میں بعض جدید علامتوں کے زمرے میں بھی آیا ہے ۔ اس طرح یہ علامتیں مقبولیت کی راہ دکھانے کی بجائے ذہن کو نئے بکھیڑوں میں الجھا دیتی ہیں ۔

جہاں تک پروین شاکر کی بات ہے تو یہ واحد شاعرہ ہیں جہاں علامت قدیم اور جدید کا خوبصورت امتزاج لیے ہوئے ہے۔ وہ روایت کی زمین پر نہ صرف مضبوطی سے اپنے پاؤں جمائے ہوئی ہیں بلکہ ان کی وسعتِ نظر جدیدیت کے آسمان کو بھی سامنے پاتی ہیں ۔ بیسویں صدی کے آخری دو دہائیوں سے قبل اردو شاعری میں عورت اپنی ذات ووجود کی نفی میں یا اُسے پس ِپردہ رکھ کر شاعری تخلیق کرتی رہی ہیں ۔ گویا وہ اپنی شاعری میں مرد بنی رہی۔ شاعری میں عورت اپنی نسوانی جذبات کی عکاسی کرنے سے قاصر تھی ۔ مگر بیسویں صدی کی آخری دہائی میں فہمیدہ ریاض کشور ناہید اور پروین شاکر کی شاعری میں نسوانیت کے بھرپور اظہار کا ردعمل روایت سے انحراف کے طور آیا ۔ انہوں نے پہلی مرتبہ اپنے فن کو نسائی جذبات، احساسات، اور کیفیات کے لیے بغیر کسی جھجھک کے استعمال کیا ۔ خاص کر پروین شاکر نے نسوانی جذبات اور اس کے احساسات و تاثرات کی تصویر کشی عمدہ اور فنکارانہ طریقے سے کی ۔ اپنی ہم عصر شاعرات کے مقابلے میں پروین شاکر کے ہاں مشرقی لحاظ اور پردہ زیادہ ہے۔ وہ باقی شاعرات کے برعکس مخصوص جذبے کے اظہار میں نارمل عورت ہے ۔ جہاں نسوانی جنس قدرے پوشیدہ انداز میں تقاضا کرتا ہے ۔ انہوں نے فن کے وہ رموز سےدِ کھائے جو اس سے قبل ناپید تھے۔

بِلاشبہ پروین شاکر کا شمار اردو ادب کی ایسی نمائندہ شاعرات میں ہوتا ہے جنہوں نے نسائی جذبات کو اتنے خوبصورت اور بے باک انداز میں قلم بند کیا ہے جو شاید کسی اور خاتون شاعرہ نے کیا ہو۔ کلام میں الفاظ اور جذبات کو جس خوبصورت اور انوکھے انداز میں باندھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔

خوشبو، خیالوں اور رنگوں کی بات کرنے والی شاعرہ کو کانٹوں سے بھی شناسائی تھی۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جہاں زیست کے پھول چنے وہاں کانٹوں کو بھی سمیٹا ۔

تمہارے شہر کی ہر چھاوں مہر بان تھی مگر

جہاں پہ دھوپ کڑی تھی وہاں شجر ہی نہ تھا (5)

پروین شاکر کی شاعری کے حوالے سے آفتاب احمد لکھتے ہیں :

“پروین شاکر کی شاعری میں دل کا معاملہ ہی نہیں کھلا ان کی ذاتی زندگی کے کئی ایک دوسرے معاملات بھی سامنے آئے۔ بلکہ یوں کہیے کہ وہ خود انہیں سامنے لائی ہیں ۔ اس لیے انہوں نے براہ راست ان کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ اس کی ایک وجہ شہرِ ذات سے گہری دلچسپی بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ کاروبارِ زیست میں ذات جِن الجھنوں میں گرفتار ہو گی وہ شاعری میں بھی راہ پائیں گی ” (6)

مشرقی روایات کی بات کی جائے تو براہ راست اظہار کو وہ مقام حاصل نہیں جو بات ڈھکے چھپے اور علامتی انداز میں بیان کرنے کو ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پردہ جس طرح نسوانی حسن کے لیے لازمی ہے وہی لحاظ اظہار ِجذبات میں بھی ملحوظ خاطر رکھنا کلام کو شائستگی سے نوازتا ہے ۔ ادب کا کوئی دور بھی ایسا نہیں ہے کہ علامتوں سے کام نہ لیا گیا ہو ۔ پروین شاکر نے انسانی خواہشات اَنا اور جدائی کے کرب کو براہ راست بیان کرنے کی بجائے علامتوں کا پیرایا تلاش کیا ۔ شاعری میں انہوں نے جہاں محبت کی بات کی وہاں دوسرے انسانی رویوں کو موضوع ِسخن بنایا ۔

عقب میں گہرا سمندر ہے سامنے جنگل

کس امتحاں  پہ میرا مہربان چھوڑ گیا  (7)

بے حسی غیروں کی بھی گوارا نہیں ہوتی اپنے تو پھر اپنے ہوتے ہیں ۔ اپنے پیاروں کی بے حِسی کے دروازے پر کچھ یوں دستک دیتی ہیں :

برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر

 اک عمر میرے کھیت تھے جس اَبر کو ترسے (8)

اسی طرح بہاروں ، پھو لوں ،تتلیوں اور خوشبووں کی بات کرنے والی با کمال شاعرہ کو جب سنگینیِ حالات نےڈسا تو ان کی شاعری میں سانپ نے علامت کا روپ اختیار کیا ۔ اس حوالے سے ان کی شاعری سے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے:

موجوں کے ساتھ سانپ بھی پھنکار نے لگے

جنگل کی دہشتیں بھی سمندر میں مل گئی   (9)

میں اتنے سانپوں کو رستے میں دیکھ آئی ہوں

 کہ تیرے شہر میں پہنچی تو کوئی ڈر ہی نہ تھا  (10)

شاخ در شاخ الجھتی ہیں لگے پیروں کی

سانپ سے دوستی جنگل میں نہ نہ بھٹکائے کہیں  (11)

بس تریاق نہ کھوج کے بیٹھ

 سانپ نِگل بھی جاتے ہیں  (12)

جگنوؤں کی شمعیں بھی راستے میں روشن ہیں

 سانپ ہی نہیں ہوتے رات کی گھپاوں میں  (13)

“موت” کا لفظ اُن کے ہاں علامتیت کے نئے معنی دے رہے ہیں ۔ خواہشات کے عمارتوں کا مسمار ہونا، امیدوں کے دروازے بند ہوتے دیکھنا،یقین کا بے یقینی میں دھندلا جانا، ایسی کیفیت ہے جو موت کی ترجمانی کرتی ہے۔ زندگی کے ساتھی جب اپنے رویے سے زندگی کے راستے میں کانٹوں کا باعث بنیں تو” اپنے” قاتل کا روپ دھار لیتے ہیں ۔

 اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں

 روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے   (14)

ادب بنیادی طور پر علامتی ہوتا ہے۔ جہاں الفاظ ایک معنوی انداز کی بجائے نئے امکانات روشن کر دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علامتی ادب سے ہما وقت نئی سے نئی معنی نکلتے ہیں ۔ ادب میں گہرائی علامتوں کی مرہون منت ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ بہت ساری علامتیں بھی اب ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ نیا علامتی نظام تشکیل پا رہا ہے ۔ اس کے مقابلے میں پرانی علامات وقت کی گرد تلے گُم ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ نئی نئی علامتیں فروغ پا رہی ہیں ۔

جدید لہجے اور نئی سوچ کی حامل شاعرہ کے ہاں جن نئی علامتوں کی رنگ بکھرے ہیں ان میں ایک علامت “برف” بھی ہے۔ انہوں نے “برف” کو نئے علامتی انداز میں پیش کرکے بِلا شبہ اپنی تخلیقی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے۔

ہاتھ بھی جھلسے بدن بھی بے اماں ہو کر رہا

چھوڑ کر مٹی بنایا جب گھروندہ برف کا   (15)

“دھوپ”،” ریت”، ” گلستان”،”قفس”،”سانپ”،”سورج”،”آندھی”،”اندھیرا”،”اجالا”،” شہر” اور “شجر” وغیرہ جیسی علامات ان کے ہاں کثرت سے استعمال کی گئی ہیں ۔ “رات” اور” سحر “بالترتیب جبر اور امید و امن کے معنوں میں استعمال میں لائے گئے ہیں ۔  یہ وہ تمام علامتیں ہیں کہ جن کو نئی علامتیں نہیں کہا جا سکتا۔ پروین شاکر کے ہاں قدیم اور جدید کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے ۔ ان کے ہاں اِن علامات کا استعمال اس انداز سے کیا گیا ہے جس کی بدولت اُن علامتوں  کے نئے مفاہیم پیدا ہو گئے ہیں ۔

صبا چلی ہے جس انداز سے گلستاں میں

 کسی کو لالہ کسی کو گلاب ہونا تھا      (16)

اچانک ریت سونا بن گئی ہے

 کہیں آگے سر اب آنے کو ہے پھر  (17)

صبا تو کیا مجھے دھوپ تک جگاہ نہ سکی

 کہاں کی نیند اتر آئی ہے ان آنکھوں میں  (18)

بد قسمتی سےطاقتور ہمیشہ سے ناتواں کا استحصال کرتا چلا آیا ہے ۔ یہ نہ صرف انسانوں  تک محدود ہے بلکہ کائنات کے پھیلے اس نظام میں چا ہے اس کا تعلق انسانوں سے ہو یا دوسری مخلوقات سے،طاقت، کمزوری کو شکست سے دوچار کرتا رہا ہے۔ عورت کو معاشرے میں صنفِ نازک قرار دے کرشاید یہی تصور ابھارنے کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ پروین شاکر کے ہاں بھی اسی توانائی اور ناتوانی کو علامتی انداز میں موضوعِ بحث بنایا گیا ہے ۔

عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے کی

جو گر گئی تو فقط نیم جان چھوڑ گیا   (19)

بھیڑیے مجھ کو کہاں پا سکتے

 اگر وہ میری حفاظت کرتا  (20)

دھوپ کی رت میں کوئی چھاؤں اُگاتا کیسے

شاخ پھوٹی تھی کہ ہمسایوں میں آرے نکلے (21)

پروین شاکر کے ہاں کئی قسم کی علامتیں مستعمل ہیں جن میں مذہبی ،اساطیری،تلمیحاتی،، دیومالائی ،لوک داستانیں  سے متعلق اورسیاسی علامتیں وغیرہ۔ ان علامتوں کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ غیر ضروری اور بے جا قسم کی تشریحات سے بچا لیتی ہیں ۔ نیز براہ راست بات کرنے کی بجائے اشاروں اور کنایوں کی صورت میں بات کی تکمیل ہو جاتی ہے۔

“اچھا شاعر کی خوبی یہ نہیں ہوتی کہ وہ کتنے نئے لفظ استعمال کرتا ہے۔ بلکہ یہ کہ علامت کے استعمال میں وہ کس حد تک تخلیقی رعنائی کو ثبوت مہیا کرتا ہے۔ بے جان لفظوں کی تجسیم کس طرح کرتا ہے اور اس تخلیقی کاوش میں  کتنےنئے حسی تلازمات کو جنم دیتا ہے ۔ ”  (22)

وہیں یہ علامتیں شاعری یا شعر کے حسن کو بھی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ جدید شاعری میں  علامتوں کے نئے انداز سامنے آئے ہیں ۔ یہاں پرندوں ، موسموں ، رنگوں کی علامتیں نیز فطرت کی عکاسی بھی بڑی عمدگی سے علامتی انداز میں کی گئی ہے۔ یہی انداز پروین شاکر کی شاعری میں  نمایاں طور پر نظر آتا ہے :

دریا پار یہ سوچ کہ چل

گھڑے بدل بھی جاتے ہیں  (23)

پروین شاکر نے عورت کے مسائل و مشکلات، خانگی الجھن ، محبت و عشق اور ازدواجی رشتہ کا ذکر جگہ جگہ انفرادیت کے ساتھ کیا ہے ۔ انہوں نے جن جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ضروری نہیں کی وہ سب ان کی زندگی کا حصہ رہے ہوں ۔ مگر بحیثیت ایک شاعرہ کے انہوں نے دوسروں کے کرب اور تکلیف کو محسوس کیا اور اس سے اتنا گہرا اثر لیا کہ ان کی زبان پر ان مسائل کا تذکرہ ہونے لگا ۔

پروین شاکر کے ہاں زیادہ تر نوجوان مخاطب ہیں ۔ ان کے موضوعات میں ویسے تو سیاست ،سماج ،معاشرت اور اس حوالے سے ہونے والی ناانصافی ونا ہمواری اور آمرانہ طاقت کے خلاف آواز سبھی شامل ہیں ۔ انہوں نے معاشرے کے کمزور طبقہ کے ساتھ طاقتوروں کے ناروا سلوک کو جگہ جگہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ وہ سماج میں مزدور اور غریب طبقہ کے لئے آواز بھی اٹھاتی ہیں کہ کس طرح ان کی محنت کے بل بوتے پر ہماری زندگیوں میں آسانیاں اور آسائشیں ہیں ، خاص کر ان کی “نثری نظمیں ” اس حوالے سےعمدہ مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں ۔

فصل بروقت نہ کٹتی جو سروں کی پروین

 آسمانوں نے زمینوں کو نگل جانا تھا   (24)

 “ہوا “مظاہر فطرت میں ایک اہم عنصر ہے ۔ جسے قدیم اور جدید شعرا نے بڑی خوبی سے اجاگر کیا ہے۔ کچھ شعرانے “ہوا “کو تشبیہ، استعارہ اور محاورہ میں استعمال کرنے کی کوشش بھی کی۔ “ہوا “کو اردو شاعری میں مختلف معنوں یا علامتی انداز میں استعمال کیا گیا ہے ۔ جس طرح” ہوا”کبھی زندگی کےجھونکے کی صورت تابناک ہے، تو کبھی “ہوا “صحرائی بگولہ یا طوفان ہے ۔ یعنی ” ہوا” کی تعمیری اور تخریبی دونوں قسم کے رویئے یا خصوصیات اردو شاعری میں ملتے ہیں ۔

“قدیم غزل گو شعرا نے اس کی خارجی خصوصیات کو گرفت میں لینے کی کامیاب کوشش کی۔ جدید شعرا نے” ہوا “کو ایک فعال علامت کے طور پر قبول کیا اور اس کے داخلی خواص پر زیادہ توجہ صرف کی” (25)

“ہَوا “کی علامت پروین شاکر کے ہاں ایک الگ پہچان لیے ہوئے ہے۔ اگرچہ یہ علامت ان سے پہلے بھی جدید شاعری میں بطور خاص مستعمل رہا ہے ۔ مگر انہوں نے اس علامت کو منفرد انداز سے اپنا ترجمان بنایا ہے۔

ہوا کے لائے ہوئے بیج پھر ہوا کو گئے

 کھِلے تھے پھول کچھ ایسے کہ جن میں ذر ہی نہ تھا  (26)

 براہِ روزن ِزنداں ہوا تو آتی تھی

 کھلی فضا میں گھٹن وہ ہے جو قفس میں نہیں   (27)

جدید شاعری میں “درخت” کی علامت کو عموما مضبوط سہارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اگر اس سلسلے میں مزید ایک قدم آگے جائیں تو “برگد” کے درخت کو لمبی عمر،ٹھنڈی چھاوں سے مربوط کیا جاتا ہے۔ ہےاس طرح” پیڑ”کو بھی ماں کے علامت کے طور استعمال میں لایا گیا ہے۔ زندگی کی کڑی دھوپ میں درخت یا چھاوں کی ضرورت بہرحال ہوتی ہے۔

یک لخت گِرا ہے تو جڑیں تک نکل آئیں

جس پیڑ کوآندھی میں بھی ہِلتے نہیں دیکھا  (28)

 مجموعی جائزہ

ویسے توحسن و عشق کی عکاسی ہر شاعر کے ہاں پائی جاتی ہے پروین شاکر نے بھی معاملات دل کے بیان میں انوکھا انداز اختیار کیا ہے۔ ان کی شاعری میں گہرا فلسفہ جو ہمیں اقبال غالب کے ہاں نظر آتا ہے، نہیں ہے مگر انسانی رویوں کو جزئیات کے ساتھ بیان میں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ اس حوالے سے اپنے ہم عصر شعرا ءمیں سب سے جدا نظر آتی ہیں ۔

حوالہ جات

1۔ پروین شاکر،” صد برگ”،غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079،   1981ء، ص ندارد

2۔ ایضاً

3۔ ایضاً

4۔ مرزا ادیب ،”اذکار و افکار”، مکتبہ میری لائبریری لاہور،1988 ء،ص365

5۔ پروین شاکر،” صد برگ”،غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079،  1981   ء،ص 22

6۔ آفتاب احمد،مشمولہ “معاصر “صدر دفتر معاصر25 سی لوئرمال لاہور، 1994ءص‏192

7۔ پروین شاکر،” صد برگ”،غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079، 1981ءص 26

8۔ ایضاً  ،ص108

9۔ پروین شاکر،”خوشبو” ،مراد پبلی کیشنز اسلام آباد2004 ،ص284

10۔ پروین شاکر،” صد برگ”، غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079،1981،ص22

11۔ پروین شاکر،”خوشبو” ،مراد پبلی کیشنز اسلام آباد2004 ءص 269

12۔ پروین شاکر،” صد برگ”، غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079، 1981،ص149

13۔ پروین شاکر ،”خوشبو “،مراد پبلی کیشنز اسلام آباد2004 ،ص 340

14۔ پروین شاکر،” صد برگ”، غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079، 1981ءص115

15۔ ایضاً،ص45

16۔ پروین شاکر،”انکار  ” مراد پبلی کیشنز اسلام آباد1990 ،ص18

17۔ پروین شاکر،” صد برگ” غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079، 1981،ص142

18۔ ایضاً،ص74

19۔ ایضاً،ص26

20۔ پروین شاکر ،”خودکلامی”،مراد پبلی کیشنز اسلام آباد1990ءص16

21۔ پروین شاکر،” صد برگ”، غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079، 1981ء،ص87

22۔ انور سدید،”مشمولہ علامت نگاری”،انتخاب جدید پریس لاہور  2005 ء،ص276

23۔ پروین شاکر،” صد برگ”، غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079، 1981ء،ص149

24۔ ایضاً،ص264

25۔ انور سدید،”مشمولہ علامت نگاری”،انتخاب جدید پریس لاہور ،2005 ء،ص296

26۔ پروین شاکر،” صد برگ”، غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079، 1981ء،ص23

27۔ پروین شاکر،” صد برگ”،غالب پبلیشرز پوسٹ بکس نمبر 4079، 1981ء،ص125

28۔ ایضاً،ص139

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.